"دحوالارض" کے نسخوں کے درمیان فرق

ویکی‌وحدت سے
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 18: سطر 18:


[[فخر رازی]] اس آیت کے ذیل میں مذکورہ دو قول پر ایک اور قول کو اضافہ کیا ہے۔ اس قول کے مطابق "دحو‌" سے مراد صرف زمین کا پھیلانا نہیں ہے بلکہ ابک ایسی پھیلاو ہے جس کے سبب زمین پودوں اور گھاس بھوس کے اگنے کے قابل ہونے کے معنی میں ہے اور یہ چیز صرف اور صرف آسمان کی خلقت کے بعد میسر ہو سکتا ہے۔ [[محمد بن باقر مجلسی]] نے زمین کی خلقت اور گسترش پر کئے جانے والے اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے روایات کو اس پر تطبیق کی ہے  <ref>بحار الانوار، ص۲۵–۲۱۶</ref> ۔
[[فخر رازی]] اس آیت کے ذیل میں مذکورہ دو قول پر ایک اور قول کو اضافہ کیا ہے۔ اس قول کے مطابق "دحو‌" سے مراد صرف زمین کا پھیلانا نہیں ہے بلکہ ابک ایسی پھیلاو ہے جس کے سبب زمین پودوں اور گھاس بھوس کے اگنے کے قابل ہونے کے معنی میں ہے اور یہ چیز صرف اور صرف آسمان کی خلقت کے بعد میسر ہو سکتا ہے۔ [[محمد بن باقر مجلسی]] نے زمین کی خلقت اور گسترش پر کئے جانے والے اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے روایات کو اس پر تطبیق کی ہے  <ref>بحار الانوار، ص۲۵–۲۱۶</ref> ۔
 
== اعمال ==
== حوالہ جات ==
== حوالہ جات ==
{{حوالہ جات}}
{{حوالہ جات}}
[[زمرہ: قمری مہینے]]
[[زمرہ: قمری مہینے]]
[[زمرہ: ذوالقعدہ]]
[[زمرہ: ذوالقعدہ]]

نسخہ بمطابق 10:28، 14 جون 2023ء

دحو الارض.jpg

دَحوُ الأرض، 25 ذوالقعدہ کی تاریخ زمین کا پانی سے باہر آنے کا دن ہے۔ بعض احادیث کے مطابق اس دن زمین کو پھیلایا گیا۔ بعض احادیث کے مطابق اس دن حضرت نوح کی کشتی کا کوہ جودی پر لنگر ڈالنا، حضرت ابراہیم اور حضرت عیسی کی ولادت اور حضرت آدم پر پہلی بار خدا کی رحمت کے نزول جیسے واقعات رونما ہوئے ہیں۔

اسلامی تعلیمات میں دحو الارض با فضیلت دنوں میں شمار ہوتا ہے جس میں مختلف عبادات کی سفارش ہوئی ہے من جملہ ان میں غسل کرنا، روزہ رکھنا اور نماز پڑھنا شامل ہیں۔

لغوی اور اصطلاحی معنی

دَحوالارض ایک قرآنی اور حدیثی اصطلاح ہے۔ دحو‌ کا مصدر پھیلانے، گسترش دینے اور کسی چیز کو اس کی جگہ سے ہٹا دینے کے معنی میں آتا ہے۔ اس طرح دحوالارض‌ کے معنی زمین کے پھیلانے اور اسے گسترش دینے کے ہیں۔

یہاں دحوالارض سے مراد زمین کی خشکی کا پانی کے اندر سے باہر آنا ہے۔ اسلامی منابع کے مطابق زمین ابتداء میں پانی کے اندر تھی اس کے بعد اس کی خشکی پانی سے باہر نکل آیا ہے۔ زمین کی پانی سے باہر آنے کی کیفیت اور اس کے آغاز کے دن کے سے متعلق منابق میں کوئی خاطر خواہ چیز نہیں ہے۔ مکہ کی پرانی تاریخ کے مطابق زمین کا پہلا حصہ جو پانی سے باہر آیا وہ مکہ اور خانہ کعبہ کی جگہ تھی۔ دحوالارض کی حقیقت اور اس سے متعلق روایات کی صحت و سقم کے حوالے سے شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں [1]۔

واقعات

احادیث اور فقہی منابع کے مطابق دحوالارض کی تاریخ 25ذوالقعدہ ہے جس دن روزہ رکھنا مستحب ہے۔ تاریخ قدیم میں آیا ہے کہ دحو الارض ایران میں رائج شمسی کیلنڈر کے ساتویں مہینہ یعنی مہرماہ میں واقع ہوا ہے۔ حادیث میں اس دن سے متعلق بعض انبیاء کے تاریخی واقعات مذکور ہیں۔ منجملہ ان واقعات میں: حضرت آدم(ع) پر خدا کی رحمت کا نزول، حضرت نوح کی کشتی کا کوہ جودی پر لنگرانداز ہونا، حضرت ابراہیم اور عیسی بن مریم کی ولادت وغیرہ ہیں [2]

دحوالارض قرآن کی

قرآن میں دحو کے مادے سے صرف مفرد مذکر غائبِ فعلِ ماضی کا صیغہ باب "فَعَلَ یفعُلُ" سے آیا ہے سورہ نازعات کی آیت نمبر 30 وَالْأَرْ‌ضَ بَعْدَ ذَٰلِكَ دَحَاهَا مفسرین نے اس آیت کے ذیل میں زمین کی خلقت اور آفرینش کے بارے میں بحث و گفتگو کی ہیں۔

قرآن کریم میں خود دحو الارض کی کیفیت اور اس کے زمان و مکان کے بارے میں کچھ نہیں کہا ہے۔ صرف مذکورہ آیت میں اس کے زمان کے حوالے سے اس کے بعد کی قید ہے جس سے کیا مراد ہے؟ اس بارے میں مفسرین کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔ طبری نے اس اختلاف کی طرف اشارہ کیا ہے اس کے مطابق بعض مفسرین نے بعد‌ کو اپنے اصلی معنی یعنی قبلکے ضد میں استعمال کیا ہے اور کہا ہے کہ زمین کی خلقت آسمان کی خلقت کے بعد ہے۔ جبکہ اس کے مقابلے میں ایک گروہ بعد ذلک‌ کو مع ذلک‌ کے معنی میں لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ زمین کی خلقت آسمان کی خلقت سے پہلے ہوئی ہے۔ طبری، ابن عباس سے منقول ایک روایت کو آیت کی ظاہر سے سازگار اور مناسب جانتے ہیں، اس روایت کے مطابق زمین کی خلقت (آفرینش) اور پھیلانے یا بچھانے کے درمیان فرق ہے ہے [3]

فخر رازی اس آیت کے ذیل میں مذکورہ دو قول پر ایک اور قول کو اضافہ کیا ہے۔ اس قول کے مطابق "دحو‌" سے مراد صرف زمین کا پھیلانا نہیں ہے بلکہ ابک ایسی پھیلاو ہے جس کے سبب زمین پودوں اور گھاس بھوس کے اگنے کے قابل ہونے کے معنی میں ہے اور یہ چیز صرف اور صرف آسمان کی خلقت کے بعد میسر ہو سکتا ہے۔ محمد بن باقر مجلسی نے زمین کی خلقت اور گسترش پر کئے جانے والے اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے روایات کو اس پر تطبیق کی ہے [4] ۔

اعمال

حوالہ جات

  1. فاکہی، أخبار مكہ فى قديم الدہر و حديثہ، ج‏۲، ص۲۹۵؛ کرمی، احسن التقاسیم، ج۱، ص۹۹؛ قزوينى، آثار البلاد و اخبار العباد، ص۱۱۴
  2. ابن بابویہ، ۱۳۶۸ش، ص۷۹؛ همو، ۱۴۰۴
  3. طبری ج۱، ص۲۳
  4. بحار الانوار، ص۲۵–۲۱۶