مندرجات کا رخ کریں

"مجلس خبرگان قانون اساسی" کے نسخوں کے درمیان فرق

ویکی‌وحدت سے
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 144: سطر 144:
"حوادثِ واقعه سے مراد یہی سیاسی مسائل ہیں جو قوموں کے سامنے آتے ہیں، اور ان میں فقہا کی طرف رجوع ضروری ہے۔"
"حوادثِ واقعه سے مراد یہی سیاسی مسائل ہیں جو قوموں کے سامنے آتے ہیں، اور ان میں فقہا کی طرف رجوع ضروری ہے۔"


سنہ ۱۳۵۸ھ ش میں ماہِ رمضان کی آمد سے قبل امام نے علما اور روحانیوں کو خبردار کیا کہ وہ غیر اہم مسائل میں وقت ضائع نہ کریں، کیونکہ اس وقت سب سے اہم مسئلہ **آئین کی منظوری** ہے، جس کی دشمن تاخیر چاہتے ہیں۔
سنہ ۱۳۵۸ھ ش میں ماہِ رمضان کی آمد سے قبل امام نے علما اور روحانیوں کو خبردار کیا کہ وہ غیر اہم مسائل میں وقت ضائع نہ کریں، کیونکہ اس وقت سب سے اہم مسئلہ آئین کی منظوری ہے، جس کی دشمن تاخیر چاہتے ہیں۔
انہوں نے علما کو تاکید کی کہ وہ عوام کو مجلسِ خبرگان کے انتخابات میں بھرپور شرکت اور اسلامی و قابل اعتماد نمائندوں کے انتخاب کی دعوت دیں۔
انہوں نے علما کو تاکید کی کہ وہ عوام کو مجلسِ خبرگان کے انتخابات میں بھرپور شرکت اور اسلامی و قابل اعتماد نمائندوں کے انتخاب کی دعوت دیں۔
بالکل، یہاں پورے فراہم کردہ متن کا **درست، بامحاورہ اور معیاری اُردو ترجمہ** پیش کیا جا رہا ہے:
---
## **مجلسِ خبرگان کے ارکان کی تعداد**
شورائے انقلاب کے ارکان کا یہ خیال تھا کہ ہر ایک ملین (دس لاکھ) افراد اپنا ایک نمائندہ منتخب کریں، جن کی مجموعی تعداد تقریباً تیس چند بنتی تھی۔ لیکن ایک رکن نے یہ تجویز پیش کی:
**"اگر ہر صوبہ یا ہر ایک ملین افراد ایک نمائندہ منتخب کریں تو یہ خطرہ ہے کہ خاص افراد ہی منتخب ہوں گے، کیونکہ صوبوں میں سب سے معروف افراد علما ہیں۔ اس طرح پوری مجلس صرف علما پر مشتمل ہو جائے گی اور بلاوجہ شور و غوغا برپا ہوگا، اگرچہ یہ اعتراض بجا نہیں۔ اگر ہر پانچ لاکھ افراد ایک نمائندہ منتخب کریں تو عوام کے پاس زیادہ انتخاب کا موقع ہوگا اور مجلس بھی متنوع شکل اختیار کرے گی۔"**
یہ تجویز شورائے انقلاب نے منظور کر لی، اور طے ہوا کہ ہر صوبے سے چند نمائندے منتخب ہوں، اور مجموعی تعداد **ستر سے کچھ زیادہ** ہو۔
امام خمینیؒ نے اس مرحلے پر بھی اس بات پر زور دیا کہ اس مجلس میں علما اور اسلام شناس افراد کی موجودگی ضروری ہے۔ انہوں نے ائمہ کے اس حکم کی یاد دہانی کرائی کہ **"حوادثِ واقعه میں فقہا کی طرف رجوع کیا جائے"** اور روشن خیالوں کو نصیحت کی کہ:
**"اسلام اور مسلمانوں کے لیے بھی کچھ حق تسلیم کیجیے۔"**
ساتھ ہی فرمایا کہ:
**"اسلام کے ماہرین کو آئین کا جائزہ لینا چاہیے، نہ کہ مغربی قانون دانوں کو۔"**
امام نے کئی بار علما اور عوام کے دیگر طبقات کو پیش نویس آئین کے مطالعے اور اصولوں پر اظہارِ رائے کی دعوت دی۔
انہوں نے مخالفین کے اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے موجودہ طریقہ کار کو دنیا میں بے نظیر قرار دیا، کیونکہ:
1. پہلے مرحلے میں عوام کے منتخب نمائندے مختلف طبقات کی آرا کی روشنی میں آئین پر بحث و بررسی کریں گے؛
2. پھر ان ہی نمائندوں کا تیار کردہ قانون دوبارہ **ریفرنڈم** کے ذریعے عوام کے سامنے رکھا جائے گا۔
امام کے مطابق دنیا میں اس سے بڑھ کر کوئی جمہوریت نہیں۔
دنیا میں یا تو آئین **مجلسِ مؤسّسان** تیار کرتی ہے،
یا حکومت و پارلیمنٹ کے ایک گروہ کی جانب سے تیار ہونے والا مسودہ عوامی رائے کے لیے پیش کیا جاتا ہے؛
جیسے **فرانس کی پانچویں جمہوریہ** میں ہوا۔
اسی طرح **امریکہ** میں ۱۲ ریاستوں کے ۵۵ نمائندے فلاڈیلفیا میں جمع ہوئے۔ پہلے اجلاس میں جارج واشنگٹن کو صدرِ اجلاس منتخب کیا گیا۔ تمام مذاکرات خفیہ رکھے گئے تاکہ ارکان آزادی سے گفتگو کریں۔ متعدد مراحل کے بعد ۱۷۸۹ء میں آئین ریاستوں نے منظور کیا اور اسے نافذ کر دیا گیا۔
---
## **شرائطِ خبرگان**
حضرت امامؒ نے بارہا علما اور متعہد قانون دانوں سے کہا کہ آئین کی بہترین تدوین کے لیے کوشش کریں، اور عوام کو اہل، باصلاحیت اور دیانتدار افراد کے انتخاب کی دعوت دیں۔
امام کے بیانات سے جو خصوصیات ارکانِ مجلسِ خبرگان کے لیے سامنے آتی ہیں، وہ یہ ہیں:
* متدیّن
* زمانے کے حالات سے باخبر
* علم رکھنے والے
* متعہد اور باکردار
* اسلام شناس
* اسلام کے سو فیصد معتقد
* اس کے قائل کہ اسلام ایک ترقی بخش مکتب ہے، معاشرے اور اقتصاد کو سنبھال سکتا ہے
* اسلامی تحریک کے حامی
* وطن دوست
* امین
* راست رو اور اہلِ کردار
* رائے، فکر اور روح کے لحاظ سے مستقل
* عوام میں پہچانے ہوئے افراد
امام نے عوام کو اس بات سے بھی خبردار کیا کہ وہ ایسے لوگوں کو منتخب نہ کریں جو:
* مشرق و مغرب کے وابستہ ہوں
* جن سے خیانت کا امکان ہو
* سازشی ہوں
* اسلام کو ۱۴۰۰ سال پرانا اور آج کے دور کے لیے غیر مناسب سمجھتے ہوں
* مغربی طرزِ فکر رکھنے والے قانون دان ہوں
امام کا استدلال یہ تھا کہ:
"عوام نے اسلام کی خاطر قربانیاں دیں، اسلامی جمہوریہ کا مطالبہ کیا؛ لہٰذا آئین بھی انہی لوگوں کو بنانا چاہیے جو اسلام کو سمجھتے ہوں۔"
انہوں نے مزید فرمایا:
"حوادثِ واقعه یہی سیاسی واقعات ہیں جو قوموں کے لیے پیش آتے ہیں، اور ان میں فقہا کی طرف رجوع ضروری ہے۔"
رمضان ۱۳۵۸ھ ش کی آمد پر امام نے علما کو غیر ضروری مسائل میں وقت ضائع کرنے سے روکا اور یاد دلایا کہ سب سے اہم مسئلہ آئین کی منظوری ہے، جسے دشمن تاخیر کا شکار کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے علما کو تاکید کی کہ وہ عوام کو مجلسِ خبرگان کے انتخابات میں بھرپور شرکت اور قابلِ اعتماد اسلام شناس افراد کے انتخاب کی دعوت دیں۔
== انتخاباتِ مجلسِ خبرگان اور گروہوں کی بہانہ تراشی ==
وہ احزاب، گروہ اور تنظیمیں جو مجلسِ خبرگان میں داخل ہونے سے مایوس تھیں، مختلف شبہات پھیلانے لگیں جو زیادہ تر "بہانے" کے مترادف تھے، اور اسی ذریعے مجلسِ خبرگان کی مشروعیت پر سوال کھڑا کرنے کی کوشش کی۔
پحزبِ خلقِ مسلمان نے انتخابات کو مؤخر کرنے کا مطالبہ کیا۔
چریک‌های فدایی خلق نے ایک بیان میں کہا کہ وہ انتخابات میں صرف "رژیم اور مجلسِ فرمایشی کے خلاف افشاگری" کے لیے حصہ لے رہے ہیں۔
زیادہ تر مارکسسٹ گروہوں نے انتخابات کی مخالفت کی۔
پیش کیے جانے والے بہانوں میں سے چند یہ تھے:
* ارکانِ شورائے انقلاب اور حکومتِ موقت کو مجلسِ خبرگان کا امیدوار نہیں بننا چاہیے۔
* جواب:شورائے انقلاب کے ارکان کا امیدوار بننا غیر منطقی نہیں۔ البتہ انتخابات کے مجریان کے لیے امیدوار بننا درست نہیں اور قانوناً بھی ان کو اجازت نہیں۔
* چونکہ مجلسِ خبرگان کے ارکان کم ہیں، لہٰذا وہ تمام عوام کے افکار کی نمائندگی نہیں کر سکتے۔
*جواب: یہ صحیح ہے کہ وہ گروہ جن کے حامی کسی صوبے میں پانچ لاکھ سے کم ہوں وہ نمایاں ووٹ نہیں لے سکتے، لیکن ارکان کی کم تعداد کا یہ مطلب نہیں کہ وہ عوام کے نمائندے نہیں۔
علما کی طرف سے امیدواروں کا تعارف عوام پر فتوائی دباؤ ڈالتا ہے اور انہیں مخصوص افراد کے انتخاب پر مجبور کرتا ہے۔
یہ شبہ اس لیے اُٹھایا گیا کہ علما کے متعارف کردہ امیدوار عوام میں زیادہ مقبول تھے، جیسے:حضرات سید حسن طباطبائی قمی اور سید عبداللہ شیرازی نے خراسان کے لیے سات امیدوار پیش کیے، جن میں سے چار منتخب ہو گئے۔
* جواب:امیدواروں کا تعارف ہر فرد، گروہ یا جماعت کا حق ہے۔
* یہ تعارف ارشادی ہوتا ہے، فتوائی نہیں، اور یہاں فتویٰ دینے کا مقام ہی نہیں۔
* ہر صوبے کے چند نمائندے کافی نہیں، ہر گروہ کا الگ نمائندہ ہونا چاہیے۔
* جواب:یہ منطقی نہیں کہ ہر گروہ—even اگر اس کے صرف پانچ افراد ہوں—اپنا نمائندہ مانگے۔
* مجلسِ خبرگان عوام کے نمائندوں کی مجلس ہے، گروہوں کی نہیں۔
* مجلسِ خبرگان میں کسی خاص طبقے کا اجتماع ہے اور دیگر طبقات نمائندہ نہیں رکھتے، یہ آزادی کے خلاف ہے۔
* جواب:عوام کا روحانیوں کو ووٹ دینا آزادی کے خلاف نہیں، کیونکہ انہیں بھی دوسرے امیدواروں کے برابر مواقع حاصل تھے۔
انتخابات کے بعد وہ احزاب و گروہ جن کے امیدوار کامیاب نہ ہوئے، "انتخابی دھاندلی" کے الزامات لگانے لگے اور خلاف ورزیوں کی تحقیقات کا مطالبہ کرنے لگے۔
مختلف فکری اور عقیدتی رجحانات، خواہ بائیں بازو ہوں یا دائیں، مذہبی ہوں یا لیبرل، مشرق پسند ہوں یا مغرب پسند—سبھی مجلسِ خبرگان میں داخل ہونے کے لیے سرگرم تھے۔ چند گروہ جو مجلسِ مؤسّسان کی عدم تشکیل کا بہانہ بنا کر انتخابات کا بائیکاٹ کر گئے، اُن کے سوا اکثر گروہوں نے انتخابات میں حصہ لیا اور امیدوار نامزد کیے۔
کسی طرح کی کوئی پابندی نہ امیدوار بننے پر تھی نہ ووٹ دینے پر۔

نسخہ بمطابق 16:23، 3 دسمبر 2025ء

مجلس خبرگان قانون اساسی
بانی پارٹی
پارٹی رہنماسی
مقاصد و مبانی
  • قانون سازی

مجلسِ خبرگانِ قانونِ اساسی مجلسِ بررسیِ نهاییِ قانونِ اساسیِ جمهوریِ اسلامیٔ ایران — جسے اختصاراً "مجلسِ خبرگانِ قانونِ اساسی" کہا جاتا ہے — نئی قائم شدہ اسلامی جمہوریۂ ایران کی پہلی مجلس تھی جس پر اس نظام کے قانونِ اساسی (آئین) کی تدوین اور تصویب کی ذمہ داری عائد تھی۔

تاریخی پس منظر

قانونِ اساسی کی تدوین اپنی موجودہ شکل میں یورپ کی اٹھارویں صدی کی تبدیلیوں سے مربوط ہے۔ انقلابِ کبیرِ فرانس کے بعد 1791ء میں پہلا قانونِ اساسی مرتب کیا گیا، جس میں بعد ازاں متعدد تبدیلیاں کی گئیں۔ یہی قانون دنیا کے دیگر ممالک میں مختلف آئینوں کی تدوین کا نقطۂ آغاز ثابت ہوا۔ آئین سازی کا سب سے اہم مقصد اُن بادشاہوں اور سلاطین کی طاقت کو محدود کرنا تھا جو معاشرے کے نظم و نسق میں کسی ضابطے یا قانون کے پابند نہ تھے۔ اگرچہ بعض ممالک میں اس سے قبل بھی حکمران طبقہ چند غیر مدوّن ضابطوں کا پابند تھا۔

لیکن تحریری آئین کے فوائد کے باعث مختلف ریاستوں نے سماجی تعلقات کے نظم اور صاحبانِ اقتدار کی طاقت کو محدود کرنے کے لیے آئین سازی اختیار کی۔ ممالک کی آزادی، انقلاب یا فوجی بغاوت جیسے واقعات بھی آئین کی تدوین یا اس میں تبدیلی کے اہم عوامل شمار ہوتے ہیں۔

ایران اُن اولین ایشیائی ممالک میں شامل ہے جنہوں نے انقلابِ مشروطہ (1906ء/1285ھ ش) کے بعد آئین مرتب کیا۔ اُس وقت حتیٰ کہ یورپ کے بعض ممالک بھی آئین سے محروم تھے۔ انقلابِ مشروطہ اور مجلسِ شورای ملی کے قیام کے بعد 1285ھ ش میں پہلا آئین تیار ہوا، جو چند افراد پر مشتمل ایک کمیٹی نے بلجیم اور فرانس کے آئین سے استفادہ کرتے ہوئے پانچ ابواب اور 51 اصولوں پر مرتب کیا تھا۔ اس میں بنیادی اور عادی مواد ایک ساتھ شامل تھا۔ تاہم اس کی بعض کمزوریوں کے باعث علما اور عوامی نمائندوں پر مشتمل ایک خصوصی ہئیئت مقرر کی گئی تاکہ آئین کی تکمیل کی جائے۔

اس کے نتیجے میں متمم قانونِ اساسی دس ابواب اور 107 اصولوں پر مشتمل تیار ہوا جو مشروطہ خواہانِ مغرب گرا کی مخالفت کے باوجود 1286ھ ش میں مجلس سے منظور ہوا۔ متمم آئین کا سب سے اہم محلِّ اختلاف اس کا اصلِ دوم تھا، جس کے مطابق:"مجتهدین اور فقہا پر مشتمل ایک ہئیئت مجلس کی مصوبات کا جائزہ لے گی تاکہ قوانینِ اسلامی کے مخالف امور کو قانون بننے سے روکا جا سکے، اور یہ اصل ظہورِ حضرت حجت (عج) تک غیر قابلِ تغیّر ہوگا۔"

تاریخِ مشروطہ میں یہ ہئیئت کبھی تشکیل نہ پائی اور مشروطہ سلطنت میں قانون گذاری اور اجرا کا عمل علما کی کسی نگرانی کے بغیر جاری رہا۔ بالآخر رضاخان پہلوی کی جانب سے آئین میں مداخلت کے نتیجے میں ایک استبدادی سلطنت ملک پر مسلط ہوگئی۔ 1304ھ ش میں، آئین کی تدوین کے بیس برس بعد، مجلسِ مؤسسان تشکیل دی گئی تاکہ قاجاری سلطنت کے خاتمے اور پہلوی سلطنت کے قیام کا اعلان کیا جائے۔

مجلسِ مؤسسان نے ایک مادہٴ واحدہ منظور کیا جس کے مطابق متمم آئین کی اصول 36، 37 اور 38 منسوخ کر کے ان کی جگہ نئے اصول نافذ کیے گئے۔ اصل 36 کے مطابق: "ایران کی مشروطہ سلطنت ملت کی جانب سے مجلسِ مؤسسان کے ذریعے اعلیحضرت شاہنشاہ رضا شاہ پہلوی کو تفویض کی جاتی ہے، اور یہ سلسلہ ان کی نسلِ ذکور میں پشت در پشت جاری رہے گا۔"

یوں خاندانِ قاجار کو عملاً اقتدار سے بے دخل کر دیا گیا۔ اس دور میں آئینِ مشروطہ متعدد تبدیلیوں کا شکار ہوا۔ 1328ھ ش میں دوبارہ مجلسِ مؤسسان تشکیل دی گئی اور شاہ کو مجلسِ شورای ملی اور مجلسِ سنا کو تحلیل کرنے کا اختیار دے دیا گیا۔ آئین میں تبدیلی کا طریقہ کار بھی مقرر کیا گیا، جس کے مطابق مجلسِ مؤسسان کی مصوبات کو شاہ کی توثیق کے بعد قانونی حیثیت حاصل ہوگی۔

بعد ازاں 1346ھ ش میں ایک مرتبہ پھر مجلسِ مؤسسان تشکیل دی گئی تاکہ اصول 38 میں ترمیم کی جائے۔ اس ترمیم کے تحت ولیعہد کی والدہ کو "نائب السلطنت" کا خطاب دیا گیا، الاّ یہ کہ شاہ کسی اور شخص کو نائب السلطنت مقرر کریں۔ مزید برآں اصول 41 اور 42 میں بھی تبدیلی کی گئی اور شاہ کی غیر حاضری یا سفر کی حالت میں "شورای سلطنتی" کی تشکیل کو قانونی حیثیت دی گئی۔ بالکل، ذیل میں متن کا **دقیق اور وفادار اردو ترجمہ** پیش کیا جا رہا ہے:

اسلامی انقلاب اور اسلامی جمہوریہ کا قیام

ایران کے اسلامی انقلاب کے عروج اور نظامِ شاہنشاہی کے ارکان میں زوال پیدا ہونے کے ساتھ، اور امام خمینیؒ کی جانب سے نظامِ سلطنت اور آئینِ مشروطہ کے دائرے میں رہ کر اصلاحات کی امید کے ختم ہونے کے بعد، سیاسی نظام کی تبدیلی ایجنڈے میں شامل ہو گئی۔ انقلاب کی کامیابی سے چند ماہ قبل ہی انہوں نے اپنے اس ہدف کو علنی کر دیا کہ وہ نظامِ سلطنت کو برچھیند کر ایک اسلامی حکومت اور بالآخر اسلامی جمہوریہ قائم کریں گے، جو حکومت کی شکل بھی ظاہر کرتی ہو اور اس کا مضمون بھی۔

وہ آئینِ مشروطہ کے لیے دو مرحلے کے قائل تھے:پہلا مرحلہ رضاخان کے کودتا سے پہلے کا تھا، جب عوام اسلامی حکومت کے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کی قدرت نہ رکھنے کے باعث قاجاری استبداد و ظلم میں کمی لانے کی نیت سے اس پر آمادہ ہوئے کہ ایسے قوانین وضع کیے جائیں کہ سلطنت مشروطہ بن جائے۔ ان کے نزدیک تمام مباحث کو متممِ قانونِ اساسی کی طرف نسبت دی جا سکتی ہے۔ دوسرا مرحلہ رضاخان کے کودتا کے بعد کا تھا، جب اس نے طاقت، سرنیزے اور جبری اقدامات کے ذریعے آئین کو تبدیل کیا اور ایک مجلسِ مؤسسان زور و جبر سے بنائی، جبکہ ملت کسی بھی طرح اس کی حامی نہ تھی۔

اس بنا پر امام کے نزدیک سلطنتِ پہلوی جو انگریزوں کی جانب سے ایران پر مسلط کی گئی، غیر قانونی تھی۔ حضرتِ امام نے حکومتِ نظامیِ ازہاری کے اس حربے کے جواب میں کہ وہ آئینِ اساسی کو شریعتِ اسلام سے ہم آہنگ اور "تعدیل" کرنا چاہتی ہے، فرمایا: "اگر یہ سچ کہتے ہیں تو سب سے پہلی چیز جو آئینِ اساسی میں اسلام کے خلاف ہے، وہ شاہ کی سلطنت اور اصلِ نظامِ سلطنت ہے۔"

اس مرحلے میں رہبرِ انقلاب نے آئینِ اساسی کو مجموعی طور پر رد نہیں کیا بلکہ فرمایا: "ہم دیکھیں گے، اس کا جو حصہ قانونِ اسلام سے موافق ہوگا اسے باقی رکھیں گے، اور جو حصہ قانونِ اسلام سے مخالف ہوگا اسے ختم کر دیں گے۔"

ان کا مقصد آئین میں اصلاح کر کے اسلامی جمہوریہ کے نظام کا قیام تھا۔ اس موقع پر بعض سیاسی جماعتوں اور چند سادہ لوح مذہبی شخصیات یا نظامِ پہلوی سے وابستہ عناصر نے اپنا نعرہ یہ رکھا کہ "نظامِ سلطنت اور آئینِ مشروطہ کے دائرے میں اصلاحات" جاری رکھی جائیں، اور تحریک اسی دائرے میں آگے بڑھے۔ رژیم کے حامیوں نے بھی اپنی بقا کے لیے ۵ بہمن ۱۳۵۷ کو "طرفدارانِ قانونِ اساسی" کے عنوان سے ایک اعلامیہ جاری کیا، جس میں اعلان کیا کہ وہ آئینِ اساسی اور نظامِ سلطنت کے دفاع میں مظاہرے کریں گے۔

امام خمینیؒ، جو ملت کی حتمی کامیابی کے بارے میں پُرامید تھے اور اس موقع کو تبدیلیٔ نظام کے لیے مناسب سمجھتے تھے، اس نعرے کو انقلاب اور ملت کی راہ سے انحراف قرار دیتے ہوئے رد کر دیا۔ انہوں نے اسے بعض سیاسی جماعتوں جیسے جبههٔ ملی ایران، نهضتِ آزادی ایران، اور چند سادہ لوح علما کی طرف سے پیش کی گئی تجویز قرار دیتے ہوئے اسے خیانت سے تعبیر کیا، کیونکہ یہ اقدام ملت کو دلسرد کرتا، تحریک کو موقوف کر دیتا اور اسے ادھورا چھوڑ دیتا۔

اس سے نظامِ استبدادیِ پهلوی کے سرکردہ عناصر کو دوبارہ موقع مل جاتا کہ وہ انقلاب سے بچ نکلیں، اپنی طاقت بحال کریں اور انقلابی قوتوں کو کچل ڈالیں۔ بعد کے مراحل میں امام نے نئے آئین کی تدوین کو ضروری قرار دیا اور ۱۸/۱۰/۵۸ کو ایک انگریز صحافی کے سوال کے جواب میں فرمایا: "ہم اس وقت ایک نیا آئین تیار کر رہے ہیں۔"

چند دن بعد انہوں نے اسلامی جمہوری حکومت کے قانونِ اساسی کے بنیادی خطوط قرآن و سنت میں بیان شدہ "اصولِ مسلمِ اسلام" کو قرار دیا۔ اس طرح سب پر واضح ہو گیا کہ رہبرِ انقلاب اسلامی ایک نئے نظام کے قیام کے درپے ہیں، جس کا قانونِ اساسی بھی نیا ہوگا اور اس کے بنیادی خطوط اسلامی اصولوں پر مبنی ہوں گے۔ دو دن بعد، یعنی ۲۵/۱۰/۵۷ کو، انہوں نے "شورایِ انقلاب" کے قیام کا مقصد ایک عارضی حکومت کا قیام بیان کیا، تاکہ مجلسِ مؤسسان تشکیل دے کر نیا قانونِ اساسی اور دیگر امور کو طے کیا جا سکے۔ یہ رہا آپ کے فراہم کردہ فارسی متن کا درست اور رواں اردو ترجمہ:

اسلامی انقلاب اور اسلامی جمہوریہ کا قیام

جب ایران میں اسلامی انقلاب اپنے عروج پر پہنچا اور شاہی نظام کے ستون متزلزل ہو گئے، اور امام خمینی نے بھی سلطنتی نظام اور آئینِ مشروطہ کی چارچوب میں اصلاح کی امید چھوڑ دی، تو نظامِ سیاسی کی تبدیلی ایجنڈے میں شامل ہوگئی۔ انقلاب کی کامیابی سے چند ماہ پہلے ہی انہوں نے اپنے اس ہدف کا اعلان کر دیا تھا کہ سلطنتی نظام کو ختم کرکے اسلامی حکومت اور بالآخر "اسلامی جمہوریہ" قائم کی جائے، جو حکومت کی شکل اور اس کے مواد دونوں کی نمائندگی کرتا ہے۔

امام خمینی آئینِ مشروطہ کے دو ادوار کے قائل تھے: پہلا دور رضا خان کے کودتا سے پہلے کا، جب عوام اسلامی حکومت کے نفاذ پر قادر نہ ہونے کی وجہ سے ظلم و استبدادِ قاجار کو کم کرنے کی خاطر اس پر راضی ہوئے کہ ایسے قوانین وضع کیے جائیں جن کی رو سے سلطنت، سلطنتِ مشروطہ بن جائے۔ ان کا ماننا تھا کہ تمام مسائل کا حوالہ آئینِ مشروطہ کے متمم میں موجود ہے۔ دوسرا دور رضا خان کے کودتا کے بعد کا ہے، جب اس نے بندوق کی طاقت، جبر اور دھونس سے آئین میں تبدیلی کی اور ایک مجلس مؤسسان زبردستی قائم کی، جس سے ملت کسی طور متفق نہیں تھی۔ اس وجہ سے امام کے نزدیک وہ پہلوی سلطنت، جو انگریزوں کی مدد سے ایران پر مسلط کی گئی، غیر قانونی تھی۔

جب حکومتِ نظامی ازہاری نے یہ چال چلتے ہوئے اعلان کیا کہ وہ آئین کو شریعتِ اسلام کے مطابق "تعدیل" کرنا چاہتی ہے، تو امام خمینی نے فرمایا: "اگر یہ سچ کہتے ہیں، تو آئین میں سب سے پہلی چیز جو اسلام کے خلاف ہے وہ شاہ کی سلطنت اور اصلِ نظامِ سلطنت ہے۔"

اس مرحلے پر امام نے آئین کو کلی طور پر رد نہیں کیا اور فرمایا: "ہم دیکھیں گے، اس کا جو حصہ قانونِ اسلام کے موافق ہوگا اسے برقرار رکھیں گے، اور جو حصہ مخالف ہوگا اسے حذف کر دیں گے۔"

ان کا مقصد آئین کی اصلاح کے ذریعے اسلامی جمہوریہ کے نظام کے لیے راہ ہموار کرنا تھا۔ اس دوران کچھ سیاسی جماعتوں اور چند سادہ لوح مذہبی شخصیات یا حکومت سے وابستہ افراد نے "نظامِ سلطنت اور آئینِ مشروطہ کے دائرے میں اصلاح" کا نعرہ لگایا اور چاہتے تھے کہ جدوجہد اسی دائرے میں جاری رہے۔ شاہی حکومت کے حمایتیوں نے بھی خود کو بچانے کے لیے 5 بہمن 1357 کو "طرفدارانِ قانون اساسی" کے نام سے ایک اعلامیہ جاری کرکے اعلان کیا کہ وہ آئین اور نظامِ سلطنت کے دفاع کے لیے مظاہرہ کریں گے۔

امام خمینی، جو ملت کی آخری کامیابی کے بارے میں یقین رکھتے تھے اور موجودہ موقع کو تبدیلیِ نظام کے لیے مناسب سمجھتے تھے، اس نعرے کو انقلاب اور عوام کی راہ سے انحراف قرار دیتے تھے۔ انہوں نے اس تجویز کو—جو بعض سیاسی جماعتوں جیسے جبهۂ ملی ایران، نهضتِ آزادیِ ایران، اور چند سادہ لوح علماء کی طرف سے پیش کی گئی تھی—رد کر دیا اور اسے انقلاب کے عروج کے وقت "خیانت" قرار دیا، کیونکہ اس سے عوام کی ہمت پست ہوتی، تحریک رک جاتی، اور یہ ادھوری رہ جاتی؛ اور اس طرح استبدادی پہلوی نظام کے سردمداروں کو دوبارہ طاقت جمع کرنے کا موقع مل جاتا تاکہ وہ عوامی انقلاب کو کچل دیں۔

بعد کے مراحل میں جب انہوں نے نئے آئین کی تدوین کو ضروری قرار دیا، تو 18/10/58 کو ایک برطانوی صحافی کے سوال کے جواب میں فرمایا: "ہم اس وقت ایک نیا آئین تیار کرنے میں مصروف ہیں۔"

چند دن بعد انہوں نے اسلامی جمہوری حکومت کے آئین کی بنیادی خطوط کو "اسلام کے مسلم اصول" قرار دیا، جو قرآن و سنت سے ماخوذ ہیں۔ اس طرح سب پر واضح ہوگیا کہ رہبرِ انقلاب ایک نئے نظام کے قیام کے لیے نیا آئین بنانے کے درپے ہیں، جس کی بنیاد "اسلام کے مسلم اصول" ہیں۔ دو دن بعد، یعنی 25/10/57 کو، انہوں نے "شورایِ انقلاب" کے قیام کا مقصد ایک عارضی حکومت کی تشکیل بتایا، تاکہ مجلسِ مؤسسان قائم کرکے نیا آئین منظور کیا جائے اور دوسرے امور انجام دیے جائیں۔

آئین ساز مجلس (مجلسِ تدوین قانونِ اساسی)

اس مرحلے کے بعد حضرت امام نے متعدد بار اسلامی جمہوریہ کے نئے آئین کی منظوری کے لیے مجلسِ مؤسسان کے قیام کی ضرورت کا ذکر کیا۔ حتیٰ کہ جب انہوں نے مہدی بازرگان کو وزارتِ عظمیٰ کا حکم دیا تو اس میں بھی مؤسسان کے قیام کو اس حکومت کی ذمہ داریوں میں شمار کیا۔

مختلف سیاسی جماعتوں اور گروہوں کی سرگرمیاں — جو اکثر یا تو مغرب سے وابستہ تھیں یا مشرق سے — اور اہم مسائل کا اٹھایا جانا جیسے کہ *’’دین اور سیاست کی جدائی کی ضرورت‘‘*، مارکسسٹ ممالک کی طرح "جمہوری خلق حکومت" کا مطالبہ، مغربی ملکوں کی طرز پر ’’جمہوری جمہوریت‘‘، ’’اسلامی جمہوریہ کے ریفرنڈم کا بائیکاٹ‘‘، ’’اسلام کا ماضی سے تعلق اور آج کی دنیا میں اسلامی قوانین کی عدم کارکردگی‘‘ کی سرگوشیاں، اور ملک کے بعض علاقوں میں ’’خودمختاری‘‘ کی آوازیں — ان سب نے رہبرِ انقلاب کو اس نتیجے تک پہنچایا کہ ملک کا مستقبل خطرے میں ہے۔

اندرونی اور بیرونی دشمنوں کی سازشیں اس حد تک بڑھ گئیں کہ امام نے پہلے سے زیادہ اس ضرورت کو محسوس کیا کہ نظام کو مستحکم کرنے کے لیے قانونی ادارے قائم کیے جائیں اور صدارتی و پارلیمانی انتخابات منعقد ہوں۔ اس دوران امام کا خیال تھا کہ قانونِ اساسی کا وہ ابتدائی مسودہ جو ماہرینِ قانون کے ایک گروہ نے تیار کیا ہے، اسے قم کے علما کے سامنے رائے کے لیے بھیجا جائے، اور اصلاح کے بعد اسے عوامی رائے کے لیے پیش کیا جائے۔

شورائے انقلاب کے اجلاسوں میں — اور خصوصاً اس کے اس اجلاس میں جو یکم خرداد ۱۳۵۸ کو امام کی موجودگی میں منعقد ہوا — یہ بحث سنجیدگی سے کی گئی کہ آیا ابتدائی مسودہ تکمیل کے بعد عوامی رائے کے سامنے رکھا جائے یا مجلسِ مؤسسان تشکیل دی جائے تاکہ عوام کے منتخب نمائندے آئین مرتب کریں۔ امام نے اس اجلاس میں اس بات پر گلہ کیا کہ مسودے کی تیاری اور انتخابات کے انعقاد میں کوتاہی کی جا رہی ہے اور فرمایا: ’’پہلا مسودہ دے دیں، میں خود ریفرنڈم کراؤں گا۔‘‘

شورائے انقلاب کے ارکان کے درمیان تین نظریات تھے:

  1. آئین کی منظوری مجلسِ مؤسسان کے ذریعے ہو۔
  2. آئین کا ریفرنڈم کرایا جائے۔
  3. ایک ایسی مجلس میں جہاں اکثریت اہلِ خبرہ اور ملک کے مختلف طبقات کی نمائندہ ہو، مسودے پر رائے لی جائے، پھر آخر میں عوامی ریفرنڈم سے آئین منظور کرایا جائے۔

مجلسِ مؤسسان کے قیام کے حامیوں کی دلیلیں

  • حضرت امام اور وزیرِ اعظم کئی بار عوام سے مجلسِ مؤسسان کے قیام کا وعدہ کر چکے ہیں؛ دنیا اور عوام اس کے منتظر ہیں۔
  • آئین کو عوام کے نمائندوں کے ذریعے منظور ہونا چاہیے؛ دنیا بھر میں یہی رائج طریقہ ہے۔
  • مجلسِ مؤسسان نہ بنانا اور صرف ریفرنڈم پر اکتفا کرنا مخالفین کو مشتعل کرے گا اور معاشرے میں بےچینی پیدا کرے گا۔

حضرت امام ان دلائل کے جواب میں فرماتے تھے: ’’اگر میں نے غلط بات کہہ دی تھی تو کیا آخر تک اپنے قول پر قائم رہوں؟! میں نے غلطی کی۔ مجلسِ مؤسسان اتنی جلدی تشکیل نہیں ہو سکتی، اس میں مسائل پیدا ہوں گے، کچھ لوگ اندر آ کر رکاوٹیں ڈالیں گے اور وطن کے خلاف خیانت کریں گے۔ یہ عملی نہیں، برسوں لگ جائیں گے۔ مذہب کو نقصان پہنچے گا، حالانکہ تحریک کو آگے بڑھانے والی قوت مذہب ہی رہی ہے۔‘‘ امام کا عقیدہ تھا کہ عام لوگ ریفرنڈم کی برگزاری کے مخالف نہیں ہوں گے؛ صرف چند لکھنے والے اس کی مخالفت کریں گے، مگر عوام اُن کے ساتھ نہیں ہوں گے۔ بالکل، یہ رہا آپ کے فراہم کردہ پورے فارسی متن کا **درست، روان اور معیاری اُردو ترجمہ**:

مجلسِ خبرگان کے ارکان کی تعداد

شورائے انقلاب کے ارکان کا خیال تھا کہ ہر دس لاکھ افراد اپنا ایک نمائندہ منتخب کریں، جس سے مجموعی طور پر تقریباً تیس چند ارکان بنتے تھے۔ لیکن ایک رکن نے یہ تجویز پیش کی: "اگر ہر صوبہ یا ہر ایک ملین افراد ایک نمائندہ منتخب کریں تو یہ خطرہ ہے کہ مخصوص افراد ہی منتخب ہوں گے، کیونکہ صوبوں میں سب سے زیادہ معروف افراد علما ہیں۔ اس طرح پورا مجمع صرف علما پر مشتمل ہو جائے گا، اور غیر ضروری شور پیدا ہوگا۔

اگر ہر پانچ لاکھ افراد ایک نمائندہ منتخب کریں تو صوبوں کے عوام کے پاس انتخاب کا دائرہ وسیع ہوگا اور مجلس بھی متنوع بنے گی۔" یہ تجویز شورائے انقلاب نے منظور کر لی، اور طے ہوا کہ ہر صوبے سے چند نمائندے منتخب ہوں اور مجموعی تعداد تقریباً ستر سے کچھ زیادہ ہو۔ امام خمینی نے اس مرحلے پر بھی علما اور اسلام شناس افراد کی اس مجلس میں موجودگی کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے ائمہ کے اس حکم کی یاد دلائی کہ "حوادثِ واقعه میں فقہا کی طرف رجوع کیا جائے" اور روشن خیالوں کو نصیحت کی کہ "اسلام اور مسلمانوں کا بھی کچھ حق سمجھیں"۔

انہوں نے واضح فرمایا کہ: "اسلام شناس افراد کو آئین کے مسودے کا جائزہ لینا چاہیے، نہ کہ مغربی قوانین کے ماہرین کو۔" امام کئی بار علما اور دیگر طبقات کو پیش نویس آئین کے مطالعے اور اس کی اصولی بحث میں حصہ لینے کی دعوت دیتے رہے۔

وہ مخالفین کے اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے اس طریقہ کار کو دنیا میں "بے مثال" قرار دیتے تھے، کیونکہ:

  • ایک بار عوام کے منتخب نمائندے، مختلف طبقات کی آرا کی روشنی میں آئین کا مسودہ تیار کریں گے؛
  • اور دوسری بار یہی تیار شدہ آئین **ریفرنڈم** کے ذریعے عوام کے سامنے رکھا جائے گا۔

امام کے مطابق، دنیا میں اس سے بڑھ کر کوئی جمہوری طریقہ نہیں۔ دنیا میں یا تو آئین مجلسِ مؤسّسان بناتی ہے، یا حکومت اور پارلیمانی نمائندے آئین تیار کرتے ہیں اور پھر اسے ریفرنڈم کے لیے پیش کر دیتے ہیں، جیسا کہ فرانس کی پانچویں جمہوریہ میں ہوا۔ اسی طرح امریکہ میں ۱۲ ریاستوں کے ۵۵ نمائندے شہر فلاڈیلفیا میں جمع ہوئے، پہلے اجلاس میں جارج واشنگٹن کو صدرِ اجلاس منتخب کیا، تمام مذاکرات خفیہ رکھے تاکہ ارکان آزادی سے اظہارِ رائے کر سکیں۔ کئی مراحل کے بعد ۱۷۸۹ء میں یہ آئین ریاستوں نے منظور کیا اور ملک میں نافذ ہوا۔

شرائطِ خبرگان

حضرت امام نے بارہا علما اور متعہد قانون دانوں سے مطالبہ کیا کہ آئین کی بہترین تدوین کے لیے کوشش کریں اور عوام کو اہل و صالح افراد کے انتخاب کی ترغیب دیں۔ امام کے فرمودات کے مطابق مجلسِ خبرگان کے ارکان کے لیے جو صفات ضروری تھیں، ان میں شامل ہیں:

  • متدیّن
  • زمانے کے حالات سے آگاہ
  • علم و بصیرت رکھنے والے
  • متعہد و باکردار
  • اسلام شناس
  • سو فیصد اسلام کے معتقد
  • اس عقیدے کے حامل کہ اسلام ایک ترقی یافتہ اور ترقی بخش مکتب ہے
  • اسلامی تحریک کے حامی
  • وطن دوست، اسلام دوست
  • امانت دار
  • انسانیت اور اسلام کی سیدھی راہ پر قائم
  • فکر و رائے میں خودمختار
  • اخلاقی و علمی حیثیت سے پہچانے ہوئے افراد

امام نے عوام کو سختی سے خبردار کیا: "مغرب و مشرق کے وابستگان، احتمالِ خیانت رکھنے والے، سازشی افراد، وہ جو اسلام کو ۱۴۰۰ سال پرانا اور آج کے دور کے لیے ناکارآمد سمجھتے ہیں، اور مغربی ذہن رکھنے والے حقوق دان—ایسے لوگوں کو منتخب نہ کریں".

ان کا استدلال تھا: "عوام نے اسلام کے لیے جدوجہد اور قربانیاں دیں، اسلامی جمہوریہ کا مطالبہ کیا؛ لہٰذا آئین بھی انہی افراد کو بنانا چاہیے جو اسلام کو سمجھتے ہوں۔" امام نے مزید وضاحت کی: "حوادثِ واقعه سے مراد یہی سیاسی مسائل ہیں جو قوموں کے سامنے آتے ہیں، اور ان میں فقہا کی طرف رجوع ضروری ہے۔"

سنہ ۱۳۵۸ھ ش میں ماہِ رمضان کی آمد سے قبل امام نے علما اور روحانیوں کو خبردار کیا کہ وہ غیر اہم مسائل میں وقت ضائع نہ کریں، کیونکہ اس وقت سب سے اہم مسئلہ آئین کی منظوری ہے، جس کی دشمن تاخیر چاہتے ہیں۔ انہوں نے علما کو تاکید کی کہ وہ عوام کو مجلسِ خبرگان کے انتخابات میں بھرپور شرکت اور اسلامی و قابل اعتماد نمائندوں کے انتخاب کی دعوت دیں۔ بالکل، یہاں پورے فراہم کردہ متن کا **درست، بامحاورہ اور معیاری اُردو ترجمہ** پیش کیا جا رہا ہے:

---

    1. **مجلسِ خبرگان کے ارکان کی تعداد**

شورائے انقلاب کے ارکان کا یہ خیال تھا کہ ہر ایک ملین (دس لاکھ) افراد اپنا ایک نمائندہ منتخب کریں، جن کی مجموعی تعداد تقریباً تیس چند بنتی تھی۔ لیکن ایک رکن نے یہ تجویز پیش کی:

    • "اگر ہر صوبہ یا ہر ایک ملین افراد ایک نمائندہ منتخب کریں تو یہ خطرہ ہے کہ خاص افراد ہی منتخب ہوں گے، کیونکہ صوبوں میں سب سے معروف افراد علما ہیں۔ اس طرح پوری مجلس صرف علما پر مشتمل ہو جائے گی اور بلاوجہ شور و غوغا برپا ہوگا، اگرچہ یہ اعتراض بجا نہیں۔ اگر ہر پانچ لاکھ افراد ایک نمائندہ منتخب کریں تو عوام کے پاس زیادہ انتخاب کا موقع ہوگا اور مجلس بھی متنوع شکل اختیار کرے گی۔"**

یہ تجویز شورائے انقلاب نے منظور کر لی، اور طے ہوا کہ ہر صوبے سے چند نمائندے منتخب ہوں، اور مجموعی تعداد **ستر سے کچھ زیادہ** ہو۔

امام خمینیؒ نے اس مرحلے پر بھی اس بات پر زور دیا کہ اس مجلس میں علما اور اسلام شناس افراد کی موجودگی ضروری ہے۔ انہوں نے ائمہ کے اس حکم کی یاد دہانی کرائی کہ **"حوادثِ واقعه میں فقہا کی طرف رجوع کیا جائے"** اور روشن خیالوں کو نصیحت کی کہ:

    • "اسلام اور مسلمانوں کے لیے بھی کچھ حق تسلیم کیجیے۔"**

ساتھ ہی فرمایا کہ:

    • "اسلام کے ماہرین کو آئین کا جائزہ لینا چاہیے، نہ کہ مغربی قانون دانوں کو۔"**

امام نے کئی بار علما اور عوام کے دیگر طبقات کو پیش نویس آئین کے مطالعے اور اصولوں پر اظہارِ رائے کی دعوت دی۔

انہوں نے مخالفین کے اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے موجودہ طریقہ کار کو دنیا میں بے نظیر قرار دیا، کیونکہ:

1. پہلے مرحلے میں عوام کے منتخب نمائندے مختلف طبقات کی آرا کی روشنی میں آئین پر بحث و بررسی کریں گے؛ 2. پھر ان ہی نمائندوں کا تیار کردہ قانون دوبارہ **ریفرنڈم** کے ذریعے عوام کے سامنے رکھا جائے گا۔

امام کے مطابق دنیا میں اس سے بڑھ کر کوئی جمہوریت نہیں۔

دنیا میں یا تو آئین **مجلسِ مؤسّسان** تیار کرتی ہے، یا حکومت و پارلیمنٹ کے ایک گروہ کی جانب سے تیار ہونے والا مسودہ عوامی رائے کے لیے پیش کیا جاتا ہے؛ جیسے **فرانس کی پانچویں جمہوریہ** میں ہوا۔

اسی طرح **امریکہ** میں ۱۲ ریاستوں کے ۵۵ نمائندے فلاڈیلفیا میں جمع ہوئے۔ پہلے اجلاس میں جارج واشنگٹن کو صدرِ اجلاس منتخب کیا گیا۔ تمام مذاکرات خفیہ رکھے گئے تاکہ ارکان آزادی سے گفتگو کریں۔ متعدد مراحل کے بعد ۱۷۸۹ء میں آئین ریاستوں نے منظور کیا اور اسے نافذ کر دیا گیا۔

---

    1. **شرائطِ خبرگان**

حضرت امامؒ نے بارہا علما اور متعہد قانون دانوں سے کہا کہ آئین کی بہترین تدوین کے لیے کوشش کریں، اور عوام کو اہل، باصلاحیت اور دیانتدار افراد کے انتخاب کی دعوت دیں۔

امام کے بیانات سے جو خصوصیات ارکانِ مجلسِ خبرگان کے لیے سامنے آتی ہیں، وہ یہ ہیں:

  • متدیّن
  • زمانے کے حالات سے باخبر
  • علم رکھنے والے
  • متعہد اور باکردار
  • اسلام شناس
  • اسلام کے سو فیصد معتقد
  • اس کے قائل کہ اسلام ایک ترقی بخش مکتب ہے، معاشرے اور اقتصاد کو سنبھال سکتا ہے
  • اسلامی تحریک کے حامی
  • وطن دوست
  • امین
  • راست رو اور اہلِ کردار
  • رائے، فکر اور روح کے لحاظ سے مستقل
  • عوام میں پہچانے ہوئے افراد

امام نے عوام کو اس بات سے بھی خبردار کیا کہ وہ ایسے لوگوں کو منتخب نہ کریں جو:

  • مشرق و مغرب کے وابستہ ہوں
  • جن سے خیانت کا امکان ہو
  • سازشی ہوں
  • اسلام کو ۱۴۰۰ سال پرانا اور آج کے دور کے لیے غیر مناسب سمجھتے ہوں
  • مغربی طرزِ فکر رکھنے والے قانون دان ہوں

امام کا استدلال یہ تھا کہ: "عوام نے اسلام کی خاطر قربانیاں دیں، اسلامی جمہوریہ کا مطالبہ کیا؛ لہٰذا آئین بھی انہی لوگوں کو بنانا چاہیے جو اسلام کو سمجھتے ہوں۔"

انہوں نے مزید فرمایا: "حوادثِ واقعه یہی سیاسی واقعات ہیں جو قوموں کے لیے پیش آتے ہیں، اور ان میں فقہا کی طرف رجوع ضروری ہے۔"

رمضان ۱۳۵۸ھ ش کی آمد پر امام نے علما کو غیر ضروری مسائل میں وقت ضائع کرنے سے روکا اور یاد دلایا کہ سب سے اہم مسئلہ آئین کی منظوری ہے، جسے دشمن تاخیر کا شکار کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے علما کو تاکید کی کہ وہ عوام کو مجلسِ خبرگان کے انتخابات میں بھرپور شرکت اور قابلِ اعتماد اسلام شناس افراد کے انتخاب کی دعوت دیں۔

انتخاباتِ مجلسِ خبرگان اور گروہوں کی بہانہ تراشی

وہ احزاب، گروہ اور تنظیمیں جو مجلسِ خبرگان میں داخل ہونے سے مایوس تھیں، مختلف شبہات پھیلانے لگیں جو زیادہ تر "بہانے" کے مترادف تھے، اور اسی ذریعے مجلسِ خبرگان کی مشروعیت پر سوال کھڑا کرنے کی کوشش کی۔

پحزبِ خلقِ مسلمان نے انتخابات کو مؤخر کرنے کا مطالبہ کیا۔ چریک‌های فدایی خلق نے ایک بیان میں کہا کہ وہ انتخابات میں صرف "رژیم اور مجلسِ فرمایشی کے خلاف افشاگری" کے لیے حصہ لے رہے ہیں۔ زیادہ تر مارکسسٹ گروہوں نے انتخابات کی مخالفت کی۔

پیش کیے جانے والے بہانوں میں سے چند یہ تھے:

  • ارکانِ شورائے انقلاب اور حکومتِ موقت کو مجلسِ خبرگان کا امیدوار نہیں بننا چاہیے۔
  • جواب:شورائے انقلاب کے ارکان کا امیدوار بننا غیر منطقی نہیں۔ البتہ انتخابات کے مجریان کے لیے امیدوار بننا درست نہیں اور قانوناً بھی ان کو اجازت نہیں۔
  • چونکہ مجلسِ خبرگان کے ارکان کم ہیں، لہٰذا وہ تمام عوام کے افکار کی نمائندگی نہیں کر سکتے۔
  • جواب: یہ صحیح ہے کہ وہ گروہ جن کے حامی کسی صوبے میں پانچ لاکھ سے کم ہوں وہ نمایاں ووٹ نہیں لے سکتے، لیکن ارکان کی کم تعداد کا یہ مطلب نہیں کہ وہ عوام کے نمائندے نہیں۔

علما کی طرف سے امیدواروں کا تعارف عوام پر فتوائی دباؤ ڈالتا ہے اور انہیں مخصوص افراد کے انتخاب پر مجبور کرتا ہے۔ یہ شبہ اس لیے اُٹھایا گیا کہ علما کے متعارف کردہ امیدوار عوام میں زیادہ مقبول تھے، جیسے:حضرات سید حسن طباطبائی قمی اور سید عبداللہ شیرازی نے خراسان کے لیے سات امیدوار پیش کیے، جن میں سے چار منتخب ہو گئے۔

  • جواب:امیدواروں کا تعارف ہر فرد، گروہ یا جماعت کا حق ہے۔
  • یہ تعارف ارشادی ہوتا ہے، فتوائی نہیں، اور یہاں فتویٰ دینے کا مقام ہی نہیں۔
  • ہر صوبے کے چند نمائندے کافی نہیں، ہر گروہ کا الگ نمائندہ ہونا چاہیے۔
  • جواب:یہ منطقی نہیں کہ ہر گروہ—even اگر اس کے صرف پانچ افراد ہوں—اپنا نمائندہ مانگے۔
  • مجلسِ خبرگان عوام کے نمائندوں کی مجلس ہے، گروہوں کی نہیں۔
  • مجلسِ خبرگان میں کسی خاص طبقے کا اجتماع ہے اور دیگر طبقات نمائندہ نہیں رکھتے، یہ آزادی کے خلاف ہے۔
  • جواب:عوام کا روحانیوں کو ووٹ دینا آزادی کے خلاف نہیں، کیونکہ انہیں بھی دوسرے امیدواروں کے برابر مواقع حاصل تھے۔

انتخابات کے بعد وہ احزاب و گروہ جن کے امیدوار کامیاب نہ ہوئے، "انتخابی دھاندلی" کے الزامات لگانے لگے اور خلاف ورزیوں کی تحقیقات کا مطالبہ کرنے لگے۔ مختلف فکری اور عقیدتی رجحانات، خواہ بائیں بازو ہوں یا دائیں، مذہبی ہوں یا لیبرل، مشرق پسند ہوں یا مغرب پسند—سبھی مجلسِ خبرگان میں داخل ہونے کے لیے سرگرم تھے۔ چند گروہ جو مجلسِ مؤسّسان کی عدم تشکیل کا بہانہ بنا کر انتخابات کا بائیکاٹ کر گئے، اُن کے سوا اکثر گروہوں نے انتخابات میں حصہ لیا اور امیدوار نامزد کیے۔ کسی طرح کی کوئی پابندی نہ امیدوار بننے پر تھی نہ ووٹ دینے پر۔