"اخوان المسلمین عراق" کے نسخوں کے درمیان فرق

ویکی‌وحدت سے
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 37: سطر 37:
   
   
بعث پارٹی  کی حکومت کے دور میں اخوان پر سختی کے ساتھ پابندی عائد کی گئی  تو  اخوان کے کارکنوں  نے مختلف ناموں کے ساتھ شعبے بنائیں اور سرگرمیاں جاری رکھی جن میں  سے مندرجه ذیل شعبوں  کا نام لیا جاسکتا هے۔
بعث پارٹی  کی حکومت کے دور میں اخوان پر سختی کے ساتھ پابندی عائد کی گئی  تو  اخوان کے کارکنوں  نے مختلف ناموں کے ساتھ شعبے بنائیں اور سرگرمیاں جاری رکھی جن میں  سے مندرجه ذیل شعبوں  کا نام لیا جاسکتا هے۔
1 –  ایاد السامرائی کا گروپ: یه نوجوان طلبا پر مشتمل ایک تنظیم تھی جس کی قیادت ایاد السامرائی کررهے تھے اور یه تنظیم یونیورسٹیوں میں فعال تھی ۔  ایاد السامرائی تنظیم کی فعالیتیں برملا هونے کے بعد عراق سے فرار هوگئے۔
# ایاد السامرائی کا گروپ: یه نوجوان طلبا پر مشتمل ایک تنظیم تھی جس کی قیادت ایاد السامرائی کررهے تھے اور یه تنظیم یونیورسٹیوں میں فعال تھی ایاد السامرائی تنظیم کی فعالیتیں برملا هونے کے بعد عراق سے فرار هوگئے۔
2 – سرمد الدوری کا گروپ:  اخوان  سے وابستہ نوجوانوں کی اہم ترین تنظیموں میں سے ایک وه جماعت تھی جو سنه ستر کی دهائی  کے آخر میں  نوجوان انجینئر سرمد الدوری  کی قیادت میں سرگرم تھی ۔  سرمد الدوری کو  ان کی جماعت  دریافت ہونے کے بعد پھانسی دے دی گئی۔
# سرمد الدوری کا گروپ:  اخوان  سے وابستہ نوجوانوں کی اہم ترین تنظیموں میں سے ایک وه جماعت تھی جو سنه ستر کی دهائی  کے آخر میں  نوجوان انجینئر سرمد الدوری  کی قیادت میں سرگرم تھی ۔  سرمد الدوری کو  ان کی جماعت  دریافت ہونے کے بعد پھانسی دے دی گئی۔
3 -  مقدادیه گروپ: ایک اور تنظیم جو مقدادیہ میں ظاہر ہوئی اور  اس سے وابستہ تھی جو بعد میں  سنه 80 کی دہائی کے اوائل میں (برادر حسین) تنظیم کے نام سے مشہور ہوئی۔  ریاستی ایجنسیوں کو اس کا پته چلا تو اس کے ممبران  میں سے کچھ کو سزائے موت سنائی گئی اور پھانسی دی گئی اور باقی کو مختلف مدتوں کے لیے قید کیا گیا۔
# مقدادیه گروپ: ایک اور تنظیم جو مقدادیہ میں ظاہر ہوئی اور  اس سے وابستہ تھی جو بعد میں  سنه 80 کی دہائی کے اوائل میں (برادر حسین) تنظیم کے نام سے مشہور ہوئی۔  ریاستی ایجنسیوں کو اس کا پته چلا تو اس کے ممبران  میں سے کچھ کو سزائے موت سنائی گئی اور پھانسی دی گئی اور باقی کو مختلف مدتوں کے لیے قید کیا گیا۔
4 -  1987 گروپ: اخوان سے وابسته سب سے بڑی  اور سب سے وسیع تنظیم جو  1987  گروپ کے نام سے مشهور  تھی جس کی سربراہی ڈاکٹر عبدالمجید عبد السامرائی کر رہے تھے، جو عراق کے تمام علاقوں میں پھیلی هوئی تھی ۔ اس تنظیم کا ایک بہت تفصیلی تنظیمی  ڈھانچہ تھا، لیکن اس کے  با وجود بہت سے ارکان کو 1987 ء میں خفیہ تنظیم میں حصہ لینے کے الزام میں گرفتار کیا گیا  اور انقلابی عدالت نے ان میں سے کچھ کو موت کی سزا سنائی تھی، اور پھر اس سزا کو ترکی، سوڈان اور اردن کے  اسلامی رہنماؤں نے مداخلت کرتے ہوئے  عمر قید  بدل دی  ۔ انہیں 1991 ء میں رہا کیا گیا، جن میں ڈاکٹر عصام الراوی، ڈاکٹر علاء مکی، نصیر العانی، محمد فاضل السامرائی اور بہت سے دوسرے شامل تھے۔
# 1987 گروپ: اخوان سے وابسته سب سے بڑی  اور سب سے وسیع تنظیم جو  1987  گروپ کے نام سے مشهور  تھی جس کی سربراہی ڈاکٹر عبدالمجید عبد السامرائی کر رہے تھے، جو عراق کے تمام علاقوں میں پھیلی هوئی تھی ۔ اس تنظیم کا ایک بہت تفصیلی تنظیمی  ڈھانچہ تھا، لیکن اس کے  با وجود بہت سے ارکان کو 1987 ء میں خفیہ تنظیم میں حصہ لینے کے الزام میں گرفتار کیا گیا  اور انقلابی عدالت نے ان میں سے کچھ کو موت کی سزا سنائی تھی، اور پھر اس سزا کو ترکی، سوڈان اور اردن کے  اسلامی رہنماؤں نے مداخلت کرتے ہوئے  عمر قید  بدل دی  ۔ انہیں 1991 ء میں رہا کیا گیا، جن میں ڈاکٹر عصام الراوی، ڈاکٹر علاء مکی، نصیر العانی، محمد فاضل السامرائی اور بہت سے دوسرے شامل تھے۔





نسخہ بمطابق 20:37، 6 اکتوبر 2024ء

اخوان المسلمین عراق
اخوان المسلمین عراق.jpg
پارٹی کا ناماخوان المسلمین عراق
قیام کی تاریخ1940 ء، 1318 ش، 1358 ق
بانی پارٹیشیخ محمد محمود الصواف
پارٹی رہنما
  • محمد محمود الصواف
  • عبدالکریم زیدان
  • نعمان عبدالرزاق السامرائی
  • عبدالمنعم صالح العلی العزی
  • ولید الأعظمی
  • إیاد العزی
  • مهند الغریری
  • عبدالجلیل الفهداوی
  • إبراهیم النعمة

اخوان المسلمین عراق عراق میں کام کرنے والی اسلامی تحریکوں میں سے ایک ہے۔ یہ اسلامی ممالک میں اخوان المسلمون کی شاخوں میں سے ایک ہے۔ اس گروپ کی بنیاد 1940ء میں رکھی گئی تھی اور اس نے باضابطہ طور پر 1949 میں اخوان المسلمون عراق کے نام سے کام کرنا شروع کیا۔

عراق میں اخوان المسلمین کی فکر کی بنیاد

عراق میں اخوان المسلمین کی فکر کی بنیاد تشکیل پانے میں کئی بنیادی وجوهات ہیں جن میں سے بعض کی طرف اشاره کرتے ہیں۔

1-سفیران اخوان :

عراق میں اخوان المسلمین کے افکار اور نظریات کے فروغ میں ان شخصیات کا بنیادی کردار رہا ہے جن کو اخوان المسلمین کی جانب سے نماینده کے طور پر مختلف اسلامی ملکوں میں بھیجے گئے تھے ۔ عراق میں یه مهم سنه 1940ء کی ابتداء میں انجام پایا جب اخوان المسلمین کی جانب سے شیخ الاحمر کو بصره اور سنه 1942ء کو حسین کمال الدین اور محمد عبد الحمید احمد کو بغداد بھیجے گئے اور انهوں نے کچھ افراد کو اکٹھا کیا اور ان کے توسط سے لوگ، اخوان المسلمین کے نظریات سے آشنا ہوئے۔

2-اخوان المسلمین کا رساله :

اس وقت جب عراق میں اخوان کا ابتدائی مرکز قائم ہوا، اخوان المسلمین کا رسالہ، جو اس تحریک کی اشاعت تھا، عراق پہنچا اور لوگوں میں تقسیم کیا گیا، جیسا کہ اسے موصل میں کھلے عام فروخت کیا جاتا تھا ۔

3-مصر میں مقیم عراقی طلبا :

عراق میں اخوان المسلمین کے افکار اور نظریات کو فروغ ملنے کے وجوهات میں سے ایک وه طلبا تھے جو عراق سے اپنی تعلیم جاری رکھنے کے لیے الازہر گئے جہاں انہیں اخوان کی فکر سے آگاہی ہوئی۔ محمد محمود الصواف ان لوگوں میں سے ایک تھے جو 1939 ء میں الازہر گئے تھے لیکن جنگ عظیم شروع ہونے کے بعد عراق واپس آ گئے۔

4-محمد الصواف کی جدو جهد :

الصواف متعدد تاجروں کے ساتھ مل کر موصل میں اخوان کی ایک شاخ بنانا چاہتا تھا لیکن حکومت نے اسے ایسا کرنے کی اجازت نہیں دی۔ الصواف کو 1943 ء میں مصطفیٰ صابونچی نامی تاجر کی مالی مدد سے دوبارہ مصر جانے کا موقع ملا ۔ انهوں نے مصر جا کر اخوان المسلمین مصر کے بانی حسن البنا سے ملاقات کی اور البنا نے ان کا تعارف ایک فعال ممبر کے طور پر کرایا اور وه عراق میں اخوان المسلمین تحریک کا بانی مقرر کیا گیا۔

تاسیس

عراق میں اخوان المسلمین کی سرگرمی کا آغاز ان نوجوانوں اور لوگوں کے توسط سے ہوا ہے جو اخوان مصر کے رسائل اور اشاعتوں کا مطالعه کر کے ان کے نظریات اور افکار سے متاثر هوئے تھے۔ 1940 ء کی دہائی کے اوائل میں یہ رجحان عراق تک پہنچا، کیونکہ اس عرصے کے دوران عراقی اعلی تعلیمی مراکز اور اسکولوں میں مصری پروفیسروں کی تدریس سے اس رجحان کو تقویت ملی۔ جن میں ڈاکٹر حسین کمال الدین اور محمد عبدالحمید احمد شامل هیں جو عراق کی یونیورسٹی آف انجینئرنگ میں پڑھاتے تھے ۔اس دوران شیخ محمد محمود الصواف نے مصر جا کر حسن البنا سے ملاقات کے بعد اخوان المسلمون کے نظریے کو قبول کرنے کے بعد عراق میں اس تنظیم کی بنیاد رکھی۔ اخوان المسلمین عراق نے ء1940 ء کی دہائی میں با ضابطه طور پر اپنی سرگرمیوں کا آغاز کیا اور 1949 ء میں شیخ امجد الزہاوی کی سربراہی میں اسلامی برادران ایسوسی ایشن کے نام سے ایک اسلامی انجمن کے طور پر اپنا باضابطہ اپنا تنظیمی ڈھانچه تشکیل دیا۔ تنظیمی فرم ورک تشکیل دینے کے بعد شیخ محمد محمود الصواف اس تنظیم کے سربراه کے طور پر منتخب هوئے اور اس کی فعالیتیں سنه 1954ء تک جاری رهی اور اسی سال اس پر پابندی لگی۔لیکن اس تاریخ کے بعد سے، اس کی سرگرمی بغیر کسی سرکاری ڈھانچے کے جاری رہی۔

عبدالکریم قاسم کے دور میں اخوان المسلمین کی صورت حال

سنه 1958ء میں جب عراق میں عوامی انقلاب آیا اور بادشاهیت کا تخته الٹ دیا گیا اور جمهوری حکومت قائم هوئی تو اخوان المسلمین پر ظلم هوا اور ارکان پر ستم کئے گئے اس جماعت کے سربراه شیخ الصواف کو عراق چھوڑنے پر مجبور کیا لیکن انهوں نے اپنی فعالیتوں کو هر حالت میں جاری رکھا۔ سنه 1960ء میں جب عراق میں سیاسی جماعتوں کو قانونی طور پر کام کرنے کی اجازت ملی تو اس وقت اخوان المسلمین جس کی سربراهی نومن عبدالرزاق السامرائی کر رهے تھے ، عراق کے سیاسی منظر نامے میں اپنے وجود کا اظهار کیا لیکن عبدالکریم قاسم کی سربراہی میں عراقی حکومت نے سرکاری اجازت کے باوجود 1961ء میں ان کی سرگرمیوں کو روک دیا۔ اخوان المسلمین نے اس عرصے کے دوران عراق میں اپنا کام غیر سرکاری طور پر جاری رکھا اور یہ صورت حال تقریباً ء 1968 تک قائم رہی۔

بعث پارٹی کی حکومت کے دوران اخوان المسلمین کے لئے درپیش مسائل

سنه 1968ء کی بغاوت کے بعد جب عراق میں بعث پارٹی کی حکومت قائم هوئی تو اخوان المسلمین نے اپنی تمام سیاسی اور سماجی سرگرمیاں خاص طور پر اسلامی رجحانات سے متعلق کارناموں کو انتهائی خفیه طور پر سرانجام دینے پر مجبور هوئی جس میں مختلف ادوار شامل هیں۔

1 – اخوان کی تنظیمی فعالیتوں کی معطلی

سنه 1970ء کو اخوان المسلمین نے عراق میں بعث حکومت کی دباؤ اور دھمکیوں کی وجه سے اپنی تنظیمی سرگرمیاں بند کردیے اس لئے که بعث پارٹی سے باهر کسی کو سیاسی فعالیت کی اجازت نهیں تھی یهاں تک کہ ان کے کارکنوں کی ایک بڑی تعداد کو گرفتار کر کے سزائے موت دی گئی، جن میں محمد فرج الجاسم۔ ، عبدالغنی شندلہ اور شیخ عبدالعزیز البدری شامل هیں۔ اس دباؤ اور دھمکی نے اخوان کو اپنی تنظیمی سرگرمیاں بند کرنے پر مجبور کر دیا جس کے نتیجے میں وہ محدود پیمانے پر تبلیغی سرگرمیوں میں سرگرم رہے اور ان کی زیادہ تر فعالیتیں خفیہ طور پر جاری رہیں۔ اور یہ صورتحال 2003 ءمیں عراق پر امریکی حملے تک جاری رہی۔ ڈاکٹر عبدالکریم زیدان نے شیخ الصواف کے بعد عراق میں اخوان المسلمین کی قیادت سنبھالی اور 1970 ءمیں تنظیمی سرگرمیوں کی معطلی کے باوجود نوے کی دہائی کے وسط تک جاری رہے۔

2 - اخوان کے تنظیمی شعبه جات

بعث پارٹی کی حکومت کے دور میں اخوان پر سختی کے ساتھ پابندی عائد کی گئی تو اخوان کے کارکنوں نے مختلف ناموں کے ساتھ شعبے بنائیں اور سرگرمیاں جاری رکھی جن میں سے مندرجه ذیل شعبوں کا نام لیا جاسکتا هے۔

  1. ایاد السامرائی کا گروپ: یه نوجوان طلبا پر مشتمل ایک تنظیم تھی جس کی قیادت ایاد السامرائی کررهے تھے اور یه تنظیم یونیورسٹیوں میں فعال تھی ایاد السامرائی تنظیم کی فعالیتیں برملا هونے کے بعد عراق سے فرار هوگئے۔
  2. سرمد الدوری کا گروپ: اخوان سے وابستہ نوجوانوں کی اہم ترین تنظیموں میں سے ایک وه جماعت تھی جو سنه ستر کی دهائی کے آخر میں نوجوان انجینئر سرمد الدوری کی قیادت میں سرگرم تھی ۔ سرمد الدوری کو ان کی جماعت دریافت ہونے کے بعد پھانسی دے دی گئی۔
  3. مقدادیه گروپ: ایک اور تنظیم جو مقدادیہ میں ظاہر ہوئی اور اس سے وابستہ تھی جو بعد میں سنه 80 کی دہائی کے اوائل میں (برادر حسین) تنظیم کے نام سے مشہور ہوئی۔ ریاستی ایجنسیوں کو اس کا پته چلا تو اس کے ممبران میں سے کچھ کو سزائے موت سنائی گئی اور پھانسی دی گئی اور باقی کو مختلف مدتوں کے لیے قید کیا گیا۔
  4. 1987 گروپ: اخوان سے وابسته سب سے بڑی اور سب سے وسیع تنظیم جو 1987 گروپ کے نام سے مشهور تھی جس کی سربراہی ڈاکٹر عبدالمجید عبد السامرائی کر رہے تھے، جو عراق کے تمام علاقوں میں پھیلی هوئی تھی ۔ اس تنظیم کا ایک بہت تفصیلی تنظیمی ڈھانچہ تھا، لیکن اس کے با وجود بہت سے ارکان کو 1987 ء میں خفیہ تنظیم میں حصہ لینے کے الزام میں گرفتار کیا گیا اور انقلابی عدالت نے ان میں سے کچھ کو موت کی سزا سنائی تھی، اور پھر اس سزا کو ترکی، سوڈان اور اردن کے اسلامی رہنماؤں نے مداخلت کرتے ہوئے عمر قید بدل دی ۔ انہیں 1991 ء میں رہا کیا گیا، جن میں ڈاکٹر عصام الراوی، ڈاکٹر علاء مکی، نصیر العانی، محمد فاضل السامرائی اور بہت سے دوسرے شامل تھے۔


حوالہ جات