"اسماعیلیہ" کے نسخوں کے درمیان فرق

سطر 129: سطر 129:
اثنا عشری شیعہ بارہ اماموں کو مانتے ہیں لیکن اسماعیلی جماعتوں نے امامت کو صرف سات اماموں تک محدود نہیں کیا۔ بلکہ اس سلسلہ کو جاری رکھا ہوا ہے کہ ہر زمانہ میں حاضر امام کا ہونا لازمی ہے۔ پیر صدرالدین کی ایک مذہبی کتاب جس کا نام انہوں نے دسا اوتار ( دس اوتار ) رکھا۔ اس مذہبی کتاب میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو دسواں اوتار مانا ۔ اسماعیلی خوجوں نے اس کتاب کو ابتداء ہی سے بطور آسمانی کتاب کے مانا اور مرنے کے وقت وہ کتاب ہمیشہ برکت کے لئے پڑھی جاتی ہے۔ اس طرح بہت سے دستورات میں اُس کو پڑھتے ہیں خوجوں نے آغا خان کو اسما عیلی خاندان کا امام اور اپنا روحانی پیشوا تسلیم کیا ہے آغا خان خود اسماعیلی نسل میں سے ہونے کی وجہ سے ان کو امام تسلیم کیا گیا ہے جب مصر میں سلاطین اسماعیلیہ کی حکومت کو زوال آیا تو آغا خان کے آباؤ اجداد ایران کے مشرقی حصہ میں آباد ہو گئے ۔ بہر صورت ایران میں سکونت اختیار کرنے کے بعد عرصہ دراز تک آغا خان کے اسلاف کے خاندان کی تاریخی حالات کا پتہ کہیں چلتا ۔ حسن علی شما و جب ہندوستان میں آئے رودی جرگے اُن کی سرعنائی کو تسلیم کرتے تھے۔
اثنا عشری شیعہ بارہ اماموں کو مانتے ہیں لیکن اسماعیلی جماعتوں نے امامت کو صرف سات اماموں تک محدود نہیں کیا۔ بلکہ اس سلسلہ کو جاری رکھا ہوا ہے کہ ہر زمانہ میں حاضر امام کا ہونا لازمی ہے۔ پیر صدرالدین کی ایک مذہبی کتاب جس کا نام انہوں نے دسا اوتار ( دس اوتار ) رکھا۔ اس مذہبی کتاب میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو دسواں اوتار مانا ۔ اسماعیلی خوجوں نے اس کتاب کو ابتداء ہی سے بطور آسمانی کتاب کے مانا اور مرنے کے وقت وہ کتاب ہمیشہ برکت کے لئے پڑھی جاتی ہے۔ اس طرح بہت سے دستورات میں اُس کو پڑھتے ہیں خوجوں نے آغا خان کو اسما عیلی خاندان کا امام اور اپنا روحانی پیشوا تسلیم کیا ہے آغا خان خود اسماعیلی نسل میں سے ہونے کی وجہ سے ان کو امام تسلیم کیا گیا ہے جب مصر میں سلاطین اسماعیلیہ کی حکومت کو زوال آیا تو آغا خان کے آباؤ اجداد ایران کے مشرقی حصہ میں آباد ہو گئے ۔ بہر صورت ایران میں سکونت اختیار کرنے کے بعد عرصہ دراز تک آغا خان کے اسلاف کے خاندان کی تاریخی حالات کا پتہ کہیں چلتا ۔ حسن علی شما و جب ہندوستان میں آئے رودی جرگے اُن کی سرعنائی کو تسلیم کرتے تھے۔
والا شخص سے مراد امام حق ہے اس واحد شخص سے دنیا ہرگز خالی نہیںکیونکہ اس دارد مشخص (امام) حق کے بغیر مخلوق قائم نہیں رہ سکتی اور صرف واحد شخص ( امام ) حق حقوق کی معہداشت اور حفاظت کر سکتا ہے اگر وہ واحد شخص اس جہان سے چلا جائے تو لان ما تمام مخلوق کی بہتری بھی ختم ہو جائے گی امام حق درخت کے میووں کی دلیل ہے کہ میرے اپنے درخت کی زینت بھی بن سکتے ہیں اور اس کی آئیندو نوع کو بھی باتی ہیجاری رکھ سکتے ہیں امام آل رسول ( یعنی علی ابن ابو طالب اور فاطمہ زہرا کی اولاد) سے ہونا چاہئے اور وہ امام دیتی امور کے لئے زندہ اور حاضر ہونا چاہئے۔ اگر چہ ہر امام اپنے زمانے میں روئے زمین پر خدا کے خلیفہ ہیں جو شخص مرے اور اپنے زمانے کے امام کو نہ پہچانے تو وہ جاہلانہ صورت میں مرتا ہے اور ایسا شخص دوزخ میں جا گرتا ہے پس جو شخص امام کو پہچانے تو اس پر امام کی اطاعت واجب ہوتی ہے۔ پیس مومن پر فرض ہے کہ اپنے امام زمان کو پہنچانے تا کہ امام کی اطاعت کرنا لازمی ہو۔ اے ایمان والوں خدا کی اطاعت کرو اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور صاحبان قرمان کی اطاعت کرو جو خدا کی طرف سے تمہارے درمیان ہیں۔ موت الصلاح دنیا کم ونجات اخر تحکمہ میں تمہاری دنیاوی بہتری اور آخروی
والا شخص سے مراد امام حق ہے اس واحد شخص سے دنیا ہرگز خالی نہیںکیونکہ اس دارد مشخص (امام) حق کے بغیر مخلوق قائم نہیں رہ سکتی اور صرف واحد شخص ( امام ) حق حقوق کی معہداشت اور حفاظت کر سکتا ہے اگر وہ واحد شخص اس جہان سے چلا جائے تو لان ما تمام مخلوق کی بہتری بھی ختم ہو جائے گی امام حق درخت کے میووں کی دلیل ہے کہ میرے اپنے درخت کی زینت بھی بن سکتے ہیں اور اس کی آئیندو نوع کو بھی باتی ہیجاری رکھ سکتے ہیں امام آل رسول ( یعنی علی ابن ابو طالب اور فاطمہ زہرا کی اولاد) سے ہونا چاہئے اور وہ امام دیتی امور کے لئے زندہ اور حاضر ہونا چاہئے۔ اگر چہ ہر امام اپنے زمانے میں روئے زمین پر خدا کے خلیفہ ہیں جو شخص مرے اور اپنے زمانے کے امام کو نہ پہچانے تو وہ جاہلانہ صورت میں مرتا ہے اور ایسا شخص دوزخ میں جا گرتا ہے پس جو شخص امام کو پہچانے تو اس پر امام کی اطاعت واجب ہوتی ہے۔ پیس مومن پر فرض ہے کہ اپنے امام زمان کو پہنچانے تا کہ امام کی اطاعت کرنا لازمی ہو۔ اے ایمان والوں خدا کی اطاعت کرو اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور صاحبان قرمان کی اطاعت کرو جو خدا کی طرف سے تمہارے درمیان ہیں۔ موت الصلاح دنیا کم ونجات اخر تحکمہ میں تمہاری دنیاوی بہتری اور آخروی
نجات کے لئے مامور ہوا ہوں۔" آغا خان اول تا چهارم : اسماعیلی فرقے کے امام کا اعزازی لقب جو سب سے پہلے آقائے حسن علی شاہ کو ملا سلسلہ امامت میں اب تک چار آغا خان ہو چکے ہیں۔
نجات کے لئے مامور ہوا ہوں۔" آغا خان اول تا چهارم : اسماعیلی فرقے کے امام کا اعزازی لقب جو سب سے پہلے آقائے حسن علی شاہ کو ملا سلسلہ امامت میں اب تک چار آغا خان ہو چکے ہیں <ref>نعیم اختر سندھو، مسلم فرقوں کا انسا‏ئیکلوپیڈیا، موسی کاظم ریٹی گن روڈ لاہور، 2009ء</ref>۔
 
== آغا خان اول ==
== آغا خان اول ==
آغا خان اول : ۱۸۰۰ تا ۱۸۸، پورا نام حسن علی شاہ ہے فتح علی شاہ کا چار کے منظور نظر داماد تھے ان کے والد شاہ جلیل صوبہ کرمان کے گورنر تھے ان کی وفات کے بعد شہنشاہ ایران فتح علی شاہ نے آغا حسن علی شاہ کو کرمان کا گورنر مقرر کیا اور ان سے اپنی بیٹی کی شادی کر دی ۔ اس وقت سے دربار ایران میں ان کے خاندان کا نام آغا خان پڑ گیا جو آگے چل کر خاندانی لقب بن گیا آغا خان کا لقب نہ تو امام یا پیر کی مانند کوئی مذہبی لقب ہے اور نہ ہی اسم معرفہ بلکہ محض ایک عرف ہے جو ان کے خاندان کے لئے مخصوص ہوا ۱۸۳۸ء میں کرمان میں بغاوت ہوگئی اور آغا حسن علی شاہ سندھ چلے آئے۔ آغا خان دوم: آغا خان اول کے بعد اُن کے بیٹے آغا علی شاوان کے جانشین ہوئے وہ اپنی خُدا ترسی اور علمیت کی وجہ سے اپنے وقت کے ایک مشہور شخصیت تھے آغا علی شاہ ۱۸۸۵ء میں فوت ہوئے انہوں نے صرف چار برس اسماعیلی  
آغا خان اول : ۱۸۰۰ تا ۱۸۸، پورا نام حسن علی شاہ ہے فتح علی شاہ کا چار کے منظور نظر داماد تھے ان کے والد شاہ جلیل صوبہ کرمان کے گورنر تھے ان کی وفات کے بعد شہنشاہ ایران فتح علی شاہ نے آغا حسن علی شاہ کو کرمان کا گورنر مقرر کیا اور ان سے اپنی بیٹی کی شادی کر دی ۔ اس وقت سے دربار ایران میں ان کے خاندان کا نام آغا خان پڑ گیا جو آگے چل کر خاندانی لقب بن گیا آغا خان کا لقب نہ تو امام یا پیر کی مانند کوئی مذہبی لقب ہے اور نہ ہی اسم معرفہ بلکہ محض ایک عرف ہے جو ان کے خاندان کے لئے مخصوص ہوا ۱۸۳۸ء میں کرمان میں بغاوت ہوگئی اور آغا حسن علی شاہ سندھ چلے آئے۔ آغا خان دوم: آغا خان اول کے بعد اُن کے بیٹے آغا علی شاوان کے جانشین ہوئے وہ اپنی خُدا ترسی اور علمیت کی وجہ سے اپنے وقت کے ایک مشہور شخصیت تھے آغا علی شاہ ۱۸۸۵ء میں فوت ہوئے انہوں نے صرف چار برس اسماعیلی