"حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا" کے نسخوں کے درمیان فرق

ویکی‌وحدت سے
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
 
(ایک ہی صارف کا 25 درمیانی نسخے نہیں دکھائے گئے)
سطر 15: سطر 15:
حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کی زندگی کے بارے میں مختلف روایات ہیں۔ بعض نے اس کی عمر اٹھارہ یا اس سے زیادہ لکھی ہے۔ بعض دوسرے لوگوں کے نزدیک ان کے والد حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کو ہارون الرشید کے حکم سے 179 قمری میں گرفتار کر کے قید کر دیا گیا اور چار سال تک قید میں رہے۔ وہیں شہید ہوئے، اسی طرح حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا نے 2011 میں وفات پائی، ان کی عمر کم از کم 22 سال تھی۔ بعض نے حضرت معصومہ کی تاریخ پیدائش یکم ذوالقعدہ 173 قمری سال اور وفات کی تاریخ 10 ربیع الثانی 201 قمری سال بھی بتائی ہے <ref>نورالآفاق، جواد شاه‌عبدالعظیمی</ref>.
حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کی زندگی کے بارے میں مختلف روایات ہیں۔ بعض نے اس کی عمر اٹھارہ یا اس سے زیادہ لکھی ہے۔ بعض دوسرے لوگوں کے نزدیک ان کے والد حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کو ہارون الرشید کے حکم سے 179 قمری میں گرفتار کر کے قید کر دیا گیا اور چار سال تک قید میں رہے۔ وہیں شہید ہوئے، اسی طرح حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا نے 2011 میں وفات پائی، ان کی عمر کم از کم 22 سال تھی۔ بعض نے حضرت معصومہ کی تاریخ پیدائش یکم ذوالقعدہ 173 قمری سال اور وفات کی تاریخ 10 ربیع الثانی 201 قمری سال بھی بتائی ہے <ref>نورالآفاق، جواد شاه‌عبدالعظیمی</ref>.
== حدیث راوی ==
== حدیث راوی ==
ان کی ایک خصوصیت یہ تھی کہ وہ علوم [[اسلام]] اور [[آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم]] سے واقف تھے اور حدیث کے راویوں میں سے تھے۔ متعدد احادیث میں حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا کا نام آیا ہے۔ علامہ امینی نے اپنی کتاب شریف الغدیر میں ان میں سے بعض کا حوالہ دیا ہے، جیسے:
عن فاطمه بنت علی بن موسی الرضا حدثتنی... «من کنت مولاه فعلی مولاه» <ref>علامه امینی، الغدیر، ج 1، ص 196</ref>.
ان احادیث کے بیان سے اس خاتون کے اعلیٰ علمی مرتبے کی نشاندہی ہوتی ہے۔
== اہل بیت کے ساتھ ان کا مقام ==
امام رضا علیہ السلام نے ایک روایت میں فرمایا: من زار المعصومة بقم کمن زارنی
جس نے قم میں معصومہ کی زیارت کی وہ میری زیارت کرنے والے کی طرح ہے۔ حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کے عصمت کے بارے میں بہت سی احادیث مروی ہیں لیکن امام رضا علیہ السلام کی یہ حدیث اس بات کی دلیل ہو سکتی ہے کہ حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کو عصمت کا درجہ حاصل تھا۔ آپ نے یہ لقب بھی حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کو دیا تھا، ورنہ اس نبی کا نام معصومہ نہ ہوتا۔ حضرت زینب سلام اللہ علیہا کی طرح حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا عصمت کے درجات میں سے ایک درجے میں ہیں، حالانکہ وہ چودہ درجے عصمت میں نہیں ہیں  <ref>ریاحین الشریعه، ج 5، ص 35</ref>۔
ان کے مرتبے کی دلیلوں میں سے ایک وہ احادیث ہیں جو امام رضا علیہ السلام نے ان کی شان میں بیان کی ہیں۔ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے بعد امام معصوم سے عورت کے لیے واحد زیارت نقل ہوئی ہے جو حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کی زیارت ہے اور خاندان عصمت و عصمت کی عورتوں میں سے کوئی بھی نہیں۔ پاکیزگی کو امام کی خاص زیارت ہے۔
وہ احادیث جو امام صادق علیہ السلام، امام کاظم علیہ السلام اور امام جواد علیہ السلام سے منقول ہیں: امام کاظم علیہ السلام کی بیٹی فاطمہ کی زیارت کرنے والے کے لیے جنت کا انعام ہے۔
== حضرت معصومہ کی وفات ==
ماہ ربیع الثانی کی 10 تاریخ کو حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا کا یوم وفات ہے۔ اپنے بھائی حضرت امام رضا علیہ السلام کی ایران آمد کے ایک سال بعد حضرت معصومہ اپنے کچھ بھائیوں اور بہنوں اور کچھ دوسرے رشتہ داروں کے ساتھ امام رضا علیہ السلام کی زیارت کے لیے ایران میں داخل ہوئیں۔
جعفر مرتضیٰ عاملی لکھتے ہیں: "حضرت معصومہ 22 افراد کے قافلے کے ساتھ ایران کے لیے روانہ ہوئیں جو علویوں اور امام رضا علیہ السلام کے بھائیوں پر مشتمل تھا تاکہ اس امام ہمام سے ملاقات کر سکے۔
البتہ بعض محققین نے اس قافلے میں شامل افراد کی تعداد 400 کے لگ بھگ بتائی ہے اور ان کا خیال ہے کہ ان میں سے 23 صویح میں مارے گئے تھے۔
حضرت معصومہ اور ان کے ساتھیوں کے سویح پہنچنے کے بعد حکومتی اہلکاروں نے ان سے جھڑپیں کیں اور اس قافلہ کے بہت سے لوگوں کو شہید کر دیا۔ البتہ بعض محققین نے اس قافلے میں شامل افراد کی تعداد 400 کے لگ بھگ بتائی ہے اور ان کا خیال ہے کہ ان میں سے 23 صویح میں مارے گئے تھے۔
حضرت معصومہ اور ان کے ساتھیوں کے سویح پہنچنے کے بعد حکومتی اہلکاروں نے ان سے جھڑپیں کیں اور اس قافلہ کے بہت سے لوگوں کو شہید کر دیا۔
اسی دوران وہ بیمار پڑ گئے۔ اس نے اپنے خادم سے پوچھا: یہاں سے قم کتنی دور ہے؟ خادم نے کہا: 10 فرسخ۔ حضرت نے فرمایا: مجھے یہاں سے قم منتقل کردو۔ اسی وقت موسیٰ بن خراج جو آل سعد کے بزرگوں میں سے تھے اور قم کے شیعوں میں سے تھے، حضرت معصومہ کی خدمت میں گئے اور ان کے گھوڑے کی لگام اٹھا کر انہیں اپنے گھر لے آئے۔
=== بیماری کی وجہ ===
بعض محققین کا خیال ہے کہ حضرت معصومہ کو ساوه میں زہر دیا گیا اور پھر وہ بیمار حالت میں قم میں داخل ہوئیں۔ اور تھوڑے ہی عرصے کے بعد شہید ہو گئے۔
محمدی اشتردی لکھتے ہیں: بعض روایات کے مطابق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو زہر دینے کا واقعہ ساوه میں ایک عورت نے کیا تھا۔
وہ بھی کہتے ہیں۔ حضرت معصومہ نے جب اپنے بھائیوں اور چچا زاد بھائیوں کی پھٹی ہوئی لاشیں دیکھی جو کہ 23 ​​افراد پر مشتمل تھیں تو بہت غمگین ہوئیں اور بیمار پڑ گئیں۔ 23 ربیع الاول کو حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کی قم آمد کے بعد آپ نے 15 دن تک موسیٰ بن خرج کے گھر میں قیام کیا۔ اور اس دوران وہ اپنی بیماری کے ساتھ عبادت اور خدا کی ضرورت میں مصروف رہے۔
== وفات ==
مشہور قول یہ ہے کہ حضرت معصومہ 23 ربیع الاول کو قم میں داخل ہونے کے بعد 17 دن سے زیادہ زندہ نہ رہیں۔ اس لیے ان کی وفات 10 ربیع الثانی کو ہوئی ہوگی۔ علی اکبر مہدی پور لکھتے ہیں: حضرت معصومہ کی وفات کا دن 10 ربیع الثانی 201 ہجری تھا۔
حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کی وفات کے بعد آل سعد کی عورتوں نے بی بی فاطمہ معصومہ کو غسل دیا اور کفن دیا، پھر ان کی میت کو موسیٰ بن خراج کے باغ (ان کے مقدس مزار کا موجودہ مقام) لے جایا گیا۔ اس وقت اشعری لوگوں میں جھگڑا ہوا کہ اس میت کو دفن کرنے کا حقدار کون ہے... اچانک دریائے قم سے دو نقاب پوش سوار آئے اور جب وہ میت مقدس کے قریب پہنچے تو اپنے گھوڑوں سے اتر گئے۔ پہلے اس پر نماز پڑھی اور پھر اس تہہ خانے میں داخل ہوئے جو اس کی تدفین کے لیے تیار کیا گیا تھا اور ایک دوسرے کی مدد سے اسے دفن کیا۔ اور وہ کسی سے بات کیے بغیر وہاں سے چلے گئے۔ کسی کو سمجھ نہیں آئی کہ وہ کون ہیں۔
بعض محققین نے تجویز کیا ہے کہ یہ دو سوار [[امام رضا علیہ السلام]] اور [[امام جواد علیہ السلام]] تھے۔ خیال رہے کہ حضرت معصومہ کی ولادت ذوالقعدہ 173 ہجری میں ہوئی۔ اور آپ کی وفات کے وقت یعنی سنہ 201 ہجری کے مطابق آپ کی وفات کے وقت آپ کی عمر مبارک 28 سال تھی<ref>نمازی، شیخ علی؛ مستدرک سفینة البحار، مشهد، چاپخانه خراسان، ج8، ص 257</ref>.


== حوالہ جات ==
== حوالہ جات ==
{{حوالہ جات}}
{{حوالہ جات}}
[[fa:حضرت معصومه]]
[[fa:حضرت معصومه]]
[[زمرہ:امام زادہ ]]

حالیہ نسخہ بمطابق 10:59، 24 مئی 2023ء

حضرت معصومه 2.jpg

حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا پاکیزگی اور معصومیت کے گھرانے کی ایک باوقار لڑکی تھیں۔ شیعہ فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا کا احترام کرتے ہیں اور قم میں ان کی زیارت کو بہت اہمیت دیتے ہیں۔ جو احادیث حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کے بارے میں بیان کرتی ہیں ان میں شیعوں کے لیے ان کی شفاعت کا ذکر کیا گیا ہے اور جنت کو ان کی زیارت کا ثواب سمجھا گیا ہے۔ آپ کے والد شیعوں کے ساتویں امام حضرت موسیٰ بن جعفر علیہ السلام تھے اور آپ کی والدہ حضرت نجمہ تھیں جنہیں ان کی پاکیزگی اور پاکیزگی کی وجہ سے طاہرہ کہا جاتا تھا۔ حضرت معصومہ کی شہادت 28 سال کی عمر میں 12 ربیع الثانی سنہ 201 ہجری کو قم میں ہوئی۔ کہ حضرت دراصل دوسری بتول تھیں اور حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کے وجود کا مظہر تھے۔ آپ کو اپنی روح کی پاکیزگی میں ایک خاص اور بہت اعلیٰ فضیلت حاصل تھی کہ آٹھویں امام نے اپنے جسمانی بھائی کو جس کا نام فاطمہ معصومہ تھا، بلایا۔ فرمایا: جس نے قم میں حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کی زیارت کی وہ اس شخص کی طرح ہے جس نے میری زیارت کی۔ ان کے علم و عرفان کا مقام اس مرحلے پر ہے جہاں ہم ان کی غیر معروف زیارت کے ایک پیراگراف میں پڑھتے ہیں: السلام علیکم اے فاطمہ بنت موسیٰ بن جعفر اور موسیٰ بن جعفر کی طرف سے حجت و امین۔

سوانح حیات

حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا نے مدینہ منورہ میں پہلی ذوالقعدہ سنہ 173 ہجری کو دنیا میں آنکھ کھولی۔ آپ کے والد محترم حضرت موسیٰ بن جعفر علیہ السلام ہیں جو شیعوں کے ساتویں امام ہیں اور آپ کی والدہ نجمہ حضرت امام رضا علیہ السلام کی والدہ ہیں۔ نجمہ سب سے زیادہ نیک خواتین میں سے ایک ہے، تقویٰ اور عزت کے بت میں سے ایک ہے، اور بنی نوع انسان کی تاریخ میں نایاب ترین منشیات میں سے ایک ہے۔

حضرت موسیٰ بن جعفر علیہ السلام کی اولاد کی تعداد اور ان میں سے کتنے کا نام فاطمہ رکھا گیا اس میں اختلاف ہے۔ شیخ مفید نے ان کی تعداد سینتیس بتائی ہے۔ انیس لڑکے اور اٹھارہ لڑکیاں، جن میں سے دو کا نام فاطمہ تھا۔ فاطمہ الکبری اور فاطمہ الصغریٰ۔ امام رضا علیہ السلام کے بعد حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا زیادہ نیک ہیں اور حضرت موسی بن جعفر علیہ السلام کی دیگر اولادوں سے بلند مقام رکھتی ہیں [1].

ان سالوں میں وہ اپنے والد کے ساتھ تھے۔ 10 سال کی عمر میں آپ کے والد حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کو ہارون نے شہید کر دیا۔ غم اور تنہائی کے ان دنوں میں ان کی تسلی کا واحد ذریعہ ان کے بھائی امام رضا علیہ السلام تھے جنہوں نے اچانک امام رضا علیہ السلام کو خراسان میں رہنے پر مجبور کر دیا۔

وہ 201 ہجری میں تھے۔ مرو میں امام رضا علیہ السلام کی آمد کے ایک سال بعد آپ اپنے بھائی سے ملنے کے لیے باہر نکلے۔ لیکن وہ راستے میں اور سیوح شہر میں بیمار ہو گیا۔ پھر پوچھا کہ سویح اور قم کے درمیان کتنا فاصلہ ہے؟ انہوں نے کہا: دس فرسخ۔ اس نے اپنے خادم سے کہا کہ اسے اٹھا کر قم لے آؤ اور وہ موسیٰ بن جعفر خزرج بن سعد اشعری کے گھر اترے۔

ایک اور روایت کے مطابق اور حسن بن محمد بن حسن قمی نے تاریخ قم میں لکھا ہے، صحیح روایت کے مطابق جب رات کو یہ خبر آل سعد تک پہنچی تو اسی رات موسیٰ بن خزرج ان کی طرف سے قم سے نکلے۔ انہیں قم میں مدعو کرنے کے لیے حضرت کی زیارت کرنے اور ان کی دعوت قبول کرنے کے بعد آپ نے خود اپنے اونٹ کی لگام سنبھالی اور اسے قم اور اپنے گھر لے آئے۔ سترہ دن موسی بن خزرج کے گھر میں رہنے کے بعد ان کا انتقال ہوا۔ ان کی میت کو موسیٰ بن خزرج کی طرف سے نماز ادا کرنے کے بعد بابولان (موجودہ جگہ) کے باغ میں دفن کیا گیا۔

حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کی زندگی کے بارے میں مختلف روایات ہیں۔ بعض نے اس کی عمر اٹھارہ یا اس سے زیادہ لکھی ہے۔ بعض دوسرے لوگوں کے نزدیک ان کے والد حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کو ہارون الرشید کے حکم سے 179 قمری میں گرفتار کر کے قید کر دیا گیا اور چار سال تک قید میں رہے۔ وہیں شہید ہوئے، اسی طرح حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا نے 2011 میں وفات پائی، ان کی عمر کم از کم 22 سال تھی۔ بعض نے حضرت معصومہ کی تاریخ پیدائش یکم ذوالقعدہ 173 قمری سال اور وفات کی تاریخ 10 ربیع الثانی 201 قمری سال بھی بتائی ہے [2].

حدیث راوی

ان کی ایک خصوصیت یہ تھی کہ وہ علوم اسلام اور آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے واقف تھے اور حدیث کے راویوں میں سے تھے۔ متعدد احادیث میں حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا کا نام آیا ہے۔ علامہ امینی نے اپنی کتاب شریف الغدیر میں ان میں سے بعض کا حوالہ دیا ہے، جیسے:

عن فاطمه بنت علی بن موسی الرضا حدثتنی... «من کنت مولاه فعلی مولاه» [3]. ان احادیث کے بیان سے اس خاتون کے اعلیٰ علمی مرتبے کی نشاندہی ہوتی ہے۔

اہل بیت کے ساتھ ان کا مقام

امام رضا علیہ السلام نے ایک روایت میں فرمایا: من زار المعصومة بقم کمن زارنی

جس نے قم میں معصومہ کی زیارت کی وہ میری زیارت کرنے والے کی طرح ہے۔ حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کے عصمت کے بارے میں بہت سی احادیث مروی ہیں لیکن امام رضا علیہ السلام کی یہ حدیث اس بات کی دلیل ہو سکتی ہے کہ حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کو عصمت کا درجہ حاصل تھا۔ آپ نے یہ لقب بھی حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کو دیا تھا، ورنہ اس نبی کا نام معصومہ نہ ہوتا۔ حضرت زینب سلام اللہ علیہا کی طرح حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا عصمت کے درجات میں سے ایک درجے میں ہیں، حالانکہ وہ چودہ درجے عصمت میں نہیں ہیں [4]۔

ان کے مرتبے کی دلیلوں میں سے ایک وہ احادیث ہیں جو امام رضا علیہ السلام نے ان کی شان میں بیان کی ہیں۔ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے بعد امام معصوم سے عورت کے لیے واحد زیارت نقل ہوئی ہے جو حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کی زیارت ہے اور خاندان عصمت و عصمت کی عورتوں میں سے کوئی بھی نہیں۔ پاکیزگی کو امام کی خاص زیارت ہے۔ وہ احادیث جو امام صادق علیہ السلام، امام کاظم علیہ السلام اور امام جواد علیہ السلام سے منقول ہیں: امام کاظم علیہ السلام کی بیٹی فاطمہ کی زیارت کرنے والے کے لیے جنت کا انعام ہے۔

حضرت معصومہ کی وفات

ماہ ربیع الثانی کی 10 تاریخ کو حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا کا یوم وفات ہے۔ اپنے بھائی حضرت امام رضا علیہ السلام کی ایران آمد کے ایک سال بعد حضرت معصومہ اپنے کچھ بھائیوں اور بہنوں اور کچھ دوسرے رشتہ داروں کے ساتھ امام رضا علیہ السلام کی زیارت کے لیے ایران میں داخل ہوئیں۔


جعفر مرتضیٰ عاملی لکھتے ہیں: "حضرت معصومہ 22 افراد کے قافلے کے ساتھ ایران کے لیے روانہ ہوئیں جو علویوں اور امام رضا علیہ السلام کے بھائیوں پر مشتمل تھا تاکہ اس امام ہمام سے ملاقات کر سکے۔

البتہ بعض محققین نے اس قافلے میں شامل افراد کی تعداد 400 کے لگ بھگ بتائی ہے اور ان کا خیال ہے کہ ان میں سے 23 صویح میں مارے گئے تھے۔

حضرت معصومہ اور ان کے ساتھیوں کے سویح پہنچنے کے بعد حکومتی اہلکاروں نے ان سے جھڑپیں کیں اور اس قافلہ کے بہت سے لوگوں کو شہید کر دیا۔ البتہ بعض محققین نے اس قافلے میں شامل افراد کی تعداد 400 کے لگ بھگ بتائی ہے اور ان کا خیال ہے کہ ان میں سے 23 صویح میں مارے گئے تھے۔ حضرت معصومہ اور ان کے ساتھیوں کے سویح پہنچنے کے بعد حکومتی اہلکاروں نے ان سے جھڑپیں کیں اور اس قافلہ کے بہت سے لوگوں کو شہید کر دیا۔

اسی دوران وہ بیمار پڑ گئے۔ اس نے اپنے خادم سے پوچھا: یہاں سے قم کتنی دور ہے؟ خادم نے کہا: 10 فرسخ۔ حضرت نے فرمایا: مجھے یہاں سے قم منتقل کردو۔ اسی وقت موسیٰ بن خراج جو آل سعد کے بزرگوں میں سے تھے اور قم کے شیعوں میں سے تھے، حضرت معصومہ کی خدمت میں گئے اور ان کے گھوڑے کی لگام اٹھا کر انہیں اپنے گھر لے آئے۔

بیماری کی وجہ

بعض محققین کا خیال ہے کہ حضرت معصومہ کو ساوه میں زہر دیا گیا اور پھر وہ بیمار حالت میں قم میں داخل ہوئیں۔ اور تھوڑے ہی عرصے کے بعد شہید ہو گئے۔ محمدی اشتردی لکھتے ہیں: بعض روایات کے مطابق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو زہر دینے کا واقعہ ساوه میں ایک عورت نے کیا تھا۔

وہ بھی کہتے ہیں۔ حضرت معصومہ نے جب اپنے بھائیوں اور چچا زاد بھائیوں کی پھٹی ہوئی لاشیں دیکھی جو کہ 23 ​​افراد پر مشتمل تھیں تو بہت غمگین ہوئیں اور بیمار پڑ گئیں۔ 23 ربیع الاول کو حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کی قم آمد کے بعد آپ نے 15 دن تک موسیٰ بن خرج کے گھر میں قیام کیا۔ اور اس دوران وہ اپنی بیماری کے ساتھ عبادت اور خدا کی ضرورت میں مصروف رہے۔

وفات

مشہور قول یہ ہے کہ حضرت معصومہ 23 ربیع الاول کو قم میں داخل ہونے کے بعد 17 دن سے زیادہ زندہ نہ رہیں۔ اس لیے ان کی وفات 10 ربیع الثانی کو ہوئی ہوگی۔ علی اکبر مہدی پور لکھتے ہیں: حضرت معصومہ کی وفات کا دن 10 ربیع الثانی 201 ہجری تھا۔

حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کی وفات کے بعد آل سعد کی عورتوں نے بی بی فاطمہ معصومہ کو غسل دیا اور کفن دیا، پھر ان کی میت کو موسیٰ بن خراج کے باغ (ان کے مقدس مزار کا موجودہ مقام) لے جایا گیا۔ اس وقت اشعری لوگوں میں جھگڑا ہوا کہ اس میت کو دفن کرنے کا حقدار کون ہے... اچانک دریائے قم سے دو نقاب پوش سوار آئے اور جب وہ میت مقدس کے قریب پہنچے تو اپنے گھوڑوں سے اتر گئے۔ پہلے اس پر نماز پڑھی اور پھر اس تہہ خانے میں داخل ہوئے جو اس کی تدفین کے لیے تیار کیا گیا تھا اور ایک دوسرے کی مدد سے اسے دفن کیا۔ اور وہ کسی سے بات کیے بغیر وہاں سے چلے گئے۔ کسی کو سمجھ نہیں آئی کہ وہ کون ہیں۔

بعض محققین نے تجویز کیا ہے کہ یہ دو سوار امام رضا علیہ السلام اور امام جواد علیہ السلام تھے۔ خیال رہے کہ حضرت معصومہ کی ولادت ذوالقعدہ 173 ہجری میں ہوئی۔ اور آپ کی وفات کے وقت یعنی سنہ 201 ہجری کے مطابق آپ کی وفات کے وقت آپ کی عمر مبارک 28 سال تھی[5].

حوالہ جات

  1. سیرت حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا، مختار اصلانی
  2. نورالآفاق، جواد شاه‌عبدالعظیمی
  3. علامه امینی، الغدیر، ج 1، ص 196
  4. ریاحین الشریعه، ج 5، ص 35
  5. نمازی، شیخ علی؛ مستدرک سفینة البحار، مشهد، چاپخانه خراسان، ج8، ص 257