"موسی بن جعفر" کے نسخوں کے درمیان فرق

ویکی‌وحدت سے
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
 
(ایک ہی صارف کا 4 درمیانی نسخے نہیں دکھائے گئے)
سطر 56: سطر 56:


کہا گیا ہے کہ ہارون امام کاظم کے ساتھ شیعوں کے تعلقات کے بارے میں حساس تھا اور اسے ڈر تھا کہ اس کی امامت پر شیعوں کا عقیدہ اس کی حکومت کو کمزور کر دے گا۔ نیز بعض روایتوں کے مطابق امام کاظم (ع) کی قید کی وجہ یہ تھی کہ بعض شیعوں جیسے ہشام بن حکم نے امام کی درخواست کی تعمیل نہیں کی حالانکہ امام نے تقیہ کا حکم دیا تھا۔
کہا گیا ہے کہ ہارون امام کاظم کے ساتھ شیعوں کے تعلقات کے بارے میں حساس تھا اور اسے ڈر تھا کہ اس کی امامت پر شیعوں کا عقیدہ اس کی حکومت کو کمزور کر دے گا۔ نیز بعض روایتوں کے مطابق امام کاظم (ع) کی قید کی وجہ یہ تھی کہ بعض شیعوں جیسے ہشام بن حکم نے امام کی درخواست کی تعمیل نہیں کی حالانکہ امام نے تقیہ کا حکم دیا تھا۔
ان رپورٹوں میں ہشام ابن حکیم کے مباحث کو امام کی قید کی وجوہات میں سے ایک کے طور پر درج کیا گیا ہے  <ref>قریشی، حیات الامام موسیٰ بن جعفر، جلد 2، صفحہ 516-517.125</ref>
ان رپورٹوں میں ہشام ابن حکیم کے مباحث کو امام کی قید کی وجوہات میں سے ایک کے طور پر درج کیا گیا ہے  <ref>قریشی، حیات الامام موسیٰ بن جعفر، جلد 2، صفحہ 516-517.125</ref>.
۔
== شہادت ==
امام کاظم کی زندگی کے آخری ایام سیندی بن شہیک جیل میں گزرے۔ شیخ مفید نے کہا کہ سندی نے ہارون الرشید کے حکم سے امام کو زہر دیا اور تین دن بعد امام کو شہید کر دیا گیا۔
مشور کے مطابق،  آپ کی شہادت 25 رجب قمری سنہ 183ء بروز جمعہ بغداد میں ہوئی۔ شیخ مفید کے مطابق امام کی شہادت 24 رجب کو ہوئی۔
امام کاظم علیہ السلام کی شہادت کے وقت اور مقام کے بارے میں اور بھی اقوال ہیں، جیسے 181 اور 186 ہجری۔
 
موسی بن جعفر علیہ السلام کے شہید ہونے کے بعد سندی بن شہک نے یہ ظاہر کرنے کے لیے کہ امام کی وفات فطری طور پر ہوئی ہے، بغداد کے مشہور فقہاء اور علماء کو لایا اور انہیں امام کا جسد خاکی دکھایا تاکہ وہ دیکھ سکیں۔ امام کے جسم پر کوئی زخم نہیں ہے۔ نیز ان کے حکم سے انہوں نے امام کا جسد خاکی بغداد کے پل پر رکھ دیا اور اعلان کیا کہ موسیٰ بن جعفر کی وفات فطری وجہ سے ہوئی ہے۔ اس کی گواہی کے بارے میں مختلف روایتیں ہیں۔ اکثر مورخین کا خیال ہے کہ یحییٰ بن خالد اور سندی بن شہک نے اسے زہر دیا ایک رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ انہوں نے اسے قالین میں لپیٹ کر شہید کیا۔
 
امام کاظم علیہ السلام کے جسد خاکی کو عوام کے سامنے رکھنے کی دو وجوہات بیان کی گئی ہیں: ایک یہ ثابت کرنا کہ آپ کی وفات فطری ہوئی ہے اور دوسری وجہ ان لوگوں کے عقیدہ کو باطل کرنا ہے جو ان کی مہدیت پر ایمان رکھتے ہیں۔ انہوں نے موسیٰ بن جعفر (ع) کے جسد خاکی کو منصور داوانغی کے خاندانی مقبرے میں دفن کیا جو قریش کے مقبرے کے نام سے مشہور تھا۔
 
ان کا مقبرہ کاظمین کے مزار کے نام سے جانا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ عباسیوں کی طرف سے امام کے جسد خاکی کو اس مقبرے میں دفن کرنے کی وجہ یہ خوف تھا کہ ان کی تدفین کی جگہ شیعوں کے اجتماع کی جگہ بن جائے گی۔  <ref>قریشی، حیات الامام موسیٰ بن جعفر، جلد 2، 137-373-231</ref>


== حواله جات ==
== حواله جات ==
{{حوالہ جات}}
{{حوالہ جات}}
[[زمرہ: شیعہ آئمہ]]
[[زمرہ: شیعہ آئمہ]]
[[زمرہ: چودہ معصومین ]]
[[fa:موسی بن جعفر]]
[[fa:موسی بن جعفر]]
[[زمرہ:اہل بیت ]]

حالیہ نسخہ بمطابق 05:05، 21 مئی 2023ء

امام موسی کاظم.jpg

موسی بن جعفر (127 یا 128-183 ہجری) امام موسی کاظم کے نام سے جانا جاتا ہے اور کاظم اور باب الحوائج کے نام سے جانا جاتا ہے بارہ شیعوں کے ساتویں امام ہیں ۔ آپ 128 ہجری میں اسی وقت پیدا ہوئے جب بنو امیہ سے عباسیوں کو اقتدار منتقل ہوا اور 148 ہجری میں اپنے والد امام صادق علیہ السلام کی شہادت کے بعد امامت پر فائز ہوئے ۔ ان کی 35 سال کی امامت منصور، ہادی، مہدی اور ہارون عباسی کی خلافت کے ساتھ ہوئی ۔ آپ کو مہدی اور ہارون عباسی نے متعدد بار قید کیا اور 183 ہجری میں سندی بن شاہک جیل میں شہید کر دیا گیا ۔ ان کی شہادت کے ساتھ ہی امامت ان کے بیٹے علی ابن موسیٰ (ع) کو دی گئی۔منتقل کیا گیا تھا امام کاظم علیہ السلام کی امامت کا زمانہ خلافت عباسیہ کے اقتدار کے عروج کے ساتھ موافق تھا اور آپ نے حکومت وقت کے خلاف تقیہ کیا اور شیعوں کو بھی ایسا کرنے کا حکم دیا۔ اس لیے شیعوں کے ساتویں امام نے عباسی خلفاء اور علوی بغاوتوں جیسے کہ شہید فخ کی بغاوت کے خلاف کوئی واضح موقف اختیار نہیں کیا۔ اس کے باوجود اس نے عباسی خلفاء اور دیگر لوگوں کے ساتھ مباحثوں اور گفتگو میں خلافت عباسیہ کو غیر قانونی قرار دینے کی کوشش کی۔

بعض یہودی اور عیسائی علماء کے ساتھ موسیٰ بن جعفر کی بحثیں اور گفتگویں تاریخی اور حدیثی منابع میں نقل ہوئی ہیں جو ان کے سوالات کے جواب میں تھیں۔ مسند الامام کاظم میں ان کی تین ہزار سے زائد احادیث جمع ہیں، جن میں سے بعض کو بعض صحابہ کرام نے روایت کیا ہے۔ امام کاظم علیہ السلام نے شیعوں کے ساتھ رابطہ قائم کرنے کے لیے وکلاء تنظیم کو وسعت دی اور مختلف علاقوں میں لوگوں کو وکیل مقرر کیا۔ دوسری طرف امام کاظم علیہ السلام کی زندگی شیعوں میں تفرقہ کے ظہور کے ساتھ موافق ہوئی اور آپ کی امامت کے آغاز کے ساتھ ہی اسماعیلیہ ، الفتحیہ اور نووسیہ کے فرقے قائم ہوئے اور آپ کی شہادت کے بعد فرقہ وقوفیہ قائم ہوا۔ شیعہ اور سنی ذرائعان کے علم، عبادت، رواداری اور سخاوت کی وجہ سے ان کی تعریف کی گئی اور انہیں کاظم اور عبدالصالح کے لقب سے پکارا گیا۔ سنی عمائدین نے 7ویں شیعہ امام کا ایک عالم دین کی حیثیت سے احترام کیا اور شیعوں کی طرح ان کی قبر کی زیارت کی۔ بغداد کے شمال میں کاظمین کے علاقے میں امام کاظم علیہ السلام اور ان کے پوتے امام جواد علیہ السلام کا مزار کاظمین کے نام سے جانا جاتا ہے اور مسلمانوں خصوصاً شیعوں کے لیے زیارت گاہ ہے

سوانح عمری

موسی بن جعفر ذوالحجہ 127 قمری سال یا 7 صفر 128 قمری سال [1] میں پیدا ہوئے جب امام صادق علیہ السلام اور ان کی اہلیہ حمیدہ حج سے واپس آ رہے تھے ، آپ کی ولادت ابووا کے علاقے میں ہوئی۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ مدینہ میں قمری سال 129 میں پیدا ہوئے تھے ۔ بعض ذرائع نے امام صادق علیہ السلام کی عظیم دلچسپی کے بارے میں اطلاع دی ہے [2].

احمد برقی کی روایت کے مطابق امام صادق علیہ السلام نے اپنے بیٹے موسیٰ کی پیدائش کے بعد تین دن تک لوگوں کو کھانا کھلایا۔ موسی بن جعفر بن محمد بن علی بن حسین بن علی بن ابی طالب کا نسب چار ثالثوں کے ذریعے امام علی علیہ السلام تک پہنچتا ہے۔ ان کے والد امام صادق علیہ السلام شیعوں کے چھٹے امام ہیں اور ان کی والدہ حمیدہ بربیریا ہیں۔ ان کا لقب ابو ابراہیم، ابو الحسن اول، ابو الحسن ماضی اور ابو علی تھا۔ دوسروں کے برے برتاؤ کے خلاف اپنے غصے کو قابو میں رکھنے کی وجہ سے ان کا لقب کاظم رکھا گیا اور عبد صالح اپنی عظیم عبادت کی وجہ سے۔ باب الحوائج بھی ان کے لقبوں میں سے ایک ہے اور اہل مدینہ نے انہیں زین المجتہدین (جہد کرنے والوں کا زیور) کہا [3]

موسی بن جعفر بنو امیہ سے عباسیوں کو اقتدار کی منتقلی کے دوران پیدا ہوئے۔ چار سال کی عمر میں پہلا عباسی خلیفہ اقتدار میں آیا۔ امام کاظم علیہ السلام کی امامت تک کی زندگی کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں ہیں، سوائے ان کے بچپن میں ہونے والی چند سائنسی گفتگووں کے، جن میں ابو حنیفہ اور دیگر مذاہب کے علماء کے ساتھ مکالمے بھی شامل ہیں جو مدینہ میں ہوئیں [4].

مناقب کی روایت کے مطابق وہ شام کے ایک گاؤں میں گمنامی میں داخل ہوا اور وہاں ایک راہب سے گفتگو کی جس کی وجہ سے وہ اور اس کے ساتھی مسلمان ہوگئے [5] امام کے حج یا عمرہ کے لیے مکہ کے دوروں کی بھی اطلاعات ہیں عباسی خلفاء کی طرف سے امام کو کئی بار بغداد بلوایا گیا۔ ان صورتوں کے علاوہ امام نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ مدینہ میں گزارا ہے [6]

موسیٰ بن جعفر، 148ھ میں امام صادق علیہ السلام کی شہادت کے بعد۔ آپ 20 سال کی عمر میں امام بنے۔ ان کی امامت کا دور چار عباسی خلفاء کی خلافت سے ہم آہنگ تھا۔ منصور کی خلافت (حکومت 158-136 ہجری) میں ان کی امامت کے تقریباً 10 سال، مہدی عباسی کی خلافت میں 11 سال (حکومت 158-169 ہجری)، ہادی عباسی کی خلافت میں ایک سال (حکومت 169 ہجری)۔ 170ھ) اور ہارون کی خلافت میں 13 سال (حکومت 170-193ھ) گزرے [7]. موسیٰ بن جعفر کی امامت کی مدت 35 سال تھی اور 183 ہجری میں ان کی شہادت کے ساتھ ہی امامت ان کے فرزند امام رضا علیہ السلام کو منتقل ہوئی [8].

امامت کے نصوص

شیعہ نقطہ نظر سے امام خدا کی طرف سے متعین ہوتا ہے اور اسے پہچاننے کا ایک طریقہ متن (پیغمبر اکرم (ص) کا بیان یا ان کے بعد کے امام کی امامت سے پچھلے امام کا بیان) ہے [9] امام صادق نے متعدد مواقع پر اپنے قریبی ساتھیوں کو موسیٰ بن جعفر کی امامت کا اعلان کیا تھا۔ کافی، طبرسی ارشاد الواری کا اعلان [10]اور بحار الانوار [11] میں سے ہر ایک میں موسی بن جعفر علیہ السلام کی امامت کے نصوص کے بارے میں ایک باب ہے، جو بالترتیب اس میں 16، 46، 12 اور 14 روایات ہیں، انہوں نے اس کے بارے میں نقل کیا ہے، بشمول: ایک روایت میں فیض بن مختار کہتے ہیں کہ میں نے امام صادق علیہ السلام سے پوچھا کہ آپ کے بعد امام کون ہے؟ اس وقت ان کا بیٹا موسیٰ آیا اور امام صادق علیہ السلام نے ان کا تعارف اگلے امام کے طور پر کرایا۔ علی بن جعفر روایت کرده که امام صادق(ع) درباره موسی بن جعفر فرمود: «فَإِنَّهُ أَفْضَلُ وُلْدِی وَ مَنْ أُخَلِّفُ مِنْ بَعْدِی وَ هُوَ الْقَائِمُ مَقَامِی وَ الْحُجَّةُ لِلَّهِ تَعَالَی عَلَی کَافَّةِ خَلْقِهِ مِنْ بَعْدِی ؛ وہ میری اولاد اور زندہ رہنے والوں میں سب سے بہتر ہے اور وہی ہے جو میرے بعد میری جگہ پر رکھا جائے گا اور میرے بعد وہ تمام مخلوقات پر خدا کا حاکم ہے۔ ایون اخبار الرضا میں یہ بھی آیا ہے کہ ہارون الرشید نے اپنے بیٹے کو مخاطب کرتے ہوئے موسیٰ بن جعفر کو صحیح امام اور پیغمبر اکرم (ص) کی جانشینی کا سب سے زیادہ حقدار قرار دیا اور ان کی قیادت کو ظاہری اور زبردست قرار دیا مجلسی، [12].

امام صادق کی وصیت

ذرائع کے مطابق امام صادق علیہ السلام نے امام کاظم علیہ السلام کی زندگی کو محفوظ رکھنے کے لیے عباسی خلیفہ سمیت پانچ افراد کو اپنے ولی عہد کے طور پر متعارف کرایا۔ اگرچہ امام صادق نے اپنے بعد کے امام کا اپنے خاص اصحاب سے بار بار تعارف کرایا تھا، لیکن اس عمل نے شیعوں کے لیے صورت حال کو کسی حد تک ابہام کا شکار کر دیا۔ اس دور میں امام صادق کے بعض ممتاز اصحاب مثلاً مومن تق اور ہشام ابن سالم کو بھی شکوک و شبہات کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ سب سے پہلے عبداللہ عفت کے پاس گئے جو امامت کا دعویٰ کرتا تھا اور اس سے زکوٰۃ کے بارے میں پوچھا ۔ لیکن عبداللہ کے جوابات سے انہیں یقین نہیں آیا۔ پھر دونوں نے موسیٰ بن جعفر سے ملاقات کی اور ان کے جوابات سے مطمئن ہو کر ان کی امامت قبول کر لی [13].

شیعہ میں تقسیم

موسی بن جعفر کی امامت کے دوران اسماعیلیہ، فتحیہ اور نووسیہ فرقے قائم ہوئے۔ اگرچہ امام صادق علیہ السلام کے زمانے میں شیعوں میں تفرقہ کی زمین تیار ہو چکی تھی لیکن ان میں تفرقہ پیدا نہیں ہوا۔ لیکن امام صادق کی شہادت اور موسیٰ بن جعفر کی امامت کے آغاز کے ساتھ ہی شیعہ مختلف فرقوں میں بٹ گئے۔ ان میں سے ایک گروہ نے امام صادق علیہ السلام کے فرزند اسماعیل کی وفات کا انکار کیا اور انہیں امام مانا۔ اس گروہ میں سے کچھ جو اسماعیل کی زندگی سے مایوس تھے، ان کے بیٹے محمد کو امام مانتے تھے۔ یہ گروہ اسماعیلیہ کے نام سے مشہور ہوا۔ دوسرے عبداللہ عفت کو امام مانتے تھے اور فاتحہ کے نام سے مشہور ہوئے، لیکن ان کی وفات کے بعد، جو امام صادق کی شہادت کے تقریباً 70 دن بعد ہوئی، وہ موسیٰ بن جعفر کی امامت پر ایمان لائے۔ ان میں سے بعض نے حضرت صادق کی امامت میں نواس نامی شخص کی پیروی چھوڑ دی اور بعض محمد دباج کی امامت پر ایمان لے آئے [14].

غالیان کی سرگرمی

امام کاظم علیہ السلام کے دور میں بھی غالیان سرگرم تھے۔ اس دور میں بشیریہ فرقہ قائم ہوا جو موسیٰ بن جعفر کے ساتھیوں میں سے ایک محمد بن بشیر سے منسوب تھا۔ اس نے اپنی زندگی میں امام سے جھوٹ بولا۔

محمد بن بشیر نے کہا کہ جس شخص کو لوگ موسیٰ بن جعفر کے نام سے جانتے ہیں وہ موسیٰ بن جعفری نہیں ہے جو امام اور خدا کی دلیل ہے اور اس نے دعویٰ کیا کہ موسیٰ بن جعفر اس کے نزدیک حقیقی ہے اور وہ دکھا سکتا ہے۔ وہ امام.

وہ جادو میں ماہر تھا اور اس نے امام کاظم (ع) کے چہرے جیسا چہرہ بنا کر لوگوں کو امام کاظم (ع) کے طور پر دکھایا اور کچھ لوگ اس کے فریب میں آگئے۔ محمد بن بشیر اور ان کے پیروکاروں نے امام کاظم علیہ السلام کی شہادت سے پہلے معاشرے میں یہ افواہیں پھیلائی تھیں کہ امام کاظم علیہ السلام جیل میں نہیں گئے اور نہ ہی زندہ ہیں اور نہ مریں گے ۔ امام کاظم نے محمد بن بشیر کو نجس سمجھا اور اس پر لعنت کی اور اس کا خون بہانا جائز سمجھا [15]

اخلاقی زندگی

شیعہ اور سنی ذرائع میں امام کاظم علیہ السلام کی رواداری اور سخاوت کے بارے میں مختلف رپورٹیں ملتی ہیں ۔ شیخ مفید اسے اپنے وقت کے سب سے زیادہ سخی لوگ مانتے تھے، جو رات کو مدینہ کے غریبوں کے لیے رزق اٹھاتے تھے۔ ابن عنبہ نے موسیٰ بن جعفر کی سخاوت کے بارے میں کہا: وہ رات کو گھر سے نکلتے تھے اور اپنے ساتھ درہم کی تھیلیاں لے جاتے تھے اور کسی کو یا اس کی مہربانیوں کو دیکھنے والوں کو دیتے تھے، یہاں تک کہ اس کے پیسوں کی تھیلیاں مشہور ہو جاتی تھیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ موسیٰ بن جعفر نے ان لوگوں کو معاف کر دیا جنہوں نے انہیں تکلیف پہنچائی اور جب انہوں نے انہیں اطلاع دی کہ کوئی انہیں تکلیف پہنچانے کی کوشش کر رہا ہے تو انہوں نے انہیں تحفہ بھیجا۔ اس کے علاوہ شیخ مفید امام کاظم علیہ السلام کو اپنے خاندان اور دیگر رشتہ داروں کے ساتھ صلح کرنے میں سب سے زیادہ محنتی سمجھا جاتا ہے۔ مختلف منابع میں نقل ہوا ہے کہ امام کاظم علیہ السلام اپنے غصے کو اپنے دشمنوں اور ان کو نقصان پہنچانے والوں پر نکالتے ہیں۔ دوسری باتوں کے علاوہ یہ بھی کہا گیا ہے کہ عمر بن خطاب کی اولاد میں سے ایک شخص نے امام کاظم کی موجودگی میں امام علی علیہ السلام کی شان میں گستاخی کی۔ امام کے ساتھیوں نے اس پر حملہ کرنا چاہا لیکن امام نے اسے روک دیا اور پھر اس آدمی کے کھیت میں چلے گئے۔ جب اس شخص نے امام کاظم کو دیکھا تو چیخنے لگا کہ ان کی فصلوں کو روندنا نہیں چاہیے۔ امام اس کے پاس گئے اور شائستگی سے پوچھا کہ تم نے کھیت لگانے پر کتنا خرچ کیا؟ آدمی نے کہا: 100 دینار! پھر پوچھا: تم اس سے کتنے لینے کی امید رکھتے ہو؟ اس آدمی نے جواب دیا کہ میں جادو نہیں جانتا۔ امام علیہ السلام نے فرمایا: میں نے کہا تم اس سے کتنا لینے کی امید رکھتے ہو؟ آدمی نے جواب دیا: 200 دینار! امام نے اسے 300 دینار دیے اور فرمایا: یہ 300 دینار تمہارے لیے ہیں اور تمہاری فصل بھی تمہارے لیے رہ گئی ہے۔ پھر وہ مسجد میں چلا گیا۔ وہ شخص جلدی مسجد پہنچا اور امام کاظم کو دیکھتے ہی اٹھے اور بلند آواز سے یہ آیت تلاوت کی: اللہ جانتا ہے کہ اس نے اپنا پیغام کہاں بھیجا ہے۔ خدا بہتر جانتا ہے کہ وہ اپنا مشن کہاں رکھے بشر حفی، جو بعد میں صوفی شیخ بنے، اپنے قول و فعل کے زیر اثر توبہ کر لی۔

سیاسی زندگی

بعض ذرائع نے کہا ہے کہ امام کاظم نے مختلف طریقوں سے عباسی خلفاء کے ناجائز ہونے پر زور دیا جن میں بحث و مباحثہ اور عدم تعاون بھی شامل ہے اور ان پر لوگوں کے اعتماد کو کمزور کرنے کی کوشش کی [16]. عباسیوں کو بدنام کرنے کی ان کی کوششوں کی مثالوں کے طور پر ذیل میں درج کیا جا سکتا ہے۔

ایسے معاملات میں جہاں عباسی خلفاء اپنے آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب کر کے اپنی حکومت کو جائز قرار دینے کی کوشش کر رہے تھے ، انہوں نے اپنے نسب کی پرورش کی اور یہ ظاہر کیا کہ وہ عباسیوں کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زیادہ قریب ہیں۔ بشمول میں ان کے اور ہارون عباسی کے درمیان ہونے والی گفتگو میں، امام کاظم (ع) نے قرآن کی آیات بشمول مباہلہ آیت کی بنیاد پر اپنی والدہ حضرت زہرا (س) کے ذریعہ پیغمبر اکرم (ص) کی طرف منسوب ہونے کو ثابت کیا [17]. جب مہدی عباسی نے ظلم کو رد کیا تو امام کاظم (ع) نے ان سے فدک کا مطالبہ کیا۔ مہدی نے ان سے فدک کی حدود کا تعین کرنے کو کہا اور امام نے ان حدود کا تعین کیا جو عباسی حکومت کے علاقے کے برابر تھیں۔ شیعوں کے 7ویں امام نے اپنے ساتھیوں کو عباسیوں کے ساتھ تعاون نہ کرنے کا حکم دیا، جن میں صفوان جمال بھی شامل تھا، جنہوں نے ہارون کو اونٹ کرائے پر دینے سے منع کیا۔ اس کے ساتھ ہی اس نے علی بن یقطین سے جو کہ ہارون الرشید کی حکومت میں وزارت کے انچارج تھے، سے کہا کہ وہ دربار میں رہ کر شیعوں کی خدمت کریں۔ اس کے باوجود یہ روایت نہیں ہے کہ موسیٰ بن جعفر (ع) نے حکومت وقت کی کھل کر مخالفت کی تھی۔ وہ متقی شخص تھے اور شیعوں کو اس کی پیروی کا حکم دیتے تھے۔ مثال کے طور پر، ہادی عباسی کی والدہ، خضران کو لکھے گئے خط میں، اس نے ان کی موت پر تعزیت کی۔ ایک روایت میں ہے کہ جب ہارون نے اسے بلوایا تو اس نے کہا: چونکہ تقیہ حاکم پر واجب ہے اس لیے میں ہارون کے پاس جاؤں گا۔ اس نے ابی طالب کی شادی اور ان کی اولاد کو منقطع ہونے سے روکنے کے لیے ہارون کے تحفے بھی قبول کیے تھے۔ حتیٰ کہ امام کاظم علیہ السلام نے ایک خط میں علی بن یقطین سے کہا کہ وہ سنی طریقہ سے کچھ دیر وضو کریں تاکہ انہیں کسی قسم کا خطرہ نہ ہو [18]

جیل

امام کاظم (ع) کو عباسی خلفاء نے کئی بار طلب کیا اور قید کیا۔ مہدی عباسی کی خلافت کے دوران پہلی بار امام کو خلیفہ کے حکم سے مدینہ سے بغداد منتقل کیا گیا۔ ہارون نے امام کو دو مرتبہ قید بھی کیا۔ پہلی بار ان کی گرفتاری اور قید کا وقت منابع میں مذکور نہیں ہے، لیکن دوسری بار 20 شوال 179 ہجری کو مدینہ منورہ میں گرفتار ہوئے اور بصرہ میں 7 ذی الحجہ کو گھر میں نظر بند کر دیا گیا۔ عیسیٰ بن جعفر کا۔

شیخ مفید کی رپورٹ کے مطابق 180 ہجری میں ہارون نے عیسیٰ بن جعفر کے نام ایک خط میں ان سے امام کو قتل کرنے کو کہا لیکن اس نے انکار کر دیا۔ امام کو کچھ عرصہ بعد بغداد کے فضل بن ربیع کی جیل میں منتقل کر دیا گیا۔ امام کاظم علیہ السلام نے اپنی زندگی کے آخری سال فضل بن یحییٰ اور سندی بن شاہک کی جیلوں میں گزارے۔ امام کاظم علیہ السلام کی کتاب زیارت میں جس کو عقوبت خانوں میں اذیت دی گئی اسے سلام کیا گیا ہے۔

عباسی خلفاء کے ہاتھوں 7ویں شیعہ امام کی گرفتاری اور جیل منتقل کرنے کی وجہ کے بارے میں مختلف اطلاعات ہیں۔ بعض روایتوں کے مطابق موسیٰ بن جعفر کی ہارون کے حکم سے گرفتاری کی وجہ یحییٰ برمکی کی حسد اور علی بن اسماعیل بن جعفر کی طرف سے ہارون کے بارے میں بہتان تراشی تھی۔

کہا گیا ہے کہ ہارون امام کاظم کے ساتھ شیعوں کے تعلقات کے بارے میں حساس تھا اور اسے ڈر تھا کہ اس کی امامت پر شیعوں کا عقیدہ اس کی حکومت کو کمزور کر دے گا۔ نیز بعض روایتوں کے مطابق امام کاظم (ع) کی قید کی وجہ یہ تھی کہ بعض شیعوں جیسے ہشام بن حکم نے امام کی درخواست کی تعمیل نہیں کی حالانکہ امام نے تقیہ کا حکم دیا تھا۔ ان رپورٹوں میں ہشام ابن حکیم کے مباحث کو امام کی قید کی وجوہات میں سے ایک کے طور پر درج کیا گیا ہے [19].

شہادت

امام کاظم کی زندگی کے آخری ایام سیندی بن شہیک جیل میں گزرے۔ شیخ مفید نے کہا کہ سندی نے ہارون الرشید کے حکم سے امام کو زہر دیا اور تین دن بعد امام کو شہید کر دیا گیا۔ مشور کے مطابق، آپ کی شہادت 25 رجب قمری سنہ 183ء بروز جمعہ بغداد میں ہوئی۔ شیخ مفید کے مطابق امام کی شہادت 24 رجب کو ہوئی۔ امام کاظم علیہ السلام کی شہادت کے وقت اور مقام کے بارے میں اور بھی اقوال ہیں، جیسے 181 اور 186 ہجری۔

موسی بن جعفر علیہ السلام کے شہید ہونے کے بعد سندی بن شہک نے یہ ظاہر کرنے کے لیے کہ امام کی وفات فطری طور پر ہوئی ہے، بغداد کے مشہور فقہاء اور علماء کو لایا اور انہیں امام کا جسد خاکی دکھایا تاکہ وہ دیکھ سکیں۔ امام کے جسم پر کوئی زخم نہیں ہے۔ نیز ان کے حکم سے انہوں نے امام کا جسد خاکی بغداد کے پل پر رکھ دیا اور اعلان کیا کہ موسیٰ بن جعفر کی وفات فطری وجہ سے ہوئی ہے۔ اس کی گواہی کے بارے میں مختلف روایتیں ہیں۔ اکثر مورخین کا خیال ہے کہ یحییٰ بن خالد اور سندی بن شہک نے اسے زہر دیا ایک رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ انہوں نے اسے قالین میں لپیٹ کر شہید کیا۔

امام کاظم علیہ السلام کے جسد خاکی کو عوام کے سامنے رکھنے کی دو وجوہات بیان کی گئی ہیں: ایک یہ ثابت کرنا کہ آپ کی وفات فطری ہوئی ہے اور دوسری وجہ ان لوگوں کے عقیدہ کو باطل کرنا ہے جو ان کی مہدیت پر ایمان رکھتے ہیں۔ انہوں نے موسیٰ بن جعفر (ع) کے جسد خاکی کو منصور داوانغی کے خاندانی مقبرے میں دفن کیا جو قریش کے مقبرے کے نام سے مشہور تھا۔

ان کا مقبرہ کاظمین کے مزار کے نام سے جانا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ عباسیوں کی طرف سے امام کے جسد خاکی کو اس مقبرے میں دفن کرنے کی وجہ یہ خوف تھا کہ ان کی تدفین کی جگہ شیعوں کے اجتماع کی جگہ بن جائے گی۔ [20]

حواله جات

  1. مسند الامام کاظم از عزیز اللہ عطاردی، باب الحوائج امام موسیٰ کاظم از حسین حاج حسن، حیات
  2. مسعودی، وصیت کا ثبوت، صفحہ 356-357
  3. مفید، الارشاد، جلد 2، صفحہ 215.8
  4. بغدادی، بغداد کی تاریخ، جلد 13، صفحہ 29.10
  5. الانوار البهیه، ص۱۷۷.11
  6. مفید، الارشاد، ج۲، ص۲۳۵.12
  7. مفید، الارشاد، ج۲، ص۲۴۴.30
  8. سمعانی، الانساب، ج۱۲، ص۴۷۸.31
  9. الوری اعلان، جلد 2، صفحہ 6.33
  10. جعفریہ، شیعہ اماموں کی فکری اور سیاسی زندگی، صفحہ 354-389
  11. فضل مقداد، ارشاد الطالبین، 1405ھ، ص 337.36
  12. بحار الانوار، جلد 48، صفحہ 12-29.40
  13. مصنفین کا ایک گروپ، امام کاظم کی زندگی اور اوقات پر مضامین کا مجموعہ، جلد 2، صفحہ 79، 81.41
  14. مفید، الارشاد، جلد 2، صفحہ 220.43
  15. طوسی، جاننے والے مردوں کا انتخاب، 1409 قبل مسیح، صفحہ 480.50 ۔
  16. کاشی، مرد، صفحہ 441.94
  17. مجلسی، بہار الانوار، جلد 48، صفحہ 134.96
  18. کلینی، الکافی، جلد 1، صفحہ 101.367
  19. قریشی، حیات الامام موسیٰ بن جعفر، جلد 2، صفحہ 516-517.125
  20. قریشی، حیات الامام موسیٰ بن جعفر، جلد 2، 137-373-231