"اعتکاف" کے نسخوں کے درمیان فرق

ویکی‌وحدت سے
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
م (Saeedi نے صفحہ مسودہ:اعتکاف کو اعتکاف کی جانب منتقل کیا)
 
(ایک ہی صارف کا 5 درمیانی نسخے نہیں دکھائے گئے)
سطر 1: سطر 1:
[[فائل:اعتکاف.jpg |تصغیر|بائیں|]]
[[فائل:اعتکاف.jpg |تصغیر|بائیں|]]
'''اعتکاف''' [[رمضان|رمضان مبارک]] اور بالخصوص اس کے آخری عشرہ کے اعمال میں سے ایک اہم عمل اعتکاف بھی ہے۔ [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم]] ہر سال رمضان کے آخری عشرے کا اعتکاف کرتے تھے۔
'''اعتکاف''' [[رمضان|رمضان مبارک]] اور بالخصوص اس کے آخری عشرہ کے اعمال میں سے ایک اہم عمل اعتکاف بھی ہے۔ [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم]] ہر سال رمضان کے آخری عشرے کا اعتکاف کرتے تھے اور اعتکاف تین دن تک عبادت الہی کی نیت سے مسجد میں ٹھہرنے کا نام ہے اور اس عمل کو انجام دینے والا معتکف کہلاتا ہے۔  اسلامی تعلیمات میں اس کے مخصوص احکام بیان ہوئے ہیں جن کی رعایت کی جاتی ہے۔ یہ عمل بنیادی طور پر [[اسلام]] میں مستحب جانا گیا ہے لیکن نذر، قسم اور عہد کی وجہ سے بعض اوقات واجب ہو جاتا ہے۔ فقہی کتابوں میں اس کیلئے مستقل بحث ذکر کی جاتی ہے۔ اعتکاف کیلئے کوئی مخصوص وقت بیان نہیں ہوا ہے لیکن روایات میں رسول اللہ کے رمضان میں اعتکاف پر بیٹھنے کا تذکرہ موجود ہے اس بنا پر رمضان کے مہینے کو اس عمل کی انجام دہی کا بہترین وقت کہا گیا ہے۔ [[ایران|اسلامی جمہوریہ ایران]] میں عام طور پر [[رجب]] کی تیرہ، چودہ اور پندرہ تاریخ کو مذہب [[شیعہ]] پر کاربند لوگوں کی بہت بڑی تعداد اس عبادت کو انجام دیتی ہے نیز مساجد میں خواتین کیلئے تمام شرعی مسائل کا لحاظ کرتے ہوئے علیحدہ انتظامات کئے جاتے ہیں جبکہ [[پاکستان]] میں [[اہل السنۃ والجماعت|اہل سنت]] اور مکتب تشیع سے تعلق رکھنے والے افراد رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کیلئے بیٹھتے ہیں ۔
== اعتکاف کا معنی ==
== اعتکاف کا معنی ==
اعتکاف کا معنی لغت میں ٹھہرنا ، جمے رہنا اور کسی مقام پر اپنے آپ کو روکے رکھنا ہے، شرعی اعتکاف بھی اسی معنی میں ہے کہ اللہ تعالی کا تقرب حاصل کرنے کےلئے مخصوص طریقے پر مسجد میں ٹھہرنا ۔
اعتکاف کا معنی لغت میں ٹھہرنا ، جمے رہنا اور کسی مقام پر اپنے آپ کو روکے رکھنا ہے، اِعْتِکَاف "ع، ک، ف " سے نکلا ہے جس کا معنی تعظیم کے ساتھ کسی چیز کے ہمراہ رہنا ہے <ref>راغب اصفہانی، مفردات القرآن، ص ۳۵۵</ref>۔ یہ مفہوم قرآن پاک میں بھی استعمال ہوا ہے <ref>سوره بقره، ۱۲۵؛ اعراف، ۱۳۸؛ طہ، ۹۷؛ شعراء، ۷۱</ref>۔ ۔قرآن کے سورۂ حج میں لفظ عاکف ساکن اور مقیم کے معنی میں جبکہ سورۂ فتح میں ممنوع کے معنی میں معکوف آیا ہے ۔
== اعتکاف اصطلاح میں ==
اصطلاحی معنی کے لحاظ سے قرب الہی کی نیت سے مسجد میں ضروری ٹھہرنے کو کہا گیا ہے ۔ جامع تر تعریف میں یوں کہیں کہ تقرب الہی حاصل کرنے کی خاطر اور عبادت الہی کیلئے مسجد میں کم از کم تین دن تک شرائط مخصوص کی رعایت کرتے ہوئے ٹھہرنا "اعتکاف" ہے ۔
== تصوف کی نگاہ میں ==
[[تصوف]] کی اصطلاح میں دنیاوی مشغولیات سے اپنے دل کو پاکیزہ اور صاف قرار دینا اور اپنے نفس کو اپنے آقا اور مولا کے حضور پیش کرنا ہے نیز یہ بھی کہا گیا ہے کہ اسکا معنی ہے کہ جب تک تو یعنی آقا اور مولا مجھے نہیں بخشے گا میں تیری بارگاہ سے دور نہیں ہوں گا <ref>علی جرجانی، التعریفات، قاہرہ، ۱۳۵۷ق،ص 25</ref>۔
== تاریخی پس منظر ==
=== قبل از اسلام ===
گرچہ اعتکاف کی سنت کو مسلمانوں نے رسول اللہ کی سیرت سے اخذ کیا ہے <ref>بخاری، محمد، صحیح، قاہرہ، اداره الطباعہ المنیریہ، ص 105</ref>۔  لیکن اس کے باوجود اسلام سے پہلے بھی اہل عرب کے درمیان اعتکاف سے ملتی جلتی ایک رسم موجود تھی۔ اس کے لئے ممکن ہے کہ اس روایت سے استناد کیا جائے کہ رسول اکرم نے فرمایا کہ میں نے جاہلیت کے دور میں خانۂ خدا میں ایک رات رہنے کی نذر کی اور میں نے اسے پورا کیا۔
=== رسول اللہ کے دور میں ===
ہجرت سے پہلے رسول اللہ کی مکی زندگی میں اعتکاف پر بیٹھنے کے متعلق کوئی اطلاع موجود نہیں ہے البتہ ہجرت کے دوسرے سال رمضان کے پہلے عشرے میں دوسرے سال درمیانی عشرے میں اعتکاف پر بیٹھے اور اس کے بعد ہر سال رمضان کے آخری عشرے میں معتکف ہوتے تھے <ref>کلینی، محمد، الکافی، بہ کوشش علی اکبر غفاری، بیروت، ۱۴۰۱ق، ج4، ص175</ref>۔
 
== اعتکاف کی حکمت ==
== اعتکاف کی حکمت ==
اعتکاف کی حقیقت یہ ہے کہ بندہ ہر طرف سے یکسو ہو کر اور سب سے منقطع ہوکر بس اللہ تعالی سے لو لگاکے اس کے درپے یعنی مسجد کے کسی کونے میں پڑجائے، سب سے الگ تنہائی میں اس کی عبادت اور اس کے ذکر و فکر میں مشغول رہے، اس کو دھیان میں رکھے، اس کی تسبیح و تہلیل و تقدیس میں مشغول رہے، اس کے حضور توبہ و استغفار کرے ، اپنے گناہوں اور کوتاہیوں پر روئے۔  
اعتکاف کی حقیقت یہ ہے کہ بندہ ہر طرف سے یکسو ہو کر اور سب سے منقطع ہوکر بس اللہ تعالی سے لو لگاکے اس کے درپے یعنی مسجد کے کسی کونے میں پڑجائے، سب سے الگ تنہائی میں اس کی عبادت اور اس کے ذکر و فکر میں مشغول رہے، اس کو دھیان میں رکھے، اس کی تسبیح و تہلیل و تقدیس میں مشغول رہے، اس کے حضور توبہ و استغفار کرے ، اپنے گناہوں اور کوتاہیوں پر روئے۔  
سطر 20: سطر 30:


== اعتکاف کی مدت ==
== اعتکاف کی مدت ==
=== اہل سنت کی نگاہ میں ===
اعتکاف کیلئے کوئی زمان مقرر نہیں ہے لیکن روایات کی بنا پر رسول اللہ رمضان کے آخری عشرے میں معتکف ہوتے تھے <ref>کلینی، ج۴،ص۱۷۵</ref>۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے رمضان میں کم از کم ایک عشرے کا اعتکاف کیا، اس لئے افضل و بہتر یہی ہے کہ رمضان کے آخری عشرے کا اعتکاف کیا جائے لیکن اگر کسی کے حالات ساتھ نہ دیتے ہوں تو وہ سات دن ، پانچ دن یا صرف طاق راتوں کا اعتکاف کرے چنانچہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں صحابہ نے رمضان کی سات درمیانی راتوں کا اعتکاف کیا تو رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان سے فرمایا : من کا منکم منحر یا فلینحر ما فی السبع الاواخر " ۔ جو شخص شب قدر کو تلاش کرنا چاہتا ہے وہ آخری سات راتوں میں تلاش کرے " <ref>صحیح ابن خزیمہ :2222 ، الصوم</ref>۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے رمضان میں کم از کم ایک عشرے کا اعتکاف کیا، اس لئے افضل و بہتر یہی ہے کہ رمضان کے آخری عشرے کا اعتکاف کیا جائے لیکن اگر کسی کے حالات ساتھ نہ دیتے ہوں تو وہ سات دن ، پانچ دن یا صرف طاق راتوں کا اعتکاف کرے چنانچہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں صحابہ نے رمضان کی سات درمیانی راتوں کا اعتکاف کیا تو رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان سے فرمایا : من کا منکم منحر یا فلینحر ما فی السبع الاواخر " ۔ جو شخص شب قدر کو تلاش کرنا چاہتا ہے وہ آخری سات راتوں میں تلاش کرے " <ref>صحیح ابن خزیمہ :2222 ، الصوم</ref>۔
=== شیعہ امامیہ کی نگاہ میں ===
شیعہ امامیہ کے نزدیک اعتکاف کی کم سے کم مدت تین دن بیان ہوئی ہے نیز اگر اعتکاف مستحب ہو تو اس سے اٹھ سکتا ہے لیکن دوسرے روز کے اختتام پر تیسرے کے دن کا مکمل کرنا ضروری ہوتا ہے <ref>محقق حلی، جعفر، شرائع الاسلام، بہ کوشش عبدالحسین محمدعلی، نجف، ۱۳۸۹ق /۱۹۶۹م، ج1، ص216</ref>۔


نیز عبد اللہ بن انیس الجہنی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے عرض کیا : اے اللہ کے رسول میں صحرا میں رہائش پذیر ہوں اور الحمد للہ وہاں نماز کا اہتمام کرتا ہوں [البتہ میں یہ چاہتا ہوں کہ شب قدر کے حصول کے لئے اعتکاف کروں تو ] آپ مجھے کسی ایسی رات کے بارے میں بتلائیے جس رات اس مسجد میں آکر عبادت کروں [ اعتکاف کروں ] تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تیئس کی شب کو آجانا ۔
نیز عبد اللہ بن انیس الجہنی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے عرض کیا : اے اللہ کے رسول میں صحرا میں رہائش پذیر ہوں اور الحمد للہ وہاں نماز کا اہتمام کرتا ہوں [البتہ میں یہ چاہتا ہوں کہ شب قدر کے حصول کے لئے اعتکاف کروں تو ] آپ مجھے کسی ایسی رات کے بارے میں بتلائیے جس رات اس مسجد میں آکر عبادت کروں [ اعتکاف کروں ] تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تیئس کی شب کو آجانا۔


سیرت رسول کی پیروی کرتے ہوئے اعتکاف کا بہترین زمان رمضان کا آخری عشرہ مستحب مؤکد شمار کیا جاتا ہے اگرچہ دیگر اوقات میں بھی مستحب ہے <ref>شہید ثانی، زین الدین، الروضہ البہیہ، بہ کوشش محمد کلانتر، بیروت، ۱۴۰۳ق /۱۹۸۳م، ج1، ص582</ref>۔
راوی حدیث محمد بن ابراہیم کہتے ہیں میں نے عبد اللہ بن انیس کے بیٹے سے سوال کیا کہ تمہارے والد کس طرح کرتے تھے ؟ انہوں نے جواب دیا کہ عصر کی نماز کے بعد مسجد نبوی میں داخل ہوجاتے اور کسی بھی غیر ضروری کام کے لئے مسجد سے باہر نہ نکلتے ، یہاں تک کہ جب صبح کی نماز پڑھ لتیے تو اپنی سواری مسجد کے دروازے پر موجود پاتے اور اس پر سوار ہوکر پھر صحرا میں چلے جاتے۔ <ref>صحیح ابن خزیمہ : 2200، الصیام</ref>۔
راوی حدیث محمد بن ابراہیم کہتے ہیں میں نے عبد اللہ بن انیس کے بیٹے سے سوال کیا کہ تمہارے والد کس طرح کرتے تھے ؟ انہوں نے جواب دیا کہ عصر کی نماز کے بعد مسجد نبوی میں داخل ہوجاتے اور کسی بھی غیر ضروری کام کے لئے مسجد سے باہر نہ نکلتے ، یہاں تک کہ جب صبح کی نماز پڑھ لتیے تو اپنی سواری مسجد کے دروازے پر موجود پاتے اور اس پر سوار ہوکر پھر صحرا میں چلے جاتے۔ <ref>صحیح ابن خزیمہ : 2200، الصیام</ref>۔
== اعتکاف کا آغاز ==
اعتکاف کے تین ایام پہلے دن کے طلوع فجر سے شروع ہو کر تیسرے دن کے غروب آفتاب تک شمار ہوتے ہیں۔
مالک بن انس اور شافعی کے نزدیک غروب آفتاب سے پہلے معتکف کو اعکاف کی جگہ حاضر ہونا چاہئے تا کہ رات کی ابتدا وہاں موجود ہو <ref>شافعی، محمد، الام، بہ کوشش محمد زہری نجار، بیروت، دارالمعرفہ،ج2، ص105</ref>۔
   
اہلسنت فقہا کے نزدیک اعتکاف کی کم میں اختلاف ہے اور اکثر کے نزدیک کسی کم ترین معین مدت کے قائل نہیں ہیں <ref>ابن رشد، محمد، بدایہ المجتہد، بیروت، ۱۴۰۶ق /۱۹۸۶م، ج1، ص314</ref>۔
== اعتکاف کے ایام روزہ رکھنا ==
=== امامیہ کے نزدیک ===
امامیہ کے نزدیک معتکف شخص کیلئے روزہ رکھنا ضروری ہے <ref>سید مرتضی، علی، الانتصار، بہ کوشش محمدرضا خرسان، نجف، ۱۳۹۱ق /۱۹۷۱م، ص72</ref>۔ لیکن اعتکاف کے روزے کا ہونا ضروری نہیں ہے ۔ پس سفر ،مریضی،حائض یا نفاس کی وجہ سے اعتکاف درست نہیں ہے ۔
عید فطر اور قربان کے روز روزہ رکھنا حرام ہونے کی وجہ سے ان دنوں میں اعتکاف درست نہیں ہے ۔
=== اہل سنت کے نزدیک ===
مالکی فقہ کے مطابق بھی روزے کے بغیر اعتکاف صحیح نہیں ہے جبکہ حنفیوں کے نزدیک بھی مشہور یہی ہے لیکن ایک قول کی بنا پر مستحب اعتکاف میں روزہ شرط نہیں ہے ۔اسی طرح محمد بن ادریس شافعی اور احمد بن حنبل سے مشہور قول یہ ہے کہ اعتکاف میں سرے سے روزہ واجب ہی نہیں ہے <ref>مالک بن انس، الموطأ، بہ کوشش محمدفؤاد عبدالباقی، بیروت، ۱۴۰۶ق /۱۹۸۵م، ج1، ص315</ref>۔
== اعتکاف کی شرطیں ==
== اعتکاف کی شرطیں ==
* عاقل ہو: مجنون و پاگل کا اعتکاف صحیح نہیں ہے۔
* عاقل ہو: مجنون و پاگل کا اعتکاف صحیح نہیں ہے۔
سطر 48: سطر 75:


ان تمام امور سے اعتکاف باطل ہوجائے گا ، اسی طرح عورت کو حیض و نفاس کا خون آجائے تو اعتکاف باطل ہوجائے گا ، نیز [[اسلام]] سے ارتداد سے بھی اعتکاف باطل ہوجاتا ہے ، اور اگر کوئی شخص اعتکاف کی نیت توڑ دے تو یہ بھی اعتکاف کے بطلان کا موجب ہے۔
ان تمام امور سے اعتکاف باطل ہوجائے گا ، اسی طرح عورت کو حیض و نفاس کا خون آجائے تو اعتکاف باطل ہوجائے گا ، نیز [[اسلام]] سے ارتداد سے بھی اعتکاف باطل ہوجاتا ہے ، اور اگر کوئی شخص اعتکاف کی نیت توڑ دے تو یہ بھی اعتکاف کے بطلان کا موجب ہے۔
بنا براین مخصوص اور ضروری کاموں کی انجام دہی کیلئے مسجد سے باہر نکلنا جائز ہے جبکہ نماز جمعہ، نماز جنازہ، گواہی دینے،بیمار کی احوال پرسی اور انفرادی ضرورتوں جیسےقضائے حاجت خورد و نوش کو مہیا کرنا وغیرہ کو اعتکاف کے استثنائی احکام میں گنا گیا ہے ۔ بہر حال ان مذکورہ مقامات میں معتکف کو چاہئے ممکنہ حد تک سائے کے نیچے مت چلے۔
== خواتین کے مخصوص احکام ==
امامیہ کے نزدیک اعتکاف کی بنیاد اور اساسی شرائط میں سےاہم ترین شرط مسجد ہے۔ اعتکاف کیلے مسجد کا ہونا ضروری ہے ۔پس اس لحاظ سے اگر خواتین اعتکاف کی عبادت کو انجام دینا چاہیں تو انکے لئے بھی ضروری ہے کہ وہ مسجد میں ہی اسے انجام دیں گی۔
احتیاط واجب کی بنا پر عورت کیلئے ضروری ہے کہ وہ اعتکاف کیلئے اپنے شوہر سے اجازت حاصل کرے۔
حیض و نفاس کی صورت میں عورت کو چاہئے کہ فورا مسجد سے باہر نکل جائے۔[22] بنا بر احتیاط واجب اس کی قضا ادا کرے<ref>[https://erfan.ir/urdu/82554.html اعتکاف]-اخذ شدہ بہ تاریخ: 12 جنوری 2025ء۔</ref>۔


== اعتکاف کی حالت میں جائز کام ==
== اعتکاف کی حالت میں جائز کام ==
سطر 62: سطر 96:
== حواله جات ==
== حواله جات ==
{{حوالہ جات}}
{{حوالہ جات}}
[[ur:اعتکاف]]

حالیہ نسخہ بمطابق 09:58، 12 جنوری 2025ء

اعتکاف.jpg

اعتکاف رمضان مبارک اور بالخصوص اس کے آخری عشرہ کے اعمال میں سے ایک اہم عمل اعتکاف بھی ہے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہر سال رمضان کے آخری عشرے کا اعتکاف کرتے تھے اور اعتکاف تین دن تک عبادت الہی کی نیت سے مسجد میں ٹھہرنے کا نام ہے اور اس عمل کو انجام دینے والا معتکف کہلاتا ہے۔ اسلامی تعلیمات میں اس کے مخصوص احکام بیان ہوئے ہیں جن کی رعایت کی جاتی ہے۔ یہ عمل بنیادی طور پر اسلام میں مستحب جانا گیا ہے لیکن نذر، قسم اور عہد کی وجہ سے بعض اوقات واجب ہو جاتا ہے۔ فقہی کتابوں میں اس کیلئے مستقل بحث ذکر کی جاتی ہے۔ اعتکاف کیلئے کوئی مخصوص وقت بیان نہیں ہوا ہے لیکن روایات میں رسول اللہ کے رمضان میں اعتکاف پر بیٹھنے کا تذکرہ موجود ہے اس بنا پر رمضان کے مہینے کو اس عمل کی انجام دہی کا بہترین وقت کہا گیا ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران میں عام طور پر رجب کی تیرہ، چودہ اور پندرہ تاریخ کو مذہب شیعہ پر کاربند لوگوں کی بہت بڑی تعداد اس عبادت کو انجام دیتی ہے نیز مساجد میں خواتین کیلئے تمام شرعی مسائل کا لحاظ کرتے ہوئے علیحدہ انتظامات کئے جاتے ہیں جبکہ پاکستان میں اہل سنت اور مکتب تشیع سے تعلق رکھنے والے افراد رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کیلئے بیٹھتے ہیں ۔

اعتکاف کا معنی

اعتکاف کا معنی لغت میں ٹھہرنا ، جمے رہنا اور کسی مقام پر اپنے آپ کو روکے رکھنا ہے، اِعْتِکَاف "ع، ک، ف " سے نکلا ہے جس کا معنی تعظیم کے ساتھ کسی چیز کے ہمراہ رہنا ہے [1]۔ یہ مفہوم قرآن پاک میں بھی استعمال ہوا ہے [2]۔ ۔قرآن کے سورۂ حج میں لفظ عاکف ساکن اور مقیم کے معنی میں جبکہ سورۂ فتح میں ممنوع کے معنی میں معکوف آیا ہے ۔

اعتکاف اصطلاح میں

اصطلاحی معنی کے لحاظ سے قرب الہی کی نیت سے مسجد میں ضروری ٹھہرنے کو کہا گیا ہے ۔ جامع تر تعریف میں یوں کہیں کہ تقرب الہی حاصل کرنے کی خاطر اور عبادت الہی کیلئے مسجد میں کم از کم تین دن تک شرائط مخصوص کی رعایت کرتے ہوئے ٹھہرنا "اعتکاف" ہے ۔

تصوف کی نگاہ میں

تصوف کی اصطلاح میں دنیاوی مشغولیات سے اپنے دل کو پاکیزہ اور صاف قرار دینا اور اپنے نفس کو اپنے آقا اور مولا کے حضور پیش کرنا ہے نیز یہ بھی کہا گیا ہے کہ اسکا معنی ہے کہ جب تک تو یعنی آقا اور مولا مجھے نہیں بخشے گا میں تیری بارگاہ سے دور نہیں ہوں گا [3]۔

تاریخی پس منظر

قبل از اسلام

گرچہ اعتکاف کی سنت کو مسلمانوں نے رسول اللہ کی سیرت سے اخذ کیا ہے [4]۔ لیکن اس کے باوجود اسلام سے پہلے بھی اہل عرب کے درمیان اعتکاف سے ملتی جلتی ایک رسم موجود تھی۔ اس کے لئے ممکن ہے کہ اس روایت سے استناد کیا جائے کہ رسول اکرم نے فرمایا کہ میں نے جاہلیت کے دور میں خانۂ خدا میں ایک رات رہنے کی نذر کی اور میں نے اسے پورا کیا۔

رسول اللہ کے دور میں

ہجرت سے پہلے رسول اللہ کی مکی زندگی میں اعتکاف پر بیٹھنے کے متعلق کوئی اطلاع موجود نہیں ہے البتہ ہجرت کے دوسرے سال رمضان کے پہلے عشرے میں دوسرے سال درمیانی عشرے میں اعتکاف پر بیٹھے اور اس کے بعد ہر سال رمضان کے آخری عشرے میں معتکف ہوتے تھے [5]۔

اعتکاف کی حکمت

اعتکاف کی حقیقت یہ ہے کہ بندہ ہر طرف سے یکسو ہو کر اور سب سے منقطع ہوکر بس اللہ تعالی سے لو لگاکے اس کے درپے یعنی مسجد کے کسی کونے میں پڑجائے، سب سے الگ تنہائی میں اس کی عبادت اور اس کے ذکر و فکر میں مشغول رہے، اس کو دھیان میں رکھے، اس کی تسبیح و تہلیل و تقدیس میں مشغول رہے، اس کے حضور توبہ و استغفار کرے ، اپنے گناہوں اور کوتاہیوں پر روئے۔

اللہ کی رضا اور قرب چاہے اور اسی حال میں اس کے دن گزریں اور اس کی راتیں بسر ہوں ، ظاہر ہے اس کام کےلئے رمضان المبارک اور خاص کر اس کے آخری عشرہ سے بہتر اور کون سا وقت ہوسکتا ہے۔ اسی لئے اعتکاف کے لئے اس کا انتخاب کیا گیا ۔

اعتکاف کا حکم

اعتکاف کی مشروعیت قرآن و حدیث اور اجماع امت سے ثابت ہے ، چنانچہ اللہ تعالی فرماتا ہے: وَعَهِدْنَا إِلَى إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ أَنْ طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُود [6]۔ اور ہم ابراہیم و اسماعیل علیہما السلام کو تاکیدکی کہ وہ میرے گھر کو طواف کرنے والوں، اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجود کرنے والوں کے لئے صاف ستھرا رکھیں۔

نیزروزے کے احکام کے ضمن میں فرمایا: وَلَا تُبَاشِرُوهُنَّ وَأَنْتُمْ عَاكِفُونَ فِي المَسَاجِدِ [7] اور اگر تم مسجدوں میں اعتکاف بیٹھے ہو تو پھر اپنی بیویوں سے مباشرت نہ کرو۔ متعدد حدیثیں اس سلسلے میں وارد ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم رمضان کے آخری عشرے کا اعتکاف کرتے تھے۔ چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ ‏و آلہ وسلم اپنی وفات تک رمضان کے آخری عشرہ کا اعتکاف کرتے رہے اور آپ کے بعد آپ کی ازواج مطہرات نے اعتکاف کیا [8]۔

حتی کہ امام زہری رحمہ اللہ نے فرمایا کہ یہ بڑا عجیب معاملہ ہے کہ مسلمانوں نے اعتکاف کی سنت کو چھوڑ دیا ہے حالانکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جب سے مدینہ منورہ تشریف لائے آپ نے اعتکاف کبھی نہیں چھوڑا۔ حتی کہ اپنی عمر عزیز کے آخری سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان المبارک کے دو عشروں کا اعتکاف کیا ، چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہر رمضان کے آخری عشرے کا اعتکاف کرتے تھے۔ البتہ جس سال آپ کا انتقال ہو اس سال آپ نے بیس دن کا اعتکاف کیا ۔ [9]۔

غیر رمضان میں اعتکاف

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے صرف رمضان کا اعتکاف ثابت ہے، بغیر کسی عذر کے آپ نے غیر رمضان میں اعتکاف نہیں کیاہے ، لیکن ایک بار عمر رضی اللہ عنہ نے سوال کیا کہ اے اللہ کے رسول میں نے جاہلیت میں نذر مانی تھی کہ مسجد حرام میں ایک رات کا اعتکاف کروں گا ، اس کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اپنی نذر پوری کرو [10]۔ اس لئے غیر رمضان میں بھی اعتکاف مستحب اور سنت ہے، البتہ رمضان اور خصوصا رمضان کے آخری عشرہ میں اس کی تاکید ہے ۔

اعتکاف کی مدت

اہل سنت کی نگاہ میں

اعتکاف کیلئے کوئی زمان مقرر نہیں ہے لیکن روایات کی بنا پر رسول اللہ رمضان کے آخری عشرے میں معتکف ہوتے تھے [11]۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے رمضان میں کم از کم ایک عشرے کا اعتکاف کیا، اس لئے افضل و بہتر یہی ہے کہ رمضان کے آخری عشرے کا اعتکاف کیا جائے لیکن اگر کسی کے حالات ساتھ نہ دیتے ہوں تو وہ سات دن ، پانچ دن یا صرف طاق راتوں کا اعتکاف کرے چنانچہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں صحابہ نے رمضان کی سات درمیانی راتوں کا اعتکاف کیا تو رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان سے فرمایا : من کا منکم منحر یا فلینحر ما فی السبع الاواخر " ۔ جو شخص شب قدر کو تلاش کرنا چاہتا ہے وہ آخری سات راتوں میں تلاش کرے " [12]۔

شیعہ امامیہ کی نگاہ میں

شیعہ امامیہ کے نزدیک اعتکاف کی کم سے کم مدت تین دن بیان ہوئی ہے نیز اگر اعتکاف مستحب ہو تو اس سے اٹھ سکتا ہے لیکن دوسرے روز کے اختتام پر تیسرے کے دن کا مکمل کرنا ضروری ہوتا ہے [13]۔

نیز عبد اللہ بن انیس الجہنی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے عرض کیا : اے اللہ کے رسول میں صحرا میں رہائش پذیر ہوں اور الحمد للہ وہاں نماز کا اہتمام کرتا ہوں [البتہ میں یہ چاہتا ہوں کہ شب قدر کے حصول کے لئے اعتکاف کروں تو ] آپ مجھے کسی ایسی رات کے بارے میں بتلائیے جس رات اس مسجد میں آکر عبادت کروں [ اعتکاف کروں ] تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تیئس کی شب کو آجانا۔

سیرت رسول کی پیروی کرتے ہوئے اعتکاف کا بہترین زمان رمضان کا آخری عشرہ مستحب مؤکد شمار کیا جاتا ہے اگرچہ دیگر اوقات میں بھی مستحب ہے [14]۔ راوی حدیث محمد بن ابراہیم کہتے ہیں میں نے عبد اللہ بن انیس کے بیٹے سے سوال کیا کہ تمہارے والد کس طرح کرتے تھے ؟ انہوں نے جواب دیا کہ عصر کی نماز کے بعد مسجد نبوی میں داخل ہوجاتے اور کسی بھی غیر ضروری کام کے لئے مسجد سے باہر نہ نکلتے ، یہاں تک کہ جب صبح کی نماز پڑھ لتیے تو اپنی سواری مسجد کے دروازے پر موجود پاتے اور اس پر سوار ہوکر پھر صحرا میں چلے جاتے۔ [15]۔

اعتکاف کا آغاز

اعتکاف کے تین ایام پہلے دن کے طلوع فجر سے شروع ہو کر تیسرے دن کے غروب آفتاب تک شمار ہوتے ہیں۔ مالک بن انس اور شافعی کے نزدیک غروب آفتاب سے پہلے معتکف کو اعکاف کی جگہ حاضر ہونا چاہئے تا کہ رات کی ابتدا وہاں موجود ہو [16]۔

اہلسنت فقہا کے نزدیک اعتکاف کی کم میں اختلاف ہے اور اکثر کے نزدیک کسی کم ترین معین مدت کے قائل نہیں ہیں [17]۔

اعتکاف کے ایام روزہ رکھنا

امامیہ کے نزدیک

امامیہ کے نزدیک معتکف شخص کیلئے روزہ رکھنا ضروری ہے [18]۔ لیکن اعتکاف کے روزے کا ہونا ضروری نہیں ہے ۔ پس سفر ،مریضی،حائض یا نفاس کی وجہ سے اعتکاف درست نہیں ہے ۔ عید فطر اور قربان کے روز روزہ رکھنا حرام ہونے کی وجہ سے ان دنوں میں اعتکاف درست نہیں ہے ۔

اہل سنت کے نزدیک

مالکی فقہ کے مطابق بھی روزے کے بغیر اعتکاف صحیح نہیں ہے جبکہ حنفیوں کے نزدیک بھی مشہور یہی ہے لیکن ایک قول کی بنا پر مستحب اعتکاف میں روزہ شرط نہیں ہے ۔اسی طرح محمد بن ادریس شافعی اور احمد بن حنبل سے مشہور قول یہ ہے کہ اعتکاف میں سرے سے روزہ واجب ہی نہیں ہے [19]۔

اعتکاف کی شرطیں

  • عاقل ہو: مجنون و پاگل کا اعتکاف صحیح نہیں ہے۔
  • تمیز ہو : غیر ممیز بچوں کا اعتکاف صحیح نہیں ہے۔
  • مسجد میں ہو : مسجد کے علاوہ کسی اور جگہ اعتکاف صحیح نہ ہوگا ، یہ حکم مرد و عورت دونوں کیلئے ہے۔
  • طہارت : حیض و نفاس اور جنابت کی حالت میں اعتکاف صحیح نہ ہوگا۔
  • شوہر کی اجازت : بغیر شوہر کی اجازت کے اعتکاف صحیح نہ ہوگا۔
  • روزہ : بہت سے علماء کے نزدیک بغیر روزہ کے اعتکاف صحیح نہ ہوگا۔

اعتکاف کا وقت

اعتکاف کے لئے ضروری ہے جس دن کا اعتکاف کرنا چاہتا ہے اس دن کی رات آنے سے قبل مسجد میں داخل ہوجائے مثلا اگر رمضان کے آخری عشرہ کا اعتکاف کرنا چاہتا ہے تو بیسویں رمضان کا سورج غروب ہونے سے قبل مسجد میں داخل ہوجائے ، البتہ اپنے معتکف یعنی جائے اقامت میں اکیسویں کی صبح کو داخل ہو ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی معمول رہا ہے ، چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرہ کا اعتکاف کرتے ، میں آپ کے لئے ایک خیمہ نصب کردیتی جس میں آپ صبح کی نماز کے بعد داخل ہوتے [20]۔

اعتکاف کس مسجد میں

اعتکاف ہر مسجد میں کیا جاسکتا ہے بشرطیکہ اس میں جماعت کا اہتمام ہوتا ہو ، ارشاد باری تعالی ہے : وَلَا تُبَاشِرُوهُنَّ وَأَنْتُمْ عَاكِفُونَ فِي المَسَاجِدِ [21]۔ اور اگر تم مسجدوں میں اعتکاف بیٹھے ہو تو پھر اپنی بیویوں سے مباشرت نہ کرو۔ آیت مذکورہ میں اللہ تعالی نے مسجد کو عام رکھا ہے، کسی خاص قسم کی مسجد سے مقید نہیں کیا ہے ، نیز حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ اعتکاف کرنے والے کے لئے سنت کا طریقہ یہ ہے کہ وہ مریض کی زیارت کو جائے نہ جنازے میں شریک ہو ، نہ عورت سے صحبت کرے اور نہ ہی اس سے مباشرت کرے اور نہ ہی کسی غیر ضروری کام کے لئے باہر نکلے ، اور اعتکاف بغیر روزہ کے نہیں ہے اور اعتکاف اسی مسجد میں کیا جائے گا جس میں جماعت کا اہتما ہو [22]۔

اعتکاف کے منافی کام

  • ضرورت کے بغیر مسجد سے باہر نکلنا ۔
  • عورت سے صحبت کرنا ۔
  • عورت سے بشہوت مباشرت کرنا ۔
  • قصدا منی خارج کرنا۔
  • ہر وہ کام جو شرع کی نظر میں منع ہے وہ اعتکاف کے بھی منافی ہے ، جیسے جھوٹ ، غیبت وغیرہ ۔
  • ہر وہ کام جو عبادت کے منافی ہے ، جیسے خرید و فروخت میں مشغولیت ، بلاوجہ کی گپ شپ ، یہ بھی حالت اعتکاف کے منافی ہے ، ان امور سے اعتکاف باطل تو نہیں ہوتا البتہ اعتکاف کا مقصد فوت ہوجاتا ہے ۔
  • بعض وہ عبادتیں جو فرض عین نہیں ہیں جیسے مریض کی زیارت ، نماز جنازہ اور دفن وغیرہ کے لئے بھی نکلنا جائز نہیں ہے ، البتہ راستہ چلتے کسی مریض کی خیریت پوچھ لینا جائے ہے ۔
  • ہر وہ کام جو انسان کی فطری ضرورت ہے جیسے قضائے حاجت ، کھانا پینا ، نہانا ، اگر کوئی مددگار نہیں ہے تو کھانے کی چیزیں باہر سے خریدنا وغیرہ کے لئے مسجد سے باہر نکلنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

ان تمام امور سے اعتکاف باطل ہوجائے گا ، اسی طرح عورت کو حیض و نفاس کا خون آجائے تو اعتکاف باطل ہوجائے گا ، نیز اسلام سے ارتداد سے بھی اعتکاف باطل ہوجاتا ہے ، اور اگر کوئی شخص اعتکاف کی نیت توڑ دے تو یہ بھی اعتکاف کے بطلان کا موجب ہے۔

بنا براین مخصوص اور ضروری کاموں کی انجام دہی کیلئے مسجد سے باہر نکلنا جائز ہے جبکہ نماز جمعہ، نماز جنازہ، گواہی دینے،بیمار کی احوال پرسی اور انفرادی ضرورتوں جیسےقضائے حاجت خورد و نوش کو مہیا کرنا وغیرہ کو اعتکاف کے استثنائی احکام میں گنا گیا ہے ۔ بہر حال ان مذکورہ مقامات میں معتکف کو چاہئے ممکنہ حد تک سائے کے نیچے مت چلے۔

خواتین کے مخصوص احکام

امامیہ کے نزدیک اعتکاف کی بنیاد اور اساسی شرائط میں سےاہم ترین شرط مسجد ہے۔ اعتکاف کیلے مسجد کا ہونا ضروری ہے ۔پس اس لحاظ سے اگر خواتین اعتکاف کی عبادت کو انجام دینا چاہیں تو انکے لئے بھی ضروری ہے کہ وہ مسجد میں ہی اسے انجام دیں گی۔

احتیاط واجب کی بنا پر عورت کیلئے ضروری ہے کہ وہ اعتکاف کیلئے اپنے شوہر سے اجازت حاصل کرے۔ حیض و نفاس کی صورت میں عورت کو چاہئے کہ فورا مسجد سے باہر نکل جائے۔[22] بنا بر احتیاط واجب اس کی قضا ادا کرے[23]۔

اعتکاف کی حالت میں جائز کام

مسجد میں کھانا پینا ۔ اچھے کپڑے پہننا اور خوشبو لگانا ۔ ناخن تراشنا اور حجامت بنوانا ۔ اگر جنازہ کی نماز مسجد میں پڑھی جارہی ہے تو اس میں شریک ہونا ۔ کسی مریض کا گھر مسجد سے لگ کر ہے تو مسجد میں رہ کر بیمار پرسی کرنا ۔ بالوں میں تیل کنگھی کرنا ، بلکہ عورت بھی اپنے شوہر کے بالوں میں کنگھی کرسکتی ہے خواہ اس کے لئے اعتکاف کرنے والے کو اپنا سر باہر کرنا پڑے ۔ اپنے اہل خانہ سے بات کرنا اور بعض گھریلو مسائل پر گفتگو کرنا۔ بغیر شہوت کے اپنی بیوی کو چھونا ۔ خرید و فروخت سے متعلق بعض ضروری ہدایات دینا ۔ زیارت کرنے والوں سے خیر خیریت پوچھنا ، البتہ دیر تک گپ شپ میں مشغول ہونا مناسب نہیں ہے [24]۔

حواله جات

  1. راغب اصفہانی، مفردات القرآن، ص ۳۵۵
  2. سوره بقره، ۱۲۵؛ اعراف، ۱۳۸؛ طہ، ۹۷؛ شعراء، ۷۱
  3. علی جرجانی، التعریفات، قاہرہ، ۱۳۵۷ق،ص 25
  4. بخاری، محمد، صحیح، قاہرہ، اداره الطباعہ المنیریہ، ص 105
  5. کلینی، محمد، الکافی، بہ کوشش علی اکبر غفاری، بیروت، ۱۴۰۱ق، ج4، ص175
  6. بقرةآیہ125
  7. بقرة آیہ187
  8. صحیح البخاری :2026 ، الاعتکاف- صحیح مسلم : 1172 ، الصیام
  9. صحیح بخاری : 2044، الاعتکاف – صحیح ابن خزیمہ : 2221 – سنن ابو داود :2466 ، الاعتکاف
  10. صحیح بخاری : 2032،ا لاعتکاف – صحیح مسلم :1656، الایمان ، بروایت ابن عمر
  11. کلینی، ج۴،ص۱۷۵
  12. صحیح ابن خزیمہ :2222 ، الصوم
  13. محقق حلی، جعفر، شرائع الاسلام، بہ کوشش عبدالحسین محمدعلی، نجف، ۱۳۸۹ق /۱۹۶۹م، ج1، ص216
  14. شہید ثانی، زین الدین، الروضہ البہیہ، بہ کوشش محمد کلانتر، بیروت، ۱۴۰۳ق /۱۹۸۳م، ج1، ص582
  15. صحیح ابن خزیمہ : 2200، الصیام
  16. شافعی، محمد، الام، بہ کوشش محمد زہری نجار، بیروت، دارالمعرفہ،ج2، ص105
  17. ابن رشد، محمد، بدایہ المجتہد، بیروت، ۱۴۰۶ق /۱۹۸۶م، ج1، ص314
  18. سید مرتضی، علی، الانتصار، بہ کوشش محمدرضا خرسان، نجف، ۱۳۹۱ق /۱۹۷۱م، ص72
  19. مالک بن انس، الموطأ، بہ کوشش محمدفؤاد عبدالباقی، بیروت، ۱۴۰۶ق /۱۹۸۵م، ج1، ص315
  20. صحیح بخاری :2033، الاعتکاف – سنن ابو داود : 2464، الصوم
  21. بقرة آیہ187
  22. سنن ابو داود : 2473، الصیام
  23. اعتکاف-اخذ شدہ بہ تاریخ: 12 جنوری 2025ء۔
  24. صحیح بخاری : 2038 ، الاعتکاف