"اخوان المسلمین متحده عرب امارات" کے نسخوں کے درمیان فرق
Saeedi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
||
سطر 9: | سطر 9: | ||
}} | }} | ||
''' | '''ااخوان المسلمین متحده عرب امارات''' ایک اماراتی سماجی اور خیراتی تحریک ہے جس کا رجحان سیاسی [[اسلام]] ہے۔ اور اس اسلام پسند تحریک کی بنیاد 1974ء میں رکھی گئی تھی اور اس کا امن پسندانہ نقطہ نظر کی وجہ سے [[اخوان المسلمین]] [[مصر]] کے نظریات سے قریب ہے۔ اس کے سربراہ سلطان کاید القاسمی ہیں جو اس وقت تحریک سے وابستہ درجنوں کارکنوں کے ساتھ قید ہیں اور متحدہ عرب امارات میں اس تحریک کی سرگرمیوں پر پابندی ہے۔ | ||
==تاسیس== | ==تاسیس== | ||
ساٹھ کی دہائی کے اواخر میں جب کچھ اماراتی طلباء مصر اور کویت سے اپنی تعلیم حاصل کر کے واپس آئے تو انہوں نے ایک ایسا گروپ قائم کرنے کی امید ظاہر کی جو اپنی سرگرمیاں انجام دے گا اور ملک میں اپنے تعلیمی اور تربیتی ادارے قائم کرے گا، تاکہ نوجوانوں کو گروپ کے نظریات کی طرف راغب کیا جا سکے۔ اور انہیں نوزائیدہ اماراتی معاشرے میں بااثر افراد بننے کے لیے تیار کیا جاسکے۔ | ساٹھ کی دہائی کے اواخر میں جب کچھ اماراتی طلباء مصر اور کویت سے اپنی تعلیم حاصل کر کے واپس آئے تو انہوں نے ایک ایسا گروپ قائم کرنے کی امید ظاہر کی جو اپنی سرگرمیاں انجام دے گا اور ملک میں اپنے تعلیمی اور تربیتی ادارے قائم کرے گا، تاکہ نوجوانوں کو گروپ کے نظریات کی طرف راغب کیا جا سکے۔ اور انہیں نوزائیدہ اماراتی معاشرے میں بااثر افراد بننے کے لیے تیار کیا جاسکے۔ |
حالیہ نسخہ بمطابق 09:21، 26 جون 2024ء
ااخوان المسلمین متحده عرب امارات ایک اماراتی سماجی اور خیراتی تحریک ہے جس کا رجحان سیاسی اسلام ہے۔ اور اس اسلام پسند تحریک کی بنیاد 1974ء میں رکھی گئی تھی اور اس کا امن پسندانہ نقطہ نظر کی وجہ سے اخوان المسلمین مصر کے نظریات سے قریب ہے۔ اس کے سربراہ سلطان کاید القاسمی ہیں جو اس وقت تحریک سے وابستہ درجنوں کارکنوں کے ساتھ قید ہیں اور متحدہ عرب امارات میں اس تحریک کی سرگرمیوں پر پابندی ہے۔
تاسیس
ساٹھ کی دہائی کے اواخر میں جب کچھ اماراتی طلباء مصر اور کویت سے اپنی تعلیم حاصل کر کے واپس آئے تو انہوں نے ایک ایسا گروپ قائم کرنے کی امید ظاہر کی جو اپنی سرگرمیاں انجام دے گا اور ملک میں اپنے تعلیمی اور تربیتی ادارے قائم کرے گا، تاکہ نوجوانوں کو گروپ کے نظریات کی طرف راغب کیا جا سکے۔ اور انہیں نوزائیدہ اماراتی معاشرے میں بااثر افراد بننے کے لیے تیار کیا جاسکے۔
اور اس گروپ نے اپنی کوششوں میں کامیابی حاصل کی اور تاجروں، با اثر لوگوں اور مذہبی اسکالرز کی ہمدردی اور حمایت حاصل کرکے متحده عرب امارات میں قدیم ترین سول ایسوسی ایشن قائم کرنے میں کامیاب ہوا۔ اس نوخیر فلاحی انجمن کو اخوان المسلمین کویت کی ہر طرح کی حمایت اور تعاون حاصل رہا اس طرح که کویت کی الاصلاح جماعت نے ان کو مرکزی دفتر کے لئے جگہ فراہم کرنے میں مدد کی اور کویت کے اخوان اور عرب امارات کے اخوان کے درمیان تعلقات کا تسلسل ملاقات، دورجات، جلسات، گرمیوں میں تعلیمی پروگرامز کا اهتمام اور تنظیمی دوروں کے ذریعے جاری رہا۔
1974ء میں، تاجروں، با اثر افراد، مذہبی راہنما اور مبلغین کا ایک گروپ - بشمول اخوان کے پرانے ارکان جیسے سلطان بن کاید القاسمی، محمد بن عبداللہ العجلان ، عبدالرحمن البکر، حماد حسن رقیط آل علی، حسن الدقی، اور سعید عبداللہ حارب المحیری نے متحدہ عرب امارات کے نائب صدر اور دبئی کے حکمران شیخ راشد بن سعید المکتوم کو اخوان المسلمین متحده عرب امارات کی تاسیس کا اعلان کرنے کی درخواست کی۔
شیخ محمد بن خلیفہ المکتوم نے تنظیم کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے پہلے چیئرمین کا عہدہ سنبھالا اور دبئی میں مرکزی ہیڈ کوارٹر کے قیام کے لیے عطیہ بھی دیا، جس کے بعد امارات میں راس الخیمہ اور فجیرہ میں جماعت کی دو شاخیں قائم کی گئیں جن کے قیام کے اخراجات بھی، شیخ راشد المکتوم نے عطیہ کیے ۔ کہا جاتا ہے کہ مرحوم صدر شیخ زید بن سلطان النہیان نے ستر کی دہائی کے آخر میں ابوظہبی میں انجمن کی شاخ قائم کرنے کے لیے زمین عطیہ کی تھی لیکن بعد میں اس شاخ کے قیام کا فیصلہ روک دیا گیا تھا ۔ [1]
متحدہ عرب امارات کی اخوان کے افکار اور نظریات کی بنیاد
متحدہ عرب امارات کی اخوان المسلمین نے تاریخی مشن کی بنیاد پر اسلامی اور قومی دعوت پر مبنی افکار اور نظریات پیش کیے ہیں۔ یہ دعوت جغرافیائی جہت میں اس ملک کے سماجی رسم و رواج کے مطابق اور متحدہ عرب امارات کے معاشرے کی مقامی شناخت اور روایات پر مبنی ہے اس حد تک کہ اسلام کے اصولوں سے متصادم نہ ہو۔
ان کے نظریات اہل سنت و جماعت، سلف صالحین کی تعلیمات اور شیخ محمد ابن عبدالوہاب کی تعلیمات کے ساتھ ساتھ اخوان المسلمین مصر اور پاکستان کی اسلامی جماعت ، ابوالاعلیٰ مودودی اور ابوالحسن ندوی کی تعلیمات سے ماخوذ ہیں۔ اخوان کے راہنماوں کا کہنا ہے کہ اسلام کے نام پر بہت سی دعوتیں دی جاتی ہیں، لیکن متحدہ عرب امارات کی اخوان المسلمین کو جو چیز ممتاز کرتی ہے وہ یہ ہے کہ وہ عقلانیت کے حامی اور بدعتوں اور توہمات کے خلاف ہے، کیونکہ ان کی پالیسی خالص نصوص اور قرآن کی آیات پر مبنی ہے۔
ان کے نظریے کے مطابق خلیج فارس کے ساحلی عرب ملکوں میں موجود اسلام پسند تنظیموں میں دو طرح کے نظریات پائے جاتے ہیں۔ ایک عقلانیت کے داعی ہیں، دوسرے تشدد اور انتہا پسندی کے حامی ہیں۔ تا ہم انتهاپسندی سماجی تانے بانے کو نقصان پہنچاتی ہے اور خالص نیت کے باوجود اپنے اعمال میں غلطی کا شکار ہوتے ہیں۔ [2]
اہداف اور حکمت عملی
- تفریح، سیاحت اور فن کے نام پر هونے والے فسادات کا روک تھام.
- یونیورسٹیوں میں لڑکیوں اور لڑکوں کے اختلاط کی شدید مخالفت.
- فاسقوں اور شرابیوں کو حکومتی عهده دینے کی مخالفت اور ذمہ داریوں کو اسلام اور اخلاقیات کی بنیاد پر تقسیم کرنے کے حامی .
- مطبوعات کی نگرانی کے قانون پر توجہ دینے کی ضرورت پر تاکید .
- اسلامی تعلیمات کے مطابق سکول، کالج اور یونیورسٹی کے طلبا کے لئے تفریحی پروگراموں کا انتظام.
- ملک میں غیر ملکیوں( غیر مسلم ) کے داخلے کے بارے میں انتباہ اور ملک میں داخلے کے لیے شرعی معیارات کی رعایت کی شرط.
- بچوں کو مسلم مجاهدین سے محبت اور یهود ( صهیونیزم) سے دشمنی کی ترغیب دلانا.
- فن کے نام پر ٹیلی ویژن پر نشر ہونے والے ناچ گانے کے پروگراموں کی شدید مخالفت
- دیگر ممالک جیسے بوسنیا اور ہرزیگووینا میں مقیم مذہبی بھائیوں اور بہنوں کی صوت حال پر توجہ دینے کی ضرورت پر تاکید[3]۔
اخوان المسلمین کے لئے در پیش مسائل
سنہ اسی کی دهائی میں اخوان المسلمین کو مختلف مسائل کا سامنا کرنا پڑا جن میں ان کی فعالیتوں پر پابندی، ممبران کی گرفتاری اور راهنماؤں پر مختلف قسم کے الزامات شامل ہیں۔ 1980ء میں متحدہ عرب امارات نے اپنی قومی سلامتی کی پالیسی میں اصلاحات کا فیصلہ کیا اور اس اصلاحات کے لیے اس نے مصر کے ایک سیکورٹی عناصر کو اپنے ملک میں مدعو کیا جس کا نام "فواد علام" تھا۔ "فواد علام" اخوان المسلمین کی تحریک کو اچھی طرح جانتا تھا اور انہوں نے جمال عبدالناصر کے دور میں اخوان المسلمین کے ارکان کو گرفتار کر کے ان پر تشدد کیا تھا۔
متحدہ عرب امارات میں قومی سلامتی کی پالیسی میں اصلاحات نے 1980ء کی دہائی کے آخر میں اپنے اثرات دکھائے۔ متحدہ عرب امارات بالخصوص ابوظہبی میں اسلامی تحریکوں کو ملک کی قومی سلامتی کے لیے خطرہ تسلیم کیا گیا۔ 1987 ءمیں اسلامی تحریکوں کے ساتھ اعتدال پسندی کی پالیسی کا کوئی نشان نظر نہیں آتا۔ 1980 ءسے 1985 ءکے درمیان متحدہ عرب امارات کی اسلامی تحریکوں کے خلاف پالیسی نے متحدہ عرب امارات کی حکومت کو اسلام مخالف حکومت کے طور پر متعارف کرائی۔
1990ء کے بعد متحدہ عرب امارات میں اسلامی تحریکوں کے لیے ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔ اسلامی تحریکوں کے ارکان پر سرکاری اداروں میں خدمات انجام دینے پر پابندی لگا دی گئی اور عوام کے لیے ان کی کسی بھی عوامی سرگرمی پر پابندی لگا دی گئی۔ اس پابندی کا اطلاق "جماعت تبلیغی" پر بھی کیا گیا، جو که ایک غیر سیاسی تحریک تھی۔ متحدہ عرب امارات کی حکومت کے اقدامات کے اگلے مرحلے میں اسلامی تحریکوں کے دفاتر کو بند کرنے کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا۔
ابوظہبی نے یہاں تک کہ سماجی خدمات فراہم کرنے والے تمام خیراتی اداروں اور عوامی اداروں کی سرگرمیوں پر پابندی لگا دی اور ان کے تمام دفاتر کو سیل کر دیا۔ مختصر عرصے میں متحدہ عرب امارات کی تمام مساجد میں قرآن کے مطالعہ کرنے والے گروپوں کی سرگرمیوں پر پابندی لگا دی گئی۔ یو اے ای کی وزارت تعلیم نے 1983 ءمیں شیخ زید کے حکم پر قرآن پاک پراجیکٹ شروع کیا تھا، 1992 ءمیں روک دیا گیا ۔ جماعت الاصلاح جس کی بنیاد 1974 ءمیں رکھی گئی تھی، 1994 ءمیں مکمل طور پر تحلیل کر دی گئی۔ مختلف عرب ممالک سے یو اے ای آنے والے اور اس ملک میں آباد ہونے والوں کو ان کی اسلامی سرگرمیوں کی وجہ سے متحدہ عرب امارات سے بے دخل کر دیا گیا اور ان مسائل کا سلسله اب تک جاری ہے[4]۔
حوالہ جات
- ↑ الإخوان المسلمون في الإمارات التمدد والانحسار (امارات میں اخوان المسلمین:ترقی اور زوال)-www.almesbar.net (زبان عربی)-تاریخ درج شده: 17/ستمبر/2013 ء تاریخ اخذ شده: 14/جون/2024ء۔
- ↑ نقیدان، منصور، اخوان المسلمین در امارات ؛ گسترش و رکود ، ص 184.
- ↑ اخوان المسلمین در امارات؛ گسترش و رکود (امارات میں اخوان المسلمین:توسیع اور زوال)-www.noormags.ir (زبان فارسی)-تاریخ درج شده: 1/ستمبر/2012 ء تاریخ اخذ شده: 17/جون/2024ء۔
- ↑ تاریخچه نفرت امارات متحده عربی از جنبشهای اخوانی و اسلامی(متحدہ عرب امارات کی اخوان اور اسلامی تحریکوں سے نفرت کی تاریخ)www.tasnimnews.com(زبان فارسی)-تاریخ درج شده: 16/ستمبر/2017 ء تاریخ اخذ شده: 17/جون/2024ء۔