3,999
ترامیم
Saeedi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
Saeedi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
||
سطر 1: | سطر 1: | ||
'''مفتی جعفر حسین''' [[پاکستان]] کے اہل تشیع کے دوسرے قائد تھے۔ آپ | '''مفتی جعفر حسین''' [[پاکستان]] کے اہل تشیع کے دوسرے قائد تھے۔ آپ عظیم داعی اتحاد بین المسلمین، عالم باعمل، بے مثال مصنف و مترجم اور شجاع و بااصول سیاسی و مذہبی شخصیت کے مالک تھے۔ آپ کے والد ماجد حکیم چراغ دین نے آپ کی تربیت اور پرورش کی ذمہ داری آپ کے تایا حکیم شہاب الدین کے سپرد کر رکھی تھی۔ پانچ برس کی عمر میں تایا نے آپ کو [[قرآن|قرآن کریم]] کے علاوہ عربی زبان کی تدریس بھی شروع کر دی تھی، جس کے بعد تقریباً سات سال کی عمر میں آپ نے حدیث و فقہ کی تعلیم کا آغاز کیا۔ | ||
== تعلیم == | == تعلیم == | ||
مفتی جعفر حسین نے قران حکیم ،عربی، حدیث اور فقہ کی تعلیم اپنے تایا حکیم شہاب الدین کے علاوہ، مولانا چراغ علی خطیب جامع مسجد [[اہل السنۃ والجماعت|اہل سنت]] اور حکیم قاضی عبدالرحیم، جو ندوی لکھنؤ کے فارغ التحصیل تھے، سے بھی حاصل کی۔ آپ نے بارہ برس کی عمر تک طب، حدیث، فقہ اور عربی زبان میں کافی حد تک عبور حاصل کر لیا تھا۔ 1926ء میں مرزا احمد علی مرحوم آپ کو اپنے ہمراہ لکھنؤ لے گئے جہاں آپ نے مدرسہ ناظمیہ میں مولانا ابوالحسن عرف منن صاحب، جناب سعید علی نقوی، جناب مولانا ظہورالحسن اور جناب مفتی احمد علی مرحوم سے کسب علم وفیض فرمایا۔ مدرسہ ناظمیہ میں تحصیل علم کے دوران آپ اپنی ذہانت کے باعث کافی معروف ہوئے۔ آپ نے وہاں امتحانات میں نہ صرف یہ کہ امتیازی اور نمایاں حیثیت حاصل کی بلکہ کچھ اعزازی سندیں بھی حاصل کیں۔ | مفتی جعفر حسین نے قران حکیم ،عربی، حدیث اور فقہ کی تعلیم اپنے تایا حکیم شہاب الدین کے علاوہ، مولانا چراغ علی خطیب جامع مسجد [[اہل السنۃ والجماعت|اہل سنت]] اور حکیم قاضی عبدالرحیم، جو ندوی لکھنؤ کے فارغ التحصیل تھے، سے بھی حاصل کی۔ آپ نے بارہ برس کی عمر تک طب، حدیث، فقہ اور عربی زبان میں کافی حد تک عبور حاصل کر لیا تھا۔ 1926ء میں مرزا احمد علی مرحوم آپ کو اپنے ہمراہ لکھنؤ لے گئے جہاں آپ نے مدرسہ ناظمیہ میں مولانا ابوالحسن عرف منن صاحب، جناب سعید علی نقوی، جناب مولانا ظہورالحسن اور جناب مفتی احمد علی مرحوم سے کسب علم وفیض فرمایا۔ مدرسہ ناظمیہ میں تحصیل علم کے دوران آپ اپنی ذہانت کے باعث کافی معروف ہوئے۔ آپ نے وہاں امتحانات میں نہ صرف یہ کہ امتیازی اور نمایاں حیثیت حاصل کی بلکہ کچھ اعزازی سندیں بھی حاصل کیں۔ | ||
سطر 14: | سطر 14: | ||
یہ کتاب آپ کی تالیف ہے اور دوضخیم جلدوں پر مشتمل ہے۔ جس میں آپ مولا علی علیہ السلام کی زندگی اورسیرت پر تمام جوانب سے روشنی ڈالی ہے۔ | یہ کتاب آپ کی تالیف ہے اور دوضخیم جلدوں پر مشتمل ہے۔ جس میں آپ مولا علی علیہ السلام کی زندگی اورسیرت پر تمام جوانب سے روشنی ڈالی ہے۔ | ||
=== ملت جعفریہ کی قیادت === | === ملت جعفریہ کی قیادت === | ||
1948ء کو لاہور میں بعض علماء کرام کیساتھ ملکر آپ نے ادارہ تحفظ حقوق شیعہ پاکستان کی بنیاد رکھی اور اس کے پہلے صدر منتخب ہوئے۔ 1949ء میں آپ تعلیمات اسلامی بورڈ کے رکن منتخب ہوئے۔ 1979ء میں جب سابق فوجی آمر جنرل ضیاء الحق نے نفاذ اسلام کے چند جزوی اقدامات کا اعلان کیا، جن میں ایک زکواۃ کی وصولی کا بھی تھا، مگر اس اعلان میں فقہ جعفریہ کو بالکل نظرانداز کر دیا گیا تھا۔ مفتی جعفر حسین نے اس وقت ایک پریس کانفرنس بلاکر حکومت کو الٹی میٹم دیا کہ اگر فقہ جعفریہ کے پیروکاروں کے لئے باقاعدہ طور پر فقہ جعفریہ کے نفاذ کا اعلان نہ کیا گیا تو وہ اسلامی نظریاتی کونسل کی رکنیت سے احتجاجاً مستعفی ہو جائیں گے۔ | |||
جب فوجی ڈکٹیٹر نے اپنا رویہ نہ بدلا تو مفتی جعفر حسین نے اپنے اعلان کے مطابق استعفیٰ دے دیا، شیعہ قیادت نے آل پاکستان شیعہ کنونشن منعقد کرنے کا فیصلہ کیا، جس میں ایک متحدہ قومی پلیٹ فارم کی تشکیل کرکے اپنے ملی حقوق کے حصول کے لئے منظم تحریک چلانے کا منصوبہ بنایا گیا۔ چنانچہ 12 اور 13 اپریل 1979ء کو بھکر میں ایک بھرپور قومی کنونشن منعقد ہوا، جو تاریخ پاکستان میں آج بھی شیعیان حیدر کرار کے بڑے اجتماعات میں شمار ہوتا ہے۔ اس کنونشن میں پہلی بار متفقہ طور پر باقاعدہ شیعہ قیادت کا انتخاب عمل میں لایا گیا۔ اس کنونشن مین علامہ مفتی جعفر حسین کو شیعیان پاکستان کا متفقہ طور پر قائد تسلیم کیا گیا اور فضاء ’’ایک ہی قائد، ایک ہی رہبر، مفتی جعفر مفتی جعفر، مفتی جعفر مفتی جعفر‘‘ کے نعروں سے گونج اٹھی تھی۔ اس وقت برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی نے دعویٰ کیا کہ آیۃ اللہ خمینی کے بعد مفتی جعفر حسین ایشیاء کے دوسرے بڑے روحانی پیشوا تھے کہ جنہیں عوام کی اتنی بڑی تعداد نے تسلیم کیا۔ | |||
مفتی جعفر حسین نے بطور قائد ملت جعفریہ پاکستان اپنے خطاب میں ڈکٹیٹر کی حکومت سے مطالبہ کیا کہ 30 اپریل سے پہلے حکومت شیعیان پاکستان کے مذہبی مطالبات تسلیم کرنے کا اعلان کرے، عدم قبولیت کی صورت میں 30 اپریل کے بعد شیعہ اپنے مطالبات کے حق میں ملک گیر تحریک شروع کر دیں گے، مزید یہ کہ یہ تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کہلائے گی۔ تنظیم کا صدر دفتر اسلام آباد میں ہوگا، صوبہ، ڈویژن، ضلع، تحصیل اور موضع کی سطح پر بھی تحریک کے دفاتر قائم کئے جائیں گے۔ جنرل ضیاء الحق نے ان کے جواب میں کراچی میں یہ بیان جاری کیا کہ ’’ایک ملک میں دو قانون نافذ نہیں کئے جاسکتے، پاکستانی عوام کی اکثریت حنفی المذہب ہے، اس لئے یہاں فقہ حنفی ہی نافذ ہوگی۔‘‘ آمر کی حکومت نے کنونشن کو ممنوع قرار دیدیا، اسلام آباد کی چاروں طرف سے ناکہ بندی کردی گئی، پھر بھی اسلام آباد کے لال کواٹرز کے قریب ہاکی گراؤنڈ اور اس کے آس پاس کے علاقوں میں اتنے جانثار جمع ہوگئے تھے کہ فوجی آمر حیران رہ گیا۔ | |||
مذاکرات سے مسائل کے حل پر یقین رکھنے والے شیعہ قائد علامہ مفتی جعفر حسین نے 2 جولائی کو جنرل ضیاء الحق کی دعوت پر اس سے رات کے وقت دو گھنٹے ملاقات بھی کی، تاہم اس ملاقات کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ جس کے بعد 4 اور 5 جولائی کو فوحی آمر کی حکومت نے بہت سے پینترے بدلے لیکن شیعوں کا جوش و جذبہ کم نہ ہوا اور 5 جولائی کی شام کو عوام نے صدارتی سکریٹریٹ کا گھیراؤ کرلیا اور دھرنا دے کر وہیں بیٹھ گئے۔ 6 جولائی کو قائد ملت جعفریہ علامہ مفتی جعفر حسین جنرل ضیاء الحق کی دعوت پر ایک مرتب پھر پانچ رکنی وفد کے ساتھ سکرٹریٹ تشریف لے گئے اور کم و بیش بارہ گھنٹے تک مذاکرات ہوتے رہے۔ مذاکرات کا یہ دور نتیجہ خیز ثابت ہوا اور ضیاء الحق نے بالآخر شیعہ مطالبات کے سامنے گھٹنے ٹیک دیئے۔ اس موقع پر ایک معاہدہ طے پایا، جس میں جنرل ضیاء الحق نے شیعہ قیادت کو یہ یقین دلایا کہ کسی ایک فرقہ کی فقہ دوسرے فرقہ پر مسلط نہیں کی جائے گی۔ | |||
اسی روز شام کو قائد ملت جعفریہ علامہ مفتی جعفر حسین نے سیکرٹریٹ سے باہر آکر مجمع کے سامنے تاریخی فتح کی خبر سنائی اور بتایا کہ ضیاء الحق نے ہمارا مطالبہ منظور کرلیا ہے اور یہ یقین دلایا ہے کہ نہ صرف عشر و زکوۃ بلکہ ہر نئے قانون میں فقہ جعفریہ کو ملحوظ رکھا جائے گا۔ اس طرح قائد ملت کی ہدایت کے مطابق ملک کے طول و عرض سے آئے ہوئے عوام اپنے کامیابی دامن میں سمیٹے گھروں کو واپس جانے لگے۔ بھکر کنوشن کے بعد شب و روز کے طوفانی دوروں نے آپ کی صحت کو بہت متاثر کیا <ref>سید عدیل زیدی، علامہ مفتی جعفر حسینؒ کی زندگی پر ایک نظر[https://ur.hawzahnews.com/news/383876/%D8%B9%D9%84%D8%A7%D9%85%DB%81-%D9%85%D9%81%D8%AA%DB%8C-%D8%AC%D8%B9%D9%81%D8%B1-%D8%AD%D8%B3%DB%8C%D9%86-%DA%A9%DB%8C-%D8%B2%D9%86%D8%AF%DA%AF%DB%8C-%D9%BE%D8%B1-%D8%A7%DB%8C%DA%A9-%D9%86%D8%B8%D8%B1 hawzahnews.com]</ref>۔ | |||
== مفتی جعفر حسین مظہر اتحاد == | == مفتی جعفر حسین مظہر اتحاد == | ||
ہر بڑی شخصیت کے متعدد پہلو ہوتے ہیں۔ بعض پہلو بہت نمایاں ہو جاتے ہیں، بعض عوام کی نظر میں مقبول ہو جاتے ہیں، لیکن دیگر پہلو جو اپنی جگہ تو بہت اہم ہوتے ہیں، مگر وہ مکمل سوانح حیات کے نہ ہونے یا تجاہل عارفانہ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ علامہ مفتی جعفر حسین مرحوم ایک تو بڑی شخصیات میں سے ایک ہیں، ان کے ساتھ بھی بڑی شخصیتوں والا سلوک ہوا ہے۔ میں اپنے قلیل مشاہدہ اور مطالعہ کی بنا پر یہ کہہ سکتا ہوں کہ جو لوگ مخلص اور الٰہی انسان ہوتے ہیں، اللہ ان کی محبت لوگوں کے دلوں میں پیدا کر دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مفتی جعفر حسین اب بھی یاد کیے جاتے ہیں۔ ان کے کیے ہوئے علمی کام اپنی جگہ بنا چکے ہیں۔ ایک تو آپ کا بچپن ایسے ماحول میں گزرا ہے، جہاں فرقہ واریت کی بجائے انسانیت اور رواداری کا رواج تھا۔ آپ کے آباء طب سے تعلق رکھتے تھے، جو معاشرے میں ایک معزز اور معروف طبقہ گنا جاتا ہے۔ پھر آپ کے چچا نے آپ کی تعلیم و تربیت اہل سنت کے علماء کرام کے سپرد کی، جنہوں نے آپ کو بنیادی تعلیمات و عربی زبان کے قواعد و ضوابط سے آگاہ کیا۔ آپ کا بچپن سے اہل سنت کے ساتھ یہ ارتباط تاحیات آپ پر اثر انداز رہا۔ | ہر بڑی شخصیت کے متعدد پہلو ہوتے ہیں۔ بعض پہلو بہت نمایاں ہو جاتے ہیں، بعض عوام کی نظر میں مقبول ہو جاتے ہیں، لیکن دیگر پہلو جو اپنی جگہ تو بہت اہم ہوتے ہیں، مگر وہ مکمل سوانح حیات کے نہ ہونے یا تجاہل عارفانہ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ علامہ مفتی جعفر حسین مرحوم ایک تو بڑی شخصیات میں سے ایک ہیں، ان کے ساتھ بھی بڑی شخصیتوں والا سلوک ہوا ہے۔ میں اپنے قلیل مشاہدہ اور مطالعہ کی بنا پر یہ کہہ سکتا ہوں کہ جو لوگ مخلص اور الٰہی انسان ہوتے ہیں، اللہ ان کی محبت لوگوں کے دلوں میں پیدا کر دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مفتی جعفر حسین اب بھی یاد کیے جاتے ہیں۔ ان کے کیے ہوئے علمی کام اپنی جگہ بنا چکے ہیں۔ ایک تو آپ کا بچپن ایسے ماحول میں گزرا ہے، جہاں فرقہ واریت کی بجائے انسانیت اور رواداری کا رواج تھا۔ آپ کے آباء طب سے تعلق رکھتے تھے، جو معاشرے میں ایک معزز اور معروف طبقہ گنا جاتا ہے۔ پھر آپ کے چچا نے آپ کی تعلیم و تربیت اہل سنت کے علماء کرام کے سپرد کی، جنہوں نے آپ کو بنیادی تعلیمات و عربی زبان کے قواعد و ضوابط سے آگاہ کیا۔ آپ کا بچپن سے اہل سنت کے ساتھ یہ ارتباط تاحیات آپ پر اثر انداز رہا۔ |