"دیوبندیہ" کے نسخوں کے درمیان فرق

ویکی‌وحدت سے
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
ٹیگ: بصری ترمیم موبائل ترمیم موبائل ویب ترمیم
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 5: سطر 5:
| نام = دیوبندیہ
| نام = دیوبندیہ
| عام نام =  
| عام نام =  
| تشکیل کا سال = 1866م
| تشکیل کا سال = 1866 ء
| تشکیل کی تاریخ =  
| تشکیل کی تاریخ =  
| بانی =  {{افقی باکس کی فہرست |محمد قاسم نانوتوی|رشید احمد گنگوہی|سید عابد حسین }}
| بانی =  {{افقی باکس کی فہرست |محمد قاسم نانوتوی|رشید احمد گنگوہی|سید عابد حسین }}

نسخہ بمطابق 14:55، 20 جنوری 2024ء

دیوبندیہ
نامدیوبندیہ
تشکیل کا سال1866 ء، 1244 ش، 1282 ق
بانی
  • محمد قاسم نانوتوی
  • رشید احمد گنگوہی
  • سید عابد حسین
نظریہاحیاء دین اور شاہ ولی اللہ دہلوی کی نظریات کو زندہ رکھنا

دیوبندیہ مکتب دیوبند یا اہل سنت کے حنفی مسلک کا ایک فرقہ ہے جو برصغیر میں برطانیہ کی استعماری حکومت کے خلاف جد و جہد ، دین اسلام کے احیا اور دینی حیات کی تجدید کی غرض سے وجود میں آیا۔ ہندوستان کی تقسیم کے بعد اس کا مرکز پاکستان کے دار العلوم حقانیہ میں منتقل ہوگیا۔ اس مدرسہ نے سلفی جہادی گروہوں کی تاسیس اور تربیت میں نمایاں کردار ادا کیا۔ دیوبند کے علماء، ابوحنیفہ نعمان بن ثابت کے مقلد ہیں اور اصول و اعتقادیات میں ابو الحسن اشعری اور ابو منصور ماتریدی کے اور طریق ہائے صوفیہ میں دیوبندیوں کو انتخاب حاصل ہے۔ سلسلہ نقشبندیہ اور طریقہ ذکیہ مشائخ چشت اور سلسلہ بہیہ قادریہ اور طریقہ مرضیہ مشائخ سہروردیہ ۔ مسلک دیوبند در حقیقت فکر و عمل کے اس طریقے کا نام ہے جو دارالعلوم دیوبند کے بانیوں اور اس کے مستند اکابر نے اپنے مشائخ سے سند متصل کے ساتھ حاصل کیا تھا۔

اکابر دیوبند

مجدد الف ثانی، شیخ احمد سرہندی اور ان کے خلفا نے گیارھویں صدی ہجری میں اور بارھویں صدی میں شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اور ان کے خاندان نے ہندوستان میں تعلیمی اور غیر تعلیمی خدمات انجام دیں۔ اور تیرھویں صدی کے اواخر میں مجددالف ثانی اور شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے وارثین مولانا محمد قاسم نانوتوی بانی دارالعلوم دیوبند اور مولانا رشید احمد گنگوہی نے بھی علمی خدمات انجام دیے۔ یہ ابو حنیفہ کی تقلید میں پختہ تھے اور مسلک حنفی کو ان کے دور میں بہت زیادہ تقویت پہنچی۔ ان دونوں نے حاجی امداد اللہ چشتی مہاجرمکی سے روحانی فیضان حاصل کیا اور علمی میدان میں ایک خاص مقام حاصل کیا[1]۔

دارالعلوم دیو بند کی بنیاد

مولانا محمد قاسم نانوتوی صاحب نے 1857‏ء کی جنگ آزدی میں ناکامی کے بعد اسلامی علوم و نظریات کے تحفظ کے لئے دیوبند میں دینی عربی مدرسہ کی بنیاد رکھی۔ اس مدرسہ کا افتتاح 15 محرم 1383ھ میں مسجد چھتہ میں انار کے مشہور درخت کے نیچے ہوا اس درسگاہ کے پہلے معلم علامہ محمود اور پہلے معلم محمود حسن تھے جو بعد میں محمود حسن اسیر مالٹا کے نام سے مشہور ہوئے۔ بعض محققین نے کہا ہے کہ دارالعلوم دیو بند ایک مجدد کی حیثیت رکھتا ہے دیوبند علماء کا خیال ہے کہ اگر دیو بند دارالعلوم کا وجود نہ ہوتا تو متحدہ ہندوستان میں مذہب اہلِ سنت والجماعت کا صرف نام ہی باقی رہ جاتا۔ مولانا محمد قاسم نانوتوی جو کہ سخت دیوبندی عالم دین تھے۔ اُنہوں نے ان فرسودہ روایات کی سخت مخالفت کی انہوں نے نہ صرف مخالفت کی بلکہ جب مرزا غلام احمد صاحب نے نبوت کا دعوی کیا تو انہوں نے مدلل جواب بھی دیا۔ مولانا نانوتوی کے بعد جب مولانا محمود حسن دیوبندی نے فرقہ دیوبند کی امارت سنبھال لی تو ان کی قیادت میں تحریک دیوبند نے شہرت حاصل کی۔ نانوتوی کا مطلب نانوتہ جگہ کا نام ہے اُس مناسبت سے مولانا محمد قاسم کے نام کے ساتھ نانوتوی بھی لکھتے ہیں۔ محمود حسن مولانا نانوتوی اور مولانا رشید احمد گنگوہی کے بعد آنے والی نسل میں سب سے زیادہ ممتاز شخصیت ہیں۔ ان کی قیادت میں دیو بند نے کافی شہرت حاصل کی دیوبند کے مشہور علماء:

  • مولانا شبیر احمد عثمانی جو پاکستان کے شیخ الاسلام مشہور ہوئے۔
  • مولانا عبید اللہ سندھی۔
  • مولانا حفظ الرحمن سہوھار دی۔
  • مشہور طبیب حکیم اجمل خان ، مولانا قاری محمد طیب تقریبا نصف صدی سے زیادہ دارالعلوم دیو بند کے مہتمم رہے ہیں ۔ انہوں نے مولانا محمد حسن اشرف علی تھانوی جیسے اساتذہ سے فیض پایا۔ دارالعلوم دیوبند: دیوبند مدرسه کومولا نا محمد قاسم نانوتوی کے نام پر قاسم العلوم والخیرات بھی کہا جاتا ہے لیکن اس کا مستقل نام دار العلوم ہی ہے ۔ 1293ھ میں دارالعلوم کی عمارت کا سنگ بنیاد رکھا گیا آج دارالعلوم کے احاطے میں کئی لاکھ کی عمارتیں کھڑی ہیں 230بڑی بڑی درس گاہیں ہیں۔ آٹھ ہوٹل تقریبا چار سونجرے مطالعے کے لئے کتب خانے 1350ھ میں طلبہ کی تعداد 15 تھی ۔

دارالعلوم کے چار اعلیٰ عہدیدار ہیں:

  • سر پرست
  • مہتمم
  • صدر مدرس
  • مفتی ۔پہلے سر پرست مولانا رشید احمد گنگوہی ، مولا نا محمد یعقوب نانوتوی ،مولانا محمود حسن اور مولانا اشرف علی تھانوی ان ذمہ دار عہدوں پر فائز رہے [2]۔

دیوبندیت کیا ہے؟

دیو بند آیا کوئی نیا فرقہ ہے؟ جسے وقت نے پیدا کر دیا ہے یا اُوپر سے اس کی کوئی اصل ہے اور آیا دیوبند اہل سنت والجماعت ہیں یا کچھ اور؟ اگر اہل سنت ہیں تو سنی حنفی ہونے کے دوسرے دعویداروں کے ہجوم میں اُن کی کیا پوزیشن ہے اور ان میں اوردوسرے مدعیوں میں کیا فرق ہے؟ یہ اس لئے ضرورت محسوس ہوئی کہ ان کے دینی رخ اور مسلکی مزاج کو حتی امکان تحریر کیا جائے ۔ بلکہ اصول اور کلی طور پر اُن کے دینی مزاج اور مسلکی ذوق کی نشاندہی پیش نظر ہے۔ سب سے پہلے چند ضروری اور تمہیدی باتیں ذہن نشین کر لینی چاہیں جن سے مقصد تک پہنچنا اور اُسے سمجھنا آسان ہو جائے گا۔ دیو بند سے صرف وہ حلقہ مراد نہیں جو دارالعلوم دیوبند ( یہ ادارہ دیوبند آنڈیا میں آج بھی موجود ہے) جس میں تعلیم و تدریس یا تبلیغ یا تصنیف و تالیف کا سلسلہ جاری ہے ان سب کا نظریہ شاہ ولی اللہ دہلوی کی حکمت سے جڑا ہوا ہے۔ علماء دیو بند اپنے دینی رخ اور مسلکی مزاج کے لحاظ سے کلیتہ اہل سنت والجماعت ہیں ۔ جس کی بنیاد کتاب و سنت اور فقہ ائمہ پر قائم ہے اس کا اصل اصول توحید و رسالت ہے جو تمام انبیاء کا دین رہا ہے۔ دیو بند مسلک میں پہلی اصل توحید خداوندی پر زور دیتا ہے جس کے ساتھ شرک یا موجبات شرک جمع نہ ہو سکیں اور کسی بھی غیر اللہ کی اس میں شرکت نہ ہو دیو بند سے اہلِ سنت والجماعت کا وجود قائم ہے۔ السنت والجماعت کے الفاظ کو سمجھنے اور غور کرنے سے فرقہ دیو بند کی بنیاد میں خود بخود کھل کر سامنے آجائیں گی [3]۔

لفظ السنت و الجماعت

یہ لقب دو کلموں کا مرکب ہے السنت اور دوسرا الجماعت اور ان دونوں کے مجموعہ ہی سے اُن کا مسلک بنتا ہے تنہا کسی ایک کلمہ سے نہیں بنتا۔

السنت

السنت کے لفظی معنی قانون، دستور، طریقہ، ہدایات ، اور صراط مستقیم کی طرف اشارہ ہے۔

الجماعت

الجماعت کے لفظی معنی ذات قدسیہ، شخصیات مقدسہ یا رہنما کی طرف اشارہ ہے۔ اسلامی مذہب یا مسلک کے دو بنیادی عناصر (۱) قانون (۲) شخصیت 1- قانون سے مراد قرآن ، حدیث ۲۰۔ شخصیت سے مراد حضرت محمد ہیں۔ بر حال ہدایت کے یہ دونوں ہی عنصر ( قانون، کتاب شخصیت ) فرق مراتب کے ساتھ ضروری اور لازمی قرار دیئے گئے ہیں۔ اسی لئے بہت سے اسلامی فرقے اپنے آپ کو اہل سنت و الجماعت کہتے ہیں علماء دیو بند قرآن کی اس آیت کو لیتے ہیں۔ اور ہم نے تم کو ایک ایسی جماعت بنا دیا ہے جو نہایت اعتدال پر ہے تا کہ تم لوگوں کے مقابلہ میں گواہ ہو اور تمہارے لئے رسول علیہ السلام گواہ ہوں [4]۔

علماء دیوبند کا مذہبی نظریہ

علماء دیوبند کا دوسرے فرقوں کے بارے میں یہ نظریہ ہے کہ دوسرے فرقوں نے کتاب اللہ کو چھوڑ کر بزرگان دین اور شخصیات مقدسہ کی گہری عقیدت کے تحت کتاب الہی کو کتاب ساکت اور شخصیات کو کتاب ناطق کہہ کر ان کے ہر قول و فعل، ہر قال و حال اور ہر شخصی کردار کو اپنادین بنالیا۔ اور پھر ان کے نقش قدم پر محبت اولیاء کے نام سے کتنے ہی فرقے گروہی تعصب کے ساتھ کھڑے ہو گئے ۔ جنہوں نے اولیاء امت کی عظمت و محبت کو عبادت کی حدود تک پہنچادیا اور توحید کے نام سے ( ایک خُدا کی عبادت کرنا ) کھلے شرک کا کارخانہ برپا کر دیا زندہ بزرگوں کی تو سجدہ تعظیمی کے نام سے پرستش ہونے لگی اور مردہ بزرگوں کی سجدہ قبور سے پوجا شروع ہو گئی۔ ان کے نام کی منتیں بھی گذاری جانے لگیں ان مردوں سے مُراد یں بھی مانگی جانے لگیں اُن کی قبروں پر نذرو نیاز اور قربانیاں بھی دی جانے لگیں [5]۔

عبد النبی، عبدالمصطفی ، عبدالحسین وغیرہ نام رکھے جانے لگے ۔ پس مسلک علماء دیوبند نہ محض اصول پسندی کا نام ہے اور نہ شخصیت پرستی کا اُن کے یہاں دین اور دینی اصل توحید خداوندی پر زور دیا جاتا ہے۔ جس کے ساتھ شرک اور کسی بھی غیر اللہ کی اس میں شرکت نہ ہو۔ دیوبند کے پاس قانون شریعت بھی ہے یعنی کتاب و سنت اور ان کا فقہ اور قانون طریقت بھی ہے کتاب و سنت کی باتیں جو اللہ کی طرف سے حضور تک اور کتاب میں یعنی ( قرآن ) اور پھر حضور سے سنت کا سلسلہ چلتا ہے تو رسول سے صحابہ تک صحابہ سے تابعین تک اور تابعین سے تبع تابعین سے آج کے دور تک چلتا ہے جسے سند کہتے ہیں ۔ علماء دیو بند کے اہل حدیث فرقہ سے اختلاف محض فروعی اور خواہ مخواہ کا نہیں بلکہ ان کے ساتھ بنیادی اور اصولی اختلافات ہیں [6]۔

علماء دیو بند کے عقائد

علماء دیوبند کا مسلک بے ادب مادہ پرستوں کی طرح یہ نہیں ہے۔

  • انبیاء علیہ السلام معاذ اللہ محض ایک چٹھی رساں اور ڈاکیہ کی حیثیت رکھتے ہیں جن کا کام اللہ کا پیغام انسانوں تک پہنچا دینا ہے اور بس اس سے زیادہ معاذ اللہ ان کی کوئی حیثیت نہیں۔
  • علماء دیوبند بصدق قلب سید الکونین حضرت محمد ﷺ کو افضل الكائنات، افضل البشر اور افضل الانبیاء یقین کرتے ہیں مگر ساتھ ہی آپ کی بشریت (انسانیت) کا بھی اعلانیہ اقرار کرتے ہیں ۔ حضور کی ذات کو تمام انبیاء کرام کی تمام کمالاتی خصوصیات خلت ، امطفائیت، کلمیت، روحیت ، صادقیت ، مخلصیت اور صدیقیت وغیرہ کا جامع بلکہ میعاد نبوت انبیاء اور منشاء ولایت اولیاء سمجھتے ہیں۔ غلو عقیدت و محبت میں نفی بشریت یا ادعا اوتاریت یا پردہ مجاز میں ظہور ربوبیت جیسے کلمات باطلہ کہنے کی کبھی جرات نہیں کرتے آپ کی حدود عبدیت کو توڑ کر حدود معبودیت میں پہنچا دینے سے مدد نہیں لیتے اور نہ ہی اسے جائز سمجھتے ہیں وہ آپ کی اطاعت مطلقہ کو فرض عین جانتے ہیں لیکن آپ کی عبادت جائز نہیں سمجھتے ۔
  • وہ برزخ میں آپ کی جسمانی حیات کے قائل ہیں مگر وہاں معاشرت دینوی کے قائل نہیں وہ اس کے اقراری ہیں کہ آج بھی اُمت کے ایمان کا تحفظ گنبد خضری ہی کے منبع ایمانی سے ہورہا ہے۔ لیکن پھر بھی آپ کو حاضر ناظر نہیں جانتے جو خصوصیات الوہیت میں سے ہے۔
  • اہلِ دیو بند کے نزدیک روضہ سید المرسلین کی زیارت اعلیٰ درجہ کی قربت اور ثواب ہے اور واجب کے قریب ہے۔ مسجد نبوی کی زیارت کی بجائے روضہ رسول کی زیارت کی نیت کرے پھر جب وہاں حاضر ہوگا تو مسجد نبوی و دیگر مقامات مقدسہ کی زیارت بھی ہو جائے گی۔
  • انبیاء علیہ السلام اور اولیاء کرام کا زندگی اور وصال کے بعد دُعاؤں میں توسل جائز ہے۔ بایں طور دُعا کرنا کہ یا اللہ میں بوسیلہ فلاں نبی و بزرگ کے تجھ سے دُعا کی قبولیت اور حاجت برابری چاہتا ہوں جائز بلکہ بہتر ہے۔
  • انبیاء کرام اپنی قبروں میں زندہ ہیں ان کی قبر کی زندگی دنیا کی زندگی سے بہتر ہے اور اس معنی میں برزخی بھی ہے کہ عالم برزخ میں حاصل ہے۔
  • روضہ مبارک پر حاضری کے وقت خانہ کعبہ کی بجائے آپ کے روضہ پاک کی طرف منہ کر کے آپ پر درود وسلام پیش کرنا چاہیے۔
  • چاروں اماموں میں سے کسی ایک کی تقلید کرنا واجب ہے تقلید چھوڑنے سے بنده نفس وھوا کا اتباع کرتا ہے جس کا انجام الحاد اور زندقہ ( مطلب دین کو چھوڑ دینا) ہے۔
  • عقائد کی درستی اور شریعت کے ضروری مسائل کی تفصیل سے فارغ ہو کر شیخ کامل سے بیعت ہو کر اپنے نفس کی اصلاح اچھے اخلاق کو سیکھنا بُرے اخلاق تکبر عجب ریا کاری وغیرہ سے بچنے کے لئے بیعت ہونا ضروری ہے اور ان کے بتائے ہوئے اذکار کی پابندی لازم ہے۔
  • اللہ تعالیٰ بغیر جہت و مکان کے عرش پر مستوی ہیں ایسی شان کے ساتھ جو اللہ تعالیٰ کے لائق ہے ہم اس کیفت سے بے خبر ہیں ۔
  • حضرت محمد علا تمام انبیاء و رسل و کل مخلوق سے افضل ہیں اور فضیلت میں کسی کی آپ کے ساتھ نسبت کرنا آپ کی توہین ہے۔ ایمان اور تو ہین ایک ساتھ کسی دل میں جمع نہیں ہو سکتا۔
  • خاتم النبین حضرت محمدی با اعتبار زمان و با اعتبار ذات تمام انبیاء و رسل کے خاتم ہیں۔
  • اسلامی اصطلاح میں حضرت محمد ال افضل البشر تمام مخلوق سے اشرف جمع پیغمبروں کے سردار سارے نبیوں کے امام ہیں۔
  • آپ کو اولین و آخرین کا علم عطا ہوا آپ پر حق تعالیٰ کا فضل عظیم ہے تمام مخلوق سے زیادہ عالم ہیں ۔ بایں ہمہ وہ گندے علم جو آپ کی شان کے ابتی نہیں ایسے علوم سے حق تعالٰی نے آپ کو محفوظ رکھا آپ شیطانی علوم سے بالکل پاک ہیں ۔ شیطانی علوم میں ابلیس سے بڑا کوئی نہیں اور روحانی علوم میں خدا کے بعد آپ سے بڑا کوئی نہیں۔
  • جشن ولادت کے موقع پر آپ کی صورت و سیرت کا تذکرہ باعث اتمی و ثواب و حصول محبت محبوب کبریا ہے۔ مگر ایسی پاک مجالس کا منکرات شرعیہ سے پاک ہونا ضروری ہے۔ مثلاً مردوں عورتوں کے اختلاط باجے گانے سے جب کہ فی زمانہ یہ ہو رہا ہے مگر ہندوؤں کی طرح یہ عقیدہ جان کر میلا د شریف کی مجلس سجانا کہ آپ ﷺ کی روح مبارک عالم ارواح سے عالم دنیا کی طرف آتی ہے۔ اور مجلس میلا د کونفس ولادت حضور پاک کے وقوع کا یقین رکھ کر وہ برتاؤ کرنا جو واقعی ولادت کی گذشتہ ساعت میں کرنا ضروری تھا مجوس اور رافضیوں (شیعوں) کے عقیدے کے ساتھ مشابہت ہے جیسے روافض ان تمام باتوں کی نقل اُتارتے ہیں جو قولا وفعلا عاشورا کے دن میدان کربلا میں حضرت امام حسین کے ساتھ کیا گیا۔ مثلاً لاش بنانا، کفنانا ،قبر کھودنا ، دفنانا ، جنگ و قتال کے جھنڈے چڑھانا کپڑوں کو خون سے رنگنا نوحے کرنا وغیرہ۔ دیو بند مشائخ کے نزدیک حضرت محمد ﷺ اپنی قبر میں زندہ ہیں ۔ علامہ تقی الدین سبکی نے فرمایا ہے کہ انبیاء و شہدا کی قبر میں حیات ایسی ہے جیسی دنیا میں تھی اور حضرت موسیٰ کا اپنی قبر میں نماز پڑھنا اس کی دلیل ہے کیونکہ نماز زندہ جسم کو چاہتی ہے [7]۔

مسئلہ حیات النبی

برزخ میں انبیاء علیہم السلام کی حیات مسئلہ مشہور و معروف اور جمہور علماء کا اجتماعی مسئلہ ہے علماء دیوبند جس میں عقیدہ اہل سنت و الجماعت برزخ میں انبیاء کرام کی حیات کے اس تفصیل سے قائل ہیں کہ حضور اور تمام انبیاء کرام وفات کے بعد اپنی اپنی قبروں میں حیات جسمانی کے ساتھ زندہ ہیں ۔ اور ان کے اجسام کے ساتھ اُن کی ارواح مبارکہ کا ویسا ہی تعلق قائم ہے جیسا کہ دنیوی زندگی میں قائم تھا۔ وہ عبادت میں مشغول ہیں نمازیں پڑھتے ہیں انہیں رزق دیا جاتا ہے اور وہ قبور مبارکہ پر حاضر ہونے والوں کا صلوٰۃ وسلام سنتے ہیں ۔ وفات کے بعد حضور کے جسد اطہر کو برزخ ( قبر شریف ) میں یہ تعلق روح حیات حاصل ہے اور اس حیات کی وجہ سے روضہ اقدس پر حاضر ہونے والوں کا حضور صلوٰۃ وسلام سنتے ہیں [8]۔

مذکورہ بالا مسئلہ حیات النبی کی تصریح کندگان

  • محمد طیب وارد حال راولپنڈی،
  • مولانا قاضی نور محمد خطیب جامع مسجد قلعہ دیدار سنگھ،
  • مولانا غلام اللہ خان، مولانا محمد علی جالندھری۔

قبر شریف کی طرف رخ کرنا

سوال: کیا جائز ہے؟ کہ مسجد نبوی میں دُعا کرنے والے کو اپنی صورت قبر شریف کی طرف منہ کر کے کھڑا ہو یا قبلہ کی طرف منہ کرے؟

جواب: عقائد علماء دیو بند میں مذکور ہے کہ جب تم قبر شریف پر حاضر ہو تو قبر مطہر کی طرف منہ کر کے کہو آپ پر سلام نازل ہو۔ اے نبی اللہ کی رحمت برکات نازل ہوں زیارت قبر کے وقت چہرہ مبارک کی طرف منہ کر کے کھڑا ہونا چاہیے یہی دیو بند کے نزدیک معتبر ہے دیوبندی [9]۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم، اللہ کے رسولوں میں سب سے افضل رسول ہیں۔آپ خاتم النّبیین ہیں، نبوت کا سلسلہ آپ پر تام اور مکمل ہوگیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی نوع کے اعتبار سے بشر ہیں؛ بلکہ افضل البشر اور تمام انسانوں کے سردار ہیں۔ آپ کی شان اتنی بلند اور آپ کا مرتبہ اتنا اونچا ہے [10]۔ دیوبند علماء کہتے ہیں کہ جو شخص یہ عقیدہ رکھے یا زبان سے نکالے کہ اللہ تعالی جھوٹ بولتا ہے وہ کافر قطعی ملعون اور کتاب و سنت و اجماع امت کا مخالف ہے۔ ان کا یہ عقیدہ ضرور ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرعون اور ابولہب کے متعلق فرمایا ہے کہ وہ دوزخی ہیں تو یہ حکم قطعی ہے۔ لیکن اللہ ان کو جنت میں داخل کرنے پر قادر ضرور ہے عاجز نہیں ۔ ان بہتر فرقوں میں سے صرف اہل سنت و الجماعت ہی فرقہ حقہ کہلانے کے مستحق ہیں اور بہتر فرقوں میں سے فرقہ ناجیہ قرار پائے اہل سنت و الجماعت کا رشتہ سند متصل کے ساتھ صحابہ کرام سے گزرتا ہوا ذات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے بلا انقطاع جوا ہوا ہے۔ جس سے واضح ہے کہ یہ فرقہ کوئی نوزائیدہ یا نو مولود فرقہ نہیں جسے وقت کے نظریات نے پیدا کر دیا ہو بلکہ قدیم اور سالف الایام فرقہ ہے۔ پھر اس کا لقب اہل سنت والجماعتہ بھی مشکوۃ نبوت ہی سے نکلا ہوا پھر اور صحابہ نبوی ہی نے اسے شائع بھی فرمایا ہو تو پھر اس طبقہ کے مستند حقانی قدیم اور اصل ہونے، جامع لقب سوائے اہل سنت والجماعت کے دوسرا ہو ہی نہیں سکتا [11]۔

صحابہ کرام کے متعلق عقیدہ

علماء دیو بند صحابہ میں تفریق کے قائل نہیں کہ کسی کو لائق محبت سمجھیں اور کسی کو لائق عداوت علماء دیو بند کے مسلک میں سب حضرات مقدسین نقدس کے انتہائی مقام پر ہیں۔ مگر بنی یا خُدا انہیں بلکہ بشریت کی صفات سے متصف لوازم بشریت اور ضروریات بشری کے پابند ہیں ۔ مگر عام بشر کی سطح سے بالا تر کچھ معمولی امتیازات بھی رکھتے ہیں۔

تصوف اور صوفیاء

علماء دیو بند اولیاء کرام کے ساتھ اس غلو محبت و مخالفت سے مسلک کوسوں دور ہیں ۔ البتہ متصوفہ اور بناوٹی صوفیوں کو نا قابل انتقاف سمجھتے ہیں اور چند بندگی جڑی رسموں کی نقالی یا نمائی اچھل کود کو اچھا نہیں سجھتے اور اُن کی قبروں کو سجدہ و رکوع طواف، نذر ، منت اور قربانی کے قائل نہیں۔ لیکن اُن کی منور قبروں سے استفادہ اور فیض حاصل کرنے کے قائل ہیں اور انہیں مشکل کشا اور دافع البلاء والو با نہیں سمجھتے وہ حاضری قبور کے قائل ہیں۔ مگر اُن کو عید گاہ اور سجدہ گاہ بنانے کے قائل نہیں ان سے تبرک و استفادہ کے قائل ہیں ۔ صوفیا ء واولیاء کی محبت و عقیدت اُن کے نزدیک بلا شبہ ایک شرعی حقیقت ہے۔ علماء دیو بند اُن کی غیر معمولی دینی عظمتوں کے پیش نظر انہیں سرتاج اولیاء مانتے ہیں مگر ان کے معصوم ہونے کے قائل نہیں ۔ طریقت کو شریعت سے الگ کوئی مستقل راہ نہیں سمجھتے بلکہ شریعت ہی کے باطنی اور اخلاقی حصہ کو طریقت کہتے ہیں جو اصلاح قلب کا راستہ ہے جسے شریعت نے احسان کہا ہے حاصل یہ ہے کہ دیوبند مسلک میں تعظیم اولیاء السند جزو دین ہے اولیاء کرام کے سلاسل اور طرق تربیت کے منکر نہیں جبکہ وہ خود بھی ان سلسلوں سے بندے ہوئے ہیں۔ علماء دیو بند آج کی رائج شدہ نرسموں مثلاً نتیجہ ، دسواں ، چالیسواں ، بری قبروں کے چڑھاوے، عرسوں کی غیر شرعی خرافات وغیرہ کو بدعت کہہ کرسختی سے روکتے ہیں اور شادی کی رسموں مثلاً کنگنا چوٹھی بھوڑا۔ آرسی مصحف وغیرہ کو جو اگر چہ دینی حیثیت سے نہیں صرف محض تمدنی اور معاشرتی جذبات سے انجام دی جاتی ہیں۔ خلاف سنت کہہ کر اخلاقی انداز سے بملا طفت روکتے ہیں۔ بر حال رسم بدعت ہو یا رسم خلاف سنت دونوں کو روکتے ہیں رسوم منھی کو قوت سے روکتے ہیں کیونکہ وہ باعث ثواب سمجھ کر کی جاتی ہیں۔

فقہ اور فقہاء

فقہ اور فقہاء کے سلسلے میں بھی علماء دیوبند کا مسلک وہی جامعیت اور جو ہر اعتدال لئے ہوئے ہے جو اولیاء و علماء کے بارے میں انہوں نے اپنے سامنے رکھا ہے صرف ایک امام مجتہد کے مذہب کے دائرہ میں محدود رہنا ضروری سمجھتے ہیں۔ اس لئے دیو بند فقہیات میں حنفی المذہب ہیں اور تمام اجتہادی مسائل میں حنفی مذہب کے تابع رہتے ہیں اور حق صرف حنفی مذہب کو جانتے ہیں۔ علماء دیوبند اشعری ہیں یا ماتریدی؟ اس بارہ میں علماء دیو بند ماتریدی کی نسبت سے معروف ہیں لیکن ان میں ایک جماعت اشعری ہونے کی رائے بھی رکھتی ہے۔

دیو بند کے نزدیک دو امام

ابو الحسن اشعری

شیخ ابوالحسن علی بن اسماعیل اشعری کے متبع ہیں جو 260 یا 270 ہجری میں پیدا ہوئے تھے اور ابو موسیٰ اشعری جو حضرت سرور عالم کے صحابی کی اولاد میں سے ہیں اور اشعری ملک یمن کے ایک قبلے کا نام بھی ہے۔ اشعری فقہ شافعی کے فقہ پر تھے بعض مالکیہ کہتے ہیں معتزلہ اشعریہ کو اثر یہ بھی کہتے ہیں شافعی لوگ ابو الحسن اشعری کے تابع ہیں اس وجہ سے ان کو اشعریہ کہتے ہیں بغداد میں سکونت کی اور وہیں 323ہجری یا 330 ہجری میں انتقال ہوا۔

ابو منصور ماتریدی

ابو منصور محمد بن محمود ماتریدی کی طرف منسوب ہے یہ ابوحنیفہ کے شاگرد ہیں اور فقہ میں حنفی المذہب تھے ماترید سمرقند کے ایک محلے کا نام جس میں آپ رہا کرتے تھے بعض کہتے ہیں کہ سمرقند کے شہروں میں سے ماترید بھی ایک شہر کا نام ہے حنفی لوگ ابو منصور ماتریدی کے قول کے تابع ہیں اس سبب سے ان کو ماترید کہتے ہیں۔ شاہ ولی اللہ کے کلام سے مترشح ہوتا ہے کہ وہ اشعری ہیں اس لئے علماء دیوبند کو بھی وہ اشعری سمجھتے ہیں۔ دنیا میں دیوبند مسلم فرقہ ، اہل سنت و الجماعت میں مذہب حنفی ہیں کلاما ماتریدی واشعری ہیں مشربا صوفی ہیں سلوکا چشتی بلکہ جامع سلاسل میں فکر اولی اللہی ہیں اصولاً قاسمی ہیں فروعا رشیدی ہیں بیانا یعقوبی ہیں اور نسبتا دیو بند ہیں ۔

دیوبند کی مشہور کتا بیں

دیوبند کی مشہور کتاب فتاوی رشیدیہ ہے جو مولانا رشید احمد گنگوہی نے لکھی ہے۔ دیوبند فرقہ کے بانی دیوبندی فرقہ کے بانی کا نام قطب الارشاد مولوی رشید احمد گنگوہی اور حجتہ الاسلام مولا نا محمد قاسم نانوتوی ہیں۔

دیو بندی لوگوں کی نشانیاں

  • اکثر علماء دیوبند سر پر بال نہیں رکھیں گے یعنی سرمنڈواتے رہیں گے بڑے بڑے بال نہیں ہونے دیں گے بالکل چھوٹے چھوٹے بال رکھیں گے۔
  • پاجاموں اور شلواروں کے پہنچے ٹخنوں سے اونچے رکھیں گے۔
  • لمبی لمبی نمازیں پڑھیں گے تا کہ دوسرے لوگ ان کی نمازوں کو دیکھ کر اپنی نمازوں کو درست کر لیں۔
  • اکثر یہ لوگ تبلیغ کے لئے شہر شہر اپنے بستروں کو اٹھا کر تبلیغ کرتے نظر آ ئیں گے یا گاڑیوں میں سفر کر کے لوگوں کو تبلیغ کریں گے۔

دیو بند لوگوں کا سالانہ سب سے بڑا اجتماع لاہور کے نزدیک رائیونڈ میں ہر سال ایک بار ہوتا ہے اور دیو بند لوگ پاکستان کے دوسرے شہروں سے جوگ در جوگ اس میں شامل ہوتے ہیں لاکھوں کی تعداد میں یہ لوگ جمع ہوتے ہیں۔

جمعیت اشاعت التوحید والسنته

اس تنظیم سے وابستہ افراد پنجاب میں اشاعتی اور ممانی کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ صوبہ سرحد میں پہنچ پیری ( گاؤں کا نام ہے ) سے جانے جاتے ہیں اور جمعیت کے سربراہ ( مولانا طاہر پنج پیری صاحب ہیں ) انہی دو صوبوں میں ان کے پیروکار زیادہ پائے جاتے ہیں اس تنظیم نے اپنا ایک تحریری دستور بنا رکھا ہے۔ جس کی دفعات وشقات میں اس تنظیم کے اغراض و مقاصد، طریقہ کا روغیرہ وضاحت کے ساتھ بیان کر دیئے گئے ہیں ۔ دستور کی ابتدا میں سورۃ یوسف کی آیت 30، النساء 59 الاحزاب 30 اور البقرة 137 کو نمایاں طور پر لکھا گیا ہے۔ جس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ ان آیات کے مطابق جمعیت اشاعت التوحید و السنتہ کے لوگ صرف اللہ کے حکم کو ہی حرف آخر سمجھتے ہیں اس کی بندگی کرتے ہیں ۔ اشاعتہ التوحید والسنتہ کا عقیدہ ہے کہ انسان کامل مومن تب بنتا ہے جب وہ ہر ایک طاقت کا مالک صرف اللہ کو مانے اور اس کے مقابل جن جن کو لوگوں نے حاجت روا اور مشکل کشا بنا رکھا ہے ان سب کی نفی کرتے اور کہتے ہیں۔ یہ بات ہمیں قرآن بتاتا ہے لوگوں نے قرآن کو بس چومنے اور چاٹنے تک محدود کر رکھا ہے۔ اور ایمان سارے کا سارا بزرگوں کی کتابوں پر رکھا ہوا ہے۔ قرآن سے پوچھتا ہی نہیں کہ تو ہی تا سچا ایمان کیا ہے۔ متنازعہ امور میں صرف قرآن وحدیث سے رجوع کرتے ہیں محمد ﷺ کو آخری نبی سمجھتے ہیں اور صحابہ کے ایمان کو نمونہ و مثال مانتے ہیں اگر چہ انہوں نے علماء دیوبند کے متفقہ عقیدے قبر میں حیات البنی سے بظاہر اختلاف کیا ہے۔ جس کی وجہ سے آج کے علماء دیو بند انہیں گمراہ قرار دیتے ہیں تاہم وہ خود کو دیو بند (اشاعتی ) مسلک کا پیرو ہی مانتے ہیں دیو بندی مسلک کو حق گردانتے ہیں اور اسی کی ترویج واشاعت کرتے ہیں۔ گجرات ( جو اس تنظیم کا ہیڈ کوارٹر ہے ) سے شائع ہونے والا ماہنامہ نغمہ توحید اور سرگودھا سے چھنے والا ماہ نامہ گلستان اور ماہنامہ عارفین اس تنظیم کے داعی ومبلغ جرائد ہیں۔ اشاعت التوحید والسنتہ والوں کی مساجد میں ہر فرض صلوۃ کے بعد امام اورمقتدی ہاتھ اٹھا کر اجتماعی دعا کرتے ہیں۔ مسلک دیوبند کی مساجد پر لکھا ہوتا ہے مسلک دیو بند - لیکن اشاعتی دیو بند کی مساجد پر اشاعت التوحید والسنہ “ کا لیبل لگا ہوگا۔ اشاعتی اور دیوبند ( دونوں ) کے عقائد میں یکسانیت پائی جاتی ہے۔ انبیاء کو اشاعتی بھی دیو بند کی طرح حضور کو قبر میں زندہ مانتے ہیں۔ اشاعتی اور دیوبند دونوں مانتے ہیں کہ انبیاء کرام کے جسموں کو مٹی پر حرام کر دیا گیا ہے۔ جس طرح دیو بند اپنے خوابوں میں نبیہ اور دوسرے فوت شدہ بزرگوں کی زیارت کرتے رہتے ہیں اسی طرح اشاعتی دیو بند بھی ان سے پیچھے نہیں ۔ اشاعتی اور دیو بندی دونوں فقہ حنفی کے پیرو ہیں [12]۔

مجلس مقننہ اشاعتہ التوحید والسنتہ پاکستان کا فیصلہ =

  • اشماعة التوحید والسنتہ کا مسلک عدم سماع موتی ہے۔
  • سماع موتی عند القبور کے قائلین کو ہم کا فرنہیں کہتے ۔
  • سماع موتی عند القبور کے قائلین میں سے کوئی بھی ہماری جماعت کا رکن نہیں بن سکتا۔
  • سماع موتی عند القبور کے قائلین کو کافر کہنے والا بھی ہماری جماعت کا رکن نہیں بن سکتا۔
  • سماع موتی کا عقیدہ قرآن کریم کے خلاف ہے قرآن کریم میں سماع موتی ثابت نہیں ں ہے اور جو لوگ سماع موتی ہر وقت دور و نزدیک کے قائل ہیں وہ ہمارے نزدیک دائرہ اسلام سے خارج ہیں ۔ ہاں جو دور نزدیک سے مطالقة موتی کے سننے کے قائل ہو تو وہ شرک فی السمع کا مرتکب ہو کر مشرک قرار پائے گا۔

اشاعتوں کے مفتی سید محمد حسین شاہ نیلوی صاحب ہیں یہ مولانا رشید احمد گنگوری کو اپنا مقتدا مانتے ہیں اور بیج پیری کے سر براہ شیخ القرآن مولا نا محمد طاہر حاج پیری صاحب ہمیں شیخ القرآن مولانا حسین علی الوانی دیو بندی عالم مولا نا رشید احمد گنگوری کے شاگرد اور خلیفہ تھے کے مسلک سے تمسک ان کی جماعت کی شرط لازم ہے۔ عنایت اللہ شاہ گجراتی، مولانا قاضی شمس الدین صاحب گوجرنوالہ اور مولانا غلام اللہ خاں صاحب راولپنڈی ( یہ سب مولانا حسین علی الوانی ) کے شاگرد ہیں اور اشاعتی دیوبند ہیں ۔ ضیا اللہ شاہ بخاری کہتے ہیں اگر اشاعت التوحید والسنتہ نہ ہوتی تو دیو بندیت نام کی کوئی حقیقت نہ ہوتی لبادے چاہے جتنے ہوتے رنگ چاہے جتنے ہوتے (۱) حق نہ ہوتا (۲) جہاد نہ ہوتا (۳) اسلام نہ ہوتا ۔ اشاعتی علماء کہتے ہیں آج اس ملک پاکستان میں دیو بندیت حق کی آبرو ہے یہ صرف اشاعت التوحید والسنتہ کا ہی قافلہ ہے جس کی وجہ سے یہ ہوا جمعیت اشاعتہ التوحيد السنتہ کے علماء کہتے ہیں کہ بانیان دیوبند ان کی عقیدت تو ہم اپنے لئے باعث عزت و فخر سمجھتے ہیں اُن کی تو ہین کا تصور بھی ہم نہیں کر سکتے رشید احمد گنگوہی تو ہمارے لئے مینارہ نور ہیں۔ اشاعت التوحید والے انہیں اپنا مقتدا مانتے ہیں [13]۔

حوالہ جات

  1. اشرف بر، علماء دیوبند ، اور ان ادارہ اسلامیات انارکی لاہور
  2. موج کوثر ص 207
  3. مولانا خلیل احمد، عقائد علما اهل سنت دیوبند، مکتب العلم اردو بازار لاہور
  4. سوره البقره/123
  5. نعیم اختر سندھو، مسلم فرقوں کا انسا‏ئیکلوپیڈیا، موسی کاظم ریٹی گن روڈ لاہور، 2009ء، ص180-181
  6. مولانا محمد یا اللہ قادری تبلیغی جماعت سے اختلاف کیوں؟ کتب خانہ تحصیل بازار سیالکوت
  7. چوہدری غلام رسول،مذاہب عالم تقابلی ، علمی کتاب خانه کبیر ستریت اردو بازار لاہور
  8. مفتی احمد یار خان نعیمی، جا الحق ، مکتبہ اسلامیہ اردو بازار لاہور
  9. عقائد کا مختصر تحقیقی جائزہ، urdufatwa.com
  10. darulifta-deoband.com
  11. محمد فیض احمد اویسیدیو بند وہابی میں ، مکتبہ اویسیہ رضویہ بہاول پور شیرانی روز
  12. قاری محمد طیب قاسمی، خطبات حکیم الاسلام جلد ہفتم، ناشر کتب خانہ مجید یہ بیرون بوہڑ گیٹ ملتان
  13. حکیم الاسلام مولانا قاری محمد طیب،علماء دیوبند کادینی زرخ اور مسلکی مزاج ،ناشر ادارہ اسلامیات لاہور۔