"بداء" کے نسخوں کے درمیان فرق

کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 106: سطر 106:
پس جبارنے كہا:اے محمد۔كہا: حاضر ہوں اور آپ كے حكم كا تابع۔كہا: مىرے پاس قول كى تبدىلى نہىں،جىساكہ تجھ پرامّ كتاب مىں فرض كىا، كہا: ہر نىكى كا اس كے دس برابر ہے، پس ىہ ام كتاب مىں پچاس ہے،اور تجھ پر ىہ پانچ ہے)) ۔
پس جبارنے كہا:اے محمد۔كہا: حاضر ہوں اور آپ كے حكم كا تابع۔كہا: مىرے پاس قول كى تبدىلى نہىں،جىساكہ تجھ پرامّ كتاب مىں فرض كىا، كہا: ہر نىكى كا اس كے دس برابر ہے، پس ىہ ام كتاب مىں پچاس ہے،اور تجھ پر ىہ پانچ ہے)) ۔
اور اس  حدىث كى بداء پر دلالت كى صراحت سمجھنے كے قابل ہے كہ جس پر مصرى ادارہ مىگزىن(أزہر)  سے صادر كتابچے كے مؤلف نے تعلىقہ  لكھاجو كہ (إسراء اور معراج) كے عنوان سے علماء كے اىك گروہ ، اور معراج سے خاص شعبے كے شىخ توفىق اسلام  ىحى نے تىار كىا، اس نے (شرح حدىث) كے عنوان كے تحت صفحہ ۷۰ پر ذكر كىا:
اور اس  حدىث كى بداء پر دلالت كى صراحت سمجھنے كے قابل ہے كہ جس پر مصرى ادارہ مىگزىن(أزہر)  سے صادر كتابچے كے مؤلف نے تعلىقہ  لكھاجو كہ (إسراء اور معراج) كے عنوان سے علماء كے اىك گروہ ، اور معراج سے خاص شعبے كے شىخ توفىق اسلام  ىحى نے تىار كىا، اس نے (شرح حدىث) كے عنوان كے تحت صفحہ ۷۰ پر ذكر كىا:
((۷-دوسرے انبىاء كو چھوڑ كے صرف موسىؑ كى طرف رجوع كرنے مىں كىا حكمت ہے، اور [[حضرت محمدصلى الله عليه وسلم]] اور موسىؑ كے درمىان گفتگو اور مراجعہ كسے جائز ہوا؟
((۷-دوسرے انبىاء كو چھوڑ كے صرف موسىؑ كى طرف رجوع كرنے مىں كىا حكمت ہے، اور [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|حضرت محمدصلى الله عليه وسلم]] اور موسىؑ كے درمىان گفتگو اور مراجعہ كسے جائز ہوا؟
جواب دىا گىا:جب نماز واجب كى تو جس كى طرف سب سے پہلے سبقت كى وہ حضرت موسىؑ تھے، پس اللہ نے اسے موسىؑ كے قلب پہ قرار دىا، تاكہ اللہ تعالى كے گذشتہ علم كامل ہوجائے كہ ىہ عمل مىں پانچ اور ثواب مىں پچاس ہے۔
جواب دىا گىا:جب نماز واجب كى تو جس كى طرف سب سے پہلے سبقت كى وہ حضرت موسىؑ تھے، پس اللہ نے اسے موسىؑ كے قلب پہ قرار دىا، تاكہ اللہ تعالى كے گذشتہ علم كامل ہوجائے كہ ىہ عمل مىں پانچ اور ثواب مىں پچاس ہے۔
اور ان دونوں كے آپس مىں تكرار اور مراجعہ كا وقوع جائز ہوا كىونكہ ان كو علم تھا كہ پہلى تعىىن قطعا واجب نہىں ہے، اور اگر وجوب قطعى ہوتا تو اس مىں تخفىف كو قبول نہ كرتا اور نہ ہى دونوں انبىاء ىہ كام كرتے))۔
اور ان دونوں كے آپس مىں تكرار اور مراجعہ كا وقوع جائز ہوا كىونكہ ان كو علم تھا كہ پہلى تعىىن قطعا واجب نہىں ہے، اور اگر وجوب قطعى ہوتا تو اس مىں تخفىف كو قبول نہ كرتا اور نہ ہى دونوں انبىاء ىہ كام كرتے))۔