"حماس" کے نسخوں کے درمیان فرق
سطر 19: | سطر 19: | ||
دسمبر 2014 میں یورپی عدالت برائے انسانی حقوق کے فیصلے کے مطابق حماس کا نام جو پہلے اس یونین کی دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل تھا، اس فہرست سے نکال دیا گیا تھا، تاہم اس پر عائد پابندیاں نہیں ہٹائی گئیں۔ اس عدالت نے قرار دیا کہ حماس کو دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل کرنا یورپی معیار کے مطابق نہیں تھا اور سابقہ فیصلے میں عدالت کے موافق شواہد پیش نہیں کیے گئے تھے تاہم یہ فیصلہ کمزور ذرائع بشمول معلومات کی بنیاد پر کیا گیا تھا۔ انٹرنیٹ پر دستیاب ہے۔ تاہم، یہ حکم یورپی یونین کے رکن ممالک کے لیے پابند نہیں ہے، اور برطانیہ اور جرمنی جیسے ممالک اس گروپ کو دہشت گرد تنظیموں کی فہرست سے نہیں نکال سکتے۔ | دسمبر 2014 میں یورپی عدالت برائے انسانی حقوق کے فیصلے کے مطابق حماس کا نام جو پہلے اس یونین کی دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل تھا، اس فہرست سے نکال دیا گیا تھا، تاہم اس پر عائد پابندیاں نہیں ہٹائی گئیں۔ اس عدالت نے قرار دیا کہ حماس کو دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل کرنا یورپی معیار کے مطابق نہیں تھا اور سابقہ فیصلے میں عدالت کے موافق شواہد پیش نہیں کیے گئے تھے تاہم یہ فیصلہ کمزور ذرائع بشمول معلومات کی بنیاد پر کیا گیا تھا۔ انٹرنیٹ پر دستیاب ہے۔ تاہم، یہ حکم یورپی یونین کے رکن ممالک کے لیے پابند نہیں ہے، اور برطانیہ اور جرمنی جیسے ممالک اس گروپ کو دہشت گرد تنظیموں کی فہرست سے نہیں نکال سکتے۔ | ||
== سیاسی سرگرمیاں == | |||
حماس انتظامی طور پر دو بنیادی گروہوں میں منقسم ہے۔ | |||
پہلا معاشرتی امور جیسے کہ اسکولوں ہسپتالوں اور مذہبی اداروں کی تعمیر کے لئے مختص ہے اور دوسرا گروہ اسکی عسکری شاخ، شہید عزالدین القسام بریگیڈ ہے جو فلسطین کا دفاع کرتی ہے۔ | |||
کہا جاتا ہے کہ حماس کی ایک شاخ اردن میں بھی ہے جہاں اس کے ایک رہنما خالد مشعل کو اسرائیل نے متعدد مرتبہ قتل کرنےکی کوشش کی۔ | |||
شاہ حسین نے تو کسی نہ کسی طرح حماس کو برداشت کیے رکھا البتہ ان کے جانشین شاہ عبداللہ دوم ، جس کی والدہ ایک انگریز عورت ہے، نے حماس کا ہیڈ کوارٹر بند کر دیا۔ اس کے بعد تنظیم کے بڑے رہنما قطر جلا وطن کر دیے گئے۔ | |||
اس خطے میں امریکی پشت پناہی سے قیام امن کی کوششوں کے سلسلے میں ہونے والے عمل اوسلو معاہدے کی مخالفت میں حماس پیش پیش تھی۔ | |||
اس معاہدے میں فلسطین کی جانب سے اسرائیلی ریاست کے تحفظ کی یقین دہانی کے بعد اسرائیل کا مقبوضہ علاقوں سے جزوی اور مرحلہ وار انخلاء شامل تھا۔ | |||
انیس سو پچانوے میں حماس نے اپنے ایک بم بنانے والے کارکن یحییٰ عیاش کے اسرائیل کے ہاتھوں قتل ہونے کے بعد فروری اور مارچ انیس سو چھیانوے کے دوران بسوں کو خودکش حملوں کا نشانہ بنایا۔یحییٰ عیاش بنیادی طور پر یاک انجینئر اور عز الدین القسام برگیڈ کی کاروائیوں میں جدت لانے والا گوریلا کمانڈر تھا جس کو اسرائیلی مھندس الموت(موت کا انجینئر)کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ان خودکش حملوں کے بعد اسرائیل نے امن کے منصوبے پر عمل درآمد روک دیا اور اس کے بعد اسرائیل کےقدامت پسند رہنما بنیامین نیتن یاہو نے انتخابات میں کامیابی حاصل کی۔ وہ اوسلو معاہدے کے مخالفوں میں سے ایک ہیں۔ | |||
== حوالہ جات == | == حوالہ جات == | ||
{{حوالہ جات}} | {{حوالہ جات}} |
نسخہ بمطابق 10:04، 10 اکتوبر 2023ء
حماس | |
---|---|
پارٹی کا نام | حماس (حرکۃ المقاومۃ الاسلامی) |
بانی پارٹی | احمد یاسین، عبد العزیز رنتیسی |
پارٹی رہنما | خالد مشعل |
مقاصد و مبانی |
|
حماس یا تحریک مزاحمت اسلامیہ (عربی: حرکۃ المقاومۃ الاسلامی ) فلسطین کی سب سے بڑی اسلامی تنظیم ہے ، جس کی بنیاد 1987 میں شیخ احمد یاسین نے رکھی۔ شہر میں حماس کے قیام کی پندرہویں سالگرہ کے موقع پر ہونی والی ایک ریلی میں چالیس ہزار سے زائد افراد نے شرکت کی تھی۔
تاریخ
حماس کی بنیاد 1987 میں شیخ احمد یاسین، عبدالعزیز رنتیسی اور محمد طہ نے اخوان المسلمین کی فلسطینی شاخ کے طور پر پہلی انتفاضہ کے دوران رکھی تھی۔ اب تک حماس اسرائیلی فوجیوں کے خلاف متعدد فوجی راکٹ حملے کر چکی ہے۔ انہوں نے اپنی سرگرمیوں کا دائرہ صرف فوجی کارروائیوں تک محدود نہیں رکھا اور متعدد سماجی پروگراموں کو نافذ کرکے غزہ کی پٹی اور مغربی کنارے کے لوگوں کی زندگیوں میں اپنی مضبوط موجودگی قائم کی ہے۔ ہسپتالوں، تعلیمی مراکز اور لائبریریوں کی تعمیر فلسطینیوں کے ایک اہم حصے میں ان کی مقبولیت کا باعث بنی ہے [1]۔
حماس کے بارے میں مختلف ممالک کی رائے
امریکہ، اسرائیل اور کینیڈا حماس کو دہشت گرد گروپ سمجھتے ہیں۔ آسٹریلیا اور برطانیہ نے صرف حماس کے عسکری ونگ عزالدین قسام بریگیڈ کو دہشت گرد گروپوں کی فہرست میں شامل کیا ہے۔ ان کی سرگرمیاں اردن میں 1999 سے غیر قانونی قرار دی گئی ہیں۔
اگرچہ 2012 میں حماس کے سیاسی بیورو کے سربراہ خالد مشعل اور اردن کے شاہ عبداللہ کے درمیان قطر کے ولی عہد کی ثالثی سے ملاقات ہوئی تھی لیکن اردنی حکومت نے حماس کو اپنی سرگرمیاں جاری رکھنے کی اجازت نہیں دی [2] ۔
دسمبر 2014 میں یورپی عدالت برائے انسانی حقوق کے فیصلے کے مطابق حماس کا نام جو پہلے اس یونین کی دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل تھا، اس فہرست سے نکال دیا گیا تھا، تاہم اس پر عائد پابندیاں نہیں ہٹائی گئیں۔ اس عدالت نے قرار دیا کہ حماس کو دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل کرنا یورپی معیار کے مطابق نہیں تھا اور سابقہ فیصلے میں عدالت کے موافق شواہد پیش نہیں کیے گئے تھے تاہم یہ فیصلہ کمزور ذرائع بشمول معلومات کی بنیاد پر کیا گیا تھا۔ انٹرنیٹ پر دستیاب ہے۔ تاہم، یہ حکم یورپی یونین کے رکن ممالک کے لیے پابند نہیں ہے، اور برطانیہ اور جرمنی جیسے ممالک اس گروپ کو دہشت گرد تنظیموں کی فہرست سے نہیں نکال سکتے۔
سیاسی سرگرمیاں
حماس انتظامی طور پر دو بنیادی گروہوں میں منقسم ہے۔
پہلا معاشرتی امور جیسے کہ اسکولوں ہسپتالوں اور مذہبی اداروں کی تعمیر کے لئے مختص ہے اور دوسرا گروہ اسکی عسکری شاخ، شہید عزالدین القسام بریگیڈ ہے جو فلسطین کا دفاع کرتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ حماس کی ایک شاخ اردن میں بھی ہے جہاں اس کے ایک رہنما خالد مشعل کو اسرائیل نے متعدد مرتبہ قتل کرنےکی کوشش کی۔ شاہ حسین نے تو کسی نہ کسی طرح حماس کو برداشت کیے رکھا البتہ ان کے جانشین شاہ عبداللہ دوم ، جس کی والدہ ایک انگریز عورت ہے، نے حماس کا ہیڈ کوارٹر بند کر دیا۔ اس کے بعد تنظیم کے بڑے رہنما قطر جلا وطن کر دیے گئے۔ اس خطے میں امریکی پشت پناہی سے قیام امن کی کوششوں کے سلسلے میں ہونے والے عمل اوسلو معاہدے کی مخالفت میں حماس پیش پیش تھی۔ اس معاہدے میں فلسطین کی جانب سے اسرائیلی ریاست کے تحفظ کی یقین دہانی کے بعد اسرائیل کا مقبوضہ علاقوں سے جزوی اور مرحلہ وار انخلاء شامل تھا۔
انیس سو پچانوے میں حماس نے اپنے ایک بم بنانے والے کارکن یحییٰ عیاش کے اسرائیل کے ہاتھوں قتل ہونے کے بعد فروری اور مارچ انیس سو چھیانوے کے دوران بسوں کو خودکش حملوں کا نشانہ بنایا۔یحییٰ عیاش بنیادی طور پر یاک انجینئر اور عز الدین القسام برگیڈ کی کاروائیوں میں جدت لانے والا گوریلا کمانڈر تھا جس کو اسرائیلی مھندس الموت(موت کا انجینئر)کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ان خودکش حملوں کے بعد اسرائیل نے امن کے منصوبے پر عمل درآمد روک دیا اور اس کے بعد اسرائیل کےقدامت پسند رہنما بنیامین نیتن یاہو نے انتخابات میں کامیابی حاصل کی۔ وہ اوسلو معاہدے کے مخالفوں میں سے ایک ہیں۔