"عزاداری" کے نسخوں کے درمیان فرق

ویکی‌وحدت سے
سطر 7: سطر 7:
اہل تشیع کے نزدیک عزاداری پر سب سے مضبوط حدیث ریان ابن الشبیب کی حدیث ہے۔ اسے منابع حدیثی شیعہ میں حدیث یابن الشبیب بھی کہا جاتا ہے۔ جس میں ماہ محرم میں پیش آنے والے واقعات اور کربلا کی جنگ کا مسئلہ بیان کیا گیا  '''روایت امالی شیخ صدوق''' اور '''عیون اخبار الرضا''' میں آئی ہے جسے '''ریان ابن الشبیب''' نامی شخص نے علی ابن موسی الرضا ( شیعہ امامیہ کے آٹھویں امام) سے نقل کیا ہے۔ اس روایت کے مندرجات میں دعاؤں کے ایام ، ماہ محرم کی خصوصیت اور اس کے آغاز کا ذکر ، واقعہ کربلا اور سید الشہداء امام حسین کی المناک شہادت اور ان کے مظلوم اصحاب پر ڈھائے گئے مظالم
اہل تشیع کے نزدیک عزاداری پر سب سے مضبوط حدیث ریان ابن الشبیب کی حدیث ہے۔ اسے منابع حدیثی شیعہ میں حدیث یابن الشبیب بھی کہا جاتا ہے۔ جس میں ماہ محرم میں پیش آنے والے واقعات اور کربلا کی جنگ کا مسئلہ بیان کیا گیا  '''روایت امالی شیخ صدوق''' اور '''عیون اخبار الرضا''' میں آئی ہے جسے '''ریان ابن الشبیب''' نامی شخص نے علی ابن موسی الرضا ( شیعہ امامیہ کے آٹھویں امام) سے نقل کیا ہے۔ اس روایت کے مندرجات میں دعاؤں کے ایام ، ماہ محرم کی خصوصیت اور اس کے آغاز کا ذکر ، واقعہ کربلا اور سید الشہداء امام حسین کی المناک شہادت اور ان کے مظلوم اصحاب پر ڈھائے گئے مظالم
=== مضمون حدیث ===
=== مضمون حدیث ===
ریان بن شبیب کہتے ہیں: میں پہلی محرم کو امام رضا کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ (ع)نے مجھ سے فرمایا: اے ابن شبیب کیا روزے سے ہو؟ میں نے کہا: نہیں۔ فرمایا: آج وہ دن ہے، جس دن حضرت زکریا علیہ السلام نے اپنے پروردگار سے دعا کی اور کہا کہ مجھے ایک پاک نسل عطا فرما، کیونکہ تو دعاؤں کو سننے والا ہے۔ اللہ تعالی نے دعا قبول فرمائی اور فرشتوں کو حکم دیا تو ملائکہ نے زکریا سے کہا جبکہ وہ محراب عبادت میں مشغول عبادت تھے کہ: خداوند متعال تجھے یحیی کی بشارت دیتا ہے۔ جو شخص آج کے دن روزہ رکھے اور اس کے بعد بارگاہ الہی میں دعا کرے، خداوند متعال اس کی دعا کو قبول فرماتا ہے، جیسے حضرت زکریا کی دعا قبول کی۔


== حوالہ جات ==
== حوالہ جات ==

نسخہ بمطابق 07:41، 19 جولائی 2023ء

آیین عزاداری.jpg

عزاداری کی محرم یا ماتم حسین بن علی یا عزاداری ہر سال زیادہ تر شیعوں لوگ کرتے ہے۔ جس میں دنیا بھر میں ماتمی جلوسوں، مجلسوں، وعظ، سوگواری، خیرات اور سینہ کوبی کے ذریعے واقعہ کربلا میں شہید ہونے والے افراد کو یاد کر کے ان کا غم منایا جاتا ہے۔ دنیا کے کافی علاقوں میں اہل سنت حضرات نیز عیسائی بلکہ ہندو لوگ بھی شہدائے کربلا کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے عزائے مظلومین میں اپنا حصہ ڈالتے ہیں۔ رسول اللہ کے اہل بیت سب سے پہلے حسین بن علی علیہ السلام کا ماتم کرنے والے تھے اور دوسروں کو بھی سوگ کی دعوت دیتے تھے۔ محمد بن علی، جعفر بن محمد اور علی بن موسی علیہ السلام کے زمانے کے شاعر کمیت اسدی اور دعبل خزاعی نے سید الشہداء کے سوگ میں نظمیں لکھیں۔

جواز عزاداری از روئے قرآن

اظہار غم ایک فطری عمل ہے اسی طرح اظہار مسرت بھی عین فطرت ہے۔ اسلام چونکہ دین فطرت ہے اس لیے قرآن قریم میں متعددجگہ گریہ کے متعلق ذکر ہے اور اس کا درجہ بلند باتایا گیا ہے۔اسی طرح رسول اکرم انسان کامل تھے ان کی سیرت ہمارے لیے شمع ہدایت ہے اور طریق زندگی سنت۔آنحضرت نے بھی گریہ فرمایا ہے صرف یہی نہیں بلکہ دوسرے انبیا ء علیہم السلام جسیے حضرت آدم علیہ السلام ہابیل کی شہادت پر بہت روتے تھے اور اپنی اولاد کو وصیت فرماگئے تھے یہی معلول جاری رکھیں۔حضرت نوح علیہ السلام اس لیے روتے تھے کہ آپ نے اپنی قوم کے لیے بددعا کی تھی جس کی وجہ سے وہ ہلاک ہو گئی تھی، زیادہ نوحہ کرنے کے سبب آپکا لقب نوح ہو گیا۔یعنی زیادہ نوحہ کرنے والا، حضرت ابراہیم کے لیے قرآن کریم میں ارشاد ہے کہ وہ بہت حلیم اور آہ کرنے والے تھے [1].

جواز عزاداری از نظر احادیث

اس سلسلے میں بہت سی احادیث ہیں۔ جن میں عزاداری اور خاص طور پر حسین ابن علی کی عزاداری کا کہا گیا ہے۔ اہل تشیع میں تمام بارہ امام کا حکم نبی کا فرمان ہی ہوتا ہے اس لیے. اہل تشیع کے نزدیک عزاداری پر سب سے مضبوط حدیث ریان ابن الشبیب کی حدیث ہے۔ اسے منابع حدیثی شیعہ میں حدیث یابن الشبیب بھی کہا جاتا ہے۔ جس میں ماہ محرم میں پیش آنے والے واقعات اور کربلا کی جنگ کا مسئلہ بیان کیا گیا روایت امالی شیخ صدوق اور عیون اخبار الرضا میں آئی ہے جسے ریان ابن الشبیب نامی شخص نے علی ابن موسی الرضا ( شیعہ امامیہ کے آٹھویں امام) سے نقل کیا ہے۔ اس روایت کے مندرجات میں دعاؤں کے ایام ، ماہ محرم کی خصوصیت اور اس کے آغاز کا ذکر ، واقعہ کربلا اور سید الشہداء امام حسین کی المناک شہادت اور ان کے مظلوم اصحاب پر ڈھائے گئے مظالم

مضمون حدیث

ریان بن شبیب کہتے ہیں: میں پہلی محرم کو امام رضا کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ (ع)نے مجھ سے فرمایا: اے ابن شبیب کیا روزے سے ہو؟ میں نے کہا: نہیں۔ فرمایا: آج وہ دن ہے، جس دن حضرت زکریا علیہ السلام نے اپنے پروردگار سے دعا کی اور کہا کہ مجھے ایک پاک نسل عطا فرما، کیونکہ تو دعاؤں کو سننے والا ہے۔ اللہ تعالی نے دعا قبول فرمائی اور فرشتوں کو حکم دیا تو ملائکہ نے زکریا سے کہا جبکہ وہ محراب عبادت میں مشغول عبادت تھے کہ: خداوند متعال تجھے یحیی کی بشارت دیتا ہے۔ جو شخص آج کے دن روزہ رکھے اور اس کے بعد بارگاہ الہی میں دعا کرے، خداوند متعال اس کی دعا کو قبول فرماتا ہے، جیسے حضرت زکریا کی دعا قبول کی۔

حوالہ جات

  1. سورہ مریم آیت58،سورہ المائدہ آیت83،سورہ نبی اسرائیل آیت 109،سورہ النجم آیت 35