"غدیرخم" کے نسخوں کے درمیان فرق

ویکی‌وحدت سے
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 64: سطر 64:
{{حوالہ جات}}
{{حوالہ جات}}
[[fa:غدیر]]
[[fa:غدیر]]
[[زمرہ: اسلامی اصطلاحات ]]
[[زمرہ: اسلامی مواقع ]]

نسخہ بمطابق 07:08، 25 جون 2023ء

غدیر خم 2.jpg

واقعہ غدیرخم تاریخ اسلام کا اہم ترین واقعہ ہے۔ جس میں پیغمبر اسلام نے حجۃ الوداع سے واپسی پر غدیر خم نامی جگہ پر ہجرت کے دسویں سال 18 ذی الحجہ کے دن حضرت علی کو اپنا جانشین مقرر فرمایا۔ جس کے بعد تمام بزرگ صحابہ سمیت حاضرین نے حضرت علی کی بیعت کی۔

یہ تقرری خدا کے حکم سے ہوئی جسے خداوند عالم نے آیت تبلیغ میں بیان فرمایا ہے۔ یہ آیت ہجرت کے دسویں سال 18 ذی الحجہ سے کچھ مدت قبل نازل ہوئی جس میں پیغمبر اکرم کو حکم دیا گیا تھا کہ جو کچھ خدا کی طرف سے آپ پر نازل کیا گیا ہے اسے لوگوں تک پہنچائیں اگر ایسا نہ کیا گیا تو گویا آپ نے رسالت کا کوئی کام انجام نہیں دیا۔ اس کے بعد آیت اکمال نازل ہوئی جس میں خدا نے دین کی تکمیل اور نعمات کی تمامیت کا اعلان کرتے ہوئے دین اسلام کو خدا کا پسندیدہ دین قرار دیا

معصومین نے حدیث غدیر کے ساتھ استناد کیا ہے۔ اسی طرح امام علی کے دور سے لے کر موجودہ دور تک کے بہت سے شعراء نے غدیر کے بارے میں اشعار لکھے ہیں۔ اس واقعہ اور حدیث غدیر کے سب سے اہم مستندات میں علامہ امینی کی کتاب الغدیر فی الکتاب و السنۃ و الادب شامل ہے۔ پیغمبر اکرم اور ائمہ معصومین نے اس دن کو عید قرار دیئے ہیں اسی لئے تمام مسلمان بطور خاص، شیعہ اس دن جشن مناتے ہیں۔

غدیر کا واقعہ

جریان غدیر.jpg

حجۃ الوداع

رسول خدا ہجرت کے دسویں سال، 24 یا 25 ذیقعدہ کو ایک لاکھ بیس ہزار افراد کے ساتھ فریضہ حج کی ادائیگی کے لئے مدینہ سے مکہ کی طرف روانہ ہوئے۔ رسول اللہؐ کا یہ حج حجۃ الوداع، حجۃ الاسلام اور حجۃ ‌البلاغ کہلاتا ہے۔

اس وقت امام علی تبلیغ کے لئے یمن گئے ہوئے تھے، جب آپ کو رسول خدا کے حج پر جانے خبر ملی تو یمنی مسلمانوں کی ایک جماعت کے ساتھ مکہ کی طرف روانہ ہوئے اور اعمال حج کے آغاز سے قبل ہی رسول الله سے جا ملے۔ حج کے اختتام پر رسول خدا مسلمانوں کے ساتھ مکہ سے مدینہ کی جانب روانہ ہوئے [1]

آیت تبلیغ

فریضہ حج کی ادائیگی کے بعد مسلمانوں کا یہ عظیم الشان اجتماع بروز جمعرات 18 ذی الحجہ کو پیغمبر اکرم کی معیت میں غدیر خم کے مقام پر پہنچے۔ جہاں سے شام، مصر اور عراق وغیرہ سے آنے والے حجاج اس عظیم کاروان سے جدا ہو کر اپنے اپنے مقرره راستوں سے اپنے ملکوں کی طرف جانا تھا اتنے میں جبرائیل آیت تبلیغ لے کر نازل ہوئے اور رسول خدا کو اللہ کا یہ حکم پہنچا دیا کہ علی کو اپنے بعد ولی اور وصی کے طور پر متعارف کرائیں.

آیت نازل ہونے کے بعد رسول اللہؐ نے کاروان کو رکنے کا حکم دیا اور آگے نکل جانے والوں کو واپس پلٹنے اور پیچھے رہ جانے والوں کو جلدی جلدی غدیر خم کے مقام پر آپؐ تک پہنچنے کا حکم دیا [2]

رسول خدا کا خطبہ

نماز ظہر ادا کرنے کے بعد رسول خدا نے خطبہ دیا جو خطبۂ غدیر کے نام سے مشہور ہوا اور اس کے ضمن میں فرمایا:

حمد و ثنا صرف اللہ کے لئے ہے۔ اسی سے مدد مانگتے ہیں اور اسی پر ایمان رکھتے ہیں۔ اپنے نفس کی شرانگیزیوں اور اپنے کردار کی برائیوں سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں... خداوند لطیف و خبیر نے مجھے خبر دی ہے کہ مجھے بہت جلد اس کے پاس سے بلایا آئے گا اور میں اس کے بلاوے پر لبیک کہوں گا... میں تم سے پہلے حوض کوثر کے کنارے حاضر ہونگا اور تم اسی حوض کے کنارے میرے پاس لائے جاؤگے، پس دیکھو کہ میرے بعد ثقلین کے ساتھ کیا سلوک روا رکھتے ہو؛ ثقل اکبر کتاب اللہ ہے ... اور میری عترت، ثقل اصغر ہے...۔

اس کے بعد رسول خدا نے حضرت علی کا ہاتھ پکڑ کر اٹھا لیا یہاں تک کہ سب نے آپؑ کو رسول الله کے پہلو میں دیکھ لیا اور اس کے بعد آپ نے فرمایا:

اے لوگو! کیا میں تمہاری نسبت تم پر مقدم نہیں ہوں؟، لوگوں نے جواب دیا: "کیوں نہیں اے رسول خدا؛ رسول الله نے فرمایا: خداوند متعال میرا ولی ہے اور میں مؤمنین کا ولی ہوں، پس جس جس کا میں مولا ہوں علیؑ بھی اس کے مولا ہیں۔ رسول خدا نے یہ جملہ تین مرتبہ دہرایا اور فرمایا: "اے اللہ! تو اس شخص کو دوست رکھ اور اس کی سرپستی فرما جو علی کو دوست رکھتا ہے اور اسے اپنا مولا اور سرپرست مانتا ہے اور ہر اس شخص سے دشمنی کر جو علی کا دشمن ہے۔ اس کی مدد اور نصرت فرما جو علی کی مدد اور نصرت کرتا ہے اس شخص کو اپنی حالت پر چھوڑ دے حو علیؑ کو تنہا چھوڑتا ہے۔ بعد از آں لوگوں سے مخاطب ہوکر فرمایا: حاضرین اس پیغام کو غائبین تک پہنچا دیں

آیت اکمال کا نزول

ابھی اجتماع منتشر نہیں ہوا تھا کہ جبرائیل دوبارہ نازل ہوئے اور خدا کی طرف سے رسول خداؐ پر آیت اکمال نازل کردی؛ جس میں ارشاد ہوا: الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الإِسْلاَمَ دِيناً

امام علی کو تبریک و تہنیت

اس موقع پر، لوگوں نے امیرالمؤمنینؑ کو مبارکباد پیش کی۔ ابوبکر اور عمر تبریک و تہنیت کہنے والوں میں پیش پیش تھے اور باقی صحابہ ان کے پیچھے پیچھے تبریک و تہنیت کہہ رہے تھے۔ عمر مسلسل کہہ رہے تھے: بخ بخ لك ياعلي اصبحت مولاي ومولٰی كل مؤمن ومؤمنة، یعنی مبارک ہو مبارک ہو اے علی آپ ہر مؤمن مرد اور عورت کے مولا و سرپرست ہوگئے [3]۔

مروی ہے کہ رسول الله کے حکم پر ایک خیمہ بپا کیا گیا اور آپؐ نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ گروہ در گروہ آ کر علی علیہ السلام کو امیرالمؤمنین کے عنوان سے سلام کریں، اور حتی کہ ازواج رسول نے بھی اس حکم نبوی کی تعمیل کی [4]

حاضرین کی تعداد

غدیر خم میں حاضر افراد کی تعداد کے بارے میں مؤرخین کے درمیان اختلاف ہے۔ بعض لوگوں نے ان کی تعداد 10000 ،بعض نے 12000، بعض نے 17000، اور بعض نے 70000 افراد نقل کی ہے [5]۔

غدیر خم کے مقام پر اجتماع کی گنجائش اور سنہ 10 ہجری میں مدینہ کی آبادی کے پیش نظر نیز مکہ میں حجۃ الوداع کے موقع پر حجاج کی تعداد کو مد نظر رکھتے ہوئے غدیر خم میں 10000 افراد پر مبنی روایت کو مستند تر اور صحیح تر قرار دیا جاسکتا ہے [6]۔

غدیر کے راوی

تاریخ اسلام میں کم ہی ایسا کوئی مرحلہ اور کوئی واقعہ ہوگا جو سند اور وقوع کے لحاظ سے اس قدر قوی اور مستحکم ہو۔ حدیث غدیر کے راوی بہت ہیں جن میں سے بعض مشہور راویوں کے نام حسب ذیل ہیں:

اہل بیت یعنی امام ‌علی، حضرت فاطمہ(س)، امام حسن اور امام حسین۔ بعد ازاں 110 صحابہ کے نام آتے ہیں جن میں سے بعض کے نام حسب ذیل ہیں:

عمر بن ‌الخطاب [7]، عثمان بن عفان [8]، عائشہ بنت ابی بکر[9]، سلمان فارسی ،ابوذر غفاری، زبیر بن‌ عوام [10]، جابر بن عبداللہ انصاری [11]،عباس بن عبدالمطلب [12]، ابوہریرہ [13] وغیرہ، جو واقعہ غدیر کے وقت غدیر خم کے مقام پر حاضر تھے اور انھوں نے یہ حدیث بلاواسطہ طور پر نقل کی ہے۔

بعد ازاں تابعین ہیں جن میں سے 83 افراد نے یہ حدیث نقل کی ہے اور ان میں سے اصبغ بن نباتہ [14]، اور اموی خلیفہ عمر بن عبدالعزیز [15] کے نام قابل ذکر ہیں۔

تابعین کے بعد دوسری صدی ہجری سے لے کر چودہویں صدی ہجری تک 360 علمائے اہل سنت سے یہ حدیث نقل ہوئی ہے؛ جن میں شافعیوں کے امام محمد بن ادریس شافعی [16] حنابلہ کے امام احمد بن حنبل [17]، احمد بن شعیب نسائی [18]، ابن مغازلی [19]، احمد بن عبداللہ [20]، احمد بن عبدربہ [21] زیادہ مشہور ہیں۔

شیعہ محدثین اور علماء میں سے بےشمار افراد نے حدیث غدیر کو اپنی کتب میں نقل کیا ہے جن میں شیخ کلینی، شیخ صدوق، شیخ مفید، شیخ طوسی، سید مرتضی وغیرہ زیادہ مشہور ہیں [22]۔

بہت سے محدثین حدیث غدیر کو حدیث حسن اور بہت سے دوسرے اس کو حدیث صحیح سمجھتے ہیں؛ [23] نیز تمام شیعہ محدثین اور بعض اکابرین اہل سنت اس کو حدیث متواتر سمجھتے ہیں۔

غدیر سے متعلق آیات

شیعہ [24] اور سنی مفسرین [25]، کے مطابق قرآن کی چند آیات حجۃ الوداع کے موقع پر واقعۂ غدیر کے سلسلے میں نازل ہوئی ہیں:

  • سورہ مائدہ آیت 3:

الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الإِسْلاَمَ دِيناً۔؛

  • سورہ مائدہ آیت 67:

يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ وَاللّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ إِنَّ اللّهَ لاَ يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ۔؛

  • سورہ معارج آیات 1 و 2:

سَأَلَ سَائِلٌ بِعَذَابٍ وَاقِعٍ ٭ لِّلْكَافِرينَ لَيْسَ لَهُ دَافِعٗ۔؛

مؤخر الذکر دو آیات کریمہ کی تفاسیر میں بیان ہوا ہے کہ رسول الله نے امیرالمؤمنین کی ولایت کا اعلان کیا تو نعمان بن حارث فہری آپؐ کے قریب آیا اور اعتراض کی حالت میں آپ سے کہا: تو نے ہمیں توحید اور اپنی رسالت پر ایمان لانے اور جہاد و حج اور روزہ و نماز اور زکات کا حکم دیا اور ہم نے بھی قبول کیا لیکن تو اس پر راضی نہ ہوا اور اب اس نوجوان کو مقرر کیا اور اس کو ہمارا ولی قرار دیا، کیا یہ اعلان ولایت تو نے اپنی طرف سے کیا یا خدا کی جانب سے؟ جب رسول خدا نے فرمایا کہ یہ اعلان خدا کی طرف سے تھا تو اس نے انکار کی حالت میں کہا: اگر یہ اعلان خدا کی جانب سے تھا تو ایک پتھر آسمان سے اس کے سر پر آگرے۔ اسی حالت میں آسمان کی طرف سے ایک پتھر اس کے سر پر نازل ہوا اور اس کو وہیں ہلاک کرڈالا اور یہ آیات نازل ہوئیں [26]۔

حواله جات

  1. طبرسی، احتجاج، ج1، ص56، مفید، ارشاد، ص91، حلبی، السیرہ، ج3، ص308۔
  2. نسائی، ص25
  3. احمد حنبل، ج4، ص281، مفید، ص94
  4. مفید، ج1، ص 176
  5. شعیری، ص10
  6. سیدجلال امام، مقالہ بررسی تعداد جمعیت حاضر در غدیر
  7. محب طبری، ج2، ص161
  8. ابن مغازلی، ص27
  9. ابن عقده، ص152
  10. ابن مغازلی، ص27
  11. متقی هندی، ج6، ص398
  12. جزری شافعی، 3 و 48
  13. متقی هندی، ج6، ص154
  14. ابن اثیر، ج3، ص307
  15. ابونعیم، ج5، ص364
  16. بیهقی، ج1، ص337
  17. احمد، ج1، ص84، 118 و 331
  18. نسائی، ج5، ص45
  19. ابن مغازلی، ص16
  20. احمد بن عبدالله، ص67 و 87
  21. احمد بن عبدربه، ج2، ص275
  22. امینی، ج1، ص14 اور بعد کے صفحات
  23. ترمذی، ج5، باب 20
  24. طوسی، التبیان،ج 3، ص436 و 587، طبرسی، مجمع البیان، ج3، ص274 و 380، طباطبائی، المیزان، ج5، ص193 - 194
  25. واحدی نیشابوری، ص126، حاکم حَسکانی، ج1، ص200 و 249
  26. طبرسی، ج10، ص530، قرطبی، ج19، ص278، ثعلبی، ج10، ص35