"امامت" کے نسخوں کے درمیان فرق
Sajedi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) |
Saeedi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) م Saeedi نے صفحہ مسودہ:امامت کو امامت کی جانب منتقل کیا |
||
| (2 صارفین 5 کے درمیانی نسخے نہیں دکھائے گئے) | |||
| سطر 1: | سطر 1: | ||
[[فائل:امامت.jpg|تصغیر|بائیں|]] | |||
'''امامت''' ایک عربی لفظ ہے جس کا لغوی مطلب پیشوائی اور رہنمائی ہے، اور ہر شخص جو کسی گروہ کی قیادت کا ذمہ دار ہو اسے "امام" کہا جاتا ہے، چاہے وہ حق کے راستے پر ہو یا باطل کے۔ جیسا کہ قرآنِ کریم میں "أَئِمَّةَ الْكُفْر"<ref>سوره توبه آیه 12</ref> کا لفظ کفار کے سرداروں کے لیے استعمال ہوا ہے۔ وہ شخص جس کی اقتداء نمازی کریں، "امامِ جماعت" کہلاتا ہے۔ | '''امامت''' ایک عربی لفظ ہے جس کا لغوی مطلب پیشوائی اور رہنمائی ہے، اور ہر شخص جو کسی گروہ کی قیادت کا ذمہ دار ہو اسے "امام" کہا جاتا ہے، چاہے وہ حق کے راستے پر ہو یا باطل کے۔ جیسا کہ قرآنِ کریم میں "أَئِمَّةَ الْكُفْر"<ref>سوره توبه آیه 12</ref> کا لفظ کفار کے سرداروں کے لیے استعمال ہوا ہے۔ وہ شخص جس کی اقتداء نمازی کریں، "امامِ جماعت" کہلاتا ہے۔ | ||
لیکن علمِ کلام کی اصطلاح میں امامت کا مطلب ہے: "اسلامی معاشرے پر دینی اور دنیاوی ہر معاملے میں عام اور ہمہ گیر قیادت"۔ یہاں "دنیاوی" کا ذکر امامت کے وسیع دائرہ اختیار پر تاکید کے لیے ہے، وگرنہ اسلامی معاشرے کے دنیاوی امور کا انتظام بھی دینِ اسلام کا حصہ ہے۔ | لیکن علمِ کلام کی اصطلاح میں امامت کا مطلب ہے: "اسلامی معاشرے پر دینی اور دنیاوی ہر معاملے میں عام اور ہمہ گیر قیادت"۔ یہاں "دنیاوی" کا ذکر امامت کے وسیع دائرہ اختیار پر تاکید کے لیے ہے، وگرنہ اسلامی معاشرے کے دنیاوی امور کا انتظام بھی دینِ اسلام کا حصہ ہے۔ | ||
== شیعوں کے نزدیک امامت کا تصور== | == شیعوں کے نزدیک امامت کا تصور== | ||
شیعہ امامیہ کے نزدیک، توحید اور نبوت کے بعد امامت دینِ اسلام کا سب سے اہم مسئلہ ہے۔ امتِ مسلمہ اس موضوع میں بنیادی طور پر دو بڑے گروہوں، یعنی شیعہ اور اہلِ سنت، میں تقسیم ہے۔ اگرچہ دونوں میں داخلی اختلافات موجود ہیں، تاہم ان کے درمیان دو بنیادی اور جوہری فرق ہیں۔ تمام شیعہ فرقوں کے نزدیک، امام کا منصوص ہونا لازم ہے، یعنی امام کو اللہ اور رسولِ خدا کی جانب سے براہِ راست منتخب اور نامزد کیا جانا ضروری ہے، کیونکہ امام میں عصمت شرط ہے اور معصوم ہونے کو صرف اللہ اور رسولِ خدا ہی پہچان سکتے ہیں۔ | [[شیعہ]] امامیہ کے نزدیک، توحید اور نبوت کے بعد امامت دینِ [[اسلام]] کا سب سے اہم مسئلہ ہے۔ امتِ مسلمہ اس موضوع میں بنیادی طور پر دو بڑے گروہوں، یعنی [[شیعہ]] اور اہلِ سنت، میں تقسیم ہے۔ اگرچہ دونوں میں داخلی اختلافات موجود ہیں، تاہم ان کے درمیان دو بنیادی اور جوہری فرق ہیں۔ تمام شیعہ فرقوں کے نزدیک، امام کا منصوص ہونا لازم ہے، یعنی امام کو اللہ اور [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم|رسولِ خدا]] کی جانب سے براہِ راست منتخب اور نامزد کیا جانا ضروری ہے، کیونکہ امام میں عصمت شرط ہے اور معصوم ہونے کو صرف اللہ اور [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم|رسولِ خدا]] ہی پہچان سکتے ہیں۔ | ||
شیخ طوسی فرماتے ہیں: "امامت توحید کے بعد سب سے اہم دینی مسئلہ ہے، کیونکہ امام کی شناخت اور اس کے مقام کی سمجھ کے بغیر توحید ناقص رہ جاتی ہے اور رسولِ اکرم ﷺ کی تمام کاوشیں خطرے اور زوال میں پڑ جاتی ہیں"۔ <ref>طوسی، 1351: 50</ref> | شیخ طوسی فرماتے ہیں: "امامت توحید کے بعد سب سے اہم دینی مسئلہ ہے، کیونکہ امام کی شناخت اور اس کے مقام کی سمجھ کے بغیر توحید ناقص رہ جاتی ہے اور رسولِ اکرم ﷺ کی تمام کاوشیں خطرے اور زوال میں پڑ جاتی ہیں"۔ <ref>طوسی، 1351: 50</ref> | ||
فیاض لاہجی اس بارے میں کہتے ہیں: "امامی فرقہ امامت کو اصولِ دین میں شمار کرتا ہے، کیونکہ دین و شریعت کا قیام امام کی موجودگی پر موقوف ہے، جیسے شریعت کی ابتدا نبی کی موجودگی پر موقوف ہے۔ پس دین کو امام کی اتنی ہی ضرورت ہے جتنی اسے نبی کی"۔<ref>فیّاض لاهیجی، بیتا: 333</ref> | فیاض لاہجی اس بارے میں کہتے ہیں: "امامی فرقہ امامت کو اصولِ دین میں شمار کرتا ہے، کیونکہ دین و شریعت کا قیام امام کی موجودگی پر موقوف ہے، جیسے شریعت کی ابتدا نبی کی موجودگی پر موقوف ہے۔ پس دین کو امام کی اتنی ہی ضرورت ہے جتنی اسے نبی کی"۔<ref>فیّاض لاهیجی، بیتا: 333</ref> | ||
لہٰذا امامت اصولِ دین کا حصہ ہے اور اس پر بحث علمِ کلام میں ہونی چاہیے۔ البتہ ولایتِ تشریعی کی حدود کے تعین کے اعتبار سے یہ موضوع فقہ میں بھی زیرِ بحث آتا ہے۔ لیکن اہلِ سنت کے نزدیک امامت دین کا بنیادی جزو نہیں بلکہ اسلامی معاشرے کی قیادت و انتظام ہے، اور ایسے شخص کے لیے عصمت ضروری نہیں۔ اس لیے امام کا انتخاب اجماع اور بیعت کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ | لہٰذا امامت اصولِ دین کا حصہ ہے اور اس پر بحث علمِ کلام میں ہونی چاہیے۔ البتہ ولایتِ تشریعی کی حدود کے تعین کے اعتبار سے یہ موضوع فقہ میں بھی زیرِ بحث آتا ہے۔ لیکن اہلِ سنت کے نزدیک امامت دین کا بنیادی جزو نہیں بلکہ اسلامی معاشرے کی قیادت و انتظام ہے، اور ایسے شخص کے لیے عصمت ضروری نہیں۔ اس لیے امام کا انتخاب اجماع اور بیعت کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ | ||
فیاض لاہجی اہلِ سنت کے عقیدے کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں: "امام الحرمین، جو اہلِ سنت کے بڑے علما میں شمار ہوتے ہیں، کہتے ہیں: اگر امام ظلم و جبر کرے اور وعظ یا نصیحت سے باز نہ آئے تو اہلِ حل و عقد کو اختیار ہے کہ عملی طور پر اسے روکنے پر اتفاق کریں، چاہے اس کے لیے لڑائی اور مزاحمت کی ضرورت پڑے۔ شارحِ مقاصد کہتا ہے: بلا شبہ امامت کا مسئلہ فروعِ دین میں شامل ہونا چاہیے، اور اگر امت کا کچھ حصہ امام مقرر کرے تو باقی لوگوں سے یہ ذمہ داری ساقط ہو جاتی ہے، کیونکہ شارع اس کو فی الجملہ حاصل کرنا چاہتا ہے۔ لیکن روافض اور خوارج کے عقائد کے پھیلاؤ کی وجہ سے متکلمین نے امامت کو علمِ کلام میں شامل کر دیا"۔ | |||
فیاض لاہجی اہلِ سنت کے عقیدے کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں: "امام الحرمین، جو [[اہل السنۃ والجماعت|اہلِ سنت]] کے بڑے علما میں شمار ہوتے ہیں، کہتے ہیں: اگر امام ظلم و جبر کرے اور وعظ یا نصیحت سے باز نہ آئے تو اہلِ حل و عقد کو اختیار ہے کہ عملی طور پر اسے روکنے پر اتفاق کریں، چاہے اس کے لیے لڑائی اور مزاحمت کی ضرورت پڑے۔ شارحِ مقاصد کہتا ہے: بلا شبہ امامت کا مسئلہ فروعِ دین میں شامل ہونا چاہیے، اور اگر امت کا کچھ حصہ امام مقرر کرے تو باقی لوگوں سے یہ ذمہ داری ساقط ہو جاتی ہے، کیونکہ شارع اس کو فی الجملہ حاصل کرنا چاہتا ہے۔ لیکن روافض اور خوارج کے عقائد کے پھیلاؤ کی وجہ سے متکلمین نے امامت کو علمِ کلام میں شامل کر دیا"۔ | |||
یہ بات واضح ہے کہ اثناعشری شیعہ کا عقیدہ امامت کے بارے میں کئی پہلوؤں سے دیگر شیعہ فرقوں، جیسے کیسانیہ، زیدیہ، اسماعیلیہ وغیرہ، سے مختلف ہے، اگرچہ منصوص امام کے معاملے میں وہ بالعموم ایک خیال رکھتے ہیں۔ | یہ بات واضح ہے کہ اثناعشری شیعہ کا عقیدہ امامت کے بارے میں کئی پہلوؤں سے دیگر شیعہ فرقوں، جیسے کیسانیہ، زیدیہ، اسماعیلیہ وغیرہ، سے مختلف ہے، اگرچہ منصوص امام کے معاملے میں وہ بالعموم ایک خیال رکھتے ہیں۔ | ||
== لفط امام اور شیعه کا معنی اور تصور== | == لفط امام اور شیعه کا معنی اور تصور== | ||
راغب اصفہانی "امام" کے معنی بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: "الإِمَامُ هُوَ المُؤتَمُّ بِهِ إِنسَاناً کَأَنَ یقتَدِی بِقَولِهِ أَو فِعلِهِ، أَو کِتَاباً أَو غَیر ذَلِکَ، مُحِقّاً کَانَ أَو مُبطِلاً، وَ جَمعُهُ أَئِمَّة. وَ قولُهُ تَعَالَی: «یَوْمَ نَدْعُوا کُلَّ أُنَاسٍ بِإِمَامِهِمْ» (الإسراء/71) أَی بِالَّذِی یقتَدُون بِهِ۔" | راغب اصفہانی "امام" کے معنی بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: "الإِمَامُ هُوَ المُؤتَمُّ بِهِ إِنسَاناً کَأَنَ یقتَدِی بِقَولِهِ أَو فِعلِهِ، أَو کِتَاباً أَو غَیر ذَلِکَ، مُحِقّاً کَانَ أَو مُبطِلاً، وَ جَمعُهُ أَئِمَّة. وَ قولُهُ تَعَالَی: «یَوْمَ نَدْعُوا کُلَّ أُنَاسٍ بِإِمَامِهِمْ» (الإسراء/71) أَی بِالَّذِی یقتَدُون بِهِ۔" | ||
امام وہ ہے جس کی پیروی کی جائے، خواہ وہ کسی انسان کی بات یا عمل ہو، یا کوئی کتاب یا کوئی اور چیز ہو، چاہے وہ حق پر ہو یا باطل پر۔ امام کی جمع "ائمہ" ہے۔ اور اللہ کا یہ فرمان: "جس دن ہم ہر گروہ کو ان کے امام کے ساتھ بلائیں گے"، یعنی اس کے ساتھ جس کی وہ پیروی کرتے تھے۔ | امام وہ ہے جس کی پیروی کی جائے، خواہ وہ کسی انسان کی بات یا عمل ہو، یا کوئی کتاب یا کوئی اور چیز ہو، چاہے وہ حق پر ہو یا باطل پر۔ امام کی جمع "ائمہ" ہے۔ اور اللہ کا یہ فرمان: "جس دن ہم ہر گروہ کو ان کے امام کے ساتھ بلائیں گے"، یعنی اس کے ساتھ جس کی وہ پیروی کرتے تھے۔ | ||
(راغب اصفہانی، 1385)۔ | (راغب اصفہانی، 1385)۔ | ||
قرآن مجید میں لفظ "امام" بارہ مرتبہ واحد اور جمع کی صورت میں آیا ہے، جو کسی حد تک یہی معنی رکھتا ہے۔ یہ کلمہ سورۂ توبہ (آیت 12) اور سورۂ قصص (آیت 41) میں دو بار آیا ہے۔ یہ سورۂ ہود (آیت 12)، احقاف (آیت 12)، اور یس (آیت 17) میں تین بار آیا ہے۔ یہ سورۂ حجر (آیت 79)، سورۂ فرقان (آیت 74) میں ایک ایک بار، اور سورۂ انبیاء (آیت 73) اور سجدہ (آیت 24) میں دو بار آیا ہے، جہاں فرمایا گیا ہے: «وَجَعَلْنَاهُمْ أَئِمَّةً یَهْدُونَ بِأَمْرِنَا» (اور ہم نے انہیں امام بنایا جو ہمارے حکم سے ہدایت کرتے ہیں)۔ مزید یہ سورۂ قصص (آیت 5)، سورۂ اسراء (آیت 71) میں ایک ایک بار، اور سورۂ بقرہ (آیت 124) میں ایک بار آیا ہے۔ ان تمام آیات میں، امام کبھی پرہیزگاروں کا پیشوا اور خطِ نبوت پر ہوتا ہے اور کبھی بدکاروں کا پیشوا اور شیطان کے خط پر۔ | [[قرآن|قرآن مجید]] میں لفظ "امام" بارہ مرتبہ واحد اور جمع کی صورت میں آیا ہے، جو کسی حد تک یہی معنی رکھتا ہے۔ یہ کلمہ سورۂ توبہ (آیت 12) اور سورۂ قصص (آیت 41) میں دو بار آیا ہے۔ یہ سورۂ ہود (آیت 12)، احقاف (آیت 12)، اور یس (آیت 17) میں تین بار آیا ہے۔ یہ سورۂ حجر (آیت 79)، سورۂ فرقان (آیت 74) میں ایک ایک بار، اور سورۂ انبیاء (آیت 73) اور سجدہ (آیت 24) میں دو بار آیا ہے، جہاں فرمایا گیا ہے: «وَجَعَلْنَاهُمْ أَئِمَّةً یَهْدُونَ بِأَمْرِنَا» (اور ہم نے انہیں امام بنایا جو ہمارے حکم سے ہدایت کرتے ہیں)۔ مزید یہ سورۂ قصص (آیت 5)، سورۂ اسراء (آیت 71) میں ایک ایک بار، اور سورۂ بقرہ (آیت 124) میں ایک بار آیا ہے۔ ان تمام آیات میں، امام کبھی پرہیزگاروں کا پیشوا اور خطِ نبوت پر ہوتا ہے اور کبھی بدکاروں کا پیشوا اور شیطان کے خط پر۔ | ||
راغب اصفہانی نے "شیعہ" کی یوں تعریف کی ہے: «الشِّیعَةُ مَن یَتَقَوِّی بِهِم الإِنسَانُ»، یعنی: "شیعہ وہ لوگ ہیں جن سے انسان اپنے رہبر کو تقویت پہنچاتا ہے اور اس کی خدمت میں رہتا ہے" (حوالہ مذکورہ)۔ | راغب اصفہانی نے "شیعہ" کی یوں تعریف کی ہے: «الشِّیعَةُ مَن یَتَقَوِّی بِهِم الإِنسَانُ»، یعنی: "شیعہ وہ لوگ ہیں جن سے انسان اپنے رہبر کو تقویت پہنچاتا ہے اور اس کی خدمت میں رہتا ہے" (حوالہ مذکورہ)۔ | ||
شیخ مفید فرماتے ہیں: التَّشَیَّعُ فِی أَصلِ اللُّغَةِ هُوَ الإِتِّبَاعُ عَلَی وَجهِ التَّدَیُّنِ وَ الولاَءُ لِلمَتبُوعِ عَلَی الإِخلاَصِ۔ | شیخ مفید فرماتے ہیں: التَّشَیَّعُ فِی أَصلِ اللُّغَةِ هُوَ الإِتِّبَاعُ عَلَی وَجهِ التَّدَیُّنِ وَ الولاَءُ لِلمَتبُوعِ عَلَی الإِخلاَصِ۔ | ||
لغوی اعتبار سے تشیع یہ ہے کہ متبوع (جس کی پیروی کی جائے) کے لیے دینی بنیاد پر خالص محبت اور وفاداری کے ساتھ اس کی اتباع کی جائے۔ اللہ نے اسی معنی کے پیشِ نظر فرمایا ہے: «وَإِنَّ مِن شِیعَتِهِ لَإِبرَاهِیمَ»<ref>الصّافّات/83</ref> (اور بے شک ابراہیم (علیہ السلام) نوح (علیہ السلام) کے شیعوں میں سے تھے)۔ ظاہر ہے کہ ابراہیم (ع) کا نوح (ع) کی پیروی کرنا محبت اور دینی باور کے ساتھ تھا، نہ کہ کسی محکوم کا زبردست کی محض خشک پیروی ہو۔<ref>شیخ مفید، 1371: 36</ref> | لغوی اعتبار سے تشیع یہ ہے کہ متبوع (جس کی پیروی کی جائے) کے لیے دینی بنیاد پر خالص محبت اور وفاداری کے ساتھ اس کی اتباع کی جائے۔ اللہ نے اسی معنی کے پیشِ نظر فرمایا ہے: «وَإِنَّ مِن شِیعَتِهِ لَإِبرَاهِیمَ»<ref>الصّافّات/83</ref> (اور بے شک ابراہیم (علیہ السلام) نوح (علیہ السلام) کے شیعوں میں سے تھے)۔ ظاہر ہے کہ ابراہیم (ع) کا نوح (ع) کی پیروی کرنا محبت اور دینی باور کے ساتھ تھا، نہ کہ کسی محکوم کا زبردست کی محض خشک پیروی ہو۔<ref>شیخ مفید، 1371: 36</ref> | ||
شیخ مفید کے قول کے مطابق، شیعہ ان خاص پیروکاروں کو کہا جاتا ہے جن میں محبت اور دینی یقینیت شامل ہو۔ اس نکتہ نظر کی بنا پر، شیعہ اپنے محبوب رہنما کی راہ میں اپنی ہر چیز قربان کرنے کو تیار رہتا ہے۔ قابلِ توجہ نکتہ یہ ہے کہ جب لفظ "شیعہ" مطلق استعمال ہو تو اس سے مراد حضرت علی اور دیگر ائمہ (علیہم السلام) کے پیروکار ہوتے ہیں جو منصوص امام کے قائل ہیں، اور اگر مراد کوئی اور ہو تو اس کے ساتھ مضاف الیہ کا ذکر کیا جاتا ہے، جیسے شیعہ آل امیہ، شیعہ آل عباس وغیرہ۔<ref>مذکوره حواله</ref> | شیخ مفید کے قول کے مطابق، شیعہ ان خاص پیروکاروں کو کہا جاتا ہے جن میں محبت اور دینی یقینیت شامل ہو۔ اس نکتہ نظر کی بنا پر، شیعہ اپنے محبوب رہنما کی راہ میں اپنی ہر چیز قربان کرنے کو تیار رہتا ہے۔ قابلِ توجہ نکتہ یہ ہے کہ جب لفظ "[[شیعہ]]" مطلق استعمال ہو تو اس سے مراد [[علی ابن ابی طالب|حضرت علی]] اور دیگر ائمہ (علیہم السلام) کے پیروکار ہوتے ہیں جو منصوص امام کے قائل ہیں، اور اگر مراد کوئی اور ہو تو اس کے ساتھ مضاف الیہ کا ذکر کیا جاتا ہے، جیسے شیعہ آل امیہ، شیعہ آل عباس وغیرہ۔<ref>مذکوره حواله</ref> | ||
== امام کی اصطلاحی تعریف== | == امام کی اصطلاحی تعریف== | ||
اسلام کے مختلف فرقوں نے اپنی اپنی عقائد کے مطابق امامت کی تعریف کی ہے۔ ان میں فرقۂ اثناعشریہ (بارہ امامیہ) نے اگرچہ امامت کو مختلف تعابیر سے بیان کیا ہے، تاہم وہ تین نکات پر متفق ہیں، جن کا ذکر ذیل میں کیا گیا ہے۔ | [[اسلام]] کے مختلف فرقوں نے اپنی اپنی عقائد کے مطابق امامت کی تعریف کی ہے۔ ان میں فرقۂ اثناعشریہ (بارہ امامیہ) نے اگرچہ امامت کو مختلف تعابیر سے بیان کیا ہے، تاہم وہ تین نکات پر متفق ہیں، جن کا ذکر ذیل میں کیا گیا ہے۔ | ||
ابن میثم بحرانی کہتے ہیں: «الإِمَامَةُ رِیَاسَةُ عَامَّةِفِی أُمُورِ الدِّینِ وَ الدُّنیَا لِلإِنسَانِ الَّذِی لَهُ الإِمَامَةُ بِالأَصَالَةِ»۔ | ابن میثم بحرانی کہتے ہیں: «الإِمَامَةُ رِیَاسَةُ عَامَّةِفِی أُمُورِ الدِّینِ وَ الدُّنیَا لِلإِنسَانِ الَّذِی لَهُ الإِمَامَةُ بِالأَصَالَةِ»۔ | ||
امامت، خدا اور رسول کی جانب سے منتخب کردہ ایک انسان کے لیے دین اور دنیا کے تمام امور میں بالاصالت (ذاتی طور پر) عام ریاست (مطلق قیادت) ہے۔<ref>بحرانی، 1355: 174</ref> | امامت، خدا اور رسول کی جانب سے منتخب کردہ ایک انسان کے لیے دین اور دنیا کے تمام امور میں بالاصالت (ذاتی طور پر) عام ریاست (مطلق قیادت) ہے۔<ref>بحرانی، 1355: 174</ref> | ||
| سطر 31: | سطر 36: | ||
امامت دینی امور میں ایک عام اور مطلق ریاست ہے جس میں تمام لوگوں کو اپنی دینی اور دنیوی مصلحتوں کے تحفظ کی ترغیب دینا اور انہیں ان کاموں سے روکنا شامل ہے جو ان کی مصلحتوں کو نقصان پہنچاتے ہوں ۔<ref>حلّی و طوسی، 1360: 77</ref> | امامت دینی امور میں ایک عام اور مطلق ریاست ہے جس میں تمام لوگوں کو اپنی دینی اور دنیوی مصلحتوں کے تحفظ کی ترغیب دینا اور انہیں ان کاموں سے روکنا شامل ہے جو ان کی مصلحتوں کو نقصان پہنچاتے ہوں ۔<ref>حلّی و طوسی، 1360: 77</ref> | ||
علامہ حلی بھی فرماتے ہیں: "امامت، پیغمبر اکرم ﷺ کی جانب سے نائب کے طور پر اور ان کے انتخاب کے ذریعے انسانوں میں سے ایک برگزیدہ شخص کے لیے دینی اور دنیوی امور میں عام ریاست ہے" (حلی، 1375: 66)۔ عبدالرزاق لاہجی بھی فرماتے ہیں: "مراد امامت سے صرف پیغمبر کی نیابت اور خلافت کے طور پر دنیا اور دین کے معاملات میں مسلمانوں کی عام ریاست ہے"۔<ref>فیّاض لاهیجی، بیتا: 329</ref> | علامہ حلی بھی فرماتے ہیں: "امامت، [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|پیغمبر اکرم]] ﷺ کی جانب سے نائب کے طور پر اور ان کے انتخاب کے ذریعے انسانوں میں سے ایک برگزیدہ شخص کے لیے دینی اور دنیوی امور میں عام ریاست ہے" (حلی، 1375: 66)۔ عبدالرزاق لاہجی بھی فرماتے ہیں: "مراد امامت سے صرف پیغمبر کی نیابت اور خلافت کے طور پر دنیا اور دین کے معاملات میں مسلمانوں کی عام ریاست ہے"۔<ref>فیّاض لاهیجی، بیتا: 329</ref> | ||
== امامت میں شیعہ اور سنی نقطہ نظر کا فرق== | == امامت میں شیعہ اور سنی نقطہ نظر کا فرق== | ||
امامت کی حقیقت اہلِ سنت کے نزدیک اس سے مختلف ہے جو شیعہ کے ہاں ہے۔ اہلِ سنت امام کو ایک ایسی ریاست کے سربراہ کے طور پر دیکھتے ہیں جسے عوام یا عوام کے نمائندے منتخب کرتے ہیں، یا وہ فوجی بغاوت یا اسی طرح کے طریقوں سے مسندِ اقتدار پر آتا ہے۔ ایسے حکمران میں کچھ معروف صفات کے سوا کسی چیز کا ہونا شرط نہیں ہوتا۔ اور یہ بات روشن ہے کہ کسی صدر یا وزیرِ اعظم کی قیادت پر ایمان رکھنا، بنیادی اعتقادی اصولوں میں سے نہیں ہے، کہ اگر کوئی شخص اس کی پیشوائی اور رہبری پر یقین نہ رکھے تو اسے فاسق شمار کیا جائے گا۔ اسلامی ممالک میں ہمیشہ ایک شخص دوسرے کی جگہ حکومت پر قابض ہوتا رہا ہے، چاہے عوام کی مرضی سے ہو یا ان کی مجبوری سے، اور کسی نے بھی اس کی زمامداری پر یقین کو بنیادی عقائد میں سے نہیں سمجھا اور نہ ہی اس کی معزولی کا باعث اس کے فسق کو قرار دیا ہے، ورنہ یہاں (نظامِ حکومت) قائم نہ رہ پاتا۔ | امامت کی حقیقت اہلِ سنت کے نزدیک اس سے مختلف ہے جو [[شیعہ]] کے ہاں ہے۔ اہلِ سنت امام کو ایک ایسی ریاست کے سربراہ کے طور پر دیکھتے ہیں جسے عوام یا عوام کے نمائندے منتخب کرتے ہیں، یا وہ فوجی بغاوت یا اسی طرح کے طریقوں سے مسندِ اقتدار پر آتا ہے۔ ایسے حکمران میں کچھ معروف صفات کے سوا کسی چیز کا ہونا شرط نہیں ہوتا۔ اور یہ بات روشن ہے کہ کسی صدر یا وزیرِ اعظم کی قیادت پر ایمان رکھنا، بنیادی اعتقادی اصولوں میں سے نہیں ہے، کہ اگر کوئی شخص اس کی پیشوائی اور رہبری پر یقین نہ رکھے تو اسے فاسق شمار کیا جائے گا۔ اسلامی ممالک میں ہمیشہ ایک شخص دوسرے کی جگہ حکومت پر قابض ہوتا رہا ہے، چاہے عوام کی مرضی سے ہو یا ان کی مجبوری سے، اور کسی نے بھی اس کی زمامداری پر یقین کو بنیادی عقائد میں سے نہیں سمجھا اور نہ ہی اس کی معزولی کا باعث اس کے فسق کو قرار دیا ہے، ورنہ یہاں (نظامِ حکومت) قائم نہ رہ پاتا۔ | ||
لیکن شیعہ امامیہ امامت کو رسالت کے فرائض کا تسلسل سمجھتے ہیں (نہ کہ خود رسالت، کیونکہ پیغمبر اکرم ﷺ کے وصال کے ساتھ نبوت اور پیغمبری ختم ہو گئی تھی)۔ یہ بات واضح ہے کہ اس منصب تک رسائی کے لیے اعلیٰ صلاحیتوں کے ایک سلسلے کی ضرورت ہوتی ہے، جو کسی کو حاصل نہیں ہو سکتیں مگر وہی جس پر خصوصی الٰہی عنایات ہوں، اور جو دین کے اصول و فروع میں، عدالت، عصمت اور حکیمانہ قیادت اور دیگر شعبوں میں پیغمبر اکرم ﷺ کی جگہ سنبھالے۔ [اور یہ بدیہی ہے کہ امامت اسی معنی کے ساتھ اصولِ عقائد میں سے ہے۔<ref>سیمای عقاید شیعه، آیتالله جعفر سبحانی، مترجم: جواد محدثی، نشر مشعر، چاپ: دارالحدیث، بهار 1386، ص 187</ref> | لیکن شیعہ امامیہ امامت کو رسالت کے فرائض کا تسلسل سمجھتے ہیں (نہ کہ خود رسالت، کیونکہ [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم|پیغمبر اکرم]] ﷺ کے وصال کے ساتھ نبوت اور پیغمبری ختم ہو گئی تھی)۔ یہ بات واضح ہے کہ اس منصب تک رسائی کے لیے اعلیٰ صلاحیتوں کے ایک سلسلے کی ضرورت ہوتی ہے، جو کسی کو حاصل نہیں ہو سکتیں مگر وہی جس پر خصوصی الٰہی عنایات ہوں، اور جو دین کے اصول و فروع میں، عدالت، عصمت اور حکیمانہ قیادت اور دیگر شعبوں میں [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم|پیغمبر اکرم]] ﷺ کی جگہ سنبھالے۔ [اور یہ بدیہی ہے کہ امامت اسی معنی کے ساتھ اصولِ عقائد میں سے ہے۔<ref>سیمای عقاید شیعه، آیتالله جعفر سبحانی، مترجم: جواد محدثی، نشر مشعر، چاپ: دارالحدیث، بهار 1386، ص 187</ref> | ||
== امامت عقل اور نقل کے تناظر میں== | == امامت عقل اور نقل کے تناظر میں== | ||
مختصراً، شیعہ علماء نے امامتِ عامہ کے عقلی مباحث کو چار منطقی اور عقلی نکات میں بیان کیا ہے۔ ابن میثم بحرانی نے "قواعد المرام" میں ان چار نکات کا خلاصہ تفصیل سے بیان کیا ہے، جس کا خلاصہ ذیل میں پیش کیا جا رہا ہے: | مختصراً، [[شیعہ]] علماء نے امامتِ عامہ کے عقلی مباحث کو چار منطقی اور عقلی نکات میں بیان کیا ہے۔ ابن میثم بحرانی نے "قواعد المرام" میں ان چار نکات کا خلاصہ تفصیل سے بیان کیا ہے، جس کا خلاصہ ذیل میں پیش کیا جا رہا ہے: | ||
# ہلیّتِ وجودِ امام (امام کے وجود کا جواز): اس بحث میں امام کے وجود کی ضرورت یا عدم ضرورت پر گفتگو کی جاتی ہے، اور قاعدۂ عقلی لطف کے ذریعے امام کے وجود کو ثابت کیا جاتا ہے۔ | # ہلیّتِ وجودِ امام (امام کے وجود کا جواز): اس بحث میں امام کے وجود کی ضرورت یا عدم ضرورت پر گفتگو کی جاتی ہے، اور قاعدۂ عقلی لطف کے ذریعے امام کے وجود کو ثابت کیا جاتا ہے۔ | ||
# لمیّتِ وجودِ امام (امام کے وجود کی غایت) اس حصے میں امام کے وجود کے مقصد اور اس کی وجہِ غایی پر بحث ہوتی ہے۔ | # لمیّتِ وجودِ امام (امام کے وجود کی غایت) اس حصے میں امام کے وجود کے مقصد اور اس کی وجہِ غایی پر بحث ہوتی ہے۔ | ||
| سطر 76: | سطر 81: | ||
شیعہ علماء کے دیدۂ تحقیق کے مطابق یہاں پیش کیے جا رہے ہیں: | شیعہ علماء کے دیدۂ تحقیق کے مطابق یہاں پیش کیے جا رہے ہیں: | ||
شیخ طوسی فرماتے ہیں: امامت قاعدۂ عقلی لطف سے ثابت ہوئی۔ جب امام ایک لطف ہے، تو وہ اسی صورت میں لطف ہوگا جب وہ معصوم ہو، کیونکہ بغیر عصمت کے وہ سوچ، گفتار اور کردار میں خطا سے محفوظ نہیں رہے گا۔ اگر ایسا ہو کہ امام دانستہ یا محض بھول چوک سے بھی خطا کر بیٹھے، تو اس کی اطاعت کے وجوب کے ساتھ یہ متناقض ہوگا۔ مزید برآں، ایسا وجوب لوگوں کو جہالت کی طرف دھکیلنا ہوگا (اغراء بالجہل)۔ اس صورت میں امام کا وجود نہ صرف لطف نہیں ہوگا، بلکہ بدترین شر ہوگا، کیونکہ اس کی وجہ سے لوگ خدا سے دور ہو جائیں گے اور لامتناہی آخرت کے عذاب میں مبتلا ہو جائیں گے۔ خلاصہ یہ کہ امام کی عصمت انبیاء کی عصمت کی مانند ہے، کیونکہ دونوں شریعت کے حافظ اور شارح ہیں۔ | شیخ طوسی فرماتے ہیں: امامت قاعدۂ عقلی لطف سے ثابت ہوئی۔ جب امام ایک لطف ہے، تو وہ اسی صورت میں لطف ہوگا جب وہ معصوم ہو، کیونکہ بغیر عصمت کے وہ سوچ، گفتار اور کردار میں خطا سے محفوظ نہیں رہے گا۔ اگر ایسا ہو کہ امام دانستہ یا محض بھول چوک سے بھی خطا کر بیٹھے، تو اس کی اطاعت کے وجوب کے ساتھ یہ متناقض ہوگا۔ مزید برآں، ایسا وجوب لوگوں کو جہالت کی طرف دھکیلنا ہوگا (اغراء بالجہل)۔ اس صورت میں امام کا وجود نہ صرف لطف نہیں ہوگا، بلکہ بدترین شر ہوگا، کیونکہ اس کی وجہ سے لوگ خدا سے دور ہو جائیں گے اور لامتناہی آخرت کے عذاب میں مبتلا ہو جائیں گے۔ خلاصہ یہ کہ امام کی عصمت انبیاء کی عصمت کی مانند ہے، کیونکہ دونوں شریعت کے حافظ اور شارح ہیں۔ | ||
شیخ کے کلام کا خلاصہ یہ ہے: «فَالعِصمَةُ شَرطٌ اَسَاسِی لِجَمِیعِ الأَنبِیَاءِ وَ الأَئِمَّةِ، سَوَاءٌ فِی الذُّنُوبِ الکَبِیرَةِ أَوِ الصَّغِیرَةِ وَ سَوَاءٌ قَبلَ النُّبُوَّةِوَ الإِمَامَةِ وَ بَعدَهُمُا عَلَی سَبِیلِ العَمدِ وَ النِّسیَانِ»۔ عصمت تمام انبیاء اور ائمہ کے لیے ایک بنیادی شرط ہے، خواہ وہ کبیرہ گناہوں میں ہو یا صغیرہ میں، اور خواہ نبوت و امامت سے پہلے ہو یا بعد میں، چاہے وہ عمداً ہو یا نسیاناً (بھول کر)۔" شیخ طوسی کا یہ قول امام کی عصمت کے بارے میں سب سے مکمل قول ہے جو شیعہ اثنا عشری کے عقیدے کو بیان کرتا ہے۔ | شیخ کے کلام کا خلاصہ یہ ہے: «فَالعِصمَةُ شَرطٌ اَسَاسِی لِجَمِیعِ الأَنبِیَاءِ وَ الأَئِمَّةِ، سَوَاءٌ فِی الذُّنُوبِ الکَبِیرَةِ أَوِ الصَّغِیرَةِ وَ سَوَاءٌ قَبلَ النُّبُوَّةِوَ الإِمَامَةِ وَ بَعدَهُمُا عَلَی سَبِیلِ العَمدِ وَ النِّسیَانِ»۔<ref>طوسی، 1351، ج1: 62</ref> عصمت تمام انبیاء اور ائمہ کے لیے ایک بنیادی شرط ہے، خواہ وہ کبیرہ گناہوں میں ہو یا صغیرہ میں، اور خواہ نبوت و امامت سے پہلے ہو یا بعد میں، چاہے وہ عمداً ہو یا نسیاناً (بھول کر)۔" شیخ طوسی کا یہ قول امام کی عصمت کے بارے میں سب سے مکمل قول ہے جو شیعہ اثنا عشری کے عقیدے کو بیان کرتا ہے۔ | ||
اگر کوئی پوچھے کہ امامت کے بعد عصمت تو معقول ہے، لیکن امامت سے پہلے عصمت کی کیا ضرورت ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ بعض معنوی مقامات کے لیے ایک درخشاں پس منظر (سابقۂ درخشان) ضروری ہوتا ہے تاکہ لوگوں میں اس کی قبولیت ہو سکے۔ | اگر کوئی پوچھے کہ امامت کے بعد عصمت تو معقول ہے، لیکن امامت سے پہلے عصمت کی کیا ضرورت ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ بعض معنوی مقامات کے لیے ایک درخشاں پس منظر (سابقۂ درخشان) ضروری ہوتا ہے تاکہ لوگوں میں اس کی قبولیت ہو سکے۔ | ||
خدا نے قرآن میں اس نکتے کی طرف اشارہ فرمایا ہے: «... لاَ یَنَالُ عَهْدِی الظَّالِمِینَ» یعنی: "میرا عہد ظالموں کو نہیں ملے گا۔" لفظ "ظالمین" عام اور مطلق ہے، یعنی کوئی بھی ظالم بغیر کسی قید و شرط کے امامت کے منصب کا اہل نہیں ہے۔ اس آیت کے مطابق، اگر کسی نے اپنی زندگی کے کسی بھی مرحلے میں کوئی ظلم کیا ہو، تو وہ اس عظیم الٰہی منصب کا اہل نہیں ہے۔ اگر کسی نے نوجوانی میں کوئی گناہ کیا ہو اور پھر توبہ بھی کر لی ہو، تو بھی وہ اس آیت کے زمرے میں آتا ہے، کیونکہ گناہ، خود پر ظلم ہے یا دوسروں پر ظلم ہے، اور خدا نے قرآن میں گناہگار کو کئی بار ظالم سے تعبیر کیا ہے۔ مثال کے طور پر، سورۂ کہف کی آیت 35 میں اس شخص کے بارے میں جو دین سے پھر گیا اور آخرت کا منکر ہو گیا، فرمایا: «وَدَخَلَ جَنَّتَهُ وَهُوَ ظَالِمٌ لِّنَفْسِهِ قَالَ مَا أَظُنُّ أَن تَبِیدَ هَذِهِ أَبَدًا» یعنی: "اور وہ اپنی جنت میں داخل ہوا حالانکہ وہ اپنی جان پر ظلم کرنے والا تھا، کہنے لگا میں نہیں سمجھتا کہ یہ کبھی ختم ہو گی نیز..."۔ | |||
بدیہی ہے کہ یہ آیت خود امام کی عصمت پر ایک واضح دلیل ہے جس کا اشارہ قرآنی بحث میں دیا جائے گا۔ خواجہ نصیر طوسی نے مختصر الفاظ میں پانچ دلائل سے امام کی عصمت کو ثابت کیا اور فرمایا: «وَ امتِنَاعُ التَّسَلسُلِ یُوجَبُ عِصمَتَهُ؛ وَ لِأَنَّهُ حَافِظٌ لِلشَّرعِ؛ وَ لِوُجُوبِ الإِنکَارِ عَلَیهِ لَو أَقدَمَ عَلَی المَعصِیَةِ، فَیُضَادُّ أَمرُ الطَّاعَةِ؛ وَ یَفُوتُ الغَرَضُ مِن نَصبِهِ؛ وَ لِإِنحِطَاطِ دَرَجَتِهِ عَن أَقَلِّ العَوَامِّ»۔ ترجمہ: "اگر امام معصوم نہ ہو تو تسلسل لازم آئے گا، اور چونکہ امام شریعت کا حافظ ہے، لہٰذا اسے معصوم ہونا چاہیے۔ نیز اگر امام معصوم نہ ہو تو اس کا انکار واجب ہو جائے گا جو مفروضہ اطاعت کے منافی ہے، اور اس کے تقرر کا مقصد فوت ہو جائے گا، اور یہ لازم آئے گا کہ اس کا درجہ عام لوگوں سے بھی پست ہو جائے، کیونکہ وہ جان بوجھ کر گناہ کرتا ہے۔" | خدا نے [[قرآن]] میں اس نکتے کی طرف اشارہ فرمایا ہے: «... لاَ یَنَالُ عَهْدِی الظَّالِمِینَ»<ref>سوره بقره آیه 124</ref> یعنی: "میرا عہد ظالموں کو نہیں ملے گا۔" لفظ "ظالمین" عام اور مطلق ہے، یعنی کوئی بھی ظالم بغیر کسی قید و شرط کے امامت کے منصب کا اہل نہیں ہے۔ اس آیت کے مطابق، اگر کسی نے اپنی زندگی کے کسی بھی مرحلے میں کوئی ظلم کیا ہو، تو وہ اس عظیم الٰہی منصب کا اہل نہیں ہے۔ اگر کسی نے نوجوانی میں کوئی گناہ کیا ہو اور پھر توبہ بھی کر لی ہو، تو بھی وہ اس آیت کے زمرے میں آتا ہے، کیونکہ گناہ، خود پر ظلم ہے یا دوسروں پر ظلم ہے، اور خدا نے قرآن میں گناہگار کو کئی بار ظالم سے تعبیر کیا ہے۔ مثال کے طور پر، سورۂ کہف کی آیت 35 میں اس شخص کے بارے میں جو دین سے پھر گیا اور آخرت کا منکر ہو گیا، فرمایا: «وَدَخَلَ جَنَّتَهُ وَهُوَ ظَالِمٌ لِّنَفْسِهِ قَالَ مَا أَظُنُّ أَن تَبِیدَ هَذِهِ أَبَدًا» یعنی: "اور وہ اپنی جنت میں داخل ہوا حالانکہ وہ اپنی جان پر ظلم کرنے والا تھا، کہنے لگا میں نہیں سمجھتا کہ یہ کبھی ختم ہو گی نیز..."۔ | ||
علامہ حلی نے ان پانچوں براہین کی مفصل شرح کی ہے جو اختصار کی رعایت کے لیے بیان کرنے سے معذور ہوں۔ خلاصہ یہ کہ امام کی تقرری کے مقصد کے پیش نظر، اگر اسے خطا کرنی ہو تو دوسرے امام کی طرف رجوع کرنا پڑے گا اور اسی طرح تسلسل لازم آئے گا، اور چونکہ تسلسل باطل ہے، لہٰذا امام کا معصوم ہونا ضروری ہے۔ نیز امام جو شریعت کا حافظ ہے، اسے خطا نہیں کرنی چاہیے، ورنہ وہ شریعت کا مبیّن اور حافظ نہ رہے گا۔ خدا نے فرمایا ہے کہ شریعت کے حافظ کو بغیر خطا کے شریعت بیان کرنی چاہیے: «... وَأَنزَلْنَا إِلَیْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَیْهِمْ...» یعنی: "...اور ہم نے یہ ذکر (قرآن) آپ پر اس لیے نازل کیا ہے تاکہ آپ لوگوں کے لیے وہ چیزیں واضح کر دیں جو ان کی طرف نازل کی گئی ہیں..."۔ نیز امام کی تقرری کا مقصد جاہلوں اور خطاکاروں کی رہنمائی ہے، اور اگر وہ خود خطاکار ہو تو یہ واجب الاطاعت ہونے کے منافی ہے، اور مقصد بھی حاصل نہیں ہوگا۔ مزید یہ کہ اگر امام خطا کرے تو چونکہ وہ دوسروں سے زیادہ جاننے والا ہے اور عالم کا گناہ جاہل کے گناہ سے بدتر ہوتا ہے، لہٰذا یہ لازم آئے گا کہ وہ عام لوگوں سے بھی بدتر ہو۔ | |||
بدیہی ہے کہ یہ آیت خود امام کی عصمت پر ایک واضح دلیل ہے جس کا اشارہ قرآنی بحث میں دیا جائے گا۔ خواجہ نصیر طوسی نے مختصر الفاظ میں پانچ دلائل سے امام کی عصمت کو ثابت کیا اور فرمایا: «وَ امتِنَاعُ التَّسَلسُلِ یُوجَبُ عِصمَتَهُ؛ وَ لِأَنَّهُ حَافِظٌ لِلشَّرعِ؛ وَ لِوُجُوبِ الإِنکَارِ عَلَیهِ لَو أَقدَمَ عَلَی المَعصِیَةِ، فَیُضَادُّ أَمرُ الطَّاعَةِ؛ وَ یَفُوتُ الغَرَضُ مِن نَصبِهِ؛ وَ لِإِنحِطَاطِ دَرَجَتِهِ عَن أَقَلِّ العَوَامِّ»۔ ترجمہ: "اگر امام معصوم نہ ہو تو تسلسل لازم آئے گا، اور چونکہ امام شریعت کا حافظ ہے، لہٰذا اسے معصوم ہونا چاہیے۔ نیز اگر امام معصوم نہ ہو تو اس کا انکار واجب ہو جائے گا جو مفروضہ اطاعت کے منافی ہے، اور اس کے تقرر کا مقصد فوت ہو جائے گا، اور یہ لازم آئے گا کہ اس کا درجہ عام لوگوں سے بھی پست ہو جائے، کیونکہ وہ جان بوجھ کر گناہ کرتا ہے۔"<ref>طوسی، 1364: 364</ref> | |||
علامہ حلی نے ان پانچوں براہین کی مفصل شرح کی ہے جو اختصار کی رعایت کے لیے بیان کرنے سے معذور ہوں۔ خلاصہ یہ کہ امام کی تقرری کے مقصد کے پیش نظر، اگر اسے خطا کرنی ہو تو دوسرے امام کی طرف رجوع کرنا پڑے گا اور اسی طرح تسلسل لازم آئے گا، اور چونکہ تسلسل باطل ہے، لہٰذا امام کا معصوم ہونا ضروری ہے۔ نیز امام جو شریعت کا حافظ ہے، اسے خطا نہیں کرنی چاہیے، ورنہ وہ شریعت کا مبیّن اور حافظ نہ رہے گا۔ خدا نے فرمایا ہے کہ شریعت کے حافظ کو بغیر خطا کے شریعت بیان کرنی چاہیے: «... وَأَنزَلْنَا إِلَیْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَیْهِمْ...»<ref>سوره نحل آیه 44</ref> یعنی: "...اور ہم نے یہ ذکر (قرآن) آپ پر اس لیے نازل کیا ہے تاکہ آپ لوگوں کے لیے وہ چیزیں واضح کر دیں جو ان کی طرف نازل کی گئی ہیں..."۔ نیز امام کی تقرری کا مقصد جاہلوں اور خطاکاروں کی رہنمائی ہے، اور اگر وہ خود خطاکار ہو تو یہ واجب الاطاعت ہونے کے منافی ہے، اور مقصد بھی حاصل نہیں ہوگا۔ مزید یہ کہ اگر امام خطا کرے تو چونکہ وہ دوسروں سے زیادہ جاننے والا ہے اور عالم کا گناہ جاہل کے گناہ سے بدتر ہوتا ہے، لہٰذا یہ لازم آئے گا کہ وہ عام لوگوں سے بھی بدتر ہو۔ | |||
فیاض لاہِیجی نے بھی مستحکم دلائل سے امام کی عصمت کو ثابت کیا ہے جن میں سے کچھ اقتباسات درج ذیل ہیں: | فیاض لاہِیجی نے بھی مستحکم دلائل سے امام کی عصمت کو ثابت کیا ہے جن میں سے کچھ اقتباسات درج ذیل ہیں: | ||
جمہور اہل سنت کا خیال ہے کہ امامت دین کے فروع میں سے ہے، اس لحاظ سے کہ دین کا بقاء امام کے وجود پر موقوف نہیں، بلکہ مسلمانوں کے امور کا نظام اس پر منحصر ہے۔ لیکن جمہور امامیہ امامت کو دین کے اصول میں سے سمجھتے ہیں، اس لحاظ سے کہ شریعت کا بقاء امام کے وجود پر موقوف ہے، بالکل اسی طرح جیسے شریعت کا آغاز نبی کے وجود پر موقوف تھا۔ اختلاف کا ایک اور مقام امام کی عصمت ہے۔ امامیہ امام کی عصمت کو واجب سمجھتے ہیں، کیونکہ امام ان کے نزدیک دین کے بنیادی اجزاء میں سے ہے اور امام کی عدم عصمت سے دین تبدیلی اور تحریف سے محفوظ نہیں رہ سکتا۔ غیر امامیہ کے نزدیک عصمت شرط نہیں۔ امام الحرمین، جو ان کے عظیم علماء میں سے ہیں، کہتے ہیں کہ جب امام کا ظلم اور جور ظاہر ہو جائے اور وہ قولی روک ٹوک سے باز نہ آئے تو اہل حل و عقد کے لیے جائز ہے کہ وہ فعلی روک تھام پر متفق ہو جائیں، اگرچہ اس کے لیے اسلحہ اٹھانا اور جنگ کرنا پڑے۔ | جمہور اہل سنت کا خیال ہے کہ امامت دین کے فروع میں سے ہے، اس لحاظ سے کہ دین کا بقاء امام کے وجود پر موقوف نہیں، بلکہ مسلمانوں کے امور کا نظام اس پر منحصر ہے۔ لیکن جمہور امامیہ امامت کو دین کے اصول میں سے سمجھتے ہیں، اس لحاظ سے کہ شریعت کا بقاء امام کے وجود پر موقوف ہے، بالکل اسی طرح جیسے شریعت کا آغاز نبی کے وجود پر موقوف تھا۔ اختلاف کا ایک اور مقام امام کی عصمت ہے۔ امامیہ امام کی عصمت کو واجب سمجھتے ہیں، کیونکہ امام ان کے نزدیک دین کے بنیادی اجزاء میں سے ہے اور امام کی عدم عصمت سے دین تبدیلی اور تحریف سے محفوظ نہیں رہ سکتا۔ غیر امامیہ کے نزدیک عصمت شرط نہیں۔ امام الحرمین، جو ان کے عظیم علماء میں سے ہیں، کہتے ہیں کہ جب امام کا ظلم اور جور ظاہر ہو جائے اور وہ قولی روک ٹوک سے باز نہ آئے تو اہل حل و عقد کے لیے جائز ہے کہ وہ فعلی روک تھام پر متفق ہو جائیں، اگرچہ اس کے لیے اسلحہ اٹھانا اور جنگ کرنا پڑے۔<ref>فیّاض لاهیجی، بیتا: 333</ref> | ||
اس حصے کے اختتام پر، یہ قابل ذکر ہے کہ بارہ امامیہ شیعہ نے امام کی عصمت کو ثابت کرکے، امام کے لیے تمام ممکن کمالات کو بھی ثابت کر دیا ہے۔ ابن میثم اس بارے میں فرماتے ہیں: «اِنَّا لَمَّا قُلنَا یَجِبُ أَنیَکُونَ الإِمَامُ مَعصُوماً، وَجَبَ أَن یَکُونَ مُستَجمِعاً لِجَمِیعِ الکَمَالاَتِ النَّفسَانِیَّةِ مِثل العِلمِ وَ الشَّجَاعَةِ وَ العَدَالَةِ»۔ جب ہم نے کہا کہ امام کا معصوم ہونا واجب ہے، تو یہ بھی واجب ہو گیا کہ وہ نفسانی تمام کمالات جیسے علم، شجاعت اور عدل کو جمع کرنے والا ہو۔ | اس حصے کے اختتام پر، یہ قابل ذکر ہے کہ بارہ امامیہ شیعہ نے امام کی عصمت کو ثابت کرکے، امام کے لیے تمام ممکن کمالات کو بھی ثابت کر دیا ہے۔ ابن میثم اس بارے میں فرماتے ہیں: «اِنَّا لَمَّا قُلنَا یَجِبُ أَنیَکُونَ الإِمَامُ مَعصُوماً، وَجَبَ أَن یَکُونَ مُستَجمِعاً لِجَمِیعِ الکَمَالاَتِ النَّفسَانِیَّةِ مِثل العِلمِ وَ الشَّجَاعَةِ وَ العَدَالَةِ»۔ جب ہم نے کہا کہ امام کا معصوم ہونا واجب ہے، تو یہ بھی واجب ہو گیا کہ وہ نفسانی تمام کمالات جیسے علم، شجاعت اور عدل کو جمع کرنے والا ہو۔<ref>بحرانی، 1355: 179</ref> | ||
== پیغمبر کے بعد امام کون ہے؟ (خاص امامت کا مسئلہ)== | == پیغمبر کے بعد امام کون ہے؟ (خاص امامت کا مسئلہ)== | ||
پچھلے تین حصوں میں وجوبِ امامت، نصبِ امام کے مقصد، اور امام کے لیے عصمت کا اثبات کیا گیا۔ اب یہ بحث اس بات پر مرکوز ہے کہ نبی اکرم (ص) کے بعد یہ عظیم منصب کس کا ہے؟ | پچھلے تین حصوں میں وجوبِ امامت، نصبِ امام کے مقصد، اور امام کے لیے عصمت کا اثبات کیا گیا۔ اب یہ بحث اس بات پر مرکوز ہے کہ نبی اکرم (ص) کے بعد یہ عظیم منصب کس کا ہے؟ | ||
| سطر 103: | سطر 111: | ||
اس اعتراف سے معلوم ہوا کہ پیغمبر کے صحابہ میں سے کوئی بھی معصوم نہیں تھا سوائے حضرت علی (ع) کے۔ حضرت علی (ع) نے بارہا اپنی عصمت اور علمِ غیب کا ذکر کیا اور کبھی یہ نہیں فرمایا کہ میں گناہ گار ہوں یا مجھ سے گناہ کا صدور ممکن ہے۔ | اس اعتراف سے معلوم ہوا کہ پیغمبر کے صحابہ میں سے کوئی بھی معصوم نہیں تھا سوائے حضرت علی (ع) کے۔ حضرت علی (ع) نے بارہا اپنی عصمت اور علمِ غیب کا ذکر کیا اور کبھی یہ نہیں فرمایا کہ میں گناہ گار ہوں یا مجھ سے گناہ کا صدور ممکن ہے۔ | ||
نتیجه یه نکلا که صرف حضرت علی (ع) ہی نبی اکرم (ص) کے بعد امامت کے منصب کے شایانِ شان ہیں۔ | نتیجه یه نکلا که صرف حضرت علی (ع) ہی نبی اکرم (ص) کے بعد امامت کے منصب کے شایانِ شان ہیں۔ | ||
نقلی دلائل سے بھی حضرت علی (ع) کی تعیین کے بارے میں بہت سی آیات اور روایات موجود ہیں، جن کا جائزہ بعد میں لیا جائے گا۔ | نقلی دلائل سے بھی حضرت علی (ع) کی تعیین کے بارے میں بہت سی آیات اور روایات موجود ہیں، جن کا جائزہ بعد میں لیا جائے گا۔<ref>طوسی، 1351، ج2: 10ـ5</ref> | ||
پچھلے چار حصوں میں امامت کا اثبات عقلی براہین سے کیا گیا۔ اب اسی اہم نکتے کو نقلی دلائل سے بھی آگے بڑھایا جائے گا۔ | پچھلے چار حصوں میں امامت کا اثبات عقلی براہین سے کیا گیا۔ اب اسی اہم نکتے کو نقلی دلائل سے بھی آگے بڑھایا جائے گا۔ | ||
== امامت آیات اور روایات کی روشنی میں== | == امامت آیات اور روایات کی روشنی میں== | ||
قرآن مجید میں امامت کے مسئلے پر کئی بار روشنی ڈالی گئی ہے، جن میں اختصار کے پیش نظر صرف چند اہم مثالیں ذیل میں دی جا رہی ہیں: | [[قرآن|قرآن مجید]] میں امامت کے مسئلے پر کئی بار روشنی ڈالی گئی ہے، جن میں اختصار کے پیش نظر صرف چند اہم مثالیں ذیل میں دی جا رہی ہیں: | ||
پہلا قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ خداوند متعال نے قرآن مجید میں امام اور اس کے پیروکاروں کے درمیان سنخیت (مطابقت) قائم کی ہے اور فرمایا ہے: «یَوْمَ نَدْعُو کُلَّ أُنَاسٍ بِإِمَامِهِمْ...» (اس دن کو یاد کریں جب ہم ہر گروہ کو ان کے امام کے ساتھ پکاریں گے...)۔ خداوند متعال ایک دوسرے بیان میں فرماتا ہے: «وَجَعَلْنَاهُمْ أَئِمَّةً یَدْعُونَ إِلَی النَّارِ...»: اور ہم نے ان (فرعونیوں) کو ایسے پیشوا بنا دیا جو جہنم کی طرف بلاتے ہیں...»۔ ہدایت دینے والے ائمہ کے باب میں وہ فرماتا ہے: «وَجَعَلْنَا مِنْهُمْ أَئِمَّةً یَهْدُونَ بِأَمْرِنَا لَمَّا صَبَرُوا...»: اور ہم نے ان میں سے ایسے امام (پیشوا) بنائے جو ہمارے حکم سے (لوگوں کی) ہدایت کرتے تھے، جب انہوں نے صبر کیا...»۔ ایک اور بیان میں وہ ہدایت کی امامت کو عہدِ الٰہی کے طور پر متعارف کراتے ہوئے فرماتا ہے: «... لاَ یَنَالُ عَهْدِی الظَّالِمِینَ»: میرا عہد ظالموں کو حاصل نہیں ہوتا۔ | پہلا قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ خداوند متعال نے قرآن مجید میں امام اور اس کے پیروکاروں کے درمیان سنخیت (مطابقت) قائم کی ہے اور فرمایا ہے: «یَوْمَ نَدْعُو کُلَّ أُنَاسٍ بِإِمَامِهِمْ...»<ref>سوره اسرا آیه 71</ref> (اس دن کو یاد کریں جب ہم ہر گروہ کو ان کے امام کے ساتھ پکاریں گے...)۔ خداوند متعال ایک دوسرے بیان میں فرماتا ہے: «وَجَعَلْنَاهُمْ أَئِمَّةً یَدْعُونَ إِلَی النَّارِ...»<ref>سوره قصص آزه 41</ref>: اور ہم نے ان (فرعونیوں) کو ایسے پیشوا بنا دیا جو جہنم کی طرف بلاتے ہیں...»۔ ہدایت دینے والے ائمہ کے باب میں وہ فرماتا ہے: «وَجَعَلْنَا مِنْهُمْ أَئِمَّةً یَهْدُونَ بِأَمْرِنَا لَمَّا صَبَرُوا...»<ref>سوره سجده آیه 24</ref>: اور ہم نے ان میں سے ایسے امام (پیشوا) بنائے جو ہمارے حکم سے (لوگوں کی) ہدایت کرتے تھے، جب انہوں نے صبر کیا...»۔ ایک اور بیان میں وہ ہدایت کی امامت کو عہدِ الٰہی کے طور پر متعارف کراتے ہوئے فرماتا ہے: «... لاَ یَنَالُ عَهْدِی الظَّالِمِینَ»<ref>سوره بقره آیه 124</ref>: میرا عہد ظالموں کو حاصل نہیں ہوتا۔ | ||
مختصراً، جیسا کہ مذکورہ آیات سے واضح ہے، قرآن میں امامت کی دو قسمیں ہیں: ایک شیاطین اور طاغوت کی امامت جو اپنے پیروکاروں کو جہنم کی طرف دھکیلتے ہیں، اور دوسری امامت الٰہی جو اپنے پیروکاروں کو کمال، سعادت اور دائمی جنت کی طرف ہدایت کرتی ہے۔ خداوند متعال نے ان دو قسم کی قیادت کو سورہ بقرہ کی آیت نمبر ۲۵۷ میں بیان فرمایا ہے: «اللّهُ وَلِیُّ الَّذِینَ آمَنُواْ یُخْرِجُهُم مِّنَ الظُّلُمَاتِ إِلَی النُّوُرِ وَالَّذِینَ کَفَرُواْ أَوْلِیَآؤُهُمُ الطَّاغُوتُ یُخْرِجُونَهُم مِّنَ النُّورِ إِلَی الظُّلُمَاتِ أُوْلَئِکَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِیهَا خَالِدُونَ»: اللہ ایمان لانے والوں کا ولی اور سرپرست ہے، وہ انہیں ظلمتوں سے نکال کر نور کی طرف لے جاتا ہے۔ لیکن جن لوگوں نے کفر کیا ان کے اولیاء طاغوت ہیں جو انہیں نور سے ظلمتوں کی طرف نکالتے ہیں۔ وہ اہلِ آتش ہیں اور ہمیشہ اسی میں رہیں گے۔» | مختصراً، جیسا کہ مذکورہ آیات سے واضح ہے، قرآن میں امامت کی دو قسمیں ہیں: ایک شیاطین اور طاغوت کی امامت جو اپنے پیروکاروں کو جہنم کی طرف دھکیلتے ہیں، اور دوسری امامت الٰہی جو اپنے پیروکاروں کو کمال، سعادت اور دائمی جنت کی طرف ہدایت کرتی ہے۔ خداوند متعال نے ان دو قسم کی قیادت کو سورہ بقرہ کی آیت نمبر ۲۵۷ میں بیان فرمایا ہے: «اللّهُ وَلِیُّ الَّذِینَ آمَنُواْ یُخْرِجُهُم مِّنَ الظُّلُمَاتِ إِلَی النُّوُرِ وَالَّذِینَ کَفَرُواْ أَوْلِیَآؤُهُمُ الطَّاغُوتُ یُخْرِجُونَهُم مِّنَ النُّورِ إِلَی الظُّلُمَاتِ أُوْلَئِکَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِیهَا خَالِدُونَ»: اللہ ایمان لانے والوں کا ولی اور سرپرست ہے، وہ انہیں ظلمتوں سے نکال کر نور کی طرف لے جاتا ہے۔ لیکن جن لوگوں نے کفر کیا ان کے اولیاء طاغوت ہیں جو انہیں نور سے ظلمتوں کی طرف نکالتے ہیں۔ وہ اہلِ آتش ہیں اور ہمیشہ اسی میں رہیں گے۔» | ||
خداوند متعال نے قرآن مجید میں ایک آگاہ اور حق کی طرف ہدایت کرنے والے رہنما کی پیروی کو عقل پر چھوڑ دیا ہے اور فرمایا ہے: «...أَفَمَن یَهْدِی إِلَی الْحَقِّ أَحَقُّ أَن یُتَّبَعَ أَمَّن لاَّ یَهِدِّیَ إِلاَّ أَن یُهْدَی فَمَا لَکُمْ کَیْفَ تَحْکُمُونَ»: کیا وہ شخص جو حق کی طرف ہدایت کرتا ہے، پیروی کے زیادہ لائق ہے یا وہ جو خود ہدایت نہیں پا سکتا مگر یہ کہ اسے ہدایت کیا جائے؟ تمہیں کیا ہو گیا ہے؟ کیسا فیصلہ کرتے ہو؟!» (یونس/35)۔ | خداوند متعال نے قرآن مجید میں ایک آگاہ اور حق کی طرف ہدایت کرنے والے رہنما کی پیروی کو عقل پر چھوڑ دیا ہے اور فرمایا ہے: «...أَفَمَن یَهْدِی إِلَی الْحَقِّ أَحَقُّ أَن یُتَّبَعَ أَمَّن لاَّ یَهِدِّیَ إِلاَّ أَن یُهْدَی فَمَا لَکُمْ کَیْفَ تَحْکُمُونَ»: کیا وہ شخص جو حق کی طرف ہدایت کرتا ہے، پیروی کے زیادہ لائق ہے یا وہ جو خود ہدایت نہیں پا سکتا مگر یہ کہ اسے ہدایت کیا جائے؟ تمہیں کیا ہو گیا ہے؟ کیسا فیصلہ کرتے ہو؟!» (یونس/35)۔ | ||
علامہ طباطبائی آیات «وَجَعَلْنَا مِنْهُمْ أَئِمَّةً یَهْدُونَ بِأَمْرِنَا لَمَّا صَبَرُوا...» اور «وَجَعَلْنَاهُمْ أَئِمَّةً یَهْدُونَ بِأَمْرِنَا وَأَوْحَیْنَا إِلَیْهِمْ فِعْلَ الْخَیْرَاتِ...» کے ذیل میں فرماتے ہیں: "مقصد یہ ہے کہ خداوند نے اپنی خاص صفات کی بناء پر بنی اسرائیل کے کچھ انبیاء کو امامت کے مقام پر بھی فائز کیا۔ بظاہر ان دو آیات میں «یَهْدُونَ بِأَمْرِنَا» امامت کے معنی کو ظاہر کرتا ہے؛ یعنی امام وہ ہو جو امرِ الٰہی سے ہدایت کرے۔ لہٰذا، ان آیات میں "امر کے ذریعے ہدایت" امامت کی خصوصیات میں سے ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ امام طریقۂ کار بتانے کے علاوہ، ایک قسم کی تکوینی تصرف کے حامل ہیں جو خداوند نے صرف ائمۂ الٰہی کو عطا فرمایا ہے۔ البتہ، کچھ ایسے انبیاء جو امامت کے مقام پر بھی فائز تھے، وہ بھی اس نعمت سے بہرہ مند تھے۔" | |||
خداوند متعال اس نکتہ پر بھی اشارہ فرماتا ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے: «یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُواْ أَطِیعُواْ اللّهَ وَأَطِیعُواْ الرَّسُولَ وَأُوْلِی الأَمْرِ مِنکُمْ...»: اے ایمان لانے والو! اللہ کا حکم مانو، اور رسول (خدا) کا حکم مانو، اور اپنے میں سے صاحبانِ امر کا حکم مانو...» [39]۔ اس آیت میں قابلِ توجہ نکتہ یہ ہے کہ رسول خدا اور اولیالامر کی اطاعت کو خدا کی اطاعت سے مختلف انداز میں بیان کیا گیا ہے، کیونکہ اطاعت کا فعل («أَطِیعُوا») رسول کے بعد دہرایا نہیں گیا! اس بیان سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ "اولیالامر" کو شریعت کی ہدایت اور بیان میں رسول کی طرح معصوم ہونا چاہیے، تاکہ "اولیالامر" کی اطاعت وہی اطاعت ہو جو "رسول خدا" کی اطاعت ہے۔ تاہم، خدا کی اطاعت ایک مختلف انداز میں ہے، کیونکہ خداوند شریعت کا وضع کرنے والا ہے، جبکہ پیغمبر اور امام شریعت کے مبین اور شارح ہیں۔ اسی بنا پر، خدا کی اطاعت اور غیر خدا (یعنی رسول اور اولیالامر) کی اطاعت میں اس لحاظ سے فرق رکھا گیا ہے، ورنہ خدا اور رسول خدا کی بات اور ان کی اطاعت ایک دوسرے سے جدا نہیں۔ لہٰذا خداوند ایک اور آیت میں فرماتا ہے: «مَّنْ یُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللّهَ...»: جس نے رسول کی اطاعت کی، اس نے تحقیق اللہ کی اطاعت کی۔ | علامہ طباطبائی آیات «وَجَعَلْنَا مِنْهُمْ أَئِمَّةً یَهْدُونَ بِأَمْرِنَا لَمَّا صَبَرُوا...»<ref>سوره سجده آیه 24</ref> اور «وَجَعَلْنَاهُمْ أَئِمَّةً یَهْدُونَ بِأَمْرِنَا وَأَوْحَیْنَا إِلَیْهِمْ فِعْلَ الْخَیْرَاتِ...»<ref>سوره آنبیا آیه 73</ref> کے ذیل میں فرماتے ہیں: "مقصد یہ ہے کہ خداوند نے اپنی خاص صفات کی بناء پر بنی اسرائیل کے کچھ انبیاء کو امامت کے مقام پر بھی فائز کیا۔ بظاہر ان دو آیات میں «یَهْدُونَ بِأَمْرِنَا» امامت کے معنی کو ظاہر کرتا ہے؛ یعنی امام وہ ہو جو امرِ الٰہی سے ہدایت کرے۔ لہٰذا، ان آیات میں "امر کے ذریعے ہدایت" امامت کی خصوصیات میں سے ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ امام طریقۂ کار بتانے کے علاوہ، ایک قسم کی تکوینی تصرف کے حامل ہیں جو خداوند نے صرف ائمۂ الٰہی کو عطا فرمایا ہے۔ البتہ، کچھ ایسے انبیاء جو امامت کے مقام پر بھی فائز تھے، وہ بھی اس نعمت سے بہرہ مند تھے۔"<ref>طباطبائی، 1374، ج14: 304 و ج16: 266</ref> | ||
خداوند متعال اس نکتہ پر بھی اشارہ فرماتا ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے: «یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُواْ أَطِیعُواْ اللّهَ وَأَطِیعُواْ الرَّسُولَ وَأُوْلِی الأَمْرِ مِنکُمْ...»<ref>سوره نسا آیه 59</ref>: اے ایمان لانے والو! اللہ کا حکم مانو، اور رسول (خدا) کا حکم مانو، اور اپنے میں سے صاحبانِ امر کا حکم مانو...» [39]۔ اس آیت میں قابلِ توجہ نکتہ یہ ہے کہ رسول خدا اور اولیالامر کی اطاعت کو خدا کی اطاعت سے مختلف انداز میں بیان کیا گیا ہے، کیونکہ اطاعت کا فعل («أَطِیعُوا») رسول کے بعد دہرایا نہیں گیا! اس بیان سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ "اولیالامر" کو شریعت کی ہدایت اور بیان میں رسول کی طرح معصوم ہونا چاہیے، تاکہ "اولیالامر" کی اطاعت وہی اطاعت ہو جو "رسول خدا" کی اطاعت ہے۔ تاہم، خدا کی اطاعت ایک مختلف انداز میں ہے، کیونکہ خداوند شریعت کا وضع کرنے والا ہے، جبکہ پیغمبر اور امام شریعت کے مبین اور شارح ہیں۔ اسی بنا پر، خدا کی اطاعت اور غیر خدا (یعنی رسول اور اولیالامر) کی اطاعت میں اس لحاظ سے فرق رکھا گیا ہے، ورنہ خدا اور رسول خدا کی بات اور ان کی اطاعت ایک دوسرے سے جدا نہیں۔ لہٰذا خداوند ایک اور آیت میں فرماتا ہے: «مَّنْ یُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللّهَ...»<ref>سوره نسا آیه 80</ref>: جس نے رسول کی اطاعت کی، اس نے تحقیق اللہ کی اطاعت کی۔ | |||
=== امامت عامہ سے متعلق احادیث=== | === امامت عامہ سے متعلق احادیث=== | ||
امامت عامہ کے باب میں احادیث اتنی زیادہ ہیں کہ ان سب کو اس مختصر مضمون میں شامل کرنا ممکن نہیں۔ ذیل میں صرف چند مثالیں بطور نمونہ پیش کی جا رہی ہیں: | امامت عامہ کے باب میں احادیث اتنی زیادہ ہیں کہ ان سب کو اس مختصر مضمون میں شامل کرنا ممکن نہیں۔ ذیل میں صرف چند مثالیں بطور نمونہ پیش کی جا رہی ہیں: | ||
امام صادق (علیہ السلام) ایک مفصل حدیث میں، پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ) کے وجود کو ثابت کرنے کے بعد فرماتے ہیں: "جس طرح پیغمبر دین کے نگہبان اور قائم رکھنے والے ہیں اور دین ان کے ذریعے قائم ہے، اسی طرح امام بھی ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ پیغمبر وحی کے ذریعے خداوند کی طرف سے شریعت حاصل کرتے ہیں، جبکہ امام پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ) کے بعد شریعت کے شارح اور مبین ہیں۔ اور ان کا وجود قیامت تک برقرار رہتا ہے۔" اس شریف حدیث کا ایک حصہ یہ ہے: «لِکَیْلَا تَخْلُوَ أَرْضُ اللَّهِ مِنْ حُجَّةٍ یَکُونُ مَعَهُ عِلْمٌ یَدُلُّ عَلَی صِدْقِ مَقَالَتِه» (تاکہ زمین کبھی بھی اللہ کی طرف سے کسی ایسی حجت کے بغیر خالی نہ رہے جس کے پاس اپنی گفتگو کی سچائی پر دلالت کرنے والا علم موجود ہو)۔ | [[امام صادق علیہ السلام|امام صادق]] (علیہ السلام) ایک مفصل حدیث میں، پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ) کے وجود کو ثابت کرنے کے بعد فرماتے ہیں: "جس طرح پیغمبر دین کے نگہبان اور قائم رکھنے والے ہیں اور دین ان کے ذریعے قائم ہے، اسی طرح امام بھی ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ پیغمبر وحی کے ذریعے خداوند کی طرف سے شریعت حاصل کرتے ہیں، جبکہ امام پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ) کے بعد شریعت کے شارح اور مبین ہیں۔ اور ان کا وجود قیامت تک برقرار رہتا ہے۔" اس شریف حدیث کا ایک حصہ یہ ہے: «لِکَیْلَا تَخْلُوَ أَرْضُ اللَّهِ مِنْ حُجَّةٍ یَکُونُ مَعَهُ عِلْمٌ یَدُلُّ عَلَی صِدْقِ مَقَالَتِه»<ref>کُلینی، 1386، ج1: 95</ref> (تاکہ زمین کبھی بھی اللہ کی طرف سے کسی ایسی حجت کے بغیر خالی نہ رہے جس کے پاس اپنی گفتگو کی سچائی پر دلالت کرنے والا علم موجود ہو)۔ | ||
امام رضا (علیہ السلام) نے بھی ایک مفصل حدیث میں یہی مضمون بیان فرمایا ہے، جس میں سے ایک حصہ یہ ہے: «أمْرُ الْإِمَامَةِ مِنْ تَمَامِ الدِّین.. ُ فَمَنْ زَعَمَ أَنَّ اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ لَمْ یُکْمِلْ دِینَهُ فَقَدْ رَدَّ کِتَابَ اللَّهِ وَ مَنْ رَدَّ کِتَابَ اللَّهِ فَهُوَ کَافِرٌ بِه» (امامت کا معاملہ دین کی تکمیل میں سے ہے... پس جو شخص یہ دعویٰ کرے کہ اللہ عزوجل نے اپنے دین کو کامل نہیں کیا، تو اس نے کتاب اللہ کو ردّ کر دیا ہے، اور جس نے کتاب اللہ کو ردّ کیا، وہ کافر ہے۔)۔ | |||
اسی باب میں امام صادق (علیہ السلام) ایک اور حدیث میں فرماتے ہیں: «لَوْ بَقِیَتِ الْأَرْضُ بِغَیْرِ إِمَامٍ لَسَاخَت» (اگر زمین ایک لمحے کے لیے بھی امام کے بغیر باقی رہے تو وہ (اپنے اوپر موجود چیزوں سمیت) دھنس جائے گی/ہلاک ہو جائے گی)۔ | [[علی بن موسی|امام رضا]] (علیہ السلام) نے بھی ایک مفصل حدیث میں یہی مضمون بیان فرمایا ہے، جس میں سے ایک حصہ یہ ہے: «أمْرُ الْإِمَامَةِ مِنْ تَمَامِ الدِّین.. ُ فَمَنْ زَعَمَ أَنَّ اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ لَمْ یُکْمِلْ دِینَهُ فَقَدْ رَدَّ کِتَابَ اللَّهِ وَ مَنْ رَدَّ کِتَابَ اللَّهِ فَهُوَ کَافِرٌ بِه» (امامت کا معاملہ دین کی تکمیل میں سے ہے... پس جو شخص یہ دعویٰ کرے کہ اللہ عزوجل نے اپنے دین کو کامل نہیں کیا، تو اس نے کتاب اللہ کو ردّ کر دیا ہے، اور جس نے کتاب اللہ کو ردّ کیا، وہ کافر ہے۔)۔<ref>مذکوره حواله 114</ref> | ||
اسی باب میں امام صادق (علیہ السلام) ایک اور حدیث میں فرماتے ہیں: «لَوْ بَقِیَتِ الْأَرْضُ بِغَیْرِ إِمَامٍ لَسَاخَت» (اگر زمین ایک لمحے کے لیے بھی امام کے بغیر باقی رہے تو وہ (اپنے اوپر موجود چیزوں سمیت) دھنس جائے گی/ہلاک ہو جائے گی)۔<ref>مذکوره حواله 102</ref> | |||
== اصول کافی میں خاص امامت== | == اصول کافی میں خاص امامت== | ||
یہ بات قابل ذکر ہے کہ اصول کافی کی کتاب الحجۃ میں عقائد کے اصول کا ایک مکمل دور شامل ہے، خاص طور پر عمومی اور خاص امامت کے مباحث پر، جن پر اسلامی اسکالرز کی توجہ اتنی نہیں رہی جتنی ہونی چاہیے تھی۔ اس مختصر جستجو میں، ہم جگہ کی کمی کے پیش نظر، ائمۂ اطہار کی عصمت اور علم کے باب میں چند احادیث بطور نمونہ پیش کر رہے ہیں: | یہ بات قابل ذکر ہے کہ اصول کافی کی کتاب الحجۃ میں عقائد کے اصول کا ایک مکمل دور شامل ہے، خاص طور پر عمومی اور خاص امامت کے مباحث پر، جن پر اسلامی اسکالرز کی توجہ اتنی نہیں رہی جتنی ہونی چاہیے تھی۔ اس مختصر جستجو میں، ہم جگہ کی کمی کے پیش نظر، ائمۂ اطہار کی عصمت اور علم کے باب میں چند احادیث بطور نمونہ پیش کر رہے ہیں: | ||
=== اصول کافی میں ائمہ کی عصمت=== | === اصول کافی میں ائمہ کی عصمت=== | ||
اس شریف کتاب میں ائمہ (علیہم السلام) کی عصمت کے باب میں بہت سی احادیث وارد ہوئی ہیں جو امام کی عصمت کو لوگوں پر خداوند کا لطف قرار دیتی ہیں۔ اس قسم کی احادیث عقل کو عقلی قاعدۂ لطف کی طرف رہنمائی کرتی ہیں، جس پر امامیہ کلام دان منصوص امام کے اثبات میں دلیل پیش کرتے ہیں۔ | اس شریف کتاب میں ائمہ (علیہم السلام) کی عصمت کے باب میں بہت سی احادیث وارد ہوئی ہیں جو امام کی عصمت کو لوگوں پر خداوند کا لطف قرار دیتی ہیں۔ اس قسم کی احادیث عقل کو عقلی قاعدۂ لطف کی طرف رہنمائی کرتی ہیں، جس پر امامیہ کلام دان منصوص امام کے اثبات میں دلیل پیش کرتے ہیں۔ | ||
امام باقر (علیہ السلام) فرماتے ہیں: «نَحْنُ الْمَثَانِی الَّذِی أعْطَاهُ اللهُ نَبِیَّنَا مُحَمَّداً (صلّیالله علیه وآله) وَ نَحْنُ وَجْهُ اللهِ نَتَقَلَّبُ فِی الأرْضِ بَیْنَ أَظْهُرِکُمْ وَ نَحْنُ عَیْنُ اللهِ فِی خَلْقِهِ وَ یَدُهُ الْمَبْسُوطَةُ بِالرَّحْمَةِ عَلَی عِبَادِهِ، عَرَفَنَا مَنْ عَرَفَنَا وَ جَهِلَنَا مَنْ جَهِلَنَا»: "ہم وہ 'ثانی' (جو دو بار ذکر کیے گئے) ہیں جو اللہ نے ہمارے نبی حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ) کو عطا فرمائے۔ ہم اللہ کا چہرہ ہیں جو زمین پر آپ کے درمیان چل پھر رہے ہیں۔ ہم مخلوق میں اللہ کی آنکھ ہیں اور رحمت کے ساتھ مخلوق پر پھیلا ہوا اس کا دستِ کرم ہیں۔ جس نے ہمیں پہچانا، اس نے حقیقت کو پہچان لیا اور جس نے ہمیں نہیں پہچانا، وہ محروم رہا۔" | امام باقر (علیہ السلام) فرماتے ہیں: «نَحْنُ الْمَثَانِی الَّذِی أعْطَاهُ اللهُ نَبِیَّنَا مُحَمَّداً (صلّیالله علیه وآله) وَ نَحْنُ وَجْهُ اللهِ نَتَقَلَّبُ فِی الأرْضِ بَیْنَ أَظْهُرِکُمْ وَ نَحْنُ عَیْنُ اللهِ فِی خَلْقِهِ وَ یَدُهُ الْمَبْسُوطَةُ بِالرَّحْمَةِ عَلَی عِبَادِهِ، عَرَفَنَا مَنْ عَرَفَنَا وَ جَهِلَنَا مَنْ جَهِلَنَا»: "ہم وہ 'ثانی' (جو دو بار ذکر کیے گئے) ہیں جو اللہ نے ہمارے نبی حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ) کو عطا فرمائے۔ ہم اللہ کا چہرہ ہیں جو زمین پر آپ کے درمیان چل پھر رہے ہیں۔ ہم مخلوق میں اللہ کی آنکھ ہیں اور رحمت کے ساتھ مخلوق پر پھیلا ہوا اس کا دستِ کرم ہیں۔ جس نے ہمیں پہچانا، اس نے حقیقت کو پہچان لیا اور جس نے ہمیں نہیں پہچانا، وہ محروم رہا۔<ref>مذکوره حواله 83</ref>" | ||
امام صادق (علیہ السلام) اس باب میں فرماتے ہیں: «إِنَّ اللَّهَ خَلَقَنَا فَأَحْسَنَ خَلْقَنَا وَ صَوَّرَنَا فَأَحْسَنَ صُوَرَنَا وَ جَعَلَنَا عَیْنَهُ فِی عِبَادِهِ وَ لِسَانَهُ النَّاطِقَ فِی خَلْقِهِ وَ یَدَهُ الْمَبْسُوطَةَ عَلَی عِبَادِهِ بِالرَّأْفَةِ وَ الرَّحْمَةِ وَ وَجْهَهُ الَّذِی یُؤْتَی مِنْهُ وَ بَابَهُ الَّذِی یَدُلُّ عَلَیْهِ وَ خُزَّانَهُ فِی سَمَائِهِ وَ أَرْضِهِ، بِنَا أَثْمَرَتِ الْأَشْجَارُ وَ أَیْنَعَتِ الثِّمَارُ وَ جَرَتِ الْأَنْهَارُ... وَ بِعِبَادَتِنَا عُبِدَ اللَّهُ وَ لَوْ لَا نَحْنُ مَا عُبِدَ اللَّه»: "بیشک اللہ نے ہمیں پیدا کیا اور ہماری تخلیق کو خوبصورت بنایا اور ہماری صورت کو بہتر بنایا۔ اور ہمیں اپنی مخلوق میں اپنی آنکھ، اپنی مخلوق میں اپنی بولنے والی زبان، اور مخلوق پر شفقت اور رحمت کے لیے پھیلا ہوا اپنا ہاتھ بنایا۔ ہمیں اپنا وہ چہرہ بنایا جس کے ذریعے اس تک پہنچا جاتا ہے، اور وہ دروازہ بنایا جو اس کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ اور ہمیں اپنے آسمان اور زمین میں اپنا خزانہ دار بنایا۔ ہمارے وسیلے سے درختوں پر پھل آتے ہیں اور پھل پکتے ہیں اور نہریں بہتی ہیں... اور ہماری عبادت کے ذریعے اللہ کی عبادت کی جاتی ہے، اور اگر ہم نہ ہوتے تو اللہ کی عبادت نہ کی جاتی۔"<ref>مذکوره حواله</ref> | |||
مزید آپ (علیہ السلام) نے یہ بھی فرمایا: «لَعَمْرِی مَا فِی السَّمَاءِ وَ لَا فِی الْأَرْضِ وَلِیٌّ لِلَّهِ عَزَّ ذِکْرُهُ إِلَّا وَ هُوَ مُؤَیَّدٌ وَ مَنْ أُیِّدَ لَمْ یُخْطِ»: "میری جان کی قسم! نہ آسمان میں اور نہ زمین میں کوئی ایسا ولیّ اللہ نہیں جس کا ذکر اللہ نے بلند کیا ہو، مگر یہ کہ وہ (خدا کی طرف سے) مؤیّد (تائید شدہ) ہوتا ہے، اور جو مؤیّد ہوتا ہے، وہ کبھی خطا نہیں کرتا۔"<ref>مذکوره حواله 139</ref> | |||
== اصول کافی میں علمِ ائمہ کے اثبات کے لیے پیش کردہ اہم روایات == | |||
ہشام بن حکم سے مروی ہے: ہم ایک عیسائی شخص، جس کا نام بُرید تھا، کے ساتھ امام کاظم (علیہ السلام) کی خدمت میں حاضر ہوئے، اور اس نے انجیل کے بارے میں امام سے سوالات کیے۔ امام نے انجیل کے اہم حصوں کو پڑھا اور ان کی تشریح کی۔ وہ عیسائی شخص اپنی بیوی کے ساتھ مسلمان ہو گیا۔ ہم امام صادق (علیہ السلام) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور یہ پورا واقعہ ان کی خدمت میں بیان کیا۔ امام بہت خوش ہوئے اور فرمایا: **"یقیناً اللہ اپنی زمین پر کوئی حجت (دلیل) اس طرح نہیں رکھتا کہ جب اس سے کسی چیز کے بارے میں پوچھا جائے تو وہ کہے کہ میں نہیں جانتا۔"<ref>مذکوره حواله 130</ref> | |||
پھر امام صادق (علیہ السلام) نے فرمایا: "ہم ہی اللہ کے امر کے ولی ہیں، اللہ کے علم کے خزانچی ہیں، اور اللہ کی وحی کے صندوق ہیں۔"<ref>مذکوره حواله 110</ref> | |||
برید بن معاویہ کہتا ہے: ہم دو اماموں میں سے ایک (امام باقر یا امام صادق)، علیہم السلام، سے سورۃ آل عمران کی آیت: "...حالانکہ ان کی تفسیر سوائے اللہ اور علم میں راسخ (پختہ کار) لوگوں کے کوئی نہیں جانتا..." [۷] کی تفسیر کے بارے میں پوچھا۔ تو آپ نے فرمایا: "رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ) علم میں راسخ ترین ہستی ہیں، کیونکہ اللہ عز و جل نے انہیں نازل کی گئی تمام آیات کا تنزیل (ظاہری معنی) اور تاویل (باطنی مفہوم) سکھا دیا تھا۔ اور ایسا نہیں ہو سکتا تھا کہ اللہ ان پر کوئی چیز نازل کرے اور اس کی تاویل انہیں نہ سکھائے۔ اور آپ کے بعد آپ کے اوصیاء (امام) یہ سب کچھ جانتے ہیں۔"<ref>مذکوره حواله 122</ref> | |||
امام صادق (علیہ السلام) آیت:"...عمل کرو، تو اللہ تمہارے عمل کو دیکھے گا، اور اس کا رسول اور مؤمنین بھی..." <ref>سوره توبه آیه105</ref> کی تفسیر میں فرماتے ہیں: **"اس آیت میں 'مؤمنین' سے مراد ہم ائمہ ہیں، جو اللہ اور رسول خدا کے بعد بندوں کے تمام اعمال کا علم اور آگاہی رکھتے ہیں۔"<ref>مذکوره حواله 126</ref> | |||
اسی طرح، ایک روز امام صادق (علیہ السلام) نے ابو بصیر سے فرمایا: **"اے ابو محمد! رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے علی (علیہ السلام) کو علم کے ایک ہزار باب سکھائے، جن میں سے ہر باب سے ہزار دروازے کھلتے ہیں۔"** پھر آپ نے زمین پر ایک لمحہ کے لیے نقشہ بنایا اور فرمایا: **"یہ (علم کی وسعت) کمال نہیں ہے، یہ صرف علم ہے، اور یہ بھی وہ سب کچھ نہیں جو ہے۔"** پھر فرمایا: **"اور ہمارے پاس 'جامعہ' ہے، اور وہ کیا جانیں کہ جامعہ کیا ہے؟ اُس میں ہر حلال و حرام ہے، اور ہر وہ چیز جس کی لوگوں کو ضرورت ہے، حتیٰ کہ خراش پر دیت (جرمانہ) بھی۔"** پھر کچھ دیر خاموش رہے اور فرمایا: **"اور ہمارے پاس 'جفر' ہے، اور وہ کیا جانیں کہ جفر کیا ہے؟ جفر ایک ایسا ظرف ہے جس میں تمام نبیوں اور وصیوں کا علم اور ان بنی اسرائیل کے ان تمام علماء کا علم موجود ہے جو گزر چکے ہیں۔"** پھر فرمایا: **"اور یہ بھی کمال علم نہیں ہے۔"** پھر ایک لمحہ کے لیے خاموش ہوئے اور فرمایا: **"اور ہمارے پاس فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کا 'مصحف' ہے، اور وہ کیا جانیں کہ مصحف فاطمہ کیا ہے؟..."** پھر فرمایا: **"یقیناً ہمارے پاس وہ علم ہے جو ہو چکا ہے اور وہ علم جو قیامت تک ہونے والا ہے، اور جو کچھ رات اور دن میں حادثات پیش آئیں گے، ایک کے بعد ایک چیز کا وقوع قیامت تک، ہم ان تمام امور سے پوری طرح واقف ہیں۔"<ref>مذکوره حواله 136</ref> | |||
امام صادق (علیہ السلام) ایک دوسری حدیث میں فرماتے ہیں: **"زندقہ (ملحدین) 128 ہجری میں ظاہر ہوں گے۔"** راوی نے پوچھا: آپ کو اس امر کا علم کیسے ہوا؟ آپ نے فرمایا: **"یہ بات میں نے مصحفِ فاطمہ (سلام اللہ علیہا) میں دیکھی ہے۔"** راوی نے پوچھا: مصحفِ فاطمہ کیا ہے؟ امام نے فرمایا: **"اللہ نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے انتقال کے بعد تسلی دینے کے لیے ایک فرشتے کو حضرت فاطمہ (سلام اللہ علیہا) کی خدمت میں بھیجا۔ اس فرشتے نے اللہ کے حکم سے عالم کے تمام اسرار حضرت فاطمہ (سلام اللہ علیہا) پر الہام کیے، اور فاطمہ (سلام اللہ علیہا) نے یہ سب حضرت علی (علیہ السلام) کو املا کروایا، اور حضرت علی (علیہ السلام) نے اسے تحریر فرمایا۔ ان تمام تحریرات کا مجموعہ ہی مصحفِ فاطمہ (سلام اللہ علیہا) ہے۔"** پھر فرمایا: **"سن لو! اس میں حلال و حرام کا کوئی حصہ نہیں ہے، بلکہ اس میں قیامت تک ہونے والے تمام امور کا علم موجود ہے۔"<ref>مذکوره حواله 137</ref> | |||
مذکورہ تمام احادیث محکمات (واضح اور قطعی) میں سے ہیں، اور اگر کہیں اس کے علاوہ کوئی حدیث نظر آئے تو اسے ان احادیث کی طرف رجوع کرنا چاہیے، کیونکہ ممکن ہے امام نے سننے والوں کی ذہنی صلاحیت کے مطابق کچھ مختلف بیان فرمایا ہو۔ | |||
[[امام سجاد علیہ السلام|امام سجاد]] (علیہ السلام) فرماتے ہیں: **"بخدا! ہم ہی شجرۂ نبوت ہیں، معدنِ علم ہیں، اور فرشتوں کے نزول و عروج کی جگہ ہیں۔"<ref>مذکوره حواله 127</ref> | |||
[[امام باقر علیہ السلام|امام باقر،]] امام صادق اور امام ہادی، علیہم السلام کے فرمودات کے مطابق، اسم اعظم کے تہتر حروف میں سے بہتر حروف نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور بارہ ائمہ کے پاس ہیں۔ امام باقر (علیہ السلام) نے فرمایا: **"اسم اعظم میں سے بہتر (72) حروف ہمارے پاس ہیں، اور ایک حرف ایسا ہے جو اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔ اس نے وہ ایک حرف اپنے غیبی علم کے لیے مخصوص رکھا ہے۔"<ref>مذکوره حواله 131</ref> | |||
اسم اعظم کیا ہے، اس کا علم کسی کو نہیں ہے۔ بلاشبہ، علم اور قدرت اسمِ اعظم کے حامل کے ساتھ جمع ہوتی ہے، جس کے لیے بشر کے لیے اس سے بڑھ کر کوئی کمال تصور نہیں کیا جا سکتا۔ اسی لیے اسی حدیث کے تسلسل میں امام باقر (علیہ السلام) نے فرمایا: **"اسم اعظم کا صرف ایک حرف حضرت سلیمان کے وزیر کے پاس تھا، جس نے پلک جھپکنے سے بھی کم وقت میں بلقیس کے تخت کو یمن سے فلسطین تک سلیمان کے پاس حاضر کر دیا۔"<ref>مذکوره حواله</ref> | |||
== [[قرآن]] اور دیگر حدیث کی کتابوں میں امامت خاصہ== | |||
== قرآن اور دیگر حدیث کی کتابوں میں امامت خاصہ== | |||
یہ بحث دو حصوں میں خاص امامت کے ثبوت پر روشنی ڈالتی ہے: | یہ بحث دو حصوں میں خاص امامت کے ثبوت پر روشنی ڈالتی ہے: | ||
=== الف) حضرت علی (ع) اور اہل بیت (ع) کی مدح میں قرآنی آیات=== | === الف) حضرت علی (ع) اور اہل بیت (ع) کی مدح میں قرآنی آیات=== | ||
قرآن مجید میں متعدد آیات حضرت علی (ع) اور اہل بیت (ع) کی شان میں نازل ہوئی ہیں۔ سید ہاشم بحرانی نے اپنی کتاب "غایة المرام" میں حضرت علی (ع) کی مدح میں ایک سو چھتیس (136) آیات ذکر کی ہیں، جن میں سے زیادہ تر مستند اہل سنت کی کتب سے مروی احادیث کے ساتھ پیش کی گئی ہیں۔ ان آیات کے علاوہ سورہ دہر (ہَلْ أَتَى) اور سورہ کوثر بھی خاص اہمیت رکھتی ہیں۔ یہاں نمونے کے طور پر امامت حضرت علی (ع) کے باب میں صرف تین آیات کا حوالہ دیا جا رہا ہے: | قرآن مجید میں متعدد آیات حضرت علی (ع) اور اہل بیت (ع) کی شان میں نازل ہوئی ہیں۔ سید ہاشم بحرانی نے اپنی کتاب "غایة المرام" میں حضرت علی (ع) کی مدح میں ایک سو چھتیس (136) آیات ذکر کی ہیں،<ref>بحرانی، 1388، ج1: 492ـ323 و ج2: 68ـ7</ref> جن میں سے زیادہ تر مستند اہل سنت کی کتب سے مروی احادیث کے ساتھ پیش کی گئی ہیں۔ ان آیات کے علاوہ سورہ دہر (ہَلْ أَتَى) اور سورہ کوثر بھی خاص اہمیت رکھتی ہیں۔ یہاں نمونے کے طور پر امامت حضرت علی (ع) کے باب میں صرف تین آیات کا حوالہ دیا جا رہا ہے: | ||
==== آیت مباہلہ (آل عمران: 6)==== | ==== آیت مباہلہ (آل عمران: 6)==== | ||
خداوند کا فرمان ہے: «فَمَنْ حَآجَّکَ فِیهِ مِن بَعْدِ مَا جَاءکَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْاْ نَدْعُ أَبْنَاءنَا وَأَبْنَاءکُمْ وَنِسَاءنَا وَنِسَاءکُمْ وَأَنفُسَنَا وأَنفُسَکُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَل لَّعْنَةُ اللّهِ عَلَی الْکَاذِبِینَ»: | خداوند کا فرمان ہے: «فَمَنْ حَآجَّکَ فِیهِ مِن بَعْدِ مَا جَاءکَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْاْ نَدْعُ أَبْنَاءنَا وَأَبْنَاءکُمْ وَنِسَاءنَا وَنِسَاءکُمْ وَأَنفُسَنَا وأَنفُسَکُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَل لَّعْنَةُ اللّهِ عَلَی الْکَاذِبِینَ»: | ||
"پھر جو کوئی آپ سے علم آنے کے بعد بھی (مسیح کے بارے میں) جھگڑے تو کہہ دیجیے کہ آؤ ہم اپنے بیٹوں کو بلائیں اور تم اپنے بیٹوں کو، ہم اپنی عورتوں کو بلائیں اور تم اپنی عورتوں کو، اور ہم اپنے نفسوں کو بلائیں اور تم اپنے نفسوں کو، پھر مباہلہ کریں اور جھوٹوں پر اللہ کی لعنت قرار دیں۔" | "پھر جو کوئی آپ سے علم آنے کے بعد بھی (مسیح کے بارے میں) جھگڑے تو کہہ دیجیے کہ آؤ ہم اپنے بیٹوں کو بلائیں اور تم اپنے بیٹوں کو، ہم اپنی عورتوں کو بلائیں اور تم اپنی عورتوں کو، اور ہم اپنے نفسوں کو بلائیں اور تم اپنے نفسوں کو، پھر مباہلہ کریں اور جھوٹوں پر اللہ کی لعنت قرار دیں۔" | ||
مباہلہ: اس کا مطلب ہے ایک دوسرے پر نفرین کرنا تاکہ باطل شخص رسوا ہو جائے۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ) نے اس عظیم روحانی معرکہ کے لیے صرف حضرت فاطمہ (س)، حضرت علی (ع)، حضرت حسن (ع) اور حضرت حسین (ع) کو ساتھ لیا، جو اس بات کی دلیل ہے کہ ان ہستیوں کی روحانیت اور عظمت سب سے برتر تھی۔ نصارائے نجران نے یہ شان و شوکت دیکھ کر مباہلے سے دستبردار ہو کر اطاعت قبول کر لی۔ | مباہلہ: اس کا مطلب ہے ایک دوسرے پر نفرین کرنا تاکہ باطل شخص رسوا ہو جائے۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ) نے اس عظیم روحانی معرکہ کے لیے صرف حضرت فاطمہ (س)، [[علی ابن ابی طالب|حضرت علی]] (ع)، حضرت حسن (ع) اور [[حضرت امام حسین علیہ السلام|حضرت حسین]] (ع) کو ساتھ لیا، جو اس بات کی دلیل ہے کہ ان ہستیوں کی روحانیت اور عظمت سب سے برتر تھی۔ نصارائے نجران نے یہ شان و شوکت دیکھ کر مباہلے سے دستبردار ہو کر اطاعت قبول کر لی۔ | ||
"أَنفُسَنَا" کا مصداق: شیعہ اور سنی مفسرین اس بات پر متفق ہیں کہ اس آیت میں "اپنے نفسوں" سے مراد حضرت علی (ع) ہیں، جنہیں نبی کا 'نفس' قرار دیا گیا۔ فخر رازی کے مطابق، اس میں حضرت علی (ع) کی صفات و کمالات میں نبی کے ساتھ وحدت (نبوت کے علاوہ) کا اشارہ ہے کہ حضرت علی (ع) نبوت کے سوا تمام صفاتِ کمال کے حامل ہیں۔ | "أَنفُسَنَا" کا مصداق: شیعہ اور سنی مفسرین اس بات پر متفق ہیں کہ اس آیت میں "اپنے نفسوں" سے مراد حضرت علی (ع) ہیں، جنہیں نبی کا 'نفس' قرار دیا گیا۔ فخر رازی کے مطابق، اس میں حضرت علی (ع) کی صفات و کمالات میں نبی کے ساتھ وحدت (نبوت کے علاوہ) کا اشارہ ہے کہ حضرت علی (ع) نبوت کے سوا تمام صفاتِ کمال کے حامل ہیں۔<ref>رازی، 1358، ج8: 247</ref> | ||
امامت کا استدلال: اس آیت کے ظاہری مفہوم کے مطابق، حضرت علی (ع) میں نبی اکرم (ص) کی تمام صفات (سوائے نبوت کے) موجود ہیں، جن میں شریعت کا بیان کرنا اور امت کی امامت شامل ہے۔ شیخ طوسیؒ نے اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ حضرت علی (ع) نبی کے بعد مسلمانوں کے امام ہیں، کیونکہ آیت ان کے کمالات کو نبی کے برابر قرار دیتی ہے، جس کا مطلب ہے کہ وہ اس امت میں سب سے زیادہ علم اور عصمت کے حامل ہیں اور یہی امامت کا اہل ہے۔ | |||
امامت کا استدلال: اس آیت کے ظاہری مفہوم کے مطابق، حضرت علی (ع) میں نبی اکرم (ص) کی تمام صفات (سوائے نبوت کے) موجود ہیں، جن میں شریعت کا بیان کرنا اور امت کی امامت شامل ہے۔ شیخ طوسیؒ نے اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ حضرت علی (ع) نبی کے بعد مسلمانوں کے امام ہیں، کیونکہ آیت ان کے کمالات کو نبی کے برابر قرار دیتی ہے، جس کا مطلب ہے کہ وہ اس امت میں سب سے زیادہ علم اور عصمت کے حامل ہیں اور یہی امامت کا اہل ہے۔<ref>طوسی، 1367، ج2: 485</ref> | |||
==== سورہ مائدہ کی آیات 3 اور 67 (آیت تبلیغ اور آیت اكمال دین==== | ==== سورہ مائدہ کی آیات 3 اور 67 (آیت تبلیغ اور آیت اكمال دین==== | ||
خدا نے آیت 67 میں پہلے نبی اکرم (ص) کو حکم دیا کہ وہ علی (ع) کو اپنا جانشین اور امام مقرر کریں۔ اس کے فوراً بعد اسی سورت کی آیت 3 میں علی (ع) کے جانشینی کے اعلان کے بعد دین کے مکمل ہونے کا اعلان فرمایا۔ یہ دونوں آیات بالترتیب آیت تبلیغ اور آیت اكمال دین کے نام سے مشہور ہیں۔ | خدا نے آیت 67 میں پہلے نبی اکرم (ص) کو حکم دیا کہ وہ علی (ع) کو اپنا جانشین اور امام مقرر کریں۔ اس کے فوراً بعد اسی سورت کی آیت 3 میں علی (ع) کے جانشینی کے اعلان کے بعد دین کے مکمل ہونے کا اعلان فرمایا۔ یہ دونوں آیات بالترتیب آیت تبلیغ اور آیت اكمال دین کے نام سے مشہور ہیں۔ | ||
آیت تبلیغ (مائدہ: 67): «یَا أَیُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَیْکَ مِن رَّبِّکَ وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ...»: "اے رسول! جو کچھ آپ کے رب کی طرف سے نازل ہوا ہے، اسے پوری طرح پہنچا دیجیے اور اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو گویا آپ نے اس کا کوئی پیغام نہیں پہنچایا..." | آیت تبلیغ (مائدہ: 67): «یَا أَیُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَیْکَ مِن رَّبِّکَ وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ...»:<ref>سوره مائده آیه 67</ref> "اے رسول! جو کچھ آپ کے رب کی طرف سے نازل ہوا ہے، اسے پوری طرح پہنچا دیجیے اور اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو گویا آپ نے اس کا کوئی پیغام نہیں پہنچایا..." | ||
آیت اكمال دین (مائدہ: 3): «...الْیَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِینَکُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِی وَرَضِیتُ لَکُمُ الإِسْلاَمَ دِینًا...»: "...آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین کامل کر دیا اور اپنی نعمت تم پر پوری کر دی اور تمہارے لیے اسلام کو بطور دین پسند کیا..." | آیت اكمال دین (مائدہ: 3): «...الْیَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِینَکُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِی وَرَضِیتُ لَکُمُ الإِسْلاَمَ دِینًا...»: <ref>سوره مائده آیه 3</ref>"...آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین کامل کر دیا اور اپنی نعمت تم پر پوری کر دی اور تمہارے لیے اسلام کو بطور دین پسند کیا..." | ||
روایات (شیعہ کے ہاں متفقہ اور سنیوں کے ہاں کثرت سے) اس بات پر متفق ہیں کہ یہ دونوں آیات 18 ذی الحجہ 10 ہجری (روز عید غدیر) کو ایک کے بعد ایک نازل ہوئیں۔ آیت تبلیغ آیت اكمال دین کی تمہید ہے اور نزول کے اعتبار سے بھی پہلے نازل ہوئی۔ | روایات (شیعہ کے ہاں متفقہ اور سنیوں کے ہاں کثرت سے) اس بات پر متفق ہیں کہ یہ دونوں آیات 18 ذی الحجہ 10 ہجری (روز عید غدیر) کو ایک کے بعد ایک نازل ہوئیں۔ آیت تبلیغ آیت اكمال دین کی تمہید ہے اور نزول کے اعتبار سے بھی پہلے نازل ہوئی۔ | ||
یہ ایک مضبوط اور تفصیلی علمی بحث ہے جو خاص امامت کے ثبوت میں دو اہم قرآنی آیات، یعنی آیت تبلیغ (مائدہ: 67) اور آیت اکمال دین (مائدہ: 3) کی تشریح پر مرکوز ہے۔ | یہ ایک مضبوط اور تفصیلی علمی بحث ہے جو خاص امامت کے ثبوت میں دو اہم قرآنی آیات، یعنی آیت تبلیغ (مائدہ: 67) اور آیت اکمال دین (مائدہ: 3) کی تشریح پر مرکوز ہے۔ | ||
ابوسعید خدری سے منقول ہے کہ آیت ولایت (جو آیت تبلیغ سے متعلق ہے) 18 ذی الحجہ 10 ہجری کو حضرت علی (ع) کی امامت کے نصب کے سلسلے میں نازل ہوئی۔ | ابوسعید خدری سے منقول ہے کہ آیت ولایت (جو آیت تبلیغ سے متعلق ہے) 18 ذی الحجہ 10 ہجری کو حضرت علی (ع) کی امامت کے نصب کے سلسلے میں نازل ہوئی۔<ref>ذکاوتی، 1383، ج1: 107</ref> | ||
امام باقر (ع) فرماتے ہیں: "ولایت کا مسئلہ (حضرت علی کی امامت) وہ آخری فریضہ تھا جو اللہ نے نازل فرمایا۔" | امام باقر (ع) فرماتے ہیں: "ولایت کا مسئلہ (حضرت علی کی امامت) وہ آخری فریضہ تھا جو اللہ نے نازل فرمایا۔"<ref>بحرانی، 1385، ج2: 223</ref> | ||
امام رضا (ع) کے مطابق، اللہ نے حجۃ الوداع کے موقع پر آیت "آج میں نے تمہارا دین مکمل کر دیا..." نازل فرمائی، کیونکہ امامت دین کی تکمیل کا حصہ ہے۔ نبی اکرم (ص) نے رحلت سے قبل دین کے تمام احکامات بیان فرمائے اور علی (ع) کو بطور امام و رہنما نصب کیا۔ | امام رضا (ع) کے مطابق، اللہ نے حجۃ الوداع کے موقع پر آیت "آج میں نے تمہارا دین مکمل کر دیا..." نازل فرمائی، کیونکہ امامت دین کی تکمیل کا حصہ ہے۔ نبی اکرم (ص) نے رحلت سے قبل دین کے تمام احکامات بیان فرمائے اور علی (ع) کو بطور امام و رہنما نصب کیا۔<ref>حواله مذکور 224</ref> | ||
آیت تبلیغ میں خداوند نے شدید تاکید کے ساتھ حکم دیا کہ جو کچھ نازل ہوا ہے اسے پہنچا دیا جائے، اور یہ بھی فرمایا کہ اگر ایسا نہیں کیا تو گویا رسالت ادا نہیں کی، اور اللہ آپ کی حفاظت کرے گا، جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ اعلان امامت ایک انتہائی حساس اور خطرہ مول لینے والا عمل تھا، جس سے منافقین کو پریشانی ہو سکتی تھی۔ | آیت تبلیغ میں خداوند نے شدید تاکید کے ساتھ حکم دیا کہ جو کچھ نازل ہوا ہے اسے پہنچا دیا جائے، اور یہ بھی فرمایا کہ اگر ایسا نہیں کیا تو گویا رسالت ادا نہیں کی، اور اللہ آپ کی حفاظت کرے گا، جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ اعلان امامت ایک انتہائی حساس اور خطرہ مول لینے والا عمل تھا، جس سے منافقین کو پریشانی ہو سکتی تھی۔ | ||
سوال: اگر تبلیغ کا مقصد قرآن یا دین کے عام احکامات کی تبلیغ ہوتا، تو یہ مضحکہ خیز ہے، کیونکہ سورہ مائدہ آخری سورتوں میں سے تھی، اور نماز و روزہ جیسے بنیادی احکامات تو سالوں پہلے سورہ بقرہ میں نازل ہو چکے تھے۔ لہٰذا، اس تبلیغ کا تعلق کسی نئی اور اہم چیز سے ہونا چاہیے تھا | سوال: اگر تبلیغ کا مقصد قرآن یا دین کے عام احکامات کی تبلیغ ہوتا، تو یہ مضحکہ خیز ہے، کیونکہ سورہ مائدہ آخری سورتوں میں سے تھی، اور نماز و روزہ جیسے بنیادی احکامات تو سالوں پہلے سورہ بقرہ میں نازل ہو چکے تھے۔ لہٰذا، اس تبلیغ کا تعلق کسی نئی اور اہم چیز سے ہونا چاہیے تھا | ||
آیت اکمال میں فرمایا گیا: «الْیَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِینَکُمْ...» (آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین کامل کر دیا)۔ | آیت اکمال میں فرمایا گیا: «الْیَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِینَکُمْ...» (آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین کامل کر دیا)۔ | ||
مفسرین اس بات پر زور دیتے ہیں کہ آیت تبلیغ کے فوراً بعد آیت اکمال کا نازل ہونا ثابت کرتا ہے کہ "اليَوْمَ" (آج) سے مراد وہی دن ہے جب حضرت علی (ع) کو امامت کے لیے نصب کیا گیا۔ | مفسرین اس بات پر زور دیتے ہیں کہ آیت تبلیغ کے فوراً بعد آیت اکمال کا نازل ہونا ثابت کرتا ہے کہ "اليَوْمَ" (آج) سے مراد وہی دن ہے جب حضرت علی (ع) کو امامت کے لیے نصب کیا گیا۔ | ||
تفسیر "الأمثل" کے مطابق: اگر "اليَوْمَ" سے مراد فتح مکہ، یا برأت کا اعلان، یا بعثت کا آغاز ہوتا، تو یہ سورہ مائدہ کے نزول کے وقت سے مطابقت نہیں رکھتا، کیونکہ یہ واقعات سورہ مائدہ کے نزول سے بہت پہلے (کئی سال پہلے) ہو چکے تھے۔ اس لیے، "اليَوْمَ" سے مراد قطعی طور پر حضرت علی (ع) کے امامت پر تقرر کا دن ہے۔ | تفسیر "الأمثل" کے مطابق: اگر "اليَوْمَ" سے مراد فتح مکہ، یا برأت کا اعلان، یا بعثت کا آغاز ہوتا، تو یہ سورہ مائدہ کے نزول کے وقت سے مطابقت نہیں رکھتا، کیونکہ یہ واقعات سورہ مائدہ کے نزول سے بہت پہلے (کئی سال پہلے) ہو چکے تھے۔ اس لیے، "اليَوْمَ" سے مراد قطعی طور پر حضرت علی (ع) کے امامت پر تقرر کا دن ہے۔<ref>مکارم شیرازی، 1378، ج3: 591</ref> | ||
کچھ اہل سنت مفسرین، جیسے سیوطی، نے بھی ابوسعید خدری اور دیگر صحابہ کے حوالے سے یہ بات قبول کی ہے کہ یہ دونوں آیات حضرت علی (ع) کی امامت کے اعلان کے سلسلے میں نازل ہوئیں۔ | |||
علامہ طباطبائی نے تفصیلی بحث کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ ان دو آیات کی کوئی دوسری تفسیر یا توجیہ ممکن نہیں سوائے حضرت علی (ع) کے نصب بلامنازع امامت کے۔ | کچھ اہل سنت مفسرین، جیسے سیوطی، نے بھی ابوسعید خدری اور دیگر صحابہ کے حوالے سے یہ بات قبول کی ہے کہ یہ دونوں آیات حضرت علی (ع) کی امامت کے اعلان کے سلسلے میں نازل ہوئیں۔<ref>سیوطی، 1362، ج2: 298</ref> | ||
علامہ طباطبائی نے تفصیلی بحث کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ ان دو آیات کی کوئی دوسری تفسیر یا توجیہ ممکن نہیں سوائے حضرت علی (ع) کے نصب بلامنازع امامت کے۔<ref>طباطبائی، 1374، ج5: 168</ref> | |||
نتیجہ: یہ بحث جامع طور پر واضح کرتی ہے کہ آیت تبلیغ اور آیت اکمال کا تاریخی اور کلامی تناظر صرف اور صرف غدیر خم کے دن حضرت علی (ع) کی امامت کے اعلان پر دلالت کرتا ہے، جسے دین کی تکمیل کے لیے ضروری قرار دیا گیا۔ | نتیجہ: یہ بحث جامع طور پر واضح کرتی ہے کہ آیت تبلیغ اور آیت اکمال کا تاریخی اور کلامی تناظر صرف اور صرف غدیر خم کے دن حضرت علی (ع) کی امامت کے اعلان پر دلالت کرتا ہے، جسے دین کی تکمیل کے لیے ضروری قرار دیا گیا۔ | ||
== امامت خاصه کے اثبات کے لیے خصوصی احادیث== | == امامت خاصه کے اثبات کے لیے خصوصی احادیث== | ||
| سطر 162: | سطر 192: | ||
=== حدیث غدیر=== | === حدیث غدیر=== | ||
سند کی قطعیت: اس حدیث کی سند کو کسی بھی غیر متعصب اسلامی عالم نے کبھی انکار نہیں کیا ہے۔ اس کی اسناد کی تفصیلات عبقات الأنوار، غایة المرام اور خاص طور پر الغدیر جیسی کتب میں موجود ہیں۔ بحرانی نے یہ حدیث 89 مختلف طریقوں سے نقل کی ہے۔ | سند کی قطعیت: اس حدیث کی سند کو کسی بھی غیر متعصب اسلامی عالم نے کبھی انکار نہیں کیا ہے۔ اس کی اسناد کی تفصیلات عبقات الأنوار، غایة المرام اور خاص طور پر الغدیر جیسی کتب میں موجود ہیں۔ بحرانی نے یہ حدیث 89 مختلف طریقوں سے نقل کی ہے۔ | ||
علامہ امینی کا بیان: علامہ امینی الغدیر میں فرماتے ہیں کہ: "پیامبر اکرم (ص) نے 18 ذی الحجہ 10 ہجری کو سرزمین غدیر پر اپنے ایک لاکھ بیس ہزار سے زائد صحابہ کے سامنے، جن میں مدینہ اور دیگر اسلامی علاقوں کے پیروکار شامل تھے، حضرت علی (ع) کو امتِ اسلامیہ کے ولی امر کے طور پر متعارف کروایا۔ لہٰذا، اس حدیث کی سند کے بارے میں مزید وضاحت کی ضرورت نہیں کیونکہ یہ حدیث متواتر ہے۔" | علامہ امینی کا بیان: علامہ امینی الغدیر میں فرماتے ہیں کہ: "پیامبر اکرم (ص) نے 18 ذی الحجہ 10 ہجری کو سرزمین غدیر پر اپنے ایک لاکھ بیس ہزار سے زائد صحابہ کے سامنے، جن میں مدینہ اور دیگر اسلامی علاقوں کے پیروکار شامل تھے، حضرت علی (ع) کو امتِ اسلامیہ کے ولی امر کے طور پر متعارف کروایا۔ لہٰذا، اس حدیث کی سند کے بارے میں مزید وضاحت کی ضرورت نہیں کیونکہ یہ حدیث متواتر ہے۔"<ref>امینی، 1361، ج1: 9</ref> | ||
نبی اکرم (ص) نے فرمایا: | نبی اکرم (ص) نے فرمایا: | ||
«أیّها الناس مَن أَولَی النَّاس بِالمُؤمِنِینَ مِن أَنفُسِهِم؟» (اے لوگو! مومنوں پر ان کی جانوں سے زیادہ کون ولایت رکھتا ہے؟) | «أیّها الناس مَن أَولَی النَّاس بِالمُؤمِنِینَ مِن أَنفُسِهِم؟» (اے لوگو! مومنوں پر ان کی جانوں سے زیادہ کون ولایت رکھتا ہے؟) | ||
صحابہ نے جواب دیا: "اللہ اور اس کا رسول سب سے بہتر جانتا ہے۔" | صحابہ نے جواب دیا: "اللہ اور اس کا رسول سب سے بہتر جانتا ہے۔" | ||
پھر آپ نے فرمایا: «إِنَّ اللهَ مَولاَیَ، وَ أَنَا مَولَی المُؤمِنِینَ، وَ أَنَا أَولَی بِهِم مِن أَنفُسِهِم، فَمَن کُنتُ مَولاَهُ فَهَذَا عَلِیٌّ مَولاَهُ» (بیشک اللہ میرا مولا ہے، اور میں مومنوں کا مولا ہوں، اور میں ان کی جانوں پر خود ان سے زیادہ حق رکھتا ہوں۔ پس جس کا میں مولا ہوں، یہ علی اس کے مولا ہیں)۔ یہ جملہ تین یا چار بار دہرایا گیا۔ | پھر آپ نے فرمایا: «إِنَّ اللهَ مَولاَیَ، وَ أَنَا مَولَی المُؤمِنِینَ، وَ أَنَا أَولَی بِهِم مِن أَنفُسِهِم، فَمَن کُنتُ مَولاَهُ فَهَذَا عَلِیٌّ مَولاَهُ» (بیشک اللہ میرا مولا ہے، اور میں مومنوں کا مولا ہوں، اور میں ان کی جانوں پر خود ان سے زیادہ حق رکھتا ہوں۔ پس جس کا میں مولا ہوں، یہ علی اس کے مولا ہیں)۔ یہ جملہ تین یا چار بار دہرایا گیا۔<ref>حواله مذکور11</ref> | ||
"مولیٰ" کا معنی: عربی زبان میں "مولیٰ" کے کئی معنی ہیں، جن میں سے تین زیادہ مشہور ہیں: غلام، دوست، اور صاحبِ امر و امام۔ | "مولیٰ" کا معنی: عربی زبان میں "مولیٰ" کے کئی معنی ہیں، جن میں سے تین زیادہ مشہور ہیں: غلام، دوست، اور صاحبِ امر و امام۔ | ||
انتقال ولایت: حدیث کے ابتدائی حصے میں، نبی اکرم (ص) اپنی مطلق ولایت کا ذکر کرتے ہیں جس کی بنیاد سورہ احزاب کی آیت 6 (النَّبِیُّ أَوْلَی بِالْمُؤْمِنِینَ مِنْ أَنفُسِهِمْ) پر ہے، اور لوگوں کو اس ولایت کی یاد دلاتے ہیں۔ اس کے بعد وہ کہتے ہیں کہ "میری وہی ولایت اور مولویّت بعینہ علی (ع) کو منتقل ہو جاتی ہے"۔ | انتقال ولایت: حدیث کے ابتدائی حصے میں، نبی اکرم (ص) اپنی مطلق ولایت کا ذکر کرتے ہیں جس کی بنیاد سورہ احزاب کی آیت 6 (النَّبِیُّ أَوْلَی بِالْمُؤْمِنِینَ مِنْ أَنفُسِهِمْ) پر ہے، اور لوگوں کو اس ولایت کی یاد دلاتے ہیں۔ اس کے بعد وہ کہتے ہیں کہ "میری وہی ولایت اور مولویّت بعینہ علی (ع) کو منتقل ہو جاتی ہے"۔ | ||
| سطر 174: | سطر 204: | ||
خلاصہ یہ کہ حدیث کے آغاز اور انجام پر غور کرنے سے اس کی دلالت میں کوئی ابہام نہیں رہتا کہ یہ حضرت علی (ع) کی مطلق امامت کا اعلان تھا۔ | خلاصہ یہ کہ حدیث کے آغاز اور انجام پر غور کرنے سے اس کی دلالت میں کوئی ابہام نہیں رہتا کہ یہ حضرت علی (ع) کی مطلق امامت کا اعلان تھا۔ | ||
=== حدیث ثقلین=== | === حدیث ثقلین=== | ||
یہ حدیث معنوی اعتبار سے متواتر ہے۔ سیّد ہاشم بحرانی نے اسے 39 اہلِ سنت طریقوں سے نقل کیا ہے۔ اہلِ تشیع علماء نے اسے اپنی کلامی اور تفسیری کتب کے علاوہ اس عنوان سے مستقل کتب (جیسے سیّد علی میلانی کی کتاب) میں بھی درج کیا ہے۔ ذیل میں یہ حدیث غایة المرام سے احمد بن حنبل کے حوالے سے نقل کی گئی ہے، جس کے بعد اس کی دلالت پر بحث کی گئی ہے۔ | یہ حدیث معنوی اعتبار سے متواتر ہے۔ سیّد ہاشم بحرانی نے اسے 39 اہلِ سنت طریقوں سے نقل کیا ہے۔<ref>بحرانی، 1388: 298</ref> اہلِ تشیع علماء نے اسے اپنی کلامی اور تفسیری کتب کے علاوہ اس عنوان سے مستقل کتب (جیسے سیّد علی میلانی کی کتاب) میں بھی درج کیا ہے۔ ذیل میں یہ حدیث غایة المرام سے احمد بن حنبل کے حوالے سے نقل کی گئی ہے، جس کے بعد اس کی دلالت پر بحث کی گئی ہے۔ | ||
"رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ) نے فرمایا: 'إِنِّی قَدْ تَرَکْتُ فِیکُمُ الثَّقَلَیْنِ، أَحَدُهُمَا أَکْبَرُ مِنَ الْآخَرِ: کِتَابُ اللهِ وَ عِتْرَتِی أَهْلُ بَیْتِی، ما إِنْ تَمَسَّکْتُمْ بِهِمَا لَنْ تَضِلُّوا بَعْدِی، أَلاَ إِنَّهُمَا لَنْ یَفْتَرِقَا حَتَّی یَرِدَا عَلَیَّ الْحَوْض'" | "رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ) نے فرمایا: 'إِنِّی قَدْ تَرَکْتُ فِیکُمُ الثَّقَلَیْنِ، أَحَدُهُمَا أَکْبَرُ مِنَ الْآخَرِ: کِتَابُ اللهِ وَ عِتْرَتِی أَهْلُ بَیْتِی، ما إِنْ تَمَسَّکْتُمْ بِهِمَا لَنْ تَضِلُّوا بَعْدِی، أَلاَ إِنَّهُمَا لَنْ یَفْتَرِقَا حَتَّی یَرِدَا عَلَیَّ الْحَوْض'" | ||
ترجمہ: "بیشک میں تمہارے درمیان دو گراں بہا چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں، جن میں سے ایک دوسری سے بڑی ہے: اللہ کی کتاب اور میری عترت (اہل بیت)۔ جب تک تم ان دونوں سے متمسک رہو گے، میرے بعد کبھی گمراہ نہیں ہو گے، اور آگاہ رہو کہ یہ دونوں (ثقلین) حوض کوثر پر میرے پاس آنے تک کبھی ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے۔" | ترجمہ: "بیشک میں تمہارے درمیان دو گراں بہا چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں، جن میں سے ایک دوسری سے بڑی ہے: اللہ کی کتاب اور میری عترت (اہل بیت)۔ جب تک تم ان دونوں سے متمسک رہو گے، میرے بعد کبھی گمراہ نہیں ہو گے، اور آگاہ رہو کہ یہ دونوں (ثقلین) حوض کوثر پر میرے پاس آنے تک کبھی ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے۔"<ref>مذکوره حواله 299</ref> | ||
اس حدیث کی دلالت پر تین اہم نکات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے: | اس حدیث کی دلالت پر تین اہم نکات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے: | ||
1. برابری (عدل): رسول اکرم (ص) نے کتابِ خدا اور اہلِ بیت کو ایک دوسرے کا ہم پلہ (عِدل) قرار دیا۔ یہ امر اس وقت مزید واضح ہو جاتا ہے جب نبی اکرم (ص) نے حدیث بیان کرتے ہوئے اپنی دونوں شہادت کی انگلیوں کو ایک دوسرے کے ساتھ ملا کر فرمایا: "کَہَاتَین" (ان دو کی طرح)، یعنی قرآن اور حدیث بالکل ایک دوسرے کے برابر ہیں۔ | 1. برابری (عدل): رسول اکرم (ص) نے کتابِ خدا اور اہلِ بیت کو ایک دوسرے کا ہم پلہ (عِدل) قرار دیا۔ یہ امر اس وقت مزید واضح ہو جاتا ہے جب نبی اکرم (ص) نے حدیث بیان کرتے ہوئے اپنی دونوں شہادت کی انگلیوں کو ایک دوسرے کے ساتھ ملا کر فرمایا: "کَہَاتَین" (ان دو کی طرح)، یعنی قرآن اور حدیث بالکل ایک دوسرے کے برابر ہیں۔ | ||
| سطر 183: | سطر 213: | ||
اہلِ بیت سے تمسک کا وجوب اس حدیث کے منطوقی دلالت (صریح معنی) اور مفہومِ شرط (شرط کا مفہوم) دونوں سے ثابت ہوتا ہے۔ | اہلِ بیت سے تمسک کا وجوب اس حدیث کے منطوقی دلالت (صریح معنی) اور مفہومِ شرط (شرط کا مفہوم) دونوں سے ثابت ہوتا ہے۔ | ||
منطوقی دلالت: جملہ «مَا إِنْ تَمَسَّکْتُمْ بِهِمَا» کا مطلب ہے (تَمَسَّکُوا بِهِمَا) یعنی "تم دونوں سے متمسک ہو جاؤ۔" اہلِ تشیع اور اہلِ سنت دونوں کا اتفاق ہے کہ قرآن کی پیروی واجب ہے۔ لہٰذا، قرآن کے ہم پلہ یعنی اہلِ بیت کی پیروی بھی واجب ہے۔ | منطوقی دلالت: جملہ «مَا إِنْ تَمَسَّکْتُمْ بِهِمَا» کا مطلب ہے (تَمَسَّکُوا بِهِمَا) یعنی "تم دونوں سے متمسک ہو جاؤ۔" اہلِ تشیع اور اہلِ سنت دونوں کا اتفاق ہے کہ قرآن کی پیروی واجب ہے۔ لہٰذا، قرآن کے ہم پلہ یعنی اہلِ بیت کی پیروی بھی واجب ہے۔ | ||
قرآن و حدیث میں یہ اسلوب (خبر دینے کے انداز میں حکم دینا) بہت عام ہے، جیسے "کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیامُ" (تم پر روزے لکھ دیے گئے)، جس کا مطلب ہے "روزہ رکھو۔" ایسا اس لیے کیا جاتا ہے کیونکہ حکم کو خبر کے لباس میں بیان کرنے سے تأکید زیادہ ہو جاتی ہے۔ | قرآن و حدیث میں یہ اسلوب (خبر دینے کے انداز میں حکم دینا) بہت عام ہے، جیسے "کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیامُ"<ref>سوره بقره آیه 183</ref> (تم پر روزے لکھ دیے گئے)، جس کا مطلب ہے "روزہ رکھو۔" ایسا اس لیے کیا جاتا ہے کیونکہ حکم کو خبر کے لباس میں بیان کرنے سے تأکید زیادہ ہو جاتی ہے۔ | ||
نتیجہ: اس حدیث کے مطابق، اہلِ بیت (امامانِ معصوم) قرآنِ ناطق ہیں جو قرآنِ صامت (خاموش) کی وضاحت کرنے والے ہیں۔ | نتیجہ: اس حدیث کے مطابق، اہلِ بیت (امامانِ معصوم) قرآنِ ناطق ہیں جو قرآنِ صامت (خاموش) کی وضاحت کرنے والے ہیں۔ | ||
مفہوم مخالف: اس کا منفی مفہوم یہ ہے کہ اگر امتِ اسلامی قرآن اور اہلِ بیت سے تمسک نہیں کرے گی، تو وہ گمراہ ہو جائے گی۔ دوسرے الفاظ میں، قرآن اور اہلِ بیت کی اطاعت نہ کرنا حرام ہے۔ امامت کا معنی اس واجب الاطاعت مقام کے سوا اور کچھ نہیں ہو سکتا۔ | مفہوم مخالف: اس کا منفی مفہوم یہ ہے کہ اگر امتِ اسلامی قرآن اور اہلِ بیت سے تمسک نہیں کرے گی، تو وہ گمراہ ہو جائے گی۔ دوسرے الفاظ میں، قرآن اور اہلِ بیت کی اطاعت نہ کرنا حرام ہے۔ امامت کا معنی اس واجب الاطاعت مقام کے سوا اور کچھ نہیں ہو سکتا۔ | ||
=== حدیث منزلت=== | === حدیث منزلت=== | ||
سیّد ہاشم بحرانی کے مطابق، یہ حدیث اہلِ سنت کے ایک سو (100) طریقوں سے نقل کی گئی ہے، اور تمام شیعہ فرقوں نے اسے اپنی کلامی اور تفسیری کتب میں درج کیا ہے۔ لہٰذا، یہ حدیث سند کے لحاظ سے متواتر کے درجے پر فائز ہے۔ اس سلسلے میں مزید بحث کی ضرورت نہیں۔ | سیّد ہاشم بحرانی کے مطابق، یہ حدیث اہلِ سنت کے ایک سو (100) طریقوں سے نقل کی گئی ہے، اور تمام شیعہ فرقوں نے اسے اپنی کلامی اور تفسیری کتب میں درج کیا ہے۔<ref>بحرانی، 1388، ج1: 175</ref> لہٰذا، یہ حدیث سند کے لحاظ سے متواتر کے درجے پر فائز ہے۔ اس سلسلے میں مزید بحث کی ضرورت نہیں۔ | ||
یہاں ابوسعید خدری کی روایت سے احمد بن حنبل کے حوالے سے یہ حدیث پیش کی جا رہی ہے، جس کے بعد اس کی دلالت پر اختصار سے بحث کی جائے گی۔ | یہاں ابوسعید خدری کی روایت سے احمد بن حنبل کے حوالے سے یہ حدیث پیش کی جا رہی ہے، جس کے بعد اس کی دلالت پر اختصار سے بحث کی جائے گی۔ | ||
"رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ) نے حضرت علی (علیہ السلام) سے فرمایا: «یَا عَلِیّ أَنْتَ مِنِّی بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِنْ مُوسَی إِلاَّ أَنَّهُ لاَ نَبِیَّ بَعْدِی»" | "رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ) نے حضرت علی (علیہ السلام) سے فرمایا: «یَا عَلِیّ أَنْتَ مِنِّی بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِنْ مُوسَی إِلاَّ أَنَّهُ لاَ نَبِیَّ بَعْدِی»" | ||
ترجمہ: "اے علی! تمہاری مجھ سے وہی نسبت ہے جو ہارون کی موسیٰ سے تھی، سوائے اس کے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔" | ترجمہ: "اے علی! تمہاری مجھ سے وہی نسبت ہے جو ہارون کی موسیٰ سے تھی، سوائے اس کے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔"<ref>مذکوره حواله</ref> | ||
یہ حدیث درحقیقت آیت مباہلہ کی مفسر ہے، جس میں اللہ نے اپنے نبی کی زبان سے علی (ع) کو نبی اکرم (ص) کا نفس (نفسِ محمدی) قرار دیا ہے (سورہ آل عمران: 61: «أَنْفُسَنَا وَ أَنْفُسَکُمْ» - یعنی اپنی جانوں کو لاؤ)۔ | یہ حدیث درحقیقت آیت مباہلہ کی مفسر ہے، جس میں اللہ نے اپنے نبی کی زبان سے علی (ع) کو نبی اکرم (ص) کا نفس (نفسِ محمدی) قرار دیا ہے (سورہ آل عمران: 61: «أَنْفُسَنَا وَ أَنْفُسَکُمْ» - یعنی اپنی جانوں کو لاؤ)۔ | ||
امامت کا اثبات: جیسا کہ آیت مباہلہ کی بحث میں ذکر ہوا، علی (ع) نبی اکرم (ص) کی تمام صفات (بجز منصبِ نبوت کے) کے حامل ہیں، جن میں نبی اکرم (ص) کی امامت اور مطلق ولایت بھی شامل ہے۔ اس طرح، علی (ع) بھی نبی کے بعد امتِ اسلامی کے امام ہیں۔ | امامت کا اثبات: جیسا کہ آیت مباہلہ کی بحث میں ذکر ہوا، علی (ع) نبی اکرم (ص) کی تمام صفات (بجز منصبِ نبوت کے) کے حامل ہیں، جن میں نبی اکرم (ص) کی امامت اور مطلق ولایت بھی شامل ہے۔ اس طرح، علی (ع) بھی نبی کے بعد امتِ اسلامی کے امام ہیں۔ | ||
"منزلت" کا اطلاق: لفظ "منزلت" کو معرفہ (Definite) اسم "ہارون" کی طرف منسوب کرنے سے یہ فائدہ ہوتا ہے کہ ہارون اور موسیٰ کے درمیان جتنی بھی مشترکات تھیں، وہ سب حضرت علی (ع) اور نبی اکرم (ص) کے درمیان بھی ثابت ہو جاتی ہیں (سوائے نبوت کے، جس کا ذکر حدیث میں خود مستثنیٰ کر دیا گیا ہے)۔ | "منزلت" کا اطلاق: لفظ "منزلت" کو معرفہ (Definite) اسم "ہارون" کی طرف منسوب کرنے سے یہ فائدہ ہوتا ہے کہ ہارون اور موسیٰ کے درمیان جتنی بھی مشترکات تھیں، وہ سب حضرت علی (ع) اور نبی اکرم (ص) کے درمیان بھی ثابت ہو جاتی ہیں (سوائے نبوت کے، جس کا ذکر حدیث میں خود مستثنیٰ کر دیا گیا ہے)۔ | ||
ہارون و موسیٰ کے مشترکات: ہمیں دیکھنا ہے کہ نبوت کے علاوہ ہارون اور موسیٰ میں کیا مشترک تھا، جنہیں اللہ نے قرآن میں بیان کیا ہے۔ اللہ نے موسیٰ کی دعا کے ذریعے ان صفات کو بیان کیا: «وَاجْعَل لِّی وَزِیرًا مِّنْ أَهْلِی هَارُونَ أَخِی اشْدُدْ بِهِ أَزْرِی وَأَشْرِکْهُ فِی أَمْرِی» (اور میرے لیے میرے اہل سے ایک وزیر مقرر کر دے... میرے بھائی ہارون کو! اس کے ذریعے میری کمر کو مضبوط کر اور اسے میرے کام میں شریک بنا)۔ | ہارون و موسیٰ کے مشترکات: ہمیں دیکھنا ہے کہ نبوت کے علاوہ ہارون اور موسیٰ میں کیا مشترک تھا، جنہیں اللہ نے قرآن میں بیان کیا ہے۔ اللہ نے موسیٰ کی دعا کے ذریعے ان صفات کو بیان کیا: «وَاجْعَل لِّی وَزِیرًا مِّنْ أَهْلِی هَارُونَ أَخِی اشْدُدْ بِهِ أَزْرِی وَأَشْرِکْهُ فِی أَمْرِی»<ref>سوره طه آیه 29-32</ref> (اور میرے لیے میرے اہل سے ایک وزیر مقرر کر دے... میرے بھائی ہارون کو! اس کے ذریعے میری کمر کو مضبوط کر اور اسے میرے کام میں شریک بنا)۔ | ||
نتیجہ: اس آیت کی روشنی میں، وزارت، شریعت کی وضاحت، اور امت کی ہدایت جیسی تمام صفات حضرت علی (ع) کے لیے ثابت ہوتی ہیں۔ یعنی، اس حدیث کے مطابق، علی (ع) نبی کے بعد حکومت کے نگہبان اور شریعت کے مبین ہیں، جو کہ امامت کا عین معنی ہے۔ | نتیجہ: اس آیت کی روشنی میں، وزارت، شریعت کی وضاحت، اور امت کی ہدایت جیسی تمام صفات حضرت علی (ع) کے لیے ثابت ہوتی ہیں۔ یعنی، اس حدیث کے مطابق، علی (ع) نبی کے بعد حکومت کے نگہبان اور شریعت کے مبین ہیں، جو کہ امامت کا عین معنی ہے۔ | ||
"وزیر" کا مفہوم: "وزیر" کے دو معنی ہیں: یا تو "پناہ گاہ" (جیسا کہ قرآن میں فرمایا: «کَلَّا لَا وَزَرَ» - ہرگز نہیں، کوئی پناہ گاہ نہیں)، یا "احکامِ دین اور حکومت چلانے کا بھاری بوجھ اٹھانے والا" (جو "وِزر" سے ماخوذ ہے، جس کے بارے میں قرآن میں ہے: «وَلاَ تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَی» - کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا)۔ | "وزیر" کا مفہوم: "وزیر" کے دو معنی ہیں: یا تو "پناہ گاہ" (جیسا کہ قرآن میں فرمایا: «کَلَّا لَا وَزَرَ»<ref>سوره قیامت آیه 11</ref> - ہرگز نہیں، کوئی پناہ گاہ نہیں)، یا "احکامِ دین اور حکومت چلانے کا بھاری بوجھ اٹھانے والا" (جو "وِزر" سے ماخوذ ہے، جس کے بارے میں قرآن میں ہے: «وَلاَ تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَی»<ref>سوره انعام آیه164</ref> - کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا)۔ | ||
حضرت علی (ع) نبی کے بعد ان دونوں معنیٰ میں وزیر تھے؛ یعنی آپ نے امت کی قیادت کا بھاری بوجھ سنبھالا اور شریعت کے احکام کی وضاحت بھی کی، جس بنا پر آپ تمام اسلامی امت کے لیے مرجع اور پناہ گاہ تھے۔ | حضرت علی (ع) نبی کے بعد ان دونوں معنیٰ میں وزیر تھے؛ یعنی آپ نے امت کی قیادت کا بھاری بوجھ سنبھالا اور شریعت کے احکام کی وضاحت بھی کی، جس بنا پر آپ تمام اسلامی امت کے لیے مرجع اور پناہ گاہ تھے۔ | ||
حالیہ نسخہ بمطابق 13:48، 24 اکتوبر 2025ء

امامت ایک عربی لفظ ہے جس کا لغوی مطلب پیشوائی اور رہنمائی ہے، اور ہر شخص جو کسی گروہ کی قیادت کا ذمہ دار ہو اسے "امام" کہا جاتا ہے، چاہے وہ حق کے راستے پر ہو یا باطل کے۔ جیسا کہ قرآنِ کریم میں "أَئِمَّةَ الْكُفْر"[1] کا لفظ کفار کے سرداروں کے لیے استعمال ہوا ہے۔ وہ شخص جس کی اقتداء نمازی کریں، "امامِ جماعت" کہلاتا ہے۔ لیکن علمِ کلام کی اصطلاح میں امامت کا مطلب ہے: "اسلامی معاشرے پر دینی اور دنیاوی ہر معاملے میں عام اور ہمہ گیر قیادت"۔ یہاں "دنیاوی" کا ذکر امامت کے وسیع دائرہ اختیار پر تاکید کے لیے ہے، وگرنہ اسلامی معاشرے کے دنیاوی امور کا انتظام بھی دینِ اسلام کا حصہ ہے۔
شیعوں کے نزدیک امامت کا تصور
شیعہ امامیہ کے نزدیک، توحید اور نبوت کے بعد امامت دینِ اسلام کا سب سے اہم مسئلہ ہے۔ امتِ مسلمہ اس موضوع میں بنیادی طور پر دو بڑے گروہوں، یعنی شیعہ اور اہلِ سنت، میں تقسیم ہے۔ اگرچہ دونوں میں داخلی اختلافات موجود ہیں، تاہم ان کے درمیان دو بنیادی اور جوہری فرق ہیں۔ تمام شیعہ فرقوں کے نزدیک، امام کا منصوص ہونا لازم ہے، یعنی امام کو اللہ اور رسولِ خدا کی جانب سے براہِ راست منتخب اور نامزد کیا جانا ضروری ہے، کیونکہ امام میں عصمت شرط ہے اور معصوم ہونے کو صرف اللہ اور رسولِ خدا ہی پہچان سکتے ہیں۔
شیخ طوسی فرماتے ہیں: "امامت توحید کے بعد سب سے اہم دینی مسئلہ ہے، کیونکہ امام کی شناخت اور اس کے مقام کی سمجھ کے بغیر توحید ناقص رہ جاتی ہے اور رسولِ اکرم ﷺ کی تمام کاوشیں خطرے اور زوال میں پڑ جاتی ہیں"۔ [2] فیاض لاہجی اس بارے میں کہتے ہیں: "امامی فرقہ امامت کو اصولِ دین میں شمار کرتا ہے، کیونکہ دین و شریعت کا قیام امام کی موجودگی پر موقوف ہے، جیسے شریعت کی ابتدا نبی کی موجودگی پر موقوف ہے۔ پس دین کو امام کی اتنی ہی ضرورت ہے جتنی اسے نبی کی"۔[3]
لہٰذا امامت اصولِ دین کا حصہ ہے اور اس پر بحث علمِ کلام میں ہونی چاہیے۔ البتہ ولایتِ تشریعی کی حدود کے تعین کے اعتبار سے یہ موضوع فقہ میں بھی زیرِ بحث آتا ہے۔ لیکن اہلِ سنت کے نزدیک امامت دین کا بنیادی جزو نہیں بلکہ اسلامی معاشرے کی قیادت و انتظام ہے، اور ایسے شخص کے لیے عصمت ضروری نہیں۔ اس لیے امام کا انتخاب اجماع اور بیعت کے ذریعے کیا جاتا ہے۔
فیاض لاہجی اہلِ سنت کے عقیدے کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں: "امام الحرمین، جو اہلِ سنت کے بڑے علما میں شمار ہوتے ہیں، کہتے ہیں: اگر امام ظلم و جبر کرے اور وعظ یا نصیحت سے باز نہ آئے تو اہلِ حل و عقد کو اختیار ہے کہ عملی طور پر اسے روکنے پر اتفاق کریں، چاہے اس کے لیے لڑائی اور مزاحمت کی ضرورت پڑے۔ شارحِ مقاصد کہتا ہے: بلا شبہ امامت کا مسئلہ فروعِ دین میں شامل ہونا چاہیے، اور اگر امت کا کچھ حصہ امام مقرر کرے تو باقی لوگوں سے یہ ذمہ داری ساقط ہو جاتی ہے، کیونکہ شارع اس کو فی الجملہ حاصل کرنا چاہتا ہے۔ لیکن روافض اور خوارج کے عقائد کے پھیلاؤ کی وجہ سے متکلمین نے امامت کو علمِ کلام میں شامل کر دیا"۔
یہ بات واضح ہے کہ اثناعشری شیعہ کا عقیدہ امامت کے بارے میں کئی پہلوؤں سے دیگر شیعہ فرقوں، جیسے کیسانیہ، زیدیہ، اسماعیلیہ وغیرہ، سے مختلف ہے، اگرچہ منصوص امام کے معاملے میں وہ بالعموم ایک خیال رکھتے ہیں۔
لفط امام اور شیعه کا معنی اور تصور
راغب اصفہانی "امام" کے معنی بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: "الإِمَامُ هُوَ المُؤتَمُّ بِهِ إِنسَاناً کَأَنَ یقتَدِی بِقَولِهِ أَو فِعلِهِ، أَو کِتَاباً أَو غَیر ذَلِکَ، مُحِقّاً کَانَ أَو مُبطِلاً، وَ جَمعُهُ أَئِمَّة. وَ قولُهُ تَعَالَی: «یَوْمَ نَدْعُوا کُلَّ أُنَاسٍ بِإِمَامِهِمْ» (الإسراء/71) أَی بِالَّذِی یقتَدُون بِهِ۔"
امام وہ ہے جس کی پیروی کی جائے، خواہ وہ کسی انسان کی بات یا عمل ہو، یا کوئی کتاب یا کوئی اور چیز ہو، چاہے وہ حق پر ہو یا باطل پر۔ امام کی جمع "ائمہ" ہے۔ اور اللہ کا یہ فرمان: "جس دن ہم ہر گروہ کو ان کے امام کے ساتھ بلائیں گے"، یعنی اس کے ساتھ جس کی وہ پیروی کرتے تھے۔ (راغب اصفہانی، 1385)۔ قرآن مجید میں لفظ "امام" بارہ مرتبہ واحد اور جمع کی صورت میں آیا ہے، جو کسی حد تک یہی معنی رکھتا ہے۔ یہ کلمہ سورۂ توبہ (آیت 12) اور سورۂ قصص (آیت 41) میں دو بار آیا ہے۔ یہ سورۂ ہود (آیت 12)، احقاف (آیت 12)، اور یس (آیت 17) میں تین بار آیا ہے۔ یہ سورۂ حجر (آیت 79)، سورۂ فرقان (آیت 74) میں ایک ایک بار، اور سورۂ انبیاء (آیت 73) اور سجدہ (آیت 24) میں دو بار آیا ہے، جہاں فرمایا گیا ہے: «وَجَعَلْنَاهُمْ أَئِمَّةً یَهْدُونَ بِأَمْرِنَا» (اور ہم نے انہیں امام بنایا جو ہمارے حکم سے ہدایت کرتے ہیں)۔ مزید یہ سورۂ قصص (آیت 5)، سورۂ اسراء (آیت 71) میں ایک ایک بار، اور سورۂ بقرہ (آیت 124) میں ایک بار آیا ہے۔ ان تمام آیات میں، امام کبھی پرہیزگاروں کا پیشوا اور خطِ نبوت پر ہوتا ہے اور کبھی بدکاروں کا پیشوا اور شیطان کے خط پر۔ راغب اصفہانی نے "شیعہ" کی یوں تعریف کی ہے: «الشِّیعَةُ مَن یَتَقَوِّی بِهِم الإِنسَانُ»، یعنی: "شیعہ وہ لوگ ہیں جن سے انسان اپنے رہبر کو تقویت پہنچاتا ہے اور اس کی خدمت میں رہتا ہے" (حوالہ مذکورہ)۔ شیخ مفید فرماتے ہیں: التَّشَیَّعُ فِی أَصلِ اللُّغَةِ هُوَ الإِتِّبَاعُ عَلَی وَجهِ التَّدَیُّنِ وَ الولاَءُ لِلمَتبُوعِ عَلَی الإِخلاَصِ۔ لغوی اعتبار سے تشیع یہ ہے کہ متبوع (جس کی پیروی کی جائے) کے لیے دینی بنیاد پر خالص محبت اور وفاداری کے ساتھ اس کی اتباع کی جائے۔ اللہ نے اسی معنی کے پیشِ نظر فرمایا ہے: «وَإِنَّ مِن شِیعَتِهِ لَإِبرَاهِیمَ»[4] (اور بے شک ابراہیم (علیہ السلام) نوح (علیہ السلام) کے شیعوں میں سے تھے)۔ ظاہر ہے کہ ابراہیم (ع) کا نوح (ع) کی پیروی کرنا محبت اور دینی باور کے ساتھ تھا، نہ کہ کسی محکوم کا زبردست کی محض خشک پیروی ہو۔[5] شیخ مفید کے قول کے مطابق، شیعہ ان خاص پیروکاروں کو کہا جاتا ہے جن میں محبت اور دینی یقینیت شامل ہو۔ اس نکتہ نظر کی بنا پر، شیعہ اپنے محبوب رہنما کی راہ میں اپنی ہر چیز قربان کرنے کو تیار رہتا ہے۔ قابلِ توجہ نکتہ یہ ہے کہ جب لفظ "شیعہ" مطلق استعمال ہو تو اس سے مراد حضرت علی اور دیگر ائمہ (علیہم السلام) کے پیروکار ہوتے ہیں جو منصوص امام کے قائل ہیں، اور اگر مراد کوئی اور ہو تو اس کے ساتھ مضاف الیہ کا ذکر کیا جاتا ہے، جیسے شیعہ آل امیہ، شیعہ آل عباس وغیرہ۔[6]
امام کی اصطلاحی تعریف
اسلام کے مختلف فرقوں نے اپنی اپنی عقائد کے مطابق امامت کی تعریف کی ہے۔ ان میں فرقۂ اثناعشریہ (بارہ امامیہ) نے اگرچہ امامت کو مختلف تعابیر سے بیان کیا ہے، تاہم وہ تین نکات پر متفق ہیں، جن کا ذکر ذیل میں کیا گیا ہے۔ ابن میثم بحرانی کہتے ہیں: «الإِمَامَةُ رِیَاسَةُ عَامَّةِفِی أُمُورِ الدِّینِ وَ الدُّنیَا لِلإِنسَانِ الَّذِی لَهُ الإِمَامَةُ بِالأَصَالَةِ»۔ امامت، خدا اور رسول کی جانب سے منتخب کردہ ایک انسان کے لیے دین اور دنیا کے تمام امور میں بالاصالت (ذاتی طور پر) عام ریاست (مطلق قیادت) ہے۔[7] اس تعریف میں مذکورہ تین نکات شامل ہیں:
- ریاستِ عامہ اور مطلق ولایت: امام کی تمام دنیوی اور دینی شعبوں میں مطلق ولایت اور عام قیادت۔
- انتخاب اور منصوص ہونا: امام کا خدا اور رسول کی جانب سے برگزیدہ اور نامزد کیا جانا۔
- بلا فصل نیابت: یہ ریاست، پیغمبر کے بعد بغیر کسی وقفے کے نیابت اور خلافت ہے۔ آخری قید ان خاص یا عام نائبوں کو خارج کرنے کے لیے ہے جنہیں پیغمبر مقرر کیا کرتے تھے۔
شیخ طوسی اس سلسلے میں فرماتے ہیں: «الإِمَامُ رَئِیسُ مُنبَسِطُ الیَدِ، یُردَعُ المُعَانِدِینَ وَ یَنتَصِفُ لِلمَظلُومِینَ مِنَ الظَّالِمِینَ»۔ امام ایک ایسی وسیع اختیارات رکھنے والی (مطلق ولایت والی) ریاست ہے جو معاندین کو روکتی ہے اور ظالموں سے ستم زدگان کا بدلہ لیتی ہے۔[8] خواجہ نصیر طوسی امامت کی تعریف میں فرماتے ہیں: «الإِمَامَةُ رِیَاسَةُ عَامَّةِ دِینِیَّةِ مُشتَمِلَةِ، عَلَی تَرغِیبِ عُمُومِ النَّاسِ فِی حِفظِ مَصَالِحِهِمِ الدِّینِیَّةِ وَ الدُّنیَاوِیَّةِ وَ زِجرِهِم عَمَّا یَضُرُّهُم بِحَسَبِهِا»۔ امامت دینی امور میں ایک عام اور مطلق ریاست ہے جس میں تمام لوگوں کو اپنی دینی اور دنیوی مصلحتوں کے تحفظ کی ترغیب دینا اور انہیں ان کاموں سے روکنا شامل ہے جو ان کی مصلحتوں کو نقصان پہنچاتے ہوں ۔[9]
علامہ حلی بھی فرماتے ہیں: "امامت، پیغمبر اکرم ﷺ کی جانب سے نائب کے طور پر اور ان کے انتخاب کے ذریعے انسانوں میں سے ایک برگزیدہ شخص کے لیے دینی اور دنیوی امور میں عام ریاست ہے" (حلی، 1375: 66)۔ عبدالرزاق لاہجی بھی فرماتے ہیں: "مراد امامت سے صرف پیغمبر کی نیابت اور خلافت کے طور پر دنیا اور دین کے معاملات میں مسلمانوں کی عام ریاست ہے"۔[10]
امامت میں شیعہ اور سنی نقطہ نظر کا فرق
امامت کی حقیقت اہلِ سنت کے نزدیک اس سے مختلف ہے جو شیعہ کے ہاں ہے۔ اہلِ سنت امام کو ایک ایسی ریاست کے سربراہ کے طور پر دیکھتے ہیں جسے عوام یا عوام کے نمائندے منتخب کرتے ہیں، یا وہ فوجی بغاوت یا اسی طرح کے طریقوں سے مسندِ اقتدار پر آتا ہے۔ ایسے حکمران میں کچھ معروف صفات کے سوا کسی چیز کا ہونا شرط نہیں ہوتا۔ اور یہ بات روشن ہے کہ کسی صدر یا وزیرِ اعظم کی قیادت پر ایمان رکھنا، بنیادی اعتقادی اصولوں میں سے نہیں ہے، کہ اگر کوئی شخص اس کی پیشوائی اور رہبری پر یقین نہ رکھے تو اسے فاسق شمار کیا جائے گا۔ اسلامی ممالک میں ہمیشہ ایک شخص دوسرے کی جگہ حکومت پر قابض ہوتا رہا ہے، چاہے عوام کی مرضی سے ہو یا ان کی مجبوری سے، اور کسی نے بھی اس کی زمامداری پر یقین کو بنیادی عقائد میں سے نہیں سمجھا اور نہ ہی اس کی معزولی کا باعث اس کے فسق کو قرار دیا ہے، ورنہ یہاں (نظامِ حکومت) قائم نہ رہ پاتا۔ لیکن شیعہ امامیہ امامت کو رسالت کے فرائض کا تسلسل سمجھتے ہیں (نہ کہ خود رسالت، کیونکہ پیغمبر اکرم ﷺ کے وصال کے ساتھ نبوت اور پیغمبری ختم ہو گئی تھی)۔ یہ بات واضح ہے کہ اس منصب تک رسائی کے لیے اعلیٰ صلاحیتوں کے ایک سلسلے کی ضرورت ہوتی ہے، جو کسی کو حاصل نہیں ہو سکتیں مگر وہی جس پر خصوصی الٰہی عنایات ہوں، اور جو دین کے اصول و فروع میں، عدالت، عصمت اور حکیمانہ قیادت اور دیگر شعبوں میں پیغمبر اکرم ﷺ کی جگہ سنبھالے۔ [اور یہ بدیہی ہے کہ امامت اسی معنی کے ساتھ اصولِ عقائد میں سے ہے۔[11]
امامت عقل اور نقل کے تناظر میں
مختصراً، شیعہ علماء نے امامتِ عامہ کے عقلی مباحث کو چار منطقی اور عقلی نکات میں بیان کیا ہے۔ ابن میثم بحرانی نے "قواعد المرام" میں ان چار نکات کا خلاصہ تفصیل سے بیان کیا ہے، جس کا خلاصہ ذیل میں پیش کیا جا رہا ہے:
- ہلیّتِ وجودِ امام (امام کے وجود کا جواز): اس بحث میں امام کے وجود کی ضرورت یا عدم ضرورت پر گفتگو کی جاتی ہے، اور قاعدۂ عقلی لطف کے ذریعے امام کے وجود کو ثابت کیا جاتا ہے۔
- لمیّتِ وجودِ امام (امام کے وجود کی غایت) اس حصے میں امام کے وجود کے مقصد اور اس کی وجہِ غایی پر بحث ہوتی ہے۔
- کیف الإمام (امام کی صفات) اس حصے میں امام کی صفات پر بحث کی جاتی ہے۔
- مَن الإمام (امام کون ہے):یہ حصہ، جو امامت کی عقلی بحث کا آخری باب ہے، «امامت خاصہ» کے اثبات پر مبنی ہے اور اس میں امام کی شخصیت کے تعین کے بارے میں گفتگو کی جاتی ہے۔[12]
امام کے وجود کی ضرورت
خدا کی جانب سے امام کے تقرر کے بارے میں عقل کا معیار وہی ہے جو خدا کی جانب سے پیغمبر کے تقرر کا معیار ہے۔ بارہ امامیہ شیعہ کے عقیدے کے مطابق پیغمبر کے تقرر اور ان کے مبعوث کیے جانے کی علت اور محرک، انسانی معاشرے پر خدا کا لامحدود لطف (لطفِ نامتناهی) ہے۔ کیونکہ خدا، جو حکیم اور قادر ہے، اپنی رحمانی رحمت اور لطف کے تحت تمام ممکنات، اور ان کے سر فہرست انسانوں کو ہستی عطا کی، اور اپنی رحیمی رحمت اور خاص الٰہی لطف کے تحت، انسانوں کی ہدایت و ارشاد کے لیے انبیاء کو مبعوث فرمایا۔ یہ بات بدیہی ہے کہ انسان کو ہدایت و ارشاد کی ضرورت دائمی ہے اور خداوندی لطف بھی ہمیشہ اور مسلسل جاری رہنے والا ہے۔ لہٰذا، امام کا وجود انسانی معاشرے پر خدا کے لطف کا تسلسل ہے۔ دوسرے الفاظ میں، علتِ مُحدِثہ (پیدا کرنے والی علت) ہی علتِ مُبقّیہ (بقا دینے والی علت) بھی ہوتی ہے۔ اس نکتے کے تناظر میں، شیخ طوسی "تلخیص الشافی" کے آغاز میں فرماتے ہیں: «الکَلاَمُ فِی وُجودِ الإِمَامِ عَقلاً وَ إِن لَم یَکُن سَمعُ، وَ الَّذِی یَدُلُّ عَلَی ذَلِکَ مَا ثَبَتَ مِن کَونِهِ لُطفاً، فَجَرَی مَجرَی سَائِرِ الأَلطَافِ فِی أَنَّهُ لاَیُحسَنُ التَّکلِیفُ مِن دُونِهِ»۔ کلام امام کے وجود کے وجوب پر عقلی بنیاد پر ہے، چاہے سمعی (آیات و احادیث) شواہد موجود نہ ہوں۔ اس امر پر دلیل یہ ہے کہ امامت، دیگر الٰہی الطاف کی طرح ایک لطف ہے (جس طرح پیغمبر کا وجود)، جس کے بغیر حق تعالیٰ کی طرف سے کوئی بھی تکلیف عقلاء کے ہاں قابلِ قبول نہیں ہوگی۔[13] ملا عبدالرزاق لاہجی بھی فرماتے ہیں: "جو شخص نبوت کو جانتا ہے اور نبی کی ضرورت کا سبب پہچانتا ہے، اسے ہر زمانے میں ایسے شخص کی ضرورت کے بقا میں کوئی شک نہیں رہنا چاہیے، کیونکہ مکلفین کو ایک ایسے مرشد و ہادی، امر کرنے والے اور منع کرنے والے کی ضرورت باقی رہتی ہے جس سے وہ سیکھیں اور جس کی طرف رجوع کریں، لہٰذا امامت پیغمبر سے خلافت اور نیابت کے سوا کچھ نہیں ہے"۔[14] وہ مزید فرماتے ہیں: "یہ مناسب اور روا نہیں ہے کہ پیغمبر ﷺ مکلفین کے امور کی انجام دہی کے لیے کسی شخص کا تعین نہ کریں، حالانکہ انہوں نے غیر ضروری امور کو بھی بیان فرما دیا ہے۔ ایسے شخص کے لیے عصمت شرط ہے اور بشری عقلیں عصمت کی شناخت کا راستہ نہیں جانتیں، لہٰذا خدا کی جانب سے اس پر نص (صریح حکم) کا آنا واجب ہے۔"[15]
خواجہ نصیر طوسی بھی امام کے وجود کے وجوب کے باب میں قاعدۂ لطف کے حوالے سے فرماتے ہیں: «اِنحِصَارُ اللُّطفِ فِیهِ مَعلُومٌ لِلعُقَلاَءِ، وُجُودِهِ لُطفٌ وَ تَصَرُّفُهُ لُطفٌ آخَرٌ»۔ (پیغمبر کے بعد) امام کے تقرر اور تعین میں لطف کا انحصار اہلِ عقل پر روشن ہے، کیونکہ انسانی معاشرے میں امام کا وجود ایک لطف ہے اور دینی و دنیوی امور میں اس کا تصرف ایک اور لطف ہے۔[16] علامہ حلی اس باب میں فرماتے ہیں: «هِیَ وَاجِبَةٌ عَقلاً لِأَنَّ الإِمَامَةَ لُطفٌ، لِأَنَّا نَعلَمُ إِذَا کَانَ لِلنَّاسِ رَئِیسٌ مُطَاعٌ مُرشِدٌ، کَانُوا إِلَی الصَّلاَحِ أَقرَبُ وَ مِنَ الفَسَادِ أَبعَدُ»۔ خدا کی جانب سے امام کا تقرر عقل کے حکم سے واجب ہے، کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ اگر لوگوں کے لیے ایک مطاع (جس کی اطاعت لازمی ہو) اور ایک معصوم رہنما موجود ہو تو وہ نیکی کے زیادہ قریب اور فساد سے زیادہ دور ہوں گے۔ ابن میثم بھی فرماتے ہیں: «إِنَّ نَصبَ الإِمَامِ لُطفٌ مِن فِعلِ اللهِ، وَ کُلُّ لُطفٍ وَاجِبٌ فِی حِکمَةِ اللهِ أَن یَفعَلَهُ، فَنَصبُ الإِمَامِ وَاجِبٌ مِنَ اللهِ فِی کُلِّ زَمَانٍ»۔ بلاشبہ امام کا تقرر خدا کے افعال میں سے ایک لطف ہے، اور خدا کی حکمت کے مطابق ہر لطف کا کیا جانا واجب ہے۔ لہٰذا، خدا کی جانب سے ہر زمانے میں (جب تک تکلیف باقی ہے) امام کا تقرر واجب ہے۔[17] یہاں یہ قابلِ ذکر ہے کہ قاعدۂ لطف کا عقلی حکم قرآن مجید کی بنیاد پر ہے، جس نے سلیم انسانی عقول کو اس حکم کی طرف ہدایت دی اور کئی آیات میں اس کی طرف اشارہ فرمایا ہے: «...کَتَبَ رَبُّکُمْ عَلَی نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ...»[18] یعنی: "...آپ کے پروردگار نے اپنے اوپر رحمت کو لازم کر لیا ہے..."۔ اس آیت میں دو نکات قابلِ توجہ ہیں: پہلا یہ کہ کسی بھی قوت نے خدا پر لطف واجب نہیں کیا، کیونکہ خدا کا کوئی مافوق نہیں ہے، بلکہ اس نے خود پر لطف کو واجب کیا ہے۔ دوسرا یہ کہ چونکہ خداوند حکیم اور مطلق قادر ہے، اس کے لیے بخل کا ذاتِ باری میں داخل ہونا محال ہے اور یہ کہ وہ کوئی رحمت روک لے۔ اس نکتے کو مدنظر رکھتے ہوئے، خدا نے بارہا پیغمبر (ص) اور قرآن کے وجود کو رحمت اور لطف کے طور پر متعارف کرایا ہے، اور بطور نمونہ یوں فرمایا ہے: «وَمَا أَرْسَلْنَاکَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِینَ»[19] یعنی: "اور ہم نے آپ کو تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر ہی بھیجا ہے"؛ اور «وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ مَا هُوَ شِفَاءٌ وَرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِینَ...» [20]یعنی: "اور ہم قرآن میں سے وہ چیزیں نازل کرتے ہیں جو اہل ایمان کے لیے شفا اور رحمت ہیں..."۔ یہ بدیہی ہے کہ امام کا وجود بھی پیغمبر اور قرآن کے وجود کے تسلسل میں ہے اور امام کے تقرر سے خدائی بے کراں لطف کا تسلسل برقرار رہتا ہے۔
امام کی تعیین کا مقصدِ غائی
بارہ امامیہ شیعہ، عقلی قاعدے کے تحت امام کے وجود اور اس کی تعیین کے وجوب کو ثابت کرنے کے بعد، امام کی تعین اور تقرر کے مقصدِ غائی اور ہدف پر بحث کرتے ہیں۔ یہ بدیہی ہے کہ مقصد اور غایت کا بیان امام کے وجود کے مسئلے کے بعد آتا ہے۔ امامیہ کے نقطۂ نظر سے اس سلسلے میں دو نکات بہت اہم ہیں:
- امام کے بغیر انسانی معاشرہ سعادت اور کمال کی منزل تک نہیں پہنچ سکتا۔
- امام شریعت کا نگہبان ہے، اور امام کے بغیر شریعت باقی نہیں رہے گی۔
ابن میثم امام کی تقرری کے مقصد کے بیان میں فرماتے ہیں: "امام کی تقرری کا ہدف اور غایت دو چیزوں میں خلاصہ ہوتی ہے:
- امام، خدا کے حکم سے، انسانی معاشرے کو اس کے ممکن کمال کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔
- دوسرا یہ کہ وہ خدائی حق شریعت کا محافظ ہے، اور امام کے وجود کے بغیر الٰہی شریعت باقی نہیں رہے گی، کیونکہ نااہل دعویٰ کرنے والے اپنے ناروا اعمال سے دین کو تحریف کر دیں گے۔ امام مختلف حالات میں خدا کے دین کو خطرات سے محفوظ رکھتا ہے، کیونکہ وہ دین کا ستون ہے اور دین اس کے سہارے قائم ہے۔"[21]
لاہِیجی اس سلسلے میں فرماتے ہیں: "امام کی تقرری دو وجوہات کے لیے واجب ہے:
- قیامت تک باقی رہنے والی شریعت کو ایک معصوم نگہبان کی ضرورت ہے، بالکل اسی طرح جیسے ابتدا میں اسے ایک معصوم مبلغ کی ضرورت تھی۔ شریعت کی بقا کے لیے نگہبان کی حاجت، وجودِ ممکن کی بقا کے لیے علت کی حاجت سے مشابہ ہے۔
- مکلفین کو ایک ایسے مطاع رئیس کی حاجت ہے جو خطا اور ظلم سے محفوظ ہو، جس کے وجود سے وہ تکلیف کے افعال کو انجام دینے کے قریب ہوں۔"[22]
فاضل مقداد اس بارے میں کہتے ہیں: "جو شخص سیاست کے قواعد جانتا ہے، اسے کوئی شک نہیں ہو سکتا کہ جب ایک ہدایت دینے والا رہنما موجود ہو جو ظالموں کے سامنے کھڑا ہو، انہیں ظلم سے روکے، اور لوگوں کو دینداری پر مجبور کرے، تو وہ معاشرہ صلاح اور قرب الٰہی کے زیادہ قریب اور فساد و تباہی سے زیادہ دور ہو گا۔ لہٰذا، معصوم امام کی تقرری میں الٰہی لطف کا مقصد اس کے سوا کچھ نہیں ہو سکتا۔"[23]
امام کی صفات
یہ حصہ درحقیقت امامت کا سب سے نمایاں موضوع ہے۔ تمام اعلیٰ امامت صفات میں عصمت (خطا سے پاک ہونا) سب سے اول مقام پر ہے، کیونکہ عصمت کے وجود کے ساتھ دیگر تمام کمالات بھی بالتبع موجود ہوتے ہیں۔ شیعہ عقیدے کے مطابق، امام کا معصوم ہونا ضروری ہے، یعنی وہ سوچ، گفتار اور کردار میں کوئی غلطی نہ کرے۔ اس لحاظ سے امام پیغمبر سے کامل مشابہت رکھتا ہے، کیونکہ پیغمبر کا بھی معصوم ہونا ضروری ہے۔ یہ بدیہی ہے کہ اس کا یہ مطلب نہیں کہ امام اور پیغمبر برابر ہیں، کیونکہ پیغمبر شریعت لانے والے اور اسے قبول کرنے والے ہیں، جبکہ امام پیغمبر کی شریعت کے محافظ اور شارح ہیں۔
اہل سنت کے کچھ علماء، جیسے معتزلی قاضی عبدالجبّار، نے شیعہ پر یہ اعتراض کیا کہ شیعہ کے عقیدے کے مطابق، چونکہ نبی اور امام دونوں معصوم ہیں، اس لیے وہ دونوں مساوی ہیں۔ سید مرتضیٰ نے پہلے ان کے اعتراضات کو تفصیل سے بیان کیا اور پھر نہایت حکیمانہ جواب دیا اور فرمایا: «اِنَّ مَن جَعَلَ بَعضَ صِفَاتِ النَّبِیِّ أَو أَکثَرَهَا لِلإِمَامِ وَ جَعَلَ بَینَهُمَا مَزِیَّةً مَعقُولَةً، خَالَفَ خُصُومَهُ فِی صِفَاتِ الإِمَامِ» جس شخص نے پیغمبر کی کچھ یا اکثر صفات امام کے لیے ثابت کر دی ہوں اور ان دونوں کے درمیان کوئی معقول فرق بھی رکھا ہو (اور یہ کہا ہو کہ شریعت کا اخذ کرنا صرف پیغمبر کے لیے خاص ہے)، تو وہ امام کی صفات کے بارے میں اپنے فکری مخالفین سے اختلاف کرتا ہے، نہ یہ کہ اس نے امام کو پیغمبر کے برابر ٹھہرا دیا ہو۔"[24] اہل سنت کے تمام علماء امام کی عصمت کے منکر ہیں؛ ان کے نقطۂ نظر سے خلفاء میں سے کوئی بھی معصوم نہیں تھا۔ شیعہ علماء کے دیدۂ تحقیق کے مطابق یہاں پیش کیے جا رہے ہیں: شیخ طوسی فرماتے ہیں: امامت قاعدۂ عقلی لطف سے ثابت ہوئی۔ جب امام ایک لطف ہے، تو وہ اسی صورت میں لطف ہوگا جب وہ معصوم ہو، کیونکہ بغیر عصمت کے وہ سوچ، گفتار اور کردار میں خطا سے محفوظ نہیں رہے گا۔ اگر ایسا ہو کہ امام دانستہ یا محض بھول چوک سے بھی خطا کر بیٹھے، تو اس کی اطاعت کے وجوب کے ساتھ یہ متناقض ہوگا۔ مزید برآں، ایسا وجوب لوگوں کو جہالت کی طرف دھکیلنا ہوگا (اغراء بالجہل)۔ اس صورت میں امام کا وجود نہ صرف لطف نہیں ہوگا، بلکہ بدترین شر ہوگا، کیونکہ اس کی وجہ سے لوگ خدا سے دور ہو جائیں گے اور لامتناہی آخرت کے عذاب میں مبتلا ہو جائیں گے۔ خلاصہ یہ کہ امام کی عصمت انبیاء کی عصمت کی مانند ہے، کیونکہ دونوں شریعت کے حافظ اور شارح ہیں۔ شیخ کے کلام کا خلاصہ یہ ہے: «فَالعِصمَةُ شَرطٌ اَسَاسِی لِجَمِیعِ الأَنبِیَاءِ وَ الأَئِمَّةِ، سَوَاءٌ فِی الذُّنُوبِ الکَبِیرَةِ أَوِ الصَّغِیرَةِ وَ سَوَاءٌ قَبلَ النُّبُوَّةِوَ الإِمَامَةِ وَ بَعدَهُمُا عَلَی سَبِیلِ العَمدِ وَ النِّسیَانِ»۔[25] عصمت تمام انبیاء اور ائمہ کے لیے ایک بنیادی شرط ہے، خواہ وہ کبیرہ گناہوں میں ہو یا صغیرہ میں، اور خواہ نبوت و امامت سے پہلے ہو یا بعد میں، چاہے وہ عمداً ہو یا نسیاناً (بھول کر)۔" شیخ طوسی کا یہ قول امام کی عصمت کے بارے میں سب سے مکمل قول ہے جو شیعہ اثنا عشری کے عقیدے کو بیان کرتا ہے۔ اگر کوئی پوچھے کہ امامت کے بعد عصمت تو معقول ہے، لیکن امامت سے پہلے عصمت کی کیا ضرورت ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ بعض معنوی مقامات کے لیے ایک درخشاں پس منظر (سابقۂ درخشان) ضروری ہوتا ہے تاکہ لوگوں میں اس کی قبولیت ہو سکے۔
خدا نے قرآن میں اس نکتے کی طرف اشارہ فرمایا ہے: «... لاَ یَنَالُ عَهْدِی الظَّالِمِینَ»[26] یعنی: "میرا عہد ظالموں کو نہیں ملے گا۔" لفظ "ظالمین" عام اور مطلق ہے، یعنی کوئی بھی ظالم بغیر کسی قید و شرط کے امامت کے منصب کا اہل نہیں ہے۔ اس آیت کے مطابق، اگر کسی نے اپنی زندگی کے کسی بھی مرحلے میں کوئی ظلم کیا ہو، تو وہ اس عظیم الٰہی منصب کا اہل نہیں ہے۔ اگر کسی نے نوجوانی میں کوئی گناہ کیا ہو اور پھر توبہ بھی کر لی ہو، تو بھی وہ اس آیت کے زمرے میں آتا ہے، کیونکہ گناہ، خود پر ظلم ہے یا دوسروں پر ظلم ہے، اور خدا نے قرآن میں گناہگار کو کئی بار ظالم سے تعبیر کیا ہے۔ مثال کے طور پر، سورۂ کہف کی آیت 35 میں اس شخص کے بارے میں جو دین سے پھر گیا اور آخرت کا منکر ہو گیا، فرمایا: «وَدَخَلَ جَنَّتَهُ وَهُوَ ظَالِمٌ لِّنَفْسِهِ قَالَ مَا أَظُنُّ أَن تَبِیدَ هَذِهِ أَبَدًا» یعنی: "اور وہ اپنی جنت میں داخل ہوا حالانکہ وہ اپنی جان پر ظلم کرنے والا تھا، کہنے لگا میں نہیں سمجھتا کہ یہ کبھی ختم ہو گی نیز..."۔
بدیہی ہے کہ یہ آیت خود امام کی عصمت پر ایک واضح دلیل ہے جس کا اشارہ قرآنی بحث میں دیا جائے گا۔ خواجہ نصیر طوسی نے مختصر الفاظ میں پانچ دلائل سے امام کی عصمت کو ثابت کیا اور فرمایا: «وَ امتِنَاعُ التَّسَلسُلِ یُوجَبُ عِصمَتَهُ؛ وَ لِأَنَّهُ حَافِظٌ لِلشَّرعِ؛ وَ لِوُجُوبِ الإِنکَارِ عَلَیهِ لَو أَقدَمَ عَلَی المَعصِیَةِ، فَیُضَادُّ أَمرُ الطَّاعَةِ؛ وَ یَفُوتُ الغَرَضُ مِن نَصبِهِ؛ وَ لِإِنحِطَاطِ دَرَجَتِهِ عَن أَقَلِّ العَوَامِّ»۔ ترجمہ: "اگر امام معصوم نہ ہو تو تسلسل لازم آئے گا، اور چونکہ امام شریعت کا حافظ ہے، لہٰذا اسے معصوم ہونا چاہیے۔ نیز اگر امام معصوم نہ ہو تو اس کا انکار واجب ہو جائے گا جو مفروضہ اطاعت کے منافی ہے، اور اس کے تقرر کا مقصد فوت ہو جائے گا، اور یہ لازم آئے گا کہ اس کا درجہ عام لوگوں سے بھی پست ہو جائے، کیونکہ وہ جان بوجھ کر گناہ کرتا ہے۔"[27]
علامہ حلی نے ان پانچوں براہین کی مفصل شرح کی ہے جو اختصار کی رعایت کے لیے بیان کرنے سے معذور ہوں۔ خلاصہ یہ کہ امام کی تقرری کے مقصد کے پیش نظر، اگر اسے خطا کرنی ہو تو دوسرے امام کی طرف رجوع کرنا پڑے گا اور اسی طرح تسلسل لازم آئے گا، اور چونکہ تسلسل باطل ہے، لہٰذا امام کا معصوم ہونا ضروری ہے۔ نیز امام جو شریعت کا حافظ ہے، اسے خطا نہیں کرنی چاہیے، ورنہ وہ شریعت کا مبیّن اور حافظ نہ رہے گا۔ خدا نے فرمایا ہے کہ شریعت کے حافظ کو بغیر خطا کے شریعت بیان کرنی چاہیے: «... وَأَنزَلْنَا إِلَیْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَیْهِمْ...»[28] یعنی: "...اور ہم نے یہ ذکر (قرآن) آپ پر اس لیے نازل کیا ہے تاکہ آپ لوگوں کے لیے وہ چیزیں واضح کر دیں جو ان کی طرف نازل کی گئی ہیں..."۔ نیز امام کی تقرری کا مقصد جاہلوں اور خطاکاروں کی رہنمائی ہے، اور اگر وہ خود خطاکار ہو تو یہ واجب الاطاعت ہونے کے منافی ہے، اور مقصد بھی حاصل نہیں ہوگا۔ مزید یہ کہ اگر امام خطا کرے تو چونکہ وہ دوسروں سے زیادہ جاننے والا ہے اور عالم کا گناہ جاہل کے گناہ سے بدتر ہوتا ہے، لہٰذا یہ لازم آئے گا کہ وہ عام لوگوں سے بھی بدتر ہو۔ فیاض لاہِیجی نے بھی مستحکم دلائل سے امام کی عصمت کو ثابت کیا ہے جن میں سے کچھ اقتباسات درج ذیل ہیں: جمہور اہل سنت کا خیال ہے کہ امامت دین کے فروع میں سے ہے، اس لحاظ سے کہ دین کا بقاء امام کے وجود پر موقوف نہیں، بلکہ مسلمانوں کے امور کا نظام اس پر منحصر ہے۔ لیکن جمہور امامیہ امامت کو دین کے اصول میں سے سمجھتے ہیں، اس لحاظ سے کہ شریعت کا بقاء امام کے وجود پر موقوف ہے، بالکل اسی طرح جیسے شریعت کا آغاز نبی کے وجود پر موقوف تھا۔ اختلاف کا ایک اور مقام امام کی عصمت ہے۔ امامیہ امام کی عصمت کو واجب سمجھتے ہیں، کیونکہ امام ان کے نزدیک دین کے بنیادی اجزاء میں سے ہے اور امام کی عدم عصمت سے دین تبدیلی اور تحریف سے محفوظ نہیں رہ سکتا۔ غیر امامیہ کے نزدیک عصمت شرط نہیں۔ امام الحرمین، جو ان کے عظیم علماء میں سے ہیں، کہتے ہیں کہ جب امام کا ظلم اور جور ظاہر ہو جائے اور وہ قولی روک ٹوک سے باز نہ آئے تو اہل حل و عقد کے لیے جائز ہے کہ وہ فعلی روک تھام پر متفق ہو جائیں، اگرچہ اس کے لیے اسلحہ اٹھانا اور جنگ کرنا پڑے۔[29]
اس حصے کے اختتام پر، یہ قابل ذکر ہے کہ بارہ امامیہ شیعہ نے امام کی عصمت کو ثابت کرکے، امام کے لیے تمام ممکن کمالات کو بھی ثابت کر دیا ہے۔ ابن میثم اس بارے میں فرماتے ہیں: «اِنَّا لَمَّا قُلنَا یَجِبُ أَنیَکُونَ الإِمَامُ مَعصُوماً، وَجَبَ أَن یَکُونَ مُستَجمِعاً لِجَمِیعِ الکَمَالاَتِ النَّفسَانِیَّةِ مِثل العِلمِ وَ الشَّجَاعَةِ وَ العَدَالَةِ»۔ جب ہم نے کہا کہ امام کا معصوم ہونا واجب ہے، تو یہ بھی واجب ہو گیا کہ وہ نفسانی تمام کمالات جیسے علم، شجاعت اور عدل کو جمع کرنے والا ہو۔[30]
پیغمبر کے بعد امام کون ہے؟ (خاص امامت کا مسئلہ)
پچھلے تین حصوں میں وجوبِ امامت، نصبِ امام کے مقصد، اور امام کے لیے عصمت کا اثبات کیا گیا۔ اب یہ بحث اس بات پر مرکوز ہے کہ نبی اکرم (ص) کے بعد یہ عظیم منصب کس کا ہے؟ چونکہ اہل سنت امام کی عصمت کو شرط نہیں مانتے اور اسے صرف امت کا مدیر سمجھتے ہیں، لہٰذا وہ اس کے انتخاب کے لیے لوگوں کی رائے (انتخاب و شوریٰ) کو کافی سمجھتے ہیں۔ تمام شیعہ فرقے، بالخصوص شیعہ اثنا عشریاس بات پر متفق ہیں کہ معصوم امام کا انتخاب عوام نہیں کر سکتے ، کیونکہ معصوم کو صرف خدا اور رسول ہی پہچان سکتے ہیں۔ لہٰذا، امام کو خدا اور رسول کی طرف سے مقرر (منصوص) ہونا چاہیے۔ شیعہ اثنا عشری نصِ جلیّ (واضح فرمان) کے قائل ہیں، جبکہ زیدیّہ جیسے کچھ شیعہ فرقے «نصِ خفیّ»(اشارے والے فرمان) کے قائل ہیں۔ عقل کے حکم سے، نبی اکرم (ص) کے بعد علی بن ابی طالب علیہ السلام کے سوا کوئی بھی معصوم نہیں ۔ لہٰذا، علی (ع) ہی رسول خدا کے بعد امام ہیں۔ شیخ طوسی اس سلسلے میں فرماتے ہیں کہ ہم حضرت علی (ع) کے منصوص ہونے کو دو راستوں سے ثابت کرسکتے ہیں:
- عقلی براہین کے ذریعے
- نقلی دلائل (آیات و روایات) کے ذریعے
عقلی دلیل (قاعدۂ لطف):
ہم نے قاعدۂ لطف سے ثابت کیا کہ لطفِ الٰہی کا تحقق اسی وقت ہوتا ہے جب امام معصوم ہو۔ نبی (ص) کے بعد امامت کے منصب کے تین دعویدار تھے: حضرت عباس (عمِّ پیغمبر)، ابوبکر، اور علی (ع)۔ برہانِ تفصیل اور تردید کے ذریعے یہ ثابت ہوتا ہے کہ صرف علی (ع) ہی اس مقام کے اہل تھے کیونکہ: حضرت عباس: انہیں احکامِ اسلامی کا مکمل علم نہیں تھا۔ حضرت ابوبکر: انہوں نے خود اپنی عدم عصمت کا اعتراف کیا تھا۔ مشہور اہل سنت علماء (جیسے امام دینوری، طبری اور احمد حنبل) کے نقل کے مطابق ابوبکر نے کہا تھا: «إِنَّ رَسُولَ اللهِ کَانَ مَعصُوماً بِالوَحیِ وَ کَانَ مَعَهُ مَلَکٌ وَ إِنَّ لِی شَیطَاناً قَد یَعتَرِینِی، أَلاَ فَرَاعُونِی فَإِنِ استَقَمتُ فَأَعِینُونِی وَ إِن زِغتُ فَقُومُونِی» "بیشک رسول اللہ (ص) وحی کے ذریعے معصوم تھے اور ایک فرشتہ ہمیشہ ان کے ساتھ تھا، لیکن میرا ایک شیطان ہے جو کبھی کبھی مجھ پر غالب آ جاتا ہے۔ پس مجھ پر نظر رکھیں! اگر میں سیدھا چلوں تو میری مدد کریں اور اگر میں ٹیڑھا جاؤں تو مجھے سیدھا کر دیں۔" اس اعتراف سے معلوم ہوا کہ پیغمبر کے صحابہ میں سے کوئی بھی معصوم نہیں تھا سوائے حضرت علی (ع) کے۔ حضرت علی (ع) نے بارہا اپنی عصمت اور علمِ غیب کا ذکر کیا اور کبھی یہ نہیں فرمایا کہ میں گناہ گار ہوں یا مجھ سے گناہ کا صدور ممکن ہے۔ نتیجه یه نکلا که صرف حضرت علی (ع) ہی نبی اکرم (ص) کے بعد امامت کے منصب کے شایانِ شان ہیں۔ نقلی دلائل سے بھی حضرت علی (ع) کی تعیین کے بارے میں بہت سی آیات اور روایات موجود ہیں، جن کا جائزہ بعد میں لیا جائے گا۔[31] پچھلے چار حصوں میں امامت کا اثبات عقلی براہین سے کیا گیا۔ اب اسی اہم نکتے کو نقلی دلائل سے بھی آگے بڑھایا جائے گا۔
امامت آیات اور روایات کی روشنی میں
قرآن مجید میں امامت کے مسئلے پر کئی بار روشنی ڈالی گئی ہے، جن میں اختصار کے پیش نظر صرف چند اہم مثالیں ذیل میں دی جا رہی ہیں: پہلا قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ خداوند متعال نے قرآن مجید میں امام اور اس کے پیروکاروں کے درمیان سنخیت (مطابقت) قائم کی ہے اور فرمایا ہے: «یَوْمَ نَدْعُو کُلَّ أُنَاسٍ بِإِمَامِهِمْ...»[32] (اس دن کو یاد کریں جب ہم ہر گروہ کو ان کے امام کے ساتھ پکاریں گے...)۔ خداوند متعال ایک دوسرے بیان میں فرماتا ہے: «وَجَعَلْنَاهُمْ أَئِمَّةً یَدْعُونَ إِلَی النَّارِ...»[33]: اور ہم نے ان (فرعونیوں) کو ایسے پیشوا بنا دیا جو جہنم کی طرف بلاتے ہیں...»۔ ہدایت دینے والے ائمہ کے باب میں وہ فرماتا ہے: «وَجَعَلْنَا مِنْهُمْ أَئِمَّةً یَهْدُونَ بِأَمْرِنَا لَمَّا صَبَرُوا...»[34]: اور ہم نے ان میں سے ایسے امام (پیشوا) بنائے جو ہمارے حکم سے (لوگوں کی) ہدایت کرتے تھے، جب انہوں نے صبر کیا...»۔ ایک اور بیان میں وہ ہدایت کی امامت کو عہدِ الٰہی کے طور پر متعارف کراتے ہوئے فرماتا ہے: «... لاَ یَنَالُ عَهْدِی الظَّالِمِینَ»[35]: میرا عہد ظالموں کو حاصل نہیں ہوتا۔ مختصراً، جیسا کہ مذکورہ آیات سے واضح ہے، قرآن میں امامت کی دو قسمیں ہیں: ایک شیاطین اور طاغوت کی امامت جو اپنے پیروکاروں کو جہنم کی طرف دھکیلتے ہیں، اور دوسری امامت الٰہی جو اپنے پیروکاروں کو کمال، سعادت اور دائمی جنت کی طرف ہدایت کرتی ہے۔ خداوند متعال نے ان دو قسم کی قیادت کو سورہ بقرہ کی آیت نمبر ۲۵۷ میں بیان فرمایا ہے: «اللّهُ وَلِیُّ الَّذِینَ آمَنُواْ یُخْرِجُهُم مِّنَ الظُّلُمَاتِ إِلَی النُّوُرِ وَالَّذِینَ کَفَرُواْ أَوْلِیَآؤُهُمُ الطَّاغُوتُ یُخْرِجُونَهُم مِّنَ النُّورِ إِلَی الظُّلُمَاتِ أُوْلَئِکَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِیهَا خَالِدُونَ»: اللہ ایمان لانے والوں کا ولی اور سرپرست ہے، وہ انہیں ظلمتوں سے نکال کر نور کی طرف لے جاتا ہے۔ لیکن جن لوگوں نے کفر کیا ان کے اولیاء طاغوت ہیں جو انہیں نور سے ظلمتوں کی طرف نکالتے ہیں۔ وہ اہلِ آتش ہیں اور ہمیشہ اسی میں رہیں گے۔» خداوند متعال نے قرآن مجید میں ایک آگاہ اور حق کی طرف ہدایت کرنے والے رہنما کی پیروی کو عقل پر چھوڑ دیا ہے اور فرمایا ہے: «...أَفَمَن یَهْدِی إِلَی الْحَقِّ أَحَقُّ أَن یُتَّبَعَ أَمَّن لاَّ یَهِدِّیَ إِلاَّ أَن یُهْدَی فَمَا لَکُمْ کَیْفَ تَحْکُمُونَ»: کیا وہ شخص جو حق کی طرف ہدایت کرتا ہے، پیروی کے زیادہ لائق ہے یا وہ جو خود ہدایت نہیں پا سکتا مگر یہ کہ اسے ہدایت کیا جائے؟ تمہیں کیا ہو گیا ہے؟ کیسا فیصلہ کرتے ہو؟!» (یونس/35)۔
علامہ طباطبائی آیات «وَجَعَلْنَا مِنْهُمْ أَئِمَّةً یَهْدُونَ بِأَمْرِنَا لَمَّا صَبَرُوا...»[36] اور «وَجَعَلْنَاهُمْ أَئِمَّةً یَهْدُونَ بِأَمْرِنَا وَأَوْحَیْنَا إِلَیْهِمْ فِعْلَ الْخَیْرَاتِ...»[37] کے ذیل میں فرماتے ہیں: "مقصد یہ ہے کہ خداوند نے اپنی خاص صفات کی بناء پر بنی اسرائیل کے کچھ انبیاء کو امامت کے مقام پر بھی فائز کیا۔ بظاہر ان دو آیات میں «یَهْدُونَ بِأَمْرِنَا» امامت کے معنی کو ظاہر کرتا ہے؛ یعنی امام وہ ہو جو امرِ الٰہی سے ہدایت کرے۔ لہٰذا، ان آیات میں "امر کے ذریعے ہدایت" امامت کی خصوصیات میں سے ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ امام طریقۂ کار بتانے کے علاوہ، ایک قسم کی تکوینی تصرف کے حامل ہیں جو خداوند نے صرف ائمۂ الٰہی کو عطا فرمایا ہے۔ البتہ، کچھ ایسے انبیاء جو امامت کے مقام پر بھی فائز تھے، وہ بھی اس نعمت سے بہرہ مند تھے۔"[38] خداوند متعال اس نکتہ پر بھی اشارہ فرماتا ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے: «یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُواْ أَطِیعُواْ اللّهَ وَأَطِیعُواْ الرَّسُولَ وَأُوْلِی الأَمْرِ مِنکُمْ...»[39]: اے ایمان لانے والو! اللہ کا حکم مانو، اور رسول (خدا) کا حکم مانو، اور اپنے میں سے صاحبانِ امر کا حکم مانو...» [39]۔ اس آیت میں قابلِ توجہ نکتہ یہ ہے کہ رسول خدا اور اولیالامر کی اطاعت کو خدا کی اطاعت سے مختلف انداز میں بیان کیا گیا ہے، کیونکہ اطاعت کا فعل («أَطِیعُوا») رسول کے بعد دہرایا نہیں گیا! اس بیان سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ "اولیالامر" کو شریعت کی ہدایت اور بیان میں رسول کی طرح معصوم ہونا چاہیے، تاکہ "اولیالامر" کی اطاعت وہی اطاعت ہو جو "رسول خدا" کی اطاعت ہے۔ تاہم، خدا کی اطاعت ایک مختلف انداز میں ہے، کیونکہ خداوند شریعت کا وضع کرنے والا ہے، جبکہ پیغمبر اور امام شریعت کے مبین اور شارح ہیں۔ اسی بنا پر، خدا کی اطاعت اور غیر خدا (یعنی رسول اور اولیالامر) کی اطاعت میں اس لحاظ سے فرق رکھا گیا ہے، ورنہ خدا اور رسول خدا کی بات اور ان کی اطاعت ایک دوسرے سے جدا نہیں۔ لہٰذا خداوند ایک اور آیت میں فرماتا ہے: «مَّنْ یُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللّهَ...»[40]: جس نے رسول کی اطاعت کی، اس نے تحقیق اللہ کی اطاعت کی۔
امامت عامہ سے متعلق احادیث
امامت عامہ کے باب میں احادیث اتنی زیادہ ہیں کہ ان سب کو اس مختصر مضمون میں شامل کرنا ممکن نہیں۔ ذیل میں صرف چند مثالیں بطور نمونہ پیش کی جا رہی ہیں: امام صادق (علیہ السلام) ایک مفصل حدیث میں، پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ) کے وجود کو ثابت کرنے کے بعد فرماتے ہیں: "جس طرح پیغمبر دین کے نگہبان اور قائم رکھنے والے ہیں اور دین ان کے ذریعے قائم ہے، اسی طرح امام بھی ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ پیغمبر وحی کے ذریعے خداوند کی طرف سے شریعت حاصل کرتے ہیں، جبکہ امام پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ) کے بعد شریعت کے شارح اور مبین ہیں۔ اور ان کا وجود قیامت تک برقرار رہتا ہے۔" اس شریف حدیث کا ایک حصہ یہ ہے: «لِکَیْلَا تَخْلُوَ أَرْضُ اللَّهِ مِنْ حُجَّةٍ یَکُونُ مَعَهُ عِلْمٌ یَدُلُّ عَلَی صِدْقِ مَقَالَتِه»[41] (تاکہ زمین کبھی بھی اللہ کی طرف سے کسی ایسی حجت کے بغیر خالی نہ رہے جس کے پاس اپنی گفتگو کی سچائی پر دلالت کرنے والا علم موجود ہو)۔
امام رضا (علیہ السلام) نے بھی ایک مفصل حدیث میں یہی مضمون بیان فرمایا ہے، جس میں سے ایک حصہ یہ ہے: «أمْرُ الْإِمَامَةِ مِنْ تَمَامِ الدِّین.. ُ فَمَنْ زَعَمَ أَنَّ اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ لَمْ یُکْمِلْ دِینَهُ فَقَدْ رَدَّ کِتَابَ اللَّهِ وَ مَنْ رَدَّ کِتَابَ اللَّهِ فَهُوَ کَافِرٌ بِه» (امامت کا معاملہ دین کی تکمیل میں سے ہے... پس جو شخص یہ دعویٰ کرے کہ اللہ عزوجل نے اپنے دین کو کامل نہیں کیا، تو اس نے کتاب اللہ کو ردّ کر دیا ہے، اور جس نے کتاب اللہ کو ردّ کیا، وہ کافر ہے۔)۔[42]
اسی باب میں امام صادق (علیہ السلام) ایک اور حدیث میں فرماتے ہیں: «لَوْ بَقِیَتِ الْأَرْضُ بِغَیْرِ إِمَامٍ لَسَاخَت» (اگر زمین ایک لمحے کے لیے بھی امام کے بغیر باقی رہے تو وہ (اپنے اوپر موجود چیزوں سمیت) دھنس جائے گی/ہلاک ہو جائے گی)۔[43]
اصول کافی میں خاص امامت
یہ بات قابل ذکر ہے کہ اصول کافی کی کتاب الحجۃ میں عقائد کے اصول کا ایک مکمل دور شامل ہے، خاص طور پر عمومی اور خاص امامت کے مباحث پر، جن پر اسلامی اسکالرز کی توجہ اتنی نہیں رہی جتنی ہونی چاہیے تھی۔ اس مختصر جستجو میں، ہم جگہ کی کمی کے پیش نظر، ائمۂ اطہار کی عصمت اور علم کے باب میں چند احادیث بطور نمونہ پیش کر رہے ہیں:
اصول کافی میں ائمہ کی عصمت
اس شریف کتاب میں ائمہ (علیہم السلام) کی عصمت کے باب میں بہت سی احادیث وارد ہوئی ہیں جو امام کی عصمت کو لوگوں پر خداوند کا لطف قرار دیتی ہیں۔ اس قسم کی احادیث عقل کو عقلی قاعدۂ لطف کی طرف رہنمائی کرتی ہیں، جس پر امامیہ کلام دان منصوص امام کے اثبات میں دلیل پیش کرتے ہیں۔ امام باقر (علیہ السلام) فرماتے ہیں: «نَحْنُ الْمَثَانِی الَّذِی أعْطَاهُ اللهُ نَبِیَّنَا مُحَمَّداً (صلّیالله علیه وآله) وَ نَحْنُ وَجْهُ اللهِ نَتَقَلَّبُ فِی الأرْضِ بَیْنَ أَظْهُرِکُمْ وَ نَحْنُ عَیْنُ اللهِ فِی خَلْقِهِ وَ یَدُهُ الْمَبْسُوطَةُ بِالرَّحْمَةِ عَلَی عِبَادِهِ، عَرَفَنَا مَنْ عَرَفَنَا وَ جَهِلَنَا مَنْ جَهِلَنَا»: "ہم وہ 'ثانی' (جو دو بار ذکر کیے گئے) ہیں جو اللہ نے ہمارے نبی حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ) کو عطا فرمائے۔ ہم اللہ کا چہرہ ہیں جو زمین پر آپ کے درمیان چل پھر رہے ہیں۔ ہم مخلوق میں اللہ کی آنکھ ہیں اور رحمت کے ساتھ مخلوق پر پھیلا ہوا اس کا دستِ کرم ہیں۔ جس نے ہمیں پہچانا، اس نے حقیقت کو پہچان لیا اور جس نے ہمیں نہیں پہچانا، وہ محروم رہا۔[44]"
امام صادق (علیہ السلام) اس باب میں فرماتے ہیں: «إِنَّ اللَّهَ خَلَقَنَا فَأَحْسَنَ خَلْقَنَا وَ صَوَّرَنَا فَأَحْسَنَ صُوَرَنَا وَ جَعَلَنَا عَیْنَهُ فِی عِبَادِهِ وَ لِسَانَهُ النَّاطِقَ فِی خَلْقِهِ وَ یَدَهُ الْمَبْسُوطَةَ عَلَی عِبَادِهِ بِالرَّأْفَةِ وَ الرَّحْمَةِ وَ وَجْهَهُ الَّذِی یُؤْتَی مِنْهُ وَ بَابَهُ الَّذِی یَدُلُّ عَلَیْهِ وَ خُزَّانَهُ فِی سَمَائِهِ وَ أَرْضِهِ، بِنَا أَثْمَرَتِ الْأَشْجَارُ وَ أَیْنَعَتِ الثِّمَارُ وَ جَرَتِ الْأَنْهَارُ... وَ بِعِبَادَتِنَا عُبِدَ اللَّهُ وَ لَوْ لَا نَحْنُ مَا عُبِدَ اللَّه»: "بیشک اللہ نے ہمیں پیدا کیا اور ہماری تخلیق کو خوبصورت بنایا اور ہماری صورت کو بہتر بنایا۔ اور ہمیں اپنی مخلوق میں اپنی آنکھ، اپنی مخلوق میں اپنی بولنے والی زبان، اور مخلوق پر شفقت اور رحمت کے لیے پھیلا ہوا اپنا ہاتھ بنایا۔ ہمیں اپنا وہ چہرہ بنایا جس کے ذریعے اس تک پہنچا جاتا ہے، اور وہ دروازہ بنایا جو اس کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ اور ہمیں اپنے آسمان اور زمین میں اپنا خزانہ دار بنایا۔ ہمارے وسیلے سے درختوں پر پھل آتے ہیں اور پھل پکتے ہیں اور نہریں بہتی ہیں... اور ہماری عبادت کے ذریعے اللہ کی عبادت کی جاتی ہے، اور اگر ہم نہ ہوتے تو اللہ کی عبادت نہ کی جاتی۔"[45] مزید آپ (علیہ السلام) نے یہ بھی فرمایا: «لَعَمْرِی مَا فِی السَّمَاءِ وَ لَا فِی الْأَرْضِ وَلِیٌّ لِلَّهِ عَزَّ ذِکْرُهُ إِلَّا وَ هُوَ مُؤَیَّدٌ وَ مَنْ أُیِّدَ لَمْ یُخْطِ»: "میری جان کی قسم! نہ آسمان میں اور نہ زمین میں کوئی ایسا ولیّ اللہ نہیں جس کا ذکر اللہ نے بلند کیا ہو، مگر یہ کہ وہ (خدا کی طرف سے) مؤیّد (تائید شدہ) ہوتا ہے، اور جو مؤیّد ہوتا ہے، وہ کبھی خطا نہیں کرتا۔"[46]
اصول کافی میں علمِ ائمہ کے اثبات کے لیے پیش کردہ اہم روایات
ہشام بن حکم سے مروی ہے: ہم ایک عیسائی شخص، جس کا نام بُرید تھا، کے ساتھ امام کاظم (علیہ السلام) کی خدمت میں حاضر ہوئے، اور اس نے انجیل کے بارے میں امام سے سوالات کیے۔ امام نے انجیل کے اہم حصوں کو پڑھا اور ان کی تشریح کی۔ وہ عیسائی شخص اپنی بیوی کے ساتھ مسلمان ہو گیا۔ ہم امام صادق (علیہ السلام) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور یہ پورا واقعہ ان کی خدمت میں بیان کیا۔ امام بہت خوش ہوئے اور فرمایا: **"یقیناً اللہ اپنی زمین پر کوئی حجت (دلیل) اس طرح نہیں رکھتا کہ جب اس سے کسی چیز کے بارے میں پوچھا جائے تو وہ کہے کہ میں نہیں جانتا۔"[47]
پھر امام صادق (علیہ السلام) نے فرمایا: "ہم ہی اللہ کے امر کے ولی ہیں، اللہ کے علم کے خزانچی ہیں، اور اللہ کی وحی کے صندوق ہیں۔"[48]
برید بن معاویہ کہتا ہے: ہم دو اماموں میں سے ایک (امام باقر یا امام صادق)، علیہم السلام، سے سورۃ آل عمران کی آیت: "...حالانکہ ان کی تفسیر سوائے اللہ اور علم میں راسخ (پختہ کار) لوگوں کے کوئی نہیں جانتا..." [۷] کی تفسیر کے بارے میں پوچھا۔ تو آپ نے فرمایا: "رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ) علم میں راسخ ترین ہستی ہیں، کیونکہ اللہ عز و جل نے انہیں نازل کی گئی تمام آیات کا تنزیل (ظاہری معنی) اور تاویل (باطنی مفہوم) سکھا دیا تھا۔ اور ایسا نہیں ہو سکتا تھا کہ اللہ ان پر کوئی چیز نازل کرے اور اس کی تاویل انہیں نہ سکھائے۔ اور آپ کے بعد آپ کے اوصیاء (امام) یہ سب کچھ جانتے ہیں۔"[49]
امام صادق (علیہ السلام) آیت:"...عمل کرو، تو اللہ تمہارے عمل کو دیکھے گا، اور اس کا رسول اور مؤمنین بھی..." [50] کی تفسیر میں فرماتے ہیں: **"اس آیت میں 'مؤمنین' سے مراد ہم ائمہ ہیں، جو اللہ اور رسول خدا کے بعد بندوں کے تمام اعمال کا علم اور آگاہی رکھتے ہیں۔"[51]
اسی طرح، ایک روز امام صادق (علیہ السلام) نے ابو بصیر سے فرمایا: **"اے ابو محمد! رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے علی (علیہ السلام) کو علم کے ایک ہزار باب سکھائے، جن میں سے ہر باب سے ہزار دروازے کھلتے ہیں۔"** پھر آپ نے زمین پر ایک لمحہ کے لیے نقشہ بنایا اور فرمایا: **"یہ (علم کی وسعت) کمال نہیں ہے، یہ صرف علم ہے، اور یہ بھی وہ سب کچھ نہیں جو ہے۔"** پھر فرمایا: **"اور ہمارے پاس 'جامعہ' ہے، اور وہ کیا جانیں کہ جامعہ کیا ہے؟ اُس میں ہر حلال و حرام ہے، اور ہر وہ چیز جس کی لوگوں کو ضرورت ہے، حتیٰ کہ خراش پر دیت (جرمانہ) بھی۔"** پھر کچھ دیر خاموش رہے اور فرمایا: **"اور ہمارے پاس 'جفر' ہے، اور وہ کیا جانیں کہ جفر کیا ہے؟ جفر ایک ایسا ظرف ہے جس میں تمام نبیوں اور وصیوں کا علم اور ان بنی اسرائیل کے ان تمام علماء کا علم موجود ہے جو گزر چکے ہیں۔"** پھر فرمایا: **"اور یہ بھی کمال علم نہیں ہے۔"** پھر ایک لمحہ کے لیے خاموش ہوئے اور فرمایا: **"اور ہمارے پاس فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کا 'مصحف' ہے، اور وہ کیا جانیں کہ مصحف فاطمہ کیا ہے؟..."** پھر فرمایا: **"یقیناً ہمارے پاس وہ علم ہے جو ہو چکا ہے اور وہ علم جو قیامت تک ہونے والا ہے، اور جو کچھ رات اور دن میں حادثات پیش آئیں گے، ایک کے بعد ایک چیز کا وقوع قیامت تک، ہم ان تمام امور سے پوری طرح واقف ہیں۔"[52]
امام صادق (علیہ السلام) ایک دوسری حدیث میں فرماتے ہیں: **"زندقہ (ملحدین) 128 ہجری میں ظاہر ہوں گے۔"** راوی نے پوچھا: آپ کو اس امر کا علم کیسے ہوا؟ آپ نے فرمایا: **"یہ بات میں نے مصحفِ فاطمہ (سلام اللہ علیہا) میں دیکھی ہے۔"** راوی نے پوچھا: مصحفِ فاطمہ کیا ہے؟ امام نے فرمایا: **"اللہ نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے انتقال کے بعد تسلی دینے کے لیے ایک فرشتے کو حضرت فاطمہ (سلام اللہ علیہا) کی خدمت میں بھیجا۔ اس فرشتے نے اللہ کے حکم سے عالم کے تمام اسرار حضرت فاطمہ (سلام اللہ علیہا) پر الہام کیے، اور فاطمہ (سلام اللہ علیہا) نے یہ سب حضرت علی (علیہ السلام) کو املا کروایا، اور حضرت علی (علیہ السلام) نے اسے تحریر فرمایا۔ ان تمام تحریرات کا مجموعہ ہی مصحفِ فاطمہ (سلام اللہ علیہا) ہے۔"** پھر فرمایا: **"سن لو! اس میں حلال و حرام کا کوئی حصہ نہیں ہے، بلکہ اس میں قیامت تک ہونے والے تمام امور کا علم موجود ہے۔"[53]
مذکورہ تمام احادیث محکمات (واضح اور قطعی) میں سے ہیں، اور اگر کہیں اس کے علاوہ کوئی حدیث نظر آئے تو اسے ان احادیث کی طرف رجوع کرنا چاہیے، کیونکہ ممکن ہے امام نے سننے والوں کی ذہنی صلاحیت کے مطابق کچھ مختلف بیان فرمایا ہو۔
امام سجاد (علیہ السلام) فرماتے ہیں: **"بخدا! ہم ہی شجرۂ نبوت ہیں، معدنِ علم ہیں، اور فرشتوں کے نزول و عروج کی جگہ ہیں۔"[54]
امام باقر، امام صادق اور امام ہادی، علیہم السلام کے فرمودات کے مطابق، اسم اعظم کے تہتر حروف میں سے بہتر حروف نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور بارہ ائمہ کے پاس ہیں۔ امام باقر (علیہ السلام) نے فرمایا: **"اسم اعظم میں سے بہتر (72) حروف ہمارے پاس ہیں، اور ایک حرف ایسا ہے جو اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔ اس نے وہ ایک حرف اپنے غیبی علم کے لیے مخصوص رکھا ہے۔"[55]
اسم اعظم کیا ہے، اس کا علم کسی کو نہیں ہے۔ بلاشبہ، علم اور قدرت اسمِ اعظم کے حامل کے ساتھ جمع ہوتی ہے، جس کے لیے بشر کے لیے اس سے بڑھ کر کوئی کمال تصور نہیں کیا جا سکتا۔ اسی لیے اسی حدیث کے تسلسل میں امام باقر (علیہ السلام) نے فرمایا: **"اسم اعظم کا صرف ایک حرف حضرت سلیمان کے وزیر کے پاس تھا، جس نے پلک جھپکنے سے بھی کم وقت میں بلقیس کے تخت کو یمن سے فلسطین تک سلیمان کے پاس حاضر کر دیا۔"[56]
قرآن اور دیگر حدیث کی کتابوں میں امامت خاصہ
یہ بحث دو حصوں میں خاص امامت کے ثبوت پر روشنی ڈالتی ہے:
الف) حضرت علی (ع) اور اہل بیت (ع) کی مدح میں قرآنی آیات
قرآن مجید میں متعدد آیات حضرت علی (ع) اور اہل بیت (ع) کی شان میں نازل ہوئی ہیں۔ سید ہاشم بحرانی نے اپنی کتاب "غایة المرام" میں حضرت علی (ع) کی مدح میں ایک سو چھتیس (136) آیات ذکر کی ہیں،[57] جن میں سے زیادہ تر مستند اہل سنت کی کتب سے مروی احادیث کے ساتھ پیش کی گئی ہیں۔ ان آیات کے علاوہ سورہ دہر (ہَلْ أَتَى) اور سورہ کوثر بھی خاص اہمیت رکھتی ہیں۔ یہاں نمونے کے طور پر امامت حضرت علی (ع) کے باب میں صرف تین آیات کا حوالہ دیا جا رہا ہے:
آیت مباہلہ (آل عمران: 6)
خداوند کا فرمان ہے: «فَمَنْ حَآجَّکَ فِیهِ مِن بَعْدِ مَا جَاءکَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْاْ نَدْعُ أَبْنَاءنَا وَأَبْنَاءکُمْ وَنِسَاءنَا وَنِسَاءکُمْ وَأَنفُسَنَا وأَنفُسَکُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَل لَّعْنَةُ اللّهِ عَلَی الْکَاذِبِینَ»: "پھر جو کوئی آپ سے علم آنے کے بعد بھی (مسیح کے بارے میں) جھگڑے تو کہہ دیجیے کہ آؤ ہم اپنے بیٹوں کو بلائیں اور تم اپنے بیٹوں کو، ہم اپنی عورتوں کو بلائیں اور تم اپنی عورتوں کو، اور ہم اپنے نفسوں کو بلائیں اور تم اپنے نفسوں کو، پھر مباہلہ کریں اور جھوٹوں پر اللہ کی لعنت قرار دیں۔" مباہلہ: اس کا مطلب ہے ایک دوسرے پر نفرین کرنا تاکہ باطل شخص رسوا ہو جائے۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ) نے اس عظیم روحانی معرکہ کے لیے صرف حضرت فاطمہ (س)، حضرت علی (ع)، حضرت حسن (ع) اور حضرت حسین (ع) کو ساتھ لیا، جو اس بات کی دلیل ہے کہ ان ہستیوں کی روحانیت اور عظمت سب سے برتر تھی۔ نصارائے نجران نے یہ شان و شوکت دیکھ کر مباہلے سے دستبردار ہو کر اطاعت قبول کر لی۔ "أَنفُسَنَا" کا مصداق: شیعہ اور سنی مفسرین اس بات پر متفق ہیں کہ اس آیت میں "اپنے نفسوں" سے مراد حضرت علی (ع) ہیں، جنہیں نبی کا 'نفس' قرار دیا گیا۔ فخر رازی کے مطابق، اس میں حضرت علی (ع) کی صفات و کمالات میں نبی کے ساتھ وحدت (نبوت کے علاوہ) کا اشارہ ہے کہ حضرت علی (ع) نبوت کے سوا تمام صفاتِ کمال کے حامل ہیں۔[58]
امامت کا استدلال: اس آیت کے ظاہری مفہوم کے مطابق، حضرت علی (ع) میں نبی اکرم (ص) کی تمام صفات (سوائے نبوت کے) موجود ہیں، جن میں شریعت کا بیان کرنا اور امت کی امامت شامل ہے۔ شیخ طوسیؒ نے اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ حضرت علی (ع) نبی کے بعد مسلمانوں کے امام ہیں، کیونکہ آیت ان کے کمالات کو نبی کے برابر قرار دیتی ہے، جس کا مطلب ہے کہ وہ اس امت میں سب سے زیادہ علم اور عصمت کے حامل ہیں اور یہی امامت کا اہل ہے۔[59]
سورہ مائدہ کی آیات 3 اور 67 (آیت تبلیغ اور آیت اكمال دین
خدا نے آیت 67 میں پہلے نبی اکرم (ص) کو حکم دیا کہ وہ علی (ع) کو اپنا جانشین اور امام مقرر کریں۔ اس کے فوراً بعد اسی سورت کی آیت 3 میں علی (ع) کے جانشینی کے اعلان کے بعد دین کے مکمل ہونے کا اعلان فرمایا۔ یہ دونوں آیات بالترتیب آیت تبلیغ اور آیت اكمال دین کے نام سے مشہور ہیں۔ آیت تبلیغ (مائدہ: 67): «یَا أَیُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَیْکَ مِن رَّبِّکَ وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ...»:[60] "اے رسول! جو کچھ آپ کے رب کی طرف سے نازل ہوا ہے، اسے پوری طرح پہنچا دیجیے اور اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو گویا آپ نے اس کا کوئی پیغام نہیں پہنچایا..." آیت اكمال دین (مائدہ: 3): «...الْیَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِینَکُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِی وَرَضِیتُ لَکُمُ الإِسْلاَمَ دِینًا...»: [61]"...آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین کامل کر دیا اور اپنی نعمت تم پر پوری کر دی اور تمہارے لیے اسلام کو بطور دین پسند کیا..." روایات (شیعہ کے ہاں متفقہ اور سنیوں کے ہاں کثرت سے) اس بات پر متفق ہیں کہ یہ دونوں آیات 18 ذی الحجہ 10 ہجری (روز عید غدیر) کو ایک کے بعد ایک نازل ہوئیں۔ آیت تبلیغ آیت اكمال دین کی تمہید ہے اور نزول کے اعتبار سے بھی پہلے نازل ہوئی۔ یہ ایک مضبوط اور تفصیلی علمی بحث ہے جو خاص امامت کے ثبوت میں دو اہم قرآنی آیات، یعنی آیت تبلیغ (مائدہ: 67) اور آیت اکمال دین (مائدہ: 3) کی تشریح پر مرکوز ہے۔ ابوسعید خدری سے منقول ہے کہ آیت ولایت (جو آیت تبلیغ سے متعلق ہے) 18 ذی الحجہ 10 ہجری کو حضرت علی (ع) کی امامت کے نصب کے سلسلے میں نازل ہوئی۔[62] امام باقر (ع) فرماتے ہیں: "ولایت کا مسئلہ (حضرت علی کی امامت) وہ آخری فریضہ تھا جو اللہ نے نازل فرمایا۔"[63] امام رضا (ع) کے مطابق، اللہ نے حجۃ الوداع کے موقع پر آیت "آج میں نے تمہارا دین مکمل کر دیا..." نازل فرمائی، کیونکہ امامت دین کی تکمیل کا حصہ ہے۔ نبی اکرم (ص) نے رحلت سے قبل دین کے تمام احکامات بیان فرمائے اور علی (ع) کو بطور امام و رہنما نصب کیا۔[64] آیت تبلیغ میں خداوند نے شدید تاکید کے ساتھ حکم دیا کہ جو کچھ نازل ہوا ہے اسے پہنچا دیا جائے، اور یہ بھی فرمایا کہ اگر ایسا نہیں کیا تو گویا رسالت ادا نہیں کی، اور اللہ آپ کی حفاظت کرے گا، جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ اعلان امامت ایک انتہائی حساس اور خطرہ مول لینے والا عمل تھا، جس سے منافقین کو پریشانی ہو سکتی تھی۔ سوال: اگر تبلیغ کا مقصد قرآن یا دین کے عام احکامات کی تبلیغ ہوتا، تو یہ مضحکہ خیز ہے، کیونکہ سورہ مائدہ آخری سورتوں میں سے تھی، اور نماز و روزہ جیسے بنیادی احکامات تو سالوں پہلے سورہ بقرہ میں نازل ہو چکے تھے۔ لہٰذا، اس تبلیغ کا تعلق کسی نئی اور اہم چیز سے ہونا چاہیے تھا آیت اکمال میں فرمایا گیا: «الْیَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِینَکُمْ...» (آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین کامل کر دیا)۔ مفسرین اس بات پر زور دیتے ہیں کہ آیت تبلیغ کے فوراً بعد آیت اکمال کا نازل ہونا ثابت کرتا ہے کہ "اليَوْمَ" (آج) سے مراد وہی دن ہے جب حضرت علی (ع) کو امامت کے لیے نصب کیا گیا۔ تفسیر "الأمثل" کے مطابق: اگر "اليَوْمَ" سے مراد فتح مکہ، یا برأت کا اعلان، یا بعثت کا آغاز ہوتا، تو یہ سورہ مائدہ کے نزول کے وقت سے مطابقت نہیں رکھتا، کیونکہ یہ واقعات سورہ مائدہ کے نزول سے بہت پہلے (کئی سال پہلے) ہو چکے تھے۔ اس لیے، "اليَوْمَ" سے مراد قطعی طور پر حضرت علی (ع) کے امامت پر تقرر کا دن ہے۔[65]
کچھ اہل سنت مفسرین، جیسے سیوطی، نے بھی ابوسعید خدری اور دیگر صحابہ کے حوالے سے یہ بات قبول کی ہے کہ یہ دونوں آیات حضرت علی (ع) کی امامت کے اعلان کے سلسلے میں نازل ہوئیں۔[66]
علامہ طباطبائی نے تفصیلی بحث کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ ان دو آیات کی کوئی دوسری تفسیر یا توجیہ ممکن نہیں سوائے حضرت علی (ع) کے نصب بلامنازع امامت کے۔[67] نتیجہ: یہ بحث جامع طور پر واضح کرتی ہے کہ آیت تبلیغ اور آیت اکمال کا تاریخی اور کلامی تناظر صرف اور صرف غدیر خم کے دن حضرت علی (ع) کی امامت کے اعلان پر دلالت کرتا ہے، جسے دین کی تکمیل کے لیے ضروری قرار دیا گیا۔
امامت خاصه کے اثبات کے لیے خصوصی احادیث
اس حصے میں خاص امامت (اہل بیت، علیہم السلام کی امامت) کو ثابت کرنے کے لیے صرف تین احادیث کا حوالہ دیا جا رہا ہے جو حضرت علی (ع) کے منصوص بلافصل امام ہونے پر دلالت کرتی ہیں۔
حدیث غدیر
سند کی قطعیت: اس حدیث کی سند کو کسی بھی غیر متعصب اسلامی عالم نے کبھی انکار نہیں کیا ہے۔ اس کی اسناد کی تفصیلات عبقات الأنوار، غایة المرام اور خاص طور پر الغدیر جیسی کتب میں موجود ہیں۔ بحرانی نے یہ حدیث 89 مختلف طریقوں سے نقل کی ہے۔ علامہ امینی کا بیان: علامہ امینی الغدیر میں فرماتے ہیں کہ: "پیامبر اکرم (ص) نے 18 ذی الحجہ 10 ہجری کو سرزمین غدیر پر اپنے ایک لاکھ بیس ہزار سے زائد صحابہ کے سامنے، جن میں مدینہ اور دیگر اسلامی علاقوں کے پیروکار شامل تھے، حضرت علی (ع) کو امتِ اسلامیہ کے ولی امر کے طور پر متعارف کروایا۔ لہٰذا، اس حدیث کی سند کے بارے میں مزید وضاحت کی ضرورت نہیں کیونکہ یہ حدیث متواتر ہے۔"[68] نبی اکرم (ص) نے فرمایا: «أیّها الناس مَن أَولَی النَّاس بِالمُؤمِنِینَ مِن أَنفُسِهِم؟» (اے لوگو! مومنوں پر ان کی جانوں سے زیادہ کون ولایت رکھتا ہے؟) صحابہ نے جواب دیا: "اللہ اور اس کا رسول سب سے بہتر جانتا ہے۔" پھر آپ نے فرمایا: «إِنَّ اللهَ مَولاَیَ، وَ أَنَا مَولَی المُؤمِنِینَ، وَ أَنَا أَولَی بِهِم مِن أَنفُسِهِم، فَمَن کُنتُ مَولاَهُ فَهَذَا عَلِیٌّ مَولاَهُ» (بیشک اللہ میرا مولا ہے، اور میں مومنوں کا مولا ہوں، اور میں ان کی جانوں پر خود ان سے زیادہ حق رکھتا ہوں۔ پس جس کا میں مولا ہوں، یہ علی اس کے مولا ہیں)۔ یہ جملہ تین یا چار بار دہرایا گیا۔[69] "مولیٰ" کا معنی: عربی زبان میں "مولیٰ" کے کئی معنی ہیں، جن میں سے تین زیادہ مشہور ہیں: غلام، دوست، اور صاحبِ امر و امام۔ انتقال ولایت: حدیث کے ابتدائی حصے میں، نبی اکرم (ص) اپنی مطلق ولایت کا ذکر کرتے ہیں جس کی بنیاد سورہ احزاب کی آیت 6 (النَّبِیُّ أَوْلَی بِالْمُؤْمِنِینَ مِنْ أَنفُسِهِمْ) پر ہے، اور لوگوں کو اس ولایت کی یاد دلاتے ہیں۔ اس کے بعد وہ کہتے ہیں کہ "میری وہی ولایت اور مولویّت بعینہ علی (ع) کو منتقل ہو جاتی ہے"۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ اس حدیث میں لفظ "مولیٰ" کا معنی صرف "امامت اور ولایت" ہے، نہ کہ غلام یا محض دوستی۔ حدیث میں دو جگہ "فَاء تفریع" (نتیجہ اخذ کرنے والا حرف 'فَـ') استعمال ہوا ہے: "فَـمَن کُنتُ مَولاَهُ، فَـهَذَا عَلِیٌّ مَولاَهُ"۔ پہلا 'فَـ' نبی کی مطلق ولایت کو آیت احزاب کے مطابق ثابت کرتا ہے، اور دوسرا 'فَـ' اس بات کی دلیل ہے کہ نبی کی وہی ولایت حضرت علی (ع) کو منتقل ہو گئی ہے۔ حاضر و غائب کو ابلاغ: حدیث کے آخر میں نبی (ص) نے فرمایا: «فَلیَبلُغِ الشَّاهِدُ الغَائِبَ» (حاضرین اس اہم بات (دین کی تکمیل) کو غائب تک پہنچا دیں)، جس سے اس اعلان کی لازمی حیثیت مزید واضح ہو جاتی ہے۔ خلاصہ یہ کہ حدیث کے آغاز اور انجام پر غور کرنے سے اس کی دلالت میں کوئی ابہام نہیں رہتا کہ یہ حضرت علی (ع) کی مطلق امامت کا اعلان تھا۔
حدیث ثقلین
یہ حدیث معنوی اعتبار سے متواتر ہے۔ سیّد ہاشم بحرانی نے اسے 39 اہلِ سنت طریقوں سے نقل کیا ہے۔[70] اہلِ تشیع علماء نے اسے اپنی کلامی اور تفسیری کتب کے علاوہ اس عنوان سے مستقل کتب (جیسے سیّد علی میلانی کی کتاب) میں بھی درج کیا ہے۔ ذیل میں یہ حدیث غایة المرام سے احمد بن حنبل کے حوالے سے نقل کی گئی ہے، جس کے بعد اس کی دلالت پر بحث کی گئی ہے۔ "رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ) نے فرمایا: 'إِنِّی قَدْ تَرَکْتُ فِیکُمُ الثَّقَلَیْنِ، أَحَدُهُمَا أَکْبَرُ مِنَ الْآخَرِ: کِتَابُ اللهِ وَ عِتْرَتِی أَهْلُ بَیْتِی، ما إِنْ تَمَسَّکْتُمْ بِهِمَا لَنْ تَضِلُّوا بَعْدِی، أَلاَ إِنَّهُمَا لَنْ یَفْتَرِقَا حَتَّی یَرِدَا عَلَیَّ الْحَوْض'" ترجمہ: "بیشک میں تمہارے درمیان دو گراں بہا چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں، جن میں سے ایک دوسری سے بڑی ہے: اللہ کی کتاب اور میری عترت (اہل بیت)۔ جب تک تم ان دونوں سے متمسک رہو گے، میرے بعد کبھی گمراہ نہیں ہو گے، اور آگاہ رہو کہ یہ دونوں (ثقلین) حوض کوثر پر میرے پاس آنے تک کبھی ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے۔"[71] اس حدیث کی دلالت پر تین اہم نکات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے: 1. برابری (عدل): رسول اکرم (ص) نے کتابِ خدا اور اہلِ بیت کو ایک دوسرے کا ہم پلہ (عِدل) قرار دیا۔ یہ امر اس وقت مزید واضح ہو جاتا ہے جب نبی اکرم (ص) نے حدیث بیان کرتے ہوئے اپنی دونوں شہادت کی انگلیوں کو ایک دوسرے کے ساتھ ملا کر فرمایا: "کَہَاتَین" (ان دو کی طرح)، یعنی قرآن اور حدیث بالکل ایک دوسرے کے برابر ہیں۔
- عدم جدائی: یہ دونوں (ثقلین) قیامت تک ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے۔
- تمسک کی وجوب: ان دونوں سے تمسک (پیروی) کرنا واجب ہے۔
اہلِ بیت سے تمسک کا وجوب اس حدیث کے منطوقی دلالت (صریح معنی) اور مفہومِ شرط (شرط کا مفہوم) دونوں سے ثابت ہوتا ہے۔ منطوقی دلالت: جملہ «مَا إِنْ تَمَسَّکْتُمْ بِهِمَا» کا مطلب ہے (تَمَسَّکُوا بِهِمَا) یعنی "تم دونوں سے متمسک ہو جاؤ۔" اہلِ تشیع اور اہلِ سنت دونوں کا اتفاق ہے کہ قرآن کی پیروی واجب ہے۔ لہٰذا، قرآن کے ہم پلہ یعنی اہلِ بیت کی پیروی بھی واجب ہے۔ قرآن و حدیث میں یہ اسلوب (خبر دینے کے انداز میں حکم دینا) بہت عام ہے، جیسے "کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیامُ"[72] (تم پر روزے لکھ دیے گئے)، جس کا مطلب ہے "روزہ رکھو۔" ایسا اس لیے کیا جاتا ہے کیونکہ حکم کو خبر کے لباس میں بیان کرنے سے تأکید زیادہ ہو جاتی ہے۔ نتیجہ: اس حدیث کے مطابق، اہلِ بیت (امامانِ معصوم) قرآنِ ناطق ہیں جو قرآنِ صامت (خاموش) کی وضاحت کرنے والے ہیں۔ مفہوم مخالف: اس کا منفی مفہوم یہ ہے کہ اگر امتِ اسلامی قرآن اور اہلِ بیت سے تمسک نہیں کرے گی، تو وہ گمراہ ہو جائے گی۔ دوسرے الفاظ میں، قرآن اور اہلِ بیت کی اطاعت نہ کرنا حرام ہے۔ امامت کا معنی اس واجب الاطاعت مقام کے سوا اور کچھ نہیں ہو سکتا۔
حدیث منزلت
سیّد ہاشم بحرانی کے مطابق، یہ حدیث اہلِ سنت کے ایک سو (100) طریقوں سے نقل کی گئی ہے، اور تمام شیعہ فرقوں نے اسے اپنی کلامی اور تفسیری کتب میں درج کیا ہے۔[73] لہٰذا، یہ حدیث سند کے لحاظ سے متواتر کے درجے پر فائز ہے۔ اس سلسلے میں مزید بحث کی ضرورت نہیں۔ یہاں ابوسعید خدری کی روایت سے احمد بن حنبل کے حوالے سے یہ حدیث پیش کی جا رہی ہے، جس کے بعد اس کی دلالت پر اختصار سے بحث کی جائے گی۔ "رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ) نے حضرت علی (علیہ السلام) سے فرمایا: «یَا عَلِیّ أَنْتَ مِنِّی بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِنْ مُوسَی إِلاَّ أَنَّهُ لاَ نَبِیَّ بَعْدِی»" ترجمہ: "اے علی! تمہاری مجھ سے وہی نسبت ہے جو ہارون کی موسیٰ سے تھی، سوائے اس کے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔"[74] یہ حدیث درحقیقت آیت مباہلہ کی مفسر ہے، جس میں اللہ نے اپنے نبی کی زبان سے علی (ع) کو نبی اکرم (ص) کا نفس (نفسِ محمدی) قرار دیا ہے (سورہ آل عمران: 61: «أَنْفُسَنَا وَ أَنْفُسَکُمْ» - یعنی اپنی جانوں کو لاؤ)۔ امامت کا اثبات: جیسا کہ آیت مباہلہ کی بحث میں ذکر ہوا، علی (ع) نبی اکرم (ص) کی تمام صفات (بجز منصبِ نبوت کے) کے حامل ہیں، جن میں نبی اکرم (ص) کی امامت اور مطلق ولایت بھی شامل ہے۔ اس طرح، علی (ع) بھی نبی کے بعد امتِ اسلامی کے امام ہیں۔ "منزلت" کا اطلاق: لفظ "منزلت" کو معرفہ (Definite) اسم "ہارون" کی طرف منسوب کرنے سے یہ فائدہ ہوتا ہے کہ ہارون اور موسیٰ کے درمیان جتنی بھی مشترکات تھیں، وہ سب حضرت علی (ع) اور نبی اکرم (ص) کے درمیان بھی ثابت ہو جاتی ہیں (سوائے نبوت کے، جس کا ذکر حدیث میں خود مستثنیٰ کر دیا گیا ہے)۔ ہارون و موسیٰ کے مشترکات: ہمیں دیکھنا ہے کہ نبوت کے علاوہ ہارون اور موسیٰ میں کیا مشترک تھا، جنہیں اللہ نے قرآن میں بیان کیا ہے۔ اللہ نے موسیٰ کی دعا کے ذریعے ان صفات کو بیان کیا: «وَاجْعَل لِّی وَزِیرًا مِّنْ أَهْلِی هَارُونَ أَخِی اشْدُدْ بِهِ أَزْرِی وَأَشْرِکْهُ فِی أَمْرِی»[75] (اور میرے لیے میرے اہل سے ایک وزیر مقرر کر دے... میرے بھائی ہارون کو! اس کے ذریعے میری کمر کو مضبوط کر اور اسے میرے کام میں شریک بنا)۔ نتیجہ: اس آیت کی روشنی میں، وزارت، شریعت کی وضاحت، اور امت کی ہدایت جیسی تمام صفات حضرت علی (ع) کے لیے ثابت ہوتی ہیں۔ یعنی، اس حدیث کے مطابق، علی (ع) نبی کے بعد حکومت کے نگہبان اور شریعت کے مبین ہیں، جو کہ امامت کا عین معنی ہے۔ "وزیر" کا مفہوم: "وزیر" کے دو معنی ہیں: یا تو "پناہ گاہ" (جیسا کہ قرآن میں فرمایا: «کَلَّا لَا وَزَرَ»[76] - ہرگز نہیں، کوئی پناہ گاہ نہیں)، یا "احکامِ دین اور حکومت چلانے کا بھاری بوجھ اٹھانے والا" (جو "وِزر" سے ماخوذ ہے، جس کے بارے میں قرآن میں ہے: «وَلاَ تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَی»[77] - کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا)۔ حضرت علی (ع) نبی کے بعد ان دونوں معنیٰ میں وزیر تھے؛ یعنی آپ نے امت کی قیادت کا بھاری بوجھ سنبھالا اور شریعت کے احکام کی وضاحت بھی کی، جس بنا پر آپ تمام اسلامی امت کے لیے مرجع اور پناہ گاہ تھے۔
نتیجه
مضمون کے مجموعی خلاصے کے طور پر دو اہم نتائج اخذ ہوتے ہیں:
- امامت کا فرق: اثناعشری شیعہ نقطۂ نظر اور اہلِ سنت کے نقطۂ نظر میں امامت کا بنیادی فرق ہے۔ اہلِ سنت عموماً امام کی عصمت پر یقین نہیں رکھتے اور نہ ہی وہ امامت کو خدا اور رسول کی طرف سے منصوص (نامزد) مانتے ہیں۔ اس کے برعکس، اثنا عشری شیعہ امامت کو عقلی قاعدۂ لطف سے ثابت کرتے ہیں اور اسی بنا پر عصمت اور نصِ الٰہی پر پختہ عقیدہ رکھتے ہیں۔ تاہم، اثنا عشری شیعہ، کیسانیہ، زیدیہ اور اسماعیلیہ جیسے دیگر شیعہ فرقوں سے بھی امامت کے کچھ اصولوں پر اختلاف رکھتے ہیں۔ مثلاً زیدیہ خفی (پوشیدہ) نص پر یقین رکھتے ہیں اور عصمت کو امام کے لیے لازمی شرط نہیں سمجھتے، جبکہ اثنا عشری صریح نص اور عصمت پر مضبوط عقیدہ رکھتے ہیں۔
- اثباتِ امام معصوم: اثنا عشری شیعہ، امام معصوم اور منصوص کو دو مرحلوں میں ثابت کرتے ہیں: پہلے عقلی دلائل سے، اور پھر نقلی دلائل سے، جن میں یونُس: 35، آل عمران: 61، اور مائدہ: 67 اور 3 جیسی آیات شامل ہیں۔ مزید براں، وہ معتبر شیعہ اور سنی کتب میں وارد شدہ متواتر اور مستفیض احادیث سے استدلال کرتے ہیں، جن میں حدیث غدیر، ثقلین، اور منزلت اور اصول کافی کی کتاب الحجۃ کی بہت سی احادیث شامل ہیں (جن میں سے کچھ کا ذکر اس مضمون میں کیا گیا ہے)۔
متعلقہ تلاشیں
حوالہ جات
- ↑ سوره توبه آیه 12
- ↑ طوسی، 1351: 50
- ↑ فیّاض لاهیجی، بیتا: 333
- ↑ الصّافّات/83
- ↑ شیخ مفید، 1371: 36
- ↑ مذکوره حواله
- ↑ بحرانی، 1355: 174
- ↑ طوسی، 1351، ج1: 60
- ↑ حلّی و طوسی، 1360: 77
- ↑ فیّاض لاهیجی، بیتا: 329
- ↑ سیمای عقاید شیعه، آیتالله جعفر سبحانی، مترجم: جواد محدثی، نشر مشعر، چاپ: دارالحدیث، بهار 1386، ص 187
- ↑ بحرانی، 1355: 174
- ↑ طوسی، 1351، ج1: 59
- ↑ فیّاض لاهیجی، بیتا: 329
- ↑ مذکوره حواله
- ↑ حلّی، 1364: 362
- ↑ بحرانی، 1355: 175
- ↑ سوره انعام آیه 54
- ↑ سوره انبیا آیه 107
- ↑ سوره اسرا آیه 82
- ↑ بحرانی، 1355: 177
- ↑ فیّاض لاهیجی، بیتا: 339
- ↑ حلّی، 1365: 68
- ↑ سیّد مرتضی، 1383، ج1: 36
- ↑ طوسی، 1351، ج1: 62
- ↑ سوره بقره آیه 124
- ↑ طوسی، 1364: 364
- ↑ سوره نحل آیه 44
- ↑ فیّاض لاهیجی، بیتا: 333
- ↑ بحرانی، 1355: 179
- ↑ طوسی، 1351، ج2: 10ـ5
- ↑ سوره اسرا آیه 71
- ↑ سوره قصص آزه 41
- ↑ سوره سجده آیه 24
- ↑ سوره بقره آیه 124
- ↑ سوره سجده آیه 24
- ↑ سوره آنبیا آیه 73
- ↑ طباطبائی، 1374، ج14: 304 و ج16: 266
- ↑ سوره نسا آیه 59
- ↑ سوره نسا آیه 80
- ↑ کُلینی، 1386، ج1: 95
- ↑ مذکوره حواله 114
- ↑ مذکوره حواله 102
- ↑ مذکوره حواله 83
- ↑ مذکوره حواله
- ↑ مذکوره حواله 139
- ↑ مذکوره حواله 130
- ↑ مذکوره حواله 110
- ↑ مذکوره حواله 122
- ↑ سوره توبه آیه105
- ↑ مذکوره حواله 126
- ↑ مذکوره حواله 136
- ↑ مذکوره حواله 137
- ↑ مذکوره حواله 127
- ↑ مذکوره حواله 131
- ↑ مذکوره حواله
- ↑ بحرانی، 1388، ج1: 492ـ323 و ج2: 68ـ7
- ↑ رازی، 1358، ج8: 247
- ↑ طوسی، 1367، ج2: 485
- ↑ سوره مائده آیه 67
- ↑ سوره مائده آیه 3
- ↑ ذکاوتی، 1383، ج1: 107
- ↑ بحرانی، 1385، ج2: 223
- ↑ حواله مذکور 224
- ↑ مکارم شیرازی، 1378، ج3: 591
- ↑ سیوطی، 1362، ج2: 298
- ↑ طباطبائی، 1374، ج5: 168
- ↑ امینی، 1361، ج1: 9
- ↑ حواله مذکور11
- ↑ بحرانی، 1388: 298
- ↑ مذکوره حواله 299
- ↑ سوره بقره آیه 183
- ↑ بحرانی، 1388، ج1: 175
- ↑ مذکوره حواله
- ↑ سوره طه آیه 29-32
- ↑ سوره قیامت آیه 11
- ↑ سوره انعام آیه164
منابع
- قرآن مجید.
- امینی، عبدالحسین، الغدیر فی الکتاب و السنّة و الأدب. بیروت ـ لبنان: دار الکُتُب العربیّه. (1361)
- بحرانی، میثم بن علی، قواعد المرام فی علم الکلام. قم: انتشارات مهر. (1355)
- بحرانی، سیّد هاشم، البرهان فی تفسیر القرآن. قم: مؤسّسۀ دار المجتبی. (1385)
- غایة المرام فی تعیین الإمام. قم: مؤسّسۀ بعثت. (1388)
- حلّی، یوسف بن علی و خواجه محمّد بن حسن طوسی. کشف الفوائد فی شرح قواعد العقاید. تبریز: انتشارات مکتب اسلام. (1360)
- حلّی، حسن بن یوسف. کشف المراد فی شرح تجرید الإعتقاد. قم: نشر اسلامی. (1364)
- باب حادی عشر. شرح فاضل مقداد سیوری. تهران: انتشارات مصطفوی. (1365)
- راغب اصفهانی، ابوالقاسم، حسین بن محمّد (1385). المفردات فی غریب القرآن. بیروت ـ لبنان: دار احیاء التراث العربی.
- ذکاوتی، علیرضا، اسباب نزول. تهران: نشر نی. (1383)
- سیّد مرتضی، علیبن الحسین، الشّافی فی الإمامه. قم: انتشارات مؤسسة الصّادق (علیهالسّلام). (1383)
- سیوطی، جلالالدّین. الدرّ المنثور فی تفسیر المأثور. قم: انتشارات آیةالله مرعشی. (1362)
- طباطبائی، سیّد محمّدحسین. المیزان فی تفسیر القرآن. قم: جامعۀ مدرّسین. (1374)
- طوسی، محمّد بن حسن. تلخیص الشّافی. قم: انتشارات عزیزی. (1351)
- التّبیان فی تفسیر القرآن. محلّ نشر: مکتب الأعلام الإسلامی. (1367)
- فخر رازی، محمّد بن عمر. مفاتیح الغیب (تفسیر کبیر). بیروت ـ لبنان: دار احیاء تراث عربی. (1358)
- فیّاض لاهیجی، عبدالرّزاق. (بیتا). گوهر مراد. تهران: انتشارات اسلامیّه.
- کُلینی، محمّدبن یعقوب. اصول کافی. بیروت ـ لبنان: انتشارات الأمیره. (1386)
- مفید، محمّد بن نعمان. اوایل المقالات. قم: انتشارات کنگرة شیخ مفید. (1371)
- مکارم شیرازی، ناصر. الأمثل فی تفسیر کتاب الله. قم: انتشارات مدرسة امام علی بن أبیطالب. (1378)