مندرجات کا رخ کریں

"ہفتہ وحدت" کے نسخوں کے درمیان فرق

ویکی‌وحدت سے
«'''ہفتہ وحدت''' جو 12 ربیع الاول کو شروع ہو کر 17 ربیع الاول کو ختم ہو گا۔ ان دنوں کو انقلاب اسلامی ایران کے آغاز سے ہی ہفتہ وحدت کا نام دیا گیا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ ربیع الاول کی بارہویں تاریخ کو مشہور روایت کے مطابق ابن اسحاق نے فرمایا: خدا کے رسو...» مواد پر مشتمل نیا صفحہ بنایا
 
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
 
(3 صارفین 35 کے درمیانی نسخے نہیں دکھائے گئے)
سطر 1: سطر 1:
'''ہفتہ وحدت''' جو [[12 ربیع الاول]] کو شروع ہو کر 17 ربیع الاول کو ختم ہو گا۔ ان دنوں کو انقلاب اسلامی ایران کے آغاز سے ہی ہفتہ وحدت کا نام دیا گیا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ ربیع الاول کی بارہویں تاریخ کو مشہور روایت کے مطابق ابن اسحاق نے فرمایا: خدا کے رسول (ص) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت بارہویں تاریخ کو ہوئی، شہر ربیع کی بارہویں رات، سب سے پہلے عام الفیل [[سنی]] بھائیوں کے درمیان یوم ولادت ہے۔ اور [[17 ربیع الاول]] [[شیعہ|شیعوں]] میں مشہور روایت  کے مطابق یوم ولادت ہے۔ ان دو دنوں کے درمیان، انقلاب کے آغاز سے ہی، ایران کے عوام اور ملک کے حکام نے اس دن کو "یونٹی ہفتہ" کا نام دیا ہے اور اسے مسلمانوں کے درمیان اتحاد کا ضابطہ اور علامت قرار دیا ہے ۔ اس شمارے میں ہم رہبر انقلاب اسلامی [[ایران]]  [[سید علی خامنہ ای]] کے نقطہ نظر سے ہفتہ وحدت کا جائزہ لیتے ہیں
[[فائل:هفتۀ وحدت.jpg|تصغیر|بائیں]]
'''ہفتہ وحدت''' [[12 ربیع الاول]] کو شروع ہو کر [[17 ربیع الاول]] کو ختم ہوتا ہے۔ ان ایام  کو انقلاب اسلامی ایران کے آغاز سے ہی ہفتہ وحدت کا نام دیا گیا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ ربیع الاول کی بارہویں تاریخ کو  [[سنی]] بھائیوں کے یہاں [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|پیغمبر اکرم]] کی  یوم ولادت کی مشہور ہے۔ اور 17 ربیع الاول [[شیعہ|شیعوں]] میں مشہور روایت  کے مطابق آنحضرت کا یوم ولادت ہے۔ ان دو دنوں کو جوڑتے ہوئے ، انقلاب کے آغاز سے ہی، ایران کے عوام اور ملک کے حکام نے اس دن کو ''' ہفتہ وحدت '''  کا نام دیا ہے اور اسے مسلمانوں کے درمیان اتحاد کا ذریعہ اور علامت قرار دیا ہے ۔ اس مضمون میں ہم رہبر انقلاب اسلامی [[ایران]]  [[سید علی خامنہ ای]] کے نقطہ نظر سے ہفتہ وحدت کا جائزہ لیں گے <ref>یوم ولادت حضرت رسول اعظم 12/25/1387 پر عہدیداروں کے ایک گروپ کے اجلاس میں بیانات</ref>۔
== مضبوط قلعہ بنانے کی تیاری ==
اسلامی جمہوریہ نے دنیا کے مسلمانوں کو دعوت دی کہ آئیے 12 سے 17 ربیع الاول تک اتحاد کےلئےکوشش کریں۔ ایک روایت  کے مطابق،12 ربیع الاول کا دن [[پیغمبر اکرم |پیغمبر اکرم (ص)]] کی ولادت کا دن ہے جو  زیادہ تر [[اہل سنت]] کے یہاں مشہور  ہے اور بعض شیعہ بھی اسے قبول کرتے ہیں، ۔ ایک روایت  بھی 17 ربیع الاول سے متعلق ہے جس کی تصدیق زیادہ تر شیعہ اور بعض اہل سنت کرتے ہیں۔ تاہم بارہویں اور سترہویں کے درمیان جو کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یوم ولادت ہے، عالم اسلام کے اتحاد پر زیادہ توجہ دینی چاہیے۔ کیونکہ یہ وہ  مضبوط قلعہ اور باندھ  کہ اگر بن جائے تو کوئی طاقت اسلامی ممالک اور قوموں کی ثروت پر قبضہ نہیں کر سکتی <ref>ہفتہ وحدت کے پہلے دن، 11/7/1369 کو آزاد لوگوں اور مختلف طبقوں کے لوگوں کے ایک بڑے گروپ کے ساتھ ایک میٹنگ میں بیانات</ref>۔
 
== تاریخ ==
اسلامی نظام کے قیام سے پہلے، ہمارے دینی بھائی، اسلامی تحریک کے بزرگان ، اس زمانے میں انقلابی جدوجہد کرنے والی اہم شخصیات- جب اسلامی حکومت اور اسلامی جمہوریہ کے وجود میں آنے کی  کوئی خبر نہیں تھی ، شیعہ  سنی اتحاد کے لیے کوشاں تھے۔ میں  خود ان دنوں بلوچستان میں جلاوطن تھا۔
 
اس وقت سے لے کر اب تک، ہمارا بلوچستان کے مختلف شہروں ایران شہر، چابہار، سراوان اور زاہدان کے سنی حنفی علماء کے ساتھ دوسری، قربت اور رابطہ ہے اور اس کے لئے خدا کا شکر ہے۔ مجھے وہاں جلاوطن کر دیا گیا، حکام ہمیں کوئی کام  نہیں کرنے دینا چاہتے تھے۔ لیکن پھر بھی ہم  نے سب کو دعوت دی کہ  ملےکر میں شیعہ اور سنی اتحاد کے لیے کوشش کرنی چاہے کیوںکہ ہفتہ وحدت  اہل سنت یہاں نزدیک 12 ربیع الاول کو اوروںش یعہیہاںزدیک 17 ربیع الاول کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت کو ایک ساتھ منانے کی بات
اسی دن ہمارے ذہن میں آئی اور ہم اسے ایرانشہر میں نافذ کیا۔ یعنی ہم نے 12 سے 17 تاریخ تک جشن منایا <ref>سیستان، خراسان اور مازندران کے علماء، ائمہ جمعہ اور اہل سنت حوزہ کے ایک گروپ کے اجلاس میں بیانات، 5/10/1368۔</ref>
== قرآن و سنت کی بنیاد پر اتحاد ==
ہفتہ وحدت میں ہمارا پیغام اور اتحاد کے پیغام کے طور پر یہ ہے کہ مسلمان آئیں اور متحد ہو جائیں اور ایک دوسرے سے دشمنی نہ کریں۔ محور کتاب خدا اور سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلامی شریعت ہو۔ یہ کوئی برا لفظ نہیں ہے۔ یہ لفظ ایک ایسا لفظ ہے جسے ہر غیر جانبدار اور منصفانہ ذہن قبول کرے گا <ref>دبیانات در دیدار با جمع کثیرى از اقشار مختلف مردم شهرهاى شاهرود، خلخال، بیرجند، قیدار، خمسه، تیران و چالوس، روحانیون و معاونان دفاتر عقیدتى، سیاسى نیروى زمینى ارتش و جمعى از شیعیان استان سرحدّ پاکستان، 19/7/1368</ref>.
 
اگر ہم کہتے ہیں کہ [[شیعہ]] اور [[سنی]] کو ایک ساتھ ہونا چاہیے تو اس کا مطلب ہے کہ شیعہ شیعہ ہی رہے گا۔ عمر ایک ہی عمر رہتی ہے۔ ہم نے سنی علماء سے کب کہا کہ اتحاد سے ہمارا مطلب یہ ہے کہ تم شیعہ ہو جاؤ؟! ہم نے ایسی بات نہیں کہی۔ جو بھی شیعہ بننا چاہتا ہے اسے سائنس اور علمی بحثوں کے ذریعے شیعہ بننا چاہیے۔ وہ خود بھی جانے اور اپنا کام کرنے کے لیے آزاد ہیں۔ ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ آپ اپنا مذہب بدل لیں۔ ہم کہتے ہیں کہ شیعہ اور سنی کو ہمیشہ عقلی ہونا چاہیے۔ جیسا کہ اسلامی انقلاب کے دوران ہمارے ملک میں دیکھا گیا، خدا کا شکر ہے۔ دشمن کو ان اختلافات کا فائدہ نہ اٹھانے دیں۔ ہفتہ وحدت کا جشن اسی کے لیے ہے <ref>بیانات در دیدار با گروه کثیرى از آزادگان و اقشار مختلف مردم، در اولین روز از هفته وحدت، 11/7/1369</ref>۔
 
ہفتہ وحدت کے دوران اسلامی جمہوریہ کی دعوت [[شیعہ|شیعوں]] یا سنیوں کے لیے نہیں ہے کہ وہ اپنا مذہب ترک کرکے دوسرے مذہب کو اختیار کریں۔ اسلامی جمہوریہ کی دعوت اسلامی مذاہب کے درمیان مشترکات کو اجاگر کرنا اور دشمنان [[اسلام]] کی طرف سے بنائی گئی دیواروں اور دشمنیوں اور رنجشوں کو ہٹانا ہے۔ [[اہل بیت]] کی تعلیم کے میدان میں آئیں اور سنیں اور دیکھیں  <ref>بیانات در اجتماع بزرگ زائران و مجاوران حرم مطهر رضوى، 1/1/1387</ref>.
 
ہفتہ وحدت ایک مناسب نام ہے۔ الحمد للہ، ایرانی قوم کے افراد کے درمیان، ہر طبقے کے لوگوں کے درمیان، ہر طرح، رسم و رواج اور جس حد تک وہ ہیں اور جس کام میں وہ مصروف ہیں، اتحاد ہے۔ ہماری قوم کے افراد نفاق کی سازشوں اور بیجوں کے باوجود متحد ہیں اور ایک سمت میں بڑھ رہے ہیں: اسلام کی طرف۔ [[قرآن]] کی سمت میں؛ مذہب کی حکمرانی کی سمت میں؛ شیعہ اور سنی اور مختلف نسلوں کے درمیان فرق کئے بغیر (فارسی، عرب، ترک، ترکمان، بلوچ، کرد وغیرہ)؛ ایک متحد قوم۔ درحقیقت ایرانی قوم اسلام کی بدولت ایک مثال ہے۔
 
یہ مسلم ممالک میں ایک کامیاب نمونہ ہے۔ خدا آپ سے راضی ہو، اہل ایران، دین کی دعوت اور آپ کے بزرگ امام کی دعوت پر آپ کے ایماندارانہ جواب پر۔ آپ کو یہ رکھنا چاہئے۔ وہی قیمتی اتحاد، جس کی بدولت آپ بہت سی فتوحات حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں، دشمن فضا میں چھپے ہوئے ہیں۔ آپ کو ہوشیار رہنا چاہیے اور اختلاف پیدا نہ ہونے دیں۔ جہاں اختلاف کا بہانہ ہو اور دشمن اختلاف کا بہانہ بنا سکے وہاں زیادہ احتیاط کریں۔ مذہب اور مسلکی اختلافات کے معاملے میں جسے دشمنوں نے صدیوں سے گالیاں دی ہیں، انہیں زیادہ ہوشیار رہنا چاہیے۔ شیعہ اور سنی دونوں کو ہوشیار رہنا چاہیے  <ref>بیانات در دیدار کارگزاران نظام، به‌مناسبت سالروز ولادت رسول اکرم9 و امام جعفر صادق7، 24/6/1371</ref>.
== ہفتۂ وحدت؛ مسلمانوں کے درمیان اتحاد اور اخوت کا سنہرا موقع ==
ہفتۂ وحدت اسلامی تقویم کے اہم مواقع میں سے ہے جو [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم|پیغمبر اکرم حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)]] کی ولادت باسعادت کے موقع پر منایا جاتا ہے۔ یہ ہفتہ مختلف مسالک کے [[مسلمان|مسلمانوں]] کے درمیان مشترکہ اقدار پر زور دینے اور امتِ اسلامیہ میں اتحاد و ہم آہنگی کو تقویت دینے کا ایک موقع ہے۔ اس مضمون میں ہم ہفتۂ وحدت کی تاریخ، فلسفہ اور آج کی دنیا میں اس کی اہمیت کا جائزہ لیں گے۔ <ref>تحریر: مولانا سید کاشف رضوی زیدپوری</ref>۔
 
ہفتۂ وحدت اسلامی تقویم کے اہم مواقع میں سے ہے جو پیغمبر اکرم حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ولادت باسعادت کے موقع پر منایا جاتا ہے۔ یہ ہفتہ مختلف مسالک کے مسلمانوں کے درمیان مشترکہ اقدار پر زور دینے اور امتِ اسلامیہ میں اتحاد و ہم آہنگی کو تقویت دینے کا ایک موقع ہے۔ اس مضمون میں ہم ہفتۂ وحدت کی تاریخ، فلسفہ اور آج کی دنیا میں اس کی اہمیت کا جائزہ لیں گے۔
 
== ہفتۂ وحدت کی تاریخ ==
ہفتۂ وحدت سن ۱۳۶۰ ہجری شمسی میں [[سید روح اللہ موسوی خمینی|امام خمینیؒ]] نے بنیاد رکھی۔ اس نام گذاری کی وجہ یہ تھی کہ شیعہ اور اہل سنت کے درمیان پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ولادت کی صحیح تاریخ کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ [[اہل السنۃ والجماعت|اہل سنت]] ۱۲ [[ربیع الاول]] کو ولادت کا دن مانتے ہیں جبکہ [[شیعہ]] ۱۷ ربیع الاول کو۔ امام خمینیؒ نے مسلمانوں کے درمیان قربت اور بھائی چارہ قائم کرنے کی غرض سے ان دونوں تاریخوں کے درمیانی ایام کو "ہفتۂ وحدت" قرار دیا تاکہ مسلمان چھوٹے اختلافات پر نہیں بلکہ مشترکہ اسلامی اصولوں اور اقدار پر توجہ دیں۔
 
== فلسفہ اور اہمیت ==
 
ہفتۂ وحدت مسلمانوں میں تفرقہ اور نفاق کو ختم کرنے کی علامت ہے۔ اس ہفتے کا بنیادی فلسفہ [[اسلام]] کی تعلیمات میں موجود بھائی چارے، ہم آہنگی اور اتحاد کو اجاگر کرنا ہے۔ اس پر زور دیا جاتا ہے کہ فقہی اور مذہبی اختلافات کے باوجود مسلمان بنیادی عقائد جیسے توحید، نبوت اور معاد میں ایک ہیں۔
 
امام خمینیؒ ہمیشہ اس بات پر زور دیتے تھے کہ داخلی و خارجی خطرات کے مقابلے میں مسلمانوں کا اتحاد نہایت ضروری ہے۔ وہ ہفتۂ وحدت کو سامراجی سازشوں اور ان دشمنوں کے خلاف ایک عملی قدم سمجھتے تھے جو ہمیشہ مسلمانوں میں تفرقہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔
 
== ہفتۂ وحدت کے مثبت اثرات ==
اسلامی یکجہتی کا فروغ: یہ ہفتہ مسلمانوں کو اختلافات کے بجائے مشترکہ اقدار پر غور کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ اس سے امتِ مسلمہ میں اتحاد مضبوط ہوتا ہے اور وہ مشترکہ دشمنوں کے مقابلے میں زیادہ طاقتور بنتے ہیں۔
فرقہ واریت اور اندھی تقلید میں کمی: اس ہفتے میں منعقدہ مشترکہ تقریبات اور پروگرام مسلمانوں کے درمیان اختلافات کو وسیع نظر سے دیکھنے اور اندھے تعصب سے بچنے میں مدد دیتے ہیں۔
امن و آشتی کا پیغام: ہفتۂ وحدت کا ایک اہم پیغام مسلمانوں اور مختلف قوموں کے درمیان امن، دوستی اور آشتی کا فروغ ہے۔ یہ یاد دلاتا ہے کہ اسلام امن اور بھائی چارے کا دین ہے اور مسلمانوں کو آپس میں متحد ہونا چاہیے۔
 
== پروگرام اور تقریبات ==
اس ہفتے کے دوران اسلامی ممالک میں مختلف تقریبات اور اجتماعات منعقد کئے جاتے ہیں۔ ان میں دینی خطبات، سیمینار، کانفرنسیں اور جشنِ میلاد النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) شامل ہیں۔ ان پروگراموں کا مقصد اسلامی وحدت کے مفاہیم کو واضح کرنا اور مسلمانوں کو تعاون اور یکجہتی کی جانب ترغیب دلانا ہے۔
 
== آج کی دنیا میں وحدت کا کردار ==
آج امتِ مسلمہ پہلے سے زیادہ مختلف چیلنجوں کا سامنا کر رہی ہے—مذہبی اختلافات سے لے کر سیاسی اور اقتصادی دباؤ تک۔ ایسے حالات میں مسلمانوں کے درمیان اتحاد کی ضرورت اور بھی زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ ہفتۂ وحدت اسلام کے مشترکہ اصولوں پر زور دینے اور ان عناصر کے خلاف جدوجہد کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے جو مسلمانوں میں تفرقہ ڈالنا چاہتے ہیں۔
 
== نتیجہ ==
 
ہفتۂ وحدت مسلمانوں کے درمیان یکجہتی اور اتحاد کو فروغ دینے کا ایک قیمتی موقع ہے۔ یہ یاد دلاتا ہے کہ مذہبی اور ثقافتی اختلافات کے باوجود مسلمان اسلام کے بنیادی عقائد اور اقدار میں ایک ہیں اور مشترکہ خطرات کے مقابلے میں انہیں متحد ہونا چاہیے۔ ہفتۂ وحدت کا انعقاد نہ صرف مسلمانوں بلکہ پوری دنیا کے لیے امن و دوستی کا پیغام لے کر آتا ہے<ref>[https://ur.hawzahnews.com/news/411780/%DB%81%D9%81%D8%AA%DB%81-%D9%88%D8%AD%D8%AF%D8%AA-%D9%85%D8%B3%D9%84%D9%85%D8%A7%D9%86%D9%88%DA%BA-%DA%A9%DB%92-%D8%AF%D8%B1%D9%85%DB%8C%D8%A7%D9%86-%D8%A7%D8%AA%D8%AD%D8%A7%D8%AF-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D8%A7%D8%AE%D9%88%D8%AA-%DA%A9%D8%A7-%D8%B3%D9%86%DB%81%D8%B1%D8%A7-%D9%85%D9%88%D9%82%D8%B9 ہفتۂ وحدت؛ مسلمانوں کے درمیان اتحاد اور اخوت کا سنہرا موقع]- شائع شدہ از:5 اگست 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 5 اگست 2025ء</ref>۔
وحدت مسلمین ایک حربہ نہیں بلکہ ایک قرآنی اصول ہے۔ امام خامنہ ای
16 ستمبر 2024 - 13:11
News ID: 1485686
== وحدت مسلمین ایک حربہ نہیں بلکہ ایک قرآنی اصول ہے۔ امام خامنہ ای ==
[[سید علی خامنہ ای|رہبر انقلاب]] نے ملاقات کے لئے آئے ہوئے ایران کے سنی علماء، ائمۂ جمعہ اور مدارس علمیہ کے سربراہان کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے وحدت مسلمانوں کو سازشوں سے نمٹنے کا واحد راستہ قرار دیا اور فرمایا: مسئلۂ وحدت ایک [عارضی] حربہ نہیں بلکہ ایک [[قرآن|قرآنی]] اصول ہے۔
 
رہبر انقلاب امام سید علی خامنہ ای (مد ظلہ العالی) نے میلاد النبی (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے ایام نیز ہفتۂ وحدت مسلمین کے آغاز کے سلسلے میں، ملاقات کے لئے آئے ہوئے ایران کے سنی علماء، ائمۂ جمعہ اور مدارس علمیہ کے سربراہان کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے امت مسلمہ کے گراں قدر تشخص کے تحفظ کو ضروری قرار دیا اور وحدت مسلمین ـ نیز بدنیت دشمنوں کی طرف سے اتحاد مسلمین کو پارہ پارہ کرنے کی سازشوں سے نمٹنے ـ کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے فرمایا: امت مسلہ کا مسئلہ کسی صورت میں بھی فراموش نہيں کرنا چاہئے۔
 
امام خامنہ (مد ظلہ العالی) نے فرمایا: امت مسلمہ کے تشخص کا مسئلہ ایک بنیادی مسئلہ ہے جو قومیت کی حدود سے بالاتر ہے اور جغرافیائی سرحدیں امت مسلمہ کی حقیقت اور تشخص کو تبدیل نہیں کر سکتی ہیں۔
آپ نے فرمایا: دشمنوں کی کوشش ہے کہ مسلمانوں کو اپنے اسلامی تشخص کے حوالے سے بے پروا بنا دیں جبکہ یہ اسلامی تعلیمات کی خلاف ورزی ہے کہ کوئی مسلمان غزہ یا دنیا کے دوسرے علاقوں میں دوسرے مسلمان کے رنج و غم سے غفلت برت لے۔
 
رہبر انقلاب اسلامی نے علمائے اہل سنت کو اسلامی تشخص اور امت مسلمہ کے تشخص کا سہارا لینے کی دعوت دیتے ہوئے، عالم اسلام ـ بالخصوص ایران ـ میں مذہبی اختلافات کو ہوا دینے کے سلسلے میں بدنیت دشمنوں کی تاریخی سازشوں اور سرگرمیوں کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا: وہ فکری، تبلیغی اور معاشی اوزاروں سے فائدہ اٹھا کر ہمارے ملک اور دوسرے اسلامی خطوں میں شیعہ اور سنی کو ایک دوسرے سے الگ کرنا چاہتے ہیں اور وہ فریقین کے کچھ افراد کو بدگوئی پر آمادہ کرتے ہیں اور ضد، ہٹ دھرمی اور اختلافات کو ہوا دیتے ہیں۔
 
رہبر انقلاب نے فرمایا کہ ان سازشوں کا علاج یہ ہے کہ وحدت و یکجہتی کا سہارا لیا جائے، کیونکہ وحدت ایک حربہ نہیں بلکہ ایک قرآنی اصول ہے۔
 
آپ نے شیعہ ـ سنی اتحاد کو پارہ پارہ کرنے کے لئے کچھ دانستہ یا نادانستہ اقدامات پر افسوس کا اظہاور کرتے ہوئے فرمایا: البتہ یہ ایک حقیقت ہے کہ ہمارے یہاں کی سنی برادری نے سنجیدگی کے ساتھ ان معاندانہ محرکات کا مؤثر مقابلہ کیا ہے جس کا عملی ثبوت [آٹھ سالہ] دفاع مقدس اور دوسرے مراحل میں 15000 سنی مجاہدین کی شہادت اور راہ حق و انقلاب کی راہ میں بڑی تعداد میں سنی علماء کی شہادت ہے۔
 
امام خامنہ ای (مد ظلہ العالی) نے فرمایا امت اسلامیہ کی عزت و عظمت کے اہم ہدف کا حصول اتحاد مسلمین کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ آج مسلمانوں کے قطعی فرائض و واجبات میں سے ایک غزہ اور فلسطین کے مظلوموں کی حمایت کرنا ہے اور اگر اس فریضے کو نظرانداز کرے یقینا پروردگار کی بارگاہ میں جوابدہ ہوگا۔ 
 
اس موقع پر صوبہ سیستان و بلوچستان کے سنی عالم دین اور چابہار کے امام جمعہ مولوی عبدالرحمٰن چابہاری، صوبہ ہرمزگان کے عالم دین اور قِشم کے امام جمعہ مولوی عبدالرحیم خطیبی اور صوبہ مغربی آذربائی جان کے سنی عالم دین اور مہاباد کے امام جمعہ ماموستا عبدالسلام امامی نے اسلامی جمہوریہ ایران اور رہبر انقلاب اسلامی امام خامنہ ای (مد ظلہ العالی) کے وحدت آفریں نقطہ نگاہ اور آپ کی طرف سے ایران کی اہل سنت برادری کی حمایت کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اتحاد و یکجہتی کے ماحول کو تقویت پہنچانے اور ملکی ترقی کے لئے صوبوں ـ بالخصوص سنی علاقوں ـ کی مقامی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے پر زور دیا اور تکفیری و انتہاپسند افکار سے نمٹنے کو ایک ضرورت قرار دیا<ref>[https://ur.abna24.com/news/1485686/%D9%88%D8%AD%D8%AF%D8%AA-%D9%85%D8%B3%D9%84%D9%85%DB%8C%D9%86-%D8%A7%DB%8C%DA%A9-%D8%AD%D8%B1%D8%A8%DB%81-%D9%86%DB%81%DB%8C%DA%BA-%D8%A8%D9%84%DA%A9%DB%81-%D8%A7%DB%8C%DA%A9-%D9%82%D8%B1%D8%A2%D9%86%DB%8C-%D8%A7%D8%B5%D9%88%D9%84-%DB%81%DB%92-%D8%A7%D9%85%D8%A7%D9%85-%D8%AE%D8%A7%D9%85%D9%86%DB%81 وحدت مسلمین ایک حربہ نہیں بلکہ ایک قرآنی اصول ہے۔ امام خامنہ ای]- شائع شدہ از: 16 ستمبر 2024ء- اخذ شدہ 7 ستمبر 2025ء</ref>۔
== ہفتہ وحدت، اُمت مسلمہ کے اتحاد کا عملی نسخہ ==
اگر [[مسلمان]] واقعی قرآن، سیرتِ نبویﷺ اور شریعتِ اسلامی کو محورِ اتحاد بنا لیں تو دنیا کی کوئی طاقت اُمت کو زیر نہیں کرسکتی۔ [[فلسطین]] سمیت دنیا بھر میں مسلمانوں پر جو مظالم ڈھائے جا رہے ہیں، وہ دراصل ہماری کمزوری اور باہمی انتشار کا نتیجہ ہیں۔ دشمن نے ہمیں فرقوں، قومیتوں اور لسانی تعصبات میں بانٹ کر کمزور کیا ہے۔ اس بکھری ہوئی حالت سے نکلنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ ہم اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیں اور اُمتِ مسلمہ کو وحدت کی لڑی میں پرو دیں <ref>تحریر: شبیر احمد شگری</ref>۔
 
اللہ رب العزت نے اپنے حبیب حضرت محمد مصطفیٰﷺ کو تمام جہانوں کیلئے سراپا رحمت بنا کر بھیجا۔ یہ صرف انسانوں تک محدود نہیں بلکہ کل کائنات، جملہ مخلوقات اور ہر عالم پر [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم|حضور اکرمﷺ]] کی ذاتِ اقدس رحمت ہی رحمت ہے۔ ہم اہلِ ایمان اس سعادت پر نازاں ہیں کہ ہمیں اُس ہستی کی اُمت میں شامل کیا گیا، جس کے بغیر کائنات کی تکمیل ممکن نہ تھی۔ ان ایام میں جہاں ہم ولادتِ رسول اکرمﷺ کی خوشی مناتے ہیں، وہاں [[جعفر بن محمد|امام جعفر صادق علیہ السلام]] کی ولادت بھی اسی ہفتے میں آتی ہے، جو اس حقیقت کو اور زیادہ نمایاں کرتی ہے کہ میلادِ رسولﷺ کا پیغام دراصل محبت، اخوت اور وحدتِ امت کا پیغام ہے۔ اگر ہم واقعی حضور اکرمﷺ اور [[اہل بیت|اہلِ بیت اطہارؑ]] کی سیرت کو اپنے عمل کا حصہ بنا لیں تو ہماری دنیا و آخرت دونوں سنور جائیں۔
 
افسوس کہ آج اُمتِ مسلمہ کی سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ ہم نے [[قرآن]] کو اونچے طاقوں میں رکھ کر صرف تبرک سمجھ لیا اور نبی کریمﷺ کی سیرت کو جذباتی وابستگی تک محدود کر دیا۔ حالانکہ اصل محبت یہ ہے کہ قرآن کو پڑھا جائے، سمجھا جائے اور اس پر عمل کیا جائے۔ نبی پاکﷺ کیساتھ حقیقی تعلق یہ ہے کہ ان کے فرامین کو زندگی کا عملی حصہ بنایا جائے۔ جھوٹ، ناانصافی، بے نمازی، دھوکہ دہی اور ظلم، یہ سب نافرمانیاں دراصل حضورﷺ کی تعلیمات سے انحراف ہیں اور یہی ان کی خوشنودی سے محرومی کا سبب بنتی ہیں۔ ان مبارک دنوں میں جب ہم درود و سلام کی محافل اور نعتیہ اجتماعات دیکھتے ہیں تو دل خوشی سے لبریز ہو جاتا ہے۔
 
مسلمانوں کے درمیان ایک دوسرے کو مبارکباد دینے اور وحدت کا منظر روح کو مسرت بخشتا ہے۔ اگرچہ رسول اکرمﷺ کی تاریخِ ولادت کے تعین میں اُمت میں اختلاف موجود ہے۔ کچھ 12 ربیع الاول اور کچھ 17 ربیع الاول کے قائل ہیں، لیکن حضرت امام خمینیؒ نے اس اختلاف کو اتحاد میں بدلنے کا بے مثال کارنامہ انجام دیا۔ آپ نے فرمایا کہ مسلمان اس بحث میں نہ الجھیں بلکہ 12 سے 17 ربیع الاول تک کے ایام کو "ہفتۂ وحدت" کے طور پر منائیں۔ یہ تجویز آج عالمِ اسلام کے لیے ایک شاندار عملی نسخہ ہے۔ یہی وہ ایام ہیں، جن میں اُمتِ مسلمہ کو یاد رکھنا چاہیئے کہ قرآن کا حکم واضح ہے: "(وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا" (اللہ کی رسی کو سب مل کر مضبوطی سے تھامے رکھو اور تفرقہ مت ڈالو)۔
 
اس حکم کی روح یہی ہے کہ مسلمان صرف انفرادی طور پر نہیں بلکہ اجتماعی طور پر اللہ کی رسی کو تھامیں۔ یہی اجتماعی قوت اُمت کا اصل سرمایہ ہے۔ اگر مسلمان واقعی قرآن، سیرتِ نبویﷺ اور شریعتِ اسلامی کو محورِ اتحاد بنا لیں تو دنیا کی کوئی طاقت اُمت کو زیر نہیں کرسکتی۔ فلسطین سمیت دنیا بھر میں مسلمانوں پر جو مظالم ڈھائے جا رہے ہیں، وہ دراصل ہماری کمزوری اور باہمی انتشار کا نتیجہ ہیں۔ دشمن نے ہمیں فرقوں، قومیتوں اور لسانی تعصبات میں بانٹ کر کمزور کیا ہے۔ اس بکھری ہوئی حالت سے نکلنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ ہم اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیں اور اُمتِ مسلمہ کو وحدت کی لڑی میں پرو دیں۔ اللہ رب العزت نے قرآن میں وعدہ فرمایا ہے: "(وَلَيَنصُرَنَّ اللَّهُ مَنْ يَنْصُرُهُ"، "اللہ ضرور اُس کی مدد کرتا ہے، جو اللہ کے دین کی مدد کرتا ہے۔")
 
اگر آج ہم باوجود وسائل کے کمزور ہیں تو یہ ہماری اپنی کوتاہیوں اور غفلت کا نتیجہ ہے۔ کامیابی اسی وقت ممکن ہے، جب ہم خلوصِ دل سے اللہ اور اس کے رسولﷺ کی تعلیمات پر عمل کریں، توکل اور تقویٰ کو اپنا زادِ راہ بنائیں۔ "آئیے اس میلاد النبیﷺ پر عہد کریں کہ ہم قرآن و سیرت کو اپنی اصل طاقت بنائیں گے اور وحدت کی رسی کو مضبوطی سے تھامیں گے، یہی ہماری نجات کا واحد راستہ ہے۔" دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس ماہ مبارک میں قرآن و سنت پر عمل پیرا ہونے، حضور نبی کریمﷺ کی حقیقی محبت اختیار کرنے اور اُمت کو وحدت کی ڈور میں باندھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین<ref>[https://www.islamtimes.com/ur/article/1231738/%DB%81%D9%81%D8%AA%DB%81-%D9%88%D8%AD%D8%AF%D8%AA-%D8%A7-%D9%85%D8%AA-%D9%85%D8%B3%D9%84%D9%85%DB%81-%DA%A9%DB%92-%D8%A7%D8%AA%D8%AD%D8%A7%D8%AF-%DA%A9%D8%A7-%D8%B9%D9%85%D9%84%DB%8C-%D9%86%D8%B3%D8%AE%DB%81 ہفتہ وحدت، اُمت مسلمہ کے اتحاد کا عملی نسخہ]- شائع شدہ از: 7 ستمبر 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 7 ستمبر 2025ء</ref>۔
 
== حوالہ جات ==
{{حوالہ جات}}
 
 
[[fa:هفته وحدت ]]
 
[[زمرہ: [[عالمی کونسل برائے تقریب مذاہب اسلامی|عالمی اسمبلی برائے تقریب مذاهب اسلامی]]]]

حالیہ نسخہ بمطابق 14:42، 7 ستمبر 2025ء

ہفتہ وحدت 12 ربیع الاول کو شروع ہو کر 17 ربیع الاول کو ختم ہوتا ہے۔ ان ایام کو انقلاب اسلامی ایران کے آغاز سے ہی ہفتہ وحدت کا نام دیا گیا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ ربیع الاول کی بارہویں تاریخ کو سنی بھائیوں کے یہاں پیغمبر اکرم کی یوم ولادت کی مشہور ہے۔ اور 17 ربیع الاول شیعوں میں مشہور روایت کے مطابق آنحضرت کا یوم ولادت ہے۔ ان دو دنوں کو جوڑتے ہوئے ، انقلاب کے آغاز سے ہی، ایران کے عوام اور ملک کے حکام نے اس دن کو ہفتہ وحدت کا نام دیا ہے اور اسے مسلمانوں کے درمیان اتحاد کا ذریعہ اور علامت قرار دیا ہے ۔ اس مضمون میں ہم رہبر انقلاب اسلامی ایران سید علی خامنہ ای کے نقطہ نظر سے ہفتہ وحدت کا جائزہ لیں گے [1]۔

مضبوط قلعہ بنانے کی تیاری

اسلامی جمہوریہ نے دنیا کے مسلمانوں کو دعوت دی کہ آئیے 12 سے 17 ربیع الاول تک اتحاد کےلئےکوشش کریں۔ ایک روایت کے مطابق،12 ربیع الاول کا دن پیغمبر اکرم (ص) کی ولادت کا دن ہے جو زیادہ تر اہل سنت کے یہاں مشہور ہے اور بعض شیعہ بھی اسے قبول کرتے ہیں، ۔ ایک روایت بھی 17 ربیع الاول سے متعلق ہے جس کی تصدیق زیادہ تر شیعہ اور بعض اہل سنت کرتے ہیں۔ تاہم بارہویں اور سترہویں کے درمیان جو کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یوم ولادت ہے، عالم اسلام کے اتحاد پر زیادہ توجہ دینی چاہیے۔ کیونکہ یہ وہ مضبوط قلعہ اور باندھ کہ اگر بن جائے تو کوئی طاقت اسلامی ممالک اور قوموں کی ثروت پر قبضہ نہیں کر سکتی [2]۔

تاریخ

اسلامی نظام کے قیام سے پہلے، ہمارے دینی بھائی، اسلامی تحریک کے بزرگان ، اس زمانے میں انقلابی جدوجہد کرنے والی اہم شخصیات- جب اسلامی حکومت اور اسلامی جمہوریہ کے وجود میں آنے کی کوئی خبر نہیں تھی ، شیعہ سنی اتحاد کے لیے کوشاں تھے۔ میں خود ان دنوں بلوچستان میں جلاوطن تھا۔

اس وقت سے لے کر اب تک، ہمارا بلوچستان کے مختلف شہروں ایران شہر، چابہار، سراوان اور زاہدان کے سنی حنفی علماء کے ساتھ دوسری، قربت اور رابطہ ہے اور اس کے لئے خدا کا شکر ہے۔ مجھے وہاں جلاوطن کر دیا گیا، حکام ہمیں کوئی کام نہیں کرنے دینا چاہتے تھے۔ لیکن پھر بھی ہم نے سب کو دعوت دی کہ ملےکر میں شیعہ اور سنی اتحاد کے لیے کوشش کرنی چاہے کیوںکہ ہفتہ وحدت اہل سنت یہاں نزدیک 12 ربیع الاول کو اوروںش یعہیہاںزدیک 17 ربیع الاول کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت کو ایک ساتھ منانے کی بات اسی دن ہمارے ذہن میں آئی اور ہم اسے ایرانشہر میں نافذ کیا۔ یعنی ہم نے 12 سے 17 تاریخ تک جشن منایا [3]

قرآن و سنت کی بنیاد پر اتحاد

ہفتہ وحدت میں ہمارا پیغام اور اتحاد کے پیغام کے طور پر یہ ہے کہ مسلمان آئیں اور متحد ہو جائیں اور ایک دوسرے سے دشمنی نہ کریں۔ محور کتاب خدا اور سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلامی شریعت ہو۔ یہ کوئی برا لفظ نہیں ہے۔ یہ لفظ ایک ایسا لفظ ہے جسے ہر غیر جانبدار اور منصفانہ ذہن قبول کرے گا [4].

اگر ہم کہتے ہیں کہ شیعہ اور سنی کو ایک ساتھ ہونا چاہیے تو اس کا مطلب ہے کہ شیعہ شیعہ ہی رہے گا۔ عمر ایک ہی عمر رہتی ہے۔ ہم نے سنی علماء سے کب کہا کہ اتحاد سے ہمارا مطلب یہ ہے کہ تم شیعہ ہو جاؤ؟! ہم نے ایسی بات نہیں کہی۔ جو بھی شیعہ بننا چاہتا ہے اسے سائنس اور علمی بحثوں کے ذریعے شیعہ بننا چاہیے۔ وہ خود بھی جانے اور اپنا کام کرنے کے لیے آزاد ہیں۔ ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ آپ اپنا مذہب بدل لیں۔ ہم کہتے ہیں کہ شیعہ اور سنی کو ہمیشہ عقلی ہونا چاہیے۔ جیسا کہ اسلامی انقلاب کے دوران ہمارے ملک میں دیکھا گیا، خدا کا شکر ہے۔ دشمن کو ان اختلافات کا فائدہ نہ اٹھانے دیں۔ ہفتہ وحدت کا جشن اسی کے لیے ہے [5]۔

ہفتہ وحدت کے دوران اسلامی جمہوریہ کی دعوت شیعوں یا سنیوں کے لیے نہیں ہے کہ وہ اپنا مذہب ترک کرکے دوسرے مذہب کو اختیار کریں۔ اسلامی جمہوریہ کی دعوت اسلامی مذاہب کے درمیان مشترکات کو اجاگر کرنا اور دشمنان اسلام کی طرف سے بنائی گئی دیواروں اور دشمنیوں اور رنجشوں کو ہٹانا ہے۔ اہل بیت کی تعلیم کے میدان میں آئیں اور سنیں اور دیکھیں [6].

ہفتہ وحدت ایک مناسب نام ہے۔ الحمد للہ، ایرانی قوم کے افراد کے درمیان، ہر طبقے کے لوگوں کے درمیان، ہر طرح، رسم و رواج اور جس حد تک وہ ہیں اور جس کام میں وہ مصروف ہیں، اتحاد ہے۔ ہماری قوم کے افراد نفاق کی سازشوں اور بیجوں کے باوجود متحد ہیں اور ایک سمت میں بڑھ رہے ہیں: اسلام کی طرف۔ قرآن کی سمت میں؛ مذہب کی حکمرانی کی سمت میں؛ شیعہ اور سنی اور مختلف نسلوں کے درمیان فرق کئے بغیر (فارسی، عرب، ترک، ترکمان، بلوچ، کرد وغیرہ)؛ ایک متحد قوم۔ درحقیقت ایرانی قوم اسلام کی بدولت ایک مثال ہے۔

یہ مسلم ممالک میں ایک کامیاب نمونہ ہے۔ خدا آپ سے راضی ہو، اہل ایران، دین کی دعوت اور آپ کے بزرگ امام کی دعوت پر آپ کے ایماندارانہ جواب پر۔ آپ کو یہ رکھنا چاہئے۔ وہی قیمتی اتحاد، جس کی بدولت آپ بہت سی فتوحات حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں، دشمن فضا میں چھپے ہوئے ہیں۔ آپ کو ہوشیار رہنا چاہیے اور اختلاف پیدا نہ ہونے دیں۔ جہاں اختلاف کا بہانہ ہو اور دشمن اختلاف کا بہانہ بنا سکے وہاں زیادہ احتیاط کریں۔ مذہب اور مسلکی اختلافات کے معاملے میں جسے دشمنوں نے صدیوں سے گالیاں دی ہیں، انہیں زیادہ ہوشیار رہنا چاہیے۔ شیعہ اور سنی دونوں کو ہوشیار رہنا چاہیے [7].

ہفتۂ وحدت؛ مسلمانوں کے درمیان اتحاد اور اخوت کا سنہرا موقع

ہفتۂ وحدت اسلامی تقویم کے اہم مواقع میں سے ہے جو پیغمبر اکرم حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ولادت باسعادت کے موقع پر منایا جاتا ہے۔ یہ ہفتہ مختلف مسالک کے مسلمانوں کے درمیان مشترکہ اقدار پر زور دینے اور امتِ اسلامیہ میں اتحاد و ہم آہنگی کو تقویت دینے کا ایک موقع ہے۔ اس مضمون میں ہم ہفتۂ وحدت کی تاریخ، فلسفہ اور آج کی دنیا میں اس کی اہمیت کا جائزہ لیں گے۔ [8]۔

ہفتۂ وحدت اسلامی تقویم کے اہم مواقع میں سے ہے جو پیغمبر اکرم حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ولادت باسعادت کے موقع پر منایا جاتا ہے۔ یہ ہفتہ مختلف مسالک کے مسلمانوں کے درمیان مشترکہ اقدار پر زور دینے اور امتِ اسلامیہ میں اتحاد و ہم آہنگی کو تقویت دینے کا ایک موقع ہے۔ اس مضمون میں ہم ہفتۂ وحدت کی تاریخ، فلسفہ اور آج کی دنیا میں اس کی اہمیت کا جائزہ لیں گے۔

ہفتۂ وحدت کی تاریخ

ہفتۂ وحدت سن ۱۳۶۰ ہجری شمسی میں امام خمینیؒ نے بنیاد رکھی۔ اس نام گذاری کی وجہ یہ تھی کہ شیعہ اور اہل سنت کے درمیان پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ولادت کی صحیح تاریخ کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ اہل سنت ۱۲ ربیع الاول کو ولادت کا دن مانتے ہیں جبکہ شیعہ ۱۷ ربیع الاول کو۔ امام خمینیؒ نے مسلمانوں کے درمیان قربت اور بھائی چارہ قائم کرنے کی غرض سے ان دونوں تاریخوں کے درمیانی ایام کو "ہفتۂ وحدت" قرار دیا تاکہ مسلمان چھوٹے اختلافات پر نہیں بلکہ مشترکہ اسلامی اصولوں اور اقدار پر توجہ دیں۔

فلسفہ اور اہمیت

ہفتۂ وحدت مسلمانوں میں تفرقہ اور نفاق کو ختم کرنے کی علامت ہے۔ اس ہفتے کا بنیادی فلسفہ اسلام کی تعلیمات میں موجود بھائی چارے، ہم آہنگی اور اتحاد کو اجاگر کرنا ہے۔ اس پر زور دیا جاتا ہے کہ فقہی اور مذہبی اختلافات کے باوجود مسلمان بنیادی عقائد جیسے توحید، نبوت اور معاد میں ایک ہیں۔

امام خمینیؒ ہمیشہ اس بات پر زور دیتے تھے کہ داخلی و خارجی خطرات کے مقابلے میں مسلمانوں کا اتحاد نہایت ضروری ہے۔ وہ ہفتۂ وحدت کو سامراجی سازشوں اور ان دشمنوں کے خلاف ایک عملی قدم سمجھتے تھے جو ہمیشہ مسلمانوں میں تفرقہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔

ہفتۂ وحدت کے مثبت اثرات

اسلامی یکجہتی کا فروغ: یہ ہفتہ مسلمانوں کو اختلافات کے بجائے مشترکہ اقدار پر غور کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ اس سے امتِ مسلمہ میں اتحاد مضبوط ہوتا ہے اور وہ مشترکہ دشمنوں کے مقابلے میں زیادہ طاقتور بنتے ہیں۔ فرقہ واریت اور اندھی تقلید میں کمی: اس ہفتے میں منعقدہ مشترکہ تقریبات اور پروگرام مسلمانوں کے درمیان اختلافات کو وسیع نظر سے دیکھنے اور اندھے تعصب سے بچنے میں مدد دیتے ہیں۔ امن و آشتی کا پیغام: ہفتۂ وحدت کا ایک اہم پیغام مسلمانوں اور مختلف قوموں کے درمیان امن، دوستی اور آشتی کا فروغ ہے۔ یہ یاد دلاتا ہے کہ اسلام امن اور بھائی چارے کا دین ہے اور مسلمانوں کو آپس میں متحد ہونا چاہیے۔

پروگرام اور تقریبات

اس ہفتے کے دوران اسلامی ممالک میں مختلف تقریبات اور اجتماعات منعقد کئے جاتے ہیں۔ ان میں دینی خطبات، سیمینار، کانفرنسیں اور جشنِ میلاد النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) شامل ہیں۔ ان پروگراموں کا مقصد اسلامی وحدت کے مفاہیم کو واضح کرنا اور مسلمانوں کو تعاون اور یکجہتی کی جانب ترغیب دلانا ہے۔

آج کی دنیا میں وحدت کا کردار

آج امتِ مسلمہ پہلے سے زیادہ مختلف چیلنجوں کا سامنا کر رہی ہے—مذہبی اختلافات سے لے کر سیاسی اور اقتصادی دباؤ تک۔ ایسے حالات میں مسلمانوں کے درمیان اتحاد کی ضرورت اور بھی زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ ہفتۂ وحدت اسلام کے مشترکہ اصولوں پر زور دینے اور ان عناصر کے خلاف جدوجہد کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے جو مسلمانوں میں تفرقہ ڈالنا چاہتے ہیں۔

نتیجہ

ہفتۂ وحدت مسلمانوں کے درمیان یکجہتی اور اتحاد کو فروغ دینے کا ایک قیمتی موقع ہے۔ یہ یاد دلاتا ہے کہ مذہبی اور ثقافتی اختلافات کے باوجود مسلمان اسلام کے بنیادی عقائد اور اقدار میں ایک ہیں اور مشترکہ خطرات کے مقابلے میں انہیں متحد ہونا چاہیے۔ ہفتۂ وحدت کا انعقاد نہ صرف مسلمانوں بلکہ پوری دنیا کے لیے امن و دوستی کا پیغام لے کر آتا ہے[9]۔ وحدت مسلمین ایک حربہ نہیں بلکہ ایک قرآنی اصول ہے۔ امام خامنہ ای 16 ستمبر 2024 - 13:11 News ID: 1485686

وحدت مسلمین ایک حربہ نہیں بلکہ ایک قرآنی اصول ہے۔ امام خامنہ ای

رہبر انقلاب نے ملاقات کے لئے آئے ہوئے ایران کے سنی علماء، ائمۂ جمعہ اور مدارس علمیہ کے سربراہان کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے وحدت مسلمانوں کو سازشوں سے نمٹنے کا واحد راستہ قرار دیا اور فرمایا: مسئلۂ وحدت ایک [عارضی] حربہ نہیں بلکہ ایک قرآنی اصول ہے۔

رہبر انقلاب امام سید علی خامنہ ای (مد ظلہ العالی) نے میلاد النبی (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے ایام نیز ہفتۂ وحدت مسلمین کے آغاز کے سلسلے میں، ملاقات کے لئے آئے ہوئے ایران کے سنی علماء، ائمۂ جمعہ اور مدارس علمیہ کے سربراہان کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے امت مسلمہ کے گراں قدر تشخص کے تحفظ کو ضروری قرار دیا اور وحدت مسلمین ـ نیز بدنیت دشمنوں کی طرف سے اتحاد مسلمین کو پارہ پارہ کرنے کی سازشوں سے نمٹنے ـ کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے فرمایا: امت مسلہ کا مسئلہ کسی صورت میں بھی فراموش نہيں کرنا چاہئے۔

امام خامنہ (مد ظلہ العالی) نے فرمایا: امت مسلمہ کے تشخص کا مسئلہ ایک بنیادی مسئلہ ہے جو قومیت کی حدود سے بالاتر ہے اور جغرافیائی سرحدیں امت مسلمہ کی حقیقت اور تشخص کو تبدیل نہیں کر سکتی ہیں۔ آپ نے فرمایا: دشمنوں کی کوشش ہے کہ مسلمانوں کو اپنے اسلامی تشخص کے حوالے سے بے پروا بنا دیں جبکہ یہ اسلامی تعلیمات کی خلاف ورزی ہے کہ کوئی مسلمان غزہ یا دنیا کے دوسرے علاقوں میں دوسرے مسلمان کے رنج و غم سے غفلت برت لے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے علمائے اہل سنت کو اسلامی تشخص اور امت مسلمہ کے تشخص کا سہارا لینے کی دعوت دیتے ہوئے، عالم اسلام ـ بالخصوص ایران ـ میں مذہبی اختلافات کو ہوا دینے کے سلسلے میں بدنیت دشمنوں کی تاریخی سازشوں اور سرگرمیوں کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا: وہ فکری، تبلیغی اور معاشی اوزاروں سے فائدہ اٹھا کر ہمارے ملک اور دوسرے اسلامی خطوں میں شیعہ اور سنی کو ایک دوسرے سے الگ کرنا چاہتے ہیں اور وہ فریقین کے کچھ افراد کو بدگوئی پر آمادہ کرتے ہیں اور ضد، ہٹ دھرمی اور اختلافات کو ہوا دیتے ہیں۔

رہبر انقلاب نے فرمایا کہ ان سازشوں کا علاج یہ ہے کہ وحدت و یکجہتی کا سہارا لیا جائے، کیونکہ وحدت ایک حربہ نہیں بلکہ ایک قرآنی اصول ہے۔

آپ نے شیعہ ـ سنی اتحاد کو پارہ پارہ کرنے کے لئے کچھ دانستہ یا نادانستہ اقدامات پر افسوس کا اظہاور کرتے ہوئے فرمایا: البتہ یہ ایک حقیقت ہے کہ ہمارے یہاں کی سنی برادری نے سنجیدگی کے ساتھ ان معاندانہ محرکات کا مؤثر مقابلہ کیا ہے جس کا عملی ثبوت [آٹھ سالہ] دفاع مقدس اور دوسرے مراحل میں 15000 سنی مجاہدین کی شہادت اور راہ حق و انقلاب کی راہ میں بڑی تعداد میں سنی علماء کی شہادت ہے۔

امام خامنہ ای (مد ظلہ العالی) نے فرمایا امت اسلامیہ کی عزت و عظمت کے اہم ہدف کا حصول اتحاد مسلمین کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ آج مسلمانوں کے قطعی فرائض و واجبات میں سے ایک غزہ اور فلسطین کے مظلوموں کی حمایت کرنا ہے اور اگر اس فریضے کو نظرانداز کرے یقینا پروردگار کی بارگاہ میں جوابدہ ہوگا۔

اس موقع پر صوبہ سیستان و بلوچستان کے سنی عالم دین اور چابہار کے امام جمعہ مولوی عبدالرحمٰن چابہاری، صوبہ ہرمزگان کے عالم دین اور قِشم کے امام جمعہ مولوی عبدالرحیم خطیبی اور صوبہ مغربی آذربائی جان کے سنی عالم دین اور مہاباد کے امام جمعہ ماموستا عبدالسلام امامی نے اسلامی جمہوریہ ایران اور رہبر انقلاب اسلامی امام خامنہ ای (مد ظلہ العالی) کے وحدت آفریں نقطہ نگاہ اور آپ کی طرف سے ایران کی اہل سنت برادری کی حمایت کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اتحاد و یکجہتی کے ماحول کو تقویت پہنچانے اور ملکی ترقی کے لئے صوبوں ـ بالخصوص سنی علاقوں ـ کی مقامی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے پر زور دیا اور تکفیری و انتہاپسند افکار سے نمٹنے کو ایک ضرورت قرار دیا[10]۔

ہفتہ وحدت، اُمت مسلمہ کے اتحاد کا عملی نسخہ

اگر مسلمان واقعی قرآن، سیرتِ نبویﷺ اور شریعتِ اسلامی کو محورِ اتحاد بنا لیں تو دنیا کی کوئی طاقت اُمت کو زیر نہیں کرسکتی۔ فلسطین سمیت دنیا بھر میں مسلمانوں پر جو مظالم ڈھائے جا رہے ہیں، وہ دراصل ہماری کمزوری اور باہمی انتشار کا نتیجہ ہیں۔ دشمن نے ہمیں فرقوں، قومیتوں اور لسانی تعصبات میں بانٹ کر کمزور کیا ہے۔ اس بکھری ہوئی حالت سے نکلنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ ہم اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیں اور اُمتِ مسلمہ کو وحدت کی لڑی میں پرو دیں [11]۔

اللہ رب العزت نے اپنے حبیب حضرت محمد مصطفیٰﷺ کو تمام جہانوں کیلئے سراپا رحمت بنا کر بھیجا۔ یہ صرف انسانوں تک محدود نہیں بلکہ کل کائنات، جملہ مخلوقات اور ہر عالم پر حضور اکرمﷺ کی ذاتِ اقدس رحمت ہی رحمت ہے۔ ہم اہلِ ایمان اس سعادت پر نازاں ہیں کہ ہمیں اُس ہستی کی اُمت میں شامل کیا گیا، جس کے بغیر کائنات کی تکمیل ممکن نہ تھی۔ ان ایام میں جہاں ہم ولادتِ رسول اکرمﷺ کی خوشی مناتے ہیں، وہاں امام جعفر صادق علیہ السلام کی ولادت بھی اسی ہفتے میں آتی ہے، جو اس حقیقت کو اور زیادہ نمایاں کرتی ہے کہ میلادِ رسولﷺ کا پیغام دراصل محبت، اخوت اور وحدتِ امت کا پیغام ہے۔ اگر ہم واقعی حضور اکرمﷺ اور اہلِ بیت اطہارؑ کی سیرت کو اپنے عمل کا حصہ بنا لیں تو ہماری دنیا و آخرت دونوں سنور جائیں۔

افسوس کہ آج اُمتِ مسلمہ کی سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ ہم نے قرآن کو اونچے طاقوں میں رکھ کر صرف تبرک سمجھ لیا اور نبی کریمﷺ کی سیرت کو جذباتی وابستگی تک محدود کر دیا۔ حالانکہ اصل محبت یہ ہے کہ قرآن کو پڑھا جائے، سمجھا جائے اور اس پر عمل کیا جائے۔ نبی پاکﷺ کیساتھ حقیقی تعلق یہ ہے کہ ان کے فرامین کو زندگی کا عملی حصہ بنایا جائے۔ جھوٹ، ناانصافی، بے نمازی، دھوکہ دہی اور ظلم، یہ سب نافرمانیاں دراصل حضورﷺ کی تعلیمات سے انحراف ہیں اور یہی ان کی خوشنودی سے محرومی کا سبب بنتی ہیں۔ ان مبارک دنوں میں جب ہم درود و سلام کی محافل اور نعتیہ اجتماعات دیکھتے ہیں تو دل خوشی سے لبریز ہو جاتا ہے۔

مسلمانوں کے درمیان ایک دوسرے کو مبارکباد دینے اور وحدت کا منظر روح کو مسرت بخشتا ہے۔ اگرچہ رسول اکرمﷺ کی تاریخِ ولادت کے تعین میں اُمت میں اختلاف موجود ہے۔ کچھ 12 ربیع الاول اور کچھ 17 ربیع الاول کے قائل ہیں، لیکن حضرت امام خمینیؒ نے اس اختلاف کو اتحاد میں بدلنے کا بے مثال کارنامہ انجام دیا۔ آپ نے فرمایا کہ مسلمان اس بحث میں نہ الجھیں بلکہ 12 سے 17 ربیع الاول تک کے ایام کو "ہفتۂ وحدت" کے طور پر منائیں۔ یہ تجویز آج عالمِ اسلام کے لیے ایک شاندار عملی نسخہ ہے۔ یہی وہ ایام ہیں، جن میں اُمتِ مسلمہ کو یاد رکھنا چاہیئے کہ قرآن کا حکم واضح ہے: "(وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا" (اللہ کی رسی کو سب مل کر مضبوطی سے تھامے رکھو اور تفرقہ مت ڈالو)۔

اس حکم کی روح یہی ہے کہ مسلمان صرف انفرادی طور پر نہیں بلکہ اجتماعی طور پر اللہ کی رسی کو تھامیں۔ یہی اجتماعی قوت اُمت کا اصل سرمایہ ہے۔ اگر مسلمان واقعی قرآن، سیرتِ نبویﷺ اور شریعتِ اسلامی کو محورِ اتحاد بنا لیں تو دنیا کی کوئی طاقت اُمت کو زیر نہیں کرسکتی۔ فلسطین سمیت دنیا بھر میں مسلمانوں پر جو مظالم ڈھائے جا رہے ہیں، وہ دراصل ہماری کمزوری اور باہمی انتشار کا نتیجہ ہیں۔ دشمن نے ہمیں فرقوں، قومیتوں اور لسانی تعصبات میں بانٹ کر کمزور کیا ہے۔ اس بکھری ہوئی حالت سے نکلنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ ہم اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیں اور اُمتِ مسلمہ کو وحدت کی لڑی میں پرو دیں۔ اللہ رب العزت نے قرآن میں وعدہ فرمایا ہے: "(وَلَيَنصُرَنَّ اللَّهُ مَنْ يَنْصُرُهُ"، "اللہ ضرور اُس کی مدد کرتا ہے، جو اللہ کے دین کی مدد کرتا ہے۔")

اگر آج ہم باوجود وسائل کے کمزور ہیں تو یہ ہماری اپنی کوتاہیوں اور غفلت کا نتیجہ ہے۔ کامیابی اسی وقت ممکن ہے، جب ہم خلوصِ دل سے اللہ اور اس کے رسولﷺ کی تعلیمات پر عمل کریں، توکل اور تقویٰ کو اپنا زادِ راہ بنائیں۔ "آئیے اس میلاد النبیﷺ پر عہد کریں کہ ہم قرآن و سیرت کو اپنی اصل طاقت بنائیں گے اور وحدت کی رسی کو مضبوطی سے تھامیں گے، یہی ہماری نجات کا واحد راستہ ہے۔" دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس ماہ مبارک میں قرآن و سنت پر عمل پیرا ہونے، حضور نبی کریمﷺ کی حقیقی محبت اختیار کرنے اور اُمت کو وحدت کی ڈور میں باندھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین[12]۔

حوالہ جات

  1. یوم ولادت حضرت رسول اعظم 12/25/1387 پر عہدیداروں کے ایک گروپ کے اجلاس میں بیانات
  2. ہفتہ وحدت کے پہلے دن، 11/7/1369 کو آزاد لوگوں اور مختلف طبقوں کے لوگوں کے ایک بڑے گروپ کے ساتھ ایک میٹنگ میں بیانات
  3. سیستان، خراسان اور مازندران کے علماء، ائمہ جمعہ اور اہل سنت حوزہ کے ایک گروپ کے اجلاس میں بیانات، 5/10/1368۔
  4. دبیانات در دیدار با جمع کثیرى از اقشار مختلف مردم شهرهاى شاهرود، خلخال، بیرجند، قیدار، خمسه، تیران و چالوس، روحانیون و معاونان دفاتر عقیدتى، سیاسى نیروى زمینى ارتش و جمعى از شیعیان استان سرحدّ پاکستان، 19/7/1368
  5. بیانات در دیدار با گروه کثیرى از آزادگان و اقشار مختلف مردم، در اولین روز از هفته وحدت، 11/7/1369
  6. بیانات در اجتماع بزرگ زائران و مجاوران حرم مطهر رضوى، 1/1/1387
  7. بیانات در دیدار کارگزاران نظام، به‌مناسبت سالروز ولادت رسول اکرم9 و امام جعفر صادق7، 24/6/1371
  8. تحریر: مولانا سید کاشف رضوی زیدپوری
  9. ہفتۂ وحدت؛ مسلمانوں کے درمیان اتحاد اور اخوت کا سنہرا موقع- شائع شدہ از:5 اگست 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 5 اگست 2025ء
  10. وحدت مسلمین ایک حربہ نہیں بلکہ ایک قرآنی اصول ہے۔ امام خامنہ ای- شائع شدہ از: 16 ستمبر 2024ء- اخذ شدہ 7 ستمبر 2025ء
  11. تحریر: شبیر احمد شگری
  12. ہفتہ وحدت، اُمت مسلمہ کے اتحاد کا عملی نسخہ- شائع شدہ از: 7 ستمبر 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 7 ستمبر 2025ء

[[زمرہ: عالمی اسمبلی برائے تقریب مذاهب اسلامی]]