مندرجات کا رخ کریں

"محمود شلتوت" کے نسخوں کے درمیان فرق

ویکی‌وحدت سے
م Saeedi نے صفحہ مسودہ:محمود شلتوت کو محمود شلتوت کی جانب منتقل کیا
 
(ایک ہی صارف کا 12 درمیانی نسخے نہیں دکھائے گئے)
سطر 37: سطر 37:
شیخ شلتوت کا فتوی  امامیہ اور زیدیہ شیعہ فقہ سے تمام مسلمانوں کی تقلید کے جواز سوال  کے جواب میں تھا ۔ اس  فتوی کو الازہر مصر کے سربراہ اور دارالتّقریب بینَ المذاهبِ الاسلامیہ کے بانیوں میں سے ایک شیخ محمود شلتوت، جو حنفی مذہب کا  فقیہ تھا، جاری کیا گیا۔  یہ فتوی شیعہ امامیہ، شیعہ زیدی اور چار سنی مذاہب کے نمائندوں کی موجودگی میں امام صادق (ع) کی ولادت کے دن جاری کیا گیا تھا۔  
شیخ شلتوت کا فتوی  امامیہ اور زیدیہ شیعہ فقہ سے تمام مسلمانوں کی تقلید کے جواز سوال  کے جواب میں تھا ۔ اس  فتوی کو الازہر مصر کے سربراہ اور دارالتّقریب بینَ المذاهبِ الاسلامیہ کے بانیوں میں سے ایک شیخ محمود شلتوت، جو حنفی مذہب کا  فقیہ تھا، جاری کیا گیا۔  یہ فتوی شیعہ امامیہ، شیعہ زیدی اور چار سنی مذاہب کے نمائندوں کی موجودگی میں امام صادق (ع) کی ولادت کے دن جاری کیا گیا تھا۔  


بعض  کے مطابق ، اس فتوی  کا اجراء محمد  تقی قمی  اور سید  حسین بوروجردی کی پیروی اور کوششوں اور دار التقریب الاسلامیہ  کے قیام کا نتیجہ تھا۔ اس فتوی کے اجراء سے قبل ، سنیوں کو شیعہ فقہ پر عمل کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ کہا جاتا ہے کہ شلوٹ نے وراثت اور طلاق جیسے معاملات پر سنی فقہ پر کچھ شیعہ فقہ کی برتری اور طاقت کے طور پر اس فتوی کو جاری کرنے کے لئے اپنے محرک کا اظہار کیا ہے۔\n\nاس فتویے کا ایک نتیجہ مصر کی الازہر یونیورسٹی میں شیعہ فقہ اور فقہ کی تعلیم تھا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ فتوی نے سعودی عرب میں سلفیوں کے سلوک پر گہرا اثر ڈالا ، جو شیعوں کے کافر سمجھتے تھے۔
بعض  کے مطابق ، اس فتوی  کا اجراء محمد  تقی قمی  اور سید  حسین بروجردی کی پیروی اور کوششوں اور دار التقریب الاسلامیہ  کے قیام کا نتیجہ تھا۔ اس فتوی کے اجراء سے قبل ، سنیوں کو شیعہ فقہ پر عمل کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ کہا جاتا ہے کہ شلتوت نے وراثت اور طلاق جیسے معاملات پر سنی فقہ پر شیعہ فقہ کی دلائل برتری اور قوت کی بنیاد پر اپنے فتوی کو جاری کرنے کے  محرکات میں سے بیان کیا ہے۔  
   
سعیدی, [۲۳.۰۵.۲۵ ۰۰:۲۷]
متن ESTEFA\n\nشیلٹ سے ایسٹفا کے ذریعہ ترجمہ کیا گیا:\n\nکچھ لوگوں کا خیال ہے کہ مسلمانوں کو اس کی عبادت اور لین دین کے مطابق ہونے کے ل he ، اسے مشہور چار مذاہب میں سے ایک پر عمل کرنا چاہئے ، اور ان میں کوئی شیعہ امامیہ اور زیدیہ مذہب نہیں ہے۔ کیا آپ عام طور پر اس ووٹ سے اتفاق کرتے ہیں اور شیعہ امامیہ کی تقلید کی اجازت نہیں دیتے ہیں؟\n\nمحمود شالوتوٹ میں ، یہ کہا جاتا ہے کہ کچھ کا خیال ہے کہ مذہبی فرائض کو صحیح طریقے سے انجام دینے کے لئے سنی مذہبی مذہب کی تقلید کی جانی چاہئے ، اور یہ کہ شیعہ امامیہ اور زیدیہ مذہب ان مذاہب میں شامل نہیں ہے۔ سائل شیخ محمود شلوٹ کے مذاہب جیسے شیعہ امامیہ اور زیدیاہ کی تقلید کے بارے میں نظریہ تلاش کرتا ہے۔ فتوی کے جواب میں ، شلوٹ کا کہنا ہے کہ اسلام کسی خاص مذہب کی تعمیل پر غور نہیں کرتا ہے اور یہ کہ کوئی بھی مسلمان کسی بھی مذاہب کی تقلید کرسکتا ہے جو صحیح ہیں۔ وہ اس بات پر زور دیتا ہے کہ دوسرے سنی مذاہب کی طرح بارہ شیعہ مذاہب کی بھی تقلید جائز ہے ، اور یہ کہ مسلمان کو کچھ مذاہب میں تعصب سے بچنا چاہئے۔\n\nشیٹ نے اعتراف جرم اور فتویوا کا متن لکھا اور آرکائیو کے لئے الیمازاہبی الاسلامیہ کے ایڈیٹر ، محمد تقسی کوومی کو بھیجا۔ اس متن کی تختی پر محمد تگھی قمی نے ہادی میلانی کو سیئڈ پر دستخط کیے تھے اور اسے آسٹن کوڈس رزوی میں رکھا گیا تھا۔


سعیدی, [۲۳.۰۵.۲۵ ۰۰:۲۸]
اس فتوی کا ایک نتیجہ مصر کی الازہر یونیورسٹی میں شیعہ فقہ اور تقابلی فقہ کی تعلیم ہے۔  یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس فتوی نے سعودی عرب میں سلفیوں کے سلوک اور رفتار پر گہرا اثر ڈالا ، جو شیعوں کے کافر سمجھتے تھے۔
رد عمل\n\nفتووا کی رہائی کے بعد اس کی تصدیق یا اسے مسترد کرنے کے لئے رد عمل کیا گیا تھا:\n\nفتووا کی تصدیق میں رد عمل\n\n• قریب کی اسمبلی کے سربراہ محمد العاباہی نے شیعہ فقہ کے ثبوت کی تصدیق میں ایک مضمون لکھ کر فتویوا کی حمایت کی۔\n\n• محمد الیرقویوی نے \


سعیدی, [۲۳.۰۵.۲۵ ۰۰:۲۹]
== استفتاء کا ترجمہ ==
فتوی کی سمت میں رد عمل\n\n• الازہار میں فتویوا اور شیخ حنبالی کے سربراہ شیخ عبد الطیف الساباکی نے ایک مضبوط مضمون میں شیعوں اور سنیوں کے مابین قریب ہونے پر حملہ کیا ، اور اسے یکطرفہ اور صرف سنیوں کے ذریعہ قرار دیا۔\n\n• یوسف القوروری نے عام طور پر اس فتویے کے اجراء سے انکار کیا۔ اس فتووا کی وجہ شیلوٹ کی کتابوں میں ہے۔ اس کے برعکس ، محمد ہاسن ، کسی وجہ سے ، کسی وجہ سے ، جیسے شیلوٹ کے فتویوا کے مرحوم فتویوا کے ساتھ ساتھ نخشی نیٹ ورک میں مصری مفتی کے \
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ [[مسلمان|مسلمانوں]] کو اس کی عبادت اور لین دین صحیح  ہونے کے لیے، اسے مشہور چار مذاہب میں سے ایک پر عمل کرنا چاہئے ، اور ان میں شیعہ امامیہ اور زیدیہ مذہب نہیں ہے۔ کیا آپ کلی  طور پر اس سے اتفاق کرتے ہیں اور شیعہ امامیہ کی تقلید کی اجازت نہیں دیتے ہیں؟
 
شیخ محمود شلتوت کے استفتاء میں بیان کیا گیا ہے کہ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ تکالیف دینی اور شرعی  کو صحیح طریقے سے انجام دینے کے لئے سنی مذہبی مذہب کی تقلید کی جانی چاہئے ، اور یہ کہ شیعہ امامیہ اور زیدیہ مذہب ان مذاہب میں شامل نہیں ہے۔ سائل  شیخ  محمود شلتوت کے مذاہب جیسے شیعہ امامیہ اور زیدیہ کی تقلید کے بارے میں ان کا نظریہ جاننا چا ہے۔
 
استفتاء اور سوال  کے جواب میں ، شیخ شلتوت  کا کہنا ہے کہ [[اسلام]] کسی خاص مذہب کی پیروی کو واجب قرار نہیں دیتا ہے اور یہ کہ کوئی بھی مسلمان کسی بھی مذاہب کی تقلید کرسکتا ہے جو صحیح ہو۔ وہ اس بات پر زور دیتا ہے کہ دوسرے سنی مذاہب کی طرح بارہ شیعہ مذاہب کی بھی تقلید جائز ہے اور یہ کہ مسلمان کو کچھ مذاہب میں تعصب سے  پرہیز کرنا چاہئے۔
 
شلتوت نے استفتاء اور فتوی  کا متن لکھا اور آرکائیو کے لئے التقریب بین المذاہب الاسلامیہ  کے ایڈیٹر ، محمد تقی قمی  کو بھیجا۔ اس متن کی تختی کو شیخ شلتوت کے دستخط کے ساتھ  محمد تقی قمی نے ہادی میلانی کا سپرد کیا گیا  اور اسے آستان قدس رضوی میں رکھا گیا ہے۔
 
== شیخ شلتوت کا فتوی==
اس فتوی کو 17 ربیع الاول 1378ھ / 1959ء کو جاری کیا گیا تھا۔ اس  فتویٰ میں شیخ محمود شلتوت نے مکتب شیعہ جعفریہ پر عمل کرنے کو جائز قرار دیا، اسے ایک اسلامی مکتب تسلیم کیا، جو سنّی مسالک (حنفی، مالکی، شافعی اور حنبلی) کی طرح ایک معتبر مسلک ہے۔ شلتوت دار التقریب بین المذاہب الاسلامیۃ کے بانی ارکان میں سے تھے، جو سنّی اور شیعہ کے درمیان اتحاد و تقارب کے لیے کام کرتی تھی۔
== فتوی کا متن ==
'''1۔''' [[اسلام]] کسی بھی [[مسلمان]] پر کسی خاص مسلک کی پیروی لازم نہیں کرتا۔ بلکہ ہم یہ کہتے ہیں کہ ہر مسلمان کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ شروع میں ان مسالک میں سے کسی بھی مسلک کی تقلید کرے جو صحیح طریقے سے منقول ہیں اور جن کے احکام ان کی مخصوص کتب میں مدون ہیں۔ اور جس نے کسی ایک مسلک کی تقلید کی ہو، اسے یہ بھی حق حاصل ہے کہ وہ کسی دوسرے مسلک کی طرف منتقل ہو جائے، چاہے وہ کوئی بھی مسلک ہو اور اس میں کوئی حرج نہیں۔
 
'''2۔''' مذہب جعفریہ ، جو امامیہ اثنا عشریہ کے نام سے معروف ہے، شرعاً اس پر عمل کرنا دیگر اہل سنت کے مسالک کی طرح جائز ہے۔ مسلمانوں  کو چاہیے کہ وہ اس بات کو سمجھیں اور کسی خاص مسلک کے لیے بے جا تعصب سے اجتناب کریں۔ دینِ الٰہی اور اس کی شریعت کسی ایک مسلک کے تابع یا اس پر محدود نہیں۔
 
تمام مجتہدین اللہ کے ہاں مقبول ہیں اور جو افراد اجتہاد کی صلاحیت نہیں رکھتے، ان کے لیے ان مجتہدین کی تقلید کرنا اور ان کے فقہ کے مطابق عمل کرنا جائز ہے۔ یہ حکم عبادات اور معاملات دونوں کے لیے یکساں ہے۔
 
== رد عمل ==
=== فتوی کی تائید میں رد عمل ===
اہل سنت عالم دین محمد الغزالی نے اس فتویٰ پر تبصرہ کیا اور اپنی کتاب "دفاع عن العقیدہ والشریعہ" میں تقریب کے مسئلے پر گفتگو کرتے ہوئے کہا: "مجھے یقین ہے کہ شیخ محمود شلتوت کا یہ فتویٰ اس راہ میں ایک وسیع قدم ہے، یہ اہلِ سنت اور تمام اہلِ علم کی خالص کوششوں کا تسلسل ہے اور ان مستشرقین کے گمان کی تردید ہے جو یہ توقع رکھتے ہیں کہ نفرتیں اس امت کو تباہ کر دیں گی اس سے پہلے کہ اس کے صفوف ایک پرچم کے تحت جمع ہوں۔ یہ فتویٰ میری نظر میں راستے کی شروعات ہے اور عمل کا پہلا قدم۔"
=== مخالفت ===
سنی عالم دین [[یوسف القرضاوی]] نے اس فتویٰ کے شیخ محمود شلتوت کی جانب سے صادر ہونے پر شک ظاہر کیا۔ انھوں نے کہا:" شیخ شلتوت کا علمی ورثہ میرے لیے سب سے زیادہ معروف ہے... میں نے اپنی پوری زندگی میں یہ فتویٰ نہ دیکھا اور نہ اس کے بارے میں سنا۔"
 
اس فتویٰ کے خلاف کئی علما نے اعتراض کیا، جن میں شیخ محمد حسنین مخلوف، شیخ عبد اللطیف السبکی (رئیس کمیٹی برائے فتویٰ اور شیخ الحنابلہ بالأزہر) اور شیخ محمد عرفہ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ، دیگر غیر ازہری علما نے بھی اس فتویٰ کی مخالفت کی<ref>[https://www.khabaronline.ir/news/1960376/%D9%81%D8%AA%D9%88%D8%A7%DB%8C-%D8%B4%DB%8C%D8%AE-%D9%85%D8%AD%D9%85%D9%88%D8%AF-%D8%B4%D9%84%D8%AA%D9%88%D8%AA-%D8%B1%D9%88%D8%AD%D8%A7%D9%86%DB%8C-%D8%B3%D9%86%DB%8C-%D8%AF%D8%B1%D8%A8%D8%A7%D8%B1%D9%87-%D8%B9%D9%85%D9%84-%D8%A8%D9%87-%D9%81%D9%82%D9%87-%D8%B4%DB%8C%D8%B9%D9%87 فتوای شیخ محمود شلتوت، روحانی سنی درباره عمل به فقه شیعه](شیعہ فقہ پر عمل کرنے کے بارے میں سنی عالم دین شیخ شلتوت کا فتوی)- شائع شدہ از: 2 مہر 1403ش- اخذ شدہ بہ تاریخ: 23 مئی 2025ء</ref>۔
 
== اسرائیل کے قیام رد عمل ==
[[اسرائیل|اسرائيل]] کو رسميت ديناامريکہ اور انگلينڈ کي مسلسل کوششوں کے نتيجہ ميں ٨٩١٣٢٦ ش مطابق ٢٩ نومبر ١٩٤٧ء ميں اقوام متحدہ نے [[فلسطین|فلسطين]] کو دوحصوں ميں تقسيم کرنے کي پاليسي پاس کردي جس کي وجہ سے فلسطين کا ايک حصہ يہوديوں کے نام اور دوسرا حصہ فلسطينيوں کے نام کردياگيا، اسي کے پانچ مہينہ کے بعد اسرائيلي حکومت کا قيام عمل ميں آيا۔
 
اور اس کے وجود ميں آتے ہي بعض ملکوں نے اسے رسميت دے دي۔ محمد رضاشاہ جو امريکہ اور انگلينڈ کا سراپا غلام تھا اور اپني بقا کوانہيں کي نوکري ميں سمجھتا تھا ، اسرائيل کو تسلیم کرتے ہوئے [[بیت المقدس|بيت المقدس]] ميں سفارت خانہ کھول ديا، اس خبر کے نشر ہوتے ہي ايران کے تمام علما اور بيرون ملک رہنے والے تمام علما نے اس اقدام پر بڑا سخت اعتراض کيا ، اس وقت کے مذہبي رہبر آيۃ اللہ کاشاني نے اس اقدام کي رد ميں ايک سخت تقرير کي۔
== آیت اللہ بروجردي کے نام ٹيلي گراف ==
عربي ممالک نے بھي شاہ [[ایران|ايران]] کو بڑا برا بھلا کہا اور علمائے اسلام سخت احتجاج کیا۔شيخ محمود شلتوت نے بھي اسرائيل سے اسلامي ممالک کے روابط کو ٹھکراتے ہوئے شاہ ايران کي مذمت کي اور اس سلسلہ ميں آيۃ اللہ بروجردي کے نام ٹيلي گراف روانہ کيا۔ٹيلي گراف کا متن يہ ہے:
بسم اللہ الرحمن الرحيم
 
خدا کا درودو سلام ہو ہمارے تمام بھائيوں اور آپ کے بھائيوں اور ايران کے شفيق علما پرنيز ان لوگوں پر بھي ہو جو مدافع اسلام اور مسلمانوں کي يکجہتي کے نگہبان ہيں، امابعد: يہ مسلم ہے کہ جناب عالي اور تمام لوگوں نے وہ اندوہناک خبرسني ہوگي جو آج کل منتشر ہوئي ہے اور يہ بھي سنا ہوگا کہ شاہ ايران نے اس اسرائيل کو تسلیم کرلیا ہے جس نے سرزمين فلسطين پر غاصبانہ قبضہ کيا ہے۔
 
وہاں کے لوگوں کو بے گھر اوران کے حقوق کو غصب کیا ہے۔يہ دنيا کے مسلمانوں کے لئے بڑے افسوس کا مقام ہے کہ وہ بادشاہ جو خود بھي مسلمان اورا سکي قوم بھي مسلمان ہے وہ مسلمانوں کے دشمن کي حمايت کررہا ہے اور ان کي طرف دست دوستي بڑھا رہا ہے ، ميں نے دو مرتبہ شاہ کے لئے ٹيلي گراف روانہ کيا ہے اور يہ بات گوش گذار کردي ہے کہ يہ اقدام ان لوگوں کے لئے ايک بہانہ بن جائے گا جو ان روابط کو ختم کرنا چاہتے ہيں جسے ہم محکم بنا نا چاہتے ہيں۔
 
يقينا آپ بھي اس اقدام سے متاثر ہوں گے اور اس کي مذمت کرنے کے لئے شدت سے کوشش کريں گے اور يقينا آپ کا کوشش کرنا اچھے نتائج کا حامل ہوگا ، آپ کے جواب کا منتظر ، والسلام عليکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہآپ کا بھائي محمود شلتوت ، شيخ الازہر <ref>بي آزار شيرازي ، ١٣٧٩ش ص٢٦٢</ref>۔
 
ليکن افسوس يہ ہے کہ يہ ٹيلي گراف اس وقت قم پہنچا کہ جب آيۃ اللہ بروجردي بستر بيماري پر تھے اور اسي بيماري ميں رحلت فرماگئے ، اس واقعہ سے شيخ شلتوت اپنے و ظيفہ سے دست بردار نہيں ہوئے بلکہ ايک دوسرا خط آيۃ اللہ العظميٰ محسن حکيم اعلي اللہ مقامہ( متوفي ١٣٩٠ق ) کو لکھا اور ان سے درخواست کي کہ اس کے متعلق کوئي اقدام کريں<ref>[https://shiastudies.com/ur/56/%D8%B4%D9%8A%D8%AE-%D9%85%D8%AD%D9%85%D9%88%D8%AF-%D8%B4%D9%84%D8%AA%D9%88%D8%AA/ شيخ محمود شلتوت]- شائع شدہ از: 26 مارچ 2018ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 23 مئی 2025ء</ref>۔
 
== ان دوںوں خطوط کی اہمیت ==
شيخ محمود شلتوت کي طرف سے لکھے گئے يہ دونوں خط چند اہم نکات کے حامل ہيں:
 
'''1۔''' سر زمين قدس کو آزاد کرانے کے لئے سعي و کوشش کرنا۔
 
'''2۔''' ان لوگوں سے مقابلہ کرنا جو کسي بھي طرح سے اسرائيل کي حمايت کرنا چاہتے ہيں۔
 
'''3۔''' علمائے تشيع کے ساتھ گہرا رابطہ جسے آپ کے خطوط ميں بخوبي ملاحظہ کيا جاسکتا ہے۔
 
'''4۔''' شيعہ علمائ سے مسلسل ان تمام مسائل ميں مشورہ لينا کہ جو دنيا کے مسلمانوں سے متعلق ہيں۔جب يہ ٹيلي گراف آيۃ اللہ العظميٰ سيد محسن الحکيم اعلي اللہ مقامہ کو ملا تو فوراً آپ نے تہران ميں مقيم آيت اللہ سيد علي بہبہاني کے نام ايک ٹيلي گراف روانہ کيا اور انہيں اس ماجرا سے باخبر کيا اور آيت اللہ بہبہاني کے نام ايک ٹيلي گراف روانہ کيا اور انہيں اس ماجرے سے باخبر کيا اور آيت اللہ بہبہاني نے بھي علمائے اسلام کي ناراضگي کو شاہ کے سامنے بيان کرديا۔اتحاد کی کوشش۔
 
اس ميں کوئي شک نہيں ہے کہ ، شيخ محمود شلتوت کا شمار کم نظير علما سے ہوتا ہے جنہوں نے اسلامي اتحاد کے لئے ايک خاص اہتمام کيا ، ان کي نظر ميں وحدت کے تحقق کے لئے ايک ايسے مشترکہ نقطہ نظرکو حاصل کرنا ضروري ہے جس پر تمام مذاہب اسلامي متفق ہوں اور تمام مذاہب اسلامي کے درميان مشترکہ نقطہ قرآن کريم ہے۔
 
اس سلسلہ ميں شيخ شلتوت فرماتے ہيں: "اسلام نے لوگوں کو اتحاد کي دعوت دي اور وہ چيز کہ جس سے مسلمان تمسک کرسکيں اور اسکے گرد اکٹھا ہوسکيں اسے حبل اللہ کي صورت ميں پيش کيا ، يہ نکتہ قرآن کي بے شمار آيتوں ميں ملاحظہ کيا جاسکتا ہے اور ہر ايک سے زيادہ سورہ آل عمران کي اس آيت ميں واضح و وروشن ہے جس ميں خدا فرماتا ہے :" وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا" <ref>آل عمران، آیہ 103</ref>۔ ؛خدا نے ہر قسم کے تفرقہ اور اختلاف سے منع کيا ہے جو تعصب کي بنا پر وجود ميں آنے والے تفرقہ کو بھي شامل ہے ، حديث صحيح ميں وارد ہوا ہے : ” لاعصبيۃ في الاسلام” دين اسلام ميں کوئي تعصب نہيں ہے <ref>روزنامہ جمہوري اسلامي ،١٩١٠٧٩ ويژہ نامہ ص٩</ref>۔
== شیخ شلتوت اور وحدت کی کاوش ==
جامعہ الازھر کے شیخ محمود شلتوت نے وحدت مسلمین کے حوالے سے انقلابی کاوش کی اور فتوی دیا تھا کہ شیعه مسلک بھی دیگر اہل سنت مکاتیب کی طرح قابل احترام ہے۔
 
ایکنا نیوز کے مطابق مصری عالم «شیخ محمود شلتوت»، ۱۲۷۲ ہجری شمسی کو مصر کے صوبہ«بحیره» میں پیدا ہوئے اور انکے والد «شیخ محمد شلتوت» بہت جلد دنیا سے رخصت ہوئے لہذا آپ نے اپنے چچا شیخ عبدالقوی شلتوت کی سپرستی میں پروش پائی اور پھر جلد وہ حافظ قران بنے۔
 
شیخ محمود شلتوت جب سترہ سال کے تھے انہوں نے اسکندریہ یونیورسٹی کا رخ کیا اور ۲۵ سال کی عمر میں یونیورسٹی سے فارغ التحصل ہوئے۔
مصر میں انقلاب کے ساتھ وہ «سعد زغلول» کی سربراہی میں انقلابیوں سے جا ملے۔
 
شیخ شلتوت نے تفسیر قران، فقہ اور دیگر علوم میں کافی کتابیں لکھی اور انکی تفسیرکو کافی شہرت ملی۔
شیخ محمود شلتوت نے «الازهر» کی صدارت سے قبل اور بعد میں مسلمانوں میں اتحاد کی کافی کوشش کی اور اس حوالے سے انقلابی اقدامات کیے جس میں شیعوں کے حوالے سے انکا فتوی شامل ہے کہ شیعہ مکتب دیگر مسالک کی طرح ہی قابل احترام و قابل توجہ ہے۔
 
انہوں نے اعلان کیا: جعفری مذهب کی پیروی اہل سنت کے لیے بالکل جایز ہے اور اس حوالے سے بیجا تعصب جایز نہیں۔
شیخ محمود شلتوت نے الازھر یونیورسٹی میں «فقه مقارن» یا عصر حاضر کی شریعت کے عنوان سے شعبہ قایم کیا، انکا خیال تھا کہ مسلم مفتی اور مراجع کو تعصبات اور خواہشات سے پاک ہونا چاہیے۔
 
سیاسی میدان میں شیخ محمود شلتوت سرگرم رہے اور جب ایران کے شاہ نے صیھونی رژیم کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا تو شیخ محمود شلتوت نے آیت اللہ بروجردی کو خط لکھ کر اس حوالے سے اعتراض کیا تھا۔
 
شیخ شلتوت نے ۱۳۴۲ ہجری شمسی کو ایران میں امام خمینی کی گرفتاری اور ایرانی مظاہرین عوام پر تشدد پر اعتراض کیا اور اسلامی علما سے ایرانی مجاہدین کی حمایت کی درخواست کی۔
اسلامی وحدت کے علمبردار مرحوم شیخ محمود شلتوت ستّر سال کی عمر میں ۱۳۴۲ ہجری شمسی کو قاہرہ میں انتقال کرگیے<ref>[https://iqna.ir/ur/news/3510532/%D9%81%D9%84%D9%85-%7C-%D8%B4%DB%8C%D8%AE-%D8%B4%D9%84%D8%AA%D9%88%D8%AA-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D9%88%D8%AD%D8%AF%D8%AA-%DA%A9%DB%8C-%DA%A9%D8%A7%D9%88%D8%B4 شیخ شلتوت اور وحدت کی کاوش]- شائع شدہ از: 30 اکتوبر 2021ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 23 مئی 2025ء</ref>۔


== دارالتقریب بین المذاہب الاسلامیہ کا قیام ==
== دارالتقریب بین المذاہب الاسلامیہ کا قیام ==
سطر 84: سطر 152:
* تفسير القرآن الكريم (الأجزاء العشرة الأولى)
* تفسير القرآن الكريم (الأجزاء العشرة الأولى)
{{اختتام}}
{{اختتام}}
== وفات ==
== وفات ==
شیخ محمود  کا انتقال جمعہ کی رات (اسراء و معراج کی رات) کی شام قاہرہ میں ہوا اور 1383ھ مطابق رجب المرجب کی ستائیسویں تاریخ دسمبر 1963ء کو آپ کی نماز جنازہ ادا کی۔
شیخ محمود  کا انتقال جمعہ کی رات (اسراء و معراج کی رات) کی شام قاہرہ میں ہوا اور 1383ھ مطابق رجب المرجب کی ستائیسویں تاریخ دسمبر 1963ء کو آپ کی نماز جنازہ ادا کی۔

حالیہ نسخہ بمطابق 11:20، 23 مئی 2025ء

محمود شلتوت
دوسرے نامشیخ محمود شلتوت
ذاتی معلومات
پیدائش1310 ق، 1893 ء، 1272 ش
پیدائش کی جگہمصر
وفات1383 ق، 1964 ء، 1343 ش
وفات کی جگہقاہرہ
اساتذہمحمد عبده، عبدالمجید سلیم
شاگردشیخ محمود عاشو
مذہباسلام، سنی
اثراتتفسیر قرآن کریم، مقارنة المذاهب فی الفقه ، فقه القرآن

محمود شلتوت مصر کے اہل سنت سے تعلق رکھنے والےعالم دین، اسلامی اسکالر اور الازہر یونیورسٹی کا شیخ اور سربراہ تھا۔ انہوں نے 1918ء میں بین الاقوامی ڈگری حاصل کی۔ شیخ محمود کا تقرر اداروں میں استاد کے طور پر ہوا، پھر اعلیٰ شعبہ میں، پھر تخصص کے شعبوں میں استاد، پھر کالج آف شریعہ کے ڈپٹی ڈائریکٹر، پھر سینئر علما کے گروپ کا رکن، پھر جامعہ الازہر کے شیخ 1958ء کے طور پر خدمات سر انجام دیں تھے۔ وہ 1946ء میں عربی لینگویج اکیڈمی کے رکن تھے اور سب سے پہلے عظیم امام کا خطاب حاصل کرنے والے اور تقریب بین المذاہب کے داعیوں میں سے تھے۔

سوانح عمری

شیخ محمود شلتوت 1893ء میں مصر کی بحیرہ گورنری میں اطیع برود مرکز سے وابستہ منیات بنی منصور میں پیدا ہوئے۔ اس نے جوانی میں ہی قرآن پاک حفظ کر لیا تھا۔ اسکندریہ انسٹی ٹیوٹ میں داخل ہوئے اور پھر الازہر کالجوں میں داخلہ لیا۔ انہوں نے 1918ء میں الازہر سے بین الاقوامی سند حاصل کی۔ وہ 1919ء میں اسکندریہ انسٹی ٹیوٹ میں بطور استاد مقرر ہوئے۔

انہوں نے 1919ء کے انقلاب میں اپنے قلم، زبان اور دلیری سے حصہ لیا۔ شیخ محمد مصطفی مراغی نے ان کے علم کی وسعت کی وجہ سے انھیں اعلیٰ محکمے میں منتقل کر دیا۔ محمود شلتوت نے الازہر کی اصلاحی تحریک کی حمایت کی، انہیں بطور وکیل اپنے عہدے سے برطرف کر دیا گیا اور پھر 1935ء میں الازہر واپس آ گئے۔

تعلیم

شیخ محمد شلتوت ١٨٩٣ء میں علم وتمدن کی سرزمین مصر کے ایک مذہبی، علمی اور ادبی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ باپ کا سایہ بچپن ہی میں سر سے اٹھ گیا اور ماں کی آغوش تربیت میں پروان چڑھتے رہے۔ ابتدائی تعلیم گھر ہی پر حاصل کی اور اعلی تعلیم کیلئے ”اسکندریہ یونیورسٹی” میں داخل ہوئے۔ ١٢ سال تک تعلیم حاصل کرتے رہے اور ١٩١٨ء میں ممتاز حیثیت کے ساتھ فارغ التحصیل ہوئے اور ١٩١٩ء میں ممتاز حیثیت کے ساتھ فارغ التحصیل ہوئے اور ١٩١٩ء سے ١٩٣٨ء تک تک یہیں تدریس کے فرائض بھی انجام دیتے رہے۔

١٩٣٩ء میں مصر کی معروف درسگاہ اور عالم اسلام کے عظیم اسلامی مرکز یعنی ”جامعة الازھر” کے سرپرست علامہ شیخ مصطفی مراغی نے آپ کو ”جامعة الازھر” میں پڑھانے کی پیشکش کی جسے آپ نے خوشی سے قبول کر لیا اور پھر ١٩٥٨ء میں علامہ مراغی کی وفات کے بعد آپ کو اس مایہ ناز درسگاہ کے سرپرست کے طور پر منتخب کیا گیا۔

تاریخی فتوی

مذہب جعفریہ کی پیروی کی جا سکتی ہے۔ جامعہ الازہر مصر کے بزرگ عالم دین شیخ محمود شلتوت نے فقہ حنفی، فقہ شافعی، فقہ مالکی اور فقہ حنبلی کے ساتھ فقہ جعفریہ پر عمل کو درست قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ شیعت اپنے کردار، اقدار اور عالمی سیاسی دینی قائدین کے عنوان سے اعلٰی حیثیت کا حامل مکتب ہے، جبکہ استعماری ایجنٹوں کی کوشش یہ ہے کہ مسلمانوں کے درمیان شیعہ، سنی اختلافات کو ہوا دی جائے۔ لہٰذا بعض لوگ جنکی مذہب شیعہ اور اہل سنت میں کوئی حیثیت ہی نہیں مناظرہ کیلئے ایک دوسرے کو للکارتے ہوئے نظر آتے ہیں[1]۔

اس فتوی کی وجہ سنی فقہ سے شیعہ فقہ کا ادلہ محکم اور قوی ہونا بیان کیا گیا۔ یہ 17 ربیع الاول ۱۳۷۸ق کو فتوی شیعہ امامیہ ، شیعہ زیدیہ اور چار سنی مذاہب کے نمائندوں کی موجودگی میں ، امام صادق (ع) کی ولادت کے دن جاری کیا گیا تھا۔ اس فتوی کا ایک نتیجہ الازہر یونیورسٹی میں شیعہ فقہ اور فقہ مقارن کی تدریس اور تعلیم تھا۔

اس فتوی کا شیعوں پر کفر کا فتوی لگانے والے افراد پر گہرا اثر پڑا۔ شیخ شلتوت کے فتوی کو کچھ سنی علماء جیسے اخوان المسلمین کے سربراہ محمد اَلغزالی اور الازہر کے سابق صدر کے سربراہ محمد الفحام نے سراہا اور ان کی حوصلہ افزائی کی۔ کچھ علماء ، جیسے عبداللطیف السُّبکی و ابوالوفاء کریستانی نے اس پر تنقید کی۔ یوسف القرضاوی ، سنی عالم دین اور شلتوت کی کچھ کتابوں کے جمع کرنے والے ، نے اس فتویے کے اجراء سے انکار کیا۔

فتوی کی اہمیت

شیخ شلتوت کا فتوی امامیہ اور زیدیہ شیعہ فقہ سے تمام مسلمانوں کی تقلید کے جواز سوال کے جواب میں تھا ۔ اس فتوی کو الازہر مصر کے سربراہ اور دارالتّقریب بینَ المذاهبِ الاسلامیہ کے بانیوں میں سے ایک شیخ محمود شلتوت، جو حنفی مذہب کا فقیہ تھا، جاری کیا گیا۔ یہ فتوی شیعہ امامیہ، شیعہ زیدی اور چار سنی مذاہب کے نمائندوں کی موجودگی میں امام صادق (ع) کی ولادت کے دن جاری کیا گیا تھا۔

بعض کے مطابق ، اس فتوی کا اجراء محمد تقی قمی اور سید حسین بروجردی کی پیروی اور کوششوں اور دار التقریب الاسلامیہ کے قیام کا نتیجہ تھا۔ اس فتوی کے اجراء سے قبل ، سنیوں کو شیعہ فقہ پر عمل کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ کہا جاتا ہے کہ شلتوت نے وراثت اور طلاق جیسے معاملات پر سنی فقہ پر شیعہ فقہ کی دلائل برتری اور قوت کی بنیاد پر اپنے فتوی کو جاری کرنے کے محرکات میں سے بیان کیا ہے۔

اس فتوی کا ایک نتیجہ مصر کی الازہر یونیورسٹی میں شیعہ فقہ اور تقابلی فقہ کی تعلیم ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس فتوی نے سعودی عرب میں سلفیوں کے سلوک اور رفتار پر گہرا اثر ڈالا ، جو شیعوں کے کافر سمجھتے تھے۔

استفتاء کا ترجمہ

کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ مسلمانوں کو اس کی عبادت اور لین دین صحیح ہونے کے لیے، اسے مشہور چار مذاہب میں سے ایک پر عمل کرنا چاہئے ، اور ان میں شیعہ امامیہ اور زیدیہ مذہب نہیں ہے۔ کیا آپ کلی طور پر اس سے اتفاق کرتے ہیں اور شیعہ امامیہ کی تقلید کی اجازت نہیں دیتے ہیں؟

شیخ محمود شلتوت کے استفتاء میں بیان کیا گیا ہے کہ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ تکالیف دینی اور شرعی کو صحیح طریقے سے انجام دینے کے لئے سنی مذہبی مذہب کی تقلید کی جانی چاہئے ، اور یہ کہ شیعہ امامیہ اور زیدیہ مذہب ان مذاہب میں شامل نہیں ہے۔ سائل شیخ محمود شلتوت کے مذاہب جیسے شیعہ امامیہ اور زیدیہ کی تقلید کے بارے میں ان کا نظریہ جاننا چا ہے۔

استفتاء اور سوال کے جواب میں ، شیخ شلتوت کا کہنا ہے کہ اسلام کسی خاص مذہب کی پیروی کو واجب قرار نہیں دیتا ہے اور یہ کہ کوئی بھی مسلمان کسی بھی مذاہب کی تقلید کرسکتا ہے جو صحیح ہو۔ وہ اس بات پر زور دیتا ہے کہ دوسرے سنی مذاہب کی طرح بارہ شیعہ مذاہب کی بھی تقلید جائز ہے اور یہ کہ مسلمان کو کچھ مذاہب میں تعصب سے پرہیز کرنا چاہئے۔

شلتوت نے استفتاء اور فتوی کا متن لکھا اور آرکائیو کے لئے التقریب بین المذاہب الاسلامیہ کے ایڈیٹر ، محمد تقی قمی کو بھیجا۔ اس متن کی تختی کو شیخ شلتوت کے دستخط کے ساتھ محمد تقی قمی نے ہادی میلانی کا سپرد کیا گیا اور اسے آستان قدس رضوی میں رکھا گیا ہے۔

شیخ شلتوت کا فتوی

اس فتوی کو 17 ربیع الاول 1378ھ / 1959ء کو جاری کیا گیا تھا۔ اس فتویٰ میں شیخ محمود شلتوت نے مکتب شیعہ جعفریہ پر عمل کرنے کو جائز قرار دیا، اسے ایک اسلامی مکتب تسلیم کیا، جو سنّی مسالک (حنفی، مالکی، شافعی اور حنبلی) کی طرح ایک معتبر مسلک ہے۔ شلتوت دار التقریب بین المذاہب الاسلامیۃ کے بانی ارکان میں سے تھے، جو سنّی اور شیعہ کے درمیان اتحاد و تقارب کے لیے کام کرتی تھی۔

فتوی کا متن

اسلام کسی بھی مسلمان پر کسی خاص مسلک کی پیروی لازم نہیں کرتا۔ بلکہ ہم یہ کہتے ہیں کہ ہر مسلمان کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ شروع میں ان مسالک میں سے کسی بھی مسلک کی تقلید کرے جو صحیح طریقے سے منقول ہیں اور جن کے احکام ان کی مخصوص کتب میں مدون ہیں۔ اور جس نے کسی ایک مسلک کی تقلید کی ہو، اسے یہ بھی حق حاصل ہے کہ وہ کسی دوسرے مسلک کی طرف منتقل ہو جائے، چاہے وہ کوئی بھی مسلک ہو اور اس میں کوئی حرج نہیں۔

مذہب جعفریہ ، جو امامیہ اثنا عشریہ کے نام سے معروف ہے، شرعاً اس پر عمل کرنا دیگر اہل سنت کے مسالک کی طرح جائز ہے۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اس بات کو سمجھیں اور کسی خاص مسلک کے لیے بے جا تعصب سے اجتناب کریں۔ دینِ الٰہی اور اس کی شریعت کسی ایک مسلک کے تابع یا اس پر محدود نہیں۔

تمام مجتہدین اللہ کے ہاں مقبول ہیں اور جو افراد اجتہاد کی صلاحیت نہیں رکھتے، ان کے لیے ان مجتہدین کی تقلید کرنا اور ان کے فقہ کے مطابق عمل کرنا جائز ہے۔ یہ حکم عبادات اور معاملات دونوں کے لیے یکساں ہے۔

رد عمل

فتوی کی تائید میں رد عمل

اہل سنت عالم دین محمد الغزالی نے اس فتویٰ پر تبصرہ کیا اور اپنی کتاب "دفاع عن العقیدہ والشریعہ" میں تقریب کے مسئلے پر گفتگو کرتے ہوئے کہا: "مجھے یقین ہے کہ شیخ محمود شلتوت کا یہ فتویٰ اس راہ میں ایک وسیع قدم ہے، یہ اہلِ سنت اور تمام اہلِ علم کی خالص کوششوں کا تسلسل ہے اور ان مستشرقین کے گمان کی تردید ہے جو یہ توقع رکھتے ہیں کہ نفرتیں اس امت کو تباہ کر دیں گی اس سے پہلے کہ اس کے صفوف ایک پرچم کے تحت جمع ہوں۔ یہ فتویٰ میری نظر میں راستے کی شروعات ہے اور عمل کا پہلا قدم۔"

مخالفت

سنی عالم دین یوسف القرضاوی نے اس فتویٰ کے شیخ محمود شلتوت کی جانب سے صادر ہونے پر شک ظاہر کیا۔ انھوں نے کہا:" شیخ شلتوت کا علمی ورثہ میرے لیے سب سے زیادہ معروف ہے... میں نے اپنی پوری زندگی میں یہ فتویٰ نہ دیکھا اور نہ اس کے بارے میں سنا۔"

اس فتویٰ کے خلاف کئی علما نے اعتراض کیا، جن میں شیخ محمد حسنین مخلوف، شیخ عبد اللطیف السبکی (رئیس کمیٹی برائے فتویٰ اور شیخ الحنابلہ بالأزہر) اور شیخ محمد عرفہ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ، دیگر غیر ازہری علما نے بھی اس فتویٰ کی مخالفت کی[2]۔

اسرائیل کے قیام رد عمل

اسرائيل کو رسميت ديناامريکہ اور انگلينڈ کي مسلسل کوششوں کے نتيجہ ميں ٨٩١٣٢٦ ش مطابق ٢٩ نومبر ١٩٤٧ء ميں اقوام متحدہ نے فلسطين کو دوحصوں ميں تقسيم کرنے کي پاليسي پاس کردي جس کي وجہ سے فلسطين کا ايک حصہ يہوديوں کے نام اور دوسرا حصہ فلسطينيوں کے نام کردياگيا، اسي کے پانچ مہينہ کے بعد اسرائيلي حکومت کا قيام عمل ميں آيا۔

اور اس کے وجود ميں آتے ہي بعض ملکوں نے اسے رسميت دے دي۔ محمد رضاشاہ جو امريکہ اور انگلينڈ کا سراپا غلام تھا اور اپني بقا کوانہيں کي نوکري ميں سمجھتا تھا ، اسرائيل کو تسلیم کرتے ہوئے بيت المقدس ميں سفارت خانہ کھول ديا، اس خبر کے نشر ہوتے ہي ايران کے تمام علما اور بيرون ملک رہنے والے تمام علما نے اس اقدام پر بڑا سخت اعتراض کيا ، اس وقت کے مذہبي رہبر آيۃ اللہ کاشاني نے اس اقدام کي رد ميں ايک سخت تقرير کي۔

آیت اللہ بروجردي کے نام ٹيلي گراف

عربي ممالک نے بھي شاہ ايران کو بڑا برا بھلا کہا اور علمائے اسلام سخت احتجاج کیا۔شيخ محمود شلتوت نے بھي اسرائيل سے اسلامي ممالک کے روابط کو ٹھکراتے ہوئے شاہ ايران کي مذمت کي اور اس سلسلہ ميں آيۃ اللہ بروجردي کے نام ٹيلي گراف روانہ کيا۔ٹيلي گراف کا متن يہ ہے: بسم اللہ الرحمن الرحيم

خدا کا درودو سلام ہو ہمارے تمام بھائيوں اور آپ کے بھائيوں اور ايران کے شفيق علما پرنيز ان لوگوں پر بھي ہو جو مدافع اسلام اور مسلمانوں کي يکجہتي کے نگہبان ہيں، امابعد: يہ مسلم ہے کہ جناب عالي اور تمام لوگوں نے وہ اندوہناک خبرسني ہوگي جو آج کل منتشر ہوئي ہے اور يہ بھي سنا ہوگا کہ شاہ ايران نے اس اسرائيل کو تسلیم کرلیا ہے جس نے سرزمين فلسطين پر غاصبانہ قبضہ کيا ہے۔

وہاں کے لوگوں کو بے گھر اوران کے حقوق کو غصب کیا ہے۔يہ دنيا کے مسلمانوں کے لئے بڑے افسوس کا مقام ہے کہ وہ بادشاہ جو خود بھي مسلمان اورا سکي قوم بھي مسلمان ہے وہ مسلمانوں کے دشمن کي حمايت کررہا ہے اور ان کي طرف دست دوستي بڑھا رہا ہے ، ميں نے دو مرتبہ شاہ کے لئے ٹيلي گراف روانہ کيا ہے اور يہ بات گوش گذار کردي ہے کہ يہ اقدام ان لوگوں کے لئے ايک بہانہ بن جائے گا جو ان روابط کو ختم کرنا چاہتے ہيں جسے ہم محکم بنا نا چاہتے ہيں۔

يقينا آپ بھي اس اقدام سے متاثر ہوں گے اور اس کي مذمت کرنے کے لئے شدت سے کوشش کريں گے اور يقينا آپ کا کوشش کرنا اچھے نتائج کا حامل ہوگا ، آپ کے جواب کا منتظر ، والسلام عليکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہآپ کا بھائي محمود شلتوت ، شيخ الازہر [3]۔

ليکن افسوس يہ ہے کہ يہ ٹيلي گراف اس وقت قم پہنچا کہ جب آيۃ اللہ بروجردي بستر بيماري پر تھے اور اسي بيماري ميں رحلت فرماگئے ، اس واقعہ سے شيخ شلتوت اپنے و ظيفہ سے دست بردار نہيں ہوئے بلکہ ايک دوسرا خط آيۃ اللہ العظميٰ محسن حکيم اعلي اللہ مقامہ( متوفي ١٣٩٠ق ) کو لکھا اور ان سے درخواست کي کہ اس کے متعلق کوئي اقدام کريں[4]۔

ان دوںوں خطوط کی اہمیت

شيخ محمود شلتوت کي طرف سے لکھے گئے يہ دونوں خط چند اہم نکات کے حامل ہيں:

سر زمين قدس کو آزاد کرانے کے لئے سعي و کوشش کرنا۔

ان لوگوں سے مقابلہ کرنا جو کسي بھي طرح سے اسرائيل کي حمايت کرنا چاہتے ہيں۔

علمائے تشيع کے ساتھ گہرا رابطہ جسے آپ کے خطوط ميں بخوبي ملاحظہ کيا جاسکتا ہے۔

شيعہ علمائ سے مسلسل ان تمام مسائل ميں مشورہ لينا کہ جو دنيا کے مسلمانوں سے متعلق ہيں۔جب يہ ٹيلي گراف آيۃ اللہ العظميٰ سيد محسن الحکيم اعلي اللہ مقامہ کو ملا تو فوراً آپ نے تہران ميں مقيم آيت اللہ سيد علي بہبہاني کے نام ايک ٹيلي گراف روانہ کيا اور انہيں اس ماجرا سے باخبر کيا اور آيت اللہ بہبہاني کے نام ايک ٹيلي گراف روانہ کيا اور انہيں اس ماجرے سے باخبر کيا اور آيت اللہ بہبہاني نے بھي علمائے اسلام کي ناراضگي کو شاہ کے سامنے بيان کرديا۔اتحاد کی کوشش۔

اس ميں کوئي شک نہيں ہے کہ ، شيخ محمود شلتوت کا شمار کم نظير علما سے ہوتا ہے جنہوں نے اسلامي اتحاد کے لئے ايک خاص اہتمام کيا ، ان کي نظر ميں وحدت کے تحقق کے لئے ايک ايسے مشترکہ نقطہ نظرکو حاصل کرنا ضروري ہے جس پر تمام مذاہب اسلامي متفق ہوں اور تمام مذاہب اسلامي کے درميان مشترکہ نقطہ قرآن کريم ہے۔

اس سلسلہ ميں شيخ شلتوت فرماتے ہيں: "اسلام نے لوگوں کو اتحاد کي دعوت دي اور وہ چيز کہ جس سے مسلمان تمسک کرسکيں اور اسکے گرد اکٹھا ہوسکيں اسے حبل اللہ کي صورت ميں پيش کيا ، يہ نکتہ قرآن کي بے شمار آيتوں ميں ملاحظہ کيا جاسکتا ہے اور ہر ايک سے زيادہ سورہ آل عمران کي اس آيت ميں واضح و وروشن ہے جس ميں خدا فرماتا ہے :" وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا" [5]۔ ؛خدا نے ہر قسم کے تفرقہ اور اختلاف سے منع کيا ہے جو تعصب کي بنا پر وجود ميں آنے والے تفرقہ کو بھي شامل ہے ، حديث صحيح ميں وارد ہوا ہے : ” لاعصبيۃ في الاسلام” دين اسلام ميں کوئي تعصب نہيں ہے [6]۔

شیخ شلتوت اور وحدت کی کاوش

جامعہ الازھر کے شیخ محمود شلتوت نے وحدت مسلمین کے حوالے سے انقلابی کاوش کی اور فتوی دیا تھا کہ شیعه مسلک بھی دیگر اہل سنت مکاتیب کی طرح قابل احترام ہے۔

ایکنا نیوز کے مطابق مصری عالم «شیخ محمود شلتوت»، ۱۲۷۲ ہجری شمسی کو مصر کے صوبہ«بحیره» میں پیدا ہوئے اور انکے والد «شیخ محمد شلتوت» بہت جلد دنیا سے رخصت ہوئے لہذا آپ نے اپنے چچا شیخ عبدالقوی شلتوت کی سپرستی میں پروش پائی اور پھر جلد وہ حافظ قران بنے۔

شیخ محمود شلتوت جب سترہ سال کے تھے انہوں نے اسکندریہ یونیورسٹی کا رخ کیا اور ۲۵ سال کی عمر میں یونیورسٹی سے فارغ التحصل ہوئے۔ مصر میں انقلاب کے ساتھ وہ «سعد زغلول» کی سربراہی میں انقلابیوں سے جا ملے۔

شیخ شلتوت نے تفسیر قران، فقہ اور دیگر علوم میں کافی کتابیں لکھی اور انکی تفسیرکو کافی شہرت ملی۔ شیخ محمود شلتوت نے «الازهر» کی صدارت سے قبل اور بعد میں مسلمانوں میں اتحاد کی کافی کوشش کی اور اس حوالے سے انقلابی اقدامات کیے جس میں شیعوں کے حوالے سے انکا فتوی شامل ہے کہ شیعہ مکتب دیگر مسالک کی طرح ہی قابل احترام و قابل توجہ ہے۔

انہوں نے اعلان کیا: جعفری مذهب کی پیروی اہل سنت کے لیے بالکل جایز ہے اور اس حوالے سے بیجا تعصب جایز نہیں۔ شیخ محمود شلتوت نے الازھر یونیورسٹی میں «فقه مقارن» یا عصر حاضر کی شریعت کے عنوان سے شعبہ قایم کیا، انکا خیال تھا کہ مسلم مفتی اور مراجع کو تعصبات اور خواہشات سے پاک ہونا چاہیے۔

سیاسی میدان میں شیخ محمود شلتوت سرگرم رہے اور جب ایران کے شاہ نے صیھونی رژیم کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا تو شیخ محمود شلتوت نے آیت اللہ بروجردی کو خط لکھ کر اس حوالے سے اعتراض کیا تھا۔

شیخ شلتوت نے ۱۳۴۲ ہجری شمسی کو ایران میں امام خمینی کی گرفتاری اور ایرانی مظاہرین عوام پر تشدد پر اعتراض کیا اور اسلامی علما سے ایرانی مجاہدین کی حمایت کی درخواست کی۔ اسلامی وحدت کے علمبردار مرحوم شیخ محمود شلتوت ستّر سال کی عمر میں ۱۳۴۲ ہجری شمسی کو قاہرہ میں انتقال کرگیے[7]۔

دارالتقریب بین المذاہب الاسلامیہ کا قیام

شیخ محمود شلتوت کے زمانے میں جامعہ الازہر ہی میں"دارالتقریب بین المذاہب الاسلامیہ" قائم ہوا تھا۔ جس کی تنظیم نو کے بعد اب اس کا مرکز تہران ہے۔ اس تنظیم میں اہل سنت کے چار فقہی مکاتب کے علاوہ شیعہ امامیہ اور زیدیہ کے نمائندے اُسی زمانے سے موجود الازہر الشریف کی اس عظیم اور قابل تقلید روش کے برعکس ایسے درباری ملا بھی ہیں جو اپنے حکمرانوں کی خواہش پر دوسرے مسلمانوں کے خلاف تکفیر کے فتوے جاری کرتے ہیں۔

ایسے فتوے اسلام دشمنوں اور بالخصوص صہیونیوں کی ہی خوشنودی کا باعث بنتے ہیں۔ ان ملاﺅں کے لیے شیخ الازہر ڈاکٹر سید احمد طیب کا عظیم کردار سبق آموز ہونا چاہیے۔ مسلمانوں کی تکفیر کے فتوے کسی طور پر دیانت داری اور خدا خوفی پر مبنی نہیں ہو سکتے۔ ہیں۔

شیخ محمود شلتوت نے بھی ایک تاریخی فتویٰ جاری کیا تھا، جس میں فقہ جعفریہ پر عمل کرنے کو بھی دیگر فقہوں پر عمل کی طرح سے مجزی اور کافی قرار دیا تھا۔ الازہر الشریف کی اس عظیم اور قابل تقلید روش کے برعکس ایسے درباری ملا بھی ہیں جو اپنے حکمرانوں کی خواہش پر دوسرے مسلمانوں کے خلاف تکفیر کے فتوے جاری کرتے ہیں۔ ایسے فتوے اسلام دشمنوں اور بالخصوص صہیونیوں کی ہی خوشنودی کا باعث بنتے ہیں۔

ان ملاﺅں کے لیے شیخ الازہر ڈاکٹر سید احمد طیب کا عظیم کردار سبق آموز ہونا چاہیے۔ مسلمانوں کی تکفیر کے فتوے کسی طور پر دیانت داری اور خدا خوفی پر مبنی نہیں ہو سکتے۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ہم اپنی گفتگو کا اختتام مذکورہ انگریز صحافی لیزلی ہیز لٹن (Leslie Hazelton) ہی کی ایک بات پر کریں جو تکفیری ملاﺅں کے لیے اپنے اندر عبرت کا سامان رکھتی ہے۔ وہ لکھتی ہیں:

"مغرب میں کسی کو بھی یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ جو چیز اسلام کی دونوں شاخوں کو متحد کرتی ہے اس طاقت سے کہیں زیادہ طاقت ور ہے جو انھیں تقسیم کرتی ہے اور یہ کہ سب مسلمانوں کی اکثریت ابھی بھی اتحاد کے اس نظریہ کو عزیز جانتی ہے۔ جس کا پرچار محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود کیا تھا، یہ نظریہ جتنی گہرائی میں ٹوٹا ہے، اس سے زیادہ گہرائی سے قائم و دائم ہے"[8]۔

آثار

  • فقہ القرآن والسنة۔
  • مقارنة المذاهب.
  • القرآن والقتال.
  • ويسألونك.

ترجمے

شیخ محمود شلتوت نے کئی کتابیں بھی لکھیں جن کا متعدد زبانوں میں ترجمہ ہوا:

  • القرآن والمرأة.
  • تنظيم العلاقات الدولية الإسلامية.
  • الإسلام والوجود الدولي للمسلمين.
  • تنظيم الاسرة.
  • منہج القرآن في بنا المجتمع.
  • رسالة المسؤولية المدنية والجنائية في الشريعة الإسلامية.
  • رسالة الأزهر.
  • إلى القرآن الكريم.
  • الإسلام عقيدة وشريعة.
  • من توجيهات الإسلام.
  • الفتاوى.
  • تفسير القرآن الكريم (الأجزاء العشرة الأولى)

وفات

شیخ محمود کا انتقال جمعہ کی رات (اسراء و معراج کی رات) کی شام قاہرہ میں ہوا اور 1383ھ مطابق رجب المرجب کی ستائیسویں تاریخ دسمبر 1963ء کو آپ کی نماز جنازہ ادا کی۔

حوالہ جات

  1. مذہب جعفریہ کی پیروی کی جا سکتی ہے – جامعہ الازہر شیخ محمود شلتوت- شائع شدہ از: 16 اکتوبر 2019ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 22 مئی 2025ء
  2. فتوای شیخ محمود شلتوت، روحانی سنی درباره عمل به فقه شیعه(شیعہ فقہ پر عمل کرنے کے بارے میں سنی عالم دین شیخ شلتوت کا فتوی)- شائع شدہ از: 2 مہر 1403ش- اخذ شدہ بہ تاریخ: 23 مئی 2025ء
  3. بي آزار شيرازي ، ١٣٧٩ش ص٢٦٢
  4. شيخ محمود شلتوت- شائع شدہ از: 26 مارچ 2018ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 23 مئی 2025ء
  5. آل عمران، آیہ 103
  6. روزنامہ جمہوري اسلامي ،١٩١٠٧٩ ويژہ نامہ ص٩
  7. شیخ شلتوت اور وحدت کی کاوش- شائع شدہ از: 30 اکتوبر 2021ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 23 مئی 2025ء
  8. شیخ الازہر کا چونکا دینے والا انکشاف- شائع شدہ از: 19 جولائی 2011ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 22مئی 2025ء