"حضرت عیسی علیہ السلام" کے نسخوں کے درمیان فرق

ویکی‌وحدت سے
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 71: سطر 71:
انجیل اپنے بنیادی مقصد کے لحاظ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کی بشارت تھی۔ استاذِ گرامی نے اِس کے بارے میں لکھا ہے:
انجیل اپنے بنیادی مقصد کے لحاظ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کی بشارت تھی۔ استاذِ گرامی نے اِس کے بارے میں لکھا ہے:
’’یہ مسیح علیہ السلام پر نازل ہوئی۔ اُن کی بعثت کے مقاصد میں سے ایک بڑا مقصد آخری نبوت کی بشارت تھی۔ انجیل کے معنی بشارت کے ہیں اور یہ نام اِسی رعایت سے رکھا گیا ہے۔ الہامی کتابوں کے عام طریقے کے مطابق یہ بھی دعوت و انذار کی ضرورتوں کے لحاظ سے وقتاً فوقتاً نازل ہوتی رہی۔‘‘ <ref>میزان ۱۵۷</ref>۔
’’یہ مسیح علیہ السلام پر نازل ہوئی۔ اُن کی بعثت کے مقاصد میں سے ایک بڑا مقصد آخری نبوت کی بشارت تھی۔ انجیل کے معنی بشارت کے ہیں اور یہ نام اِسی رعایت سے رکھا گیا ہے۔ الہامی کتابوں کے عام طریقے کے مطابق یہ بھی دعوت و انذار کی ضرورتوں کے لحاظ سے وقتاً فوقتاً نازل ہوتی رہی۔‘‘ <ref>میزان ۱۵۷</ref>۔
== حضرت عیسی علیہ السلام قتل نہیں ہوئے ==
قرآن کہتا ہے:''مسیح قتل نہیں ہوئے اور نہ سولى پر چڑھے بلکہ معاملہ ان پر مشتبہ ہوگیا اور انھوں نے خیال کیا کہ انھیں سولى پر لٹکادیا ہے حالانکہ یقینا انھوں نے انھیں قتل نہیں کیا''۔<ref>انبیاء آیہ 157</ref>۔
موجودہ چاروں اناجیل(متى ،لوقا،مرقس اور یوحنا)میں حضرت مسیح علیہ السلام کو سولى پر لٹکائے جانے اور ان کے قتل کا ذکر ہے_یہ بات چاروں انجیلوں کے آخرى حصوں میں تشریح و تفصیل سے بیان کى گئی ہے۔
آج کے عام مسیحیوں کا بھى یہى عقیدہ ہے۔ بلکہ ایک لحاظ سے تو قتل مسیح علیہ السلام اور انھیں مصلوب کیا جانا موجودہ مسیحیت کے اہم ترین بنیادى مسائل میں سے ہے کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ موجودہ عیسائی حضرت مسیح علیہ السلام کو ایسا پیغمبر نہیں مانتے جو مخلوق کى ہدایت،تربیت اور ارشاد کے لئے آیا ہو بلکہ وہ انھیں خدا کا بیٹا اور تین خدائوں میںسے ایک کہتے ہیں جس کا اس دنیا میں آنے کا اصلى ہدف ہى خدا ہونا ہے اور اپنى قربانى کے عوض نوع بشر کے گناہوں کا سودا کرتا ہے۔

نسخہ بمطابق 15:33، 25 دسمبر 2024ء

حضرت عیسی علیہ السلام
حضرت عیسی.jpg
جائے ولادتناصره جلیل
والدہ ماجدہمریم بنت مریم
مدفنبیت المقدس

حضرت عیسی علیہ السلام 25 دسمبرکو مقبوضہ فلسطین کے شہر بیت لحم میں پیدا ہوئے- آپ(ع) اولوالعزم انبیاء میں سے ایک ہیں۔ حضرت عیسی علیہ السلام سے عقیدت رکھنے والے افراد کی تعداد دنیا میں سب سے زیادہ ہے- قرآن کریم نے وضاحت کے ساتھ بیان فرمایا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام ابھی تک زندہ ہیں۔ خداوند عالم نے اپنی حکمت کے تحت حضرت عیسی علیہ السلام کو ایک مخصوص جگہ منتقل کر دیا ہے تاکہ ایک دن ظاہر ہو کر امام عصر عج کی اقتدا اور انکی حمایت کرسکیں۔

ولادت

حضرت عیسی ابن مریم علیہ السلام کی والدہ گرامی صدیقہ، طاہرہ اور برگزیدہ خاتوں تھیں۔ قرآن مجید میں ایک سورہ سورہ مریم کے نام سے ہے اور حضرت مریم (س) کو خدا کی نشانی، مثال اورماڈل کے طورپرذکرکیا گیا ہے۔ وہ ابتدا میں معبد میں خادمہ کی حیثیت سے تھیں۔ بعد میں الہی فرشتے کے ذریعے صاحب اولاد ہوئیں۔ انکے بیٹے حضرت عیسی علیہ السلام نے گہوارے میں ہی خود کو متعارف کروایا اور فرمایا:

﴿قَالَ إِنىّ‏ِ عَبْدُ اللَّهِ آتاَنىِ‏َ الْكِتَابَ وَ جَعَلَنىِ نَبِيًّا وَ جَعَلَنىِ مُبَارَكا أَيْنَ مَا كُنت﴾۔[1]۔

"فرمایا کہ میں خدا کا بندہ ہوں، خدا نے مجھے کتاب عطا کی ہے اور مجھے پیغمبر قراردیا ہے اور مجھے ہرجگہ باعث برکت بنایا ہے"۔ آپ نے خود کو انتہائی واضح انداز میں اوراچھی طرح متعارف کروایا اورخدا کی جانب سے روزے اور نماز کے احکامات کو بیان فرمایا:

﴿وَ أَوْصاني‏ بِالصَّلاةِ وَ الزَّكاةِ ما دُمْتُ حَيًّا﴾۔ [2]۔

"اورمجھے زندگی بھرنمازاورزکات کی پابندی کا حکم دیا ہے"۔

حضرت عیسی علیہ السلام نے اسی طرح واضح کیا کہ انہیں اپنی والدہ کے ساتھ حسن سلوک کا دستور بھی دیا گیا ہے:

﴿ وَ بَرَّا بِوَالِدَتى﴾۔ [3]۔

اور یہ کہ انہیں خدا نے سخت گیر اور جابر نہیں بنایا:

﴿ وَ لَمْ يجَْعَلْنىِ جَبَّارًا شَقِيًّا﴾۔ [4]۔

قرآن کریم میں دو ایسے انبیاء ہیں جن پر خدا نے تین سلام بھیجے ہیں، ولادت کے موقع پر، وفات کے موقع پر اور قیامت کے دن مبعوث ہوتے وقت۔ ان میں سے ایک حضرت یحیی علیہ السلام ہیں جو بنی اسرائیل کے ایک حکمران کی ہوس رانی کے نتیجے میں شہید ہو گئے اور سید الشھداء حضرت امام حسین علیہ السلام نے اپنے قیام کے وقت انکا ذکر کیا تھا۔ دوسرے نبی حضرت عیسی علیہ السلام ہیں جو باپ کے بغیر پیدا ہوئے اور خدا کی نشانیوں میں سے قرار پائے۔

قرآن کریم اور مسلمانوں کا عیسائیوں پر ایک بڑا احسان

ول ڈورنٹ، معروف مغربی مصنف اپنی مشہور کتاب History of Civlizations میں لکھتا ہے کہ قرآن کریم اور مسلمانوں کا عیسائیوں پر ایک بڑا احسان ہے اور وہ یہ کہ انکے دین اور کتاب میں انجیل اور حضرت عیسی علیہ السلام کو انتہائی عزت اور بزرگی کے ساتھ یاد کیا گیا ہے اور انجیل کی تائید بھی کی گئی ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو حضرت عیسی علیہ السلام کے وجود کو ثابت کرنا انتہائی مشکل ہو جاتا

کیونکہ انکی کوئی اولاد نہیں ہے اور نہ ہی انکا کوئی مزار یا مقبرہ ہے۔ اگر نبی مکرم اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور قرآن کریم کی جانب سے حضرت عیسی علیہ السلام کی تائید نہ ہوتی تو منکر افراد بہت آسانی سے انکے وجود کا انکار کرسکتے تھے۔ قرآن اور اہلبیت علیھم السلام کی احادیث میں حضرت عیسی علیہ السلام کو اچھے الفاظ میں یاد کیا گیا ہے۔

حضرت عیسی روایات میں

"تحف العقول" ایک انتہائی باارزش اورعلمی کتاب ہے جو پانچویں ھجری قمری میں علی بن شعبہ کی جانب سے لکھی گئی ہے۔ مصنف نے اس کتاب میں رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور چودہ معصومین علیھم السلام کی احادیث کو جمع کیا ہے۔ اسی طرح اس کتاب کے آخر میں حضرت موسی علیہ السلام اور حضرت عیسی علیہ السلام کی کچھ مناجات بھی ذکر کی گئی ہیں۔ ہم اس کتاب میں سے حضرت عیسی علیہ السلام کے ساتھ خدا کی گفتگو کے کچھ حصے قارئین کی خدمت میں پیش کرتے ہیں۔

"اے عیسی، میں تیرا رب ہوں اور تیرے آباء و اجداد کا بھی رب ہوں، میرا نام ایک ہی ہے اور میں خود بھی ایک ہوں، میں اکیلے ہی ہرچیزکو خلق کرتا ہوں، ہر چیز میری مخلوق ہے اور میری ہی طرف پلٹ کر آنے والی ہے۔

اے عیسی، تو میرے حکم سے مسیح بنا ہے اور مٹی سے زندہ چیزیں بنانے پر قادر ہوا ہے، تو مردوں کو میرے اذن سے زندہ کرتا ہے، لہذا مجھ سے امیدوار رہو اور ہمیشہ مجھ سے ڈرتے رہو، میرے علاوہ تیری کوئی پناھگاہ نہیں۔

اے عیسی، میری یاد کو زبان سے زندہ رکھو اور میری محبت کو دل میں ڈالے رکھو۔ اے عیسی، غفلت کے وقت ہوشیار رہو اورحکمت سے کام لو۔ اے عیسی، تم دوسروں کے سامنے مسئول ہو، کمزور افراد پر رحم کرو، جس طرح میں تم پر رحم کرتا ہوں اور یتیم پرغضب نہ کرنا اور اسے خود سے دور نہ کرنا۔

اے عیسی، کمزور کا خیال رکھو، اور اپنے چہرے کو آسمان کی جانب کرکے مجھ سے دعا کیا کرو، میں تمہارے قریب ہوں"۔ خداوند عالم حضرت عیسی علیہ السلام سے فرماتا ہے کہ میں تمہیں سرورانبیاء اور اپنے حبیب "احمد" کی بشارت دیتا ہوں جو سرخ بالوں والے اونٹ کا مالک ہو گا، اسکا چہرہ نورانی ہو گا، وہ پاکدل، دشمنوں پر سختی کرنے والا اور شجاع اور دلیر ہو گا۔ وہ انتہائی باحیا اورعظیم شخصیت کا مالک ہو گا۔ وہ دنیا والوں کیلئے رحمت ہو گا اور بنی آدم کا سرور ہوگا۔ وہ اپنے سے پہلے افراد میں سب سے افضل اور مسلمانوں میں میرا قریب ترین شخص ہو گا۔ وہ ایسا عرب باشندہ ہو گا جو اُمّی ہو گا، میرے دین کے مطابق فیصلہ کرے گا اور میری اطاعت میں صبر اور بردباری سے کام لے گا۔

حضرت عیسی علیہ السلام نے قوم بنی اسرائیل سے فرمایا: "اے قوم بنی اسرائیل، ہمیشہ عالم اور دانشور افراد کی صحبت اختیار کرو چاہے تمہیں اس کام کیلئے اپنے گھٹنوں کے بل پر چل کرہی کیوں نہ جانا پڑے، کیونکہ خدا مردہ دلوں کو ایسے ہی حکمت کے نور سے زندہ کرتا ہے جس طرح سے مردہ زمینوں کو بارش کے قطروں سے زندہ کرتا ہے۔ تمہارے دل وہیں ہیں جہاں تمہارے ذخائر پوشیدہ ہیں، اسی لئے لوگ اپنے اموال سے محبت کرتے ہیں، لہذا اپنے ذخائر کو آسمان پر جمع کرو جہاں انہیں نہ دیمک لگتی ہے اور نہ ہی کوئی انہیں چوری کرسکتا ہے۔

اے لوگو، زراعت ہمیشہ نرم اور ہموار زمین پر انجام دی جاتی ہے نہ سخت اور پتھریلی زمین پر، حکمت بھی ایسی ہی ہے جو متواضع اور انکساری کے حامل قلوب میں پرورش پاتی ہے اور پھل دیتی ہے نہ متکبر اور سرکش دلوں میں"۔

انجیل کا نزول

اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح علیہ السلام پر اپنی کتاب بھی نازل فرمائی۔ یہ انجیل تھی ، جو اللہ کی حکمت کا خزانہ تھی ۔ اِس میں رأفت و رحمت تھی اور بنی اسرائیل کے لیےہدایت اور روشنی تھی۔اِس نے تورات کو منسوخ نہیں کیا، بلکہ یہ اُس کی مصدق ثابت ہوئی۔ سورۂ مائدہ میں ارشاد فرمایا ہے:

﴿وَاٰتَيْنٰهُ الْاِنْجِيْلَ فِيْهِ هُدًي وَّنُوْرٌﶈ وَّمُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ التَّوْرٰىةِ وَهُدًي وَّمَوْعِظَةً لِّلْمُتَّقِيْنَ﴾

’’اور ہم نے اُس کو انجیل عطا فرمائی جس میں ہدایت اور روشنی تھی اور وہ بھی تورات کی تصدیق کرنے والی تھی جو اُس سے پہلے موجود تھی، خدا سے ڈرنے والوں کے لیے ہدایت اور نصیحت کے طور پر۔‘‘

انجیل اپنے بنیادی مقصد کے لحاظ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کی بشارت تھی۔ استاذِ گرامی نے اِس کے بارے میں لکھا ہے: ’’یہ مسیح علیہ السلام پر نازل ہوئی۔ اُن کی بعثت کے مقاصد میں سے ایک بڑا مقصد آخری نبوت کی بشارت تھی۔ انجیل کے معنی بشارت کے ہیں اور یہ نام اِسی رعایت سے رکھا گیا ہے۔ الہامی کتابوں کے عام طریقے کے مطابق یہ بھی دعوت و انذار کی ضرورتوں کے لحاظ سے وقتاً فوقتاً نازل ہوتی رہی۔‘‘ [5]۔


حضرت عیسی علیہ السلام قتل نہیں ہوئے

قرآن کہتا ہے:مسیح قتل نہیں ہوئے اور نہ سولى پر چڑھے بلکہ معاملہ ان پر مشتبہ ہوگیا اور انھوں نے خیال کیا کہ انھیں سولى پر لٹکادیا ہے حالانکہ یقینا انھوں نے انھیں قتل نہیں کیا۔[6]۔ موجودہ چاروں اناجیل(متى ،لوقا،مرقس اور یوحنا)میں حضرت مسیح علیہ السلام کو سولى پر لٹکائے جانے اور ان کے قتل کا ذکر ہے_یہ بات چاروں انجیلوں کے آخرى حصوں میں تشریح و تفصیل سے بیان کى گئی ہے۔

آج کے عام مسیحیوں کا بھى یہى عقیدہ ہے۔ بلکہ ایک لحاظ سے تو قتل مسیح علیہ السلام اور انھیں مصلوب کیا جانا موجودہ مسیحیت کے اہم ترین بنیادى مسائل میں سے ہے کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ موجودہ عیسائی حضرت مسیح علیہ السلام کو ایسا پیغمبر نہیں مانتے جو مخلوق کى ہدایت،تربیت اور ارشاد کے لئے آیا ہو بلکہ وہ انھیں خدا کا بیٹا اور تین خدائوں میںسے ایک کہتے ہیں جس کا اس دنیا میں آنے کا اصلى ہدف ہى خدا ہونا ہے اور اپنى قربانى کے عوض نوع بشر کے گناہوں کا سودا کرتا ہے۔

  1. سورہ مریم، آیہ 30
  2. سورہ مریم، آیہ 31
  3. سورہ مریم، آیہ 32
  4. سورہ مریم، آیہ 32
  5. میزان ۱۵۷
  6. انبیاء آیہ 157