4,562
ترامیم
Saeedi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
Saeedi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
||
سطر 39: | سطر 39: | ||
اس ملک کے مسلمان ملک کی آبادی کا 87فیصد ہیں اور عیسائی، جو ملک کی آبادی کا 3فیصد ہیں، اس ملک میں نسبتاً اہم اقلیت ہیں۔ دمشق اور اس کے اطراف میں تقریباً پانچ ہزار یہودی بھی آباد ہیں۔ | اس ملک کے مسلمان ملک کی آبادی کا 87فیصد ہیں اور عیسائی، جو ملک کی آبادی کا 3فیصد ہیں، اس ملک میں نسبتاً اہم اقلیت ہیں۔ دمشق اور اس کے اطراف میں تقریباً پانچ ہزار یہودی بھی آباد ہیں۔ | ||
ایران عراق جنگ شروع ہونے کے بعد شام نے عراق کے ساتھ اپنے تعلقات کو ممکنہ حد تک کم کر دیا اور ایران کا ساتھ دیا۔ | ایران عراق جنگ شروع ہونے کے بعد شام نے عراق کے ساتھ اپنے تعلقات کو ممکنہ حد تک کم کر دیا اور ایران کا ساتھ دیا۔ | ||
ملک شام کا ایک صوبہ ہے۔ دمشق شہر کو بھی ایک صوبہ سمجھا جاتا ہے۔ دمشق شام کا سب سے بڑا شہر اور دارالحکومت ہے۔ حلب شام کا دوسرا سب سے زیادہ آبادی والا شہر ہے۔ شام کے دیگر اہم اور گنجان آباد شہروں میں لاذقیہ، حمص، حماہ، دیر الزور اور معرۃ النعمان شامل ہیں۔ گولان ہائٹس جو شام کی سرزمین کا حصہ ہے، اس وقت اسرائیل کے قبضے میں ہے۔ پیغمبر اسلام کے مشن کے بعد شامات کے علاقے میں رومیوں کے خلاف دو جنگیں لڑی گئیں جن کا نام جنگ موتہ اور جنگ تبوک ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کی وفات کے بعد حضرت ابوبکر کے دور خلافت میں 14 ہجری میں شام کو فتح کیا گیا اور باقی علاقے حضرت عمر کے دور خلافت میں قبضے میں لیے گئے ۔ شام کی فتح کے بعد وہاں کی حکومت معاویہ بن ابی سفیان کے حوالے کر دی گئی ۔ یہاں تک کہ 35 ہجری میں [[علی ابن ابی طالب|امام علی]] کی خلافت کے زمانے میں معاویہ کو شام کی حکومت سے ہٹا دیا گیا | ملک شام کا ایک صوبہ ہے۔ دمشق شہر کو بھی ایک صوبہ سمجھا جاتا ہے۔ دمشق شام کا سب سے بڑا شہر اور دارالحکومت ہے۔ حلب شام کا دوسرا سب سے زیادہ آبادی والا شہر ہے۔ شام کے دیگر اہم اور گنجان آباد شہروں میں لاذقیہ، حمص، حماہ، دیر الزور اور معرۃ النعمان شامل ہیں۔ | ||
گولان ہائٹس جو شام کی سرزمین کا حصہ ہے، اس وقت اسرائیل کے قبضے میں ہے۔ پیغمبر اسلام کے مشن کے بعد شامات کے علاقے میں رومیوں کے خلاف دو جنگیں لڑی گئیں جن کا نام جنگ موتہ اور جنگ تبوک ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کی وفات کے بعد حضرت ابوبکر کے دور خلافت میں 14 ہجری میں شام کو فتح کیا گیا اور باقی علاقے حضرت عمر کے دور خلافت میں قبضے میں لیے گئے ۔ شام کی فتح کے بعد وہاں کی حکومت معاویہ بن ابی سفیان کے حوالے کر دی گئی ۔ یہاں تک کہ 35 ہجری میں [[علی ابن ابی طالب|امام علی]] کی خلافت کے زمانے میں معاویہ کو شام کی حکومت سے ہٹا دیا گیا. | |||
لیکن وہ ہار نہیں مانے اور یہ کشمکش جنگ صفین کا باعث بنی ۔ امام علی علیہ السلام کی شہادت کے بعد معاویہ نے چال بازی سے اقتدار میں آ کر دمشق کو اموی حکومت کا مرکز بنا دیا اوروہ 127 ہجری تک دارالحکومت رہا۔ اس کے بعد عباسیوں ، ہمدانیوں ، مصر کے فاطمیوں ، سلجوق اور عثمانیوں نے اس سرزمین پر حکومت کی یہاں تک کہ اہل مغرب کی حکمرانی کے بعد حالیہ صدیوں میں یہ سرزمین الگ ہو کر کئی عرب ممالک میں تقسیم ہو گئی۔ | |||
شام مشرق وسطیٰ کے مرکز میں واقع ہے اور اس کی سرحدیں ترکی ، [[عراق]] ، اردن، مقبوضہ فلسطین اور [[لبنان]] سے ملتی ہیں ۔ آبادی کی اکثریت بحیرہ روم کے ساحلوں پر رہتی ہے، جو شام کے سب سے زیادہ زرخیز علاقے ہیں۔ ملک کے جنوبی علاقے پہاڑی ہیں اور مشرقی علاقے صحرائی ہیں۔ ساحلی علاقوں میں گرم اور خشک گرمیاں اور ہلکی اور گیلی سردیوں کے ساتھ بحیرہ روم کی آب و ہوا ہے۔ اوسط درجہ حرارت 43 ڈگری سیلسیس تک پہنچ جاتا ہے، اور اوسط بارش ہر سال 40 سینٹی میٹر تک پہنچ جاتی ہے۔ | |||
== شام کے صوبے == | == شام کے صوبے == | ||
شام کو 14 صوبوں تقسیم کیا گیا ہے اور ان صوبوں کو 60 اضلاع میں: | شام کو 14 صوبوں تقسیم کیا گیا ہے اور ان صوبوں کو 60 اضلاع میں: | ||
سطر 57: | سطر 63: | ||
* صوبہ سویداء | * صوبہ سویداء | ||
* صوبہ طرطوس {{اختتام}} <ref>[https://tradetejarat.com/4218/%D9%85%D9%82%D8%A7%D9%84%D9%87-%D9%85%D8%B9%D8%B1%D9%81%DB%8C-%DA%A9%D8%B4%D9%88%D8%B1-%D8%B3%D9%88%D8%B1%DB%8C%D9%87-%D8%A7%D8%B2-%D8%AD%DB%8C%D8%AB-%D8%A7%D8%B7%D9%84%D8%A7%D8%B9%D8%A7%D8%AA-%D9%88/ tradetejarat.com]</ref>۔ | * صوبہ طرطوس {{اختتام}} <ref>[https://tradetejarat.com/4218/%D9%85%D9%82%D8%A7%D9%84%D9%87-%D9%85%D8%B9%D8%B1%D9%81%DB%8C-%DA%A9%D8%B4%D9%88%D8%B1-%D8%B3%D9%88%D8%B1%DB%8C%D9%87-%D8%A7%D8%B2-%D8%AD%DB%8C%D8%AB-%D8%A7%D8%B7%D9%84%D8%A7%D8%B9%D8%A7%D8%AA-%D9%88/ tradetejarat.com]</ref>۔ | ||
== شام میں شیعوں کی صورتحال پر ایک نظر == | |||
شام کے شیعہ اثناعشری بنیادی طور پر شمالی علاقوں جیسے شمال مغربی حلب، شمال مشرقی ادلب اور لبنان کی سرحد پر واقع گاؤں القصیر میں رہتے ہیں۔ دمشق اور جنوبی شام میں بھی متعدد شیعہ آباد ہیں۔ | |||
=== شام میں شیعوں کی پوزیشن === | |||
"زینبیہ" یہ نام [[ زینب بنت علی|حضرت زینب سلام اللہ علیہا]] کی قبر سے لیا گیا ہے، تین میں سے ایک قول کے مطابق ان کی قبر اسی مقام پر ہے۔ | |||
زینبیہ یا سیدہ زینب ٹاون اسلامی انقلاب سے تقریباً 10 سال پہلے سے بتدریج عراقی شیعہ مہاجرین کی ایک جگہ بن گیا تھا لیکن اہم بات یہ تھی کہ [[اہل بیت|اہل بیت علیہم السلام]] کے دیگر مزارات کی طرح آہستہ آہستہ، اس کے ساتھ ایک حوزہ علمیہ قائم کیا گیا۔ | |||
اس حوزے کے بانیوں میں سے ایک آیت اللہ سید حسن شیرازی تھے جنہوں نے زینبیہ میں حوزہ کی تشکیل کے لیے پہلا قدم اٹھایا۔ عراق کی بعثی حکومت کے خلاف طویل جدوجہد کے بعد، آپ لبنان اور شام گئے، لبنان میں ایک مدرسہ کی بنیاد رکھی، اور پھر 1975ء میں انہوں نے سیدہ زینب کے پڑوس میں حوزہ زینبیہ کی بنیاد رکھی۔ | |||
یہ اس پسماندہ علاقے کو شیعہ کے ثقافتی اور علمی مرکز میں تبدیل کرنے کا آغاز تھا۔ اس طرح، آپ جو 1980ء میں انہیں بعث پارٹی کے ایجنٹوں نے شہید کردیا۔اس جگہ پر تشیع کے پھیلنے میں ان کا بنیادی کردار ہے۔ | |||
==== حلب ==== | |||
شام میں شیعوں کے تاریخی مراکز میں سے ایک حلب شہر میں واقع تھا جس کے بہت کم آثار اب باقی ہیں۔ اس وقت حلب کے زیادہ تر شیعہ "مسجد النّقطہ" اور "مشهد [[حسین بن علی|رأس الحسین]]" کے آس پاس ہیں۔ | |||
شیعہ انسٹی ٹیوٹ آف "جمعیّۂ الاعمّار" و "الاحسان و الاسلامیة الجعفریّه" 1379ء ہجری سے، اس نے وہاں اپنی سرگرمیاں شروع کیں اور اس علاقے میں شیعہ مقامات کی تعمیر نو کے علاوہ، اس تنظیم نے شیعہ غریبوں کی مدد کی اور کچھ ثقافتی اور تعلیمی کام انحام دیا ہے۔ | |||
"نبّل" و "الزّهراء" کے دو گاؤں مکمل طور پر شیعہ ہیں اور ان میں زم، شربو، بلوی، شحاذه، ابرص و تقی جیسے شیعہ خاندان رہتے ہیں۔ "خان عسل" گاؤں نے بھی حال ہی میں شیعہ مذہب اختیار کر لیا ہے، جن میں بادنجکی و بوداقچی خاندان بھی شامل ہیں۔ | |||
==== مرج عذراء ==== | |||
دمشق کے آس پاس کے شیعہ علاقوں میں سے ایک مرج عذراء کا علاقہ ہے جہاں معاویہ نے ، حجر بن عدی اور ان کے کئی قریبی ساتھی شہید کئے تھے۔ یہ علاقہ طویل عرصے سے شیعہ زائرین کے توجہ کا مرکز رہا ہے اور یہاں ایک "مسجد فخم" ہے جسے شیعہ کے لیے مخصوص ہے۔ | |||
==== قریه تل ==== | |||
یہ شیعہ دیہات میں سے ایک ہے جہاں کے بہت سے باشندوں نے حال ہی میں شیعہ مذہب اختیار کیا ہے اور وہ [[لبنان]] میں [[حزب اللہ لبنان|حزب اللہ]] کی ثقافت سے بہت متاثر ہیں اور اس کے حامی ہیں۔ | |||
==== رقہ ==== | |||
عمار یاسر اور اویس قرانی کی قبریں رقہ میں واقع ہیں۔ اس کے علاوہ اس علاقے میں جنگ صفین کے شہداء کی ایک بڑی تعداد مدفون ہے اور حالیہ برسوں میں ان کے لیے ایک مسجد کے ساتھ ایک عمارت بھی تعمیر کی گئی ہے۔ | |||
یہ ان علاقوں میں متعدد شیعوں کے جمع ہونے کی سبب بنا ہے اور اس کے علاوہ اسلامی تعطیلات اور عاشورہ کے موقع پر وہاں شیعہ تقریبات کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ اس وقت اس علاقے میں سینکڑوں شیعہ آباد ہیں۔ "البوسرایا" قبیلہ اس علاقے میں رہتا تھا اور شیعہ مذہب کی پیروی کرتا تھا۔ اس قبیلے کے متعدد دانشور رقہ میں ثقافتی، تبلیغی اور سماجی سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔ | |||
شام کے دیگر شیعہ علاقوں میں شامل ہیں: "ادلب"، "حمص"، "دی زور"، "حطله"، "حسکہ"، "قامشلی" اور "درعا". | |||
5- شام میں شیعوں کی تعداد | |||
شام میں شیعوں کی صحیح تعداد کے بارے میں کوئی سرکاری اعداد و شمار موجود نہیں ہیں۔ لیکن کچھ رپورٹس کے مطابق 2006 میں رہائی، علوی، اسماعیلی اور امامی شیعہ شامی آبادی کا 13% ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ شام کی 18 ملین آبادی میں سے دو ملین دو لاکھ افراد کا تعلق ان تین گروہوں سے ہے۔ | |||
== شام پر عالمی مسلط جنگ == | |||
امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے عراق، شام اور لیبیا کے تیل اور پٹرول کے ذخایر کو بے دریغ لوٹا ۔ یہ سارا کھیل امریکی اور اسرائیلی مفادات کے لیے کھیلا گیا۔ عربوں اور مسلمانوں کی دولت سے خریدا ہوا اسلحہ عربوں اور مسلمانوں کے خلاف استعمال ہوا۔ بہار عرب کے نام پر قلعہ مقاومت (شام) کو مہندم کرنے لیے ملک شام پر عالمی جنگ مسلط ہوئی اور مقاومت کے گرد دائرہ تنگ تر کر دیا گیا۔ | |||
خلیجی ممالک، ترکی اور دنیا کے دیگر ممالک نے امریکہ، غرب اور اسرائیل کے اشاروں پر عراق اور شام میں [[داعش]] اور دیگر تکفیری دہشتگردوں کو عراق اور شام بھیجا اور ان کی ہر لحاظ سے پشت پناہی کی۔ جنگ کے ایندھن کی فراہمی کے لیے لیبیا، تیونس اور مصر کے سیاسی نظام کو نشانہ بنایا گیا خلیجی و ایشیائی ممالک سے بھی جنگجوؤں کی بڑی تعداد بھرتی کی گئی۔ اقوام متحدہ کی رپورٹوں کے مطابق لاکھوں دہشتگرد دنیا کے 90 سے زیادہ ممالک سے شام میں لائے گئے جو کہ جدیدترین اسلحہ سے لیس تھے۔ | |||
[[حزب اللہ لبنان|حزب اللہ]] نے ملک شام و عراق کی حکومت و عوام کا ساتھ دیا۔ اور داعش کو شکست دینے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ حزب اللہ نے ان ممالک کو تقسیم ہونے اور ٹوٹنے سے بچایا۔ قصیر، حمص، حماۂ اور اطراف دمشق و درعا، حلب و ادلب کی فتوحات اور کامیابیوں میں بھی حزب اللہ کا ایک اہم کردار رہا ہے۔ اس جنگ میں حزب اللہ کے شہداء کی تعداد حزب اللہ اور اسرائیل کی تین دہائیوں پر محیط جنگ کے شہداء سے زیادہ ہے۔ | |||
جس میں حزب اللہ کے اہم اور تجربہ کار کمانڈر بھی شریک ہوئےجن میں شام محاذ کے سربراہ اور حاج عماد مغنیہ کے ساتھی حاج مصطفی بدر الدین (حاج ذوالفقار) سر فہرست ہیں جنہیں اسرائیل نے دمشق ائیرپورٹ کے قریب میزائل حملے سے شہید کیا۔ حاج عماد مغنیہ شہید کے فرزند حاج جہاد مغنیہ اور اسیر محرر سمیر قنطار جیسے دسیوں اہم کمانڈر شام کے محاذ پر شہید ہوئے <ref>سید شفقت حسین شیرازی، حزب اللہ لبنان تاسیس سے فتوحات تک، الباقر پبلی کیشنزز اسلام آباد، 2021ء، ص274-275</ref>۔ | |||
== شام پر مسلط جنگ کا مقصد == | == شام پر مسلط جنگ کا مقصد == | ||
شام کے سابق صدر حافظ الاسد کی رحلت کے فورا بعد 2001ء میں شام کے نظام کو بدلنے کا پروگرام بنایا گیا۔ شام کو کمزور کرنے کے پیچھے دشمن کا مقصد اسرائیل کی سکیورٹی کو یقینی بنانا، ناجائز صہیونی ریاست کو تسلیم کروانا اور عظیم اسرائیل کے منصوبے کی تکمیل تھا۔ شام پر مسلط کی گئی جنگ کا مقصد جمہوریت لانا اور عوام کو آزادی دلانا وغیرہ نہیں تھا۔ شامی حکومت کا قصور یہ تھا کہ اس نے خطے میں اسرائیلی بالادستی کو ماننے سے انکار کر دیا تھا۔ فلسطینی مہاجرین کی پشت پناہی اور فلسطینی و لبنانی مقاومت کی ہر ممکن مدد بھی دمشق حکومت کا جرم تصور کی گئی۔ اسی طرح دمشق، تہران اور بیروت سے قریبی تعلقات بھی باعث بنے کہ شام کے دشمن نے دمشق کو سبق سکھانے کے لیے شدت پسندوں کے ذریعے شام پر جنگ مسلط کر دی۔ دشمن کی طرف سے مسلط شدہ اس جنگ میں ایران، روس، چین، حزب اللہ اور خطے کے دیگر مقاومتی گروہ شام کے اتحادی تھے۔ اس جنگ میں تمام عالمی و علاقائی سامراجی طاقتوں اور خلیجی بادشاہوں کے علاوہ مسلح شدت پسند تکفیری گروہوں نے اسرائیل کی حمایت کی۔ اسرائیل کی پشت پناہ عالمی سامراجی طاقتوں میں امریکہ کے علاوہ فرانس اور برطانیہ پیش پیش تھے۔ عالمی سامراجی طاقتیں اس جنگ کے ذریعے خطے کے تیل و گیس کے ذخائر اور سیاسی نظم و نسق پر کنٹرول چاہتی تھیں کیونکہ اس خطے پر کنٹرول پوری دنیا پر کنٹرول کو مضبوط بنا دیتا ہے۔ اس جنگ میں سعودی عرب، ترکی اور امارت وغیرہ اسرائیل کے پشت پناہ تھے۔ ان علاقائی ممالک میں سے ترکی اس جنگ کے نتیجے میں دمشق حکومت کو سرنگوں کرکے شام، فلسطین اور اردن پر بالادستی حاصل کرکے یہاں خلافت قائم کرنے کا خواب دیکھ رہا تھا۔ خلیجی ممالک اس جنگ کے نتیجے کو اپنی ملوکیت بجانے کی آخری کوشش تصور کررہے تھے <ref>ایضا، ص299-300</ref>۔ | شام کے سابق صدر حافظ الاسد کی رحلت کے فورا بعد 2001ء میں شام کے نظام کو بدلنے کا پروگرام بنایا گیا۔ شام کو کمزور کرنے کے پیچھے دشمن کا مقصد اسرائیل کی سکیورٹی کو یقینی بنانا، ناجائز صہیونی ریاست کو تسلیم کروانا اور عظیم اسرائیل کے منصوبے کی تکمیل تھا۔ شام پر مسلط کی گئی جنگ کا مقصد جمہوریت لانا اور عوام کو آزادی دلانا وغیرہ نہیں تھا۔ شامی حکومت کا قصور یہ تھا کہ اس نے خطے میں اسرائیلی بالادستی کو ماننے سے انکار کر دیا تھا۔ | ||
فلسطینی مہاجرین کی پشت پناہی اور فلسطینی و لبنانی مقاومت کی ہر ممکن مدد بھی دمشق حکومت کا جرم تصور کی گئی۔ اسی طرح دمشق، تہران اور بیروت سے قریبی تعلقات بھی باعث بنے کہ شام کے دشمن نے دمشق کو سبق سکھانے کے لیے شدت پسندوں کے ذریعے شام پر جنگ مسلط کر دی۔ دشمن کی طرف سے مسلط شدہ اس جنگ میں ایران، روس، چین، حزب اللہ اور خطے کے دیگر مقاومتی گروہ شام کے اتحادی تھے۔ | |||
اس جنگ میں تمام عالمی و علاقائی سامراجی طاقتوں اور خلیجی بادشاہوں کے علاوہ مسلح شدت پسند تکفیری گروہوں نے اسرائیل کی حمایت کی۔ اسرائیل کی پشت پناہ عالمی سامراجی طاقتوں میں امریکہ کے علاوہ فرانس اور برطانیہ پیش پیش تھے۔ عالمی سامراجی طاقتیں اس جنگ کے ذریعے خطے کے تیل و گیس کے ذخائر اور سیاسی نظم و نسق پر کنٹرول چاہتی تھیں کیونکہ اس خطے پر کنٹرول پوری دنیا پر کنٹرول کو مضبوط بنا دیتا ہے۔ | |||
اس جنگ میں سعودی عرب، ترکی اور امارت وغیرہ اسرائیل کے پشت پناہ تھے۔ ان علاقائی ممالک میں سے ترکی اس جنگ کے نتیجے میں دمشق حکومت کو سرنگوں کرکے شام، فلسطین اور اردن پر بالادستی حاصل کرکے یہاں خلافت قائم کرنے کا خواب دیکھ رہا تھا۔ خلیجی ممالک اس جنگ کے نتیجے کو اپنی ملوکیت بجانے کی آخری کوشش تصور کررہے تھے <ref>ایضا، ص299-300</ref>۔ | |||
== مقاومت کو شام کی پالیسی میں مرکزی حیثیت حاصل ہے == | == مقاومت کو شام کی پالیسی میں مرکزی حیثیت حاصل ہے == | ||
مقاومت کو شام کی پالیسی میں مرکزی حیثیت حاصل ہے، شامی صدر بشار الاسد | مقاومت کو شام کی پالیسی میں مرکزی حیثیت حاصل ہے، شامی صدر بشار الاسد |