"اخوان المسلمین ایران" کے نسخوں کے درمیان فرق
Sajedi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
Sajedi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
||
سطر 13: | سطر 13: | ||
اخوان المسلمین کا نظریہ 1940 ءکی دہائی میں عراقی کردستان میں مقیم ایرانی طلبا کے توسط سے ایران میں داخل هوا ۔ وجه یه تھی که کچھ ایرانی طلباء جن میں ابراہیم مردوخی، احمد بہرامی، علی رحمانی، عبداللہ ایرانی شامل هیں ، وہاں تعلیم حاصل کرنے گئے تھے، اخوان کے تصور سے متاثر ہوئے، اور عراق میں پیش آنے والے وقعات اور مسائل کی وجه سے وه لوگ ایران واپس آئے اور اس فکر کو فروغ دیا۔ سنه پچاس کی دہائی میں، بارزانی حکومت اور عراق کی مرکزی حکومت کے درمیان جنگ کے نتیجے میں، ایرانی اور عراقی طلباء، کچھ عراقی کردستانیوں کے ساتھ، ایران آگئے اور ایرانی کردستان میں آباد ہوئے۔ یہ مرحلہ 50 ش کی دہائی کے وسط سے شروع ہوتا ہے اور اسی وقت جب اخوان المسلمین کے نظریات سے متاثر طلباء عراق سے واپس ایران کے کردستان پہنچے اور 1361 ش تک جاری رہے۔ ظاهری بات ہے کہ کچھ افراد پر مشتمل گروه کے لئے منظم انداز میں بڑی تنظیم چلانا آسان کام نہیں تھا اس لئے انہوں نے اس کا حل تلاش کیا اور انهوں نے یه حل دیکھا کہ احمد مفتی زادہ کے پاس جائیں- جو اس وقت ایک بااثر شخصیت کے مالک تھے اور ایک مذہبی اور قرآنی شخصیت کے طور پر سرگرم تھے - ان کے سامنے اپنے خیالات پیش کریں۔ انهوں نے مفتی زاده کی راهنمائی میں قرآنی مرکز کے قیام کے بعد، ثقافتی سرگرمیاں شروع کیں اور ایک لائبریری بنائی، مذہبی مجالس منعقد کیں اور ایک رسالہ شائع کیا۔ | اخوان المسلمین کا نظریہ 1940 ءکی دہائی میں عراقی کردستان میں مقیم ایرانی طلبا کے توسط سے ایران میں داخل هوا ۔ وجه یه تھی که کچھ ایرانی طلباء جن میں ابراہیم مردوخی، احمد بہرامی، علی رحمانی، عبداللہ ایرانی شامل هیں ، وہاں تعلیم حاصل کرنے گئے تھے، اخوان کے تصور سے متاثر ہوئے، اور عراق میں پیش آنے والے وقعات اور مسائل کی وجه سے وه لوگ ایران واپس آئے اور اس فکر کو فروغ دیا۔ سنه پچاس کی دہائی میں، بارزانی حکومت اور عراق کی مرکزی حکومت کے درمیان جنگ کے نتیجے میں، ایرانی اور عراقی طلباء، کچھ عراقی کردستانیوں کے ساتھ، ایران آگئے اور ایرانی کردستان میں آباد ہوئے۔ یہ مرحلہ 50 ش کی دہائی کے وسط سے شروع ہوتا ہے اور اسی وقت جب اخوان المسلمین کے نظریات سے متاثر طلباء عراق سے واپس ایران کے کردستان پہنچے اور 1361 ش تک جاری رہے۔ ظاهری بات ہے کہ کچھ افراد پر مشتمل گروه کے لئے منظم انداز میں بڑی تنظیم چلانا آسان کام نہیں تھا اس لئے انہوں نے اس کا حل تلاش کیا اور انهوں نے یه حل دیکھا کہ احمد مفتی زادہ کے پاس جائیں- جو اس وقت ایک بااثر شخصیت کے مالک تھے اور ایک مذہبی اور قرآنی شخصیت کے طور پر سرگرم تھے - ان کے سامنے اپنے خیالات پیش کریں۔ انهوں نے مفتی زاده کی راهنمائی میں قرآنی مرکز کے قیام کے بعد، ثقافتی سرگرمیاں شروع کیں اور ایک لائبریری بنائی، مذہبی مجالس منعقد کیں اور ایک رسالہ شائع کیا۔ | ||
اخوان المسلمین ایران کے راهنماؤں نے گروپ کی شکل میں دیگر اسلام پسند تنظیموں کے ساتھ مل کر اپنی فعالیتوں کا آغاز کیا اور مفتی زادہ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے مذہبی سرگرمیوں میں مصروف ہو گئے۔ مفتی زادہ کے ساتھ تعلقات بر قرار کرنے کے علاوہ انہوں نے خود با همی جلسات منعقد کرنا شروع کیا اور عراقی اخوان المسلمین کے ساتھ بھی تعلق قائم کرنے کی کوشش کی جو اخوان المسلمین مصر کی ایک شاخ تھی۔ | اخوان المسلمین ایران کے راهنماؤں نے گروپ کی شکل میں دیگر اسلام پسند تنظیموں کے ساتھ مل کر اپنی فعالیتوں کا آغاز کیا اور مفتی زادہ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے مذہبی سرگرمیوں میں مصروف ہو گئے۔ مفتی زادہ کے ساتھ تعلقات بر قرار کرنے کے علاوہ انہوں نے خود با همی جلسات منعقد کرنا شروع کیا اور عراقی اخوان المسلمین کے ساتھ بھی تعلق قائم کرنے کی کوشش کی جو اخوان المسلمین مصر کی ایک شاخ تھی۔ | ||
کردستان کے علاوہ کرمانشاہ کے علاقے میں بھی اخوان المسلمین کا تصور دو طرح سے پروان چڑھا۔ ایک احمد بہرامی، عبدالقادر توحیدی اور محمود نادری جیسے لوگ جنہوں نے عراق میں تعلیم حاصل کی اور اخوان المسلمین کے رکن بنے اور دوسرے ناصر سبحانی، عبدالرحمٰن یعقوبی اور حیدر ضیائی جیسے لوگ جنہوں نے ایران میں اخوان المسلمین کی کتابوں کے مطالعه کے ذریعے آگاهی حاصل کئے تھے ، اخوان کے ممبر بنے۔ | کردستان کے علاوہ کرمانشاہ کے علاقے میں بھی اخوان المسلمین کا تصور دو طرح سے پروان چڑھا۔ ایک احمد بہرامی، عبدالقادر توحیدی اور محمود نادری جیسے لوگ جنہوں نے عراق میں تعلیم حاصل کی اور اخوان المسلمین کے رکن بنے اور دوسرے ناصر سبحانی، عبدالرحمٰن یعقوبی اور حیدر ضیائی جیسے لوگ جنہوں نے ایران میں اخوان المسلمین کی کتابوں کے مطالعه کے ذریعے آگاهی حاصل کئے تھے ، اخوان کے ممبر بنے۔<ref>[https://www.alwahabiyah.com/fa/Mainstreamingview/36690/%D8%A2%D8%B4%D9%86%D8%A7%DB%8C%DB%8C-%D8%A8%D8%A7-%D8%AC%D9%85%D8%A7%D8%B9%D8%AA-%D8%A7%D8%B5%D9%84%D8%A7%D8%AD-%D9%88-%D8%AF%D8%B9%D9%88%D8%AA-%D8%A7%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D9%86-(1) آشنایی با جماعت اصلاح و دعوت ایران] ( ایران کی اصلاح اور دعوت جماعت کی شناخت )-www.alwahabiyah.com (زبان فارسی)- تاریخ درج شده: 7/دسمبر/2021 ء تاریخ اخذ شده: 8جون 2024ء</ref> | ||
==حوالہ جات== | |||
{{اخوان المسلمین}} | |||
{{ایران }} | |||
[[زمرہ:اخوان المسلمین]] | |||
[[زمرہ:ایران]] |
نسخہ بمطابق 20:34، 8 جون 2024ء
اخوان المسلمین ایران | |
---|---|
پارٹی کا نام | جماعت دعوت و اصلاح |
بانی پارٹی | ناصر سبحانی |
پارٹی رہنما |
|
مقاصد و مبانی | «إِنْ أُرِیدُ إِلَّا الْإِصْلَاحَ» |
اخوان المسلمین ایک بین الاقوامی سنی اسلامی تحریک ہے جو کئی عرب ممالک میں مقبول ہے۔ اخوان المسلمین عرب دنیا کی سب سے بڑی اسلامی تحریک ہے۔ اخوان المسلمین اسلامی مذاہب کے اتحاد اور اسلامی جمہوریہ ایران کے حامی ہے اور اسرائیلی حکومت کے خلاف ہے۔ اخوان المسلمین کا ایک شاخ ایران میں بھی کام کرتی ہے۔ یہ تحریک صوبہ سیستان و بلوچستان اور ایران کے صوبہ کردستان میں جماعت دعوت و اصلاح کے عنوان سے سرگرم ہے اور اس کا ایک مرکزی دفتر تہران میں ہے۔ اس جماعت کے بانی ناصر سبحانی اور اس کے سیکرٹری جنرل عبدالرحمن پیرانی ہیں۔
تاسیس
اخوان المسلمین کا نظریہ 1940 ءکی دہائی میں عراقی کردستان میں مقیم ایرانی طلبا کے توسط سے ایران میں داخل هوا ۔ وجه یه تھی که کچھ ایرانی طلباء جن میں ابراہیم مردوخی، احمد بہرامی، علی رحمانی، عبداللہ ایرانی شامل هیں ، وہاں تعلیم حاصل کرنے گئے تھے، اخوان کے تصور سے متاثر ہوئے، اور عراق میں پیش آنے والے وقعات اور مسائل کی وجه سے وه لوگ ایران واپس آئے اور اس فکر کو فروغ دیا۔ سنه پچاس کی دہائی میں، بارزانی حکومت اور عراق کی مرکزی حکومت کے درمیان جنگ کے نتیجے میں، ایرانی اور عراقی طلباء، کچھ عراقی کردستانیوں کے ساتھ، ایران آگئے اور ایرانی کردستان میں آباد ہوئے۔ یہ مرحلہ 50 ش کی دہائی کے وسط سے شروع ہوتا ہے اور اسی وقت جب اخوان المسلمین کے نظریات سے متاثر طلباء عراق سے واپس ایران کے کردستان پہنچے اور 1361 ش تک جاری رہے۔ ظاهری بات ہے کہ کچھ افراد پر مشتمل گروه کے لئے منظم انداز میں بڑی تنظیم چلانا آسان کام نہیں تھا اس لئے انہوں نے اس کا حل تلاش کیا اور انهوں نے یه حل دیکھا کہ احمد مفتی زادہ کے پاس جائیں- جو اس وقت ایک بااثر شخصیت کے مالک تھے اور ایک مذہبی اور قرآنی شخصیت کے طور پر سرگرم تھے - ان کے سامنے اپنے خیالات پیش کریں۔ انهوں نے مفتی زاده کی راهنمائی میں قرآنی مرکز کے قیام کے بعد، ثقافتی سرگرمیاں شروع کیں اور ایک لائبریری بنائی، مذہبی مجالس منعقد کیں اور ایک رسالہ شائع کیا۔ اخوان المسلمین ایران کے راهنماؤں نے گروپ کی شکل میں دیگر اسلام پسند تنظیموں کے ساتھ مل کر اپنی فعالیتوں کا آغاز کیا اور مفتی زادہ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے مذہبی سرگرمیوں میں مصروف ہو گئے۔ مفتی زادہ کے ساتھ تعلقات بر قرار کرنے کے علاوہ انہوں نے خود با همی جلسات منعقد کرنا شروع کیا اور عراقی اخوان المسلمین کے ساتھ بھی تعلق قائم کرنے کی کوشش کی جو اخوان المسلمین مصر کی ایک شاخ تھی۔ کردستان کے علاوہ کرمانشاہ کے علاقے میں بھی اخوان المسلمین کا تصور دو طرح سے پروان چڑھا۔ ایک احمد بہرامی، عبدالقادر توحیدی اور محمود نادری جیسے لوگ جنہوں نے عراق میں تعلیم حاصل کی اور اخوان المسلمین کے رکن بنے اور دوسرے ناصر سبحانی، عبدالرحمٰن یعقوبی اور حیدر ضیائی جیسے لوگ جنہوں نے ایران میں اخوان المسلمین کی کتابوں کے مطالعه کے ذریعے آگاهی حاصل کئے تھے ، اخوان کے ممبر بنے۔[1]
حوالہ جات
- ↑ آشنایی با جماعت اصلاح و دعوت ایران ( ایران کی اصلاح اور دعوت جماعت کی شناخت )-www.alwahabiyah.com (زبان فارسی)- تاریخ درج شده: 7/دسمبر/2021 ء تاریخ اخذ شده: 8جون 2024ء