"جعفر حسین" کے نسخوں کے درمیان فرق

کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
 
(2 صارفین 12 کے درمیانی نسخے نہیں دکھائے گئے)
سطر 1: سطر 1:
'''مفتی جعفر حسین''' [[پاکستان]] کے اہل تشیع کے دوسرے قائد تھے۔ آپ 1912ء میں پاکستان کے شہر گوجرانوالہ میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد ماجد حکیم چراغ دین نے آپ کی تربیت اور پرورش کی ذمہ داری آپ کے تایا حکیم شہاب الدین کے سپرد کر رکھی تھی۔ پانچ برس کی عمر میں تایا نے آپ کو [[قرآن|قرآن کریم]] کے علاوہ عربی زبان کی تدریس بھی شروع کر دی تھی، جس کے بعد تقریباً سات سال کی عمر میں آپ نے حدیث و فقہ کی تعلیم کا آغاز کیا۔  
{{Infobox person
| title =  جعفر حسین
| image =  مفتی جعفر حسین.jpg
| name =  جعفر حسین
| other names = مفتی جعفر حسین
| brith year= 1914 ء
| brith date =
| birth place = گوجرانوالہ
|  death year = 1983 ء
| death date =29 اگست
| death place = کربلا گامے شاہ، لاہور
| teachers = {{hlist|حکیم الدین شہاب الدین|سید ابوالحسن اصفہانی |حکیم قاضی عبدالرحیم }}
| students =
| religion = [[اسلام]]
| faith = [[شیعہ]]
| works =
| known for = {{افقی باکس کی فہرست|ادارہ تحفظ حقوق شیعہ| }}
}}
 
''' جعفر حسین''' [[پاکستان]] کے اہل تشیع کے دوسرے قائد تھے۔ آپ عظیم داعی اتحاد بین المسلمین، عالم باعمل، بے مثال مصنف و مترجم اور شجاع و بااصول سیاسی و مذہبی شخصیت کے مالک تھے۔ آپ کے والد ماجد حکیم چراغ دین نے آپ کی تربیت اور پرورش کی ذمہ داری آپ کے تایا حکیم شہاب الدین کے سپرد کر رکھی تھی۔ پانچ برس کی عمر میں تایا نے آپ کو [[قرآن|قرآن کریم]] کے علاوہ عربی زبان کی تدریس بھی شروع کر دی تھی، جس کے بعد تقریباً سات سال کی عمر میں آپ نے حدیث و فقہ کی تعلیم کا آغاز کیا۔  
== سوانح عمری ==
جعفر حسین 1914ء میں پیدا ہوئے۔ ان کی پرورش کی ذمہ داری ان کے تایا حکیم الدین شہاب الدین نے اپنے ذمہ لے لی تھی۔ جنہوں نے ان کو بچپن میں ہی سیرت نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور حیات مبارکہ آئمہ معصومین علیہم السلام از برکرادی۔ جعفر حسین کے ننھے سے ذہن کو جس چیز نے متاثر کیا وہ ان پاک و مقدس ہستیوں کی بے نیازی، فقر و فاقہ، صبر و قناعت اور جذبۂ شکر تھا۔ چونکہ یہ صفات بچپن میں لاشعور میں رچ بس گئی تھیں۔ لہذا ان کی تمام زندگی ان صفات کا مظہر رہی۔ جعفر حسین کا بچپن میں کھیلنے کا انداز بھی نرالا تھا۔ وہ اور بچوں کی طرح کبھی گلیوں میں نہیں کھیلے بلکہ اپنے گھر میں انیٹوں کا ایک چبوترا بناتے اور چند بچوں کو زمین پر بٹھا کر خود چبوترے پر بٹھا کر خود چبوترے پر بیٹھ جاتے اور بچوں سے کہتے:"میں تقریر کروں گا تم رونا" اس کے بعد اپنے تایا سے سنے ہوئے پاک و مقدس ہستیوں کے حالات بیان کرنا شروع کر دیتے اور بیچ میں جب دیکھتے کہ سامنے بیٹھے ہوئے بچے متوجہ نہیں ہیں تو ان پر ناراض ہوتے اور ان کو ڈانٹ کر رونے کو کہتے <ref>غضنفر کاظمی، مفتی جعفر حسین، نجفی کیسٹ لائبریری، بیت السجاد-مقابل نشتر پارک سولجر بازار کراچی، ص12-13</ref>۔
 
== تعلیم ==
== تعلیم ==
مفتی جعفر حسین نے قران حکیم ،عربی، حدیث اور فقہ کی تعلیم اپنے تایا حکیم شہاب الدین کے علاوہ، مولانا چراغ علی خطیب جامع مسجد [[اہل السنۃ والجماعت|اہل سنت]] اور حکیم قاضی عبدالرحیم، جو ندوی لکھنؤ کے فارغ التحصیل تھے، سے بھی حاصل کی۔ آپ نے بارہ برس کی عمر تک طب، حدیث، فقہ اور عربی زبان میں کافی حد تک عبور حاصل کر لیا تھا۔ 1926ء میں مرزا احمد علی مرحوم آپ کو اپنے ہمراہ لکھنؤ لے گئے جہاں آپ نے مدرسہ ناظمیہ میں مولانا ابوالحسن عرف منن صاحب، جناب سعید علی نقوی، جناب مولانا ظہورالحسن اور جناب مفتی احمد علی مرحوم سے کسب علم وفیض فرمایا۔ مدرسہ ناظمیہ میں تحصیل علم کے دوران آپ اپنی ذہانت کے باعث کافی معروف ہوئے۔ آپ نے وہاں امتحانات میں نہ صرف یہ کہ امتیازی اور نمایاں حیثیت حاصل کی بلکہ کچھ اعزازی سندیں بھی حاصل کیں۔  
مفتی جعفر حسین نے قران حکیم ،عربی، حدیث اور فقہ کی تعلیم اپنے تایا حکیم شہاب الدین کے علاوہ، مولانا چراغ علی خطیب جامع مسجد [[اہل السنۃ والجماعت|اہل سنت]] اور حکیم قاضی عبدالرحیم، جو ندوی لکھنؤ کے فارغ التحصیل تھے، سے بھی حاصل کی۔ آپ نے بارہ برس کی عمر تک طب، حدیث، فقہ اور عربی زبان میں کافی حد تک عبور حاصل کر لیا تھا۔ 1926ء میں مرزا احمد علی مرحوم آپ کو اپنے ہمراہ لکھنؤ لے گئے جہاں آپ نے مدرسہ ناظمیہ میں مولانا ابوالحسن عرف منن صاحب، جناب سعید علی نقوی، جناب مولانا ظہورالحسن اور جناب مفتی احمد علی مرحوم سے کسب علم وفیض فرمایا۔ مدرسہ ناظمیہ میں تحصیل علم کے دوران آپ اپنی ذہانت کے باعث کافی معروف ہوئے۔ آپ نے وہاں امتحانات میں نہ صرف یہ کہ امتیازی اور نمایاں حیثیت حاصل کی بلکہ کچھ اعزازی سندیں بھی حاصل کیں۔  
سطر 8: سطر 30:
== علمی آثار ==
== علمی آثار ==
=== ترجمہ نہج البلاغہ ===
=== ترجمہ نہج البلاغہ ===
یہ کتاب حضرت علی علیہ السلام کے خطبات، خطوط اور کلمات قصار پر مشتمل ہے۔ چوتھی صدی ہجری میں سید شریف رضی حضرت امیر کے یہ خطبات ،خطوط اور کلمات قصار کہ جو ان کی نظر میں فصاحت وبلاغت کے انتہائی آخری درجہ کو پہنچے ہوئے تھے، جمع کیے اور اسی مناسبت سے اس کتاب کانام نہج البلاغہ (یعنی بلاغت کا راستہ) رکھا۔ یہ کتاب پوری دنیا میں اپنا ثانی نہ رکھنے کی بنا پر مشہور ہے۔ اس کتاب پر زبان عربی ،فارسی اورانگریزی میں بہت سی شروحات اور ترجمہ لکھے جاچکے ہیں۔ مفتی صاحب نے اہل اردو زبان پر احسان کرتے ہوئے اس عظیم شہ پارے کو اردو زبان میں ترجمہ اور مختصر شرح کے ساتھ پیش کیا۔ آج تک جس کسی نے اس کتاب کو ایک مرتبہ پڑھا ہے پھر اس کا گرویدہ ہو گیا ہے۔
یہ کتاب حضرت علی علیہ السلام کے خطبات، خطوط اور کلمات قصار پر مشتمل ہے۔ چوتھی صدی ہجری میں سید شریف رضی حضرت امیر کے یہ خطبات ،خطوط اور کلمات قصار کہ جو ان کی نظر میں فصاحت وبلاغت کے انتہائی آخری درجہ کو پہنچے ہوئے تھے، جمع کیے اور اسی مناسبت سے اس کتاب کانام نہج البلاغہ (یعنی بلاغت کا راستہ) رکھا۔ یہ کتاب پوری دنیا میں اپنا ثانی نہ رکھنے کی بنا پر مشہور ہے۔ اس کتاب پر زبان عربی ،فارسی اورانگریزی میں بہت سی شروحات اور ترجمہ لکھے جاچکے ہیں۔ مفتی نے شارحانہ حواشی کے ساتھ اس کا واضح و سلیس ترجمہ فرمایا جو صحت و سلامت اور حل نکات اور تشریح مطالب کے لحاظ سے تمام تراجم و شروح میں ایک امتیازی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کتاب کا مقدمہ حضرت سید العلماء مولانا سید علی نقی النقوی نے تحریر فرمایا ہے جو ان کی تحقیقی و تدقیقی کاوشوں کا نتیجہ اور علمی دنیا میں بیش بہا اضافہ ہے <ref>علامہ مفتی جعفر حسین، نہج البلاغہ، ترجمہ اردو، اشاعت دوم، 2021ء، مرکز افکار اسلامی</ref>۔
 
=== ترجمہ صحیفہ کاملہ ===
=== ترجمہ صحیفہ کاملہ ===
یہ کتاب چوتھے [[علی بن حسین|امام حضرت علی زین العابدین علیہ السلام]] کی دعاؤں پر مشتمل ہے ان تمام دعاؤں کی سند بلکہ اس تمام صحیفہ کی سند اورخود امام عالی مرام علیہ السلام سے ہم تک پہنچنے کی تمام تاریخ اس کے مقدمہ میں موجود ہے۔ یہ کتاب جو زبور آل محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نام سے مشہور ہے۔ تمام مسلم دنیا میں معروف ہے۔ اس کتاب کے بارے مصر کے مشہور عالم دین طنطاوی جوہری مصری خداوند کی بارگاہ میں شکوہ کرتے ہوئے یوں رقم طراز ہیں : خداوندا یہ تیری کتاب موجود ہے قران اور یہ [[اہل بیت|اہل بیت علیہم السلام]] میں سے ایک مشہور بزرگ ہستی کے کلمات ہیں۔ یہ دونوں کلام، وہ آسمان سے نازل شدہ کلام اور یہ اہل بیت علیہم السلام کے صدیقین میں سے ایک صدیق کی زبان سے نکلا ہوا کلام دونوں بالکل متفق ہیں۔ اب میں بلند آواز سے پکارتا ہوں ہندوستان اور تمام اسلامی ممالک میں اے فرزندان اسلام، اے اہل سنت، اے اہل تشیع۔ کیا اب بھی وقت نہیں آیا کہ تم قران اور اہل بیت علیہم السلام کے مواعظ سے سبق حاصل کرو۔ یہ دونوں تم کو بلا رہے ہیں ان علوم کے حاصل کرنے کی طرف، جن سے عجائب قدرت منکشف ہوتے ہیں اور خدا کی معرفت حاصل ہوتی ہے۔ تفرقہ انگیز مباحث سے باز آؤ اور ان ہدایات پر عمل کرو۔ ان علوم سے استفادہ کرو اور سورج کے نیچے، زمین کے اوپر زندہ رہنے کا سامان کرو۔ آپ نے اس صحیفہ کا اردو زبان میں ترجمہ کرکے مسلمانان برصغیر پر عظیم احسان کیا ہے۔  
یہ کتاب چوتھے [[علی بن حسین|امام حضرت علی زین العابدین علیہ السلام]] کی دعاؤں پر مشتمل ہے ان تمام دعاؤں کی سند بلکہ اس تمام صحیفہ کی سند اورخود امام عالی مرام علیہ السلام سے ہم تک پہنچنے کی تمام تاریخ اس کے مقدمہ میں موجود ہے۔ یہ کتاب جو زبور آل محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نام سے مشہور ہے۔ تمام مسلم دنیا میں معروف ہے۔ اس کتاب کے بارے مصر کے مشہور عالم دین طنطاوی جوہری مصری خداوند کی بارگاہ میں شکوہ کرتے ہوئے یوں رقم طراز ہیں : خداوندا یہ تیری کتاب موجود ہے قران اور یہ [[اہل بیت|اہل بیت علیہم السلام]] میں سے ایک مشہور بزرگ ہستی کے کلمات ہیں۔ یہ دونوں کلام، وہ آسمان سے نازل شدہ کلام اور یہ اہل بیت علیہم السلام کے صدیقین میں سے ایک صدیق کی زبان سے نکلا ہوا کلام دونوں بالکل متفق ہیں۔ اب میں بلند آواز سے پکارتا ہوں ہندوستان اور تمام اسلامی ممالک میں اے فرزندان اسلام، اے اہل سنت، اے اہل تشیع۔ کیا اب بھی وقت نہیں آیا کہ تم قران اور اہل بیت علیہم السلام کے مواعظ سے سبق حاصل کرو۔ یہ دونوں تم کو بلا رہے ہیں ان علوم کے حاصل کرنے کی طرف، جن سے عجائب قدرت منکشف ہوتے ہیں اور خدا کی معرفت حاصل ہوتی ہے۔ تفرقہ انگیز مباحث سے باز آؤ اور ان ہدایات پر عمل کرو۔ ان علوم سے استفادہ کرو اور سورج کے نیچے، زمین کے اوپر زندہ رہنے کا سامان کرو۔ آپ نے اس صحیفہ کا اردو زبان میں ترجمہ کرکے مسلمانان برصغیر پر عظیم احسان کیا ہے۔  
=== سیرت امیرالمومنین علیہ السلام ===
=== سیرت امیرالمومنین علیہ السلام ===
یہ کتاب آپ کی تالیف ہے اور دوضخیم جلدوں پر مشتمل ہے۔ جس میں آپ مولا علی علیہ السلام کی زندگی اورسیرت پر تمام جوانب سے روشنی ڈالی ہے۔
یہ کتاب آپ کی تالیف ہے اور دوضخیم جلدوں پر مشتمل ہے۔ جس میں آپ مولا علی علیہ السلام کی زندگی اورسیرت پر تمام جوانب سے روشنی ڈالی ہے <ref>مفتی جعفر حسین، سیرت امیر المومنین، امامیہ کتب خانہ مغل حویلی، لاہور</ref>۔
 
=== ملت جعفریہ کی قیادت ===
=== ملت جعفریہ کی قیادت ===
علمی میدان کے علاوہ سیاسی میدان میں بھی آپ نے کافی خدمات انجام دی ہیں جن میں سے صرف شیعیان پاکستان کی عظیم الشان رہبری سرفہرست ہے آپ ہی وہ عظیم ہستی ہیں کہ جنھوں نے شیعیان پاکستان کے حقوق کے تحفظ کے لیے تحریک نفاذ فقہ جعفریہ پاکستان کی سب سے پہلی صدارت قبول فرمائی اور قائد ملت جعفریہ پاکستان کے نام سے بہترین قیادت فرمائی۔ ہمیشہ آپ کا احسان شیعیان پاکستان پر باقی رہ جائے گا۔
1948ء کو لاہور میں بعض علماء کرام کیساتھ ملکر آپ نے ادارہ تحفظ حقوق شیعہ پاکستان کی بنیاد رکھی اور اس کے پہلے صدر منتخب ہوئے۔ 1949ء میں آپ تعلیمات اسلامی بورڈ کے رکن منتخب ہوئے۔ 1979ء میں جب سابق فوجی آمر جنرل ضیاء الحق نے نفاذ اسلام کے چند جزوی اقدامات کا اعلان کیا، جن میں ایک زکواۃ کی وصولی کا بھی تھا، مگر اس اعلان میں فقہ جعفریہ کو بالکل نظرانداز کر دیا گیا تھا۔ مفتی جعفر حسین نے اس وقت ایک پریس کانفرنس بلاکر حکومت کو الٹی میٹم دیا کہ اگر فقہ جعفریہ کے پیروکاروں کے لئے باقاعدہ طور پر فقہ جعفریہ کے نفاذ کا اعلان نہ کیا گیا تو وہ اسلامی نظریاتی کونسل کی رکنیت سے احتجاجاً مستعفی ہو جائیں گے۔
جب فوجی ڈکٹیٹر نے اپنا رویہ نہ بدلا تو مفتی جعفر حسین نے اپنے اعلان کے مطابق استعفیٰ دے دیا، شیعہ قیادت نے آل پاکستان شیعہ کنونشن منعقد کرنے کا فیصلہ کیا، جس میں ایک متحدہ قومی پلیٹ فارم کی تشکیل کرکے اپنے ملی حقوق کے حصول کے لئے منظم تحریک چلانے کا منصوبہ بنایا گیا۔ چنانچہ 12 اور 13 اپریل 1979ء کو بھکر میں ایک بھرپور قومی کنونشن منعقد ہوا، جو تاریخ پاکستان میں آج بھی شیعیان حیدر کرار کے بڑے اجتماعات میں شمار ہوتا ہے۔ اس کنونشن میں پہلی بار متفقہ طور پر باقاعدہ شیعہ قیادت کا انتخاب عمل میں لایا گیا۔ اس کنونشن مین علامہ مفتی جعفر حسین کو شیعیان پاکستان کا متفقہ طور پر قائد تسلیم کیا گیا اور فضاء ’’ایک ہی قائد، ایک ہی رہبر، مفتی جعفر مفتی جعفر، مفتی جعفر مفتی جعفر‘‘ کے نعروں سے گونج اٹھی تھی۔ اس وقت برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی نے دعویٰ کیا کہ آیۃ اللہ خمینی کے بعد مفتی جعفر حسین ایشیاء کے دوسرے بڑے روحانی پیشوا تھے کہ جنہیں عوام کی اتنی بڑی تعداد نے تسلیم کیا۔
مفتی جعفر حسین نے بطور قائد ملت جعفریہ پاکستان اپنے خطاب میں ڈکٹیٹر کی حکومت سے مطالبہ کیا کہ 30 اپریل سے پہلے حکومت شیعیان پاکستان کے مذہبی مطالبات تسلیم کرنے کا اعلان کرے، عدم قبولیت کی صورت میں 30 اپریل کے بعد شیعہ اپنے مطالبات کے حق میں ملک گیر تحریک شروع کر دیں گے، مزید یہ کہ یہ تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کہلائے گی۔ تنظیم کا صدر دفتر اسلام آباد میں ہوگا، صوبہ، ڈویژن، ضلع، تحصیل اور موضع کی سطح پر بھی تحریک کے دفاتر قائم کئے جائیں گے۔ جنرل ضیاء الحق نے ان کے جواب میں کراچی میں یہ بیان جاری کیا کہ ’’ایک ملک میں دو قانون نافذ نہیں کئے جاسکتے، پاکستانی عوام کی اکثریت حنفی المذہب ہے، اس لئے یہاں فقہ حنفی ہی نافذ ہوگی۔‘‘ آمر کی حکومت نے کنونشن کو ممنوع قرار دیدیا، اسلام آباد کی چاروں طرف سے ناکہ بندی کردی گئی، پھر بھی اسلام آباد کے لال کواٹرز کے قریب ہاکی گراؤنڈ اور اس کے آس پاس کے علاقوں میں اتنے جانثار جمع ہوگئے تھے کہ فوجی آمر حیران رہ گیا۔
 
مذاکرات سے مسائل کے حل پر یقین رکھنے والے شیعہ قائد علامہ مفتی جعفر حسین نے 2 جولائی کو جنرل ضیاء الحق کی دعوت پر اس سے رات کے وقت دو گھنٹے ملاقات بھی کی، تاہم اس ملاقات کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ جس کے بعد 4 اور 5 جولائی کو فوحی آمر کی حکومت نے بہت سے پینترے بدلے لیکن شیعوں کا جوش و جذبہ کم نہ ہوا اور 5 جولائی کی شام کو عوام نے صدارتی سکریٹریٹ کا گھیراؤ کرلیا اور دھرنا دے کر وہیں بیٹھ گئے۔ 6 جولائی کو قائد ملت جعفریہ علامہ مفتی جعفر حسین جنرل ضیاء الحق کی دعوت پر ایک مرتب پھر پانچ رکنی وفد کے ساتھ سکرٹریٹ تشریف لے گئے اور کم و بیش بارہ گھنٹے تک مذاکرات ہوتے رہے۔ مذاکرات کا یہ دور نتیجہ خیز ثابت ہوا اور ضیاء الحق نے بالآخر شیعہ مطالبات کے سامنے گھٹنے ٹیک دیئے۔ اس موقع پر ایک معاہدہ طے پایا، جس میں جنرل ضیاء الحق نے شیعہ قیادت کو یہ یقین دلایا کہ کسی ایک فرقہ کی فقہ دوسرے فرقہ پر مسلط نہیں کی جائے گی۔
 
اسی روز شام کو قائد ملت جعفریہ علامہ مفتی جعفر حسین نے سیکرٹریٹ سے باہر آکر مجمع کے سامنے تاریخی فتح کی خبر سنائی اور بتایا کہ ضیاء الحق نے ہمارا مطالبہ منظور کرلیا ہے اور یہ یقین دلایا ہے کہ نہ صرف عشر و زکوۃ بلکہ ہر نئے قانون میں فقہ جعفریہ کو ملحوظ رکھا جائے گا۔ اس طرح قائد ملت کی ہدایت کے مطابق ملک کے طول و عرض سے آئے ہوئے عوام اپنے کامیابی دامن میں سمیٹے گھروں کو واپس جانے لگے۔ بھکر کنوشن کے بعد شب و روز کے طوفانی دوروں نے آپ کی صحت کو بہت متاثر کیا <ref>سید عدیل زیدی، علامہ مفتی جعفر حسینؒ کی زندگی پر ایک نظر[https://ur.hawzahnews.com/news/383876/%D8%B9%D9%84%D8%A7%D9%85%DB%81-%D9%85%D9%81%D8%AA%DB%8C-%D8%AC%D8%B9%D9%81%D8%B1-%D8%AD%D8%B3%DB%8C%D9%86-%DA%A9%DB%8C-%D8%B2%D9%86%D8%AF%DA%AF%DB%8C-%D9%BE%D8%B1-%D8%A7%DB%8C%DA%A9-%D9%86%D8%B8%D8%B1 hawzahnews.com]</ref>۔
== مفتی جعفر حسین مظہر اتحاد ==
== مفتی جعفر حسین مظہر اتحاد ==
ہر بڑی شخصیت کے متعدد پہلو ہوتے ہیں۔ بعض پہلو بہت نمایاں ہو جاتے ہیں، بعض عوام کی نظر میں مقبول ہو جاتے ہیں، لیکن دیگر پہلو جو اپنی جگہ تو بہت اہم ہوتے ہیں، مگر وہ مکمل سوانح حیات کے نہ ہونے یا تجاہل عارفانہ کا شکار ہو جاتے ہیں۔  علامہ مفتی جعفر حسین مرحوم ایک تو بڑی شخصیات میں سے ایک ہیں، ان کے ساتھ بھی بڑی شخصیتوں والا سلوک ہوا ہے۔ میں اپنے قلیل مشاہدہ اور مطالعہ کی بنا پر یہ کہہ سکتا ہوں کہ جو لوگ مخلص اور الٰہی انسان ہوتے ہیں، اللہ ان کی محبت لوگوں کے دلوں میں پیدا کر دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مفتی جعفر حسین اب بھی یاد کیے جاتے ہیں۔ ان کے کیے ہوئے علمی کام اپنی جگہ بنا چکے ہیں۔ ایک تو آپ کا بچپن ایسے ماحول میں گزرا ہے، جہاں فرقہ واریت کی بجائے انسانیت اور رواداری کا رواج تھا۔ آپ کے آباء طب سے تعلق رکھتے تھے، جو معاشرے میں ایک معزز اور معروف طبقہ گنا جاتا ہے۔ پھر آپ کے چچا نے آپ کی تعلیم و تربیت اہل سنت کے علماء کرام کے سپرد کی، جنہوں نے آپ کو بنیادی تعلیمات و عربی زبان کے قواعد و ضوابط سے آگاہ کیا۔ آپ کا بچپن سے اہل سنت کے ساتھ یہ ارتباط تاحیات آپ پر اثر انداز رہا۔
ہر بڑی شخصیت کے متعدد پہلو ہوتے ہیں۔ بعض پہلو بہت نمایاں ہو جاتے ہیں، بعض عوام کی نظر میں مقبول ہو جاتے ہیں، لیکن دیگر پہلو جو اپنی جگہ تو بہت اہم ہوتے ہیں، مگر وہ مکمل سوانح حیات کے نہ ہونے یا تجاہل عارفانہ کا شکار ہو جاتے ہیں۔  علامہ مفتی جعفر حسین مرحوم ایک تو بڑی شخصیات میں سے ایک ہیں، ان کے ساتھ بھی بڑی شخصیتوں والا سلوک ہوا ہے۔ میں اپنے قلیل مشاہدہ اور مطالعہ کی بنا پر یہ کہہ سکتا ہوں کہ جو لوگ مخلص اور الٰہی انسان ہوتے ہیں، اللہ ان کی محبت لوگوں کے دلوں میں پیدا کر دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مفتی جعفر حسین اب بھی یاد کیے جاتے ہیں۔ ان کے کیے ہوئے علمی کام اپنی جگہ بنا چکے ہیں۔ ایک تو آپ کا بچپن ایسے ماحول میں گزرا ہے، جہاں فرقہ واریت کی بجائے انسانیت اور رواداری کا رواج تھا۔ آپ کے آباء طب سے تعلق رکھتے تھے، جو معاشرے میں ایک معزز اور معروف طبقہ گنا جاتا ہے۔ پھر آپ کے چچا نے آپ کی تعلیم و تربیت اہل سنت کے علماء کرام کے سپرد کی، جنہوں نے آپ کو بنیادی تعلیمات و عربی زبان کے قواعد و ضوابط سے آگاہ کیا۔ آپ کا بچپن سے اہل سنت کے ساتھ یہ ارتباط تاحیات آپ پر اثر انداز رہا۔
سطر 69: سطر 99:
ظاہر بات ہے کہ جو کردار آپ کی زندگی پر غالب رہا، اسی کا اظہار غیر جانبدار میڈیا نے کیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ آج بھی آپ کے اس کردار کی وجہ سے آپ کو یاد کیا جاتا ہے۔ آپ نے جن شخصیات یعنی کہ حضرت علی علیہ السلام اور حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کی کتب کا ترجمہ اور حاشیہ تحریر فرمایا ہے اور اسی طرح سیرت امیر المومنین علیہ السلام دو جلدوں میں مرتب کی ہے، یہ دونوں شخصیات امت محمدی میں مشترک اور قدر کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہیں۔ آپ کی یہ علمی خدمت بھی ایک پہلو کے لحاظ سے اتحاد بین مسلمین کی طرف متوجہ کرتی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ آپ کے اس کردار کا تفصیل سے تحقیق و جائزہ لیا جائے اور ان اصولوں کو واضح کیا جائے کہ جن پر آپ عمل پیرا تھے۔ ایک بات آپ کے کردار سے بہت واضح ہوتی ہے کہ اپنی شناخت اور اپنی پہچان کو برقرار رکھتے ہوئے دیگر مسالک کے ساتھ اتحاد و دوستی کا ہاتھ بڑھایا جائے۔ آپ ہر مسئلے پر اپنی رائے رکھتے تھے، لیکن آپ دلائل و برہان کے سامنے اسے تبدیل کرنے میں کبھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے تھے۔ میرا خیال ہے کہ یہی آپ کی کامیابی کا مرکزی نقطہ ہے۔ اللہ ہمیں آپ کے آثار کو محفوظ کرنے اور تعلیمات کو عام کرنے کی توفیق عنایت فرمائے <ref>سید نثار علی ترمذی(ایڈیٹر ماہنامہ پیام اسلام آباد)، علامہ مفتی جعفر حسین، اتحاد کے مظہر، [https://www.islamtimes.org/ur/article/1085646/%D8%B9%D9%84%D8%A7%D9%85%DB%81-%D9%85%D9%81%D8%AA%DB%8C-%D8%AC%D8%B9%D9%81%D8%B1-%D8%AD%D8%B3%DB%8C%D9%86-%D8%A7%D8%AA%D8%AD%D8%A7%D8%AF-%DA%A9%DB%92-%D9%85%D8%B8%DB%81%D8%B1 islamtimes.org]
ظاہر بات ہے کہ جو کردار آپ کی زندگی پر غالب رہا، اسی کا اظہار غیر جانبدار میڈیا نے کیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ آج بھی آپ کے اس کردار کی وجہ سے آپ کو یاد کیا جاتا ہے۔ آپ نے جن شخصیات یعنی کہ حضرت علی علیہ السلام اور حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کی کتب کا ترجمہ اور حاشیہ تحریر فرمایا ہے اور اسی طرح سیرت امیر المومنین علیہ السلام دو جلدوں میں مرتب کی ہے، یہ دونوں شخصیات امت محمدی میں مشترک اور قدر کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہیں۔ آپ کی یہ علمی خدمت بھی ایک پہلو کے لحاظ سے اتحاد بین مسلمین کی طرف متوجہ کرتی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ آپ کے اس کردار کا تفصیل سے تحقیق و جائزہ لیا جائے اور ان اصولوں کو واضح کیا جائے کہ جن پر آپ عمل پیرا تھے۔ ایک بات آپ کے کردار سے بہت واضح ہوتی ہے کہ اپنی شناخت اور اپنی پہچان کو برقرار رکھتے ہوئے دیگر مسالک کے ساتھ اتحاد و دوستی کا ہاتھ بڑھایا جائے۔ آپ ہر مسئلے پر اپنی رائے رکھتے تھے، لیکن آپ دلائل و برہان کے سامنے اسے تبدیل کرنے میں کبھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے تھے۔ میرا خیال ہے کہ یہی آپ کی کامیابی کا مرکزی نقطہ ہے۔ اللہ ہمیں آپ کے آثار کو محفوظ کرنے اور تعلیمات کو عام کرنے کی توفیق عنایت فرمائے <ref>سید نثار علی ترمذی(ایڈیٹر ماہنامہ پیام اسلام آباد)، علامہ مفتی جعفر حسین، اتحاد کے مظہر، [https://www.islamtimes.org/ur/article/1085646/%D8%B9%D9%84%D8%A7%D9%85%DB%81-%D9%85%D9%81%D8%AA%DB%8C-%D8%AC%D8%B9%D9%81%D8%B1-%D8%AD%D8%B3%DB%8C%D9%86-%D8%A7%D8%AA%D8%AD%D8%A7%D8%AF-%DA%A9%DB%92-%D9%85%D8%B8%DB%81%D8%B1 islamtimes.org]
</ref>۔
</ref>۔
== حوالہ جات ==
{{حوالہ جات}}
{{پاکستان}}
{{پاکستانی علماء}}
[[زمرہ:شخصیات]]
[[زمرہ:پاکستان]]