مرتضی مطهری

ویکی‌وحدت سے
(شهید مرتضی مطهری سے رجوع مکرر)
مرتضی مطهری
مرتضی مطهری.jpg
پورا ناممرتضی مطهری
دوسرے نامشهید مطهری
ذاتی معلومات
پیدائش1298 ش، 1920 ء، 1337 ق
پیدائش کی جگہایران مشهد فریمان
وفات1357 ش، 1979 ء، 1398 ق
وفات کی جگہتهران
اساتذہآیت الله محمد صدوقی، امام خمینی اور علامه طباطبائی
مذہباسلام، شیعہ
مناصبمولف، مصنف، استاد فلسفه کلام اور تفسیر قرآن اسلامی دنیا کے عظیم مفکر

شهید مرتضی مطہری (3/فروری/1920ء کو مشهد کے فریمان نامی گاؤ‌ں میں پیدا ہوئے اور یکم مئی/1978ء(۱۱ اردیبهشت ۱۳۵۸ شمسی) کو تہران میں شہید ہوئے) وه ایک مایہ ناز عالم دین، اسلامی فلسفہ اور کلام کے استاد، قرآن کریم کی تفسیر کے ماہر اور وحدت اسلامی کے راہنماؤں میں سے ایک تھے۔ وہ اسلامی ہیئت الموتلفہ پارٹی کے رکن اور جمہوریہ اسلامی ایران کے ممتاز نظریہ سازوں میں شمار کیے جاتے تھے۔

سوانح حیات

3 فروری سنہ 1920ء میں، ایک ایسے خاندان میں جہاں علم اور تقویٰ کی قدر کی جاتی تھی، ایک نومولود کی ولادت ہوئی جس کا نام مرتضی رکھا گیا۔ ان کے خاندان کا ماحول ان کی شخصیت کی بنیاد رکھنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ مرتضی ، رضا سے ماخوذ ہے اس کا مطلب رضایت اور خوشنودی ہے۔ مرتضی نے بچپن ہی میں اپنے والدین کی خوشنودی حاصل کی اور ان کی امیدوں پر پورا اترا۔ مرتضی" نہ صرف اپنے والدین کی خوشنودی حاصل کرنے میں کامیاب ہوا بلکہ اس نے اسلامی امت اور اسلامی انقلاب کے معمار امام خمینی کی رضامندی بھی جیت لی اور آخرکار، ان کو شہادت کے ذریعے خدا کی رضایت اور خوشنودی بھی نصیب ہوئی۔[1]

حصول علم کا شوق

مرتضیٰ بچپن کے زمانے میں فریمان گاؤں (جو اب ایک شہر بن چکا ہے اور مشہد سے 75 کلومیٹر دور واقع ہے) میں ایک مکتب خانے میں گئے اور قرآن کریم اور ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ مکتب خانے جانے کے شوق کی وجہ سے- تقریباً 5 سال کی عمر میں - ایک چاندنی رات میں، صبح کے قریب، یہ سوچ کر کہ صبح ہو گئی ہے، انہوں نے اپنی کاپی اور کتاب اٹھائی اور مکتب خانے کی طرف روانہ ہوئے۔

چونکہ مکتب خانہ بند تھا، وہ دروازے کے پیچھے بیٹھ گئے اور سو گئے۔ صبح سویرے، ان کے والدین نے ان کی جگہ خالی دیکھی، ان کی تلاش کی اور آخر کار انہیں مکتب خانے کے دروازے کے پیچھے سوتے ہوئے پایا۔ تقریبا ً بارہ سال کی عمر میں مرتضیٰ میں علوم دینی سیکھنے کا شوق اور جذبہ مزید بڑھتا ہوا نظر آیا۔ پہلوی حکومت کے جابرانہ دور میں، مذہبی درسگاہوں میں تعلیم حاصل کرنے کا فیصلہ ایک مشکل کام تھا۔ وہ زمانہ تھا جب علماء اور روحانیوں پر سخت حالات اور مشکلات سب کے سامنے تھیں۔ اس کم سن بچے میں علم حاصل کرنے کی خاص صلاحیت نے ارد گرد کے لوگوں کو اس بات پر آمادہ کیا کہ ہر ایک اپنی پسند کے مطابق اس کے تعلیم کی راہ کا تعین کریں۔

دوسری جانب ان کے والد محترم شیخ محمد حسین مطہری۔ جو خود علم و تقویٰ کے حامل تھے، نے اپنے بیٹے کی تعلیم کی رہنمائی اپنے ہاتھوں میں لی اور کچھ رشتہ داروں اور عزیزوں کی خواہش کے برخلاف، ان کے لئے دینی تعلیم حاصل کرنے کی راہ ہموار کی۔

علمی سرگرمیوں کا آغاز

تیرہ سال کی عمر میں آپ مشہد کے مقدس دینی مرکز (حوزہ علمیہ) تشریف لے گئے اور دینی علوم کی ابتدائی تعلیم کا آغاز کیا۔ اس دور میں استاد مطہری کی زندگی کا ایک حساس موڑ آیا جو ان کی علمی اور روحانی زندگی کے ساتھ ساتھ اسلامی نظریات کی زندگی میں بھی بہت اہم ثابت ہوا۔ گویا آپ عربی ادب، فقہی، اصولی اور منطقی علوم کو صرف اس لیے سیکھ رہے تھے تاکہ وہ آپ کو بڑے فلسفیوں کی باتوں کا جائزہ لینے کے لیے تیار کر سکیں۔ اسی لیے اس دور سے ہی فلسفی، عارف اور متکلمین صرف اس وجہ سے ان کی نظر میں بڑے تھے کہ وہ انہیں ان افکار کے میدان کے ہیرو سمجھتے تھے۔

چنانچہ مرحوم آغا میرزا مہدی شہیدی رضوی، جو مشہد کے حوزے میں فلسفہ الٰہی کے مدرس تھے، ان تمام علماء اور مدرسین کے درمیان واحد شخص تھے جنہوں نے شیخ مرتضیٰ کو اپنا گرویدہ بنا لیا اور ان کا دل جیت لیا۔ ان احساسات کو ہم ان کی اپنی زبانی سنتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا: "جہاں تک میں اپنی روحانی تبدیلیوں کو یاد کرتا ہوں، تیرہ سال کی عمر سے ہی یہ فکر مجھ میں پیدا ہو گئی تھی اور خدا سے متعلق مسائل کے بارے میں ایک عجیب حساسیت پیدا ہو گئی تھی۔ سوالات، یقیناً اس دور کے فکری سطح کے مطابق، ایک کے بعد ایک میرے ذہن پر حملہ آور ہو رہے تھے۔"

مجھے یاد ہے کہ جب میں نے مشہد میں عربی کی ابتدائی تعلیم حاصل کرتے ہوئے اپنی تعلیم کا آغاز کیا تو فلسفی، عارف اور متکلمین - اگرچہ میں ان کے نظریات سے واقف نہیں تھا - میری نظر میں دوسرے علماء اور دانشوروں اور مفکرین کے مقابلے میں زیادہ گہرے اور عظیم نظر آتے تھے، صرف اس لیے کہ میں انہیں ان افکار کے میدان کے ہیرو سمجھتا تھا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ان دنوں جب میری عمر 13 سے 15 سال کے درمیان تھی، مشہد کے حوزہ علمیہ کے ان تمام علماء، فضلاء اور اساتذہ کے درمیان، ایک شخص جو میری نظر میں سب سے زیادہ عظیم الشان نظر آتا تھا۔

اور میں جس کے چہرے کو دیکھنا پسند کرتا تھا اور خواہش کرتا تھا کہ کسی دن میں اس کے درس میں بیٹھوں، مرحوم "آغا میرزا مہدی شہیدی رضوی" تھے جو اس حوزے میں فلسفہ الٰہی کے مدرس تھے۔ وہ خواہش پوری نہ ہو سکی کیونکہ وہ مرحوم، ان ہی سالوں (1355 قمری) میں انتقال کر گئے۔[2] قم کی جانب ہجرت کے ابتدائی سالوں میں، جب میں ابھی عربی کی ابتدائی تعلیم سے فارغ نہیں ہوا تھا، میں ان(فلسفی) افکار میں اس قدر غرق تھا کہ مجھ میں تنہائی کی شدید خواہش پیدا ہو گئی تھی۔

میں اپنے ساتھ رہنے والے ہم جماعت کو برداشت نہیں کر سکتا تھا اور میں نے اوپر والے حجرے کو ایک چھوٹے سے تاریک کمرے میں تبدیل کر دیا تھا تاکہ میں صرف اپنے افکار کے ساتھ رہ سکوں۔ اس وقت میں یہ نہیں چاہتا تھا کہ میں پڑھائی اور بحث و مباحثے سے فارغ اوقات میں کسی اور موضوع کے بارے میں سوچوں اور درحقیقت کسی اور موضوع پر غور و فکر کو اس سے پہلے کہ ان مسائل میں میری مشکلات حل ہو جائیں، بیکار اور وقت کا ضیاع سمجھتا تھا۔ میں عربی کے مقدمات یا فقہی، اصولی اور منطقی علوم کو اس لیے سیکھ رہا تھا تاکہ آہستہ آہستہ اس مسئلے میں بڑے فلسفیوں کے افکار کا جائزہ لینے کے لیے تیار ہو جاؤں۔

اساتذه

شیخ مرتضیٰ نے مشہد حوزہ علمیہ میں تقریباً چار سال تعلیم حاصل کرنے کے بعد، 1315 شمسی سال میں حوزه علمیه قم کی طرف سفر کیا۔ ان کی تعلیمی زندگی کے بہترین ایام قم کے علمی حوزے میں پندرہ سال قیام اور اس دور کے عظیم اساتذہ سے فیض حاصل کرنے میں گزرے۔ ان ایام میں وہ آیت اللہ العظمیٰ بروجردی کے نمایاں شاگردوں میں سے ایک تھے۔ انہوں نے "مرحوم آیت اللہ بروجردی کے فوائد اور خدمات" کے عنوان سے ایک مضمون میں کہا ہے: "اس بندے نے قم میں اپنے قیام کے آٹھ سالوں کے دوران، جو ان کی (آیت اللہ بروجردی کی) شہر میں آمد کے ابتدائی سال تھاا، ان کے دروس سے فائدہ اٹھایا اور چونکہ میں ان کے فقاہت کے طریقے پر یقین رکھتا ہوں، اس لیے میرا عقیدہ ہے کہ اس کی پیروی اور تکمیل ہونی۔ چاہیے"۔ [3]

انہوں نے بارہ سال تک حضرت امام خمینی کے علمی اور اخلاقی محضر سے استفادہ کیا۔ ان کا امام کے ساتھ رشتہ شاگرد اور استاد کے رشتے سے کہیں بڑھ کر تھا اور امام خمینی استاد مطہری کے حجرے میں آتے جاتے تھے۔ انہوں نے امام خمینی کے محضر میں تعلیم کے دور کو اس طرح بیان کیا ہے: قم ہجرت کرنے کے بعد، میں نے اپنی کھوئی ہوئی چیز کو ایک دوسری شخصیت میں پایا۔ میں ہمیشہ مرحوم آغا میرزا مہدی کو کچھ اور خصوصیات کے علاوہ اس شخصیت میں دیکھتا تھا۔ میں سوچتا تھا کہ میری پیاسی روح اس شخصیت کے صاف چشمے سے سیراب ہو جائے گی۔

اگرچہ قم ہجرت کے آغاز میں، میں ابھی "مقدمات" سے فارغ نہیں ہوا تھا اور "معقولات" میں داخل ہونے کی صلاحیت نہیں رکھتا تھا، لیکن ہر جمعرات اور جمعہ کو میرے محبوب شخصیت کا اخلاقی درس دیا جاتا تھا اور حقیقت میں وہ معارف اور سیر و سلوک کا درس تھا نہ کہ خشک علمی مفہوم میں اخلاق کا، جو مجھے سرشار کر دیتا تھا۔ بغیر کسی مبالغہ اور مبالغہ آرائی کے، اس درس نے مجھے اس قدر مسرور کر دیا کہ میں اگلے ہفتے پیر اور منگل تک خود کو اس سے شدید متاثر پاتا تھا۔ میری فکری اور روحانی شخصیت کا ایک اہم حصہ اس درس میں - اور پھر ان دوسرے دروس میں جو میں نے بارہ سال کے دوران اس الٰہی استاد سے حاصل کیے - تشکیل پایا اور میں ہمیشہ خود کو ان کا ممنون سمجھتا ہوں اور سمجھتا رہوں گا۔ حقیقت میں وه عظیم استاد [امام خمینی تھے۔[4]

دوسری شخصیت جن کی علمی اور معنوی شخصیت نے شیخ مرتضیٰ از حد متاثر کیا وه حضرت علامہ طباطبائی (رح) تھے۔ اگرچہ استاد کی رسمی تعلیم کی مدت علامہ کے پاس تقریباً تین سال تھی، لیکن ان کا رشتہ مرحوم علامہ کے ساتھ ان کی شہادت تک قائم رہا اور وہ اس عظیم استاد کے محضر سے فیض حاصل کرتے رہے۔ ان کی جانب سے "حضرت استادنا الاکرم[5] علامہ طباطبائی روحی فداہ" کی تعبیر ان کے مرحوم علامہ کے درمیان احترام اور محبت کی علامت ہے۔

وہ اس استاد کے بارے میں اس طرح بیان کرتے ہیں: "1329 میں، حضرت استاد، علامہ کبیر آقای طباطبائی روحی فداہ کے درس میں شرکت کی، جو کچھ سال پہلے قم آئے تھے اور زیادہ معروف نہیں تھے، اور ان سے بو علی کی فلسفہ سیکھی اور ایک خصوصی درس میں بھی شرکت کی جو انہوں نے فلسفہ مادی کا جائزہ لینے کے لیے قائم کیا تھا۔ کتاب "اصول فلسفہ و روش رئالیسم"۔۔۔ کی اسی بابرکت مجلس میں بنیاد رکھی گئی۔"[6]

شهید مطهری علامه طباطبائی کے بارے میں لکھتےهیں: "علامہ طباطبائی، خدا ان پر رحم کرے، یہ بہت بہت بڑے اور قیمتی انسان تھے۔۔۔ آپ ایسی شخصیت هیں کہ سو سال بعد بھی لوگوں کو بیٹھ کر ان کے کاموں کا تجزیہ و تحلیل کرنا پڑے گا اور ان کی قدر و قیمت کا اندازہ لگانا پڑے گا۔۔۔ میں برس ہا برس اس عظیم انسان کے بابرکت محضر سے فیض یاب ہوا ہوں اور ابھی بھی ہوں۔ ان کی کتاب "تفسیر المیزان" ان بہترین تفسیروں میں سے ایک ہے جو قرآن مجید کے لیے لکھی گئی ہیں۔۔۔ میں دعویٰ کر سکتا ہوں کہ یہ بہترین تفسیر ہے جو شیعہ اور سنی کے درمیان صدر اسلام سے آج تک لکھی گئی ہے۔ بہت بہت عظیم اور جلیل القدر انسان تھے۔۔"[7] شیخ مرتضیٰ کی روحانی اور علمی شخصیت کی تشکیل میں جن عظیم اساتذہ کا گہرا اثر تھا ان میں سے کچھ یہ ہیں: عالم ربانی مرحوم حاج میرزا علی آغا شیرازی (قدس سرہ)، آیت اللہ سید محمد محقق یزدی جو داماد کے نام سے معروف ہیں، آیت اللہ سید محمد حجت تبریزی، اور آیات عظام: سید محمد رضا گلپائیگانی، سید محمد تقی خوانساری، میرزا مہدی آشتیانی، سید شہاب الدین مرعشی نجفی، سید صدر الدین صدر۔

تالیفات اور تصنیفات

  • آیینه جام
  • اخلاق جنسی در اسلام و جهان غرب؛
  • آزادی معنوی؛
  • اسلام و نیازهای زمان|اسلام و نیازهای انسان (اسلام و مقتضیات زمان) (۲ جلد)؛
  • آشنایی با علوم اسلامی (۳ جلد: منطق و فلسفه، کلام عرفان و حکمت عملی، اصول فقه و فقه)؛
  • آشنایی با قرآن (تاکنون ۱۴ جلد)؛
  • شرح اصول فلسفه و روش رئالیسم علامه طباطبایی (۵ جلد)؛
  • امامت و رهبری؛
  • انسان در قرآن؛
  • انسان کامل (کتاب)؛
  • انسان و ایمان؛
  • انسان و سرنوشت؛
  • پیامبر امی؛
  • آینده انقلاب اسلامی؛
  • تعلیم و تربیت در اسلام؛
  • تکامل اجتماعی انسان؛
  • توحید؛
  • جاذبه و دافعه علی؛
  • جامعه و تاریخ؛
  • جهاد؛
  • جهان‌بینی توحیدی؛
  • حرکت و زمان در فلسفه اسلامی (۲ جلد)؛
  • حق و باطل؛
  • حکمت‌ها و اندرزها؛
  • حماسه حسینی (۲ جلد)؛
  • خاتمیت؛
  • ختم نبوت؛
  • خدمات متقابل اسلام و ایران؛
  • داستان راستان (۲ جلد)؛
  • درس‌های الهیات شفا (۲ جلد)؛
  • ده گفتار؛
  • زندگی جاوید یا حیات اخروی؛
  • سیری در سیره ائمه اطهار؛
  • سیری در سیره نبوی؛
  • سیری در نهج‌ البلاغه؛
  • شرح مبسوط منظومه (۴ جلد)؛
  • شرح منظومه (۲ جلد)؛
  • شش مقاله (الغدیر و وحدت اسلامی)؛
  • شش مقاله (جهان بینی الهی و جهان بینی مادی)؛
  • عدل الهی؛
  • عرفان حافظ (تماشاگه راز)؛
  • علل گرایش به مادیگری (به ضمیمه ماتریالیسم در ایران)؛
  • فساد و انحراف روحانیت شیعه جلد ۱۵ مجموعه آثار؛
  • فطرت؛
  • فلسفه اخلاق؛
  • فلسفه تاریخ (۲ جلد)؛
  • قیام و انقلاب مهدی (به ضمیمهٔ شهید)؛
  • لمعاتی از شیخ شهید؛
  • مسئله حجاب؛
  • مسئله ربا (به ضمیمه بانک و بیمه)؛
  • مسئله نفاق؛
  • مسئله شناخت؛
  • معاد؛
  • مقالات فلسفی (۳ جلد)؛
  • نبوت؛
  • نظامحقوق زن در اسلام؛
  • نظری به نظام اقتصادی اسلام؛
  • نقدی بر مارکسیسم؛
  • نهضت‌های اسلام صد سالهٔ اخیر؛
  • وحی و نبوت؛
  • ولاها و ولایت‌ها؛
  • مقدمه‌ای بر جهان‌بینی اسلامی؛
  • الاسلام/ تألیف مرتضی مطهری؛ ترجمه محمدهادی الیوسفی؛
  • کتابسوزی ایران و مصر.

شاگردوں کی تربیت

استاد شہید مطہری کی بڑی کامیابیوں میں سے ایک یہ تھی کہ انہوں نے طلاب کی ایک بڑی تعداد کی پرورش کی جو بعد میں حوزہ اور یونیورسٹی کے اساتذہ اور اسلامی معاشرے کے ثقافتی اور سیاسی مسائل کے ذمہ داران کے طور پر سامنے آئے۔ یقیناً ان کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے کہ ہم یہاں ان کی فہرست دے سکیں، لیکن حوزہ کے فضلاء میں سے ہم حجج اسلام:

  1. ممدوحی،
  2. محمود عبداللہی،
  3. شہید شاہچراغی،
  4. شہید غلامحسین حقانی،
  5. علامہ شہید سید عارف حسین حسینی،
  6. سید ہادی رفیعی پور علوی،
  7. حاج سید احمد خمینی
  8. وغیره ... کا نام لے سکتے

ہیں۔

تعلیم، تدریس اور علمی سرگرمیاں

جوانی کے دور گزرنے اور میانہ سالی میں قدم رکھنے کے بعد، شیخ مرتضیٰ تعلیم کے میدان سے نکل کر علمی سرگرمیوں، تدریس اور تبلیغ میں مشغول ہو گئے۔ 1331 کا سال، تہران کی طرف ہجرت اور ان کی زندگی کے ایک نئے دور کا آغاز شمار ہوتا ہے۔ پہلے انہوں نے مدرسہ سپہسالار - جو پہلے اس نام سے جانا جاتا تھا اور آج کل شہید مطہری کے نام سے منسوب ہے - اور مدرسہ مروی میں تدریس شروع کی۔ تدریس کے ساتھ ساتھ، مختلف اسلامی علوم کی تالیف و تدوین بھی ان کی فکر کا محور تھا۔ آپ پهلے سے هی اپنے دور کے مشہور فضلاء میں سے ایک تھے لیکن مدارس علمیہ اور تہران یونیورسٹی کے کلیہ الہیات میں تدریس کے میدان میں قدم رکھ کر مزید شہرت حاصل کی۔ کلیہ الہیات کے مدرسی امتحان کے بعد، ممتحن نے کہا کہ اگر نمبر 20 سے زیادہ ہوتے تو میں ان کو دے دیتا، انہیں "استاد" کا لقب دیا اور وہ بجا طور پر ایک نمایاں استاد بن گئے۔ 1332 میں، انہوں نے "اصول فلسفہ و روش رئالیسم" کی جلد اول کا مقدمہ اور حواشی مکمل کیے اور اس کے اگلے سال جلد دوم کی شرح بھی مکمل کی۔ 1334 سے، انہوں نے کلیہ الہیات اور اسلامی علوم میں اپنی علمی سرگرمی کا آغاز کیا اور وہاں تعلیم و تدریس کا کام، شاہ کی حکومت اور کچھ منسلک اساتذہ کی طرف سے ان کے لیے پیدا ہونے والی مشکلات کے باوجود، بائیس سال تک جاری رکھا۔ 1339 میں، کتاب "داستان راستان" شائع ہوئی اور 1344 میں ایران میں یونیسکو کی قومی کمیشن کی جانب سے یونیسکو ایوارڈ حاصل کرنے کامیاب هوئے۔ 1339 سے 1341 کے سالوں میں، استاد مطہری اور مرحوم حجۃ الاسلام ڈاکٹر محمد ابراہیم آیتی کی کوششوں سے، تہران کے ایک گھر میں ایک ماہانہ محفل منعقد ہوتی تھی جس میں مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے سینکڑوں افراد شرکت کرتے تھے۔ یہ محفل "انجمن ماہانہ دینی" کے نام سے مشہور ہوئی اور ڈھائی سال تک جاری رہی اور اس میں ممتاز اسلامی علماء نے تیس (30) تقاریر کیں۔ بعد میں استاد مطہری کی تقاریر تین جلدوں پر مشتمل کتاب کی شکل میں "گفتار ماہ" کے نام سے عام لوگوں کے لیے دستیاب ہوئیں۔

انقلابی سرگرمیاں

چونکہ شہید استاد مطہری کا معاشرے کے مختلف طبقوں اور گروہوں سے قریبی تعلق تھا، اس لیے 1342 کی 15 خرداد کی تحریک کے دوران، انہوں نے تہران میں عوام کی رہنمائی اور اسے حضرت امام خمینی کی قیادت سے جوڑنے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ خود 15 خرداد کی رات انہوں نے بادشاہ کے خلاف ایک پرجوش تقریر کی جس کے نتیجے میں انہیں اسی رات گرفتار کر کے عارضی طور پر پولیس اسٹیشن جیل منتقل کر دیا گیا اور تہران اور دیگر شہروں کے کئی جنگجو علماء کے ساتھ قید کر دیا گیا۔ 43 دن بعد علماء اور عوام کی جانب سے شاہی حکومت پر دباؤ کے بعد انہیں دیگر روحانیوں کے ساتھ رہا کر دیا گیا۔ 15 خرداد کے واقعات کے بعد اور امام خمینی، استاد مطہری اور دیگر علماء کی رہائی کے بعد، اسلامی اتحاد انجمنیں نمودار ہوئیں، جن کا مرکز یہی مذہبی انجمنیں تھیں اور جو مخلص، فداکار اور ولی فقیہ کے پیروکاروں پر مشتمل تھیں۔ ان گروہوں نے امام سے کچھ نمائندے طلب کیے جو ان کی رہنمائی میں فکر اور عمل میں ہوں۔ استاد مطہری، جو پہلے سے ان انجمنوں سے وابستہ تھے، کو حضرت امام کی جانب سے ان نمائندوں میں سے ایک کے طور پر متعارف کرایا گیا۔ استاد کی تاکید اس بات پر تھی کہ یہ انجمنیں فکری طور پر اور اسلامی تعلیمات سے واقفیت کے لحاظ سے بنائی جائیں اور اسی لیے انہوں نے ان کے لیے دروس کا اہتمام کیا جن میں سے ایک تقدیر اور قضا کے بارے میں بحث تھی جو بعد میں "انسان اور سرنوشت" کے نام سے ایک کتاب کی شکل میں شائع ہوئی۔ یہ بحث درحقیقت "مسلمانوں کے زوال کے اسباب سے بحثیں" کے حلقوں میں سے ایک کڑی تھی جسے استاد نے اسلامی معاشرے میں اصلاحات کے لیے ضروری قرار دیا تھا۔

تحقیقاتی خدمات

1345 ش میں اس وقت کے مذهب مخالف رساله "زن روز" میں اسلام میں خواتین کے حقوق کے خلاف مضامین شائع ہوتے تھے جنہوں نے مذہبی لوگوں کے جذبات کو مجروح کیا اور اپنے بہت سے قارئین کو اسلام سے بدظن کر دیا۔شہید استاد نے ان مضامین کے جواب میں کچھ مضامین لکھے اور وہی مضامین اسی رساله میں ان مضامین کے مقابلے میں شائع ہوئے۔ بعد میں وہ مضامین "اسلام میں خواتین کے حقوق کا نظام" کے نام سے ایک کتاب کی شکل میں شائع ہوئے۔ 1346 میں، حسینیہ ارشاد نامی ادارہ استاد مطہری کے ذریعے اور مرحوم محمد ہمایون، مرحوم حجۃ الاسلام شاہچراغی اور ناصر میناچی کے تعاون سے قائم کیا گیا۔ یہ ادارہ استاد کے مطلوبہ ثقافتی کام کے لیے اور عوام خصوصاً نوجوان نسل کو حقیقی اسلام سے روشناس کرانے کے لیے ایک اچھا مرکز تھا۔ یہ مرکز استاد کے دیگر مراکز میں شامل ہو گیا۔ اگرچہ بعد میں، حسینیہ ارشاد کے ساتھ استاد کے تعاون کے سلسلے میں کچھ مشکلات پیش آئیں اور ان کے استعفیٰ پر منتج ہوئیں۔

فلسطینی عوام کی حمایت میں آواز

استاد مطہری کو ایران میں صیہونیت کے خلاف جنگ کے علمبرداروں میں سے ایک سمجھا جانا چاہیے۔ صیہونیت کے خلاف ان کی آتشیں تقریریں اور مظلوم فلسطینی قوم کی مدد کے لیے مسلمانوں کو دعوت دینا ابھی تک کانوں میں گونج رہی ہیں۔ استاد کو صیہونیوں سے اتنی نفرت تھی کہ وہ ہر مناسب موقع پر اس سلسلے میں اپنی حق طلبانہ آواز بلند کرتے تھے۔ صیہونیت کے خلاف استاد کی تاریخی تقریر عاشورہ کے دن 1390 قمری بمطابق اسفند 1348 شمسی میں حسینیہ ارشاد میں، جو ان کی گرفتاری کا باعث بنی، ناقابل فراموش ہے۔ استاد مطہری نے پچاس کی دہائی میں تالیف و تدریس کا سلسلہ جاری رکھا، کتابیں مسئلہ حجاب، علل گرایش بہ مادیگری، مقدمه‌ای بر جہان‌بینی اسلامی اور ... ان کی تحریروں میں سے ہیں جو انقلاب سے پہلے کے تاریک اور خفقان والے دور میں لکھی گئیں۔

امام خمینی کے مضبوط بازو

"گذشتہ سو سال میں اسلامی تحریکات" نامی کتاب بھی اسلامی تحریک کے عروج کے دور کی پیداوار ہے اور 17 شہریور 1357 کے سانحہ کے ایام میں شائع ہوئی، جس کی وجہ سے استاد کے لیے بہت خطرات تھے، لیکن خوش قسمتی سے چونکہ شاہی حکومت کی طاقت کمزور پڑ رہی تھی، اس لیے انہیں کوئی سنگین خطرہ لاحق نہ ہوا۔ آیت اللہ حاج سید مصطفیٰ خمینی کی رحلت (شہادت نما) اور اسلامی تحریک کے ایک نئے دور کے آغاز کے بعد، استاد مطہری فعال طور پر اور ملک کے اندر حضرت امام خمینی کے ایک مضبوط بازو کے طور پر، اس الٰہی تحریک کو آگے بڑھانے میں کوشاں رہے۔ تہران کی مسجد ارک میں چہلم کی تقریبات کے انعقاد میں، انہوں نے بنیادی کردار ادا کیا۔ 1356 اور 1357 کی جدوجہد کے دوران، استاد مطہری فعال طور پر تہران میں بہت سے امور کی سربراہی کر رہے تھے۔ انقلاب کی درست معلومات اور خبریں ان کے ذریعے حضرت امام تک پہنچتی تھیں۔ جب امام خمینی کو لے کر آنے والا طیارہ پیرس سے تہران ہوائی اڈے پر اترا تو حضرت امام نے طیارے سے اترنے سے پہلے استاد مطہری کو بلایا اور ملک کے حالات سے مکمل طور پر آگاہ ہونے اور پروگراموں سے باخبر ہونے کے بعد، طیارے سے اترے۔ یہ اس اعتماد کی علامت ہے جو امام کو استاد پر تھا۔ وہ استقبالیہ متن جو تہران کے مہر آباد ہوائی اڈے پر امام خمینی کی موجودگی میں پڑھا گیا، استاد مطہری نے لکھا تھا۔ اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد، استاد بدستور انقلاب کے میدان میں، انقلاب کونسل کے رکن کے طور پر اور علمی و ثقافتی سرگرمیوں کے میدان میں تقاریر وغیرہ کرتے رہے۔ انہوں نے بیرونی اور داخلی دشمنوں کو اچھی طرح شناخت کر لیا تھا اور منحط اور ناپاک افکار پر تنقید اور جائزہ لیتے تھے۔"

شهادت

انہوں نے سلطنت طلب محاذ، مشرقی بلاک کے حامی کمیونسٹوں، بے دل منافقوں اور دینی افکار کے منحرفین کے خلاف علمی اور ثقافتی طور پر پردہ فاش کیا۔ مخالفین جو ان کے وجود کو برداشت نہیں کر سکے، نے ایک شوم منصوبہ بنایا اور منگل کے دن 11 اردیبہشت 1358 کی رات دس بج کر بیس منٹ پر فرقان گروپ نے استاد مطہری کو شہید کر دیا۔ قائد انقلاب اور حوزہ و یونیورسٹی کے علمی حلقوں اور مسلمان عوام ایک عظیم غم میں ڈوب گئے۔ استاد مطہری کی شہادت کے بعد، حضرت امام خمینی نے ایک اہم پیغام جاری کیا۔ امام کا پیغام، جو بہت عجیب تھا، اس کے ایک حصے میں یوں آیا ہے: "... مطہری جو روح کی پاکیزگی، ایمان کی قوت اور بیان کی طاقت میں بے مثال تھے، چلے گئے اور عالم بالا سے جا ملے۔ لیکن بدخواہ جان لیں کہ ان کے جانے سے ان کی اسلامی، علمی اور فلسفی شخصیت نہیں جاتی۔ دہشت گردی اسلام کے مردوں کی اسلامی شخصیت کو دہشت زدہ نہیں کر سکتی۔ وہ جان لیں کہ خدائے توانا کی مرضی سے ہماری قوم بڑے لوگوں کے جانے سے فساد، آمریت اور استعمار کے خلاف جدوجہد میں مزید ثابت قدم ہو گی۔ ہماری قوم نے اپنا راستہ پا لیا ہے اور سابقہ حکومت کی سڑی ہوئی جڑوں اور اس کے منحوس حامیوں کو کاٹنے سے باز نہیں آئے گی۔ عزیز اسلام قربانی دینے اور اپنے عزیزوں کو قربان کرنے سے پروان چڑھا ہے۔ عصر وحی سے لے کر آج تک اسلام کا نظام شہادت کے ساتھ ہمراه رہا ہے۔.." حضرت امام دو دن (جمعرات اور جمعہ 13 اور 14 اردیبہشت) مدرسہ فیضیہ میں سوگ میں بیٹھے رہے۔


شهید مطهری کی نظر میں وحدت کا تصور

قرآن و سنت میں وحدت اسلامی کا تصور اور وحدت کے مختلف ابعاد کے حوالے سے ، شہید استاد مطہری کے اقوال اور تحریروں میں بهت سارے مطالب بیان کیے گئے ہیں۔ اور انهوں نے مسلمہ کی یکجہتی اور اتحاد کے موضوع پر اپنے گفتاری اور تحریری آثار میں بہت زیادہ توجہ دی ہے اور اپنے گفتار و تحریر کے مختلف حصوں میں بیان کیا ہے۔ شهید مطهری کے نقطه نظر سے مسلمانوں کے آپس میں اختلاف کی بنیادی وجه ، توحید کو صحیح معنوں میں نه سمجھنا هے ۔ اگر مسلمان توحید کی حقیقت قرآن اور سنت کی روشنی میں درست ادراک کرتے تو ان میں کسی قسم کا اختلاف نه هوتا لهذا مسلمانوں میں اتحاد اور انسجام برقرار کرنے کا درست اور واحد راسته یه هے که توحید کے مختلف زاویوں کو اجاگر کیا جائے۔

شہید مطہری کی نظر میں توحید اور شرک کی سرحد

توحید اور شرک مسلمانوں کے بنیادی عقائد ہیں۔ شریعت کے تمام احکام و معارف اسی بنیادی اور اساسی اصول کے تحت وضع کیے گئے ہیں اور اس کی کسی بھی قسم کی تشریح معتقدین کے فکری اور عملی رویے پر بہت زیادہ اثر انداز ہوتی ہے۔ وہابیت نے اس کی غلط تشریح کرتے ہوئے اکثر مسلمانوں کو کافر قرار دیا ہے اور خود کو حقیقی موحد سمجھتے ہیں۔ ذیل کی تحریر میں شہید مطہری کا توحید کے بارے میں نظریہ اور شرک کے ساتھ اس کی سرحد، وہابیت کا اس مسئلے میں دیگر مسلمانوں کے ساتھ نزاع کا مقام بیان کیا گیا ہے۔ شہید مطہری کے نقطہ نظر میں توحید اور شرک کے بارے میں بنیادی اصول

توحید کے مراتب اور درجات:

آپ فرماتے ہیں کہ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ توحید اور شرک دونوں کے مراتب ہیں۔ توحید کے درجات اور مراتب ہیں، جیسے کہ شرک جو توحید کے مقابل ہے، اس کے بھی مراتب اور درجات ہیں۔ جب تک انسان توحید کے تمام مراحل طے نہیں کر لیتا، وہ حقیقی موحد نہیں ہو سکتا۔ پھر آپ توحید کے مراتب کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: 1. توحیدِ ذاتی: توحیدِ ذاتی یعنی ذاتِ حق کو وحدت اور یگانگت سے پہچاننا۔ توحیدِ ذاتی یعنی یہ حقیقت "دوئی" کو قبول نہیں کرتی اور نہ ہی اس میں تعدد ہو سکتا ہے۔ اس کا کوئی مثل اور مانند نہیں ہے، "لیس کمثلہ شئی" (اس جیسا کوئی نہیں)۔ اس کے وجود کے مرتبے میں کوئی اور موجود نہیں۔ "و لم یکن لہ کفواً احد" (اور کوئی اس کا ہمسر نہیں)۔ جہان نہ کئی اصولوں سے پیدا ہوا ہے اور نہ ہی کئی اصولوں کی طرف لوٹتا ہے۔ یہ ایک اصول اور ایک حقیقت سے پیدا ہوا ہے، "قل اللّٰہ خالق کل شیء" (کہہ دیجیے کہ اللہ ہر چیز کا خالق ہے) اور اسی اصول اور اسی حقیقت کی طرف لوٹتا ہے، "الا الی اللّٰہ تصیر الامور" (بیشک سارے کام اللہ ہی کی طرف لوٹتے ہیں)۔ دوسرے لفظوں میں، کائنات ایک قطبی، ایک مرکزی اور یک محوری ہے۔ 2. توحیدِ صفاتی: آپ توحیدِ صفاتی کے معنی میں فرماتے ہیں: توحیدِ صفاتی یعنی ذاتِ حق کو اس کی صفات کے ساتھ عین یگانگت اور صفات کی ایک دوسرے کے ساتھ یگانگت کو سمجھنا اور پہچاننا۔ توحیدِ ذاتی کے معنی ہیں کسی دوسرے کا نہ ہونا اور کوئی مثل و مانند نہ ہونا، اور توحیدِ صفاتی کے معنی ہیں خود ذات سے ہر قسم کی کثرت اور ترکیب کی نفی کرنا۔۔۔ وجودِ لامتناہی کے لیے جیسے کوئی دوسرا تصور نہیں کیا جا سکتا، ایسے ہی ذات اور صفات میں کثرت، ترکیب اور اختلاف کا بھی تصور نہیں کیا جا سکتا۔ 3. توحیدِ افعالی: توحیدِ افعالی یعنی یہ سمجھنا اور جاننا کہ جہان، اپنے تمام نظاموں، سنتوں، علل، معلولات، اسباب اور مسببات کے ساتھ، اس کا فعل، اس کا کام اور اس کی مرضی سے ہے۔ عالم کی موجودات جس طرح اپنی ذات میں مستقل نہیں ہیں اور سب اس پر قائم اور اس سے وابستہ ہیں اور وہ قرآن کی تعبیر کے مطابق تمام عالم کا "قیوم" ہے، اسی طرح تاثیر اور علیت کے مقام پر بھی مستقل نہیں ہیں۔ اور نتیجتاً خدا جس طرح اپنی ذات میں شریک نہیں رکھتا، فاعلیت میں بھی شریک نہیں رکھتا۔ ہر فاعل اور سبب، اپنی حقیقت، اپنا وجود، اپنا اثر اور اپنی فاعلیت اس سے رکھتا ہے اور اس پر قائم ہے۔ تمام طاقتیں اور قوتیں "اسی سے" ہیں۔ (ما شاء اللّٰہ و لا قوۃ الا بہ، لا حول و لا قوۃ الا باللّٰہ)۔ 4. توحید در عبادت: آپ "ایاک نعبد" (ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں) آیت کی تفسیر میں جو توحیدِ عبادی کو ظاہر کرتی ہے، لکھتے ہیں: اور لیکن عبد ہونے اور عبادت میں توحید کے معنی یہ ہیں کہ کسی اور موجود اور کسی اور حکم کے سامنے یہ حالت نہ ہو، بلکہ خدا کے سوا دوسروں کے مقابلے میں نافرمانی اور سرکشی کی حالت ہو۔ پس انسان کو ہمیشہ دو متضاد حالتیں رکھنی چاہئیں: خدا کے سامنے مکمل تسلیم اور خدا کے سوا دوسروں کے سامنے مکمل نافرمانی۔ یہی معنی ہے "ایاک نعبد" کا کہ خدایا ہم صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تیرے سوا کسی اور کی عبادت نہیں کرتے۔[8] تینوں مراتب (ذاتی، صفاتی، افعالی) اور آخری مرتبے، یعنی توحید در عبادت، کے درمیان فرق بیان کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں توحید کے یہ تینوں مراتب، توحیدِ ذاتی، صفاتی اور افعالی، توحیدِ نظری اور جاننے کی قسم سے ہیں۔ لیکن توحید در عبادت، توحیدِ عملی اور "ہونے" اور "بننے" کی قسم سے ہے۔ وہ مراتبِ توحید، صحیح فکر اور صحیح سوچ ہیں اور توحید کا یہ مرحلہ، صحیح "ہونا" اور صحیح "بننا" ہے۔ توحیدِ نظری کمال کی پہچان ہے اور توحیدِ عملی کمال تک پہنچنے کی تحریک۔ توحیدِ نظری خدا کی "یگانگت" کو سمجھنا ہے اور توحیدِ عملی انسان کا "یگانہ بننا" ہے۔ توحیدِ نظری "دیکھنا" ہے اور توحیدِ عملی "چلنا" ہے۔[9] وہابیت کا مسلمانوں کے ساتھ اصل نزاع جزوی ہے: آپ کا عقیدہ ہے کہ توحید اور پرستش کے مفہوم میں دینی علماء، خواہ وہابی ہوں یا غیر وہابی، کے درمیان کوئی اختلاف نہیں۔ اختلاف پرستش کے مصادیق میں ہے۔ وہابیہ کا دوسرے مسلمانوں سے اختلاف اس میں نہیں کہ پرستش کے لائق واحد موجود خدا ہے یا خدا کے علاوہ، مثلاً انبیاء اور اولیاء بھی پرستش کے لائق ہیں؛ اس میں کوئی شک نہیں کہ خدا کے سوا کوئی پرستش کے لائق نہیں، اختلاف اس میں ہے کہ کیا استشفاعات اور توسلات عبادت ہیں یا نہیں؟ پس نزاع آپس میں جزوی ہے نہ کہ کلی۔[10]

حوالہ جات

  1. زندگی نامه استاد شهید مطهری( استاد شهید مطهری کی سوانح حیات)(زبان فارسی) تاریخ نشر:.. تاریخ اخذ: 2/فروری/ 2025ء
  2. کتاب علل گرایش به مادی گری ص 9
  3. کتاب تکامل اجتماعی انسان ص 196
  4. کتاب علل گرایش به مادی گری ص 10
  5. کتاب عدل اهلی ص 296
  6. کتاب علل گرایش به مادی گری ص11
  7. کتاب حق و باطل ص 86
  8. مجموعه آثار شهید مطهری ج26 ص 101 و 102
  9. مجموعه آثار ج26 ص 103
  10. حواله مذکور