Jump to content

"جعفر حسین" کے نسخوں کے درمیان فرق

سطر 16: سطر 16:
یہ کتاب چوتھے [[علی بن حسین|امام حضرت علی زین العابدین علیہ السلام]] کی دعاؤں پر مشتمل ہے ان تمام دعاؤں کی سند بلکہ اس تمام صحیفہ کی سند اورخود امام عالی مرام علیہ السلام سے ہم تک پہنچنے کی تمام تاریخ اس کے مقدمہ میں موجود ہے۔ یہ کتاب جو زبور آل محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نام سے مشہور ہے۔ تمام مسلم دنیا میں معروف ہے۔ اس کتاب کے بارے مصر کے مشہور عالم دین طنطاوی جوہری مصری خداوند کی بارگاہ میں شکوہ کرتے ہوئے یوں رقم طراز ہیں : خداوندا یہ تیری کتاب موجود ہے قران اور یہ [[اہل بیت|اہل بیت علیہم السلام]] میں سے ایک مشہور بزرگ ہستی کے کلمات ہیں۔ یہ دونوں کلام، وہ آسمان سے نازل شدہ کلام اور یہ اہل بیت علیہم السلام کے صدیقین میں سے ایک صدیق کی زبان سے نکلا ہوا کلام دونوں بالکل متفق ہیں۔ اب میں بلند آواز سے پکارتا ہوں ہندوستان اور تمام اسلامی ممالک میں اے فرزندان اسلام، اے اہل سنت، اے اہل تشیع۔ کیا اب بھی وقت نہیں آیا کہ تم قران اور اہل بیت علیہم السلام کے مواعظ سے سبق حاصل کرو۔ یہ دونوں تم کو بلا رہے ہیں ان علوم کے حاصل کرنے کی طرف، جن سے عجائب قدرت منکشف ہوتے ہیں اور خدا کی معرفت حاصل ہوتی ہے۔ تفرقہ انگیز مباحث سے باز آؤ اور ان ہدایات پر عمل کرو۔ ان علوم سے استفادہ کرو اور سورج کے نیچے، زمین کے اوپر زندہ رہنے کا سامان کرو۔ آپ نے اس صحیفہ کا اردو زبان میں ترجمہ کرکے مسلمانان برصغیر پر عظیم احسان کیا ہے۔  
یہ کتاب چوتھے [[علی بن حسین|امام حضرت علی زین العابدین علیہ السلام]] کی دعاؤں پر مشتمل ہے ان تمام دعاؤں کی سند بلکہ اس تمام صحیفہ کی سند اورخود امام عالی مرام علیہ السلام سے ہم تک پہنچنے کی تمام تاریخ اس کے مقدمہ میں موجود ہے۔ یہ کتاب جو زبور آل محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نام سے مشہور ہے۔ تمام مسلم دنیا میں معروف ہے۔ اس کتاب کے بارے مصر کے مشہور عالم دین طنطاوی جوہری مصری خداوند کی بارگاہ میں شکوہ کرتے ہوئے یوں رقم طراز ہیں : خداوندا یہ تیری کتاب موجود ہے قران اور یہ [[اہل بیت|اہل بیت علیہم السلام]] میں سے ایک مشہور بزرگ ہستی کے کلمات ہیں۔ یہ دونوں کلام، وہ آسمان سے نازل شدہ کلام اور یہ اہل بیت علیہم السلام کے صدیقین میں سے ایک صدیق کی زبان سے نکلا ہوا کلام دونوں بالکل متفق ہیں۔ اب میں بلند آواز سے پکارتا ہوں ہندوستان اور تمام اسلامی ممالک میں اے فرزندان اسلام، اے اہل سنت، اے اہل تشیع۔ کیا اب بھی وقت نہیں آیا کہ تم قران اور اہل بیت علیہم السلام کے مواعظ سے سبق حاصل کرو۔ یہ دونوں تم کو بلا رہے ہیں ان علوم کے حاصل کرنے کی طرف، جن سے عجائب قدرت منکشف ہوتے ہیں اور خدا کی معرفت حاصل ہوتی ہے۔ تفرقہ انگیز مباحث سے باز آؤ اور ان ہدایات پر عمل کرو۔ ان علوم سے استفادہ کرو اور سورج کے نیچے، زمین کے اوپر زندہ رہنے کا سامان کرو۔ آپ نے اس صحیفہ کا اردو زبان میں ترجمہ کرکے مسلمانان برصغیر پر عظیم احسان کیا ہے۔  
=== سیرت امیرالمومنین علیہ السلام ===
=== سیرت امیرالمومنین علیہ السلام ===
یہ کتاب آپ کی تالیف ہے اور دوضخیم جلدوں پر مشتمل ہے۔ جس میں آپ مولا علی علیہ السلام کی زندگی اورسیرت پر تمام جوانب سے روشنی ڈالی ہے۔
یہ کتاب آپ کی تالیف ہے اور دوضخیم جلدوں پر مشتمل ہے۔ جس میں آپ مولا علی علیہ السلام کی زندگی اورسیرت پر تمام جوانب سے روشنی ڈالی ہے <ref>مفتی جعفر حسین، سیرت امیر المومنین، امامیہ کتب خانہ مغل حویلی، لاہور</ref>۔
 
=== ملت جعفریہ کی قیادت ===
=== ملت جعفریہ کی قیادت ===
1948ء کو لاہور میں بعض علماء کرام کیساتھ ملکر آپ نے ادارہ تحفظ حقوق شیعہ پاکستان کی بنیاد رکھی اور اس کے پہلے صدر منتخب ہوئے۔ 1949ء میں آپ تعلیمات اسلامی بورڈ کے رکن منتخب ہوئے۔ 1979ء میں جب سابق فوجی آمر جنرل ضیاء الحق نے نفاذ اسلام کے چند جزوی اقدامات کا اعلان کیا، جن میں ایک زکواۃ کی وصولی کا بھی تھا، مگر اس اعلان میں فقہ جعفریہ کو بالکل نظرانداز کر دیا گیا تھا۔ مفتی جعفر حسین نے اس وقت ایک پریس کانفرنس بلاکر حکومت کو الٹی میٹم دیا کہ اگر فقہ جعفریہ کے پیروکاروں کے لئے باقاعدہ طور پر فقہ جعفریہ کے نفاذ کا اعلان نہ کیا گیا تو وہ اسلامی نظریاتی کونسل کی رکنیت سے احتجاجاً مستعفی ہو جائیں گے۔
1948ء کو لاہور میں بعض علماء کرام کیساتھ ملکر آپ نے ادارہ تحفظ حقوق شیعہ پاکستان کی بنیاد رکھی اور اس کے پہلے صدر منتخب ہوئے۔ 1949ء میں آپ تعلیمات اسلامی بورڈ کے رکن منتخب ہوئے۔ 1979ء میں جب سابق فوجی آمر جنرل ضیاء الحق نے نفاذ اسلام کے چند جزوی اقدامات کا اعلان کیا، جن میں ایک زکواۃ کی وصولی کا بھی تھا، مگر اس اعلان میں فقہ جعفریہ کو بالکل نظرانداز کر دیا گیا تھا۔ مفتی جعفر حسین نے اس وقت ایک پریس کانفرنس بلاکر حکومت کو الٹی میٹم دیا کہ اگر فقہ جعفریہ کے پیروکاروں کے لئے باقاعدہ طور پر فقہ جعفریہ کے نفاذ کا اعلان نہ کیا گیا تو وہ اسلامی نظریاتی کونسل کی رکنیت سے احتجاجاً مستعفی ہو جائیں گے۔