3,871
ترامیم
Saeedi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) |
Saeedi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) |
||
سطر 16: | سطر 16: | ||
بنو قحطان (بنویقطن بن عابر) مکہ سے دائیں جانب سفر کرکے یمن آئے تھے اور یہاں آباد ہوئے تھے اس لیے اس علاقے کو یمن کہاجانے لگا <ref>ابو جعفر محمد بن جریر الطبری، تاریخ الرسل والملوک، ج-1، دار التراث العربی، بیروت، لبنان، 1387ھ، ص209</ref>۔ | بنو قحطان (بنویقطن بن عابر) مکہ سے دائیں جانب سفر کرکے یمن آئے تھے اور یہاں آباد ہوئے تھے اس لیے اس علاقے کو یمن کہاجانے لگا <ref>ابو جعفر محمد بن جریر الطبری، تاریخ الرسل والملوک، ج-1، دار التراث العربی، بیروت، لبنان، 1387ھ، ص209</ref>۔ | ||
یمین عربی زبان میں دائیں طرف کو کہتے ہیں اور دائیں سمت مبارک خیال کی جاتی ہے۔ جب مکّہ مکّرمہ میں آبادی زیادہ ہوگئی اور عرب یہاں سے ہجرت کرنے لگے تو جو لوگ اس سمت گئے یعنی بیت اﷲ شریف کے دائیں جانب تو اس دائیں جانب کا نا م یمن پڑگیا اور اسی طرح بائیں جانب کا نام شام پڑ گیا۔ اس حوالے سے یاقوت حموی ابن عباس سے نقل کرتے ہیں: | یمین عربی زبان میں دائیں طرف کو کہتے ہیں اور دائیں سمت مبارک خیال کی جاتی ہے۔ جب مکّہ مکّرمہ میں آبادی زیادہ ہوگئی اور عرب یہاں سے ہجرت کرنے لگے تو جو لوگ اس سمت گئے یعنی بیت اﷲ شریف کے دائیں جانب تو اس دائیں جانب کا نا م یمن پڑگیا اور اسی طرح بائیں جانب کا نام شام پڑ گیا۔ اس حوالے سے یاقوت حموی ابن عباس سے نقل کرتے ہیں: | ||
ابن عباس نے فرمايا كہ عرب اس جزیرہ نما کی مختلف سمتوں میں بکھر گئے پھر جو دائیں طرف گئے ان کے رخ کی مناسبت سے اس علاقے کا نام یمن رکھ دیا گیا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جب مکّہ میں لوگوں کی کثرت ہوگئی اور وہاں مزید گنجائش نہ رہی تو دائیں طرف والے یمن کی طرف آباد ہوگئے اور یہ ارضِ مکّہ کے انتہائی دائیں جانب ہے لہٰذا اس کا یہ نام پڑا۔ | |||
حلبی یہی قول نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ یمن کو یمن اس لیے کہا گیا ہے کہ وہ کعبہ کے دائیں جانب ہے <ref>ابو الفرج علی بن ابراہیم الحلبی، انسان العیون فی سیرۃ الامین المامون، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1427ھ، ص115</ref>۔ | |||
اسی مناسبت سے بیت اﷲ شریف کے ایک رکن کا نام بھی رکن یمانی ہے جو کہ یمن کی نسبت کی وجہ سے ہے <ref>ابو البقاء محمد بن موسی الدَّمِیری، النجم الوہاج فی شرح المنہاج، ج-3، مطبوعۃ: دار المنہاج، جدۃ، السعودیۃ، 2004م، ص 486</ref>۔ | |||
یمن کی وجہ تسمیہ کے بارے میں دوسرا قول یہ ہے کہ یعرب بن قحطان کا ایک نام ایمن بھی تھا اور حضرت ہود نے اپنے اس پوتے کو اس لقب سے ملقب فرمایا تھااور اسی وجہ سے اس کے ہجرت کرنے کے بعد اس کے مقام سکونت کو یمن کہا گیا۔ حلبی یمن کی یہ وجہ تسمیہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: | |||
اور اسی یعرب کوایمن بھی کہاگیا کیونکہ نبی اللہ ہود نے ان سےفرمایا: میرے بیٹے تم میرے بیٹوں میں سب سے زیادہ برکت والے ہو اور یمن میں آنےکی بناپروہ یمن کہلایانیز یہی پہلا آدمی ہے جس نے اشعار اور رجز کہے۔ | |||
رجز شاعری کی ايك قسم ہے جو جنگوں ميں پڑهی جاتی ہے <ref>لویس معلوف، المنجد، مطبوعہ: دار الاشاعت، کراچی، پاکستان، 1994ء، ص317</ref>۔ | |||
اور اس کا مقصد سپاہیوں کو جنگ پر ابھارناہوتا ہےنیز ابن ہشام کی تحقیق سے اس قول کو مزید تقویت حاصل ہوتی ہے۔ السُہیلی نے ابن ہشام کے حوالہ سے لکھا ہے کہ یعرب کا نام اصل میں یمن تھا اور چونکہ یہی اس کو آباد کرنے والے تھے لہٰذا اس کا نام یمن پڑگیا۔ اس حوالہ سے سہیلی لکھتے ہیں ابن ہشام کہتے ہیں کہ یعرب بن قحطان کا نام یمن ہے کیونکہ حضرت ہود نے اس سے فرمایا تھا تو ازروئے نفس میری تمام اولاد سے بابرکت ہے <ref>ابو القاسم عبد الرحمن بن عبداﷲ السہیلی، الروض الانف فی شرح السیرۃ النبویۃ لابن ہشام، ج-1، مطبوعۃ: دار احیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، 2000م، ص51</ref>۔ | |||
یمن کے دیگر نام بھی کتب تاریخ میں منقول ہوئے ہیں۔ مورخین یمن کویمنِ خضراء کے نام سے بھی یاد کرتے ہیں کیونکہ اس شہر میں کھیت و کھلیان اور باغات کی کثرت تھی۔ اس حوالہ سے یاقوت الحموی لکھتے ہیں: | |||
اسے یمن الخضراء اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس میں درختوں، پھلوں اور فصلوں کی بہتات ہے۔ سید محمود شکری یمن کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں | |||
<ref>ابو عبد اللہ یاقوت بن عبداﷲ الحموی، معجم البلدان، ج-5، مطبوعۃ: دار صادر، بیروت، لبنان، 1995م، ص447</ref>۔ | |||
== مشہور مقامات == | |||
یمن کے قدیم و مشہور مقامات میں معین، مارب، ظفار، شیبان، اوزال، براقش، فشق، خولان، قرن شبوہ، عمران اورصنعاء وغیرہ شامل تھے جن میں سے اب اکثر مقامات ویران یا دریائے ریگ میں غرق ہوچکے ہیں تاہم بعض موجود بھی ہیں لیکن ان کے قدیم نام متروک ہو چکے ہیں۔ ملک کی کثرت آبادی اورشادابی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہ خطہ کئی ایک صوبوں میں منقسم تھا جنہیں اہل عرب مخلاف الیمن کہتے تھے۔ مورخ یعقوبی نے ان کا ذکر کرتے ہوئے چوراسی(84) صوبے بتائے ہیں جن میں سے بعض کے نام حسب ذیل ہیں: | |||
طمو، عیان، طمام، ھمل، قدم، خیوان، سنعان، ریحان، جرش، صعدۃ، ھوزن، حیران، مارب، زبید، ربع، بنی محید، حضر موت، الحلقین، عنس۔ | |||
نیز یعقوبی ساحلی علاقوں کے نام ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں: | |||
اور سواحل میں سے عدن ہے اور یہ صنعاء، المندب، غلافقۃ، الحردۃ، الشرجۃ، عثر، الحمضۃ، السرین اور جدہ كاساحل ہے <ref>احمد بن اسحاق ابن واضح الیعقوبی، تاریخ الیعقوبی (مترجم: مولانا اختر فتح پوری)، ج-1، مطبوعہ: نفیس اکیڈمی، کراچی، پاکستان، (سن اشاعت اندارد)، ص289</ref>۔ | |||
یمن میں کئی ایک مشہور شہر اور مقامات تھے لیکن ان میں چار (4)مقامات بطور خاص تاریخ میں مذکور ہیں جن میں صنعاء، حضر موت، بلاد الاحقاف اورنجران شامل ہیں۔ ان کی تفصیل ذیل میں درج کی جارہی ہے۔ | |||
== صنعاء == | |||
صنعاء یمن کا سب سے مشہو ر شہر تھاجویمن کے قلب اور بحر احمر کے سواحل پر عرب کے جنوبی اور مغربی گوشہ میں واقع ہے۔ یہ سطح سمند رسےاکیس سو چھیانوے(2196)میٹر بلند ہے اور یمن کا قدیم ترین شہر ہے حتی کہ اس کے متعلق مؤرخین کا بیان ہے کہ اس شہر کو سام بن نوح نے آباد کیا تھانیز صنعاء شہر کے کئی قدیم نام تھے جن کی تفصیل درج ذیل ہے: | |||
بعض مؤرخین نے صنعاء کی تعمیر کو سام بن نوح کی طرف منسوب کیا ہے اور یہ گمان کیا ہے کہ یہی وہ پہلا شہر تھا جو یمن میں بنایاگیا۔۔ ۔ ہماری معلومات کے مطابق صنعاء کا نام پہلی مرتبہ اس کتبہ میں وارد ہوا ہے جس کا زمانہ سبا اور ذی ریدان کے بادشاہ شاہ شرح یحضب کی طرف لوٹتا ہے اور اس میں اس شہر کو صنعو کے نام سے یاد کیاگیا ہے <ref>الدکتور جواد علی، المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام، ج-6، مطبوعۃ: دار الساقی، بیروت، لبنان، 2001م، ص 221</ref>۔ | |||
== وجہ تسمیہ == | |||
صنعاء جویمن کا دارالخلافہ ہے اس کا قدیمی نام ازال تھا جو بعد میں صنعاء پڑگیا۔ اس حوالہ سے سید محمود شکری لکھتے ہیں: | |||
قدیم زمانہ میں اسے ازال نام سے موسوم کیا جاتا تھا <ref>السید محمود الشکری الآلوسی، بلوغ الارب فی معرفۃ احوال العرب، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتاب المصری، القاھرۃ، مصر، (لیس التاریخ موجودًا)، ص205</ref>۔ | |||
ڈاکٹر جواد علی اپنی کتاب میں لکھتے ہیں: | |||
مؤرخین نے ذکر کیا ہے کہ یہ شہر ازال یا اوال کے نام سے بھی پہچاناجاتا ہے، یہ بظاہرانہوں نے اہل کتاب علماء جیسے کعب الاحبار اور وہب بن منبہ کےذریعہ تورات میں وارد لفظ ازال سےاخذ کیا ہے <ref>الدکتور جواد علی، المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام، ج-6، مطبوعۃ: دار الساقی، بیروت، لبنان، 2001م، ص221</ref>۔ | |||
صنعاء کی وجہ تسمیہ کے حوالہ سے مؤرخین کے دو اقوال ملتے ہیں۔ مؤرخین نے اس حوالہ سے پہلا قول یہ نقل کیا ہے کہ یہ قدیم یمنی بادشاہ صنعاء کے نام پر رکھا گیا تھا جس کا نسب یاقوت حموی اس طرح نقل کرتے ہیں: | |||
صنعاء بن ازال بن یقطن بن عامر بن شالخ بن ارفخشد نے سب سے پہلے اسےبنایاپھر یہ اس کےبیٹے کےنام سےموسوم ہوا کیونکہ اس نے اسے اپنی ملکیت میں لیاتھااوربعد میں اس کانام اس پرغالب آگیا | |||
<ref>ابو عبد اللہ یاقوت بن عبداﷲ الحموی، معجم البلدان، ج-1، مطبوعۃ: دار صادر، بیروت، لبنان، 1995م، ص: 167-</ref>۔ | |||
جبکہ مؤرخین نے جو صنعاء کی وجہ تسمیہ کے حوالہ سے دوسرا قول بیان کیا ہے وہ اس طرح ہے کہ جب اہل حبش صنعاء شہر میں وارد ہوئے تو وہ یہ دیکھ کر حیران ہو گئے کہ یہ شہر پتھروں سے بنایا گیا ہے۔ اس حوالہ سےعبد اللہ حمیری تحریر کرتے ہیں: | |||
یمن میں ایک شہر تھا جس کا نام زمانہ قدیم میں ازال تھا۔ جب اہلِ حبشہ اس میں آئے اوراس کوپتھروں کا بناہوا دیکھاتو کہا: یہ تو صنعۃ ہے۔ ان کی زبان میں اس کا معنی قلعہ تھا۔ | |||
کہا جاتا ہے کہ اسی وجہ سے اس شہر کا نام صنعاء پڑگیا تھا۔ اسی صنعاء کی سرزمین پر عربوں کی عظیم الشان سلطنتیں مثلاً معین، سبا اور حمیر قائم ہوئی تھیں اوران کے علاوہ سد مآرب یا سدعرم اسی کی وادیوں میں تعمیر ہوا تھا۔ ظفار، مآرب اور زوال یہیں کے پایہ تخت تھے اور ملکہ سبا اسی سرزمین کی حکمران تھی۔ قصر غمدان، قصر ناعط، قصر ربدہ، قصر صراوح اور قصر مدر اسی خطے میں تعمیر ہوئے تھے جن کے آثار چوتھی صدی ہجری میں ہمدانی نے بذاتِ خود مشاہدہ کیے تھے <ref>سید سلیمان ندوی، تاریخ ارض القرآن، ج-1، مطبوعہ: معارف پریس دار المصنفین، اعظم گڑھ، ہند، 1916ء، ص95</ref>۔ | |||
== حضرموت اور اس کی وجہ تسمیہ == | |||
حضرموت یمن کا ایک مشہور اور قدیم شہر ہے جو ساحل بحر ہند پر واقع ہے جس کے جنوب میں الربع الخالی اور الاحقاف اور مغرب میں صنعائے یمن ہے۔ محمد بیومی اس کے محل وقوع کے بارے میں لکھتے ہیں: | |||
حضرموت یمن کی مشرقی جانب ساحل بحر عرب پر واقع ہے <ref>محمد بیومی مھران، دراسات فی تاریخ العرب القدیم، مطبوعۃ: دار المعرفۃ الجامعیۃ، (لیس التاریخ موجودًا)، ص209</ref>۔ | |||
حضرموت یمن کے شہروں میں سے قدیم ترین شہر ہے۔ اس کےنام کی وضاحت کرتے ہوئے ملاعلی قاری لکھتے ہیں: | |||
(حضرموت) یمن میں ایک شہر کا نام ہے۔ یہ دو اسم ہیں جن سے ایک نام بنایا گیا ہےاورعلمیت و ترکیب کی وجہ سے یہ غیر منصرف ہے۔ حاء مہملہ، راء اور میم کے فتحہ اور ضاد معجمہ کے سکون کے ساتھ ہے۔ قاموس میں میم کے ضمہ کے ساتھ ایک شہر اور ایک قبیلہ کا نام ہے <ref>ابو الحسن علی بن سلطان القاری، مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوۃ المصابیح، ج-5، مطبوعۃ: دار الفکر، بیروت، لبنان، 2002م، ص 1999</ref>۔ | |||
یاقوت حموی لکھتے ہیں کہ حضرموت بن قحطان اس مقام پرفروکش ہواتو یہ اسی کے نام سے موسوم ہوا۔ حضرموت کی وجہ تسمیہ کے حوالہ سے دوسرا قول یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ عامر بن قحطان پہلا شخص تھا جو احقاف میں داخل ہوا اوراس کی وجہ شہرت یہ تھی کہ وہ جس جنگ میں شریک ہوتا تھاکشتوں کے پشتے لگادیتا تھا۔ وہ جہاں بھی جاتا تو لوگ کہتے "حضرموت" (یعنی موت آگئی) لہذایہی اس کا لقب ٹھہرا جو اس قدر مشہور ہوگیا کہ لوگ اس خطہ زمین کو بھی حضرموت کہنے لگے جہاں اس کا قبیلہ رہتا تھا <ref>عبد المالک مجاہد، سیرت انسائیکلو پیڈیا، ج-1، مطبوعہ: دار السلام، لاہور، پاکستان، 1433ھ، ص 165</ref>۔ | |||
== مرقد حضرت ہود == | |||
اس شہر کو ایک بڑی فضیلت یہ بھی حاصل ہے کہ اس شہریعنی حضرموت میں حضرت ہود کا مرقد مبارک موجود ہے جس کی زیارت کے لیے دور دور سے لوگ آیا کرتے تھے | |||
<ref>زکریا بن محمد القزوینی، آثار البلاد واخبار العباد، مطبوعۃ: دار صادر، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجوداً)، ص 37</ref>۔ | |||
س حوالہ سے [[علی ابن ابی طالب|امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام]] سے بھی ایک روایت مروی ہے۔ حاکم نیشاپوری اس روایت کو یوں نقل کرتے ہیں: | |||
حضرت ابو الطفیل عامر بن واثلہ کہتے ہیں کہ حضرت علی بن ابی طالب نے حضرموت کے ایک آدمی سے کہا: کیا تو نے سرخ رنگ کا ریت کا ٹیلہ دیکھا ہے جس میں سرخ رنگ کی مٹی ملی ہوئی ہواور جس کے اردگرد ایسے ایسے بہت ساری بیریاں ہیں؟ اس نے کہا: خدا کی قسم! اے امیر المؤمنین ! آ پ نے تو اس شخص کی طرح تمام اوصاف بیان کردیے ہیں جس نے اس کو دیکھا ہو۔ آپ نے فرمایا: نہیں! بلکہ مجھے تو اس کے متعلق بتایاگیاہے۔ حضرمی نے کہا: اے امیر المؤمنین ! اس کا معاملہ کیا ہے؟ آپ نے فرمایا کہ اس میں حضرت ہودکی قبر ہے <ref>ابو عبداﷲ محمد بن عبداﷲ الحاکم النیسابوری، المستدرک علی الصحیحین، ج-2، حدیث: 4062، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1990م، ص 615</ref>۔ | |||
== وادی برہوت اور بئر برہوت == | |||
حضرموت میں برہوت نامی ایک کنواں بھی تھا جس کو دنیا کا سب سے برا کنواں کہا جاتا تھا۔ اس حوالہ سے عبد الرزاق اپنی مصنف میں حضرت علیسے ایک روایت یوں نقل کرتے ہیں: | |||
حضرت علیسے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا: لوگوں میں خیر اور بھلائی کی دو وادیاں ہیں، ایک وادی مکّہ مکّرمہ میں اور دوسری سرزمین ہند میں جہاں حضرت آدماترےتھے، اس میں ہی یہ(عود ہندی) ہوتی ہےجو تم لگاتے ہو۔ لوگوں میں دو شر کی وادیاں ہیں، ایک وادی الاحقاف اور دوسری حضر موت میں جسے وادی برہوت کہا جاتا ہے۔ لوگوں میں سب سے اچھا اور بہترین کنواں زمزم ہے اور سب سے برا کنواں بلہوت ہے اور یہ اسی وادی برہوت میں ایک کنواں ہے جس میں کفار کی ارواح جمع کی جاتی ہیں <ref>ابو بکر عبد الرزاق بن ھمام الصنعانی، مصنف عبد الرزاق، حدیث: 9118، ج-5، مطبوعۃ: المجلس العلمی، الھند، 1403ھ، ص 115</ref>۔ | |||
== نجران == | |||
نجران بھی یمن کا تاریخی اور قدیم ترین شہر ہے جو صنعاء سے تقریباً ڈھائی سو(250)کلومیٹر شمال میں واقع ہے۔ سید محمود شکری اس شہر کا محل وقوع بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: | |||
یہ یمن کی سرزمین کا بہت بڑا ٹکڑا ہے جہاں نخلستان اور درخت پائے جاتے ہیں۔ یہ صنعاء کے قریب عدن اور حضر موت کے درمیان واقع ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ یمن کے شمال سے صعدہ کے شمال تک کی پہاڑیوں پر واقع ہے۔ صنعاء تقریباً دس(10)مرحلوں کے فاصلے پر ہےاور کبھی یہ بلاد ہمدان میں شامل اور بستیوں، شہروں، آبادیوں اور پانیوں(چشموں) کے درمیان واقع تھا <ref>سید محمود شکری آلوسی، بلوغ الارب فی معرفۃ احوال العرب (مترجم: ڈاکٹر پیر محمد حسن)، ج-1، مطبوعہ: اردو سائنس بورڈ، لاہور، پاکستان، 2011ء، ص 450</ref>۔ | |||
== وجہ تسمیہ == | |||
نجران کی وجہ تسمیہ کےبارے میں مؤرخین بیان کرتے ہیں کہ نجران بن زیدان بن سبا بن یشجب بن یعرب بن قحطان کے نام پر اس علاقے کو نجران کہا جاتا ہے کیونکہ وہ پہلا شخص تھا جس نے اس علاقہ کو آباد کیا تھا۔ اس حوالہ سے البلاذری ابن الکلبی کی روایت نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں: | |||
نجران بن زیدبن سبا بن یشجب بن یعرب بن قحطان کےنام سے یمن کا نجران موسوم ہوا <ref>احمد بن یحییٰ البلاذری، فتوح البلدان، مطبوعۃ: مکتبۃ الھلال، بیروت، لبنان، 1988م، ص 74</ref>۔ | |||
اس حوالہ سے یاقوت حموی لکھتے ہیں: | |||
نجران بن زیدان بن سبا بن یشجب بن یعرب بن قحطان کے نام پر اس علاقے کو نجران کہا جاتا ہے کیونکہ وہ پہلا شخص تھا جس نے یہ علاقہ آباد کیااوراس میں فروکش ہوا <ref>ابو عبد اللہ یاقوت بن عبداﷲ الحموی، معجم البلدان، ج-5، مطبوعۃ: دار صادر، بیروت، لبنان، 1995م، ص: 266</ref>۔ | |||
نجران پرانے زمانے میں تجارتی قافلوں کی گزرگاہ تھا ان دنوں یہ سعودی عرب کی سرحد کے اندر واقع ہےاور یہ انتہائی سرسبز وشاداب خطہ ہے۔ | |||
== بلاد ِاحقاف == | |||
حضرموت کی طرح بلادِ احقاف بھی یمن کا ایک قدیم ترین شہر تھا جو حضرموت اور نجران کے مابین موجودہ ریگستان میں آباد تھا۔ اہل ِعرب ریت کے بل کھاتے ہوئے ٹیلے کو احقاف کہتے تھے <ref>ابو عبد اللہ یاقوت بن عبداﷲ الحموی، معجم البلدان، ج-5، مطبوعۃ: دار صادر، بیروت، لبنان، 1995م، ص: 266</ref>۔ | |||
یہ شہر اپنے دور میں خاصا مشہور اورسر سبزوشاداب شہر تھا لیکن موجودہ زمانے میں یہاں صرف ریت کے اونچے اونچے ٹیلےہی ہیں۔ یہ عہدِقدیم میں ایک بڑا شہر تھا اور اس میں بہت بڑی آبادی رہا کرتی تھی مگر اب یہاں دور دور تک کسی ذی روح کے نشان نہیں۔ اب اسے "الاحقاف" یعنی ریگستان کہتے ہیں اور یہ " الربع الخالی" نامی عرب کے سب سے بڑے ریگستان کا ایک کنارہ ہے <ref>پیر محمد کرم شاہ الازہری، تفسیر ضیاء القرآن، ج-4، مطبوعہ: ضیاء القرآن پبلی کیشنز، لاہور، پاکستان، 1399ھ، ص: 490</ref>۔ | |||
== یمن کی مشہور وادیاں == | |||
يمن ميں کئی ایک وادیاں تھیں جو یمن کی شادابی میں موثر کردار اد اکرتی تھیں۔ ان وادیوں میں وادی نجران، وادی حجر اور وادی حضرموت سر فہرست ہیں۔ وادی نجران یمن کے شمال کی طرف نجران میں بہتی تھی جس کا پانی جبل طویق کے جنوب میں الربع الخالی میں جذب ہوجاتا تھا۔ حضر موت کے جنوب میں واقع وادی حجر میں جزیرہ نمائے عرب کا واحد دریا تھا جو پورا سال بہتااور بحیرہ عرب میں گرتا لیکن اس کی لمبائی سو( 100)کلو میٹر سے زیادہ نہیں تھی۔ وادیِ حضر موت، حضرموت کے شمال مشرق میں واقع تھی جوشمال اور جنوب کی طرف سے آنے والی ندیوں سے مل کر "وادی المسیلہ"کہلاتی اور سیحوت کے قریب بحیرہ عرب میں جاگرتی۔ سیحوت یمن کے مشرقی صوبے مہرہ کا ایک شہر تھاجو بحیرہ عرب کے ساحل پر مکلا سے پانچ سو بائیس( 522)کلو میٹر اور صنعاء سے تیرہ سو اٹھارہ (1318) کلومیٹر کے فاصلے پر واقع تھااور یہاں کشتیاں بنانے کا کام بھی ہوتا تھا <ref>عبد المالک مجاہد، سیرت انسائیکلو پیڈیا، ج-1، مطبوعہ: دار السلام، لاہور، پاکستان، 1433ھ، ص: 168</ref>۔ |