3,705
ترامیم
Saeedi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) |
Saeedi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) |
||
سطر 2: | سطر 2: | ||
سپاہ صحابہ اور لشکر جھنگوی پاکستانی تکفیری گروہ ہیں جو اپنے مخالفین کے ساتھ معاندانہ رویہ رکھتے ہیں۔ پاکستان کے اندر دو تین دہائیوں سے ان کے جرائم اور بے انتہا ظلم و ستم کو ہم مشاہدہ کررہے ہیں۔ خلیج فارس کی کچھ ریاستوں جیسے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی مالی مدد سے ، یہ گروہ خطے میں مغرب کے مذموم مقاصد کو آگے بڑھانے کے لئے پراکسی جنگیں لڑ رہے ہیں۔ ان کی انتہا پسندانہ تکفیری سرگرمیوں کی متعدد خبریں ہمیشہ نیوز میڈیا کی مسلسل زینت بنتی رہتی ہیں۔ | سپاہ صحابہ اور لشکر جھنگوی پاکستانی تکفیری گروہ ہیں جو اپنے مخالفین کے ساتھ معاندانہ رویہ رکھتے ہیں۔ پاکستان کے اندر دو تین دہائیوں سے ان کے جرائم اور بے انتہا ظلم و ستم کو ہم مشاہدہ کررہے ہیں۔ خلیج فارس کی کچھ ریاستوں جیسے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی مالی مدد سے ، یہ گروہ خطے میں مغرب کے مذموم مقاصد کو آگے بڑھانے کے لئے پراکسی جنگیں لڑ رہے ہیں۔ ان کی انتہا پسندانہ تکفیری سرگرمیوں کی متعدد خبریں ہمیشہ نیوز میڈیا کی مسلسل زینت بنتی رہتی ہیں۔ | ||
== سپاہ صحابہ کی تاریخ == | == سپاہ صحابہ کی تاریخ == | ||
وادی سندھ میں شیعہ مخالف سوچ قیام پاکستان سے پہلے ہی موجود تھی- وادئ سندھ میں قیام پاکستان سے پہلے مسلمان عوام کو صرف ایک قسم کی مذہبی ثقافت میں ڈھالنے کی کوشش سب سے پہلے سید احمد بریلوی اور شاہ اسماعیل دہلوی نے کی۔ 1818ء سے 1821ء کے دوران سید احمد بریلوی نے شمالی ہندوستان میں مسلمانوں کے عقائد کی تبدیلی اور [[عزاداری]] پر حملوں کی مہم چلائی۔ 1826ء میں وہ پختون علاقوں میں سخت گیر مذہبی حکومت بنانے پہنچ گئے۔ ان دو حضرات کا کردار اس خطے کی مذہبی تاریخ میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے، جس کا اثر آج بھی بھارت کے صوبوں اترپردیش،اور ہریانہ کے ساتھ ساتھ پاکستان کے پختون اور مہاجر اکثریت والے علاقوں میں دیکھا جا سکتا ہے۔ انگریزوں نے مسلمانوں میں پائی جانے والی محرومیوں کو سکھوں کے خلاف استعمال کر نے کے لیے سید احمد بریلوی اورشاہ اسماعیل دہلوی کو اپنے زیر انتظام علاقوں میں لشکر سازی کی مکمل آزادی دی ۔ 1831 ء میں سید احمد بریلوی اور ان کے ساتھیوں کی طالبانی حکومت سے اکتائے ہوئے مسلمانوں اور سکھوں کے اشتراک عمل کے نتیجے میں بالاکوٹ کے مقام پر ان کے قتل کے بعد ان حضرات کی تحریک کا دوبارہ ظہور 30 مئی 1867ء میں دار العلوم دیوبند کے قیام کی شکل میں ہوا۔ بانی دار العلوم دیوبند مولانا رشیداحمد گنگوہی نے فتویٰ دیا کہ : | |||
"[[محرم]] میں ذکر [[حسین بن علی|شہادت حسین]] کرنا اگر چہ بروایات صحیح ہو یا سبیل لگانا ،شربت پلانا چندہ سبیل اور شربت میں دینا یا دودھ پلانا سب ناجائز اور حرام ہے"۔ | "[[محرم]] میں ذکر [[حسین بن علی|شہادت حسین]] کرنا اگر چہ بروایات صحیح ہو یا سبیل لگانا ،شربت پلانا چندہ سبیل اور شربت میں دینا یا دودھ پلانا سب ناجائز اور حرام ہے"۔ | ||
دیوبند مکتب کی اس سوچ کاپہلا نتیجہ افغانستان کے شاہ امیر عبد الرحمن کی طرف سے 1891ء سے 1893ء تک کی جانے والی شیعہ ہزارہ قبائل کی نسل کشی اور ان کی جائداد کی پشتونوں میں تقسیم اورانکو غلام اورلونڈیاں بناکر فروخت کرنے کا عمل تھا جس کے نتیجے میں افغانستان کے شیعوں کی آبادی میں 60فیصد تک کمی آ گئی ۔ امیر عبد الرحمن خان نے اپنی حکومت کا نظام چلانے کے لیے ہندوستان سے دیوبندی علما منگوائے تھے جنہوں نے شیعوں کے کافر ہونے اور ان کی جان و مال کے حلال ہونے کا فتویٰ دیا۔ یہ جدید انسانی تاریخ کی پہلی نسل کشی تھی جس کے نتیجے میں پانچ لاکھ انسان لقمۂ اجل بنے۔ اسی دوران میں کچھ ہزارہ خاندان ہجرت کر کے کوئٹہ میں آگئے جو انگریزوں کے قبضے میں ہونے کی وجہ سے ان کے لیے پناہ گاہ ثابت ہوا۔ کرم ایجنسی کے شیعہ قبائل افغان شاہ کی ایسی فرقہ وارانہ کارروائیوں کے خوف سے ہندوستان کی انگریز حکومت سے ملحق ہو گئے اور یوں فاٹا کا بندوبست عمل میں آیا۔ ہندوستان میں انگریزوں کے قانون کی مساوات اور بہتر انتظامی اقدامات کی بدولت اس سوچ کو قتل عام کا دائرہ وادی سندھ تک پھیلانے کا موقع نہ مل سکا۔ کرم ایجنسی کے بعد باقی قبائل نے بھی انگریز حکومت کا حصہ بننے کا فیصلہ کیا۔ اس تاریخی عمل جس کاآغاز شیعہ دشمنی سے ہوا، نے مستقبل میں بننے والے ملک پاکستان کی شمال مغربی سرحد کو متعین کیا۔ اس تاریخ کا ہی نتیجہ ہے کہ ریاض بسرا سے لیکر ملک اسحاق اور داود بادینی تک جیسے تربیت یافتہ جہادیوں کو قندھار کے دیوبندی علاقوں میں پناہ ملتی رہی ہے <ref>ڈاکٹر مبارک علی، "المیہ تاریخ، حصہ اول، باب 11جہاد تحریک" تاریخ پبلیکیشنز لاہور 2012</ref>۔ | دیوبند مکتب کی اس سوچ کاپہلا نتیجہ افغانستان کے شاہ امیر عبد الرحمن کی طرف سے 1891ء سے 1893ء تک کی جانے والی شیعہ ہزارہ قبائل کی نسل کشی اور ان کی جائداد کی پشتونوں میں تقسیم اورانکو غلام اورلونڈیاں بناکر فروخت کرنے کا عمل تھا جس کے نتیجے میں افغانستان کے شیعوں کی آبادی میں 60فیصد تک کمی آ گئی ۔ امیر عبد الرحمن خان نے اپنی حکومت کا نظام چلانے کے لیے ہندوستان سے دیوبندی علما منگوائے تھے جنہوں نے شیعوں کے کافر ہونے اور ان کی جان و مال کے حلال ہونے کا فتویٰ دیا۔ یہ جدید انسانی تاریخ کی پہلی نسل کشی تھی جس کے نتیجے میں پانچ لاکھ انسان لقمۂ اجل بنے۔ اسی دوران میں کچھ ہزارہ خاندان ہجرت کر کے کوئٹہ میں آگئے جو انگریزوں کے قبضے میں ہونے کی وجہ سے ان کے لیے پناہ گاہ ثابت ہوا۔ کرم ایجنسی کے شیعہ قبائل افغان شاہ کی ایسی فرقہ وارانہ کارروائیوں کے خوف سے ہندوستان کی انگریز حکومت سے ملحق ہو گئے اور یوں فاٹا کا بندوبست عمل میں آیا۔ ہندوستان میں انگریزوں کے قانون کی مساوات اور بہتر انتظامی اقدامات کی بدولت اس سوچ کو قتل عام کا دائرہ وادی سندھ تک پھیلانے کا موقع نہ مل سکا۔ کرم ایجنسی کے بعد باقی قبائل نے بھی انگریز حکومت کا حصہ بننے کا فیصلہ کیا۔ اس تاریخی عمل جس کاآغاز شیعہ دشمنی سے ہوا، نے مستقبل میں بننے والے ملک پاکستان کی شمال مغربی سرحد کو متعین کیا۔ اس تاریخ کا ہی نتیجہ ہے کہ ریاض بسرا سے لیکر ملک اسحاق اور داود بادینی تک جیسے تربیت یافتہ جہادیوں کو قندھار کے دیوبندی علاقوں میں پناہ ملتی رہی ہے <ref>ڈاکٹر مبارک علی، "المیہ تاریخ، حصہ اول، باب 11جہاد تحریک" تاریخ پبلیکیشنز لاہور 2012</ref>۔ | ||
== لکھنو میں شیعہ مخالف مہم == | == لکھنو میں شیعہ مخالف مہم == | ||
1906ء میں لکھنؤ کے عزاداری کے جلوسوں مقابلے میں دیوبندی علما کی طرف سے مدح صحابہ کے نام سے جلوس نکالنے کا سلسلہ شروع کیا گیا۔ ان جلوسوں میں [[کربلا]] کے واقعے پر گفتگو اور نعرے بازی ہوا کرتی جس میں بنی امیہ کی وکالت کی جاتی۔ عاشورا کے دن یہ سب کرنے سے شیعوں میں اشتعال پھیل گیا۔ انگریزحکومت نے فرقہ وارانہ فساد کے خطرے کے پیش نظر ان جلوسوں پر پابندی لگا دی۔ لکھنؤ کو ٹارگٹ کرنے کا مقصد یہ تھا کہ یہ شہر اس وقت ہندوستان میں شیعوں کا ثقافتی مرکز تھا۔ لکھنؤ میں اس اشتعال کے بعد فرقہ وارانہ لٹریچر چھپنے لگا، جو لکھنؤ تک محدود نہ رہا بلکہ وادی سندھ میں بھی آیا۔ 1920ء میں دیوبندی عالم مرزا حیرت دہلوی نے "کتاب شہادت" کے عنوان سے ایک کتاب لکھی جس میں [[علی ابن ابی طالب|حضرت علی]] و حسنین پرشدید تنقید کی گئی تھی۔ لکھنؤ شہر میں تو انگریز حکومت کے حسن انتظام اور قانون کے مساوی نفاذ نے قتل و غارت تک نوبت نہیں آنے دی، لیکن پنجاب اور پختون خواہ کے بعض علاقوں میں محرم کے جلوسوں پر حملے ہوئے۔ 1931ء میں دیوبندی عالم مولانا عبد الشکور لکھنؤی نے لکھنؤ میں ایک دیوبندی مدرسہ قائم کیا اور دوبارہ مدح صحابہ کے سلسلے کا آغاز کر دیا۔ اس اشتعال انگیزی کا نتیجہ اس وقت سامنے آیا جب 1938ء میں اس جلوس کے رد عمل کے طور پر لکھنؤ کے شیعہ حضرات نے بنی امیہ پر تبرے کے جلوس نکالنے شروع کر دیے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب برصغیر کی آزادی کے تاریخی لمحات قریب آچکے تھے اور یہاں مسلمان آپس میں لڑپڑے تھے۔ اکتوبر 1939ءکومولانا ابو الکلام آزاد کلکتہ سے لکھنؤ تشریف لائے اور سات دن تک مختلف شیعہ سنی رہنماوں سے ملاقاتیں کیں۔ اس کوشش کا نتیجہ یہ ہوا کہ شیعہ حضرات نے تبرے کے جلوس نکالنا بند کر دیے البتہ مولانا عبد الشکور لکھنؤی پھر بھی فرقہ وارانہ اشتعال سے باز نہیں آ ئے اور نتیجتا حکومت کو اس سلسلے پر پابندی لگانا پڑی۔ مولانا عبد الشکور 1942ءمیں سیڑھیوں سے گر کر فوت ہو گئے <ref>رشید احمد گنگوہی دیوبندی، فتاوٰی رشیدیہ ص 435</ref>۔ | 1906ء میں لکھنؤ کے عزاداری کے جلوسوں مقابلے میں دیوبندی علما کی طرف سے مدح صحابہ کے نام سے جلوس نکالنے کا سلسلہ شروع کیا گیا۔ ان جلوسوں میں [[کربلا]] کے واقعے پر گفتگو اور نعرے بازی ہوا کرتی جس میں بنی امیہ کی وکالت کی جاتی۔ عاشورا کے دن یہ سب کرنے سے شیعوں میں اشتعال پھیل گیا۔ انگریزحکومت نے فرقہ وارانہ فساد کے خطرے کے پیش نظر ان جلوسوں پر پابندی لگا دی۔ لکھنؤ کو ٹارگٹ کرنے کا مقصد یہ تھا کہ یہ شہر اس وقت ہندوستان میں شیعوں کا ثقافتی مرکز تھا۔ لکھنؤ میں اس اشتعال کے بعد فرقہ وارانہ لٹریچر چھپنے لگا، جو لکھنؤ تک محدود نہ رہا بلکہ وادی سندھ میں بھی آیا۔ 1920ء میں دیوبندی عالم مرزا حیرت دہلوی نے "کتاب شہادت" کے عنوان سے ایک کتاب لکھی جس میں [[علی ابن ابی طالب|حضرت علی]] و حسنین پرشدید تنقید کی گئی تھی۔ لکھنؤ شہر میں تو انگریز حکومت کے حسن انتظام اور قانون کے مساوی نفاذ نے قتل و غارت تک نوبت نہیں آنے دی، لیکن پنجاب اور پختون خواہ کے بعض علاقوں میں محرم کے جلوسوں پر حملے ہوئے۔ 1931ء میں دیوبندی عالم مولانا عبد الشکور لکھنؤی نے لکھنؤ میں ایک دیوبندی مدرسہ قائم کیا اور دوبارہ مدح صحابہ کے سلسلے کا آغاز کر دیا۔ اس اشتعال انگیزی کا نتیجہ اس وقت سامنے آیا جب 1938ء میں اس جلوس کے رد عمل کے طور پر لکھنؤ کے شیعہ حضرات نے بنی امیہ پر تبرے کے جلوس نکالنے شروع کر دیے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب برصغیر کی آزادی کے تاریخی لمحات قریب آچکے تھے اور یہاں مسلمان آپس میں لڑپڑے تھے۔ اکتوبر 1939ءکومولانا ابو الکلام آزاد کلکتہ سے لکھنؤ تشریف لائے اور سات دن تک مختلف شیعہ سنی رہنماوں سے ملاقاتیں کیں۔ اس کوشش کا نتیجہ یہ ہوا کہ شیعہ حضرات نے تبرے کے جلوس نکالنا بند کر دیے البتہ مولانا عبد الشکور لکھنؤی پھر بھی فرقہ وارانہ اشتعال سے باز نہیں آ ئے اور نتیجتا حکومت کو اس سلسلے پر پابندی لگانا پڑی۔ مولانا عبد الشکور 1942ءمیں سیڑھیوں سے گر کر فوت ہو گئے <ref>رشید احمد گنگوہی دیوبندی، فتاوٰی رشیدیہ ص 435</ref>۔ |