Jump to content

"ابو الحسن علی حسنی ندوی" کے نسخوں کے درمیان فرق

سطر 19: سطر 19:


'''ابو الحسن علی حسنی ندوی''' ایک [[ہندوستان|ہندوستانی]] اسلامی مفکر اور مبلغ ہیں، وہ تکیہ گاؤں ہندوستان میں 1333 / 1914 میں پیدا ہوئے اور 23رمضان المبارک 31 دسمبر 1999 کو وفات پائی۔
'''ابو الحسن علی حسنی ندوی''' ایک [[ہندوستان|ہندوستانی]] اسلامی مفکر اور مبلغ ہیں، وہ تکیہ گاؤں ہندوستان میں 1333 / 1914 میں پیدا ہوئے اور 23رمضان المبارک 31 دسمبر 1999 کو وفات پائی۔
== اس کا نام اور نسب ==
== نام اور نسب ==
ابو الحسن علی بن عبدالحی بن فخر الدین الحسنی  ان کا سلسلہ نسب عبداللہ الاشتر بن محمد ذوالنفس الزکیہ بن عبداللہ المحدث بن الحسن المثنیٰ بن الحسن پر ختم ہوتا ہے اور ان کا خاندانی تعلق سادات کے مشہور حسنی سلسلہ سے ہے جو نواسۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا حضرت [[حسن بن علی|حسن رضی اللہ عنہ]] تک پہنچتا ہے بن [[علی ابن ابی طالب]] ان کے دادا  قطب الدین محمد المدنی  ساتویں صدی ہجری کے اوائل میں ہندوستان ہجرت کر گئے <ref>حضرت مولانا ابو الحسن علی ندویؒ، شخصیت اور خدمات، [https://alsharia.org/2000/may/hazrat-abul-hasan-ali-nadvi-shakhsiyyat-khidmat-maulana-isa-mansuri alsharia.org]</ref>۔
ابو الحسن علی بن عبدالحی بن فخر الدین الحسنی  ان کا سلسلہ نسب عبداللہ الاشتر بن محمد ذوالنفس الزکیہ بن عبداللہ المحدث بن الحسن المثنیٰ بن الحسن پر ختم ہوتا ہے۔ ان کا خاندانی تعلق سادات کے مشہور حسنی سلسلہ سے ہے جو نواسۂ رسول   سیدنا حضرت [[حسن بن علی|حسن بن]]   [[علی ابن ابی طالب]]<nowiki/>رضی اللہ عنہ تک پہنچتا ہے۔  ان کے دادا  قطب الدین محمد المدنی  ساتویں صدی ہجری کے اوائل میں ہندوستان ہجرت کر گئے <ref>حضرت مولانا ابو الحسن علی ندویؒ، شخصیت اور خدمات، [https://alsharia.org/2000/may/hazrat-abul-hasan-ali-nadvi-shakhsiyyat-khidmat-maulana-isa-mansuri alsharia.org]</ref>۔


ان کے والد  عبد الحی ابن فخر الدین الحسنی  ہندوستان کے ممتاز [[مسلمان]]، آخر کار ہندوستان کی تاریخ میں قابل ذکر مرد کے نام سے چھاپے گئے، یہاں تک کہ انہیں '''ابن خلیقان الہند''' کا خطاب ملا۔ ان کی والدہ [[قرآن |قرآن مجید]] کی مصنف اور حافظ تھیں، وہ شاعری کرتی تھیں، اور انہوں نے [[رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم]] کی تعریف میں آیات کا ایک گروپ بنایا تھا۔
ان کے والد  عبد الحی ابن فخر الدین الحسنی  ہندوستان کے ممتاز عالم دین تھے جنہوں نے  آٹھ جلدوں پر مشتمل کتاب ”نزہۃ الخواطر“ لکھی جو بعد میں  «الإعلام بمن في تاريخ الهند من الأعلام» کے نام سے شائع ہوئی، یہاں تک کہ انہیں '''ابن خلکان الہند''' کا خطاب ملا۔ ان کی والدہ مصنف اور  [[قرآن |قرآن مجید]] کی حافظ تھیں، وہ شاعری کرتی تھیں، اور انہوں نے [[رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم]] کی مدح  میں ایک قصیدہ تصنیف کیا تھا۔


== تعلیم ==
== تعلیم ==
ابتدائی تعلیم اپنے ہی وطن تکیہ، رائے بریلی میں حاصل کی۔اس کے بعد عربی، فارسی اور اردو میں تعلیم کا آغاز کیا۔ علی میاں نے مزید اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے لکھنؤ میں واقع اسلامی درسگاہ '''دارالعلوم ندوۃ العلماء''' کا رخ کیا۔ اور وہاں سے علوم اسلامی میں سند فضیلت حاصل کی۔ وہ بیک وقت مفکر، مدبر، مصلح، قائد، زمانہ شناس ، ادیب اور نباضِ وقت ، خطیب تھے، اللہ تعالیٰ نے انہیں فہم وفراست اور حکمت وبصیرت کے بڑے حصہ سے نوازا تھا۔
ابتدائی تعلیم اپنے ہی وطن تکیہ، رائے بریلی میں حاصل کی۔اس کے بعد عربی، فارسی اور اردو میں تعلیم کا آغاز کیا۔ علی میاں نے مزید اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے لکھنؤ میں واقع اسلامی درسگاہ '''دارالعلوم ندوۃ العلماء''' کا رخ کیا۔ اور وہاں سے علوم اسلامی میں سند فضیلت حاصل کی۔ وہ بیک وقت مفکر، مدبر، مصلح، قائد، زمانہ شناس ، ادیب اور نباضِ وقت خطیب تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں فہم وفراست اور حکمت وبصیرت کے بڑے حصہ سے نوازا تھا۔
== تبلیغ دین ==
== تبلیغ دین ==
دور حاضر کے تقاضے اور نفسیات کے مطابق وہ [[دین]] وشریعت پیش کرنے کا کام اپنے قلم اور زبان سے لیا کرتے تھے، دنیا کے جس گوشے میں جاتے وہاں دل کی گہرائیوں سے [[اسلام]] کا پیغام لوگوں کو سناتے۔ خاص طور سے عالم عرب اور اسلامی ملکوں میں لوگوں کو یاد دلاتے کہ تمہارے گھر سے دیئے گئے پیغام کی بدولت ہندوستان میں ہمارے آباء واجداد اسلام لائے اور آج ہم جب اسلام لانے کی قیمت ادا کررہے ہیں تو تم محوِ خواب ہو، آپ نے عرب ممالک میں [[پاکستان]] کے اس پروپیگنڈہ کا بھی رد کیا کہ ہندوستان میں اب مسلمان نہیں رہ گئے، جو تھے وہ پہلے پاکستان منتقل ہوگئے یا بعد میں مار دیئے گئے۔ انہوں نے ہندوستان کی اسلامی تاریخ سے اپنی تحریر وتقریر کے ذریعہ عربوں کو اس خوبی سے متعارف کرایا کہ اس سے پہلے کوئی دوسرا یہ کام نہیں کرسکا۔ وہ ہمارے عہد کے واحد ہندوستانی تھے جو عربوں کو ان کی زبان اور ان کے لہجہ میں بغیر کسی مرعوبیت کے مخاطب کرتے تھے اور ایسی فصیح عربی بولتے و لکھتے تھے کہ اہل عرب بھی اس کے سحر میں کھو جاتے، اس میں تنقید واحتساب کی دعوت کے ساتھ طاقت و توانائی حاصل کرنے کی راہ بھی دکھاتے، ان کے دکھ درد میں شریک رہتے، ان کے غم پر آنسو بہاتے اور بارگاہ الٰہی میں دعائیں بھی کرتے۔
دور حاضر کے تقاضوں  اور نفسیات کے مطابق وہ [[دین]] وشریعت پیش کرنے کا کام اپنے قلم اور زبان سے لیا کرتے تھے، دنیا کے جس گوشے میں جاتے وہاں دل کی گہرائیوں سے [[اسلام]] کا پیغام لوگوں کو سناتے۔ خاص طور سے عالم عرب اور اسلامی ملکوں میں لوگوں کو یاد دلاتے کہ تمہارے گھر سے دیئے گئے پیغام کی بدولت ہندوستان میں ہمارے آباء واجداد اسلام لائے اور آج ہم جب اسلام لانے کی قیمت ادا کررہے ہیں تو تم محوِ خواب ہو۔ آپ نے عرب ممالک میں [[پاکستان]] کے اس پروپیگنڈہ کو بھی رد کیا کہ ہندوستان میں اب مسلمان نہیں رہ گئے، جو تھے وہ پہلے پاکستان منتقل ہوگئے یا بعد میں مار دیئے گئے۔ انہوں نے ہندوستان کی اسلامی تاریخ سے اپنی تحریر وتقریر کے ذریعہ عربوں کو اس خوبی سے متعارف کرایا کہ اس سے پہلے کوئی دوسرا یہ کام نہیں کرسکا۔ وہ ہمارے عہد کے واحد ہندوستانی تھے جو عربوں کو ان کی زبان اور ان کے لہجہ میں بغیر کسی مرعوبیت کے مخاطب کرتے تھے اور ایسی فصیح عربی بولتےا ور لکھتے تھے کہ اہل عرب بھی اس کے سحر میں کھو جاتے، اس میں تنقید واحتساب کی دعوت کے ساتھ ساتھ  طاقت و توانائی حاصل کرنے کی راہ بھی دکھاتے، ان کے دکھ درد میں شریک رہتے، ان کے غم پر آنسو بہاتے اور بارگاہ الٰہی میں دعائیں بھی کرتے۔
== مسئلہ فلسطین ==
== مسئلہ فلسطین ==
عرب قومیت کا گمراہ کن نعرہ ہو یا [[فلسطین]] پر اسرائیل کا غاصبانہ قبضہ اس کے خلاف زبان وقلم سے جہاد چھیڑ کر آپ نے واضح الفاظ میں عربوں کو متنبہ فرمایا کہ اسلامی صلاحیت اور دینی حمیت کا مطلوبہ معیار پورا کئے بغیر وہ قیادت کے مستحق نہیں ہوسکتے، عربوں کو جو بھی عزت نصیب ہوئی وہ اسلام اور [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|محمد عربی]] کا فیض ہے ، یہ مایا اگر عربوں سے چھن جائے تو ان کے پاس کچھ باقی نہیں بچے گا اسی طرح فلسطین کے مسئلہ کو انہوں نے عربوں کا نہیں اپنا مسئلہ سمجھا، اس پر تقاریر کیں اور کتابیں لکھیں، مسئلہ فلسطین کے اسباب وعوامل بیان کئے اور حل کیلئے راہ دکھائی، بارہا اپنی تحریر وتقریر میں فرمایا کہ عربوں کے اس زوال وپستی کی بنیادی وجہ ان کے یقین کی کمزوری، شک وشبہ کا نفوذ اور احساسِ کمتری ہے۔ [[کویت]] اور [[سعودی عرب]] کی یہ تقریریں '''عالم عربی کے المیہ''' کے نام سے شائع ہوچکی ہیں، جن میں نہایت بے باکی اور دلسوزی کے ساتھ عربوں کی اخلاقی کمزوری، دینی قدروں کی زبوں حالی، فکری انارکی، ابن الوقتی اور جھوٹے معیار کے آگے سپر اندازی پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
عرب قومیت کا گمراہ کن نعرہ ہو یا [[فلسطین]] پر اسرائیل کا غاصبانہ قبضہ اس کے خلاف زبان وقلم سے جہاد چھیڑ کر آپ نے واضح الفاظ میں عربوں کو متنبہ فرمایا کہ اسلامی صلاحیت اور دینی حمیت کا مطلوبہ معیار پورا کئے بغیر وہ قیادت کے مستحق نہیں ہوسکتے، عربوں کو جو بھی عزت نصیب ہوئی وہ اسلام اور [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|محمد عربی]] کا فیض ہے ، یہ سرمایہ اگر عربوں سے چھن جائے تو ان کے پاس کچھ باقی نہیں بچے گا۔ اسی طرح فلسطین کے مسئلہ کو انہوں نے عربوں کا نہیں اپنا مسئلہ سمجھا، اس پر تقاریر کیں اور کتابیں لکھیں، مسئلہ فلسطین کے اسباب وعوامل بیان کئے اور حل کیلئے راہ دکھائی، بارہا اپنی تحریر وتقریر میں فرمایا کہ عربوں کے اس زوال وپستی کی بنیادی وجہ ان کے یقین کی کمزوری، شک وشبہ کا نفوذ اور احساسِ کمتری ہے۔ [[کویت]] اور [[سعودی عرب]] کی یہ تقریریں '''عالم عربی کے المیہ''' کے نام سے شائع ہوچکی ہیں، جن میں نہایت بے باکی اور دلسوزی کے ساتھ عربوں کی اخلاقی کمزوری، دینی قدروں کی زبوں حالی، فکری انارکی، ابن الوقتی اور جھوٹے معیار کے آگے سپر اندازی پر روشنی ڈالی گئی ہے۔


== اتحاد امت اسلامی ==
== اتحاد امت اسلامی ==
[[ایران]] گئے تو [[شیعہ]] و [[اہل السنۃ والجماعت|سنیوں]] کو ایک دوسرے کے قریب آنے کا مشورہ دیا۔ہندوستان میں بھی شیعہ و سنیوں کے مسلکی اختلافات کو امت کے رستے ہوئے ناسور سے تعبیر کیا اور اس کے تدارک میں پیش پیش وفکر مند رہے۔ آپ  نے مسلم پرسنل لاء بورڈ کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے جو خطبے دیئے، ان میں مسلمانان ہند کے لئے جہاں پرسنل لاء کو ناگزیر بتایا، وہیں اسے مسلمانوں کی عزت وآبرو کیلئے اہم قرار دیا اور اس کی حفاظت کو اسلامی تہذیب وتشخص کے تحفظ سے تعبیر فرمایا۔
[[ایران]] گئے تو [[شیعہ]] اور[[اہل السنۃ والجماعت|سنیوں]] کو ایک دوسرے کے قریب آنے کا مشورہ دیا۔ہندوستان میں بھی شیعہ و سنی مسلکی اختلافات کو امت کے رستے ہوئے ناسور سے تعبیر کیا اور اس کے تدارک میں پیش پیش وفکر مند رہے۔ آپ  نے مسلم پرسنل لاء بورڈ کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے جو خطبے دیئے، ان میں مسلمانان ہند کے لئے جہاں پرسنل لاء کو ناگزیر بتایا، وہیں اسے مسلمانوں کی عزت وآبرو کیلئے اہم قرار دیا اور اس کی حفاظت کو اسلامی تہذیب وتشخص کے تحفظ سے تعبیر فرمایا۔


== تالیفات ==
== تالیفات ==
آپ کے خطبات وتقاریر مختلف عنوانات کے تحت کتابی شکل میں شائع ہوچکے ہیں، جن میں سے ایک اہم مجموعہ '''پاجا سراغ زندگی''' ہے ان تقریروں میں دارالعلوم ندوۃ العلماء کے طلباء کو وہ یہ پیام دیتے ہیں کہ '''شاخِ ملت انہی کے دم سے ہری ہوسکتی ہے'''۔ امریکہ کے سفر پر گئے تو وہاں کی یونیورسٹیوں اور مجلسوں میں جو تقاریریں کیں '''مغرب سے کچھ صاف صاف باتیں''' اور '''نئی دنیا''' کے نام سے وہ منظر عام پر آگئی ہیں، ان تقاریر میں آپ نے دو ٹوک انداز میں فرمایا کہ ’’امریکہ میں مشینوں کی بہار تو دیکھی، لیکن آدمیت اور روح کا زوال پایا‘‘۔وہاں کے مسلمانوں کو تعلق باللہ، اپنے کام میں اخلاص اور انابت کی روح پیدا کرنے پر زور دیا، یہی پیغام وہ ہر جگہ ہر ملک اور ہر شہر میں دیتے رہے، جو نیا نہیں تھا لیکن کچھ ایسے ایمانی ولولے، قلبی درد اور داعیانہ انداز میں اس کا اعادہ کرتے کہ سننے والوں کے قلوب گرما جاتے، اسی طرح یوروپ، برطانیہ، سوئزرلینڈ اور اسپین کی یونیورسٹیوں اور علمی مجلسوں میں تخاطب کے دوران یہ پیام دیا کہ ’’وہاں کے مسلمان مغربی تہذیب و تمدن کے گرویدہ نہ ہوں کیونکہ اس کا ظاہر روشن اور باطن تاریک ہے، مسلمان اس سرزمین پر اسلام کے داعی بن کر رہیں، اسلام کی ابدیت پر مکمل اعتماد رکھیں اور مشرق ومغرب کے درمیان نئی نہر سوئز تعمیر کرنے کے لئے کام کریں <ref>مفکر اسلام مولانا ابوالحسن علی ندوی کی فکر ونظر یومِ وفات کے موقع پر خصوصی مضمون، [https://www.dailysalar.com/news/22862/page8/ dailysalar.com]</ref>۔
آپ کے خطبات وتقاریر مختلف عنوانات کے تحت کتابی شکل میں شائع ہوچکے ہیں، جن میں سے ایک اہم مجموعہ '''پاجا سراغ زندگی''' ہے۔ ان تقریروں میں دارالعلوم ندوۃ العلماء کے طلباء کو وہ یہ پیغام دیتے ہیں کہ '''شاخِ ملت انہیں کے دم سے ہری ہوسکتی ہے'''۔ امریکہ کے سفر پر گئے تو وہاں کی یونیورسٹیوں اور مجلسوں میں جو تقاریریں کیں '''مغرب سے کچھ صاف صاف باتیں''' اور '''نئی دنیا''' کے نام سے وہ منظر عام پر آگئی ہیں۔ ان تقاریر میں آپ نے دو ٹوک انداز میں فرمایا کہ ’’امریکہ میں مشینوں کی بہار تو دیکھی، لیکن آدمیت اور روح کا زوال پایا‘‘۔وہاں کے مسلمانوں کو تعلق باللہ، اپنے کام میں اخلاص اور انابت کی روح پیدا کرنے پر زور دیا، یہی پیغام وہ ہر جگہ ہر ملک اور ہر شہر میں دیتے رہے، جو نیا نہیں تھا لیکن کچھ ایسے ایمانی ولولے، قلبی درد اور داعیانہ انداز میں اس کا اعادہ کرتے کہ سننے والوں کے قلوب گرما جاتے۔ اسی طرح یوروپ، برطانیہ، سوئزرلینڈ اور اسپین کی یونیورسٹیوں اور علمی مجلسوں میں تخاطب کے دوران یہ پیغام دیا کہ ’’وہاں کے مسلمان مغربی تہذیب و تمدن کے گرویدہ نہ ہوں کیونکہ اس کا ظاہر روشن اور باطن تاریک ہے، مسلمان اس سرزمین پر اسلام کے داعی بن کر رہیں، اسلام کی ابدیت پر مکمل اعتماد رکھیں اور مشرق ومغرب کے درمیان نئی نہر سوئز تعمیر کرنے کے لئے کام کریں <ref>مفکر اسلام مولانا ابوالحسن علی ندوی کی فکر ونظر یومِ وفات کے موقع پر خصوصی مضمون، [https://www.dailysalar.com/news/22862/page8/ dailysalar.com]</ref>۔
== اعزازات ==
== اعزازات ==
* انہیں 1956 ء میں دمشق میں عربی زبان اکیڈمی کے نامہ نگار کے طور پر منتخب کیا گیا ۔ انہوں نے 1962 عیسوی میں مکہ میں مسلم ورلڈ لیگ کے قیام کے پہلے اجلاس کو اس کے صدر مملکت سعودی عرب کے مفتی اعظم محمد بن ابراہیم آل شیخ کی طرف سے معتدل کیا - جس میں پہلے شاہ سعود بن عبدالعزیز نے شرکت کی۔ آل سعود کے ساتھ ساتھ لیبیا کے حکمران شاہ محمد ادریس السنوسی اور دیگر اہم شخصیات نے اپنا قیمتی مضمون پیش کیا جس کا عنوان تھا: اسلام قوم پرستی اور فرقہ واریت سے بالاتر ہے۔  
* انہیں 1956 ء میں دمشق میں عربی زبان اکیڈمی کے نامہ نگار کے طور پر منتخب کیا گیا ۔ انہوں نے 1962 میں مکہ میں   سعودی عرب کے مفتی اعظم محمد بن ابراہیم آل شیخ کی نیابت کرتے ہوئے رابطہ عالم اسلامی کے قیام کے پہلے اجلاس کی صدارت کی  - جس میں پہلے شاہ سعود بن عبدالعزیز ،  لیبیا کے حکمران شاہ محمد ادریس السنوسی اور دیگر اہم شخصیات نے شرکت کی ۔صدارت کرتے ہوئے انہوں نے  اپنا قیمتی مضمون پیش کیا جس کا عنوان تھا: اسلام قوم پرستی اور فرقہ واریت سے بالاتر ہے۔
* انہیں 1962ء میں اسلامی یونیورسٹی مدینہ کی سپریم ایڈوائزری کونسل کے رکن کے طور پر منتخب کیا گیا تھا۔ وہ کونسل کے تحلیل ہونے تک اس کے رکن رہے اور یونیورسٹی باقی سعودی یونیورسٹیوں کی صف میں شامل ہو گئی۔ وزارت اعلیٰ تعلیم سے وابستہ - برسوں پہلے۔  
* انہیں 1962ء میں اسلامی یونیورسٹی مدینہ کی سپریم ایڈوائزری کونسل کے رکن کے طور پر منتخب کیا گیا تھا۔ وہ کونسل کے تحلیل ہونے تک اس کے رکن رہے اور یونیورسٹی باقی سعودی یونیورسٹیوں کی صف میں شامل ہو گئی۔ وزارت اعلیٰ تعلیم سے وابستہ - برسوں پہلے۔  
* انہیں 1969 عیسوی میں اسلامی یونیورسٹیوں کی انجمن کے قیام کے بعد سے منتخب کیا گیا تھا۔  
* انہیں 1969 عیسوی میں اسلامی یونیورسٹیوں کی انجمن کے قیام کے بعد سے منتخب کیا گیا تھا۔  
confirmed
821

ترامیم