Jump to content

"بیت المقدس" کے نسخوں کے درمیان فرق

سطر 35: سطر 35:
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سفر معراج کے دوران مسجد حرام سے یہاں پہنچے تھے اور مسجد اقصی میں تمام انبیاء کی نماز کی امامت کرنے کے بعد براق کے ذریعے سات آسموں کے سفر پر روانہ ہوئے۔ مسجد اقصی مسلمانوں کا قبلۂ اول ہے اور معراج میں نماز کی فرضیت 16 سے 17 ماہ تک مسلمان مسجد اقصی کی جانب رخ کرکے ہی نماز ادا کرتے تھے پھر تحویل قبلہ کا حکم آنے کے بعد مسلمانوں کا قبلہ خانہ کعبہ ہوگیا۔
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سفر معراج کے دوران مسجد حرام سے یہاں پہنچے تھے اور مسجد اقصی میں تمام انبیاء کی نماز کی امامت کرنے کے بعد براق کے ذریعے سات آسموں کے سفر پر روانہ ہوئے۔ مسجد اقصی مسلمانوں کا قبلۂ اول ہے اور معراج میں نماز کی فرضیت 16 سے 17 ماہ تک مسلمان مسجد اقصی کی جانب رخ کرکے ہی نماز ادا کرتے تھے پھر تحویل قبلہ کا حکم آنے کے بعد مسلمانوں کا قبلہ خانہ کعبہ ہوگیا۔


== ﻣﺴﻠﻢ ﺗﻌﻤﯿﺮﺍﺕ ==
== مسلم تعمیرات ==
ﻣﺴﻠﻢ ﺗﻌﻤﯿﺮﺍﺕ ﺟﺐ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﻓﺎﺭﻭﻕ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﮐﮯ ﺩﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﻧﮯ ﺑﯿﺖ ﺍﻟﻤﻘﺪﺱ ﻓﺘﺢ ﮐﯿﺎ ﺗﻮ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﻧﮯ ﺷﮩﺮ ﺳﮯ ﺭﻭﺍﻧﮕﯽ ﮐﮯ ﻭﻗﺖ ﺻﺨﺮﮦ ﺍﻭﺭ ﺑﺮﺍﻕ ﺑﺎﻧﺪﮬﻨﮯ ﮐﯽ ﺟﮕﮧ ﮐﮯ ﻗﺮﯾﺐ ﻣﺴﺠﺪ ﺗﻌﻤﯿﺮ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﺎ ﺣﮑﻢ ﺩﯾﺎ ﺟﮩﺎﮞ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﮨﻤﺮﺍﮨﯿﻮﮞ ﺳﻤﯿﺖ ﻧﻤﺎﺯ ﺍﺩﺍ ﮐﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﯾﮩﯽ ﻣﺴﺠﺪ ﺑﻌﺪ ﻣﯿﮟ ﻣﺴﺠﺪ ﺍﻗﺼٰﯽ ﮐﮩﻼﺋﯽ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﻗﺮﺁﻥ ﻣﺠﯿﺪ ﮐﯽ ﺳﻮﺭﮦ ﺑﻨﯽ ﺍﺳﺮﺍﺋﯿﻞ ﮐﮯ ﺁﻏﺎﺯ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﻣﻘﺎﻡ ﮐﻮ ﻣﺴﺠﺪ ﺍﻗﺼٰﯽ ﮐﮩﺎ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ۔ ﺍﺱ ﺩﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﺑﮩﺖ ﺳﮯ ﺻﺤﺎﺑﮧ ﻧﮯ ﺗﺒﻠﯿﻎ ﺍﺳﻼﻡ ﺍﻭﺭ ﺍﺷﺎﻋﺖ ﺩﯾﻦ ﮐﯽ ﺧﺎﻃﺮ ﺑﯿﺖ ﺍﻟﻤﻘﺪﺱ ﻣﯿﮟ ﺍﻗﺎﻣﺖ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭ ﮐﯽ۔ ﺧﻠﯿﻔﮧ ﻋﺒﺪ ﺍﻟﻤﻠﮏ ﺑﻦ ﻣﺮﻭﺍﻥ ﻧﮯ ﻣﺴﺠﺪ ﺍﻗﺼٰﯽ ﮐﯽ ﺗﻌﻤﯿﺮ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮﺍﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﺧﻠﯿﻔﮧ ﻭﻟﯿﺪ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ ﺍﻟﻤﻠﮏ ﻧﮯ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺗﻌﻤﯿﺮ ﻣﮑﻤﻞ ﮐﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺗﺰﺋﯿﻦ ﻭ ﺁﺭﺍﺋﺶ ﮐﯽ۔ ﻋﺒﺎﺳﯽ ﺧﻠﯿﻔﮧ ﺍﺑﻮ ﺟﻌﻔﺮ ﻣﻨﺼﻮﺭ ﻧﮯ ﺑﮭﯽ ﺍﺱ ﻣﺴﺠﺪ ﮐﯽ ﻣﺮﻣﺖ ﮐﺮﺍﺋﯽ۔ ﭘﮩﻠﯽ ﺻﻠﯿﺒﯽ ﺟﻨﮓ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺟﺐ ﻋﯿﺴﺎﺋﯿﻮﮞ ﮐﺎ ﺑﯿﺖ ﺍﻟﻤﻘﺪﺱ ﭘﺮ ﻗﺒﻀﮧ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ ﺗﻮ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﻣﺴﺠﺪ ﺍﻗﺼٰﯽ ﻣﯿﮟ ﺑﮩﺖ ﺭﺩ ﻭ ﺑﺪﻝ ﮐﯿﺎ۔ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﻣﺴﺠﺪ ﻣﯿﮟ ﺭﮨﻨﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﮐﺌﯽ ﮐﻤﺮﮮ ﺑﻨﺎ ﻟﯿﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﻣﻌﺒﺪ ﺳﻠﯿﻤﺎﻥ ﺭﮐﮭﺎ، ﻧﯿﺰ ﻣﺘﻌﺪﺩ ﺩﯾﮕﺮ ﻋﻤﺎﺭﺗﻮﮞ ﮐﺎ ﺍﺿﺎﻓﮧ ﮐﯿﺎ ﺟﻮ ﺑﻄﻮﺭ ﺟﺎﺋﮯ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﺍﻭﺭ ﺍﻧﺎﺝ ﮐﯽ ﮐﻮﭨﮭﯿﻮﮞ ﮐﮯ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﮨﻮﺗﯽ ﺗﮭﯿﮟ۔ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﻣﺴﺠﺪ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﺍﻭﺭ ﻣﺴﺠﺪ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺳﺎﺗﮫ ﮔﺮﺟﺎ ﺑﮭﯽ ﺑﻨﺎ ﻟﯿﺎ۔ ﺳﻠﻄﺎﻥ ﺻﻼﺡ ﺍﻟﺪﯾﻦ ﺍﯾﻮﺑﯽ ﻧﮯ 1187 ﺀ ﻣﯿﮟ ﻓﺘﺢ ﺑﯿﺖ ﺍﻟﻤﻘﺪﺱ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻣﺴﺠﺪ ﺍﻗﺼٰﯽ ﮐﻮ ﻋﯿﺴﺎﺋﯿﻮﮞ ﮐﮯ ﺗﻤﺎﻡ ﻧﺸﺎﻧﺎﺕ ﺳﮯ ﭘﺎﮎ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﻣﺤﺮﺍﺏ ﺍﻭﺭ ﻣﺴﺠﺪ ﮐﻮ ﺩﻭﺑﺎﺭﮦ ﺗﻌﻤﯿﺮ ﮐﯿﺎ۔
مسلم تعمیرات جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں مسلمانوں نے بیت المقدس فتح کیا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے شہر سے روانگی کے وقت صخرہ اور براق باندھنے کی جگہ کے قریب مسجد تعمیر کرنے کا حکم دیا جہاں انہوں نے اپنے ہمراہیوں سمیت نماز ادا کی تھی۔
یہی مسجد بعد میں مسجد اقصی کہائی کیونکہ قرآن مجید کی  سورہ بنی اسرائیل کے آغاز میں اس مقام کو مسجد اقصی کہا گیا ہے۔ اس دور میں بہت سے صحابہ نے تبلیغ اسلام اور اشاعت دین کی خاطر بیت المقدس میں اقامت اختیار کی۔ خلیفہ عبد الملک بن مروان نے مسجد اقصی میں تعمیر شروع کرائی اور خلیفہ ولید بن عبد الملک نے اس کی تعمیر مکمل کی اور اس کی تزئین و آرائش کی۔ عباسی خلیفہ ابو جعفر منصور نے بھی اس مسجد کی مرمت کرائی۔ پہلی صلیبی جنگ کے بعد جب عیسائیوں کا بیت المقدس پر قبضہ ہو گیا تو انہوں نے مسجد اقصی میں بہت رد و بدل کیا۔ انہوں نے مسجد میں رہنے کے لیے کئی کمرے بنا لیے اور اس کا نام معبد سلیمان رکھا، نیز متعدد دیگر عمارتوں کا اضافہ کیا جو بطور جائے ضرورت اور اناج کی کوٹھیوں کے استعمال ہوتی تھیں۔ انہوں نے مسجد کے اندر کے تمام نشانات سے پاک کیا اور محراب اور مسجد کو دوبارہ تعمیر کیا۔ مسجد اقصی اس ساری مسجد کا نام ہے جسے سلیمان علیہ السلام نے تعمیر کیا تھا اقصی کا نام دینے لگے ہیں، اس جگہ میں جسے عمربن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ نے تعمیر کیا تھا۔ نماز پڑھنا باقی ساری مسجد میں نماز پڑھنے سے افضل ہے۔


ﻣﺴﺠﺪ ﺍﻗﺼﯽ ﺍﺱ ﺳﺎﺭﯼ ﻣﺴﺠﺪ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﮨﮯ ﺟﺴﮯ ﺳﻠﻴﻤﺎﻥ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﻧﮯ ﺗﻌﻤﯿﺮ ﮐﯿﺎ ﺗﮭﺎ ، ﺍﻭﺭ ﺑﻌﺾ ﻟﻮﮒ ﺍﺱ ﻣﺼﻠﯽ ﯾﻌﻨﯽ ﻧﻤﺎﺯ ﭘﮍﮬﻨﮯ ﮐﯽ ﺟﮕﮧ ﮐﻮ ﺟﺴﮯ ﻋﻤﺮ ﺑﻦ ﺧﻄﺎﺏ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﻋﻨﮧ ﻧﮯ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺍﮔﻠﯽ ﺟﺎﻧﺐ ﺗﻌﻤﯿﺮ ﮐﯿﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﻗﺼﯽ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﺩﯾﻨﮯ ﻟﮕﮯ ﮨﯿﮟ ، ﺍﺱ ﺟﮕﮧ ﻣﯿﮟ ﺟﺴﮯ ﻋﻤﺮﺑﻦ ﺧﻄﺎﺏ ﺭﺿﻲ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﻋﻨﮧ ﻧﮯ ﺗﻌﻤﯿﺮ ﮐﯿﺎ ﺗﮭﺎ ﻧﻤﺎﺯﭘﮍﮬﻨﺎ ﺑﺎﻗﯽ ﺳﺎﺭﯼ ﻣﺴﺠﺪ ﻣﯿﮟ ﻧﻤﺎﺯ ﭘﮍﮬﻨﮯ ﺳﮯ ﺍﻓﻀﻞ ﮨﮯ۔ “
== ﺳﺎﻧﺤﮧ ﺑﯿﺖ ﺍﻟﻤﻘﺪﺱ ==  
== ﺳﺎﻧﺤﮧ ﺑﯿﺖ ﺍﻟﻤﻘﺪﺱ ==  
ﺳﺎﻧﺤﮧ ﺑﯿﺖ ﺍﻟﻤﻘﺪﺱ 21 ﺍﮔﺴﺖ 1969 ﺀ ﮐﻮ ﺍﯾﮏ ﺁﺳﭩﺮﯾﻠﻮﯼ ﯾﮩﻮﺩﯼ ﮈﯾﻨﺲ ﻣﺎﺋﯿﮑﻞ ﺭﻭﺣﺎﻥ ﻧﮯ ﻗﺒﻠۂ ﺍﻭﻝ ﮐﻮ ﺁﮒ ﻟﮕﺎﺩﯼ ﺟﺲ ﺳﮯ ﻣﺴﺠﺪ ﺍﻗﺼﯽٰ ﺗﯿﻦ ﮔﮭﻨﭩﮯ ﺗﮏ ﺁﮒ ﮐﯽ ﻟﭙﯿﭧ ﻣﯿﮟ ﺭﮨﯽ ﺍﻭﺭ ﺟﻨﻮﺏ ﻣﺸﺮﻗﯽ ﺟﺎﻧﺐ ﻋﯿﻦ ﻗﺒﻠﮧ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﮐﺎ ﺑﮍﺍ ﺣﺼﮧ ﮔﺮ ﭘﮍﺍ۔ ﻣﺤﺮﺍﺏ ﻣﯿﮟ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﻣﻨﺒﺮ ﺑﮭﯽ ﻧﺬﺭ ﺁﺗﺶ ﮨﻮﮔﯿﺎ ﺟﺴﮯ ﺻﻼﺡ ﺍﻟﺪﯾﻦ ﺍﯾﻮﺑﯽ ﻧﮯ ﻓﺘﺢ ﺑﯿﺖ ﺍﻟﻤﻘﺪﺱ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻧﺼﺐ ﮐﯿﺎ ﺗﮭﺎ۔ ۔ ﺻﻼﺡ ﺍﻟﺪﯾﻦ ﻧﮯ ﻗﺒﻠﮧ ﺍﻭﻝ ﮐﯽ ﺁﺯﺍﺩﯼ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺗﻘﺮﯾﺒﺎ 16 ﺟﻨﮕﯿﮟ ﻟﮍﯾﮟ ﺍﻭﺭ ﮨﺮ ﺟﻨﮓ ﮐﮯ ﺩﻭﺭﺍﻥ ﻭﮦ ﺍﺱ ﻣﻨﺒﺮ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺭﮐﮭﺘﮯ ﺗﮭﮯ ﺗﺎ ﮐﮧ ﻓﺘﺢ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺍﺱ ﮐﻮ ﻣﺴﺠﺪ ﻣﯿﮟ ﻧﺼﺐ ﮐﺮﯾﮟ ﮔﮯ۔
ﺳﺎﻧﺤﮧ ﺑﯿﺖ ﺍﻟﻤﻘﺪﺱ 21 ﺍﮔﺴﺖ 1969 ﺀ ﮐﻮ ﺍﯾﮏ ﺁﺳﭩﺮﯾﻠﻮﯼ ﯾﮩﻮﺩﯼ ﮈﯾﻨﺲ ﻣﺎﺋﯿﮑﻞ ﺭﻭﺣﺎﻥ ﻧﮯ ﻗﺒﻠۂ ﺍﻭﻝ ﮐﻮ ﺁﮒ ﻟﮕﺎﺩﯼ ﺟﺲ ﺳﮯ ﻣﺴﺠﺪ ﺍﻗﺼﯽٰ ﺗﯿﻦ ﮔﮭﻨﭩﮯ ﺗﮏ ﺁﮒ ﮐﯽ ﻟﭙﯿﭧ ﻣﯿﮟ ﺭﮨﯽ ﺍﻭﺭ ﺟﻨﻮﺏ ﻣﺸﺮﻗﯽ ﺟﺎﻧﺐ ﻋﯿﻦ ﻗﺒﻠﮧ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﮐﺎ ﺑﮍﺍ ﺣﺼﮧ ﮔﺮ ﭘﮍﺍ۔ ﻣﺤﺮﺍﺏ ﻣﯿﮟ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﻣﻨﺒﺮ ﺑﮭﯽ ﻧﺬﺭ ﺁﺗﺶ ﮨﻮﮔﯿﺎ ﺟﺴﮯ ﺻﻼﺡ ﺍﻟﺪﯾﻦ ﺍﯾﻮﺑﯽ ﻧﮯ ﻓﺘﺢ ﺑﯿﺖ ﺍﻟﻤﻘﺪﺱ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻧﺼﺐ ﮐﯿﺎ ﺗﮭﺎ۔ ۔ ﺻﻼﺡ ﺍﻟﺪﯾﻦ ﻧﮯ ﻗﺒﻠﮧ ﺍﻭﻝ ﮐﯽ ﺁﺯﺍﺩﯼ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺗﻘﺮﯾﺒﺎ 16 ﺟﻨﮕﯿﮟ ﻟﮍﯾﮟ ﺍﻭﺭ ﮨﺮ ﺟﻨﮓ ﮐﮯ ﺩﻭﺭﺍﻥ ﻭﮦ ﺍﺱ ﻣﻨﺒﺮ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺭﮐﮭﺘﮯ ﺗﮭﮯ ﺗﺎ ﮐﮧ ﻓﺘﺢ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺍﺱ ﮐﻮ ﻣﺴﺠﺪ ﻣﯿﮟ ﻧﺼﺐ ﮐﺮﯾﮟ ﮔﮯ۔