Jump to content

"بیت المقدس" کے نسخوں کے درمیان فرق

سطر 32: سطر 32:
جدید تاریخ اور یہودی قبضہ پہلی جنگ عظیم دشمبر 1917ء کے دوران انگریزوں نے بیت المقدس اور فلسطین پر قبضہ کرکے یہودیوں کو آباد ہونے کی عام اجازت دے دی۔ یہود اور نصاری کی سازش کے تحت نومبر 1947ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے دھاندلی سے کام لیتے ہوئے فلسطین اور عربوں اور یہودیوں میں تقسیم کر دیا اور جب 14 مئی 1948ء کو یہودیوں نے اسرائیل کے قیام کا اعلان کر دیا تو پہلی عرب اسرائیل جنگ چھڑ گئی۔ اس جنگ کے نتیجے میں اسرائیلی فلسطین کے 78 فیصد رقبے پر قابض ہو گئے، تاہم مشرقی یروشلم (بیت المقدس) اور غرب اردن کے علاقے اردن کے قبضے میں آگئے۔ تیسری عرب اسرائیل جنگ (جون 1967ء) میں اسرائیلوں نے بقیہ فلسطین اور بیت المقدس پر بھی تسلط جما لیا۔ یوں مسلمانوں کا قبلہ اول ہنوز یہودیوں کے قبضف میں ہے۔ یہودیوں کے بقول 70 ء کی تباہی سے ہیکل سلیمانی کی ایک دیوار کا کچہ حصہ بچا ہوا ہے جہاں دو ہزار سال سے یہودی زائرین آکر رویا کرتے تھے اسی لیے دیوار گریہ کہا جاتا ہے۔ اب یہودی مسجد اقصی کو گرا کر ہیکل تعمیر کرنے کے منصوبے بناتے رہتے ہیں۔ اسرائیل نے بیت المقدس کو اپنا دار الحکومت بھی بنا رکھا ہے۔
جدید تاریخ اور یہودی قبضہ پہلی جنگ عظیم دشمبر 1917ء کے دوران انگریزوں نے بیت المقدس اور فلسطین پر قبضہ کرکے یہودیوں کو آباد ہونے کی عام اجازت دے دی۔ یہود اور نصاری کی سازش کے تحت نومبر 1947ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے دھاندلی سے کام لیتے ہوئے فلسطین اور عربوں اور یہودیوں میں تقسیم کر دیا اور جب 14 مئی 1948ء کو یہودیوں نے اسرائیل کے قیام کا اعلان کر دیا تو پہلی عرب اسرائیل جنگ چھڑ گئی۔ اس جنگ کے نتیجے میں اسرائیلی فلسطین کے 78 فیصد رقبے پر قابض ہو گئے، تاہم مشرقی یروشلم (بیت المقدس) اور غرب اردن کے علاقے اردن کے قبضے میں آگئے۔ تیسری عرب اسرائیل جنگ (جون 1967ء) میں اسرائیلوں نے بقیہ فلسطین اور بیت المقدس پر بھی تسلط جما لیا۔ یوں مسلمانوں کا قبلہ اول ہنوز یہودیوں کے قبضف میں ہے۔ یہودیوں کے بقول 70 ء کی تباہی سے ہیکل سلیمانی کی ایک دیوار کا کچہ حصہ بچا ہوا ہے جہاں دو ہزار سال سے یہودی زائرین آکر رویا کرتے تھے اسی لیے دیوار گریہ کہا جاتا ہے۔ اب یہودی مسجد اقصی کو گرا کر ہیکل تعمیر کرنے کے منصوبے بناتے رہتے ہیں۔ اسرائیل نے بیت المقدس کو اپنا دار الحکومت بھی بنا رکھا ہے۔


== معراج ﺣﻀﺮﺕ ﻣﺤﻤﺪ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭ ﺁﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ ==
== معراج حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ==
ﺣﻀﺮﺕ ﻣﺤﻤﺪ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭ ﺁﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﺳﻔﺮ ﻣﻌﺮﺍﺝ ﮐﮯ ﺩﻭﺭﺍﻥ ﻣﺴﺠﺪ ﺣﺮﺍﻡ ﺳﮯ ﯾﮩﺎﮞ ﭘﮩﻨﭽﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﺴﺠﺪ ﺍﻗﺼﯽٰ ﻣﯿﮟ ﺗﻤﺎﻡ ﺍﻧﺒﯿﺎﺀ ﮐﯽ ﻧﻤﺎﺯ ﮐﯽ ﺍﻣﺎﻣﺖ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺑﺮﺍﻕ ﮐﮯ ﺫﺭﯾﻌﮯ ﺳﺎﺕ ﺁﺳﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﮯ ﺳﻔﺮ ﭘﺮ ﺭﻭﺍﻧﮧ ﮨﻮﺋﮯ۔
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سفر معراج کے دوران مسجد حرام سے یہاں پہنچے تھے اور مسجد اقصی میں تمام انبیاء کی نماز کی امامت کرنے کے بعد براق کے ذریعے سات آسموں کے سفر پر روانہ ہوئے۔ﻣﺴﺠﺪ ﺍﻗﺼﯽٰ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﺎ ﻗﺒﻠۂ ﺍﻭﻝ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﻌﺮﺍﺝ ﻣﯿﮟ ﻧﻤﺎﺯ ﮐﯽ ﻓﺮﺿﯿﺖ 16 ﺳﮯ 17 ﻣﺎﮦ ﺗﮏ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﻣﺴﺠﺪ ﺍﻗﺼٰﯽ ﮐﯽ ﺟﺎﻧﺐ ﺭﺥ ﮐﺮﮐﮯ ﮨﯽ ﻧﻤﺎﺯ ﺍﺩﺍ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﭘﮭﺮ ﺗﺤﻮﯾﻞ ﻗﺒﻠﮧ ﮐﺎ ﺣﮑﻢ ﺁﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﺎ ﻗﺒﻠﮧ ﺧﺎﻧﮧ ﮐﻌﺒﮧ ﮨﻮﮔﯿﺎ۔
ﻣﺴﺠﺪ ﺍﻗﺼﯽٰ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﺎ ﻗﺒﻠۂ ﺍﻭﻝ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﻌﺮﺍﺝ ﻣﯿﮟ ﻧﻤﺎﺯ ﮐﯽ ﻓﺮﺿﯿﺖ 16 ﺳﮯ 17 ﻣﺎﮦ ﺗﮏ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﻣﺴﺠﺪ ﺍﻗﺼٰﯽ ﮐﯽ ﺟﺎﻧﺐ ﺭﺥ ﮐﺮﮐﮯ ﮨﯽ ﻧﻤﺎﺯ ﺍﺩﺍ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﭘﮭﺮ ﺗﺤﻮﯾﻞ ﻗﺒﻠﮧ ﮐﺎ ﺣﮑﻢ ﺁﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﺎ ﻗﺒﻠﮧ ﺧﺎﻧﮧ ﮐﻌﺒﮧ ﮨﻮﮔﯿﺎ۔
 
== ﻣﺴﻠﻢ ﺗﻌﻤﯿﺮﺍﺕ ==
== ﻣﺴﻠﻢ ﺗﻌﻤﯿﺮﺍﺕ ==
ﻣﺴﻠﻢ ﺗﻌﻤﯿﺮﺍﺕ ﺟﺐ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﻓﺎﺭﻭﻕ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﮐﮯ ﺩﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﻧﮯ ﺑﯿﺖ ﺍﻟﻤﻘﺪﺱ ﻓﺘﺢ ﮐﯿﺎ ﺗﻮ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﻧﮯ ﺷﮩﺮ ﺳﮯ ﺭﻭﺍﻧﮕﯽ ﮐﮯ ﻭﻗﺖ ﺻﺨﺮﮦ ﺍﻭﺭ ﺑﺮﺍﻕ ﺑﺎﻧﺪﮬﻨﮯ ﮐﯽ ﺟﮕﮧ ﮐﮯ ﻗﺮﯾﺐ ﻣﺴﺠﺪ ﺗﻌﻤﯿﺮ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﺎ ﺣﮑﻢ ﺩﯾﺎ ﺟﮩﺎﮞ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﮨﻤﺮﺍﮨﯿﻮﮞ ﺳﻤﯿﺖ ﻧﻤﺎﺯ ﺍﺩﺍ ﮐﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﯾﮩﯽ ﻣﺴﺠﺪ ﺑﻌﺪ ﻣﯿﮟ ﻣﺴﺠﺪ ﺍﻗﺼٰﯽ ﮐﮩﻼﺋﯽ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﻗﺮﺁﻥ ﻣﺠﯿﺪ ﮐﯽ ﺳﻮﺭﮦ ﺑﻨﯽ ﺍﺳﺮﺍﺋﯿﻞ ﮐﮯ ﺁﻏﺎﺯ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﻣﻘﺎﻡ ﮐﻮ ﻣﺴﺠﺪ ﺍﻗﺼٰﯽ ﮐﮩﺎ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ۔ ﺍﺱ ﺩﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﺑﮩﺖ ﺳﮯ ﺻﺤﺎﺑﮧ ﻧﮯ ﺗﺒﻠﯿﻎ ﺍﺳﻼﻡ ﺍﻭﺭ ﺍﺷﺎﻋﺖ ﺩﯾﻦ ﮐﯽ ﺧﺎﻃﺮ ﺑﯿﺖ ﺍﻟﻤﻘﺪﺱ ﻣﯿﮟ ﺍﻗﺎﻣﺖ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭ ﮐﯽ۔ ﺧﻠﯿﻔﮧ ﻋﺒﺪ ﺍﻟﻤﻠﮏ ﺑﻦ ﻣﺮﻭﺍﻥ ﻧﮯ ﻣﺴﺠﺪ ﺍﻗﺼٰﯽ ﮐﯽ ﺗﻌﻤﯿﺮ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮﺍﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﺧﻠﯿﻔﮧ ﻭﻟﯿﺪ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ ﺍﻟﻤﻠﮏ ﻧﮯ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺗﻌﻤﯿﺮ ﻣﮑﻤﻞ ﮐﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺗﺰﺋﯿﻦ ﻭ ﺁﺭﺍﺋﺶ ﮐﯽ۔ ﻋﺒﺎﺳﯽ ﺧﻠﯿﻔﮧ ﺍﺑﻮ ﺟﻌﻔﺮ ﻣﻨﺼﻮﺭ ﻧﮯ ﺑﮭﯽ ﺍﺱ ﻣﺴﺠﺪ ﮐﯽ ﻣﺮﻣﺖ ﮐﺮﺍﺋﯽ۔ ﭘﮩﻠﯽ ﺻﻠﯿﺒﯽ ﺟﻨﮓ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺟﺐ ﻋﯿﺴﺎﺋﯿﻮﮞ ﮐﺎ ﺑﯿﺖ ﺍﻟﻤﻘﺪﺱ ﭘﺮ ﻗﺒﻀﮧ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ ﺗﻮ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﻣﺴﺠﺪ ﺍﻗﺼٰﯽ ﻣﯿﮟ ﺑﮩﺖ ﺭﺩ ﻭ ﺑﺪﻝ ﮐﯿﺎ۔ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﻣﺴﺠﺪ ﻣﯿﮟ ﺭﮨﻨﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﮐﺌﯽ ﮐﻤﺮﮮ ﺑﻨﺎ ﻟﯿﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﻣﻌﺒﺪ ﺳﻠﯿﻤﺎﻥ ﺭﮐﮭﺎ، ﻧﯿﺰ ﻣﺘﻌﺪﺩ ﺩﯾﮕﺮ ﻋﻤﺎﺭﺗﻮﮞ ﮐﺎ ﺍﺿﺎﻓﮧ ﮐﯿﺎ ﺟﻮ ﺑﻄﻮﺭ ﺟﺎﺋﮯ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﺍﻭﺭ ﺍﻧﺎﺝ ﮐﯽ ﮐﻮﭨﮭﯿﻮﮞ ﮐﮯ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﮨﻮﺗﯽ ﺗﮭﯿﮟ۔ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﻣﺴﺠﺪ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﺍﻭﺭ ﻣﺴﺠﺪ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺳﺎﺗﮫ ﮔﺮﺟﺎ ﺑﮭﯽ ﺑﻨﺎ ﻟﯿﺎ۔ ﺳﻠﻄﺎﻥ ﺻﻼﺡ ﺍﻟﺪﯾﻦ ﺍﯾﻮﺑﯽ ﻧﮯ 1187 ﺀ ﻣﯿﮟ ﻓﺘﺢ ﺑﯿﺖ ﺍﻟﻤﻘﺪﺱ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻣﺴﺠﺪ ﺍﻗﺼٰﯽ ﮐﻮ ﻋﯿﺴﺎﺋﯿﻮﮞ ﮐﮯ ﺗﻤﺎﻡ ﻧﺸﺎﻧﺎﺕ ﺳﮯ ﭘﺎﮎ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﻣﺤﺮﺍﺏ ﺍﻭﺭ ﻣﺴﺠﺪ ﮐﻮ ﺩﻭﺑﺎﺭﮦ ﺗﻌﻤﯿﺮ ﮐﯿﺎ۔
ﻣﺴﻠﻢ ﺗﻌﻤﯿﺮﺍﺕ ﺟﺐ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﻓﺎﺭﻭﻕ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﮐﮯ ﺩﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﻧﮯ ﺑﯿﺖ ﺍﻟﻤﻘﺪﺱ ﻓﺘﺢ ﮐﯿﺎ ﺗﻮ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﻧﮯ ﺷﮩﺮ ﺳﮯ ﺭﻭﺍﻧﮕﯽ ﮐﮯ ﻭﻗﺖ ﺻﺨﺮﮦ ﺍﻭﺭ ﺑﺮﺍﻕ ﺑﺎﻧﺪﮬﻨﮯ ﮐﯽ ﺟﮕﮧ ﮐﮯ ﻗﺮﯾﺐ ﻣﺴﺠﺪ ﺗﻌﻤﯿﺮ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﺎ ﺣﮑﻢ ﺩﯾﺎ ﺟﮩﺎﮞ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﮨﻤﺮﺍﮨﯿﻮﮞ ﺳﻤﯿﺖ ﻧﻤﺎﺯ ﺍﺩﺍ ﮐﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﯾﮩﯽ ﻣﺴﺠﺪ ﺑﻌﺪ ﻣﯿﮟ ﻣﺴﺠﺪ ﺍﻗﺼٰﯽ ﮐﮩﻼﺋﯽ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﻗﺮﺁﻥ ﻣﺠﯿﺪ ﮐﯽ ﺳﻮﺭﮦ ﺑﻨﯽ ﺍﺳﺮﺍﺋﯿﻞ ﮐﮯ ﺁﻏﺎﺯ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﻣﻘﺎﻡ ﮐﻮ ﻣﺴﺠﺪ ﺍﻗﺼٰﯽ ﮐﮩﺎ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ۔ ﺍﺱ ﺩﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﺑﮩﺖ ﺳﮯ ﺻﺤﺎﺑﮧ ﻧﮯ ﺗﺒﻠﯿﻎ ﺍﺳﻼﻡ ﺍﻭﺭ ﺍﺷﺎﻋﺖ ﺩﯾﻦ ﮐﯽ ﺧﺎﻃﺮ ﺑﯿﺖ ﺍﻟﻤﻘﺪﺱ ﻣﯿﮟ ﺍﻗﺎﻣﺖ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭ ﮐﯽ۔ ﺧﻠﯿﻔﮧ ﻋﺒﺪ ﺍﻟﻤﻠﮏ ﺑﻦ ﻣﺮﻭﺍﻥ ﻧﮯ ﻣﺴﺠﺪ ﺍﻗﺼٰﯽ ﮐﯽ ﺗﻌﻤﯿﺮ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮﺍﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﺧﻠﯿﻔﮧ ﻭﻟﯿﺪ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ ﺍﻟﻤﻠﮏ ﻧﮯ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺗﻌﻤﯿﺮ ﻣﮑﻤﻞ ﮐﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺗﺰﺋﯿﻦ ﻭ ﺁﺭﺍﺋﺶ ﮐﯽ۔ ﻋﺒﺎﺳﯽ ﺧﻠﯿﻔﮧ ﺍﺑﻮ ﺟﻌﻔﺮ ﻣﻨﺼﻮﺭ ﻧﮯ ﺑﮭﯽ ﺍﺱ ﻣﺴﺠﺪ ﮐﯽ ﻣﺮﻣﺖ ﮐﺮﺍﺋﯽ۔ ﭘﮩﻠﯽ ﺻﻠﯿﺒﯽ ﺟﻨﮓ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺟﺐ ﻋﯿﺴﺎﺋﯿﻮﮞ ﮐﺎ ﺑﯿﺖ ﺍﻟﻤﻘﺪﺱ ﭘﺮ ﻗﺒﻀﮧ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ ﺗﻮ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﻣﺴﺠﺪ ﺍﻗﺼٰﯽ ﻣﯿﮟ ﺑﮩﺖ ﺭﺩ ﻭ ﺑﺪﻝ ﮐﯿﺎ۔ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﻣﺴﺠﺪ ﻣﯿﮟ ﺭﮨﻨﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﮐﺌﯽ ﮐﻤﺮﮮ ﺑﻨﺎ ﻟﯿﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﻣﻌﺒﺪ ﺳﻠﯿﻤﺎﻥ ﺭﮐﮭﺎ، ﻧﯿﺰ ﻣﺘﻌﺪﺩ ﺩﯾﮕﺮ ﻋﻤﺎﺭﺗﻮﮞ ﮐﺎ ﺍﺿﺎﻓﮧ ﮐﯿﺎ ﺟﻮ ﺑﻄﻮﺭ ﺟﺎﺋﮯ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﺍﻭﺭ ﺍﻧﺎﺝ ﮐﯽ ﮐﻮﭨﮭﯿﻮﮞ ﮐﮯ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﮨﻮﺗﯽ ﺗﮭﯿﮟ۔ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﻣﺴﺠﺪ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﺍﻭﺭ ﻣﺴﺠﺪ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺳﺎﺗﮫ ﮔﺮﺟﺎ ﺑﮭﯽ ﺑﻨﺎ ﻟﯿﺎ۔ ﺳﻠﻄﺎﻥ ﺻﻼﺡ ﺍﻟﺪﯾﻦ ﺍﯾﻮﺑﯽ ﻧﮯ 1187 ﺀ ﻣﯿﮟ ﻓﺘﺢ ﺑﯿﺖ ﺍﻟﻤﻘﺪﺱ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻣﺴﺠﺪ ﺍﻗﺼٰﯽ ﮐﻮ ﻋﯿﺴﺎﺋﯿﻮﮞ ﮐﮯ ﺗﻤﺎﻡ ﻧﺸﺎﻧﺎﺕ ﺳﮯ ﭘﺎﮎ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﻣﺤﺮﺍﺏ ﺍﻭﺭ ﻣﺴﺠﺪ ﮐﻮ ﺩﻭﺑﺎﺭﮦ ﺗﻌﻤﯿﺮ ﮐﯿﺎ۔
confirmed
2,798

ترامیم