confirmed
821
ترامیم
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں ٹیگ: بصری ترمیم موبائل ترمیم موبائل ویب ترمیم |
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں ٹیگ: بصری ترمیم موبائل ترمیم موبائل ویب ترمیم |
||
سطر 43: | سطر 43: | ||
</ref>۔ | </ref>۔ | ||
== اسلام آباد میں دینی مدرسے کا قیام == | == اسلام آباد میں دینی مدرسے کا قیام == | ||
جب وہ پاکستان تشریف لائے تو انھیں اسلام آباد میں ایک مؤثر دینی ادارے کے قیام کی ضرورت شدت سے محسوس ہوئی۔ اس وقت ایسا کوئی دینی ادارہ بطور آئیڈئل ان کے ذہن میں نہیں تھا کہ وہ اسے سامنے رکھ کر کام کر | جب وہ پاکستان تشریف لائے تو انھیں اسلام آباد میں ایک مؤثر دینی ادارے کے قیام کی ضرورت شدت سے محسوس ہوئی۔ اس وقت ایسا کوئی دینی ادارہ بطور آئیڈئل ان کے ذہن میں نہیں تھا کہ وہ اسے سامنے رکھ کر کام کر سکتے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ان کی حالت دوسروں سے بالکل مختلف تھی۔ مثلاً مولانا [[صفدر حسین صاحب]] نے لاہور میں کام کیا تو جامعۃ المنتظر میں وہ برسوں سے پڑھا رہے تھے اور جامعۃ المنتظر ایک مضبوط ادارے کے طور پر پہلے سے قائم تھا یعنی اس کے لیے وسائل موجود تھے اور وہاں پڑھنے والے خود بھی مدرس بنے اور وہ آگے بڑھے۔ وہاں ان کی جان پہچان کا ماحول تھا جبکہ آپ کا حال ایسا نہیں تھا۔ وہ یہاں پر قطعی اجنبی تھے اور یہ تو سبھی جانتےتھے کہ وہ اس علاقے کے بھی نہیں ہیں اور ان کے علاقے کے جو لوگ انھیں جاننے والے تھے وہ مالی اعتبار سے آسودہ نہ تھے لہذا سوائے خدا کے انھیں کسی کا کوئی آسرا نہ تھا ۔پس ان کی یہ حالت لمبے عرصے تک رہی یہاں تک کہ خدا کے فضل و کرم سے وہ اسلام آباد میں دینی ادارہ قائم کرنے میں کامیاب ہوئے۔ | ||
== عالم بے سرو سامانی میں آغاز کارِ خیر == | == عالم بے سرو سامانی میں آغاز کارِ خیر == | ||
آپ کو وہ دن نہیں بھولے کہ جب اسلام آباد میں مدرسے کے لیے جگہ تو الاٹ ہو گئی تھی لیکن اس خالی جگہ پر اس وقت کوئی قابل ذکر عمارت وغیرہ نہیں تھی، ایسے میں آپ نے اسی ویرانے میں ایک چھپر ڈالا اور چند طالب علموں کو لے کر بیٹھ گئے یوں سمجھئے کہ انتہائی بے سروسامانی کے عالم میں انھوں نے طلباء کو پڑھانا شروع کیا ایسے میں عراق سے ایک صاحب ان کا پتہ پوچھتے پوچھتے ان تک پہنچ گئے جبکہ وہ انہیں پہچانتے تک نہ تھے وہ اس وقت ان کا حال دیکھ کر بہت ناراض ہوئے اور کہنے لگے کہ بھلا اس بے سروسامانی کے عالم میں مدرسہ بنانے کی کیا پڑی تھی؟ علامہ صاحب نے کہا کہ یقیناً یہ بے سرو سامانی باعث ندامت ہے لیکن ہمیں اسی ندامت کے ساتھ کام کرنا ہے اس لیے کہ ہمیں یہ کام تو بہرحال کرنا ہے چاہے وسائل ہوں یا نہ ہوں۔ آج بھی آپ اپنے ارادت مندوں سے اکثر یہی فرماتے ہیں کہ جب انسان کرنے پر آتا ہے تو اس کے لیے سب کچھ ممکن ہو جاتا ہے البتہ ان کا قطعاً دعویٰ نہیں کہ اب بھی انھوں نے کچھ کیا ہے بلکہ ان کی یہ حسرت ہے کہ کاش انھوں نے کچھ کیا ہوتا <ref>حجۃ الاسلام والمسلمین علامہ شیخ محسن علی نجفی دام عزہ، [https://mohsinalinajafi.com/?page_id=8 mohsinalinajafi.com] | آپ کو وہ دن نہیں بھولے کہ جب اسلام آباد میں مدرسے کے لیے جگہ تو الاٹ ہو گئی تھی لیکن اس خالی جگہ پر اس وقت کوئی قابل ذکر عمارت وغیرہ نہیں تھی، ایسے میں آپ نے اسی ویرانے میں ایک چھپر ڈالا اور چند طالب علموں کو لے کر بیٹھ گئے یوں سمجھئے کہ انتہائی بے سروسامانی کے عالم میں انھوں نے طلباء کو پڑھانا شروع کیا ایسے میں عراق سے ایک صاحب ان کا پتہ پوچھتے پوچھتے ان تک پہنچ گئے جبکہ وہ انہیں پہچانتے تک نہ تھے وہ اس وقت ان کا حال دیکھ کر بہت ناراض ہوئے اور کہنے لگے کہ بھلا اس بے سروسامانی کے عالم میں مدرسہ بنانے کی کیا پڑی تھی؟ علامہ صاحب نے کہا کہ یقیناً یہ بے سرو سامانی باعث ندامت ہے لیکن ہمیں اسی ندامت کے ساتھ کام کرنا ہے اس لیے کہ ہمیں یہ کام تو بہرحال کرنا ہے چاہے وسائل ہوں یا نہ ہوں۔ آج بھی آپ اپنے ارادت مندوں سے اکثر یہی فرماتے ہیں کہ جب انسان کرنے پر آتا ہے تو اس کے لیے سب کچھ ممکن ہو جاتا ہے البتہ ان کا قطعاً دعویٰ نہیں کہ اب بھی انھوں نے کچھ کیا ہے بلکہ ان کی یہ حسرت ہے کہ کاش انھوں نے کچھ کیا ہوتا <ref>حجۃ الاسلام والمسلمین علامہ شیخ محسن علی نجفی دام عزہ، [https://mohsinalinajafi.com/?page_id=8 mohsinalinajafi.com] |