confirmed
821
ترامیم
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
||
سطر 1: | سطر 1: | ||
[[فائل:جمعیت علمای هند.jpg|تصغیر|بائیں|جمعیۃ علماء ہند]] | [[فائل:جمعیت علمای هند.jpg|تصغیر|بائیں|جمعیۃ علماء ہند]] | ||
'''جمعیۃ علماء ہند''' بھارتی مسلمانوں کی ایک متحرک و فعال تنظیم ہے، جس میں دیوبندی مکتب فکر سے تعلق رکھنے علماء عمومی طور پر زیادہ فعال ہیں۔ نومبر 1919ء میں اس کی بنیاد عبد الباری فرنگی محلی، ابو المحاسن محمد سجاد کفایت اللہ دہلوی، عبد القادر بدایونی، سلامت اللہ فرنگی | '''جمعیۃ علماء ہند''' بھارتی مسلمانوں کی ایک متحرک و فعال تنظیم ہے، جس میں دیوبندی مکتب فکر سے تعلق رکھنے علماء عمومی طور پر زیادہ فعال ہیں۔ نومبر 1919ء میں اس کی بنیاد عبد الباری فرنگی محلی، ابو المحاسن محمد سجاد کفایت اللہ دہلوی، عبد القادر بدایونی، سلامت اللہ فرنگی محلی، انیس نگرامی، [[احمد سعید دہلوی]]، ابراہیم دربھنگوی، محمد اکرام خان کلکتوی، [[محمد ابراہیم میر سیالکوٹی]] اور ثناء اللہ امرتسری سمیت علمائے کرام کی ایک جماعت نے رکھی تھی۔ جمعیۃ نے انڈین نیشنل کانگریس کے ساتھ مل کر تحریک خلافت میں نمایاں کردار ادا کیا تھا۔ اس نے متحدہ قومیت کا موقف اختیار کرتے ہوئے تقسیم ہند کی مخالفت کی کہ [[مسلمان]] اور غیر مسلم ایک ہی قوم کی تشکیل کرتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں اس تنظیم کا ایک مختصر حصہ جمعیۃ علماء اسلام کے نام سے علاحدہ ہو گیا، جس نے [[تحریک پاکستان]] کی حمایت کرنے کا فیصلہ کیا۔ جمعیۃ کے آئین کا مسودہ کفایت اللہ دہلوی نے تیار کیا تھا۔ 2021ء تک یہ بھارت کی متعدد ریاستوں میں پھیل چکی ہے اور اس نے ادارہ مباحث فقہیہ، جمعیۃ علما لیگل سیل، جمعیۃ نیشنل اوپن اسکول، جمعیۃ علماء ہند حلال ٹرسٹ اور جمعیۃ یوتھ کلب جیسے ادارے اور شعبےقائم کیے۔ سید ارشد مدنی اپنے بھائی [[سید اسعد مدنی]] کے بعد فروری 2006ء میں صدر منتخب کیے گئے، تاہم یہ تنظیم مارچ 2008ء میں حلقۂ ارشد اور حلقۂ محمود میں تقسیم ہوگئی۔ عثمان منصورپوری حلقۂ میم کے صدر بنائے گئے اور تا وفات یعنی مئی 2021ء تک اس عہدے پر فائز رہے۔ ان کے بعد [[محمود مدنی]] عبوری صدر، پھر مستقل صدر بنائے گئے۔ [[سید ارشد مدنی]] حلقۂ الف کے صدر کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں۔ | ||
== آغاز اور ترقی == | == آغاز اور ترقی == | ||
23 نومبر 1919ء کو تحریک خلافت کمیٹی نے دہلی میں اپنی پہلی کانفرنس منعقد کی، جس میں بھارت بھر سے مسلم علماء نے شرکت کی۔ <ref>میاں دیوبندی، محمد. علمائے حق اور ان کے مجاہدانہ کارنامے. 1. دیوبند: فیصل پبلیکیشنز. صفحہ 140.</ref> اس کے بعد ان میں سے پچیس مسلم علما کی ایک جماعت نے دہلی کے کرشنا تھیٹر ہال میں ایک الگ کانفرنس منعقد کی اور اس میں جمعیۃ علماء ہند کی تشکیل دی۔ ان علما میں عبدالباری فرنگی محلی، احمد سعید دہلوی، [[کفایت اللہ دہلوی]]، [[منیر الزماں خان]]، [[محمد اکرم خان]]، [[محمد ابراہیم میر سیالکوٹی]] اور ثناء اللہ امرتسری شامل تھے. <ref>واصف دہلوی 1970، ص: 45</ref> | 23 نومبر 1919ء کو تحریک خلافت کمیٹی نے دہلی میں اپنی پہلی کانفرنس منعقد کی، جس میں بھارت بھر سے مسلم علماء نے شرکت کی۔ <ref>میاں دیوبندی، محمد. علمائے حق اور ان کے مجاہدانہ کارنامے. 1. دیوبند: فیصل پبلیکیشنز. صفحہ 140.</ref> اس کے بعد ان میں سے پچیس مسلم علما کی ایک جماعت نے دہلی کے کرشنا تھیٹر ہال میں ایک الگ کانفرنس منعقد کی اور اس میں جمعیۃ علماء ہند کی تشکیل دی۔ ان علما میں عبدالباری فرنگی محلی، احمد سعید دہلوی، [[کفایت اللہ دہلوی]]، [[منیر الزماں خان]]، [[محمد اکرم خان]]، [[محمد ابراہیم میر سیالکوٹی]] اور ثناء اللہ امرتسری شامل تھے. <ref>واصف دہلوی 1970، ص: 45</ref> | ||
سطر 6: | سطر 6: | ||
جمعیۃ علماء ہند کا پہلا عام اجلاس امرتسر میں [[ثناء اللہ امرتسری]] کی درخواست پر 28 دسمبر 1919ء کو منعقد ہوا، جس میں کفایت اللہ دہلوی نے جمعیت کے آئین کا مسودہ پیش کیا۔ ابو المحاسن محمد سجاد اور مظہر الدین کا نام بھی بانیوں میں آتا ہے۔ ایک عام غلط فہمی یہ ہے کہ جمعیۃ کی بنیاد [[محمود حسن دیوبندی]] اور [[حسین احمد مدنی]] سمیت ان کے دیگر ساتھیوں نے رکھی تھی، تاہم یہ درست نہیں ہے؛ کیوں کہ جس وقت تنظیم کی بنیاد رکھی گئی تھی یہ حضرات اس وقت مالٹا کی جیل میں قید تھے <ref>واصف دہلوی 1970، ص: 69</ref>۔ | جمعیۃ علماء ہند کا پہلا عام اجلاس امرتسر میں [[ثناء اللہ امرتسری]] کی درخواست پر 28 دسمبر 1919ء کو منعقد ہوا، جس میں کفایت اللہ دہلوی نے جمعیت کے آئین کا مسودہ پیش کیا۔ ابو المحاسن محمد سجاد اور مظہر الدین کا نام بھی بانیوں میں آتا ہے۔ ایک عام غلط فہمی یہ ہے کہ جمعیۃ کی بنیاد [[محمود حسن دیوبندی]] اور [[حسین احمد مدنی]] سمیت ان کے دیگر ساتھیوں نے رکھی تھی، تاہم یہ درست نہیں ہے؛ کیوں کہ جس وقت تنظیم کی بنیاد رکھی گئی تھی یہ حضرات اس وقت مالٹا کی جیل میں قید تھے <ref>واصف دہلوی 1970، ص: 69</ref>۔ | ||
== بنیاد == | == بنیاد == | ||
جب بنیاد رکھی گئی تو کفایت اللہ دہلوی کو عبوری صدر اور احمد سعید دہلوی کو عبوری ناظم عمومی بنایا گیا۔ جمعیۃ نے امرتسر میں منعقدہ اجلاسِ عام میں اپنی پہلی مجلس منتظمہ تشکیل دی تھی۔ جمعیۃ کا دوسرا اجلاسِ عام نومبر 1920ء کو دہلی میں منعقد ہوا تھا، جس میں محمود حسن دیوبندی کو صدر اور کفایت اللہ دہلوی کو نائب صدر منتخب کیا گیا تھا۔ چند دنوں کے بعد (30 نومبر کو) محمود حسن دیوبندی کا انتقال ہو گیا اور کفایت اللہ دہلوی بیک وقت نائب صدر اور عبوری صدر دونوں حیثیت سے خدمات انجام دیتے رہے؛ یہاں تک کہ 6 ستمبر 1921ء کو انھیں جمعیۃ کا مستقل صدر بنایا گیا۔ جس اجتماع میں جمعیۃ کی تاسیس عمل میں آئی تھی، | جب بنیاد رکھی گئی تو کفایت اللہ دہلوی کو عبوری صدر اور احمد سعید دہلوی کو عبوری ناظم عمومی بنایا گیا۔ جمعیۃ نے امرتسر میں منعقدہ اجلاسِ عام میں اپنی پہلی مجلس منتظمہ تشکیل دی تھی۔ جمعیۃ کا دوسرا اجلاسِ عام نومبر 1920ء کو دہلی میں منعقد ہوا تھا، جس میں محمود حسن دیوبندی کو صدر اور کفایت اللہ دہلوی کو نائب صدر منتخب کیا گیا تھا۔ چند دنوں کے بعد (30 نومبر کو) محمود حسن دیوبندی کا انتقال ہو گیا اور کفایت اللہ دہلوی بیک وقت نائب صدر اور عبوری صدر دونوں حیثیت سے خدمات انجام دیتے رہے؛ یہاں تک کہ 6 ستمبر 1921ء کو انھیں جمعیۃ کا مستقل صدر بنایا گیا۔ جس اجتماع میں جمعیۃ کی تاسیس عمل میں آئی تھی، وہاں محمود حسن دیوبندی موجود نہیں تھے؛ بلکہ اسیر مالٹا تھے اور اس وقت [[دار العلوم دیوبند]] کی کوئی دیگر شخصیت بھی جمعیۃ سے وابستہ نہ تھی۔ اب یہ علمائے دیوبند سے تعلق رکھنے والی ایک بڑی تنظیم سمجھی جاتی ہے <ref>واصف دہلوی 1970، ص: 47-49</ref>۔ | ||
=== نظم و نسق === | === نظم و نسق === | ||
جمعیۃ کے ابتدائی اصول اور آئین کفایت اللہ دہلوی نے لکھے تھے۔ جمعیۃ کے امرتسر میں منعقدہ اجلاسِ عام میں یہ طے پایا تھا کہ ان کو شائع کرکے علماء کی ایک جماعت کی آراء جمع کی جائے اور پھر اس پر اگلے اجلاس میں دوبارہ بحث کی جائے۔ محمود حسن دیوبندی کے زیر صدارت دہلی میں منعقد جمعیت کے دوسرے اجلاس میں اصول و قوانین کی توثیق کی گئی۔ وہاں یہ طے پایا کہ اس تنظیم کو "جمعیۃ علمائے ہند" کہا جائے گا، اس کا صدر دفتر دہلی میں ہوگا اور اس کی مہر پر "الجماعۃ المرکزیۃ لعلماء الھند" ("علمائے ہند کی مرکزی کونسل") لکھا ہوا ہوگا۔ اس کا مقصد کسی بھی بیرونی یا اجنبی خطرے سے دفاع اسلام کرنا؛ سیاست میں اسلامی اصولوں کے ذریعہ عام لوگوں کی رہنمائی کرنا اور ایک اسلامی عدالت: دار القضا قائم کرنا تھا <ref>واصف دہلوی 1970، ص: 56</ref>۔ | جمعیۃ کے ابتدائی اصول اور آئین کفایت اللہ دہلوی نے لکھے تھے۔ جمعیۃ کے امرتسر میں منعقدہ اجلاسِ عام میں یہ طے پایا تھا کہ ان کو شائع کرکے علماء کی ایک جماعت کی آراء جمع کی جائے اور پھر اس پر اگلے اجلاس میں دوبارہ بحث کی جائے۔ محمود حسن دیوبندی کے زیر صدارت دہلی میں منعقد جمعیت کے دوسرے اجلاس میں اصول و قوانین کی توثیق کی گئی۔ وہاں یہ طے پایا کہ اس تنظیم کو "جمعیۃ علمائے ہند" کہا جائے گا، اس کا صدر دفتر دہلی میں ہوگا اور اس کی مہر پر "الجماعۃ المرکزیۃ لعلماء الھند" ("علمائے ہند کی مرکزی کونسل") لکھا ہوا ہوگا۔ اس کا مقصد کسی بھی بیرونی یا اجنبی خطرے سے دفاع اسلام کرنا؛ سیاست میں اسلامی اصولوں کے ذریعہ عام لوگوں کی رہنمائی کرنا اور ایک اسلامی عدالت: دار القضا قائم کرنا تھا <ref>واصف دہلوی 1970، ص: 56</ref>۔ | ||
پہلی ورکنگ کمیٹی 9 اور 10 فروری 1922ء کو دہلی میں تشکیل دی گئی۔ | پہلی ورکنگ کمیٹی 9 اور 10 فروری 1922ء کو دہلی میں تشکیل دی گئی۔ جوان نو افراد پر مشتمل تھی: عبد الحلیم صدیقی، عبد المجید قادری بدایونی، عبد القادر قصوری، احمد اللہ پانی پتی، حکیم اجمل خان، حسرت موہانی، کفایت اللہ دہلوی، مظہر الدین اور شبیر احمد عثمانی۔ مارچ 1922ء میں یہ تعداد بڑھا کر بارہ کردی گئی اور عبدالقدیر بدایونی، آزاد سبحانی اور ابراہیم سیالکوٹی کو ورکنگ کمیٹی ممبران میں شامل کیا گیا۔ مرتضی حسن چاند پوری اور نثار احمد کانپوری 15 جنوری 1925ء کو جمعیۃ کے نائب صدور منتخب کیے گئے۔ | ||
== تحریک آزادی == | == تحریک آزادی == | ||
8 ستمبر 1920ء کو جمعیۃ نے ایک مذہبی فتوٰی جاری کیا، جسے | 8 ستمبر 1920ء کو جمعیۃ نے ایک مذہبی فتوٰی جاری کیا، جسے فتوائے ترکِ موالات کہا جاتا ہے، جس کے ذریعے برطانوی سامان کا بائیکاٹ کیا گیا۔ یہ فتوی ابو المحاسن محمد سجاد نے دیا تھا، جس پر 500 علما کے دستخط تھے۔ برطانوی راج کے دوران میں جمعیۃ نے بھارت میں برطانوی راج کی مخالفت کی اور ہندوستان چھوڑ دو تحریک میں حصہ لیا۔ 1919ء میں اپنے قیام کے بعد سے جمعیۃ کا مقصد انگریزوں سے آزاد - ہندوستان تھا۔ اس نے سول نافرمانی کی تحریک کے دوران میں "ادارہ حربیہ" کے نام سے ایک ادارہ تشکیل دیا <ref>منصورپوری 2014، ص: 189</ref> | ||
جمعیۃ کے علما کو بار بار گرفتار کیا گیا اور اس کے جنرل سیکرٹری احمد سعید دہلوی نے اپنی زندگی کے پندرہ سال جیل میں گزارے۔ جمعیۃ نے مسلم کمیونٹی سے وعدے حاصل کیے کہ وہ برطانوی کپڑے کے استعمال سے گریز کریں گے اور نمک مارچ میں حصہ لینے کے لیے تقریباً پندرہ ہزار رضاکاروں کا اندراج کیا۔ جمعیۃ کے شریک بانی کفایت اللہ دہلوی کو سول نافرمانی کی تحریک میں حصہ لینے پر 1930ء میں گجرات جیل میں چھ ماہ قید میں رکھا گیا تھا۔ 31 مارچ 1932ء کو وہ ایک لاکھ سے زائد لوگوں کے جلوس کی قیادت کرنے پر گرفتار ہوئے اور اٹھارہ ماہ تک ملتان جیل میں قید رہے۔ جمعیۃ کے جنرل سکریٹری محمد میاں دیوبندی کو پانچ مرتبہ گرفتار کیا گیا اور مسلم حکمرانوں بشمول برطانوی راج کے خلاف مسلم علماء کی جدوجہد پر بحث کرنے کے لیے ان کی کتاب "علمائے ہند کا شاندار ماضی" ضبط کی گئی۔ جمعیۃ کے ایک اور عالم حفظ الرحمن سیوہاروی برطانوی استعمار کے خلاف مہم چلانے پر کئی بار گرفتار ہوئے۔ انھوں نے آٹھ سال قید میں گزارے <ref>ادروی 2016، ص: 81</ref>۔ | جمعیۃ کے علما کو بار بار گرفتار کیا گیا اور اس کے جنرل سیکرٹری احمد سعید دہلوی نے اپنی زندگی کے پندرہ سال جیل میں گزارے۔ جمعیۃ نے مسلم کمیونٹی سے وعدے حاصل کیے کہ وہ برطانوی کپڑے کے استعمال سے گریز کریں گے اور نمک مارچ میں حصہ لینے کے لیے تقریباً پندرہ ہزار رضاکاروں کا اندراج کیا۔ جمعیۃ کے شریک بانی کفایت اللہ دہلوی کو سول نافرمانی کی تحریک میں حصہ لینے پر 1930ء میں گجرات جیل میں چھ ماہ قید میں رکھا گیا تھا۔ 31 مارچ 1932ء کو وہ ایک لاکھ سے زائد لوگوں کے جلوس کی قیادت کرنے پر گرفتار ہوئے اور اٹھارہ ماہ تک ملتان جیل میں قید رہے۔ جمعیۃ کے جنرل سکریٹری محمد میاں دیوبندی کو پانچ مرتبہ گرفتار کیا گیا اور مسلم حکمرانوں بشمول برطانوی راج کے خلاف مسلم علماء کی جدوجہد پر بحث کرنے کے لیے ان کی کتاب "علمائے ہند کا شاندار ماضی" ضبط کی گئی۔ جمعیۃ کے ایک اور عالم حفظ الرحمن سیوہاروی برطانوی استعمار کے خلاف مہم چلانے پر کئی بار گرفتار ہوئے۔ انھوں نے آٹھ سال قید میں گزارے <ref>ادروی 2016، ص: 81</ref>۔ | ||
سطر 21: | سطر 21: | ||
== جمعیۃ علمائے ہند الف اور جمعیۃ علمائے ہند میم == | == جمعیۃ علمائے ہند الف اور جمعیۃ علمائے ہند میم == | ||
مارچ 2008ء میں جمعیۃ کے سابق صدر [[اسعد مدنی]] کی وفات کے بعد؛ جمعیۃ علمائے ہند دو حصوں میں تقسیم ہو گئی۔ تقسیم ارشد مدنی اور ان کے بھتیجے [[محمود مدنی]] کے درمیان میں نظریاتی اختلافات کی وجہ سے ہوئی، جب ارشد مدنی پر جمعیۃ مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا الزام لگایا گیا۔ ہندوستان ٹائمز کی ایک ہم | مارچ 2008ء میں جمعیۃ کے سابق صدر [[اسعد مدنی]] کی وفات کے بعد؛ جمعیۃ علمائے ہند دو حصوں میں تقسیم ہو گئی۔ تقسیم ارشد مدنی اور ان کے بھتیجے [[محمود مدنی]] کے درمیان میں نظریاتی اختلافات کی وجہ سے ہوئی، جب ارشد مدنی پر جمعیۃ مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا الزام لگایا گیا۔ ہندوستان ٹائمز کی ایک ہم رپورٹ میں الزام لگایا گیا ہے کہ ارشد نے "اپنی ذاتی حکمرانی قائم کرنے کے لیے منتخب یونٹس کو تحلیل کر دیا ہے اور اس کے جمہوری ڈھانچہ کو ختم کر دیا ہے۔" چناں چہ 5 مارچ 2006ء کو ارشد مدنی کو متحدہ جمعیۃ کے صدر کے عہدے سے برخاست کر دیا گیا، جس کی وجہ سے ایک نئی ایگزیکٹو کمیٹی کی تشکیل؛ عمل میں آئی، جس کے حقیقی جمعیۃ ہونے کا دعوی کیا گیا. جمعیۃ کے بقیہ حصہ؛ محمود مدنی کی زیرِ قیادت آیا اور 5 اپریل 2008ء کو اس حصہ نے عثمان منصورپوری کو اپنا پہلا صدر مقرر کیا <ref>Jamiat-Ulama-E-Hind splits" [تقسیم جمعیت علمائے ہند]. ہندوستان ٹائمز. 5 اپریل 2008. 14 جولائی 2021 میں اصل سے آرکائیو شدہ. اخذ شدہ بتاریخ 13 جولائی 2021</ref>.ارشد گروپ کے پہلے ناظم عمومی عبد العلیم فاروقی تھے، جنھوں نے 1995ء سے 2001ء تک متحدہ جمعیۃ علمائے ہند کے دسویں ناظم عمومی کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیں۔ | ||
== انسداد دہشت گردی کا فتوی == | == انسداد دہشت گردی کا فتوی == | ||
نومبر 2008ء میں 6000 علما نے حیدرآباد، دکن میں جمعیۃ علمائے ہند کی 29 ویں مجلس منتظمہ میٹنگ میں انسداد دہشت گردی کے فتوی کی توثیق کی۔مئی 2008ء میں یہ فتوٰی دار العلوم دیوبند نے جاری کیا اور اس کے صدر مفتی حبیب الرحمن خیرآبادی نے اس پر دستخط کیا۔ اجلاسِ عام میں محمود مدنی نے کہا کہ "یہ اس ایمان کا مظہر ہے کہ علمائے دین اس فتوٰی کی اہمیت اور وقتی ضرورت پر توجہ دے رہے ہیں۔ جب یہ مندوبین اپنے گھروں کو واپس جائیں گے تو وہ دستخط شدہ حیدرآباد اعلامیہ لیں گے، جو دار العلوم کے دہشت گردی کے خلاف موقف کی تائید کرتا ہے۔ اس میٹنگ میں روی شنکر اور سوامی اگنیویش نے شرکت کی تھی۔ اس فتوی میں کہا گیا تھا کہ [[اسلام]] ہر قسم کے بلاجواز تشدد، امن کی خلاف ورزی، خوں ریزی، قتل اور لوٹ مار کو مسترد کرتا ہے اور کسی بھی شکل میں اس کی اجازت نہیں دیتا۔ یہ اسلام کا بنیادی اصول ہے کہ آپ اچھے نیک مقاصد کے حصول میں ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں اور کسی کے ساتھ گناہ یا ظلم کے لیے تعاون نہیں کرتے۔ قرآن پاک میں دی گئی واضح ہدایات میں واضح ہے کہ اسلام جیسے مذہب کے خلاف دہشت گردی کا الزام جو عالمی امن کا حکم دیتا ہے، جھوٹ کے سوا کچھ نہیں۔ درحقیقت اسلام ہر قسم کی دہشت گردی کا صفایا کرنے اور عالمی امن کے پیغام کو پھیلانے کے لیے پیدا ہوا ہے <ref>Ulama endorse fatwa against terror" [علما؛ دہشت گردی کے خلاف فتوٰی کی تائید کرتے ہیں]. ٹائمز آف انڈیا. 8 نومبر 2008. اخذ شدہ بتاریخ 14 جولائی 2021</ref>. | نومبر 2008ء میں 6000 علما نے حیدرآباد، دکن میں جمعیۃ علمائے ہند کی 29 ویں مجلس منتظمہ میٹنگ میں انسداد دہشت گردی کے فتوی کی توثیق کی۔مئی 2008ء میں یہ فتوٰی دار العلوم دیوبند نے جاری کیا اور اس کے صدر مفتی حبیب الرحمن خیرآبادی نے اس پر دستخط کیا۔ اجلاسِ عام میں محمود مدنی نے کہا کہ "یہ اس ایمان کا مظہر ہے کہ علمائے دین اس فتوٰی کی اہمیت اور وقتی ضرورت پر توجہ دے رہے ہیں۔ جب یہ مندوبین اپنے گھروں کو واپس جائیں گے تو وہ دستخط شدہ حیدرآباد اعلامیہ لیں گے، جو دار العلوم کے دہشت گردی کے خلاف موقف کی تائید کرتا ہے۔ اس میٹنگ میں روی شنکر اور سوامی اگنیویش نے شرکت کی تھی۔ اس فتوی میں کہا گیا تھا کہ [[اسلام]] ہر قسم کے بلاجواز تشدد، امن کی خلاف ورزی، خوں ریزی، قتل اور لوٹ مار کو مسترد کرتا ہے اور کسی بھی شکل میں اس کی اجازت نہیں دیتا۔ یہ اسلام کا بنیادی اصول ہے کہ آپ اچھے نیک مقاصد کے حصول میں ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں اور کسی کے ساتھ گناہ یا ظلم کے لیے تعاون نہیں کرتے۔ قرآن پاک میں دی گئی واضح ہدایات میں واضح ہے کہ اسلام جیسے مذہب کے خلاف دہشت گردی کا الزام جو عالمی امن کا حکم دیتا ہے، جھوٹ کے سوا کچھ نہیں۔ درحقیقت اسلام ہر قسم کی دہشت گردی کا صفایا کرنے اور عالمی امن کے پیغام کو پھیلانے کے لیے پیدا ہوا ہے <ref>Ulama endorse fatwa against terror" [علما؛ دہشت گردی کے خلاف فتوٰی کی تائید کرتے ہیں]. ٹائمز آف انڈیا. 8 نومبر 2008. اخذ شدہ بتاریخ 14 جولائی 2021</ref>. |