9,666
ترامیم
سطر 23: | سطر 23: | ||
مارچ 2008ء میں جمعیۃ کے سابق صدر [[اسعد مدنی]] کی وفات کے بعد؛ جمعیۃ علمائے ہند دو حصوں میں تقسیم ہو گئی۔ تقسیم ارشد مدنی اور ان کے بھتیجے [[محمود مدنی]] کے درمیان میں نظریاتی اختلافات کی وجہ سے ہوئی، جب ارشد مدنی پر جمعیۃ مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا الزام لگایا گیا۔ ہندوستان ٹائمز کی ایک ہم عصر رپورٹ میں الزام لگایا گیا ہے کہ ارشد نے "اپنی ذاتی حکمرانی قائم کرنے کے لیے منتخب یونٹس کو تحلیل کر دیا ہے اور اس کے جمہوری ڈھانچہ کو ختم کر دیا ہے۔" چناں چہ 5 مارچ 2006ء کو ارشد مدنی کو متحدہ جمعیۃ کے صدر کے عہدے سے برخاست کر دیا گیا، جس کی وجہ سے ایک نئی ایگزیکٹو کمیٹی کی تشکیل؛ عمل میں آئی، جس کے حقیقی جمعیۃ ہونے کا دعوی کیا گیا جمعیۃ کے بقیہ حصہ؛ محمود مدنی کی زیرِ قیادت آئی اور 5 اپریل 2008ء کو اس حصہ نے عثمان منصورپوری کو اپنا پہلا صدر مقرر کیا <ref>Jamiat-Ulama-E-Hind splits" [تقسیم جمعیت علمائے ہند]. ہندوستان ٹائمز. 5 اپریل 2008. 14 جولائی 2021 میں اصل سے آرکائیو شدہ. اخذ شدہ بتاریخ 13 جولائی 2021</ref>.ارشد گروپ کے پہلے ناظم عمومی عبد العلیم فاروقی تھے، جنھوں نے 1995ء سے 2001ء تک متحدہ جمعیۃ علمائے ہند کے دسویں ناظم عمومی کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیں۔ | مارچ 2008ء میں جمعیۃ کے سابق صدر [[اسعد مدنی]] کی وفات کے بعد؛ جمعیۃ علمائے ہند دو حصوں میں تقسیم ہو گئی۔ تقسیم ارشد مدنی اور ان کے بھتیجے [[محمود مدنی]] کے درمیان میں نظریاتی اختلافات کی وجہ سے ہوئی، جب ارشد مدنی پر جمعیۃ مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا الزام لگایا گیا۔ ہندوستان ٹائمز کی ایک ہم عصر رپورٹ میں الزام لگایا گیا ہے کہ ارشد نے "اپنی ذاتی حکمرانی قائم کرنے کے لیے منتخب یونٹس کو تحلیل کر دیا ہے اور اس کے جمہوری ڈھانچہ کو ختم کر دیا ہے۔" چناں چہ 5 مارچ 2006ء کو ارشد مدنی کو متحدہ جمعیۃ کے صدر کے عہدے سے برخاست کر دیا گیا، جس کی وجہ سے ایک نئی ایگزیکٹو کمیٹی کی تشکیل؛ عمل میں آئی، جس کے حقیقی جمعیۃ ہونے کا دعوی کیا گیا جمعیۃ کے بقیہ حصہ؛ محمود مدنی کی زیرِ قیادت آئی اور 5 اپریل 2008ء کو اس حصہ نے عثمان منصورپوری کو اپنا پہلا صدر مقرر کیا <ref>Jamiat-Ulama-E-Hind splits" [تقسیم جمعیت علمائے ہند]. ہندوستان ٹائمز. 5 اپریل 2008. 14 جولائی 2021 میں اصل سے آرکائیو شدہ. اخذ شدہ بتاریخ 13 جولائی 2021</ref>.ارشد گروپ کے پہلے ناظم عمومی عبد العلیم فاروقی تھے، جنھوں نے 1995ء سے 2001ء تک متحدہ جمعیۃ علمائے ہند کے دسویں ناظم عمومی کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیں۔ | ||
== انسداد دہشت گردی کا فتوی == | == انسداد دہشت گردی کا فتوی == | ||
نومبر 2008ء میں 6000 علما نے حیدرآباد، دکن میں جمعیۃ علمائے ہند کی 29 ویں مجلس منتظمہ میٹنگ میں انسداد دہشت گردی کے فتوی کی توثیق کی۔مئی 2008ء میں یہ فتوٰی دار العلوم دیوبند نے جاری کیا اور اس کے صدر مفتی حبیب الرحمن خیرآبادی نے اس پر دستخط کیا۔ اجلاسِ عام میں محمود مدنی نے کہا کہ "یہ اس ایمان کا مظہر ہے کہ علمائے دین اس فتوٰی کی اہمیت اور وقتی ضرورت پر توجہ دے رہے ہیں۔ جب یہ مندوبین اپنے گھروں کو واپس جائیں گے تو وہ دستخط شدہ حیدرآباد اعلامیہ لیں گے، جو دار العلوم کے دہشت گردی کے خلاف موقف کی تائید کرتا ہے۔ اس میٹنگ میں روی شنکر اور سوامی اگنیویش نے شرکت کی تھی۔ اس فتوی میں کہا گیا تھا کہ اسلام ہر قسم کے بلاجواز تشدد، امن کی خلاف ورزی، خوں ریزی، قتل اور لوٹ مار کو مسترد کرتا ہے اور کسی بھی شکل میں اس کی اجازت نہیں دیتا۔ یہ اسلام کا بنیادی اصول ہے کہ آپ اچھے نیک مقاصد کے حصول میں ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں اور کسی کے ساتھ گناہ یا ظلم کے لیے تعاون نہیں کرتے۔ قرآن پاک میں دی گئی واضح ہدایات میں واضح ہے کہ اسلام جیسے مذہب کے خلاف دہشت گردی کا الزام جو عالمی امن کا حکم دیتا ہے، جھوٹ کے سوا کچھ نہیں۔ درحقیقت اسلام ہر قسم کی دہشت گردی کا صفایا کرنے اور عالمی امن کے پیغام کو پھیلانے کے لیے پیدا ہوا ہے <ref>Ulama endorse fatwa against terror" [علما؛ دہشت گردی کے خلاف فتوٰی کی تائید کرتے ہیں]. ٹائمز آف انڈیا. 8 نومبر 2008. اخذ شدہ بتاریخ 14 جولائی 2021</ref>. | نومبر 2008ء میں 6000 علما نے حیدرآباد، دکن میں جمعیۃ علمائے ہند کی 29 ویں مجلس منتظمہ میٹنگ میں انسداد دہشت گردی کے فتوی کی توثیق کی۔مئی 2008ء میں یہ فتوٰی دار العلوم دیوبند نے جاری کیا اور اس کے صدر مفتی حبیب الرحمن خیرآبادی نے اس پر دستخط کیا۔ اجلاسِ عام میں محمود مدنی نے کہا کہ "یہ اس ایمان کا مظہر ہے کہ علمائے دین اس فتوٰی کی اہمیت اور وقتی ضرورت پر توجہ دے رہے ہیں۔ جب یہ مندوبین اپنے گھروں کو واپس جائیں گے تو وہ دستخط شدہ حیدرآباد اعلامیہ لیں گے، جو دار العلوم کے دہشت گردی کے خلاف موقف کی تائید کرتا ہے۔ اس میٹنگ میں روی شنکر اور سوامی اگنیویش نے شرکت کی تھی۔ اس فتوی میں کہا گیا تھا کہ [[اسلام]] ہر قسم کے بلاجواز تشدد، امن کی خلاف ورزی، خوں ریزی، قتل اور لوٹ مار کو مسترد کرتا ہے اور کسی بھی شکل میں اس کی اجازت نہیں دیتا۔ یہ اسلام کا بنیادی اصول ہے کہ آپ اچھے نیک مقاصد کے حصول میں ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں اور کسی کے ساتھ گناہ یا ظلم کے لیے تعاون نہیں کرتے۔ قرآن پاک میں دی گئی واضح ہدایات میں واضح ہے کہ اسلام جیسے مذہب کے خلاف دہشت گردی کا الزام جو عالمی امن کا حکم دیتا ہے، جھوٹ کے سوا کچھ نہیں۔ درحقیقت اسلام ہر قسم کی دہشت گردی کا صفایا کرنے اور عالمی امن کے پیغام کو پھیلانے کے لیے پیدا ہوا ہے <ref>Ulama endorse fatwa against terror" [علما؛ دہشت گردی کے خلاف فتوٰی کی تائید کرتے ہیں]. ٹائمز آف انڈیا. 8 نومبر 2008. اخذ شدہ بتاریخ 14 جولائی 2021</ref>. | ||
== حوالہ جات == | == حوالہ جات == |