9,666
ترامیم
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
|||
سطر 1: | سطر 1: | ||
[[فائل:عید فطر 1.jpg|250px|بدون_چوکھٹا|بائیں]] | [[فائل:عید فطر 1.jpg|250px|بدون_چوکھٹا|بائیں]] | ||
'''عید فطر''' [[شوال]] کا پہلا دن ہے۔ شوال کا آغاز رمضان المبارک کے فرض روزہ کا اختتام اور [[مسلمان|مسلمانوں]] کی سب سے بڑی تعطیلات میں سے ایک ہے۔ اس دن، ایک ماہ کے روزے اور عبادت کے بعد، [[مسلمان]] عید فطر کی نماز اور مستحب اعمال مناتے اور ادا کرتے ہیں۔ اس دن روزہ رکھنا [[حرام]] ہے اور صدقہ فطر کی ادائیگی فرض ہے۔ اس دن کے لیے دعائیہ کتابوں میں بہت سے تجویز کردہ رسومات اور طریقوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ [[قرآن کریم]] کی دو سورتوں میں عید فطر کا ذکر آیا ہے جن میں ان آیات کی تفسیر اور تفسیر کی طرف رجوع کیا جائے گا۔ | '''عید فطر''' [[شوال]] کا پہلا دن ہے۔ شوال کا آغاز رمضان المبارک کے فرض روزہ کا اختتام اور [[مسلمان|مسلمانوں]] کی سب سے بڑی تعطیلات میں سے ایک ہے۔ اس دن، ایک ماہ کے روزے اور عبادت کے بعد، [[مسلمان]] عید فطر کی نماز اور [[مستحب]] اعمال مناتے اور ادا کرتے ہیں۔ اس دن روزہ رکھنا [[حرام]] ہے اور صدقہ فطر کی ادائیگی فرض ہے۔ اس دن کے لیے دعائیہ کتابوں میں بہت سے تجویز کردہ رسومات اور طریقوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ [[قرآن کریم]] کی دو سورتوں میں عید فطر کا ذکر آیا ہے جن میں ان آیات کی تفسیر اور تفسیر کی طرف رجوع کیا جائے گا۔ | ||
== عید کی تعریف == | == عید کی تعریف == | ||
عید کے لفظ میں لفظ عود سے مراد واپسی ہے، اس لیے جن دنوں میں لوگوں اور آبادی کے مسائل حل ہو کر پہلی فتوحات اور آسائشوں کی طرف لوٹتے ہیں، ان دنوں کو عید کہا جاتا ہے، اور اسلامی تعطیلات میں اطاعت کے موقع پر۔ رمضان کا ایک مقدس مہینہ یا حج کرنے سے پاکیزگی اور پہلی فطری طہارت نفس و روح میں لوٹ آتی ہے اور جو آلودگی فطرت کے خلاف ہوتی ہے اسے دور کر دیا جاتا ہے اسے عید کہتے ہیں <ref>مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، ج5، ص131</ref>۔ | عید کے لفظ میں لفظ عود سے مراد واپسی ہے، اس لیے جن دنوں میں لوگوں اور آبادی کے مسائل حل ہو کر پہلی فتوحات اور آسائشوں کی طرف لوٹتے ہیں، ان دنوں کو عید کہا جاتا ہے، اور اسلامی تعطیلات میں اطاعت کے موقع پر۔ رمضان کا ایک مقدس مہینہ یا حج کرنے سے پاکیزگی اور پہلی فطری طہارت نفس و روح میں لوٹ آتی ہے اور جو آلودگی فطرت کے خلاف ہوتی ہے اسے دور کر دیا جاتا ہے اسے عید کہتے ہیں <ref>مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، ج5، ص131</ref>۔ |