Jump to content

"حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ" کے نسخوں کے درمیان فرق

سطر 199: سطر 199:
میثاق حدیبیہ کے تحت قرار پایا تھا کہ ہر قبیلہ قریش یا مسلمانوں میں سے کسی ایک کے ساتھ معاہدہ منعقد کرسکتا ہے۔ چنانچہ خزاعہ نے حضرت محمدؐ کے ساتھ اور بنوبکر نے قریش کے ساتھ عہدنامے لکھے۔ سنہ 8 ہجری میں بنوبکر اور خزاعہ کے درمیان جنگ چھڑ گئی اور قریش نے خزاعہ کے خلاف بنو بکر کی مدد کی اور یوں میثاق حدیبیبہ منسوخ ہوگیا ۔ ابوسفیان فوری طور پر تجدید عہد کیلئے مدینہ پہنچا لیکن اسے ناکامی کے سوا کچھ نہ ملا۔  
میثاق حدیبیہ کے تحت قرار پایا تھا کہ ہر قبیلہ قریش یا مسلمانوں میں سے کسی ایک کے ساتھ معاہدہ منعقد کرسکتا ہے۔ چنانچہ خزاعہ نے حضرت محمدؐ کے ساتھ اور بنوبکر نے قریش کے ساتھ عہدنامے لکھے۔ سنہ 8 ہجری میں بنوبکر اور خزاعہ کے درمیان جنگ چھڑ گئی اور قریش نے خزاعہ کے خلاف بنو بکر کی مدد کی اور یوں میثاق حدیبیبہ منسوخ ہوگیا ۔ ابوسفیان فوری طور پر تجدید عہد کیلئے مدینہ پہنچا لیکن اسے ناکامی کے سوا کچھ نہ ملا۔  


رسول اللہؐ ماہ رمضان سنہ 8 ہجری کو 10 ہزار افراد کے ہمراہ مکہ روانہ ہوئے۔ آپؐ نے نقل و حرکت کا منصوبہ اس طرح سے ترتیب دیا تھا کہ کوئی بھی اس عزیمت سے باخبر نہ ہو۔ جب مسلمانوں کا لشکر مرُّ الظہران کے علاقے میں پہنچا، تو آپ کے چچا عباس نے رات کو خیمے سے باہر نکل کر مکہ کے لوگوں سے ملنے کا ارادہ کیا۔ وہ یہ پیغام دینا چاہتے تھے کہ قریش ہلاک ہونے سے قبل رسول اللہؐ کی خدمت میں حاضر ہوجائیں۔ اس رات عباس ابن عبد المطلب نے ابوسفیان کو پناہ دی اور رسول اللہؐ کی خدمت میں حاضر کیا۔ ابو سفیان [بامر مجبوری] مسلمان ہوگیا۔ مسلمانوں اور مکہ کی عوام کے درمیان اِکّا دُکّا جھڑپیں ہوئیں۔ پیغمبرؐ مسجد میں داخل ہوئے اور سوار ہوکر ہی سات مرتبہ کعبہ کا طواف کیا اور کعبہ کے دروازے پر کھڑے ہوکر فرمایا:  
رسول اللہؐ ماہ رمضان سنہ 8 ہجری کو 10 ہزار افراد کے ہمراہ مکہ روانہ ہوئے۔ آپؐ نے نقل و حرکت کا منصوبہ اس طرح سے ترتیب دیا تھا کہ کوئی بھی اس عزیمت سے باخبر نہ ہو۔ جب مسلمانوں کا لشکر مرُّ الظہران کے علاقے میں پہنچا، تو آپ کے چچا عباس نے رات کو خیمے سے باہر نکل کر مکہ کے لوگوں سے ملنے کا ارادہ کیا۔ وہ یہ پیغام دینا چاہتے تھے کہ قریش ہلاک ہونے سے قبل رسول اللہؐ کی خدمت میں حاضر ہوجائیں۔ اس رات عباس ابن عبد المطلب نے ابوسفیان کو پناہ دی اور رسول اللہؐ کی خدمت میں حاضر کیا۔ ابو سفیان مسلمان ہوگیا۔ مسلمانوں اور مکہ کی عوام کے درمیان اِکّا دُکّا جھڑپیں ہوئیں۔ پیغمبرؐ مسجد میں داخل ہوئے اور سوار ہوکر ہی سات مرتبہ کعبہ کا طواف کیا اور کعبہ کے دروازے پر کھڑے ہوکر فرمایا:  
'''حدیث: لا اله الا الله وحده لا شریك له صدق وعده ونصر عبده وهزم الاحزاب وحده'''
'''حدیث: لا اله الا الله وحده لا شریك له صدق وعده ونصر عبده وهزم الاحزاب وحده'''
کوئی بھی معبود نہیں ہے سوائے خدائے یکتا کہ جو اکیلا ہے اور اس کا کوئی شریک نہيں ہے، اس نے اپنا (غلبہ اسلام کے سلسلے میں) اپنا وعدہ پورا کرکے دکھایا اور اپنے بندے کی مدد کی اور اس اکیلے نے تمام احزاب (اور لشکروں) کو بھگا دیا۔
کوئی بھی معبود نہیں ہے سوائے خدائے یکتا کہ جو اکیلا ہے اور اس کا کوئی شریک نہيں ہے، اس نے اپنا (غلبہ اسلام کے سلسلے میں) اپنا وعدہ پورا کرکے دکھایا اور اپنے بندے کی مدد کی اور اس اکیلے نے تمام احزاب (اور لشکروں) کو بھگا دیا۔
سطر 208: سطر 208:


فتح مکہ کے بعد مختلف قبائل کے بہت سے وفود مدینہ منورہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور اسلام اور اطاعت کا دعویٰ کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں شفقت، محبت اور توجہ کے ساتھ قبول کیا۔ اس لیے اس سال کو سنۃ الفود کے نام سے جانا جاتا ہے۔
فتح مکہ کے بعد مختلف قبائل کے بہت سے وفود مدینہ منورہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور اسلام اور اطاعت کا دعویٰ کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں شفقت، محبت اور توجہ کے ساتھ قبول کیا۔ اس لیے اس سال کو سنۃ الفود کے نام سے جانا جاتا ہے۔
== مباہلہ ==
== مباہلہ ==
نویں صدی ہجری میں رسول اللہ نے مختلف حکومتوں کے سربراہوں کو خطوط لکھے۔ایک خط نجران کے ساکنین کے نام بھی لکھا جس میں انہیں اسلام قبول کرنے کی دعوت دی ۔اس کے جواب میں انہوں نے ایک 30افراد پر مشتمل ایک وفد تحقیق کیلئے مدینہ بھیجا ۔ وہ رسول خدا سے گفت و شنید سے کسی نتیجے پر نہ پہنچے تو بات مباہلے پر ختم ہوئی ۔ طرفین مدینے سے باہر صحرا میں اکٹھے ہوطے پایا ۔مباہلے کے روز رسول خدا اپنے ہمراہ [[علی علیہ السلام|حضرت علی]] ،[[حضرت فاطمہ زہرا سلام‌ اللہ علیہا|حضرت فاطمہ]] ، [[حسن بن علی|حضرت امام حسن]] اور [[حسین بن علی|حضرت امام حسین علیہم السلام]] کو لے کر آئے ۔جب نصارا نے انہیں دیکھا تو انہوں نے مباہلہ سے انکار کیا اور صلح کی پیش کش کی ۔ رسول خدا نے اسے قبول کیا۔ رسول خدا اور نجران کے وفد کے درمیان ایک صلحنامہ لکھا گیا  
نویں صدی ہجری میں رسول اللہ نے مختلف حکومتوں کے سربراہوں کو خطوط لکھے۔ایک خط نجران کے ساکنین کے نام بھی لکھا جس میں انہیں اسلام قبول کرنے کی دعوت دی ۔اس کے جواب میں انہوں نے ایک 30افراد پر مشتمل ایک وفد تحقیق کیلئے مدینہ بھیجا ۔ وہ رسول خدا سے گفت و شنید سے کسی نتیجے پر نہ پہنچے تو بات مباہلے پر ختم ہوئی ۔ طرفین مدینے سے باہر صحرا میں اکٹھے ہوطے پایا ۔مباہلے کے روز رسول خدا اپنے ہمراہ [[علی علیہ السلام|حضرت علی]] ،[[حضرت فاطمہ زہرا سلام‌ اللہ علیہا|حضرت فاطمہ]] ، [[حسن بن علی|حضرت امام حسن]] اور [[حسین بن علی|حضرت امام حسین علیہم السلام]] کو لے کر آئے ۔جب نصارا نے انہیں دیکھا تو انہوں نے مباہلہ سے انکار کیا اور صلح کی پیش کش کی ۔ رسول خدا نے اسے قبول کیا۔ رسول خدا اور نجران کے وفد کے درمیان ایک صلحنامہ لکھا گیا