Jump to content

"یوم القدس" کے نسخوں کے درمیان فرق

کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 50: سطر 50:
عالمی یوم قدس کے موقع پر ہر سال رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو جلوس نکالا جاتا ہے۔ پہلا مارچ، 17/ اگست 1979ء بمطابق 23/ رمضان 1399 ہجری قمری کو ایران اور دیگر ممالک میں ہوا۔ تہران میں نماز جمعہ کے امام سید محمود طالقانی نے اسی دن نماز جمعہ کے خطبوں میں یوم القدس کے بارے میں بات کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ بیت المقدس تمام الہی مذاہب کا ہے اور ہر ایک کو اس کے دفاع کے لیے تیار رہنا چاہیے۔
عالمی یوم قدس کے موقع پر ہر سال رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو جلوس نکالا جاتا ہے۔ پہلا مارچ، 17/ اگست 1979ء بمطابق 23/ رمضان 1399 ہجری قمری کو ایران اور دیگر ممالک میں ہوا۔ تہران میں نماز جمعہ کے امام سید محمود طالقانی نے اسی دن نماز جمعہ کے خطبوں میں یوم القدس کے بارے میں بات کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ بیت المقدس تمام الہی مذاہب کا ہے اور ہر ایک کو اس کے دفاع کے لیے تیار رہنا چاہیے۔
امام خمینی کا یہ اقدام اس کے بعد کے سالوں میں بھی جاری رہا اور ہر سال ایران اور دیگر ممالک میں بڑی شان و شوکت سے منایا جاتا ہے<ref>امام خمینی (رح) کے انسائیکلوپیڈیا سے اقتباس، ج 5، ص 701</ref>۔
امام خمینی کا یہ اقدام اس کے بعد کے سالوں میں بھی جاری رہا اور ہر سال ایران اور دیگر ممالک میں بڑی شان و شوکت سے منایا جاتا ہے<ref>امام خمینی (رح) کے انسائیکلوپیڈیا سے اقتباس، ج 5، ص 701</ref>۔
== عالمی یوم قدس پر رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای کی نگاہ میں ==
=== فلسطین، امت اسلامیہ کا سب سے حساس اور اہم ترین مسئلہ ===
فلسطین کا معاملہ بدستور امت اسلامیہ  کا حساس ترین اور اہم ترین مسئلہ بنا ہوا ہے۔ ظالم و سفاک سرمایہ دارانہ نظام کی پالیسیوں نے ایک پوری ملت کو اس کے گھربار، اس کے وطن اور اس کی آبائی سرزمین سے محروم کر دیا اور وہاں ایک دہشت گرد حکومت قائم کر دی، غیروں کو لاکے بسا دیا۔
=== صیہونی حکومت کی تاسیس کا فلسفہ === 
صیہونی حکومت کی تاسیس کی کھوکھلی دلیل سے زیادہ کمزور اور بے بنیاد دلیل اور کیا ہو سکتی ہے؟! یورپ والوں نے خود اپنے دعوے کے مطابق، دوسری عالمی جنگ کے برسوں میں یہودیوں پر ظلم کیا! تو پھر اس کے عوض مغربی ایشیا میں ایک قوم کو آوارہ وطن کرکے اور اس ملک میں وحشیانہ قتل عام کے ذریعے یہودیوں کا انتقام لیا جائے۔۔۔۔۔!
یہ وہ دلیل ہے کہ مغربی حکومتیں صیہونی حکومت کی بے دریغ اور دیوانہ وار حمایت کے لئے جس کا سہارا لیتی ہیں۔ اس طرح انھوں نے انسانی حقوق اور ڈیموکریسی کے اپنے تمام جھوٹے دعؤوں کی خود ہی نفی کر دی ہے اور یہ المناک اور مضحکہ خیز قضیہ ستّر سال سے جاری ہے اور ہر کچھ عرصے بعد اس میں کچھ نئے ابواب کا اضافہ کر دیا جاتا ہے۔
=== صیہونی حکومت کے خلاف جدوجہد، سب کا ہمہ گیر فریضہ ===
صیہونیوں نے روز اول سے ہی غصب شدہ سرزمین فلسطین کو دہشت گردی کے مرکز میں تبدیل کر دیا۔ اسرائيل کوئی ملک نہیں بلکہ ملت فلسطین اور دیگر اقوام کے خلاف دہشت گردی کا اڈا ہے۔ اس سفاک حکومت کے خلاف جدوجہد در حقیقت ظلم کے خلاف مجاہدت اور دہشت گردی کے خلاف جنگ ہے اور یہ سب کا ہمہ گیر فریضہ ہے۔
=== امت اسلامیہ کی  زبوں حالی اور انتشار سے فلسطین پر غاصبانہ قبضے کی راہ ہموار ہوئی ===
ایک قابل غور نکتہ یہ ہے کہ اگرچہ غاصب حکومت انیس سو اڑتالیس میں قائم کی گئی لیکن اسلامی علاقے کے اس اہم اور حساس خطے پر قبضے کی تیاری  اس سے برسوں پہلے شروع کر دی گئی تھی۔ یہ اسلامی ملکوں میں سیکولرزم اور انتہا پسندانہ نیز اندھی قوم پرستی کی حکمرانی قائم کرنے اور استبدادی نیز مغرب کی دلدادہ اور اس کی پٹھو حکومتیں مسلط کرنے کے لئے مغربی دنیا کی سرگرم دخل اندازی کا دور تھا۔
ایران، ترکی اور مغربی ایشیا کے عرب ملکوں اور شمالی افریقا کے ان برسوں کے واقعات کا مطالعہ اس تلخ حقیقت کو آشکارا کرتا ہے کہ امت اسلامیہ کی زبوں حالی و انتشار سے سرزمین فلسطین پر قبضے کے المئے کی زمین ہموار ہوئی اور استکباری دنیا نے امت اسلامیہ پر یہ وار کر دیا۔
=== فلسطین کو غصب کرنے کے معاملے میں صیہونی سرمایہ داروں سے مغربی اور مشرقی بلاکوں کا بھرپور تعاون ===
یہ مقام عبرت ہے کہ اس دور میں، صیہونی قارونوں (سرمایہ داروں) کے ساتھ کیپیٹلسٹ اور کمیونسٹ دونوں کیمپ متحد ہو گئے تھے۔ برطانیہ نے سازش تیار کی۔ صیہونی سرمایہ داروں نے اپنی دولت اور اسلحے سے اس کو عملی شکل دینے کی ذمہ داری قبول کی۔ سوویت یونین، پہلا ملک تھا جس نے اس غیر قانونی حکومت کو سرکاری طور پر تسلیم کیا اور بڑی تعداد میں یہودیوں کو وہاں بھیجا۔
غاصب حکومت، ایک طرف اسلامی دنیا کی اس وقت کی بدحالی کا نتیجہ تھی تو دوسری طرف ان یورپ والوں کی  سازش، جارحیت اور یلغار کی دین تھی۔
=== موجودہ دور میں طاقت کے توازن کا جھکاؤ عالم اسلام کی سمت ===
آج دنیا کی حالت اس دور جیسی نہیں ہے۔ ہمیں اس حقیقت کو ہمیشہ نظر میں  رکھنا چاہئے۔ آج طاقت کا توازن اسلامی دنیا کے حق میں تبدیل ہو چکا ہے۔ یورپ اور امریکا کے گوناگوں سیاسی و سماجی حوادث نے مغرب والوں کی تنظیمی، انتظامی و اخلاقی خامیوں اور کمزوریوں کو دنیا کے سامنے بے نقاب کر دیا ہے۔
امریکا میں انتخابات کے واقعات اور آزمائش کے وقت اس ملک کے بڑے بڑے دعوے کرنے والے متکبر حکام کی سخت رسوائی، نیز یورپ اور امریکا میں کورونا کے پھیلاؤ کے مقابلے میں ان کی پورے سال کی ناکامی اور اس (وبا) سے متعلق شرمناک واقعات اور اہم ترین یورپی ملکوں میں سیاسی اور سماجی انتشار، یہ سب مغربی کیمپ کے زوال اور سقوط کی نشانیاں ہیں۔
دوسری طرف حساس ترین اسلامی علاقوں میں مزاحمتی فورسز کا ظہور، ان کی دفاعی اور حملہ کرنے کی توانائيوں میں اضافہ، مسلم اقوام میں خود آگہی، امید اور حوصلے کا نمو، اسلامی اور قرآنی نعروں کی طرف میلان میں اضافہ، علمی پیشرفت، اقوام میں حریت پسندی اور خود انحصاری کا فروغ، یہ سب وہ مبارک علامتیں ہیں جو بہتر مستقبل کی نوید دے رہی ہیں۔
=== فلسطین اور قدس کے محور پر اسلامی ملکوں کے متحد ہونے کی ضرورت ===
اس مبارک مستقبل میں مسلمان ملکوں کی ہم آہنگی اور باہمی تعاون ایک اہم اور بنیادی ہدف ہونا چاہئے اور یہ ہدف دسترس سے باہر بھی نہیں ہے۔ اس ہم آہنگی اور تعاون کا مرکز مسئلہ فلسطین، یعنی پورے ملک فلسطین اور قدس شریف کو ہونا چاہئے۔ یہ وہی حقیقت ہے جس نے حضرت امام خمینی کبیر رحمۃ اللہ علیہ کے قلب نورانی میں یہ بات ڈالی کہ رمضان المبارک کے آخری جمعے، جمعۃ الوداع کو یوم قدس قرار دیا جائے۔
قدس شریف کے محور پر مسلمانوں کی ہم آہنگی اور تعاون صیہونی دشمن اور اس کے حامی امریکا اور یورپ کے لئے وحشتناک ہے۔ سینچری ڈیل کی ناکامی اور اس کے بعد غاصب حکومت کے ساتھ چند کمزور عرب حکومتوں کے روابط کی بحالی اسی وحشتناک حقیقت سے فرار کی ناکام کوشش ہے۔
میں یقین کے ساتھ کہتا ہوں کہ یہ کوششیں کارگر نہیں ہوں گی۔ دشمن صیہونی حکومت کے زوال کا عمل شروع ہو چکا ہے جو رکے گا نہیں۔
مستقبل ساز عوامل: مقبوضہ علاقوں میں مزاحمت کا تسلسل اور مسلمانوں کی حانب سے فلسطینی مجاہدین کی عالمی حمایت
دو اہم عوامل مستقبل کا تعین کرنے والے ہیں: پہلا اور اہم تر عامل، سرزمین فلسطین کے اندر مزاحمت کا جاری رہنا اور محاذ جہاد و شہادت کی تقویت ہے اور دوسرا، پوری دنیا کی مسلم اقوام اور حکومتوں کی جانب سے فلسطینی مجاہدین کی عالمی حمایت ہے۔
حکام، روشن فکر دانشور، علمائے دین، جماعتیں اور تنظیمیں، غیور نوجوان اور دیگر طبقات، سبھی اپنے اپنے طور پر اس ہمہ گیر تحریک میں شامل اور سرگرم ہوں۔ یہ وہ چیز ہے جو دشمن کے حیلے کو ناکام بناتی ہے اور اس وعدہ الہی کے لئے کہ: ﴿أَمْ يُرِيدُونَ كَيْدًا ۖ فَالَّذِينَ كَفَرُوا هُمُ الْمَكِيدُونَ﴾ <ref>سورہ طور، آیہ 42</ref>۔ آخری زمانے کا مصداق معین کرتی ہے :﴿وَاللَّهُ غَالِبٌ عَلَىٰ أَمْرِهِ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ﴾ <ref>سورہ یوسف، آیہ21</ref>۔
{{فلسطین}}
{{فلسطین}}
[[زمرہ:فلسطین]]
[[زمرہ:فلسطین]]