Jump to content

"پاراچنار" کے نسخوں کے درمیان فرق

سطر 29: سطر 29:
بچہ  سقا جو افغانستان کا بادشاہ بنا تھا۔ پارار چنار کے ایک بازار میں ماشکی کا کام کرتا رہا۔ قدرتی مناظر اور دلکش ہیں۔ جب کہ لوگوں کی زیادہ تر تعداد ملک سے باہر ہونے کی وجہ سے یہاں تعلیم اور ترقی کی شرح بھی کافی بہتر رہی ہے۔ 1980ء کے عشرے میں افغان جنگ میں مجاہدین نے پاڑا چنار کو ہی اپنا مزاحمتی گڑھ بنایا۔ 2005ء کے بعد تو کئی سالوں تک پاکستان سے پارا چنار جانے والا راستہ بند رہا اور افغانستان کے راستے ایک لمبا چکر کاٹ کر ہی یہاں پہنچنا ممکن تھا۔  
بچہ  سقا جو افغانستان کا بادشاہ بنا تھا۔ پارار چنار کے ایک بازار میں ماشکی کا کام کرتا رہا۔ قدرتی مناظر اور دلکش ہیں۔ جب کہ لوگوں کی زیادہ تر تعداد ملک سے باہر ہونے کی وجہ سے یہاں تعلیم اور ترقی کی شرح بھی کافی بہتر رہی ہے۔ 1980ء کے عشرے میں افغان جنگ میں مجاہدین نے پاڑا چنار کو ہی اپنا مزاحمتی گڑھ بنایا۔ 2005ء کے بعد تو کئی سالوں تک پاکستان سے پارا چنار جانے والا راستہ بند رہا اور افغانستان کے راستے ایک لمبا چکر کاٹ کر ہی یہاں پہنچنا ممکن تھا۔  


اس علاقے کی بلندیاں جنگل سے ڈھکی ہوئی ہیں اور خوبصورت گاؤں ہیں، اور گرمیوں میں اس کا درجہ حرارت 37 ° C سے زیادہ نہیں ہوتا ہے۔ پاراچنار شہر کوہاٹ اور ہنگو کے علاقوں کے شیعوں کا اہم سیاسی اور ثقافتی مرکز سمجھا جاتا ہے۔ اس شہر کی اہمیت اس وجہ سے ہے کہ یہ شہر سرحدی ریاست کا واحد شہر ہے یہاں پر موجود قبائل درجہ ذيل :
اس علاقے کی بلندیاں جنگل سے ڈھکی ہوئی ہیں اور خوبصورت گاؤں ہیں، اور گرمیوں میں اس کا درجہ حرارت 37 ° C سے زیادہ نہیں ہوتا ہے۔ پاراچنار شہر کوہاٹ اور ہنگو کے علاقوں کے شیعوں کا اہم سیاسی اور ثقافتی مرکز سمجھا جاتا ہے۔ اس شہر کی اہمیت اس وجہ سے ہے کہ یہ شہر سرحدی ریاست کا واحد شہر ہے۔
== پاراچنار موجود قبائل ==
یہان پر اکثریت طوری اور بنگش قبائیل کی ہیں۔ طوری عرصہ دراز سے یہی آباد ہیں۔ جبکہ بنگش قبائیل افغانستان سے آکر یہاں آباد ہوگئے ہیں۔
وادئ کرم میں طوری اور بنگش قبائل پانچ سو سال سے زیادہ عرصہ سے آباد ہیں اور اس کا ذکر پہلی دفعہ پہلے مغل بادشاہ ظہیر الدین بابر نے اپنی سوانح حیات "بابُرنامہ" میں کیا ہے۔ ظہیر الدین بابر جب افغانستان پر قبضہ مضبوط کر چکا تو ہندوستان پر حملہ آور ہوا اور درہ خیبر سے ہوتے ہوئے کوہاٹ، ہنگو، ٹل اور بنوں میں قتل و غارت گری کی داستان رقم کی۔
 
وادی کرم وزیرستان، خیبر اور دیگر قبائلی علاقوں کی نسبت زرخیز وادئ ہے لہٰذا یہاں کے لوگ آبا و اجداد کے وقت سے کھیتی باڑی کرتے رہے ہیں، مال مویشی رکھتے ہیں اور باغات بھی قابلِ ذکر تعداد میں موجود ہیں۔ لہٰذا اجناس اور میوہ جات اور مال مویشی کے حوالے سے وادی کرم نہ صرف خود کفیل ہے بلکہ زمانہ قدیم سے نزدیکی علاقوں کو برآمد بھی کرتے رہے ہیں، جن میں میںٹل بازار، ہنگو، کوہاٹ اور پشاور سمیت کابل، گردیز اور ہرات تک کی مارکیٹس شامل ہیں۔ جب کہ وہاں سے وہ اشیائے ضرورت، جو وادئ کرم میں ناپید تھیں/ہیں، درآمد کرتے تھے/ہیں جن میں کپڑا، نمک، گُڑ وغیرہ شامل ہیں۔
ان سب اشیا کی خرید و فروخت، درآمد و برآمد ہندو تاجر کرتے تھے اور پشتون تجارت اور دکان داری کو گھٹیا کام سمجھتے تھے، بلکہ ’تلہ‘ یعنی ترازو کو گالی سمجھا جاتا تھا۔
یہاں پر موجود قبائل درجہ ذيل :
 
{{کالم کی فہرست|2}}
{{کالم کی فہرست|2}}
* دری پلاری  
* دری پلاری