Jump to content

"مؤرخین کا قرآن" کے نسخوں کے درمیان فرق

کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 1: سطر 1:




'''مؤرخین کا قرآن یا تاریخ نویسوں کا قرآن''' - مغرب کے 30 محققین کے تحقیقات کا ماحصل 4جلد اور 4هزار سے زائد  صفحات پر مشتمل  کتاب کا عنوان ہے جو  محمد علی امیر معزی اور گیلوم ڈی کی زیر نگرانی لکھی گئی ہے  اور سنه 2019ء  کو  فرانس میں شایع ہوئی ۔
'''مؤرخین کا قرآن یا تاریخ نویسوں کا [[قرآن]]''' - مغرب کے 30 محققین کے تحقیقات کا ماحصل 4جلد اور 4هزار سے زائد  صفحات پر مشتمل  کتاب کا عنوان ہے جو  محمد علی امیر معزی اور گیلوم ڈی کی زیر نگرانی لکھی گئی ہے  اور سنه 2019ء  کو  فرانس میں شایع ہوئی ۔
9 مارچ 2019  ‏ءکو  « نئے نظریات کا حلقه» کے عنوان سےمنعقده تعارفی  نشست  میں ڈاکٹر محمد علی امیرمعزی  نے اس  کا تعارف کرایا۔
9 مارچ 2019  ‏ءکو  « نئے نظریات کا حلقه» کے عنوان سےمنعقده تعارفی  نشست  میں ڈاکٹر محمد علی امیرمعزی  نے اس  کا تعارف کرایا۔
یه کتاب تاریخی اور تنقیدی انداز میں لکھی گئی ہے اور اس میں مستشرقین  کے پچھلی دو صدیوں کے  تازہ ترین قرآنی تحقیقی مضامین  مرتب کیے گئے ہیں۔
یه کتاب تاریخی اور تنقیدی انداز میں لکھی گئی ہے اور اس میں مستشرقین  کے پچھلی دو صدیوں کے  تازہ ترین قرآنی تحقیقی مضامین  مرتب کیے گئے ہیں۔
سطر 8: سطر 8:


==کتاب کے چیف ایڈیٹر کا مختصر تعارف==
==کتاب کے چیف ایڈیٹر کا مختصر تعارف==
محمد علی امیر معزی  "مورخین کا قرآن " نامی کتاب  کے 28 مصنفین میں سے ایک ہیں۔  وه  1334ھ ش  کو تہران میں مذہبی رجحانات کے حامل ایک متمدن گھرانے میں پیدا ہوئے اور اپنی ابتدائی اور ثانوی تعلیم اسی شہر میں رازی  فرانسیسی  زبان  اسکول میں مکمل کی۔ ان کے خاندان خصوصاً ان کے والد مذہبی اورالهی  موضوعات میں دلچسپی رکھتے تھے اور ایسے ماحول میں ان کی توجہ ایران اور اسلام کی ثقافت بالخصوص اسلام  کے  عرفانی  اور فلسفیانہ پہلوؤں کی طرف مبذول ہوئی۔ ہائی اسکول کے آخری سال میں، ایک خاندانی دوست کے ساتھ، اس کی پہلی بار ہینری کوربن سے ملاقات ہوئی۔
محمد علی امیر معزی  "مورخین کا قرآن " نامی کتاب  کے 28 مصنفین میں سے ایک ہیں۔  وه  1334ھ ش  کو تہران میں مذہبی رجحانات کے حامل ایک متمدن گھرانے میں پیدا ہوئے اور اپنی ابتدائی اور ثانوی تعلیم اسی شہر میں رازی  فرانسیسی  زبان  اسکول میں مکمل کی۔ ان کے خاندان خصوصاً ان کے والد مذہبی اورالهی  موضوعات میں دلچسپی رکھتے تھے اور ایسے ماحول میں ان کی توجہ [[ایران]] اور اسلام کی ثقافت بالخصوص [[اسلام]] کے  عرفانی  اور فلسفیانہ پہلوؤں کی طرف مبذول ہوئی۔ ہائی اسکول کے آخری سال میں، ایک خاندانی دوست کے ساتھ، اس کی پہلی بار ہینری کوربن سے ملاقات ہوئی۔
جب  ہینری کوربن نے نوجوان طالب علم کی فلسفیانہ، مذہبی اور صوفیانہ مسائل میں دلچسپی دیکھی،  تو  اس نے اسے فرانس آنے  اور پیرس میں اسلامیات کے شعبے میں  اپنی تعلیم جاری رکھنے کی ترغیب دی۔ 1974 ‏ءمیں اپنا ڈپلومہ حاصل کرنے کے بعد، امیر معزی اپنے خاندان کی رضامندی سے اپنی تعلیم جاری رکھنے کے لیے پیرس گئے اور سوربون اعلی تعلیم سکول  میں تعلیم حاصل کی۔ اس نے دو سال تک کوربن کے  درس میں شرکت  کی اور کوربن نے  اسے شیعیت خاص کر شیعه مذهب کے ابتدائی تحریروں  کا مطالعہ کرنے کی ترغیب دی۔
جب  ہینری کوربن نے نوجوان طالب علم کی فلسفیانہ، مذہبی اور صوفیانہ مسائل میں دلچسپی دیکھی،  تو  اس نے اسے فرانس آنے  اور پیرس میں اسلامیات کے شعبے میں  اپنی تعلیم جاری رکھنے کی ترغیب دی۔ 1974 ‏ءمیں اپنا ڈپلومہ حاصل کرنے کے بعد، امیر معزی اپنے خاندان کی رضامندی سے اپنی تعلیم جاری رکھنے کے لیے پیرس گئے اور سوربون اعلی تعلیم سکول  میں تعلیم حاصل کی۔ اس نے دو سال تک کوربن کے  درس میں شرکت  کی اور کوربن نے  اسے شیعیت خاص کر شیعه مذهب کے ابتدائی تحریروں  کا مطالعہ کرنے کی ترغیب دی۔
اسلامی علوم کی تعلیم کے ساتھ ساتھ انهوں نے مشرقی زبان  لینگویج سنٹر  میں عربی سیکھنا شروع کی اور تھوڑا  بهت  پہلوی، یونانی اور لاطینی بھی سیکھا۔ برسوں بعد، امیر معزی نے ڈینیئل  جیماره اور جین جولیوه کی رہنمائی میں( ابتدائی شیعہ متون میں امام  کا چهره )کے موضوع پر اپنا  تھیسز مکمل کیا اور عجیب اتفاق تھا  کہ اس نے ہنری کاربن ہال میں اپنے علمی مقالے کا دفاع کیا۔ 1988 ءمیں اپنے پروفیسر کی ریٹائر کے بعد وہ پہلے اسسٹنٹ پروفیسر بنے اور پھر 1994 ءمیں اپنے استاد کا  عہده سنبھالا.
اسلامی علوم کی تعلیم کے ساتھ ساتھ انهوں نے مشرقی زبان  لینگویج سنٹر  میں عربی سیکھنا شروع کی اور تھوڑا  بهت  پہلوی، یونانی اور لاطینی بھی سیکھا۔ برسوں بعد، امیر معزی نے ڈینیئل  جیماره اور جین جولیوه کی رہنمائی میں( ابتدائی [[شیعہ]] متون میں امام  کا چهره )کے موضوع پر اپنا  تھیسز مکمل کیا اور عجیب اتفاق تھا  کہ اس نے ہنری کاربن ہال میں اپنے علمی مقالے کا دفاع کیا۔ 1988 ءمیں اپنے پروفیسر کی ریٹائر کے بعد وہ پہلے اسسٹنٹ پروفیسر بنے اور پھر 1994 ءمیں اپنے استاد کا  عہده سنبھالا.
<ref>[https://www.naqdedini.org/139909-06/ شیعه پژوهی تاریخی با رویکردی انتقادی: معرفی دیدگاه‌های محمدعلی امیرمعزّی] (تنقیدی نقطه نظر کے ساتھ شیعیت کی  تاریخی تحقیق: محمد علی امیر معزی کے نظریات کا تعارف)-www.naqdedini.org (زبان فارسی)- تاریخ درج شده: 21/نومبر/2023 ء تاریخ اخذ شده:18/جولائی/ 2024ء</ref>
<ref>[https://www.naqdedini.org/139909-06/ شیعه پژوهی تاریخی با رویکردی انتقادی: معرفی دیدگاه‌های محمدعلی امیرمعزّی] (تنقیدی نقطه نظر کے ساتھ شیعیت کی  تاریخی تحقیق: محمد علی امیر معزی کے نظریات کا تعارف)-www.naqdedini.org (زبان فارسی)- تاریخ درج شده: 21/نومبر/2023 ء تاریخ اخذ شده:18/جولائی/ 2024ء</ref>


سطر 24: سطر 24:
پہلا مقدمه : رسول اللہ (ص)  کی ذمه داری  بنیادی طور پر  آخرالزمان کا اعلان تھی ۔ ان کے نزدیک قرآن کے آخری تیس سورے  اور دیگر درجنوں آیات رسول اللہ(ص)  کے اسی مشن اور نقطہ نظر کو ظاہر کرتی ہیں۔
پہلا مقدمه : رسول اللہ (ص)  کی ذمه داری  بنیادی طور پر  آخرالزمان کا اعلان تھی ۔ ان کے نزدیک قرآن کے آخری تیس سورے  اور دیگر درجنوں آیات رسول اللہ(ص)  کے اسی مشن اور نقطہ نظر کو ظاہر کرتی ہیں۔
دوسرا مقدمه: قرآن اور رسول اللہ (ص)  دونوں کا تعلق ایک یہودی عیسائی (مسیهودی) ثقافت سے ہے جو ابھی تک  موعود کا منتظر ہیں۔ فطری طور پر ایسے ماحول میں تشکیل پانے والے قرآن سے مسیح موعود کا اعلان متوقع تھا۔
دوسرا مقدمه: قرآن اور رسول اللہ (ص)  دونوں کا تعلق ایک یہودی عیسائی (مسیهودی) ثقافت سے ہے جو ابھی تک  موعود کا منتظر ہیں۔ فطری طور پر ایسے ماحول میں تشکیل پانے والے قرآن سے مسیح موعود کا اعلان متوقع تھا۔
یہ مسیح موعود، جس کا اعلان قرآن کر رہا ہے، علی ابن ابی طالب علیہ السلام ہیں۔ امیر معزی کو مغرب کے شیعہ  محققین میں سے ایک کے طور پر جانا جاتا ہے۔ لیکن ان کے شیعہ تحقیقی نظریات کا نتیجہ غالی شیعوں کا نظریہ ہے جسے پوری تاریخ میں اهل تشیع کی طرف سے  رد کیا گیا ہے۔
یہ مسیح موعود، جس کا اعلان قرآن کر رہا ہے، [[علی ابن ابی طالب]] علیہ السلام ہیں۔ امیر معزی کو مغرب کے شیعہ  محققین میں سے ایک کے طور پر جانا جاتا ہے۔ لیکن ان کے شیعہ تحقیقی نظریات کا نتیجہ غالی شیعوں کا نظریہ ہے جسے پوری تاریخ میں اهل تشیع کی طرف سے  رد کیا گیا ہے۔
ان کا عقیدہ ہے کہ اصل شیعہ جس کی  ائمہ علیہم السلام نے تائید کی ہیں    وہی شیعیت ہے جس کو شیعہ علماء کے هاں غلو کے نام پر یاد کیا جاتا ہے  اور اگر ائمہ علیہم السلام کے بیان میں بھی اس کی  مذمت ملتی هے تو اصل نظر یے کی وجه سے نهیں  بلکہ راز سے پردہ اٹھانے کی وجه  سے اس فکر کی مذمت کی گئی۔
ان کا عقیدہ ہے کہ اصل شیعہ جس کی  ائمہ علیہم السلام نے تائید کی ہیں    وہی شیعیت ہے جس کو شیعہ علماء کے هاں غلو کے نام پر یاد کیا جاتا ہے  اور اگر ائمہ علیہم السلام کے بیان میں بھی اس کی  مذمت ملتی هے تو اصل نظر یے کی وجه سے نهیں  بلکہ راز سے پردہ اٹھانے کی وجه  سے اس فکر کی مذمت کی گئی۔
ان کا خیال ہے کہ اسماعیلی نقطہ نظر میں امام کے لیے ہر لحاظ سے اعلیٰ اقدار  کا خیال رکھا گیا ہے  اور وہ شیعہ کے تعارف میں اسماعیلی کتابوں کا حوالہ دیتے ہیں۔ پہلی صدیوں میں اس شیعیت کی تعلیمات میں سے ایک- قرآن کی تحریف کا عقیدہ تھا۔ ڈاکٹر امیر معزی اور ان کے ساتھیوں کا خیال ہے کہ ہمارے پاس موجود قرآن عبدالملک مروان کے دور میں (65 سے 86 ہجری تک)مرتب کیا گیا ہے۔
ان کا خیال ہے کہ اسماعیلی نقطہ نظر میں امام کے لیے ہر لحاظ سے اعلیٰ اقدار  کا خیال رکھا گیا ہے  اور وہ شیعہ کے تعارف میں اسماعیلی کتابوں کا حوالہ دیتے ہیں۔ پہلی صدیوں میں اس شیعیت کی تعلیمات میں سے ایک- قرآن کی تحریف کا عقیدہ تھا۔ ڈاکٹر امیر معزی اور ان کے ساتھیوں کا خیال ہے کہ ہمارے پاس موجود قرآن عبدالملک مروان کے دور میں (65 سے 86 ہجری تک)مرتب کیا گیا ہے۔
187

ترامیم