Jump to content

"اخوان المسلمین ایران" کے نسخوں کے درمیان فرق

کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 9: سطر 9:
}}
}}


'''اخوان المسلمین''' ایک بین الاقوامی سنی اسلامی تحریک ہے جو کئی عرب ممالک میں مقبول ہے۔ اخوان المسلمین عرب دنیا کی سب سے بڑی اسلامی تحریک ہے۔ اخوان المسلمین اسلامی مذاہب کے اتحاد  اور اسلامی جمہوریہ ایران کے حامی ہے اور اسرائیلی حکومت کے خلاف ہے۔ اخوان المسلمین کا ایک  شاخ  ایران میں بھی کام کرتی ہے۔ یہ تحریک صوبہ سیستان و بلوچستان اور ایران کے صوبہ کردستان میں جماعت دعوت و اصلاح کے عنوان سے سرگرم ہے اور اس کا ایک مرکزی  دفتر تہران میں ہے۔ اس  جماعت  کے بانی ناصر سبحانی  اور اس کے سیکرٹری جنرل عبدالرحمن پیرانی ہیں۔
'''اخوان المسلمین''' ایک بین الاقوامی سنی اسلامی تحریک ہے جو کئی عرب ممالک میں مقبول ہے۔ اخوان المسلمین عرب دنیا کی سب سے بڑی اسلامی تحریک ہے۔ [[اخوان المسلمین]] اسلامی مذاہب کے اتحاد  اور اسلامی جمہوریہ ایران کے حامی ہے اور اسرائیلی حکومت کے خلاف ہے۔ اخوان المسلمین کا ایک  شاخ  ایران میں بھی کام کرتی ہے۔ یہ تحریک صوبہ سیستان و بلوچستان اور ایران کے صوبہ کردستان میں جماعت دعوت و اصلاح کے عنوان سے سرگرم ہے اور اس کا ایک مرکزی  دفتر تہران میں ہے۔ اس  جماعت  کے بانی ناصر سبحانی  اور اس کے سیکرٹری جنرل عبدالرحمن پیرانی ہیں۔
==تاسیس==  
==تاسیس==  
اخوان المسلمین کا نظریہ 1940 ءکی دہائی میں عراقی کردستان میں  مقیم ایرانی طلبا کے توسط سے ایران میں داخل هوا ۔ وجه یه تھی که  کچھ ایرانی طلباء جن  میں ابراہیم مردوخی، احمد بہرامی، علی رحمانی، عبداللہ ایرانی شامل هیں ، وہاں تعلیم حاصل کرنے گئے تھے، اخوان کے تصور سے متاثر ہوئے، اور عراق میں  پیش آنے والے وقعات اور مسائل کی وجه سے وه لوگ ایران واپس آئے اور اس  فکر  کو فروغ دیا۔ سنه  پچاس کی دہائی میں، بارزانی حکومت اور عراق کی مرکزی حکومت کے درمیان جنگ کے نتیجے میں، ایرانی اور عراقی طلباء، کچھ عراقی کردستانیوں کے ساتھ، ایران  آگئے اور ایرانی کردستان میں آباد ہوئے۔ یہ مرحلہ  50 ش کی دہائی کے وسط سے شروع ہوتا ہے اور اسی وقت جب اخوان المسلمین کے نظریات سے متاثر طلباء عراق سے واپس ایران کے کردستان پہنچے اور  1361  ش تک جاری رہے۔  ظاهری  بات ہے کہ  کچھ افراد پر مشتمل گروه کے لئے منظم انداز میں بڑی تنظیم چلانا آسان کام نہیں  تھا اس لئے انہوں نے اس کا حل تلاش کیا اور انهوں نے یه حل  دیکھا کہ احمد مفتی زادہ کے پاس جائیں- جو اس وقت ایک بااثر شخصیت کے مالک تھے اور ایک مذہبی اور قرآنی  شخصیت  کے طور پر سرگرم تھے -  ان کے سامنے اپنے خیالات پیش کریں۔  انهوں نے مفتی زاده  کی راهنمائی میں  قرآنی  مرکز کے قیام کے بعد،  ثقافتی سرگرمیاں شروع کیں اور ایک لائبریری بنائی، مذہبی مجالس منعقد کیں اور ایک رسالہ شائع کیا۔
اخوان المسلمین کا نظریہ 1940 ءکی دہائی میں عراقی کردستان میں  مقیم ایرانی طلبا کے توسط سے ایران میں داخل هوا ۔ وجه یه تھی که  کچھ ایرانی طلباء جن  میں ابراہیم مردوخی، احمد بہرامی، علی رحمانی، عبداللہ ایرانی شامل هیں ، وہاں تعلیم حاصل کرنے گئے تھے، اخوان کے تصور سے متاثر ہوئے، اور [[عراق]] میں  پیش آنے والے وقعات اور مسائل کی وجه سے وه لوگ ایران واپس آئے اور اس  فکر  کو فروغ دیا۔ سنه  پچاس کی دہائی میں، بارزانی حکومت اور عراق کی مرکزی حکومت کے درمیان جنگ کے نتیجے میں، ایرانی اور عراقی طلباء، کچھ عراقی کردستانیوں کے ساتھ، [[ایران]] آگئے اور ایرانی کردستان میں آباد ہوئے۔ یہ مرحلہ  50 ش کی دہائی کے وسط سے شروع ہوتا ہے اور اسی وقت جب اخوان المسلمین کے نظریات سے متاثر طلباء عراق سے واپس ایران کے کردستان پہنچے اور  1361  ش تک جاری رہے۔  ظاهری  بات ہے کہ  کچھ افراد پر مشتمل گروه کے لئے منظم انداز میں بڑی تنظیم چلانا آسان کام نہیں  تھا اس لئے انہوں نے اس کا حل تلاش کیا اور انهوں نے یه حل  دیکھا کہ احمد مفتی زادہ کے پاس جائیں- جو اس وقت ایک بااثر شخصیت کے مالک تھے اور ایک مذہبی اور قرآنی  شخصیت  کے طور پر سرگرم تھے -  ان کے سامنے اپنے خیالات پیش کریں۔  انهوں نے مفتی زاده  کی راهنمائی میں  [[قرآن|قرآنی]] مرکز کے قیام کے بعد،  ثقافتی سرگرمیاں شروع کیں اور ایک لائبریری بنائی، مذہبی مجالس منعقد کیں اور ایک رسالہ شائع کیا۔
اخوان المسلمین ایران کے راهنماؤں نے گروپ کی شکل میں دیگر اسلام پسند تنظیموں کے ساتھ مل کر  اپنی فعالیتوں کا آغاز  کیا اور مفتی زادہ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے مذہبی سرگرمیوں میں مصروف ہو گئے۔ مفتی زادہ کے ساتھ  تعلقات بر قرار کرنے کے علاوہ انہوں نے خود با همی جلسات  منعقد کرنا شروع کیا  اور عراقی اخوان المسلمین کے ساتھ بھی تعلق قائم کرنے کی کوشش کی جو اخوان المسلمین مصر  کی ایک شاخ تھی۔
اخوان المسلمین ایران کے راهنماؤں نے گروپ کی شکل میں دیگر [[اسلام]] پسند تنظیموں کے ساتھ مل کر  اپنی فعالیتوں کا آغاز  کیا اور مفتی زادہ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے مذہبی سرگرمیوں میں مصروف ہو گئے۔ مفتی زادہ کے ساتھ  تعلقات بر قرار کرنے کے علاوہ انہوں نے خود با همی جلسات  منعقد کرنا شروع کیا  اور عراقی اخوان المسلمین کے ساتھ بھی تعلق قائم کرنے کی کوشش کی جو اخوان المسلمین [[مصر]] کی ایک شاخ تھی۔
کردستان کے علاوہ کرمانشاہ کے علاقے میں بھی  اخوان المسلمین کا تصور دو طرح سے پروان چڑھا۔ ایک احمد بہرامی، عبدالقادر توحیدی اور محمود نادری جیسے لوگ جنہوں نے عراق میں تعلیم حاصل کی اور اخوان المسلمین کے رکن بنے اور دوسرے ناصر سبحانی، عبدالرحمٰن یعقوبی اور حیدر ضیائی جیسے لوگ جنہوں نے ایران میں اخوان المسلمین کی کتابوں کے مطالعه کے ذریعے آگاهی حاصل کئے تھے ، اخوان کے ممبر بنے۔<ref>[https://www.alwahabiyah.com/fa/Mainstreamingview/36690/%D8%A2%D8%B4%D9%86%D8%A7%DB%8C%DB%8C-%D8%A8%D8%A7-%D8%AC%D9%85%D8%A7%D8%B9%D8%AA-%D8%A7%D8%B5%D9%84%D8%A7%D8%AD-%D9%88-%D8%AF%D8%B9%D9%88%D8%AA-%D8%A7%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D9%86-(1) آشنایی با جماعت اصلاح و دعوت ایران] ( ایران کی اصلاح اور دعوت جماعت کی شناخت )-www.alwahabiyah.com (زبان فارسی)- تاریخ درج شده: 7/دسمبر/2021 ء تاریخ اخذ شده:  8جون 2024ء۔</ref>
کردستان کے علاوہ کرمانشاہ کے علاقے میں بھی  اخوان المسلمین کا تصور دو طرح سے پروان چڑھا۔ ایک احمد بہرامی، عبدالقادر توحیدی اور محمود نادری جیسے لوگ جنہوں نے عراق میں تعلیم حاصل کی اور اخوان المسلمین کے رکن بنے اور دوسرے ناصر سبحانی، عبدالرحمٰن یعقوبی اور حیدر ضیائی جیسے لوگ جنہوں نے ایران میں اخوان المسلمین کی کتابوں کے مطالعه کے ذریعے آگاهی حاصل کئے تھے ، اخوان کے ممبر بنے۔<ref>[https://www.alwahabiyah.com/fa/Mainstreamingview/36690/%D8%A2%D8%B4%D9%86%D8%A7%DB%8C%DB%8C-%D8%A8%D8%A7-%D8%AC%D9%85%D8%A7%D8%B9%D8%AA-%D8%A7%D8%B5%D9%84%D8%A7%D8%AD-%D9%88-%D8%AF%D8%B9%D9%88%D8%AA-%D8%A7%DB%8C%D8%B1%D8%A7%D9%86-(1) آشنایی با جماعت اصلاح و دعوت ایران] ( ایران کی اصلاح اور دعوت جماعت کی شناخت )-www.alwahabiyah.com (زبان فارسی)- تاریخ درج شده: 7/دسمبر/2021 ء تاریخ اخذ شده:  8جون 2024ء۔</ref>


==جماعت کا نصب العین==
==جماعت کا نصب العین==
ایران کی سر زمین اس ملک کے تمام باشندوں کی ملکیت هے اور  نسلی، مذہبی، فکری اور سیاسی تنوع متوازن اور پائیدار ترقی کا ایک موقع ہے اور ایک مخصوص شناخت سے تعلق نہ تو خصوصی حقوق پیدا کرنے کا ذریعہ ہے اور نہ ہی شہریت کے حقوق سے محرومی کا سبب ہے۔ اسلام  کی تعلیمات میں انسانی معاشروں میں اختلافات اور تنوع کو سماجی تعلقات میں قیمتی مواقع کے طور پر اہمیت دی گئی ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے آئین نے دین اسلام کی تعلیمات سے متاثر ہوکر تکثیریت کو تسلیم کیا ہے اور تمام شہریوں کی شرکت اور ملک کی نعمتوں سے استفادہ کرنے پر زور دیا ہے۔ بلاشبہ، متحرک عوامی تنظیموں کی تشکیل اور سرگرمی کے لیے بنیاد فراہم کرنا،  اس معاملے کی تکمیل کے لیے ضروری ہے۔  
ایران کی سر زمین اس ملک کے تمام باشندوں کی ملکیت هے اور  نسلی، مذہبی، فکری اور سیاسی تنوع متوازن اور پائیدار ترقی کا ایک موقع ہے اور ایک مخصوص شناخت سے تعلق نہ تو خصوصی حقوق پیدا کرنے کا ذریعہ ہے اور نہ ہی شہریت کے حقوق سے محرومی کا سبب ہے۔ اسلام  کی تعلیمات میں انسانی معاشروں میں اختلافات اور تنوع کو سماجی تعلقات میں قیمتی مواقع کے طور پر اہمیت دی گئی ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے آئین نے دین اسلام کی تعلیمات سے متاثر ہوکر تکثیریت کو تسلیم کیا ہے اور تمام شہریوں کی شرکت اور ملک کی نعمتوں سے استفادہ کرنے پر زور دیا ہے۔ بلاشبہ، متحرک عوامی تنظیموں کی تشکیل اور سرگرمی کے لیے بنیاد فراہم کرنا،  اس معاملے کی تکمیل کے لیے ضروری ہے۔  
مندرجہ بالا  مطالب اور آیت کریمه «وَتَعَاوَنُواْ عَلَى الْبرِّ وَالتَّقْوَى وَلاَ تَعَاوَنُواْ عَلَى الإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ»  کے مفاد سے یه نتیجه نکالا جا سکتا هے که شہریوں  کی ذمه داری نسلی، قومی اور مذہبی اختلافات سے قطع نظر  معاشرتی فعالیتوں میں شرکت  ، با همی  تعاون اور  ایک دوسرے  کی خدمت ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت میں ایک دوسرے کے ساتھ حسن سلوک، رحمدلی، دوستی اور مہربانی کی تاکید کی گئی ہے
مندرجہ بالا  مطالب اور آیت کریمه «وَتَعَاوَنُواْ عَلَى الْبرِّ وَالتَّقْوَى وَلاَ تَعَاوَنُواْ عَلَى الإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ»  کے مفاد سے یه نتیجه نکالا جا سکتا هے که شہریوں  کی ذمه داری نسلی، قومی اور مذہبی اختلافات سے قطع نظر  معاشرتی فعالیتوں میں شرکت  ، با همی  تعاون اور  ایک دوسرے  کی خدمت ہے۔ [[رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم|رسول اللہ]] (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت میں ایک دوسرے کے ساتھ حسن سلوک، رحمدلی، دوستی اور مہربانی کی تاکید کی گئی ہے
دعوت و اصلاح جماعت کا نصب العین  توحید ی تصور کائنات ،  قرآن کریم  کی تعلیمات  کی طرف رجوع ،  سنت نبوی کی حاکمیت ،  تنوع اور رواداری پر یقین، تعاون اور خیر خواہی کی ضرورت، سماجی سرگرمیوں میں شرکت اور  انسانوں کی خدمت پر مبنی ہے۔  
دعوت و اصلاح جماعت کا نصب العین  توحید ی تصور کائنات ،  قرآن کریم  کی تعلیمات  کی طرف رجوع ،  سنت نبوی کی حاکمیت ،  تنوع اور رواداری پر یقین، تعاون اور خیر خواہی کی ضرورت، سماجی سرگرمیوں میں شرکت اور  انسانوں کی خدمت پر مبنی ہے۔  


==اهداف اور پالیسیاں==
==اهداف اور پالیسیاں==
=====1 - اهداف=====
=====1 - اهداف=====
1- معنویت  اور اخلاقی فضائل کو فروغ دینا۔
# 1- معنویت  اور اخلاقی فضائل کو فروغ دینا۔
2- ملک کی متوازن اور پائیدار ترقی کے لیے کام کرنا۔
# 2- ملک کی متوازن اور پائیدار ترقی کے لیے کام کرنا۔
3- مساوات اور شہریت کے حقوق پر زور دے کر قومی یکجہتی اور ہم آہنگی کو مضبوط کرنا۔
# 3- مساوات اور شہریت کے حقوق پر زور دے کر قومی یکجہتی اور ہم آہنگی کو مضبوط کرنا۔
4- قانون کی حکمرانی کے اصول کو ادارہ جاتی بنانا اور قانونی طریقہ کار کے ذریعے اس میں ترمیم کرنا۔
# 4- قانون کی حکمرانی کے اصول کو ادارہ جاتی بنانا اور قانونی طریقہ کار کے ذریعے اس میں ترمیم کرنا۔
5- آزادی، انسانی حقوق، خواتین اور بچوں کے حقوق، ماحولیاتی تحفظ، امن، تشدد اور تنوع کی نفی جیسی اقدار کو فروغ دینا؛
# 5- آزادی، انسانی حقوق، خواتین اور بچوں کے حقوق، ماحولیاتی تحفظ، امن، تشدد اور تنوع کی نفی جیسی اقدار کو فروغ دینا؛
6- اسلامی معاشرتی نظام  کے مجموعه کے طور پر خاندانی نظام  کو مضبوط کرنا۔
# 6- اسلامی معاشرتی نظام  کے مجموعه کے طور پر خاندانی نظام  کو مضبوط کرنا۔
7- با اهمی مشاورت اور اجتماعی تعقل کی بنیاد کو مضبوط کرنا۔
# 7- با اهمی مشاورت اور اجتماعی تعقل کی بنیاد کو مضبوط کرنا۔
=====2 - پالیسیاں=====
=====2 - پالیسیاں=====
1-  فکری اور عملی اعتبار سے با همی گفتگو، رواداری ، مسالمت آمیز  زندگی  اور اعتدال اور توازن  کی پاسداری۔
1-  فکری اور عملی اعتبار سے با همی گفتگو، رواداری ، مسالمت آمیز  زندگی  اور اعتدال اور توازن  کی پاسداری۔
158

ترامیم