Jump to content

"شام" کے نسخوں کے درمیان فرق

کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 60: سطر 60:
== شام پر مسلط جنگ کا مقصد ==
== شام پر مسلط جنگ کا مقصد ==
شام کے سابق صدر حافظ الاسد کی رحلت کے فورا بعد 2001ء میں شام کے نظام کو بدلنے کا پروگرام بنایا گیا۔ شام کو کمزور کرنے کے پیچھے دشمن کا مقصد اسرائیل کی سکیورٹی کو یقینی بنانا، ناجائز صہیونی ریاست کو تسلیم کروانا اور عظیم اسرائیل کے منصوبے کی تکمیل تھا۔ شام پر مسلط کی گئی جنگ کا مقصد جمہوریت لانا اور عوام کو آزادی دلانا وغیرہ نہیں تھا۔ شامی حکومت کا قصور یہ تھا کہ اس نے خطے میں اسرائیلی بالادستی کو  ماننے سے انکار کر دیا تھا۔ فلسطینی مہاجرین کی پشت پناہی اور فلسطینی و لبنانی مقاومت کی ہر ممکن مدد بھی دمشق حکومت کا جرم تصور کی گئی۔ اسی طرح دمشق، تہران اور بیروت سے قریبی تعلقات  بھی باعث بنے کہ شام کے دشمن نے دمشق کو سبق سکھانے کے لیے شدت پسندوں کے ذریعے شام پر جنگ مسلط کر دی۔ دشمن کی طرف سے مسلط شدہ اس جنگ میں ایران، روس، چین، حزب اللہ اور خطے کے دیگر مقاومتی گروہ شام کے اتحادی تھے۔ اس جنگ میں تمام عالمی و علاقائی سامراجی طاقتوں اور خلیجی بادشاہوں کے علاوہ مسلح شدت پسند تکفیری گروہوں نے اسرائیل  کی حمایت کی۔ اسرائیل کی پشت پناہ  عالمی سامراجی طاقتوں میں امریکہ کے علاوہ فرانس اور برطانیہ پیش پیش تھے۔ عالمی سامراجی طاقتیں اس جنگ کے ذریعے خطے کے تیل و گیس کے ذخائر اور سیاسی نظم و نسق پر کنٹرول چاہتی تھیں کیونکہ اس خطے پر کنٹرول پوری دنیا پر کنٹرول کو مضبوط بنا دیتا ہے۔ اس جنگ میں سعودی عرب، ترکی اور امارت وغیرہ اسرائیل کے پشت پناہ تھے۔ ان علاقائی ممالک میں سے ترکی اس جنگ کے نتیجے میں دمشق حکومت کو سرنگوں کرکے شام، فلسطین اور اردن پر بالادستی حاصل کرکے یہاں خلافت قائم کرنے کا  خواب دیکھ رہا تھا۔ خلیجی ممالک اس جنگ کے نتیجے کو اپنی ملوکیت بجانے کی آخری کوشش تصور کررہے تھے <ref>ایضا، ص299-300</ref>۔
شام کے سابق صدر حافظ الاسد کی رحلت کے فورا بعد 2001ء میں شام کے نظام کو بدلنے کا پروگرام بنایا گیا۔ شام کو کمزور کرنے کے پیچھے دشمن کا مقصد اسرائیل کی سکیورٹی کو یقینی بنانا، ناجائز صہیونی ریاست کو تسلیم کروانا اور عظیم اسرائیل کے منصوبے کی تکمیل تھا۔ شام پر مسلط کی گئی جنگ کا مقصد جمہوریت لانا اور عوام کو آزادی دلانا وغیرہ نہیں تھا۔ شامی حکومت کا قصور یہ تھا کہ اس نے خطے میں اسرائیلی بالادستی کو  ماننے سے انکار کر دیا تھا۔ فلسطینی مہاجرین کی پشت پناہی اور فلسطینی و لبنانی مقاومت کی ہر ممکن مدد بھی دمشق حکومت کا جرم تصور کی گئی۔ اسی طرح دمشق، تہران اور بیروت سے قریبی تعلقات  بھی باعث بنے کہ شام کے دشمن نے دمشق کو سبق سکھانے کے لیے شدت پسندوں کے ذریعے شام پر جنگ مسلط کر دی۔ دشمن کی طرف سے مسلط شدہ اس جنگ میں ایران، روس، چین، حزب اللہ اور خطے کے دیگر مقاومتی گروہ شام کے اتحادی تھے۔ اس جنگ میں تمام عالمی و علاقائی سامراجی طاقتوں اور خلیجی بادشاہوں کے علاوہ مسلح شدت پسند تکفیری گروہوں نے اسرائیل  کی حمایت کی۔ اسرائیل کی پشت پناہ  عالمی سامراجی طاقتوں میں امریکہ کے علاوہ فرانس اور برطانیہ پیش پیش تھے۔ عالمی سامراجی طاقتیں اس جنگ کے ذریعے خطے کے تیل و گیس کے ذخائر اور سیاسی نظم و نسق پر کنٹرول چاہتی تھیں کیونکہ اس خطے پر کنٹرول پوری دنیا پر کنٹرول کو مضبوط بنا دیتا ہے۔ اس جنگ میں سعودی عرب، ترکی اور امارت وغیرہ اسرائیل کے پشت پناہ تھے۔ ان علاقائی ممالک میں سے ترکی اس جنگ کے نتیجے میں دمشق حکومت کو سرنگوں کرکے شام، فلسطین اور اردن پر بالادستی حاصل کرکے یہاں خلافت قائم کرنے کا  خواب دیکھ رہا تھا۔ خلیجی ممالک اس جنگ کے نتیجے کو اپنی ملوکیت بجانے کی آخری کوشش تصور کررہے تھے <ref>ایضا، ص299-300</ref>۔
== مقاومت کو شام کی پالیسی میں مرکزی حیثیت حاصل ہے ==
مقاومت کو شام کی پالیسی میں مرکزی حیثیت حاصل ہے، شامی صدر بشار الاسد
شام کے صدر بشار الاسد نے ایرانی عبوری وزیرخارجہ سے ملاقات کے دوران کہا کہ مقاومت کو شام کی پالیسی میں اہم اور مرکزی حیثیت حاصل ہے۔
مہر خبررساں ایجنسی کے مطابق، ایرانی عبوری وزیرخارجہ علی باقری کنی نے دمشق میں شام کے صدر بشار الاسد سے ملاقات کی اور [[فلسطین]] سمیت خطے کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
اس ملاقات کے دوران شام کے صدر نے کہا کہ قوموں کو استعماری طاقتوں کے خلاف اپنے وجود کا اظہار کرنا چاہئے ورنہ یہ طاقتیں کمزور اقوام کو نگل لیں گی۔
انہوں نے کہا مقاومت نے [[اسرائیل|صہیونی حکومت]] کو شکست دے کر گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا۔ مجاہدین کے سامنے شکست کے بعد صہیونی حکومت نے سویلین کو نشانہ بنانا شروع کردیا ہے۔
ملاقات کے دوران علی باقری کنی نے کہا کہ ایران اور شام کے تعلقات کی بنیادیں مضبوط ہیں اور دونوں ممالک خلوص نیت کے ساتھ ایک دوسرے کا ساتھ دے رہیں۔
علی باقری نے شام کے دو روزہ دورے کے دوران شامی وزیرخارجہ فیصل مقداد اور مقاومتی رہنماؤں کے ساتھ بھی ملاقاتیں کیں<ref>[https://ur.mehrnews.com/news/1924509/%D9%85%D9%82%D8%A7%D9%88%D9%85%D8%AA-%DA%A9%D9%88-%D8%B4%D8%A7%D9%85-%DA%A9%DB%8C-%D9%BE%D8%A7%D9%84%DB%8C%D8%B3%DB%8C-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D9%85%D8%B1%DA%A9%D8%B2%DB%8C-%D8%AD%DB%8C%D8%AB%DB%8C%D8%AA-%D8%AD%D8%A7%D8%B5%D9%84-%DB%81%DB%92-%D8%A8%D8%B4%D8%A7%D8%B1-%D8%A7%D9%84%D8%A7%D8%B3%D8%AF مقاومت کو شام کی پالیسی میں مرکزی حیثیت حاصل ہے، بشار الاسد]-/ur.mehrnews.com-شائع شدہ از: 5 جون 2024ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 5 جون 2024ء۔</ref>۔


== حوالہ جات ==
== حوالہ جات ==