3,719
ترامیم
Saeedi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
Saeedi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) |
||
سطر 5: | سطر 5: | ||
اس سلسلے کے بانی محمد بہاالدین نقشبند کی پیدائش بُخارا شہر کے قریب ایک قصبے قصر عرفان میں 1318 میں ہوئی۔ آپ سادات گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ نقشبندی صوفی سلسلہ وہ واحد سلسلہ ہے جس کی نسبت خلیفہ اول [[ابوبکر بن ابی قحافہ|حضرت ابوبکر صدیق]] سے ہے جبکہ باقی سلسلوں کو [[علی ابن ابی طالب|حضرت علی رضی اللہ عنہ مولا مشکل کشا]] سے منسوب کیا جا تا ہے۔ برصغیر(ہند و پاک) میں نقشبندیہ سلسلے کے سب سے بڑے بزرگ حضرت احمد شیخ سرہندی مجدد الف ثانی ہیں۔ | اس سلسلے کے بانی محمد بہاالدین نقشبند کی پیدائش بُخارا شہر کے قریب ایک قصبے قصر عرفان میں 1318 میں ہوئی۔ آپ سادات گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ نقشبندی صوفی سلسلہ وہ واحد سلسلہ ہے جس کی نسبت خلیفہ اول [[ابوبکر بن ابی قحافہ|حضرت ابوبکر صدیق]] سے ہے جبکہ باقی سلسلوں کو [[علی ابن ابی طالب|حضرت علی رضی اللہ عنہ مولا مشکل کشا]] سے منسوب کیا جا تا ہے۔ برصغیر(ہند و پاک) میں نقشبندیہ سلسلے کے سب سے بڑے بزرگ حضرت احمد شیخ سرہندی مجدد الف ثانی ہیں۔ | ||
بہا الدین نقشبند کے روحانی شیخ کا نام خواجہ امیر کُلال ہے جن کا مزار آپ کے مزار سے 5 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ امیر کُلال ؒ کے مزار کے علاوہ حضرت بہاالدین کے پانچ اور روحانی شیخ بھی اسی علاقے میں آرام فرما ہیں۔ | بہا الدین نقشبند کے روحانی شیخ کا نام خواجہ امیر کُلال ہے جن کا مزار آپ کے مزار سے 5 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ امیر کُلال ؒ کے مزار کے علاوہ حضرت بہاالدین کے پانچ اور روحانی شیخ بھی اسی علاقے میں آرام فرما ہیں۔ | ||
== شیخ احمد سرہندی == | |||
شیخ احمد سرہندی سلسلہ نقشبندیہ سے وابستگی کے لئے پوری طرح یک سو ہو گئے۔ مجدد الف ثانی 1603ءمیں پھر دہلی تشریف لے گئے اور اپنے مرشد خواجہ باقی باللہ کی خدمت اقدس میں حاضری کی سعادت حاصل کی۔ بعد از آں مُجدد الف ثانی لاہور تشریف لے گئے، جہاں صوفیاءاور علماء نے ان کا دل کی گہرائیوں سے خیر مقدم کیا۔ لاہو رمیں قیام کے دوران آپ کو اپنے روحانی پیشوا حضرت خواجہ باقی باللہ کے سانحہ ارتحال کی خبر ملی، جس پر آپ نے لاہور کا قیام مختصر کر دیا اور دہلی تشریف لے گئے، جہاں انہیں سلسلہ نقشبندیہ کی سربراہی کا اعزاز عطا کیا گیااور اس حیثیت میں آپ کی دستاربندی ہوئی۔ | |||
یہ وہ گھڑی تھی جب شیخ احمد سرہندی کی شہرت پورے ہندوستان میں پھیل گئی اور دور دور سے لوگ ان سے کسب فیض کے لئے حاضر ہونے لگے۔ انہوں نے لوگوں کو اسلام کی حقیقی تعلیمات سے فیض یاب کیا۔ اس وقت ہندوستان میںدین اسلام کو بے شمار مسائل اور مشکلات کا سامنا تھا۔ اسلام کی تعلیمات پر ہندو دھرم کے اثرات ہویدا ہونے لگے تھے، اسلام کے اصل چہرے کو ہندومت کی دھند نے اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا اور یہ محسوس کیا جانے لگا کہ اہل اسلام کو اسلام کی اصل تصویر سے آشنا کیا جائے۔ اکبر کا دین الٰہی بھی اپنا کام دکھانے لگا تھا۔ | |||
انہوں نے ان تمام فتنوں کے خلاف مسلمانوں کو شعور اور آگہی عطا کی۔ علمائے سوء اور بھٹکے ہوئے صوفیاء نے اپنے اپنے مفادات کے تابع شیخ احمد کے راستے میں رکاوٹیں پیدا کرنے کی کوشش کی، لیکن شیخ احمد نے اپنے مرشد باقی باللہ کے سونپے ہوئے مشن اور نصب العین کو پورا کرنے کا پختہ عزم کر لیا تھا۔ | |||
اکبر اور جہانگیر کے دربار میں دوہزاری اور پنج ہزاری خلعتیں رکھنے والے متعدد درباری ان کے خلاف کھل کر سامنے آنے لگے۔ | |||
=== تبلیغی خدمات اور اثرات === | |||
ادھر حضرت کی تبلیغ کے ثمرات سامنے آنے لگے اور کئی اعلیٰ افسر شیخ احمد سرہندی کی تعلیمات سے متاثر ہو کر ان کے مرید بن گئے۔ سازشوں اور ریشہ دوانیوں سے متاثر ہو کر جہانگیر نے مجدد الف ثانی کے حامی کئی فوجی جرنیلوں کو دور دراز علاقوں میں تبدیل کر دیا اور آپ کے ایک خاص مرید جرنیل مہابت خان کو انتقام کے طور پر کابل بھیج دیا، لیکن ان کے پایۂ استقلال میں لغزش نہ آنے پائی اور انہوں نے لوگوں کو اللہ اور [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم]] کی تعلیمات کی طرف بلانے کا سلسلہ جاری رکھا۔ | |||
=== جہانگیر کے دربار میں حاضری === | |||
جہانگیر نے حکم دیا کہ مجدد الف ثانی ان کے دربار میں حاضر ہوں اور دربار کی روایت کے مطابق بادشاہ کو سجدئہ تعظیمی بجا لائیں۔ انہوں نے واشگاف الفاظ میں کہا کہ سجدہ صرف خدا تعالیٰ کو رواہے اور وہ اس کے سوا نہ کسی کے سامنے جھکے ہیں اور نہ جھکیں گے، کوئی فانی شخص سجدے کا سز اوار نہیں۔ بادشاہ مجدد الف ثانی کے اس اعلان حق پر مشتعل ہو گیا اور اس نے غصے میں بپھر کر یہ حکم دے دیا کہ حضرت مجدد الف ثانی کو گوالیار کے قلعہ میں بند کر دیا جائے۔ جہانگیر کے اس اقدام نے حضرت مجدد الف کے پیروکاروں کو سخت مضطرب کر دیا۔ | |||
=== بر صغیر پاک و ہند میں ان کی خدمات === | |||
حضرت شیخ احمد سرہندی ؒ مجدد الف ثانی رحمتہ اللہ علیہ کا وصال63سال کی عمر میں 26نومبر1624ءکو ہوا۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کے وصال سے تبلیغ، [[تصوف]]، معاشرتی اصلاح، تزکیہ و تقویٰ کا وہ سورج غروب ہو گیا جو خواجہ باقی باللہ کے بقول صوفیاء میں مانند ماہتاب تھا اور جس نے ہندوستان میں تصوف کے وہ چراغ روشن کئے، جن سے وہ آج تک منور چلا آرہا ہے۔ بعض بزرگ یہ فرماتے ہیں کہ عرب کے صحراؤں میں پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ظلمتوں کو اسلام کے نور سے کافور کرنے کا جو فرض سرانجام دیا تھا، ہندوستان میں ہزارہ دوم کے دوران اسے نئی زندگی اور نئی روح بخشنے کا شرف مجدد الف ثانی نے حاصل کیا۔ | |||
تجدید و اصلاح دین کے اس کام میں مجدد الف ثانی کا کوئی ثانی نہیں۔ انہوں نے اپنے مکاتیب ، دینی تصانیف اور ان کے خلفاءاور مریدوں کی تحریری کاوشوں نے متحدہ ہندوستان میں جو اب [[پاکستان]]، [[افغانستان]] اور بنگلہ دیش پر پھیلا ہوا ہے۔ لاکھوں لوگوں کے قلوب و اذہان کو اسلام کے سانچے میںڈھالا اور انہیں اس پیغام کی طرف بلایا جو بانی اسلام حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے گمراہ انسانیت کو صراط مستقیم پر لانے کے لئے لوگوں تک پہنچایا تھا۔ | |||
== برصغیر پاک و ہند میں نقشبندی سلسلے کے مزارات == | |||
خانقاہ عالیہ روضہ شریف برصغیر پاک و ہند میں نقشبندی سلسلے کے مزارات مقدسہ میں مقدس ترین مقام ہے۔ اس چشمہ۔ فیض کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ برصغیر کے طول و عرض سے ہزاروں افراد جوق در جوق فیض حاصل کرنے روضہ شریف آتے ہیں، اس وقت روضہ شریف کے سجادہ نشین سید محمد یحییٰ نقشبندی مجددی کے صاحبزادے سے محمد صادق رضا ہیں۔ روضہ شریف فتح گڑھ صاحب کے قریب سرہند بسی پٹھاناں روڈ پر واقع ہے<ref>[https://dailypakistan.com.pk/12-Jan-2013/32764 سر ہند شریف، اللہ والوں کی سرزمین(2)]-dailypakistan.com.pk- شائع شدہ از: 12جون 2013ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 29مئی 2024ء۔</ref>۔ | |||
== اولیاء کے مزارات == | == اولیاء کے مزارات == | ||
پاکستان سے واپسی پر مُجھے دو ہفتے کے لئے قرنطینہ ہونا پڑا جس کے لئے میں نے اپنے دوست غُلام مصطفٰی کے ہمراہ اُزبکستان کا انتخاب کیا۔ اس کی ایک وجہ ان بزرگ ہستیوں کے آستانوں پر حاضری دینا بھی تھی جس کیلئے ہم تاشقند سے بذریعہ ٹرین بُخارا پہنچے۔ اُزبک گورنمنٹ نے نقشبندیہ سلسلے کے اِن صُوفی بزرگوں کے مزارات پر خاص کمپلیکس تعمیر کروا دئیے ہیں جن میں ایک حصہ مسجد ، دوسرا حصہ مزار اور تیسرا حصہ گارڈن پر مشتمل ہے۔ زائرین ان سات مزاروں پر حاضری دیتے ہیں اور روحانی تسکین حاصل کرتے ہیں۔ اس کے لیے اُزبک گورنمنٹ نے ایک نقشہ جاری کیا ہے جس پر ایک مزار سے دوسرے مزار کا فاصلہ اور سمت درج ہے<ref>[https://www.siasat.pk/threads/%D9%86%D9%82%D8%B4%D8%A8%D9%86%D8%AF%DB%8C-%D8%B5%D9%8F%D9%88%D9%81%DB%8C-%D8%B3%D9%84%D8%B3%D9%84%DB%81.796821/ نقشبندی صُوفی سلسلہ]-siasat.pk/threads-شائع شدہ از: 8ستمبر 2021ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 29مئی 2024ء۔</ref>۔ | پاکستان سے واپسی پر مُجھے دو ہفتے کے لئے قرنطینہ ہونا پڑا جس کے لئے میں نے اپنے دوست غُلام مصطفٰی کے ہمراہ اُزبکستان کا انتخاب کیا۔ اس کی ایک وجہ ان بزرگ ہستیوں کے آستانوں پر حاضری دینا بھی تھی جس کیلئے ہم تاشقند سے بذریعہ ٹرین بُخارا پہنچے۔ اُزبک گورنمنٹ نے نقشبندیہ سلسلے کے اِن صُوفی بزرگوں کے مزارات پر خاص کمپلیکس تعمیر کروا دئیے ہیں جن میں ایک حصہ مسجد ، دوسرا حصہ مزار اور تیسرا حصہ گارڈن پر مشتمل ہے۔ زائرین ان سات مزاروں پر حاضری دیتے ہیں اور روحانی تسکین حاصل کرتے ہیں۔ اس کے لیے اُزبک گورنمنٹ نے ایک نقشہ جاری کیا ہے جس پر ایک مزار سے دوسرے مزار کا فاصلہ اور سمت درج ہے<ref>[https://www.siasat.pk/threads/%D9%86%D9%82%D8%B4%D8%A8%D9%86%D8%AF%DB%8C-%D8%B5%D9%8F%D9%88%D9%81%DB%8C-%D8%B3%D9%84%D8%B3%D9%84%DB%81.796821/ نقشبندی صُوفی سلسلہ]-siasat.pk/threads-شائع شدہ از: 8ستمبر 2021ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 29مئی 2024ء۔</ref>۔ |