Jump to content

"علی عبد الرازق" کے نسخوں کے درمیان فرق

سطر 44: سطر 44:
== کتاب کا محتوا ==
== کتاب کا محتوا ==
مولف نے اس کتاب میں اسلامی حکومت کے بنیادی اصول وتصورات بیان فرمائے ہیں۔ یہ کتاب پہلی مرتبہ ایک ایسے موضوع پر لکھی گئی تھی جو مسلمانان عالم کے نزدیک صدیوں تک ناقابل تردید رہا اور جسے امر خداوندی سمجھا گیا، اہس سے بیشتر کسی مسلمان مصنف نے خلافت کے وجود پر اعتراض نہ کیا تھا اور نہ کسی نے یہ مسئلہ اٹھایا تھا کہ خلافت کا منصب سرے سے ختم کر دینا چاہے۔ حالانکہ اس کا اعتراف اکثر مصنفین کو تھا کہ خلافت کا مقصد وہ نہیں رہا جو خلفائے راشدین کے مد نظرتھا، خلافت کی ضرورت اور اس سے محبت کا اندازہ س بات سے بخوبی ہوسکتا ہے جب 3مارچ 1924ء کو مصطفی کمال اتاترک نے بنو عثمان کی خلافت کا خاتمہ کرکے جمہوریہ ترکی کی بنا ڈالی تو ہر طرف سے مسلمانوں نے اس اقدام کی شدید مخالف کی، دنیا بھر کے مسلمان مشتعل ہو گئے اور انہوں نے سمجھا کہ اب خود اسلام کی عمارت متزلزل ہوجائے گی۔
مولف نے اس کتاب میں اسلامی حکومت کے بنیادی اصول وتصورات بیان فرمائے ہیں۔ یہ کتاب پہلی مرتبہ ایک ایسے موضوع پر لکھی گئی تھی جو مسلمانان عالم کے نزدیک صدیوں تک ناقابل تردید رہا اور جسے امر خداوندی سمجھا گیا، اہس سے بیشتر کسی مسلمان مصنف نے خلافت کے وجود پر اعتراض نہ کیا تھا اور نہ کسی نے یہ مسئلہ اٹھایا تھا کہ خلافت کا منصب سرے سے ختم کر دینا چاہے۔ حالانکہ اس کا اعتراف اکثر مصنفین کو تھا کہ خلافت کا مقصد وہ نہیں رہا جو خلفائے راشدین کے مد نظرتھا، خلافت کی ضرورت اور اس سے محبت کا اندازہ س بات سے بخوبی ہوسکتا ہے جب 3مارچ 1924ء کو مصطفی کمال اتاترک نے بنو عثمان کی خلافت کا خاتمہ کرکے جمہوریہ ترکی کی بنا ڈالی تو ہر طرف سے مسلمانوں نے اس اقدام کی شدید مخالف کی، دنیا بھر کے مسلمان مشتعل ہو گئے اور انہوں نے سمجھا کہ اب خود اسلام کی عمارت متزلزل ہوجائے گی۔
ہندوستان متحدہ کے مسلمان بھی اتاترک کی مخالفت میں کسی سےس پیچھے نہ رہے اور '''تحریک خلافت'''ان کے انہیں جذبات کا اظہار تھا ہر مسلمان کی یہ خواہش تھی کہ خلافت کا احیاء کیا جائے اور اگر یہ ادارہ مٹ گیا تو مسلمانوں کی جمعیت پریشان ہوجائے گی اور اسلام کا استحکام خطرے میں پڑ جائے گا۔ شریف حسین شاہ نے حجاز میں کچھ دیر کے لیے خلافت کا منصب سنبھالنے پر آمادہ ہو گئے لیکن جلدی ہی دست بردار بھی ہوگئے۔ ان کے بعد مصر میں فواد اول نے علماء اسلام کی ایک کانفرنس بلائی جس کا مقصد یہ تھا کہ خلافت کا احیاء کیا جائے۔
ہندوستان متحدہ کے مسلمان بھی اتاترک کی مخالفت میں کسی سےس پیچھے نہ رہے اور '''تحریک خلافت'''ان کے انہیں جذبات کا اظہار تھا ہر مسلمان کی یہ خواہش تھی کہ خلافت کا احیاء کیا جائے اور اگر یہ ادارہ مٹ گیا تو مسلمانوں کی جمعیت پریشان ہوجائے گی اور اسلام کا استحکام خطرے میں پڑ جائے گا۔ شریف حسین شاہ نے حجاز میں کچھ دیر کے لیے خلافت کا منصب سنبھالنے پر آمادہ ہو گئے لیکن جلدی ہی دست بردار بھی ہوگئے۔ ان کے بعد مصر میں فواد اول نے علماء اسلام کی ایک کانفرنس بلائی جس کا مقصد یہ تھا کہ خلافت کا احیاء کیا جائے۔


مصر کے مفتی اعظم شیخ علی نے شیخ علی کی کتاب کے جواب میں ایک کتاب '''حقیقۂ الاسلام و اصول الحکم'''کے نام سے 1926ء میں لکھی جس کا مقصد یہ ثابت کرنا تھا کہ خلافت اسلام کا رکن اول ہے اور اس کے مخالے اسلام کے مخالف ہیں، شیخ علی کے مخالفوں میں مفتی محمد عبدہ کے شاگرد شیخ رشید رضا بھی شامل ہیں جو خلافت کے حامی تھے شیخ رشید رضا کا نظریہ یہ تھا کہ خلافت ایک ایسا ادارہ ہے جس سے منکر مسلمان نہیں ہوسکتے، ترکی میں خلافت کے خاتمے پر رشید رضا نے خلافت کے احیاء کے لیے پوری جد و جہد کی اور جب مملکت نجد و حجاز میں وہابی خاندان برسر اقتدار آیا تو رشید رضا کو بھی ایک نئی امید پیدا ہوچلی کہ شاید اب خلافت کی تجدید ہوجائے لیکن بد قسمتی سے شاہ ابن سعود نے اس منصب کی ذمہ داری اٹھانے کی ہامی نہ بھری۔
مصر کے مفتی اعظم شیخ علی نے شیخ علی کی کتاب کے جواب میں ایک کتاب '''حقیقۂ الاسلام و اصول الحکم'''کے نام سے 1926ء میں لکھی جس کا مقصد یہ ثابت کرنا تھا کہ خلافت اسلام کا رکن اول ہے اور اس کے مخالے اسلام کے مخالف ہیں، شیخ علی کے مخالفوں میں مفتی محمد عبدہ کے شاگرد شیخ رشید رضا بھی شامل ہیں جو خلافت کے حامی تھے شیخ رشید رضا کا نظریہ یہ تھا کہ خلافت ایک ایسا ادارہ ہے جس سے منکر مسلمان نہیں ہوسکتے، ترکی میں خلافت کے خاتمے پر رشید رضا نے خلافت کے احیاء کے لیے پوری جد و جہد کی اور جب مملکت نجد و حجاز میں وہابی خاندان برسر اقتدار آیا تو رشید رضا کو بھی ایک نئی امید پیدا ہوچلی کہ شاید اب خلافت کی تجدید ہوجائے لیکن بد قسمتی سے شاہ ابن سعود نے اس منصب کی ذمہ داری اٹھانے کی ہامی نہ بھری۔
== اسلام اور اصول حکومت کے اجزاء ==
== اسلام اور اصول حکومت کے اجزاء ==
اس کتاب کے تین اجزاء ہیں:
اس کتاب کے تین اجزاء ہیں: