3,727
ترامیم
Saeedi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) |
Saeedi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) |
||
سطر 12: | سطر 12: | ||
== بیت لحم پر مسلمانوں کا قبضہ == | == بیت لحم پر مسلمانوں کا قبضہ == | ||
ہجرت کے سولہویں سال637ء میں خلیفہ ثانی حضرت عمر بن خطاب کے عہد میں اسے بھی یروشلم کے ساتھ فتح کر لیا گیا تھا۔ اس وقت یہاں یہودیوں کا داخلہ بند کیا ہوا تھا لیکن عمر فاروقؓ نے یروشلم کی طرح بیت اللحم میں بھی ہر قسم کی پابندیاں ختم کر دی تھیں۔ اس چرچ میں حضرت عمر نے نماز بھی ادا کی تھی، جس سے غیرمسلم عبادت گاہوں میں چند شرائط کے ساتھ [[نماز]] پڑھنے کا جواز ملتا ہے۔ بیت اللحم میں دور عباسی یعنی خلیفہ ہارون الرشید کے عہد میں بڑی ترقی ہوئی۔ یہاں کئی مساجد و مدارس قائم کیے گئے، گیارہویں صدی تک یروشلم کی طرح بیت اللحم بھی مسلم ریاست کا حصہ رہا۔ 1099میں صلیبیوں نے قبضہ کر کے یہاں بھی یروشلم کی طرح بڑی خونریزیاں کیں۔ یونانی آرتھو ڈوکس کو ہٹا کر لاطینی پادریوں کا تقرر کیا جنہوں نے جی بھر کر کفرو جہل پھیلایا۔ پھر سلطان صلاح الدین نے اسے فتح کرنے کے بعد یہاں سے صلیبیوں کے اثرات بد کا خاتمہ کر دیا اور اسے ایک پرامن شہر ڈکلیئر کیا جہاں تمام مذاہب کو آزادی حاصل رہی۔ 1250میں ممالیک حکمرانوں (جیسے تاریخ ہند میں خاندان غلاماں کی حکمرانی تھی، یہی صورتحال [[شام]] و نواحی علاقوں میں بھی تھی) نے اس شہر کی دیواریں تباہ کر دیں جنہیں 16ویں صدی میں خلافت عثمانیہ کے دور میں دوبارہ تعمیر کیا گیا۔ یورپی ممالک کی سازشوں کی وجہ سے 1917میں یہ علاقہ برطانوی فورسز کے قبضے میں آگیا۔ عثمانیوں کا برائے نام ہی سہی، لیکن کنٹرول سمجھا جاتا تھا جو عالمی جنگ کے اختتام کے بعد ان کے ہاتھوں سے بھی نکل گیا۔ 1948میں عرب اسرائیل جنگ کے نتیجے میں اردن کو کنٹرول مل گیا۔ لیکن 1967کی چھ روزہ جنگ کے نتیجے میں اسرائیل اس پر قابض ہوگیا۔ 1995کے [[معاہدہ اوسلو|اوسلو معاہدے]] کے تحت بیت اللحم فلسطینی اتھارٹی کنٹرول میں دے دیا گیا۔ | ہجرت کے سولہویں سال637ء میں خلیفہ ثانی حضرت عمر بن خطاب کے عہد میں اسے بھی یروشلم کے ساتھ فتح کر لیا گیا تھا۔ اس وقت یہاں یہودیوں کا داخلہ بند کیا ہوا تھا لیکن عمر فاروقؓ نے یروشلم کی طرح بیت اللحم میں بھی ہر قسم کی پابندیاں ختم کر دی تھیں۔ اس چرچ میں حضرت عمر نے نماز بھی ادا کی تھی، جس سے غیرمسلم عبادت گاہوں میں چند شرائط کے ساتھ [[نماز]] پڑھنے کا جواز ملتا ہے۔ بیت اللحم میں دور عباسی یعنی خلیفہ ہارون الرشید کے عہد میں بڑی ترقی ہوئی۔ یہاں کئی مساجد و مدارس قائم کیے گئے، گیارہویں صدی تک یروشلم کی طرح بیت اللحم بھی مسلم ریاست کا حصہ رہا۔ 1099میں صلیبیوں نے قبضہ کر کے یہاں بھی یروشلم کی طرح بڑی خونریزیاں کیں۔ یونانی آرتھو ڈوکس کو ہٹا کر لاطینی پادریوں کا تقرر کیا جنہوں نے جی بھر کر کفرو جہل پھیلایا۔ پھر سلطان صلاح الدین نے اسے فتح کرنے کے بعد یہاں سے صلیبیوں کے اثرات بد کا خاتمہ کر دیا اور اسے ایک پرامن شہر ڈکلیئر کیا جہاں تمام مذاہب کو آزادی حاصل رہی۔ 1250میں ممالیک حکمرانوں (جیسے تاریخ ہند میں خاندان غلاماں کی حکمرانی تھی، یہی صورتحال [[شام]] و نواحی علاقوں میں بھی تھی) نے اس شہر کی دیواریں تباہ کر دیں جنہیں 16ویں صدی میں خلافت عثمانیہ کے دور میں دوبارہ تعمیر کیا گیا۔ یورپی ممالک کی سازشوں کی وجہ سے 1917میں یہ علاقہ برطانوی فورسز کے قبضے میں آگیا۔ عثمانیوں کا برائے نام ہی سہی، لیکن کنٹرول سمجھا جاتا تھا جو عالمی جنگ کے اختتام کے بعد ان کے ہاتھوں سے بھی نکل گیا۔ 1948میں عرب اسرائیل جنگ کے نتیجے میں اردن کو کنٹرول مل گیا۔ لیکن 1967کی چھ روزہ جنگ کے نتیجے میں اسرائیل اس پر قابض ہوگیا۔ 1995کے [[معاہدہ اوسلو|اوسلو معاہدے]] کے تحت بیت اللحم فلسطینی اتھارٹی کنٹرول میں دے دیا گیا۔ | ||
== ہاؤسنگ اور تعمیراتی پیشرفت == | == ہاؤسنگ اور تعمیراتی پیشرفت == |