Jump to content

"حسن البنا" کے نسخوں کے درمیان فرق

1,300 بائٹ کا اضافہ ،  3 مارچ 2024ء
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 43: سطر 43:
” وہ امت جو جینے کا عزم کر لے اسکے مٹنے کا کیا سوال۔۔۔! اس سے تو موت بھی دور بھاگتی ہے۔”
” وہ امت جو جینے کا عزم کر لے اسکے مٹنے کا کیا سوال۔۔۔! اس سے تو موت بھی دور بھاگتی ہے۔”
جہادِ فلسطین میں اخوانی مجاہدین کے کارناموں نے حکومت کی نیند اڑادی ،آزمائشوں کی چکی حرکت میں آگئی اور اخوان تحتِ جبر چورچور ہوتے چلے گئے۔جیل کی سلاخیں ہو یا آزمائشِ تختہ دار اخوان اور ان کے اس عظیم قائد نے اپنے ایمان اور عزم کے نا قابلِ تسخیر ہونے کا ثبوتِ بہم دیا۔
جہادِ فلسطین میں اخوانی مجاہدین کے کارناموں نے حکومت کی نیند اڑادی ،آزمائشوں کی چکی حرکت میں آگئی اور اخوان تحتِ جبر چورچور ہوتے چلے گئے۔جیل کی سلاخیں ہو یا آزمائشِ تختہ دار اخوان اور ان کے اس عظیم قائد نے اپنے ایمان اور عزم کے نا قابلِ تسخیر ہونے کا ثبوتِ بہم دیا۔
== حسن البنا اور امریکہ ==
حسن البنا کا خیال تھا کہ صیہونیت کی تشکیل اور فلسطین پر قبضے کا ایک اہم ترین عنصر صیہونیوں کی امریکی حکومت کی جامع حمایت ہے۔
امریکہ کی طرف سے اسرائیل کی حمایت اور اسے تسلیم کرنے پر احتجاج کرنے کے بعد، اس نے اس وقت کے ریاستہائے متحدہ کے صدر ہیری ٹرومین کو ایک خط لکھا اور اپنے احتجاج کا اظہار اس طرح کیا؛
آپ کا صیہونی حکومت کو تسلیم کرنے کا مطلب عربوں اور عالم اسلام کے خلاف اعلان جنگ ہے۔ امریکی حکومت کی اس فریب کارانہ پالیسی پر عمل کرنا انسانی حقوق اور اقوام متحدہ کے چارٹر کی خلاف ورزی ہے۔
انہوں نے مزید کہا: یہ مسئلہ نہ صرف عرب اور مسلم ممالک کے مفادات کو خطرے میں ڈالے گا بلکہ امریکہ کے مفادات کو بھی خطرے میں ڈالے گا۔
ہم اس سلسلے میں امریکی حکومت اور صدر ٹرومین کو ذاتی طور پر ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔
== شہادت ==
== شہادت ==
اسی اثنائے استبداد میں ۱۲فروری1939ء کو قاہرہ کی سب سے بڑی شاہراہ پر آپ کو دھوکے سے بلایا گیا،آپ کا جسم سات گولیوں کی تاب نا لا سکا اور آپ جامِ شہادت پی گئے۔اس موقع پر بھی آپ کے چہرے پر کسی قسم کے آثارِ حزن موجود نہ تھے گویا اک نمایاں ابتسام ظاہر تھی رب سے ملاقات کی۔۔۔۔۴۳ برس کی عمر میں آپ حیاتِ جاودانی پاگئے۔مطلق العنانیت کا یہ عالم تھا کہ ایک بوڑھے باپ کے علاوہ کسی کو آخری ملاقات کا شرف تک حاصل نہ ہوا۔
اسی اثنائے استبداد میں ۱۲فروری1939ء کو قاہرہ کی سب سے بڑی شاہراہ پر آپ کو دھوکے سے بلایا گیا،آپ کا جسم سات گولیوں کی تاب نا لا سکا اور آپ جامِ شہادت پی گئے۔اس موقع پر بھی آپ کے چہرے پر کسی قسم کے آثارِ حزن موجود نہ تھے گویا اک نمایاں ابتسام ظاہر تھی رب سے ملاقات کی۔۔۔۔۴۳ برس کی عمر میں آپ حیاتِ جاودانی پاگئے۔مطلق العنانیت کا یہ عالم تھا کہ ایک بوڑھے باپ کے علاوہ کسی کو آخری ملاقات کا شرف تک حاصل نہ ہوا۔