confirmed
821
ترامیم
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں ٹیگ: بصری ترمیم موبائل ترمیم موبائل ویب ترمیم |
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں ٹیگ: بصری ترمیم موبائل ترمیم موبائل ویب ترمیم |
||
سطر 77: | سطر 77: | ||
اسی طرح پاکستان میں تبلیغات کا سلسلہ جو شہید عارف حسینی رہ کے زمانے میں موجود تھا وہ ختم ہو چکا تھا۔ لہذا انہی دوستوں نے مل کر صوبہ سرحد، پنجاب، کراچی اور دوسرے علاقوں سے جمع ہو کر ایک تبلیغی مرکز بنایا تاکہ لوگوں تک معارف اہلبیت ع اور ہدایت اہلبیت ع پہنچ سکے۔ اس کیلئے باقاعدہ میٹنگز ہوتی رہیں اور ایک دستور بنایا گیا جس کے نتیجے میں ایک مرکز قائم کیا گیا جو پہلے کراچی میں تھا اور اب لاہور میں شفٹ ہو چکا ہے۔ اس کو دو دوست برادر ابوذر مہدوی اور سید احمد اقبال رضوی چلا رہے ہیں۔ | اسی طرح پاکستان میں تبلیغات کا سلسلہ جو شہید عارف حسینی رہ کے زمانے میں موجود تھا وہ ختم ہو چکا تھا۔ لہذا انہی دوستوں نے مل کر صوبہ سرحد، پنجاب، کراچی اور دوسرے علاقوں سے جمع ہو کر ایک تبلیغی مرکز بنایا تاکہ لوگوں تک معارف اہلبیت ع اور ہدایت اہلبیت ع پہنچ سکے۔ اس کیلئے باقاعدہ میٹنگز ہوتی رہیں اور ایک دستور بنایا گیا جس کے نتیجے میں ایک مرکز قائم کیا گیا جو پہلے کراچی میں تھا اور اب لاہور میں شفٹ ہو چکا ہے۔ اس کو دو دوست برادر ابوذر مہدوی اور سید احمد اقبال رضوی چلا رہے ہیں۔ | ||
=== مظلومین کی حمایت === | === مظلومین کی حمایت === | ||
اسی طرح یہ دیکھا گیا کہ دہشت گردی کی کاروائیوں کا کوئی ردعمل سامنے نہیں آتا، کوئی احتجاج نہیں کیا جاتا اور موثر قسم کی آواز بلند نہیں کی جاتی۔ 2004ء میں جب بلوچستان کے شھر کوئٹہ میں مسجد کے اندر بڑی تعداد میں افراد کو شہید اور زخمی کیا گیا تو اسکے خلاف آواز انہی لوگوں نے اٹھائی۔ یہ لوگ اسلام آباد، لاہور، کراچی، کوئٹہ اور دوسرے علاقوں میں گئے، شہداء کے سوم اور چہلم کی مجالس میں شرکت کی، بعد میں بھی گئے تاکہ لوگوں کے حوصلے بلند کئے جائیں اور انکی مدد کی جائے۔ اس وقت مختلف ناموں سے مختلف علاقوں میں یہ کام ہونا شروع ہو گیا۔ اسلام آباد میں ایک نام سے، کراچی میں ایک نام سے لیکن یہ کام کرنے والے افراد آپس میں مربوط تھے۔ تمام علاقوں میں انہوں نے پریس کانفرنسز کا انعقاد کیا، احتجاجی جلسے | اسی طرح یہ دیکھا گیا کہ دہشت گردی کی کاروائیوں کا کوئی ردعمل سامنے نہیں آتا، کوئی احتجاج نہیں کیا جاتا اور موثر قسم کی آواز بلند نہیں کی جاتی۔ 2004ء میں جب بلوچستان کے شھر کوئٹہ میں مسجد کے اندر بڑی تعداد میں افراد کو شہید اور زخمی کیا گیا تو اسکے خلاف آواز انہی لوگوں نے اٹھائی۔ یہ لوگ اسلام آباد، لاہور، کراچی، کوئٹہ اور دوسرے علاقوں میں گئے، شہداء کے سوم اور چہلم کی مجالس میں شرکت کی، بعد میں بھی گئے تاکہ لوگوں کے حوصلے بلند کئے جائیں اور انکی مدد کی جائے۔ اس وقت مختلف ناموں سے مختلف علاقوں میں یہ کام ہونا شروع ہو گیا۔ اسلام آباد میں ایک نام سے، کراچی میں ایک نام سے لیکن یہ کام کرنے والے افراد آپس میں مربوط تھے۔ تمام علاقوں میں انہوں نے پریس کانفرنسز کا انعقاد کیا، احتجاجی جلسے منعقد کئے، متاثرہ افراد کو تسلی دی اور ان کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا۔ 2005ء میں بھی یہ سلسلہ جاری رہا۔ جوں جوں ایسے واقعات رونما ہوتے گئے، یہ افراد اجتماعی حوالے سے زیادہ فعال ہوتے گئے۔ مثلا 2004ء میں اسلام آباد اور اسکے اطراف میں تمام جمعہ کی نمازیں تعطیل ہوئی تھیں اور ایک بڑی نماز جمعہ برگزار ہوئی تھی اور اسلام آباد میں کئی سالوں کے بعد ایک بڑا احتجاجی مظاہرہ کیا گیا تھا۔ 2006ء میں جب اسرائیل اور [[حزب اللہ لبنان|حزب اللہ]] کے درمیان جنگ ہوئی تو حزب اللہ کی مظلومیت کو آشکار کرنے، انکی حمایت کا اعلان کرنے اور ان کیلئے امداد جمع کرنے کیلئے وسیع پیمانے پر اجتماعات ترتیب دیئے گئے۔ 35 دن میں 5 بڑے اجتماع منعقد ہوئے جن میں خواتین، بوڑھوں، بچوں اور جوانوں نے بھرپور حصہ لیا۔ اس کے بعد 2007ء میں پاراچنار کے حالات بہت خراب ہونا شروع ہو گئے۔ وہاں کے لوگ کیونکہ ہماری فعالیت دیکھ چکے تھے لہذا انہوں نے ہم سے رابطہ کرنا شروع کر دیا۔ وہ ہمارے ساتھ ساتھ ملک کے دوسرے افراد سے بھی رابطہ کرتے تھے اور ان سے مدد کی درخواست کرتے تھے۔ وہ پاکستان سے باہر کے افراد سے بھی رابطہ کرتے تھے۔ لوگ ہم سے پوچھتے تھے کہ آپ اسلام آباد میں بیٹھے ہیں بتائیں کہ کیا صورتحال ہے۔ | ||
ہم 2007ء میں علامہ جواد ہادی اور پاراچنار کے لوگوں سے ملنے پشاور گئے تاکہ انکے حالات کو نزدیک سے دیکھا اور سنا جائے۔ ہم علماء کے ایک وفد کی صورت میں وہاں چلے گئے اور صورتحال کا جائزہ لیا۔ انہوں نے ہمیں بتایا کہ وہ شدید دباو کا شکار ہیں، حکومت اور میڈیا نے انکی صورتحال کو چھپایا ہوا ہے، کسی قسم کی خبر نہیں دیتے، حکومت ہماری کوئی بات نہیں سنتی، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے پیچھے کوئی ہے ہی نہیں اور ہم تنہا ہیں، لہذا اس حوالے سے آپ ہماری مدد کریں اور ہمارا ساتھ دیں، سنسر کو توڑیں، عوام میں بیداری پیدا کریں، عوام تک ہماری آواز پہنچائیں، حکومت پر دباو بڑھائیں اور ہمیں ریلیف دلوائیں۔ ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ کام ایک یا دو افراد کا نہیں ہے بلکہ ایک لمبا اور طولانی کام ہے جو سب کو مل کر کرنا ہو گا۔ | ہم 2007ء میں علامہ جواد ہادی اور پاراچنار کے لوگوں سے ملنے پشاور گئے تاکہ انکے حالات کو نزدیک سے دیکھا اور سنا جائے۔ ہم علماء کے ایک وفد کی صورت میں وہاں چلے گئے اور صورتحال کا جائزہ لیا۔ انہوں نے ہمیں بتایا کہ وہ شدید دباو کا شکار ہیں، حکومت اور میڈیا نے انکی صورتحال کو چھپایا ہوا ہے، کسی قسم کی خبر نہیں دیتے، حکومت ہماری کوئی بات نہیں سنتی، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے پیچھے کوئی ہے ہی نہیں اور ہم تنہا ہیں، لہذا اس حوالے سے آپ ہماری مدد کریں اور ہمارا ساتھ دیں، سنسر کو توڑیں، عوام میں بیداری پیدا کریں، عوام تک ہماری آواز پہنچائیں، حکومت پر دباو بڑھائیں اور ہمیں ریلیف دلوائیں۔ ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ کام ایک یا دو افراد کا نہیں ہے بلکہ ایک لمبا اور طولانی کام ہے جو سب کو مل کر کرنا ہو گا۔ |