Jump to content

"ایران" کے نسخوں کے درمیان فرق

کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 174: سطر 174:


== مذہب ==
== مذہب ==
تاریخی طور پر زرتشتیت ایران کا قدیم مذہب تھا۔ خاص کر ہخامنشی سلطنت، سلطنت اشکانیان اور ساسانی سلطنت کے ادوار میں زرتشتیت ہی ایران کا سب سے بڑا مذہب تھا۔ 651ء کے لگ بھگ مسلمانوں نے ایران کو فتح کیا اور یہاں آتش پرست ساسانی سلطنت کا خاتمہ ہو گیا، مسلم فتح کے بعد دھیرے دھیرے اسلام پھیلتا گیا۔ آج  اسلام ایران کا سرکاری مذہب ہے۔ایران کی 90 فیصد آبادی شیعہ اسلام کی پیروکار ہے، 8 فیصد سنی اسلام اور باقی  2 فیصد غیر مسلم ہیں۔
تاریخی طور پر زرتشتیت ایران کا قدیم مذہب تھا۔ خاص کر ہخامنشی سلطنت، سلطنت اشکانیان اور ساسانی سلطنت کے ادوار میں زرتشتیت ہی ایران کا سب سے بڑا مذہب تھا۔ 651ء کے آس پاس  مسلمانوں نے ایران کو فتح کیا اور یہاں آتش پرست ساسانی سلطنت کا خاتمہ ہو گیا۔ مسلم فتح کے بعد دھیرے دھیرے اسلام پھیلتا گیا۔ آج  اسلام ایران کا سرکاری مذہب ہے۔ایران کی 90 فیصد آبادی شیعہ اسلام کی پیروکار ہے، 8 فیصد سنی اسلام اور باقی  2 فیصد غیر مسلم ہیں۔
== امام خمینیؒ اور انقلاب اسلامی کی جمہوری بنیادیں ==
== امام خمینیؒ اور انقلاب اسلامی کی جمہوری بنیادیں ==
امام خمینی نےاسلامی انقلاب کو ایران میں کامیابی سے ہمکنار کیا بلکہ پورے عالم اسلام میں اسلامی حریت کا بیج چھڑک دیا ور مسلمانوں میں ایک نئی امن اور ولولہ بیداری و آگاہی کی انقلابی کیفیت پیدا کر دی۔
امام خمینی نے نہ صرف  ایران میں اسلامی انقلاب کو کامیابی سے ہمکنار کیا بلکہ پورے عالم اسلام میں اسلامی حریت کا بیج چھڑک دیا ور مسلمانوں میں   بیداری اور آگاہی کی ایک نئی  انقلابی کیفیت پیدا کر دی۔
ہمارے زمانے میں جو چیزاسلامی انقلاب کے نام سے ظہور پذیر ہوئی ہیں، دوست او ر دشمن ہرایک کے تصورات سے بالا تر تھی۔ مختلف ممالک میں اسلامی تحریکوں کی مسلسل شکست کی وجہ سے مسلمان یہ سوچنے لگے تھے کہ جو وسائل دشمنان اسلام کے اختیار میں ہیں ان کو دیکھتے ہوئے اسلامی حکومت کی تشکیل عملاً ممکن نہیں ہے۔ دوسری طرف مخالفین اسلام بھی اپنے منصوبوں اور سازشوں کے تحت مطمئن ہو چکے تھے کہ خود مسلمانوں اور اسلامی ملتوں کے درمیان انہوں نے مذہب ، قوم ، نسل اور مسلک کے نام پر جو اختلافات پیدا کر دیئے ہیں ان کی بنیاد پر ان ممالک میں اسلامی حکومت نام کی کوئی شے وجود میں لانا اب کسی کے بس کی بات نہیں ہے۔ خود ایران کے اندر گزشتہ پچاس برسوں میں پہلوی حکومت کے ہاتھوں اسلام کی جڑیں اکھاڑ پھینکنے کی کوششیں کی گئیں۔ پہلوی شہنشاہیت نے نہ صرف اپنے دربار میں بلکہ ملک کے تمام حساس مقامات پر اخلاقی اقدار کی پامالی کا بازار گرم کر رکھا تھا، شاہ ایران نے ڈھائی ہزار سالہ شہنشاہیت کا جشن بر پا کر کے جو دراصل مجوسیت کا مظہر تھا اور ہجری تاریخ کا نام شہنشاہی تاریخ میں تبدیل کر کے علامی کفر اور استعار کے تسلط کے لئے مکمل طور پر زمین ہموار کر دی تھی ایسے ملک میں اسلامی انقلاب کی کامیابی یقینا ًنا قابل تصور اور غیر معمولی چیز تھی۔


بلا شبہ جس ہستی نے اس انقلاب کی قیادت و رہبری کی ملکی و غیرملکی تما م تر رکاوٹوں اور مادی وسائل کی کمیوں کے باو جود پوری ملت کو اپنے گرد جمع کر کے نہ صرف اس اسلامی انقلاب کو ایران میں کامیابی سے ہمکنار کیا بلکہ پورے عالم اسلام میں اسلامی حریت کا بیج چھڑک دیا ور مسلمانوں میں ایک نئی امن اور ولولہ بیداری و آگاہی کی انقلابی کیفیت پیدا کر دی یقینا ًیہ ہستی عالم اسلام کی ایک غیر معمولی اور استثنائی شخصیت کی حامل ہے۔ ظاہر ہے اس عظیم ہستی نے مسلمانوں کی آگاہی او ربیداری، ان کے درمیان اتحاد ویکجہتی اور ان کے امراض کی تشخص اور علاج کے سلسلہ میں بے پناہ تکلیفیں اور مشقتیں اٹھائی ہیں،کل(3جون)کی تاریخ کوعالم اسلام نے ایک بارپھر سید روح اللہ خمینیؒ کوان کی 29ویں برسی پریادکیا ۔امام خمینیؒ کی قیادت میں 1979 میں دنیائے اسلام کا پہلا عوامی انقلاب رونما ہوا جس کے نتیجے میں مشرق وسطیٰ کا سب سے طاقتور شاہی نظام حکومت زمین بوس ہوگیا۔ کسی اہل نظر نے کیا خوب کہا ہے کہ جب مصر میں الازہر الشریف کا علمی دبدبہ، صوفیاءکی روحانیت اورہردلعزیزی اوراخوان المسلمین کا نظم وضبط سب آپس میں مل جائیں تو انقلاب ظہور پذیر ہوگا۔ ایران کے تناظر میں یہ تینوں چیزیں اللہ تعالیٰ نے ایک ہی شخصیت میں جمع کردی تھیں۔امام خمینی علم فقہ کے بلند ترین مقام پر فائز تھے اور ایرانی عوام کی عظیم اکثریت مسائل فقہ میں ان ہی کی طرف رجوع کرتی تھی۔ تصوف وعرفان کے لحاظ سے ان کا شمار صاحب حال اہل اللہ میں ہوتا تھا۔ ان کی عارفانہ غزلیں حافظ کی غزلوں کے برابر مانی جاتی ہیں۔ ان کے پیروکاروں اور مریدوں نے بالعموم اورطلباءو تلامذہ نے بالخصوص کمال نظم وضبط کے ساتھ ان کے انقلابی پیغام کو ایران کے شہرودیہات اورکوچہ وبازار میں اس طرح سے پھیلایا کہ شاہی جبرواستبداد کی چولیں ہلا کر رکھ دیں اور انقلاب کی پرنور صبح کے طلوع ہونے کا راستہ ہموار کیا۔
ہمارے زمانے میں جو چیزاسلامی انقلاب کے نام سے ظہور پذیر ہوئی ،وہ  دوست او ر دشمن ہرایک کے تصورسے بالا تر تھی۔ مختلف ممالک میں اسلامی تحریکوں کی مسلسل شکست کی وجہ سے مسلمان یہ سوچنے لگے تھے کہ جو وسائل دشمنان اسلام کے اختیار میں ہیں ان کو دیکھتے ہوئے اسلامی حکومت کی تشکیل عملاً ممکن نہیں ہے۔ دوسری طرف مخالفین اسلام بھی اپنے منصوبوں اور سازشوں کے تحت مطمئن ہو چکے تھے کہ خود مسلمانوں اور اسلامی ملتوں کے درمیان انہوں نے مذہب ، قوم ، نسل اور مسلک کے نام پر جو اختلافات پیدا کر دیئے ہیں ان کی بنیاد پر ان ممالک میں اسلامی حکومت نام کی کوئی شے وجود میں لانا اب کسی کے بس کی بات نہیں ہے۔ خود ایران کے اندر گزشتہ پچاس برسوں میں پہلوی حکومت کے ہاتھوں اسلام کی جڑیں اکھاڑ پھینکنے کی کوششیں کی گئیں۔ پہلوی شہنشاہیت نے نہ صرف اپنے دربار میں بلکہ ملک کے تمام حساس مقامات پر اخلاقی اقدار کی پامالی کا بازار گرم کر رکھا تھا۔ شاہ ایران نے ڈھائی ہزار سالہ شہنشاہیت کا جشن بر پا کر کے جو دراصل مجوسیت کا مظہر تھا اور ہجری تاریخ کا نام شہنشاہی تاریخ میں تبدیل کر کے کفر اور استعمار کے تسلط کے لئے مکمل طور پر زمین ہموار کر دی تھی۔ ایسے ملک میں اسلامی انقلاب کی کامیابی یقینا ًنا قابل تصور اور غیر معمولی چیز تھی۔


امام خمینی کی قیادت میں ایران کے اسلامی انقلاب کی فتح سے دنیا کے دیگر علاقوں میں جابر اور سامراج نظام کی بدعنوانی اور فسادی سرگرمیاں بے نقاب ہوئیں۔آیت اللہ خمینی ؒ ایک اصولی اور گہری سوچ رکھنے والے لیڈر تھے جنہوں نے ایران میں انقلاب کے شروع دن سے عوام کے دل جیت لئے۔انہوں نے ایران میں اسلامی نظام کی بنیاد رکھ کر دنیا میں نئی حکمرانی کا طریقہ روشناس کرایا۔آپؒ نے جمہوریت کو اپنے مقاصد کا اہم ستون قرار دیا اورآج انقلاب کی فتح سے 40 سال گزرنے کے باوجود اسلامی جمہوریہ ایران کے نظام میں جمہوریت روشن ستارے کی طرح چمک رہی ہے۔آیت اللہ خمینیؒ کی قیادت میں اسلامی انقلاب نے دنیا کو اچھی حکمرانی اور اصولی نظام متعارف کرایا اور اسی وجہ سے اسلامی انقلاب سے دشمنی کا آغاز ہوا بالخصوص امریکہ اوراس کے اتحادی سعودی عرب سمیت بیشترعرب ممالک ایران کی طاقت سے خوفزدہ ہوگئے۔یہ کہناغلط نہیں ہوگاکہ امریکہ، سعودی عرب اور ناجائز صہیونی ریاست دور حاضر کی کشیدگی اور ابتر صورتحال کی جڑ ہیں جو یہ نہیں چاہتے کے مشرق وسطی میں جمہوریت قائم ہو۔ امام خمینی ؒ مقبوضہ فلسطین میں صہیونیوں کے توسیع پسندانہ اقدامات کے شدید مخالف تھے جبکہ آج سعودی عرب امریکہ کادم چھلہ بناہواہے جس کا مقصد اسرائیل کو تحفظ فراہم کرنا ہے۔ا
بلا شبہ جس ہستی نے اس انقلاب کی قیادت و رہبری کی، ملکی و غیرملکی تما م تر رکاوٹوں اور مادی وسائل کی کمیوں کے باو جود پوری ملت کو اپنے گرد جمع کر کے نہ صرف اس اسلامی انقلاب کو ایران میں کامیابی سے ہمکنار کیا بلکہ پورے عالم اسلام میں اسلامی حریت کا بیج چھڑک دیاا ور مسلمانوں میں بیداری اور آگاہی  کی ایک ْنئی انقلابی کیفیت پیدا کر دی یقینی طور پر وہ  عالم اسلام کی ایک غیر معمولی اور استثنائی شخصیت کی حامل ہے۔ ظاہر ہے اس عظیم ہستی نے مسلمانوں کی آگاہی او ربیداری، ان کے درمیان اتحاد ویکجہتی اور ان کے امراض کی تشخص اور علاج کے سلسلہ میں بے پناہ تکلیفیں اور مشقتیں اٹھائی ہیں ۔


نقلاب کے بعد ایران میں امام خمینی اور ان کے ہم فکر علماء کے اسلامی تصورات پر مبنی نظام حکومت جس طرح کامیابی سے چل رہا ہے وہ ہر مسلمان کے لئے باعث اطمینان اورقابل تقلیدہے۔ عالم اسلام میں سیاسی اصلاحات اور مثبت تبدیلیوں کے لئے ایران کے انقلابی نظام سیاست کی کامیابی بنیادی اہمیت کی حامل ہے اور اس کے عالم اسلام کے مستقبل پر سیاسی لحاظ سے انتہائی گہرے اور دوررس اثرات مرتب ہوں گے۔ ایران کے اسلامی جمہوری نظام کی نت نئی کامیابیوں سے مسلمانوں کا مغرب زدگی کا شکار انتہا پسند طبقہ چڑتا ہے اور یہ پروپیگنڈا کرتا ہے کہ ایران کا انقلابی نظام حکومت جمہوری نہیں ہے۔ کیونکہ جمہوری نظام حکومت کے مقابلے میں دنیا میں استبدادی، آمرانہ اور مطلق العنانیت پر مبنی نظام ہائے حکومت رائج ہیں اس لئے ان مغرب زدہ لوگوں کا کسی نظام کو غیر جمہوری کہنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ نظام استبدادی، آمرانہ اور مطلق العنانیت سے عبارت ہے۔کسی بھی جمہوری نظام حکومت میں عوام کو حکومت منتخب کرنے کا حق حاصل ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں جمہوری نظاموں میں عوام کو بنیادی حقوق حاصل ہوتے ہیں۔قانونی مساوات، آزاد عدلیہ، حکومت کا عوام اور عوامی نمائندوں کے سامنے جواب دہ ہونا اور افراد پر قانون کی بالادستی جمہوریت کی بنیادی خصوصیات ہیں۔ اس لئے اگر کسی نظام کو جمہوری کہاجائے تو گویا اسے اچھا نظام حکومت ہونے کی سند دی جاتی ہے اورجس نظام کو غیر جمہوری اور استبدادی کہا جائے تو اسے گویا ناپسندیدہ اوربرا نظام قرار دیا جاتا ہے۔
امام خمینیؒ کی قیادت میں 1979 میں دنیائے اسلام کا پہلا عوامی انقلاب رونما ہوا جس کے نتیجے میں مشرق وسطیٰ کا سب سے طاقتور شاہی نظام حکومت زمین بوس ہوگیا۔ کسی اہل نظر نے کیا خوب کہا ہے کہ جب مصر میں الازہر الشریف کا علمی دبدبہ، صوفیاءکی روحانیت اورہردلعزیزی اوراخوان المسلمین کا نظم وضبط سب آپس میں مل جائیں تو انقلاب ظہور پذیر ہوگا۔ ایران کے تناظر میں یہ تینوں چیزیں اللہ تعالیٰ نے ایک ہی شخصیت میں جمع کردی تھیں۔امام خمینی علم فقہ کے بلند ترین مقام پر فائز تھے اور ایرانی عوام کی عظیم اکثریت مسائل فقہ میں ان ہی کی طرف رجوع کرتی تھی۔ تصوف وعرفان کے لحاظ سے ان کا شمار صاحب حال اہل اللہ میں ہوتا تھا۔ ان کی عارفانہ غزلیں حافظ کی غزلوں کے برابر مانی جاتی ہیں۔ ان کے پیروکاروں اور مریدوں نے بالعموم اورطلباءو تلامذہ نے بالخصوص کمال نظم وضبط کے ساتھ ان کے انقلابی پیغام کو ایران کے شہرودیہات اورکوچہ وبازار میں اس طرح سے پھیلایا کہ شاہی جبرواستبداد کی چولیں ہلا کر رکھ دیں اور انقلاب کی پرنور صبح کے طلوع ہونے کا راستہ ہموار کیا۔
 
امام خمینی کی قیادت میں ایران کے اسلامی انقلاب کی فتح سے دنیا کے دیگر علاقوں میں جابر اور سامراجی نظام کی بدعنوانی اور فسادی سرگرمیاں بے نقاب ہوئیں۔آیت اللہ خمینی ؒ ایک اصولی اور گہری سوچ رکھنے والے لیڈر تھے جنہوں نے ایران میں انقلاب کے شروع دن سے عوام کے دل جیت لئے۔انہوں نے ایران میں اسلامی نظام کی بنیاد رکھ کر دنیا میں نئی حکمرانی کا طریقہ روشناس کرایا۔آپؒ نے جمہوریت کو اپنے مقاصد کا اہم ستون قرار دیا اورآج انقلاب کی فتح سے 40 سال گزرنے کے باوجود اسلامی جمہوریہ ایران کے نظام میں جمہوریت روشن ستارے کی طرح چمک رہی ہے۔آیت اللہ خمینیؒ کی قیادت میں اسلامی انقلاب نے دنیا کو اچھی حکمرانی اور اصولی نظام متعارف کرایا اور اسی وجہ سے اسلامی انقلاب سے دشمنی کا آغاز ہوا بالخصوص امریکہ اوراس کے اتحادی سعودی عرب سمیت بیشترعرب ممالک ایران کی طاقت سے خوفزدہ ہوگئے۔یہ کہناغلط نہیں ہوگاکہ امریکہ، سعودی عرب اور ناجائز صہیونی ریاست دور حاضر کی کشیدگی اور ابتر صورتحال کی جڑ ہیں جو یہ نہیں چاہتے کے مشرق وسطی میں جمہوریت قائم ہو۔ امام خمینی ؒ مقبوضہ فلسطین میں صہیونیوں کے توسیع پسندانہ اقدامات کے شدید مخالف تھے جبکہ آج سعودی عرب امریکہ کادم چھلہ بناہواہے جس کا مقصد اسرائیل کو تحفظ فراہم کرنا ہے۔
 
انقلاب کے بعد ایران میں امام خمینی اور ان کے ہم فکر علماء کے اسلامی تصورات پر مبنی نظام حکومت جس طرح کامیابی سے چل رہا ہے وہ ہر مسلمان کے لئے باعث اطمینان اورقابل تقلیدہے۔ عالم اسلام میں سیاسی اصلاحات اور مثبت تبدیلیوں کے لئے ایران کے انقلابی نظام سیاست کی کامیابی بنیادی اہمیت کی حامل ہے اور اس کے عالم اسلام کے مستقبل پر سیاسی لحاظ سے انتہائی گہرے اور دوررس اثرات مرتب ہوں گے۔ ایران کے اسلامی جمہوری نظام کی نت نئی کامیابیوں سے مسلمانوں کا مغرب زدگی کا شکار انتہا پسند طبقہ چڑھتا ہے اور یہ پروپیگنڈا کرتا ہے کہ ایران کا انقلابی نظام حکومت جمہوری نہیں ہے۔ کیونکہ جمہوری نظام حکومت کے مقابلے میں دنیا میں استبدادی، آمرانہ اور مطلق العنانیت پر مبنی نظام ہائے حکومت رائج ہیں اس لئے ان مغرب زدہ لوگوں کا کسی نظام کو غیر جمہوری کہنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ نظام استبدادی، آمرانہ اور مطلق العنانیت سے عبارت ہے۔کسی بھی جمہوری نظام حکومت میں عوام کو حکومت منتخب کرنے کا حق حاصل ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں جمہوری نظاموں میں عوام کو بنیادی حقوق حاصل ہوتے ہیں۔قانونی مساوات، آزاد عدلیہ، حکومت کا عوام اور عوامی نمائندوں کے سامنےجواب دہ ہونا اور افراد پر قانون کی بالادستی جمہوریت کی بنیادی خصوصیات ہیں۔ اس لئے اگر کسی نظام کو جمہوری کہاجائے تو گویا اسے اچھا نظام حکومت ہونے کی سند دی جاتی ہے اورجس نظام کو غیر جمہوری اور استبدادی کہا جائے تو اسے گویا ناپسندیدہ اوربرا نظام قرار دیا جاتا ہے۔


انقلابی اسلامی چودہ سو سالہ اسلامی تاریخ کا پہلا عوامی انقلاب تھاجس کے بعد ایک نئے نظام کی تشکیل وتعمیرکے عمل کا آغاز ہوا۔ یہ نظام نہ صرف جمہوری بلکہ مثالی جمہوری نظام ہے جو کامیابی کے ساتھ گذشتہ چالیس سالوں سے جاری وساری ہے۔انقلاب کے بعد ایک آئین مرتب کیا گیا۔یکم اپریل 1979 کے دن یہ دستور عوام کے سامنے منظوری کے لئے پیش کیا گیا۔ ایرانی عوام نے بیک آواز اس کو منظوری دے دی۔ جمہوری نظاموں میں آئین عوام یا عوام کے نمائندے منظور کرتے ہیں اورایران میں بھی عوام نے اسلامی جمہوری آئین کا انتخاب کیا۔ایران کے آئین کی رو سے رہبر کا منصب سب سے اعلیٰ اور برتر ہے۔ پہلے رہبر کے منصب پر فائز ہونے کے لئے ایران کی اکثریت کا مرجع تقلید ہونا شرط تھا۔ چونکہ تقلید عام مسلمان اپنی آزاد مرضی سے کرتے ہیں اس لئے یہ طریقہ بھی عین جمہوری تھا۔اس وقت مجلس خبرگان کا رہبر کے انتخاب میں یہ کام تھا کہ وہ اس بات کا تعین کرے کہ کس مجتہد کی ایرانی عوام کی اکثریت تقلید کرتی ہے۔ بعد میں مرجعیت کی شرط کو حذف کیا گیا اور اب مجلس خبرگان بوقت ضرورت رہبر کا انتخاب کرنے کی مجاز ہے۔
انقلابی اسلامی چودہ سو سالہ اسلامی تاریخ کا پہلا عوامی انقلاب تھاجس کے بعد ایک نئے نظام کی تشکیل وتعمیرکے عمل کا آغاز ہوا۔ یہ نظام نہ صرف جمہوری بلکہ مثالی جمہوری نظام ہے جو کامیابی کے ساتھ گذشتہ چالیس سالوں سے جاری وساری ہے۔انقلاب کے بعد ایک آئین مرتب کیا گیا۔یکم اپریل 1979 کے دن یہ دستور عوام کے سامنے منظوری کے لئے پیش کیا گیا۔ ایرانی عوام نے بیک آواز اس کو منظوری دے دی۔ جمہوری نظاموں میں آئین عوام یا عوام کے نمائندے منظور کرتے ہیں اورایران میں بھی عوام نے اسلامی جمہوری آئین کا انتخاب کیا۔ایران کے آئین کی رو سے رہبر کا منصب سب سے اعلیٰ اور برتر ہے۔ پہلے رہبر کے منصب پر فائز ہونے کے لئے ایران کی اکثریت کا مرجع تقلید ہونا شرط تھا۔ چونکہ تقلید عام مسلمان اپنی آزاد مرضی سے کرتے ہیں اس لئے یہ طریقہ بھی عین جمہوری تھا۔اس وقت مجلس خبرگان کا رہبر کے انتخاب میں یہ کام تھا کہ وہ اس بات کا تعین کرے کہ کس مجتہد کی ایرانی عوام کی اکثریت تقلید کرتی ہے۔ بعد میں مرجعیت کی شرط کو حذف کیا گیا اور اب مجلس خبرگان بوقت ضرورت رہبر کا انتخاب کرنے کی مجاز ہے۔


ایران کے موجودہ رہبرحضرت آیۃ اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای عوام کی منتخب مجلس خبرگان سے منصب رہبری کے لئے چنے جانے سے پہلے دومرتبہ ایران کے صدارتی منصب پر براہ راست انتخابات کے ذریعے بھاری اکثریت سے منتخب ہوئے تھے۔ایران میں مقننہ یعنی مجلس شوریٰ کا انتخاب وقفے وقفے سے علماءاورعوام بالغ رائے دہی کے اصول پر کرتے ہیں۔ انقلاب کی کامیابی سے لے کر آج تک ہمیشہ مجلس کا انتخاب آئینی تقاضوں کے مطابق وقت مقررہ پر ہوتا رہا ہے، چاہے جنگ ہویا امن۔ایران میں انتظامیہ کا سربراہ صدر ہوتا ہے۔ صدر کا انتخاب بھی عوام براہ راست بالغ رائے دہی کے اصول پر وقفے وقفے سے کرتے ہیں۔ شاہ انقلاب سے لے کر آج تک ہمیشہ صدارتی انتخابات آئینی تقاضوں کے مطابق وقت مقررہ پر ہوتے رہے ہیں۔ صدر کابینہ کے وزراء کو نامزد کرتا ہے اورعوام کی منتخب مجلس کے سامنے منظوری کے لئے پیش کرتا ہے۔
ایران کے موجودہ رہبرحضرت آیۃ اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای عوام کی منتخب مجلس خبرگان سے منصب رہبری کے لئے چنے جانے سے پہلے دومرتبہ ایران کے صدارتی منصب پر براہ راست انتخابات کے ذریعے بھاری اکثریت سے منتخب ہوئے تھے۔ایران میں مقننہ یعنی مجلس شوریٰ کا انتخاب وقفے وقفے سے علماءاورعوام بالغ رائے دہی کے اصول پر کرتے ہیں۔ انقلاب کی کامیابی سے لے کر آج تک ہمیشہ مجلس کا انتخاب آئینی تقاضوں کے مطابق وقت مقررہ پر ہوتا رہا ہے، چاہے جنگ ہویا امن۔ایران میں انتظامیہ کا سربراہ صدر ہوتا ہے۔ صدر کا انتخاب بھی عوام براہ راست بالغ رائے دہی کے اصول پر وقفے وقفے سے کرتے ہیں۔ انقلاب سے لے کر آج تک ہمیشہ صدارتی انتخابات آئینی تقاضوں کے مطابق وقت مقررہ پر ہوتے رہے ہیں۔ صدر کابینہ کے وزراء کو نامزد کرتا ہے اورعوام کی منتخب مجلس کے سامنے منظوری کے لئے پیش کرتا ہے۔


انقلابی ایران ایک فلاحی ریاست ہے اور ہر ترقی یافتہ جمہوری معاشرے اورملک کی طرح ایران میں بھی لوگوں کوآزادی اور بنیادی حقوق حاصل ہیں۔ عدلیہ بالکل انتظامیہ کے اثر سے آزاد ہے۔ قانونی مساوات بھی ہے اور قانون وآئین کی بالادستی بھی۔ نیچے سے لے کر صدر اور رہبر تک ہر کوئی دستور کا پابند ہے۔ ہرکسی حکومتی عہدہ دار کا کڑا احتساب ہوتا ہے۔ وزرا، صدر اور پارلیمان کے سامنے جوابدہ ہیں۔صدر پارلیمان ،رہبر کے سامنے جوابدہ ہے اور رہبر منتخب مجلس خبرگان کے سامنے جوابدہ ہے۔ کوئی شخص آئین وقانون سے برتر نہیں اوراعلیٰ سے اعلیٰ منصب پر فائز ہر شخص آئین وقانون کا زیردست ہے چاہے وزرا ہوں صدر ہو یا رہبر۔آمراورمطلق العنان حکمرانوں کوایران کا نظام حکومت ہمیشہ کھٹکتارہاہے کیونکہ اس نظام میں بادشاہ نہیں بلکہ عوام کامنتخب کردہ نمائندہ حکمرانی کرتاہے جوبراہ راست طورپرعوام کوجواب دہ ہوتاہے۔یہی وجہ ہے کہ امریکہ اوراس کے اتحادیوں نے ہمیشہ ایران کے خلاف پروپیگنڈاکیامگرتاریخ گواہ ہے کہ ایسے لوگوں کوہمیشہ منہ کی کھانی پڑی ہے۔انقلاب اسلامی کے خلاف امریکہ کی تمام گھناؤنی سازشیں ناکام ہوگئیں اور اسلامی جمہوریہ ایران 40 سال بعد علم و سائنس و ٹیکنالوجی کے مختلف شعبوں میں ترقی اور پیشرفت کی شاہراہ پر گامزن ہے۔
انقلابی ایران ایک فلاحی ریاست ہے اور ہر ترقی یافتہ جمہوری معاشرے اورملک کی طرح ایران میں بھی لوگوں کوآزادی اور بنیادی حقوق حاصل ہیں۔ عدلیہ بالکل انتظامیہ کے اثر سے آزاد ہے۔ قانونی مساوات بھی ہے اور قانون وآئین کی بالادستی بھی۔ نیچے سے لے کر صدر اور رہبر تک ہر کوئی دستور کا پابند ہے۔ ہر حکومتی عہدہ دار کا کڑا احتساب ہوتا ہے۔ وزرا، صدر اور پارلیمان کے سامنے جوابدہ ہیں۔صدر پارلیمان ،رہبر کے سامنے جوابدہ ہے اور رہبر منتخب مجلس خبرگان کے سامنے جوابدہ ہے۔ کوئی شخص آئین وقانون سے برتر نہیں اوراعلیٰ سے اعلیٰ منصب پر فائز ہر شخص آئین وقانون کا زیردست ہے چاہے وزرا ہوں صدر ہو یا رہبر۔آمراورمطلق العنان حکمرانوں کوایران کا نظام حکومت ہمیشہ کھٹکتارہاہے۔ کیونکہ اس نظام میں بادشاہ نہیں بلکہ عوام کامنتخب کردہ نمائندہ حکمرانی کرتاہے جوبراہ راست عوام کوجواب دہ ہوتاہے۔یہی وجہ ہے کہ امریکہ اوراس کے اتحادیوں نے ہمیشہ ایران کے خلاف پروپیگنڈاکیا۔مگرتاریخ گواہ ہے کہ ایسے لوگوں کوہمیشہ منہ کی کھانی پڑی ہے۔انقلاب اسلامی کے خلاف امریکہ کی تمام گھناؤنی سازشیں ناکام ہوگئیں اور اسلامی جمہوریہ ایران 40 سال بعد علم و سائنس و ٹیکنالوجی کے مختلف شعبوں میں ترقی اور پیشرفت کی شاہراہ پر گامزن ہے۔


آج ایران کی ترقی اور استحکام اور قومی اتحادو یگانگت نے اسلامی جمہوریہ کو ایک مضبوط قوت میں تبدیل کرکے رکھ دیا ہے اور یہ کریڈٹ بھی قائد انقلاب حضرت آیت اللہ خمینی کو ہی جاتا ہے کہ ایران آج دنیا کی سپر طاقتوں امریکہ اور اسرائیل کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتا ہے۔امریکہ ایران کو دھمکیاں ضرور دیتا ہے مگر اس میں اب اتنی جرأت نہیں کہ وہ ایران پر چڑھ دوڑے۔ایران کے اسلامی انقلاب نے ملک و ملت کی تقدیر ہی بدل کر رکھ دی ہے ، ہر طبقہ فکر کو اس کے حقوق حاصل ہیں،کچھ گروپوں کی طرف سے احتجاج اور یورش کے باوجود حکومت اپنے مقاصد کو پروان چڑھا رہی ہے ،ایرانی قوم میں موجود اتحاد و اتفاق اور قوم پرستی کی بدولت یہ مٹھی بھرسازشی عناصر اپنے ناپاک عزائم میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے۔کیونکہ عوام کی اکثریت اسلامی انقلاب کے ثمرات سے کماحقہ استفادہ کر رہی ہے <ref>نواب علی اختر، امام خمینیؒ اور انقلاب اسلامی کی جمہوری بنیادیں،[https://www.qaumiawaz.com/column/imam-khumaini-and-secular-roots-of-islamic-revolution qaumiawaz.com]</ref>۔
آج ایران کی ترقی اور استحکام اور قومی اتحادو یگانگت نے اسلامی جمہوریہ کو ایک مضبوط قوت میں تبدیل کرکے رکھ دیا ہے اور یہ کریڈٹ بھی قائد انقلاب حضرت آیت اللہ خمینی کو ہی جاتا ہے کہ ایران آج دنیا کی سپر طاقتوں امریکہ اور اسرائیل کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتا ہے۔امریکہ ایران کو دھمکیاں ضرور دیتا ہے مگر اس میں اب اتنی جرأت نہیں کہ وہ ایران پر چڑھ دوڑے۔ایران کے اسلامی انقلاب نے ملک و ملت کی تقدیر ہی بدل کر رکھ دی ہے ، ہر طبقہ فکر کو اس کے حقوق حاصل ہیں،کچھ گروپوں کی طرف سے احتجاج اور یورش کے باوجود حکومت اپنے مقاصد کو پروان چڑھا رہی ہے۔ایرانی قوم میں موجود اتحاد و اتفاق اور قوم پرستی کی بدولت یہ مٹھی بھرسازشی عناصر اپنے ناپاک عزائم میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے۔کیونکہ عوام کی اکثریت اسلامی انقلاب کے ثمرات سے کماحقہ استفادہ کر رہی ہے <ref>نواب علی اختر، امام خمینیؒ اور انقلاب اسلامی کی جمہوری بنیادیں،[https://www.qaumiawaz.com/column/imam-khumaini-and-secular-roots-of-islamic-revolution qaumiawaz.com]</ref>۔


== قدرتی آفات ==
== قدرتی آفات ==
تہران عجائب گھر برائے عصری فنون، اس عجائب گھر کو مغربی نودرات کے حوالے سے یورپ اور شمالی امریکا کے بعد سب سے اہم سمجھا جاتا ہے۔[10]
ایران انتہائی متحرک زلزلے کی پٹی پر واقع ہے جس کی وجہ سے یہاں آئے دن زلزلے آتے رہتے ہیں۔ 1991ء سے اب تک ملک میں ایک ہزار زلزلے کے جھٹکے ریکارڈ کیے جاچکے ہیں جن سے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 17 ہزار 600 جانیں ضائع ہوئیں۔ 2003ء میں جنوب مشرقی ایران میں شدید زلزلے نے تباہی مچادی۔ اس کی شدت ریکٹر اسکیل پر 6.3 تھی اور اس نے قدیم قصبہ بام کو صفحہ ہستی سے مٹادیا۔ اس زلزلے میں 30 ہزار افراد جاں بحق ہوئے۔
ایران انتہائی متحرک زلزلے کی پٹی پر واقع ہے جس کی وجہ سے یہاں آئے دن زلزلے آتے رہتے ہیں۔ 1991ء سے اب تک ملک میں ایک ہزار زلزلے کے جھٹکے ریکارڈ کیے جاچکے ہیں جن سے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 17 ہزار 600 جانیں ضائع ہوئیں۔ 2003ء میں جنوب مشرقی ایران میں شدید زلزلے نے تباہی مچادی۔ اس کی شدت ریکٹر اسکیل پر 6.3 تھی اور اس نے قدیم قصبہ بام کو صفحہ ہستی سے مٹادیا۔ اس زلزلے میں 30 ہزار افراد جاں بحق ہوئے۔


== آئین ==
== آئین ==
اسلامی جمہوریہ ایران کے آئین کا مجوزہ متن ماہرین اور دلچسپی رکھنے والی جماعتوں کو عبوری حکومت (جون 1358) کی طرف سے دستیاب کرایا گیا اور 1358 میں عام انتخابات کے ذریعے اس کے حتمی جائزے کے لیے آئینی ماہرین کی اسمبلی تشکیل دی گئی۔ آئین کا آخری ورژن اسی سال دسمبر میں تھا، ایک ریفرنڈم ایران کے معزز لوگوں نے منظور کیا تھا  <ref>امام خمینی‌، ج‌۳، ص‌۴۸۶؛ روزها و رویدادها، ج‌۱، ص‌۸۱</ref>۔
اسلامی جمہوریہ ایران کے آئین کا مجوزہ متن ماہرین اور دلچسپی رکھنے والی جماعتوں کو عبوری حکومت (جون 1358) کی طرف سے دستیاب کرایا گیا اور 1358 میں عام انتخابات کے ذریعے اس کے حتمی جائزے کے لیے آئینی ماہرین کی اسمبلی تشکیل دی گئی۔ آئین کا آخری ورژن اسی سال دسمبر میں تھا۔ ایک ریفرنڈم ایران کے معزز لوگوں نے منظور کیا تھا  <ref>امام خمینی‌، ج‌۳، ص‌۴۸۶؛ روزها و رویدادها، ج‌۱، ص‌۸۱</ref>۔
== آئین پر نظر ثانی ==
== آئین پر نظر ثانی ==
کچھ ابہام اور ناپختگیوں کی موجودگی اور آئین میں کچھ ترمیم کی ضرورت کے باعث امام خمینی نے پارلیمنٹ کے اراکین اور سپریم جوڈیشل کونسل کی درخواست پر آئین پر نظر ثانی کے لیے ایک کونسل مقرر کی تاکہ آئین پر نظر ثانی کا کوئی حل فراہم کیا جا سکے۔
کچھ ابہام اور ناپختگیوں کی موجودگی اور آئین میں کچھ ترمیم کی ضرورت کے باعث امام خمینی نے پارلیمنٹ کے اراکین اور سپریم جوڈیشل کونسل کی درخواست پر آئین پر نظر ثانی کے لیے ایک کونسل مقرر کی تاکہ آئین پر نظر ثانی کا کوئی حل فراہم کیا جا سکے۔
مذکورہ کونسل نے 7 مئی کو نظرثانی کا کام شروع کیا اور جون 1368 میں امام خمینی کی وفات کے بعد اس نے اپنا مشن جاری رکھا اور نظر ثانی شدہ اور ترمیم شدہ آئین کو اگست 1368 میں ایک ریفرنڈم میں قوم سے منظور کیا گیا <ref>«متن کامل پیشنهادی پیش‌نویس قانون اساسی»، ص‌۵۶</ref>۔
مذکورہ کونسل نے 7 مئی کو نظرثانی کا کام شروع کیا اور جون 1368 میں امام خمینی کی وفات کے بعد اس نے اپنا مشن جاری رکھا اور نظر ثانی شدہ اور ترمیم شدہ آئین کو اگست 1368 میں ایک ریفرنڈم میں قوم سے منظور کیا گیا <ref>«متن کامل پیشنهادی پیش‌نویس قانون اساسی»، ص‌۵۶</ref>۔
== اسلامی جمہوریہ کے مبانی ==
== اسلامی جمہوریہ کے مبانی ==
جمہوری نظام کے اصولوں میں چار اجزاء شامل ہیں:
جمہوری نظام کے اصولوں میں چار اجزاء شامل ہیں:
براہ راست یا بالواسطہ (پارلیمنٹ کے ذریعے) لوگوں پر حاکم کا انتخاب۔
 
حکمران کی حکمرانی کی مدت کی محدود مدت، جس کی وجہ سے اس کا دوبارہ انتخاب ایک یا دو بار سے زیادہ نہیں ہو سکتا۔
* براہ راست یا بالواسطہ (پارلیمنٹ کے ذریعے) لوگوں پر حاکم کا انتخاب۔
ملک کے دوسرے لوگوں کے ساتھ قانون کے سامنے حکمران کی برابری وہ قانون کے تابع بھی ہے اور اپنے تمام اعمال کا ذمہ دار بھی ہے۔
* حکمران کی حکمرانی کی محدود مدت، جس کی وجہ سے اس کا دوبارہ انتخاب ایک یا دو بار سے زیادہ نہیں ہو سکتا۔
حکمران پر قانونی اور سیاسی نقطہ نظر سے دوہری ذمہ داری عائد ہوتی ہے <ref>هاشمی‌، ۱۳۷۴ش‌، ج‌۱، ص‌۵۳۵۴</ref>۔
* ملک کے دوسرے لوگوں کے ساتھ قانون کے سامنے حکمران کی برابری :وہ قانون کا تابع بھی ہے اور اپنے تمام اعمال کا ذمہ دار بھی ہے۔
* حکمران پر قانونی اور سیاسی نقطہ نظر سے دوہری ذمہ داری عائد ہوتی ہے <ref>هاشمی‌، ۱۳۷۴ش‌، ج‌۱، ص‌۵۳۵۴</ref>۔
 
ذکر کردہ اجزاء کو لاگو کرنے کے نتیجے میں، ہم مندرجہ ذیل امور کو دیکھیں گے:
ذکر کردہ اجزاء کو لاگو کرنے کے نتیجے میں، ہم مندرجہ ذیل امور کو دیکھیں گے:
ملک کی حکمرانی اور نظم و نسق، خواہ رہنما کے انتخاب میں ہو (بالواسطہ ووٹ کے ذریعے) یا صدر کے انتخاب میں (براہ راست ووٹ کے ذریعے) نیز حکومت کی تشکیل (اسلامی کونسل کے اعتماد کا ووٹ)، عوامی ووٹوں کی بنیاد پر مبنی ہے۔
 
صدر کے عہدے کی مدت (ایک بار دوبارہ انتخاب کے امکان کے ساتھ) چار سال ہے؛
ملک کی حکمرانی اور نظم و نسق، خواہ رہنما کے انتخاب میں ہو (بالواسطہ ووٹ کے ذریعے) یا صدر کے انتخاب میں (براہ راست ووٹ کے ذریعے) نیز حکومت کی تشکیل (اسلامی کونسل کے اعتماد کا ووٹ)، عوامی ووٹوں کی بنیاد پر مبنی ہے۔صدر کے عہدے کی مدت (ایک بار دوبارہ انتخاب کے امکان کے ساتھ) چار سال ہے؛رہبر، صدر اور اقتدار میں موجود دیگر افراد قانون کے سامنے ملک کے  دیگر افراد کے برابر ہیں۔
رہبر، صدر اور اقتدار میں موجود دیگر افراد قانون کے سامنے ملک کے  دیگر افراد برابر ہیں۔
قیادت کے عہدے اور صدر اور وزراء کے لیے قانونی ذمہ داری (مقدمہ اور سزا کی حد تک) اور سیاسی ذمہ داری (مواخذے کی حد تک) ہے <ref>ایران‌. قانون اساسی‌، اصول‌۶، ۸۷، ۱۰۷، ۱۱۱، ۱۱۴، ۱۳۳،</ref>۔
قیادت کے عہدے اور صدر اور وزراء کے لیے قانونی ذمہ داری (مقدمہ اور سزا کی حد تک) اور سیاسی ذمہ داری (مواخذے کی حد تک) ہے <ref>ایران‌. قانون اساسی‌، اصول‌۶، ۸۷، ۱۰۷، ۱۱۱، ۱۱۴، ۱۳۳،</ref>۔
== اسلامی جمہوریہ میں اسلام اور شیعیت کا مقام ==
== اسلامی جمہوریہ میں اسلام اور شیعیت کا مقام ==
confirmed
821

ترامیم