Jump to content

"عالمی سیاست پر انقلاب اسلامی ایران کے اثرات" کے نسخوں کے درمیان فرق

کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
ٹیگ: بصری ترمیم موبائل ترمیم موبائل ویب ترمیم
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
ٹیگ: بصری ترمیم موبائل ترمیم موبائل ویب ترمیم
سطر 4: سطر 4:
بیسویں عیسوی صدی  کے آخر میں [[ایران|اسلامی انقلاب ایران]] کا وقوع پذیر ہونا، بہت ہی اہمیت کا حامل ہے، جس کی مختلف زاویوں سے دقت کے ساتھ مطالعہ کی ضرورت تو پہلے سے ہی تھی۔ بعض مکانی اور زمانی خصوصیات اور خطے میں اسکے بڑھتے ہوے اثرات کی وجہ سے اسکی اہمیت  اب اور بھی بڑھ گئی ہے۔ ایران اس وقت عالمی تجزیہ نگاروں اور سیاست دانوں کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔  
بیسویں عیسوی صدی  کے آخر میں [[ایران|اسلامی انقلاب ایران]] کا وقوع پذیر ہونا، بہت ہی اہمیت کا حامل ہے، جس کی مختلف زاویوں سے دقت کے ساتھ مطالعہ کی ضرورت تو پہلے سے ہی تھی۔ بعض مکانی اور زمانی خصوصیات اور خطے میں اسکے بڑھتے ہوے اثرات کی وجہ سے اسکی اہمیت  اب اور بھی بڑھ گئی ہے۔ ایران اس وقت عالمی تجزیہ نگاروں اور سیاست دانوں کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔  
== مقدمہ ==
== مقدمہ ==
ایران کا اسلامی انقلاب ایسے وقت میں کامیاب ہوا جب دنیا بھر میں دین کا سماجی اور سیاسی چہرا عالمی منظر سے ناپید ہوتا جارہا تھا اور اسلامی حکومت کا تصور ایک قصہ پارینہ ہوچکا تھا-اگرچہ آج  جبکہ انقلاب  کو برٍپا ہوۓ 45 برس ہوچکے ہیں اور سامراجی طاقتوں کی تمام تر کوششوں کے باوجود نہ صرف خطے کی سب سے مضبوط فوجی اور سیاسی لحاظ سے بانفوذ قدرت بن چکا ہے، جس کو معروف برطانوی تجزیہ نگار رابرٹ فکس اسطرح تحلیل کرتے ہوۓ نظر آتے ہیں" ایران کے ہاتھوں عراق اور [[شام]] میں داعش کی شکست  کے بعد مشرق وسطی میں امریکہ کی خارجہ پالیسی عملا ناکام ہوچکی ہے" مغربی استعماری طاقتوں سے مرعوب کچھ اہل قلم کیلیے اب بھی  اسلامی سیاسی نظریہ  کانفاذ غیر ممکن نظر آتے ہے۔
ایران کا اسلامی انقلاب ایسے وقت میں کامیاب ہوا جب دنیا بھر میں دین کا سماجی اور سیاسی چہرہ عالمی منظر سے ناپید ہوتا جارہا تھا اور اسلامی حکومت کا تصور ایک قصہ پارینہ بن چکا تھا-اگرچہ آج  جبکہ انقلاب  کو برٍپا ہوۓ 45 برس ہوچکے ہیں اور سامراجی طاقتوں کی تمام تر کوششوں کے باوجود نہ صرف خطے کی سب سے مضبوط فوجی اور سیاسی لحاظ سے بانفوذ قدرت بن چکا ہے، جس کو معروف برطانوی تجزیہ نگار رابرٹ فکس اس طرح تحلیل کرتے ہوۓ نظر آتے ہیں" ایران کے ہاتھوں عراق اور [[شام]] میں داعش کی شکست  کے بعد مشرق وسطی میں امریکہ کی خارجہ پالیسی عملا ناکام ہوچکی ہے" مغربی استعماری طاقتوں سے مرعوب کچھ اہل قلم کیلیے اب بھی  اسلامی سیاسی نظریہ  کانفاذ غیر ممکن نظر آتے ہے۔
انقلاب ایران ایسے وقت میں کامیاب ہوا جب شاہ کی حکومت کو امریکہ اور مغربی طاقتوں  کی پھر پور حمایت حاصل تھی۔ ایران اور اسکے ہمسایہ ممالک انرجی کے مرکز تھے، یہ علاقہ عالمی اقتصاد  کے لئے ریڑہ کی ہڈی  کی حیثیت رکھتا تھا۔ جس کا کنٹرول امریکہ کے ہاتھ سے نکل کر انقلابی قیادت کے ہاتھ میں آگیا تھا۔ جن کی اولین  ترجیحات استکباری نظام اور استعماری سیاست کا خاتمہ اور اسلامی قوانین کا نفاذ تھا، یہ وہ مقاصد تھے جن کیلیے اسلامی تنظیمیں اور  خطے کے مسلمان اپنے اپنے طور پر گذشتہ ایک صدی سے کوشش کررہے تھے ۔ اس لیے انقلاب نے اسلامی دنیا کے مسلمانوں کے دل میں اپنے ممالک میں بھی اسلامی حکومت کے قیام کی آرزو اور اسکے لیے کوششں کرنے والوں میں امید کی تازہ روح پھونک دی۔ البتہ دوسری طرف سے ایران خطے کی استبدادی اور شہنشاہی حکومتوں کے درمیان فاصلے بڑھ گئے جو ایک طبیعی عکس العمل تھا کیوں کہ عرب حکمران بخوبی آگاہ تھے کے یہ انقلاب ایران تک محدود  نہی رہے گا،عنقریب انکی عوام بھی آزادی اور اسلامی حکومت کا مطالبہ کرینگے ۔ دوسری طرف سے ایک ایسی آزاد اسلامی حکومت کا قیام، جس کا نعرہ نہ  شرقی و  نہ غربی تھا ،مغربی دنیا سے بھی اس کے تعلقات پر اثر پڑا  کیونکہ اس انقلاب سے یورپی خاص کر امریکی معاشی اور سیاسی منصوبوں کو شدید دھچکا لگا اور ان کے مفادات خطرے میں پڑ گئے۔  اس لیے انقلاب کے فورا بعد صدام حسین نے ایران عراق سے امن معاہدہ کی یک سر خلاف ورزی کرتے ہوے ،امریکہ ،یورٍپ اور خطے کی بعض حکومتوں  کی مالی،تسلیحاتی اور فوجی مدد  کے ساتھ  ایران پر حملہ کیا گیا، اور یورپی حکومتوں کی طرف سے فراہم کردہ کیمیکل ہتیاروں سے بے گناہ شہریوں پر  حملے کر کے ہزاروں بے گناہ انسانوں کا قتل عام کیا گیا۔ اور ان ہی انسانی حقوق اور جمہوریت کے دعوے دار  طاقتوں نے اپنی نا حق ویٹو پاور کو استعمال کرکے ہوۓ صدام جیسے ڈکٹیٹر کے خلاف پیش ہونے والی کسی بھی مزمتی قرارداد کو  کامیاب نہ ہونے دیا۔
انقلاب ایران ایسے وقت میں کامیاب ہوا جب شاہ کی حکومت کو امریکہ اور مغربی طاقتوں  کی پھر پور حمایت حاصل تھی۔ ایران اور اسکے ہمسایہ ممالک انرجی کے مرکز تھے، یہ علاقہ عالمی اقتصاد  کے لئے ریڑہ کی ہڈی  کی حیثیت رکھتا تھا۔ جس کا کنٹرول امریکہ کے ہاتھ سے نکل کر انقلابی قیادت کے ہاتھ میں آگیا تھا۔ جن کی اولین  ترجیحات استکباری نظام اور استعماری سیاست کا خاتمہ اور اسلامی قوانین کا نفاذ تھا۔  یہ وہ مقاصد تھے جن کیلیے اسلامی تنظیمیں اور  خطے کے مسلمان اپنے اپنے طور پر گذشتہ ایک صدی سے کوشش کررہے تھے ۔ اس لیے انقلاب نے اسلامی دنیا کے مسلمانوں کے دل میں اپنے ممالک میں بھی اسلامی حکومت کے قیام کی آرزو اور اسکے لیے کوششں کرنے والوں میں امید کی تازہ روح پھونک دی۔ البتہ دوسری طرف سے ایران اور خطے کی استبدادی اور شہنشاہی حکومتوں کے درمیان فاصلے بڑھ گئے جو ایک طبیعی عکس العمل تھا کیوں کہ عرب حکمران بخوبی آگاہ تھے کے یہ انقلاب ایران تک محدود  نہیں رہے گا، بلکہ عنقریب انکی عوام بھی آزادی اور اسلامی حکومت کا مطالبہ کرینگے ۔ دوسری طرف سے ایک ایسی آزاد اسلامی حکومت کا قیام، جس کا نعرہ نہ  شرقی و  نہ غربی تھا ،مغربی دنیا سے بھی اس کے تعلقات پر اثر پڑا  کیونکہ اس انقلاب سے یورپی خاص کر امریکی معاشی اور سیاسی منصوبوں کو شدید دھچکا لگا اور ان کے مفادات خطرے میں پڑ گئے۔  اس لیے انقلاب کے فورا بعد صدام حسین نے ایران اور  عراق مابین امن معاہدہ کی یک سر خلاف ورزی کرتے ہوے ،امریکہ ،یورٍپ اور خطے کی بعض حکومتوں  کی مالی،تسلیحاتی اور فوجی مدد  کے ساتھ  ایران پر حملہ کر دیا، اور یورپی حکومتوں کی طرف سے فراہم کردہ کیمیکل ہتیاروں سے بے گناہ شہریوں پر  حملے کر کے ہزاروں بے گناہ انسانوں کا قتل عام کیا ۔ اور ان ہی انسانی حقوق اور جمہوریت کے دعوے دار  طاقتوں نے اپنی نا حق ویٹو پاور کو استعمال کرکے ہوۓ صدام جیسے ڈکٹیٹر کے خلاف پیش ہونے والی کسی بھی مذمتی قرارداد کو  کامیاب نہ ہونے دیا۔
انقلاب کے عالمی اثرات کو ایران کی جیوپولیٹک اور جیو اسٹراٹیجک حیثیت نے اور زیادہ شدت بخشی۔  یہ انقلاب لیبریزم اور سوشلزم کے مقابلے میں، تیسری دنیا کے مستعضف  اور پسے ہوے عوام لیے ایک رول ماڈل اورآرمان میں بدل ہو گیا۔ جس کے  نتیجہ میں  عالمی سیاست میں  اسلامی انقلاب ایک  تیسری نئی قوت اور نظریہ کی صورت میں ابھر کے سامنے آیا ۔
انقلاب کے عالمی اثرات کو ایران کی جیوپولیٹک اور جیو اسٹراٹیجک حیثیت نے اور زیادہ شدت بخشی۔  یہ انقلاب لیبرل ازم اور سوشلزم کے مقابلے میں، تیسری دنیا کے مستعضف  اور پسے ہوے عوام لیے ایک رول ماڈل اورآرزومیں بدل گیا۔ جس کے  نتیجہ میں  عالمی سیاست میں  اسلامی انقلاب ایک  تیسری نئی قوت اور نظریہ کی صورت میں ابھر کے سامنے آیا ۔
== انقلاب کی تعریف ==
== انقلاب کی تعریف ==
لفظ انقلاب پہلی نظر میں ایک ملک کی سیاسی حکومت میں بنیادی تبدیلی کی عکاسی کرتا ہے۔ انقلاب ایک دیرینہ عادت میں اچانک تبدیلی کا نام ہے۔ حکومت قانون وضع کرتی ہے، اسے نافذ کرتی ہے اور اس کی مخالفت کرنے والوں کو سزادیتی ہے۔ اچانک ایک حکومت سے یہ سب اختیارات سلب ہو جائیں اور اس نظام سے تعلق رکھنے والے دور و نزدیک کے تمام افراد سیاسی اور سماجی اختیارات سلب ہوجائیں اور ایک حکومت جو تمام سیاسی اقتدار، سماجی اور ثقافتی مراکز کو کنٹرول کر کے معاشرے کے اتار چڑھاؤ کو جو اپنے قابو میں رکھتی تھی، اچانک سرنگون ہوجاۓ اور اسکی جگہ پر ایک نئی حکومت بر سر اقتدار آجا‎ۓ <ref>محمدی،2007، ص24</ref>۔
لفظ انقلاب پہلی نظر میں ایک ملک کی سیاسی حکومت میں بنیادی تبدیلی کی عکاسی کرتا ہے۔ انقلاب ایک دیرینہ عادت میں اچانک تبدیلی کا نام ہے۔ حکومت قانون وضع کرتی ہے، اسے نافذ کرتی ہے اور اس کی مخالفت کرنے والوں کو سزادیتی ہے۔ اچانک ایک حکومت سے یہ سب اختیارات سلب ہو جائیں اور اس نظام سے تعلق رکھنے والے دور و نزدیک کے تمام افراد سیاسی اور سماجی اختیارات سلب ہوجائیں اور ایک حکومت جو تمام سیاسی اقتدار، سماجی اور ثقافتی مراکز کو کنٹرول کر کے معاشرے کے اتار چڑھاؤ کو جو اپنے قابو میں رکھتی تھی، اچانک سرنگون ہوجاۓ اور اسکی جگہ پر ایک نئی حکومت بر سر اقتدار آجا‎ۓ <ref>محمدی،2007، ص24</ref>۔
confirmed
821

ترامیم