3,914
ترامیم
Saeedi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
Saeedi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) |
||
سطر 18: | سطر 18: | ||
=== پہلا پروگرام === | === پہلا پروگرام === | ||
پہلا پروگرام جو 20 جون 2008ء کا تھا اس کے لئے ھم 90 فیصد لوگ باہر سے لے کر گئے تھے، وہاں سے 10 فیصد لوگوں نے شرکت کے تھی۔ جب لوگ ہمت ہارے ہوئے ہوں، حوصلہ ہارے ہوئے ہوں، ناامید ہو چکے ہوں تو ان کو کھڑا کرنا بھی ایک بڑا مسئلہ ہوتا ہے۔ الحمدللہ! 20 جون کے پروگرام کے بعد ہمت بھی بڑھی، حوصلہ بھی ہوا، اور پھرانہوں نے مقاومت بھی کی۔ یہ سلسلہ چلتا رہا، پھر پاراچنار میں دوائیوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ ہم نے اسلام آباد میں مارگلہ ہوٹل کے اندر سابقہ و موجودہ بیوروکریٹس، ریٹائرڈ جنرلز، بریگیڈیئرز، آرمی کے لوگ، وکلاء، بزنس مین اور دوسرے لوگوں کا اجتماع کیا، اور ان کو باقاعدہ بریفنگ دی پارا چنار کے بارے میں، موثر قسم کے 66 لوگوں کو بلایا ان میں سابقہ و موجودہ بیوروکریٹس، ریٹائرڈ جنرلز، بریگیڈیئرز، آرمی کے لوگ، وکلاء، بزنس مین اور بڑے مخیر اور موثر لوگ بھی تھے۔ ہم نے ان کو بلایا، پارا چنار کے بارے میں مکمل بریفنگ دی، کہ در اصل کیا صورت حال ہے، اس کا پس منظر کیا ہے، خطرات کیا ہیں، اور اس حوالے سے ان سے مشاورت بھی کی اور وہیں پر فنڈز کمیٹی بھی بنائی گئی، فوج کے لوگوں سے رابطہ کرنے کے لئے 3 افراد پر مشتمل ایک کمیٹی بنائی گئی، میڈیا میں مسئلے کو اٹھانے کے لئے ایک الگ کمیٹی بنائی گئی، ایک وکلاء کی کمیٹی بنائی گئی کہ اگر کوئی قانونی مسئلہ ہو تو دیکھ لیں، یعنی جو اس قضیہ کے مختلف پہلو بنتے ہیں، اس پہلو سے ہم اقدامات کریں۔ آہستہ آہستہ ملک میں اسی تناظر میں مظاہرے ہونا شروع ہو گئے، رابطہ مہم شروع ہو گئی، اور سنسر ٹوٹنا شروع ہو گیا، اخباروں میں، میڈیا میں آنا شروع ہو گیا، دہلی میں مظاہرے ہوئے، لندن، امریکہ میں مظاہرے ہوئے، پاکستان کے دوسرے شہروں میں مظاہرے شروع ہو گئے، باہر کے ملکوں میں لوگ جمع ہو کے جاتے اور پاکستان کی سفراء کو یاد داشتیں دیتے کہ پاکستان میں یہ ظلم ہو رہا ہے، اسکو روکا جائے، امریکہ میں پاکستانی سفیر حسین حقانی کے پاس دو تین مرتبہ لوگ گئے، مختلف ملکوں کے اندر اسی طرح سے، تو ایک بیداری شروع ہو گئی، جب بیداری شروع ہو گئی تو لوگوں کو ریلیف اور مدد پہنچنا بھی شروع ہو گئِی، اور حکومت پر بھی دبائو بڑھنا شروع ہو گیا۔ اسی تناظر میں فیصلہ کیا گیا کہ اسلام آباد میں بھرپور کوشش کر کے پاراچنار کے حوالے سے آواز بلند کی جائے، وہاں جو ظلم ہو رہا ہے اس کو ایوانوں تک پہنچایا جاِئے، | پہلا پروگرام جو 20 جون 2008ء کا تھا اس کے لئے ھم 90 فیصد لوگ باہر سے لے کر گئے تھے، وہاں سے 10 فیصد لوگوں نے شرکت کے تھی۔ جب لوگ ہمت ہارے ہوئے ہوں، حوصلہ ہارے ہوئے ہوں، ناامید ہو چکے ہوں تو ان کو کھڑا کرنا بھی ایک بڑا مسئلہ ہوتا ہے۔ الحمدللہ! 20 جون کے پروگرام کے بعد ہمت بھی بڑھی، حوصلہ بھی ہوا، اور پھرانہوں نے مقاومت بھی کی۔ یہ سلسلہ چلتا رہا، پھر پاراچنار میں دوائیوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ ہم نے اسلام آباد میں مارگلہ ہوٹل کے اندر سابقہ و موجودہ بیوروکریٹس، ریٹائرڈ جنرلز، بریگیڈیئرز، آرمی کے لوگ، وکلاء، بزنس مین اور دوسرے لوگوں کا اجتماع کیا، اور ان کو باقاعدہ بریفنگ دی پارا چنار کے بارے میں، موثر قسم کے 66 لوگوں کو بلایا ان میں سابقہ و موجودہ بیوروکریٹس، ریٹائرڈ جنرلز، بریگیڈیئرز، آرمی کے لوگ، وکلاء، بزنس مین اور بڑے مخیر اور موثر لوگ بھی تھے۔ ہم نے ان کو بلایا، پارا چنار کے بارے میں مکمل بریفنگ دی، کہ در اصل کیا صورت حال ہے، اس کا پس منظر کیا ہے، خطرات کیا ہیں، اور اس حوالے سے ان سے مشاورت بھی کی اور وہیں پر فنڈز کمیٹی بھی بنائی گئی، فوج کے لوگوں سے رابطہ کرنے کے لئے 3 افراد پر مشتمل ایک کمیٹی بنائی گئی، میڈیا میں مسئلے کو اٹھانے کے لئے ایک الگ کمیٹی بنائی گئی، ایک وکلاء کی کمیٹی بنائی گئی کہ اگر کوئی قانونی مسئلہ ہو تو دیکھ لیں، یعنی جو اس قضیہ کے مختلف پہلو بنتے ہیں، اس پہلو سے ہم اقدامات کریں۔ آہستہ آہستہ ملک میں اسی تناظر میں مظاہرے ہونا شروع ہو گئے، رابطہ مہم شروع ہو گئی، اور سنسر ٹوٹنا شروع ہو گیا، اخباروں میں، میڈیا میں آنا شروع ہو گیا، دہلی میں مظاہرے ہوئے، لندن، امریکہ میں مظاہرے ہوئے، پاکستان کے دوسرے شہروں میں مظاہرے شروع ہو گئے، باہر کے ملکوں میں لوگ جمع ہو کے جاتے اور پاکستان کی سفراء کو یاد داشتیں دیتے کہ پاکستان میں یہ ظلم ہو رہا ہے، اسکو روکا جائے، امریکہ میں پاکستانی سفیر حسین حقانی کے پاس دو تین مرتبہ لوگ گئے، مختلف ملکوں کے اندر اسی طرح سے، تو ایک بیداری شروع ہو گئی، جب بیداری شروع ہو گئی تو لوگوں کو ریلیف اور مدد پہنچنا بھی شروع ہو گئِی، اور حکومت پر بھی دبائو بڑھنا شروع ہو گیا۔ اسی تناظر میں فیصلہ کیا گیا کہ اسلام آباد میں بھرپور کوشش کر کے پاراچنار کے حوالے سے آواز بلند کی جائے، وہاں جو ظلم ہو رہا ہے اس کو ایوانوں تک پہنچایا جاِئے، | ||
پچھلے سال 12، 13 جولائی کو ہم نے طے کیا کہ 2 اگست 2008ء کو ہم پروگرام کریں گے، اتنے شارٹ نوٹس پر 1980ء کے بعد شاید پہلا اجتماع تھا جس میں ہزاروں لوگ آئے اور ریلی بھی نکالی گئی، حکومت کی طرف سے دباو تھا، ناامنی بہت زیادہ تھی، احتمال تھا کہ کچھ ہو جائے، حکومت نے اعلان کر دیا تھا کہ یہاں کوئی اجتماع نہیں ہو سکتا، 4 سے زیادہ لوگ جمع نہیں ہو سکتے، ٹیلیویژن پر باقاعدہ مہم چلائی گئی کہ کوئی اجتماع نہیں ہو سکتا، حکومت نے بہت ہتھکنڈے استعمال کئے، لیکن دوستوں کی استقامت کی وجہ سے بھرپور پروگرام ہوا، خواتین نے ہزاروں کی تعداد میں شرکت کی، بچے بھے تھے، بڑے بھے تھے، اس پروگرام میں اکثر دوست اپنے گھر والوں کے ساتھ آئے تھے، یہ ایک عجیب موقع تھا، یعنی دوستوں کے اندر یہ احساس تھا کہ اگر لوگوں کو خطرہ ہے تو وہ بھی اپنے بچوں اور گھر والوں کے ساتھ جائیں، یہ لوگوں کی طرف سے صداقت تھی اپنے مقصد اور ہدف کی جانب، بالکل اسی طرح جیسے حضرت رسول خدا ص مباہلہ میں اپنےگھر والوں کے ساتھ گئے تھے کیونکہ ان کو اپنے مقصد پر یقین تھا۔ خیر بہت بڑا اجتماع ہوا، اس نے لوگوں کو بڑا حوصلہ دیا اور ان کی بڑی ہمت بندھائِی، 2 سے لے کر 31 اگست تک پھر مسلسل مظاہرے شروع ہو گئے، سارے ملک میں، ہم نے تقسیم کیا ہوا تھا، کہیں شبیر بخاری صاحب جا رہے تھے، کہیں عبدالخالق اسدی کو بھیج رہے ہیں، کہیں امین شہیدی جا رہے ہیں، کہیں میں جا رہا ہوں، کہیں دوسرے دوست جا رہے ہیں، ہم تقسیم ہو گئے تھے تا کہ 31 اگست تک مظاہرے رہیں، اور ہم نے 3 اگست کو اعلان کیا تھا کہ پارا چنار کے جو راستے بند ہیں، ان کے ساتھ اظہار یکجہتی کی لئے ہم یکم ستمبر کو ملک کے تمام شاہراہوں کو 3 گھنٹوں کے لئے بند کریں گے، تاکہ لوگوں کو بھی پتہ چلے اور حکومت پر بھی پریشر پڑے کہ سڑکیں بند ہونے سے کتنی تکلیفیں اٹھانی پڑتی ہیں اور لوگ اس حوالے سے آواز اٹھائیں۔ پچھلے سال تقریبا 28 مقامات پر گلگت سے لے کر کراچی تک اور خیبر سے لے کر بلوچستان تک اہم شاہراہیں بند کی گئیں، جو کہ 4 بجے سے لے کر شام 7 بجے تک بند رہیں، اور بڑا منظم احتجاج تھا، پورے ملک میں نہ 4 بجے سے پہلے یا بعد میں سڑکیں بند ہوئیں، نہ 7 بجے سے پہلے یا بعد میں کھولی گئیں، اسلام آباد سارا بند تھا، کراچی لاڑکانہ سکھر کوئٹہ، سرگودھا اور جو موٹروے کی طرف راستے آتے ہیں، سارے بند تھے، اسی طرح سیالکوٹ ، لیہ ،بھکر اور لاہور بھی بند تھا، جوں جوں بیداری کے لئے کام ہو رہا تھا، ان اقدامات کے ذریعے لوگ آرگنائز ہو رہے تھے، آپس میں اعتماد بڑھ رہا تھا۔ فیصلہ ہم اسلام آباد میں کرتے تھے لیکن تعاون پورا پاکستان کرتا تھا، کوئٹہ، سرحد، سندھ اور شمالی علاقہ جات کے لوگ۔ اس کے بعد یہ ڈیمانڈ ہونا شروع ہو گئی کہ آپ جو فیصلے کرتے ہیں ان میں ہمیں بھی شریک کریں، ہم آپ کے ساتھ تعاون تو کرتے ہی ہیں لہذا ہمیں ان فیصلوں میں بھی شریک ہونا چاہیئے۔ دوسرے علاقوں کے علماء اور غیر علماء بھی اس میں آنے چاہیئیں۔ کیونکہ وہ نظری اور فکری لوگ جو شہید کے ساتھ رہے تھے یا شہید کے ساتھ محبت کرتے تھے اور رہبر کے پیروکار تھے انہیں ایک پلیٹ فارم نظر آنا شروع ہو گیا، ایک سسٹم بنتا نظر آ گیا جس کو اگر اچھی طرح بنائیں تو ہم اس پرچم کو جو شہید کے ہاتھ سے گرا تھا مل کر تھام سکتے ہیں، ہم اپنے مظلوموں اور محروموں کو ظلم سے نجات دلا سکتے ہیں، انکے حقوق کیلئے جدوجہد کر سکتے ہیں اور بالاخر پاکستان کیلئے کام کر سکتے ہیں اور اپنے وطن کیلئے کام کر سکتے ہیں۔ لہذا پھر دوستوں کی میٹنگز شروع ہو گئیں، رابطہ مہم شروع ہو گئی، پورے ملک میں رابطے ہوئے اور پچھلے سال 2 اور 3 مئی 2008ء کو رجوعہ سادات جامعہ بعثت چنیوٹ میں اجتماع ہوا جس میں 160 کے قریب علماء اور اس کے علاوہ بڑی تعداد میں غیرعلماء نے بھی شرکت کی اور فیصلہ کیا گیا کہ ہم اس سسٹم کو وسعت دیں گے۔ اس اجتماع میں دو اھم اعلان کئے گئے، ایک تو مجلس وحدت مسلمین کو وسعت دینے کا اور دوسرا یہ کہ 2 اگست کو اسلام آباد میں گذشتہ سال کی طرح ایک مرکزی اجتماع کیا جائے گا۔ جس میں دفاع وطن کے حوالے سے پروگرام کروایا جائے گا۔ پھر 3 مئی سے لے کر جون کے آخر تک مجلس وحدت مسلمین کا تشکیلاتی کام شروع ہو گیا۔ پنجاب کے اکثر اضلاع میں 5 جولائی تک ہم نے تشکیلاتی کام انجام دیا، 25 اضلاع میں تنظیم سازی کا کام مکمل کر لیا تھا۔ بلوچستان میں بھی 5 جولائی کو تنظیمی اجتماع ہوا تھا، وہاں پر بھی اکثر اضلاع میں پنجاب کی طرح ہم نے ابتدائی تشکیلاتی سیٹ اپ بنا لیا تھا۔ پنجاب میں بھی صوبائی سیکرٹری جنرل بن گیا تھا اور بلوچستان میں بھی بن چکا تھا۔ پھر اس کام کو ہم نے روک دیا، صوبہ سندھ کے دورے بھی ہم نے کئے، کراچی کی دورے کئے دوسرے علاقوں میں بھی گئے اور صوبہ سرحد کے جو علاقے پنجاب سے ملتے ہیں مثلا ہری پور اور دوسرے، وہاں بھی تنظیم سازی کر دی گئی۔ باقی علاقوں کے بارے میں طے تھا کہ 2 اگست کے بعد ان کو آگے لے کر چلیں گے۔ 2 اگست کے پروگرام کے لئے بھرپور کوششیں کی گئیں تاکہ زیادہ سے زیادہ شرکت کو ممکن بنایا جائے۔ 2 اگست کو اسلام آباد میں مرکزی اجتماع ہوا، دفاع وطن کے نام سے، ہم چاہتے تھے کہ اس انداز سے نئے فیز میں داخل ہوں کہ ہم فقط اپنے لئے نہیں سوچتے ہیں بلکہ اپنے وطن کے لِئے بھی سوچتے ہیں، ان مشکل ترین حالات میں جب ہر طرف سے ملک کو توڑنے کی سازشیں ہو رہی ہیں، ملک کو ناامن کرنے کی سازشیں ہو رہی ہیں، ملک کے اندرونی اور بیرونی دشمن چاروں طرف سے اس پر حملہ آور ہیں، ہمارے اجداد نے اس وطن کو بنایا تھا، ہم اٹھیں اور وطن کے دفاع کے لئے شہید کی برسی کا نام رکھ دیں "دفاع وطن کنونشن" اور الحمدللہ اسلام آباد میں ایک نیا فیز تھا جس میں ہم داخل ہوئے، دفاع وطن کنوینشن کے حوالے سے اسلام آباد میں تقریبا ایک لاکھ افراد اکٹھے ہوئے، جو "پاکستان بنایا تھا، پاکستان بچائیں گے" کے نعرے لگا رہے تھے، اور ہاتھوں میں پاکستان کے پرچم تھے اور اپنی ھویت کو بھی نہیں چھپاتے تھے، ہم رہبر کے پیرو ہیں، ایک ہاتھ میں پاکستان کا پرچم تھا اور لبوں پر "خامنہ ای رہبر" کے نعرے تھے، الحمدللہ اس طرح انہوں نے اپنی ھویت کا اظہار بھی کیا کہ ہم کس رستے کے راہی ہیں اور ہاتھوں میں پاکستان کے پرچم لے کر اس بات کا بھی اعلان کیا کہ پاکستان ہمارا ہے اور ہم اس کو ہر مشکل سے بچانے کی لئے اٹھ کھڑے ہوں گے، ہم ہر قربانی دینے کی لئے تیار ہیں اور ان خطرناک ترین حالات میں جب اسلام آباد کی انتظامیہ کہہ رہی تھی کہ خودکش حملے ہو سکتے ہیں آپ نہیں کریں، ہم آئے، ہماری عورتیں آئیں، ہمارے بچے آئے، ہمارے بڑے آئے، بوڑھے آئے اور ملک کے کونے کونے سے آئے، الحمدللہ۔۔ بالکل یہ کہہ سکتے ہیں کہ شہید حسینی رہ کی شہادت کے بعد یہ ایک اہم موڑ تھا۔، شہید کے افکار، راستوں، سوچ کے حوالے سے اور شیعیان پاکستان کا ایک بدلتا ہوا کردار اور رول جو شہید چاہتے تھے کہ ہم ادا کریں اس کے حوالے سے الحمدللہ یہ ایک اہم موڑ تھا اور پھر جب پروگرام ختم ہو | پچھلے سال 12، 13 جولائی کو ہم نے طے کیا کہ 2 اگست 2008ء کو ہم پروگرام کریں گے، اتنے شارٹ نوٹس پر 1980ء کے بعد شاید پہلا اجتماع تھا جس میں ہزاروں لوگ آئے اور ریلی بھی نکالی گئی، حکومت کی طرف سے دباو تھا، ناامنی بہت زیادہ تھی، احتمال تھا کہ کچھ ہو جائے، حکومت نے اعلان کر دیا تھا کہ یہاں کوئی اجتماع نہیں ہو سکتا، 4 سے زیادہ لوگ جمع نہیں ہو سکتے، ٹیلیویژن پر باقاعدہ مہم چلائی گئی کہ کوئی اجتماع نہیں ہو سکتا، حکومت نے بہت ہتھکنڈے استعمال کئے، لیکن دوستوں کی استقامت کی وجہ سے بھرپور پروگرام ہوا، خواتین نے ہزاروں کی تعداد میں شرکت کی، بچے بھے تھے، بڑے بھے تھے، اس پروگرام میں اکثر دوست اپنے گھر والوں کے ساتھ آئے تھے، یہ ایک عجیب موقع تھا، یعنی دوستوں کے اندر یہ احساس تھا کہ اگر لوگوں کو خطرہ ہے تو وہ بھی اپنے بچوں اور گھر والوں کے ساتھ جائیں، یہ لوگوں کی طرف سے صداقت تھی اپنے مقصد اور ہدف کی جانب، بالکل اسی طرح جیسے حضرت رسول خدا ص مباہلہ میں اپنےگھر والوں کے ساتھ گئے تھے کیونکہ ان کو اپنے مقصد پر یقین تھا۔ خیر بہت بڑا اجتماع ہوا، اس نے لوگوں کو بڑا حوصلہ دیا اور ان کی بڑی ہمت بندھائِی، 2 سے لے کر 31 اگست تک پھر مسلسل مظاہرے شروع ہو گئے، سارے ملک میں، ہم نے تقسیم کیا ہوا تھا، کہیں شبیر بخاری صاحب جا رہے تھے، کہیں عبدالخالق اسدی کو بھیج رہے ہیں، کہیں امین شہیدی جا رہے ہیں، کہیں میں جا رہا ہوں، کہیں دوسرے دوست جا رہے ہیں، ہم تقسیم ہو گئے تھے تا کہ 31 اگست تک مظاہرے رہیں، اور ہم نے 3 اگست کو اعلان کیا تھا کہ پارا چنار کے جو راستے بند ہیں، ان کے ساتھ اظہار یکجہتی کی لئے ہم یکم ستمبر کو ملک کے تمام شاہراہوں کو 3 گھنٹوں کے لئے بند کریں گے، تاکہ لوگوں کو بھی پتہ چلے اور حکومت پر بھی پریشر پڑے کہ سڑکیں بند ہونے سے کتنی تکلیفیں اٹھانی پڑتی ہیں اور لوگ اس حوالے سے آواز اٹھائیں۔ پچھلے سال تقریبا 28 مقامات پر گلگت سے لے کر کراچی تک اور خیبر سے لے کر بلوچستان تک اہم شاہراہیں بند کی گئیں، جو کہ 4 بجے سے لے کر شام 7 بجے تک بند رہیں، اور بڑا منظم احتجاج تھا، پورے ملک میں نہ 4 بجے سے پہلے یا بعد میں سڑکیں بند ہوئیں، نہ 7 بجے سے پہلے یا بعد میں کھولی گئیں، اسلام آباد سارا بند تھا، کراچی لاڑکانہ سکھر کوئٹہ، سرگودھا اور جو موٹروے کی طرف راستے آتے ہیں، سارے بند تھے، اسی طرح سیالکوٹ ، لیہ ،بھکر اور لاہور بھی بند تھا، جوں جوں بیداری کے لئے کام ہو رہا تھا، ان اقدامات کے ذریعے لوگ آرگنائز ہو رہے تھے، آپس میں اعتماد بڑھ رہا تھا۔ فیصلہ ہم اسلام آباد میں کرتے تھے لیکن تعاون پورا پاکستان کرتا تھا، کوئٹہ، سرحد، سندھ اور شمالی علاقہ جات کے لوگ۔ اس کے بعد یہ ڈیمانڈ ہونا شروع ہو گئی کہ آپ جو فیصلے کرتے ہیں ان میں ہمیں بھی شریک کریں، ہم آپ کے ساتھ تعاون تو کرتے ہی ہیں لہذا ہمیں ان فیصلوں میں بھی شریک ہونا چاہیئے۔ دوسرے علاقوں کے علماء اور غیر علماء بھی اس میں آنے چاہیئیں۔ کیونکہ وہ نظری اور فکری لوگ جو شہید کے ساتھ رہے تھے یا شہید کے ساتھ محبت کرتے تھے اور رہبر کے پیروکار تھے انہیں ایک پلیٹ فارم نظر آنا شروع ہو گیا، ایک سسٹم بنتا نظر آ گیا جس کو اگر اچھی طرح بنائیں تو ہم اس پرچم کو جو شہید کے ہاتھ سے گرا تھا مل کر تھام سکتے ہیں، ہم اپنے مظلوموں اور محروموں کو ظلم سے نجات دلا سکتے ہیں، انکے حقوق کیلئے جدوجہد کر سکتے ہیں اور بالاخر پاکستان کیلئے کام کر سکتے ہیں اور اپنے وطن کیلئے کام کر سکتے ہیں۔ لہذا پھر دوستوں کی میٹنگز شروع ہو گئیں، رابطہ مہم شروع ہو گئی، پورے ملک میں رابطے ہوئے اور پچھلے سال 2 اور 3 مئی 2008ء کو رجوعہ سادات جامعہ بعثت چنیوٹ میں اجتماع ہوا جس میں 160 کے قریب علماء اور اس کے علاوہ بڑی تعداد میں غیرعلماء نے بھی شرکت کی اور فیصلہ کیا گیا کہ ہم اس سسٹم کو وسعت دیں گے۔ اس اجتماع میں دو اھم اعلان کئے گئے، ایک تو مجلس وحدت مسلمین کو وسعت دینے کا اور دوسرا یہ کہ 2 اگست کو اسلام آباد میں گذشتہ سال کی طرح ایک مرکزی اجتماع کیا جائے گا۔ جس میں دفاع وطن کے حوالے سے پروگرام کروایا جائے گا۔ پھر 3 مئی سے لے کر جون کے آخر تک مجلس وحدت مسلمین کا تشکیلاتی کام شروع ہو گیا۔ پنجاب کے اکثر اضلاع میں 5 جولائی تک ہم نے تشکیلاتی کام انجام دیا، 25 اضلاع میں تنظیم سازی کا کام مکمل کر لیا تھا۔ بلوچستان میں بھی 5 جولائی کو تنظیمی اجتماع ہوا تھا، وہاں پر بھی اکثر اضلاع میں پنجاب کی طرح ہم نے ابتدائی تشکیلاتی سیٹ اپ بنا لیا تھا۔ پنجاب میں بھی صوبائی سیکرٹری جنرل بن گیا تھا اور بلوچستان میں بھی بن چکا تھا۔ پھر اس کام کو ہم نے روک دیا، صوبہ سندھ کے دورے بھی ہم نے کئے، کراچی کی دورے کئے دوسرے علاقوں میں بھی گئے اور صوبہ سرحد کے جو علاقے پنجاب سے ملتے ہیں مثلا ہری پور اور دوسرے، وہاں بھی تنظیم سازی کر دی گئی۔ باقی علاقوں کے بارے میں طے تھا کہ 2 اگست کے بعد ان کو آگے لے کر چلیں گے۔ 2 اگست کے پروگرام کے لئے بھرپور کوششیں کی گئیں تاکہ زیادہ سے زیادہ شرکت کو ممکن بنایا جائے۔ 2 اگست کو اسلام آباد میں مرکزی اجتماع ہوا، دفاع وطن کے نام سے، ہم چاہتے تھے کہ اس انداز سے نئے فیز میں داخل ہوں کہ ہم فقط اپنے لئے نہیں سوچتے ہیں بلکہ اپنے وطن کے لِئے بھی سوچتے ہیں، ان مشکل ترین حالات میں جب ہر طرف سے ملک کو توڑنے کی سازشیں ہو رہی ہیں، ملک کو ناامن کرنے کی سازشیں ہو رہی ہیں، ملک کے اندرونی اور بیرونی دشمن چاروں طرف سے اس پر حملہ آور ہیں، ہمارے اجداد نے اس وطن کو بنایا تھا، ہم اٹھیں اور وطن کے دفاع کے لئے شہید کی برسی کا نام رکھ دیں "دفاع وطن کنونشن" اور الحمدللہ اسلام آباد میں ایک نیا فیز تھا جس میں ہم داخل ہوئے، دفاع وطن کنوینشن کے حوالے سے اسلام آباد میں تقریبا ایک لاکھ افراد اکٹھے ہوئے، جو "پاکستان بنایا تھا، پاکستان بچائیں گے" کے نعرے لگا رہے تھے، اور ہاتھوں میں پاکستان کے پرچم تھے اور اپنی ھویت کو بھی نہیں چھپاتے تھے، ہم رہبر کے پیرو ہیں، ایک ہاتھ میں پاکستان کا پرچم تھا اور لبوں پر "خامنہ ای رہبر" کے نعرے تھے، الحمدللہ اس طرح انہوں نے اپنی ھویت کا اظہار بھی کیا کہ ہم کس رستے کے راہی ہیں اور ہاتھوں میں پاکستان کے پرچم لے کر اس بات کا بھی اعلان کیا کہ پاکستان ہمارا ہے اور ہم اس کو ہر مشکل سے بچانے کی لئے اٹھ کھڑے ہوں گے، ہم ہر قربانی دینے کی لئے تیار ہیں اور ان خطرناک ترین حالات میں جب اسلام آباد کی انتظامیہ کہہ رہی تھی کہ خودکش حملے ہو سکتے ہیں آپ نہیں کریں، ہم آئے، ہماری عورتیں آئیں، ہمارے بچے آئے، ہمارے بڑے آئے، بوڑھے آئے اور ملک کے کونے کونے سے آئے، الحمدللہ۔۔ بالکل یہ کہہ سکتے ہیں کہ شہید حسینی رہ کی شہادت کے بعد یہ ایک اہم موڑ تھا۔، شہید کے افکار، راستوں، سوچ کے حوالے سے اور شیعیان پاکستان کا ایک بدلتا ہوا کردار اور رول جو شہید چاہتے تھے کہ ہم ادا کریں اس کے حوالے سے الحمدللہ یہ ایک اہم موڑ تھا اور پھر جب پروگرام ختم ہو گیا۔ | ||
=== مرحلہ شروع === | === مرحلہ شروع === | ||
پاکستان میں عوام متدین ہیں، دین سے محبت رکھتے ہیں اور یہ استحقاق رکھتے ہیں کہ ان پر ایک ایسی حکومت قائم ہو جو اسلام اور قرآن کے مطابق ہو، لھذا پاکستان میں ایسے حالات پیدا کئے جائیں کہ وہاں دین کی پابندی کی جائے اور لوگ اسلام کے پرچم تلے زندگی گزاریں۔ | پاکستان میں عوام متدین ہیں، دین سے محبت رکھتے ہیں اور یہ استحقاق رکھتے ہیں کہ ان پر ایک ایسی حکومت قائم ہو جو اسلام اور قرآن کے مطابق ہو، لھذا پاکستان میں ایسے حالات پیدا کئے جائیں کہ وہاں دین کی پابندی کی جائے اور لوگ اسلام کے پرچم تلے زندگی گزاریں۔ |