3,958
ترامیم
Saeedi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
|||
سطر 21: | سطر 21: | ||
سید عارف حسین بن سید فضل حسین 25 نومبر 1946 عیسوی کو پاکستان کے شمال مغرب میں واقع شہر پاراچنار کے نواحی گاؤں پیواڑ کے ایک مذہبی، علمی اور سادات گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کا آبائی گاؤں پیواڑ پاک ۔افغان سرحد پر واقع ہے جس میں "غُنڈی خیل"، "علی زئی" اور "دوپر زئی" نامی قبائل آباد ہیں۔ سید عارف حسینی پختونوں کے طوری قبیلے کی شاخ "دوپرزئی" سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کا سلسلۂ نسب شاہ شرف بو علی قلندر بن سید فخر ولی تک پہنچتا ہے جن کا نسب شرف الدین بوعلی شاہ قلندر ابن ابوالحسن فخر عالم تک پہنچتا ہے۔ بو علی شاہ کا مدفن ہندوستان کا شہر پانی پت اور فخر عالم کا مدفن پاراچنار کے نواحی گاؤں کڑمان ہے۔ چونکہ ان کا سلسلۂ نسب حسین الاصغر ابن علی بن الحسین(ع) تک پہنچتا ہے، لہٰذا ان کا خاندان "حسینی" کے عنوان سے مشہور ہے <ref>زندگی نامہ علامہ شہید عارف حسین الحسینى از ولادت تا شہادت، تہیہ كنندہ: مؤسسہ شہید الحسینى، قم: نشر شاہد، 1369ہجری شمسی</ref>۔ ان کے آباء و اجداد ـ جن میں سے متعدد افراد علمائے دین اور مبلغین میں سے تھے ـ اسلامی معارف و تعلیمات کی ترویج کی غرض سے پیواڑ اور قریبی علاقوں میں سرگرم عمل رہے ہیں۔ | سید عارف حسین بن سید فضل حسین 25 نومبر 1946 عیسوی کو پاکستان کے شمال مغرب میں واقع شہر پاراچنار کے نواحی گاؤں پیواڑ کے ایک مذہبی، علمی اور سادات گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کا آبائی گاؤں پیواڑ پاک ۔افغان سرحد پر واقع ہے جس میں "غُنڈی خیل"، "علی زئی" اور "دوپر زئی" نامی قبائل آباد ہیں۔ سید عارف حسینی پختونوں کے طوری قبیلے کی شاخ "دوپرزئی" سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کا سلسلۂ نسب شاہ شرف بو علی قلندر بن سید فخر ولی تک پہنچتا ہے جن کا نسب شرف الدین بوعلی شاہ قلندر ابن ابوالحسن فخر عالم تک پہنچتا ہے۔ بو علی شاہ کا مدفن ہندوستان کا شہر پانی پت اور فخر عالم کا مدفن پاراچنار کے نواحی گاؤں کڑمان ہے۔ چونکہ ان کا سلسلۂ نسب حسین الاصغر ابن علی بن الحسین(ع) تک پہنچتا ہے، لہٰذا ان کا خاندان "حسینی" کے عنوان سے مشہور ہے <ref>زندگی نامہ علامہ شہید عارف حسین الحسینى از ولادت تا شہادت، تہیہ كنندہ: مؤسسہ شہید الحسینى، قم: نشر شاہد، 1369ہجری شمسی</ref>۔ ان کے آباء و اجداد ـ جن میں سے متعدد افراد علمائے دین اور مبلغین میں سے تھے ـ اسلامی معارف و تعلیمات کی ترویج کی غرض سے پیواڑ اور قریبی علاقوں میں سرگرم عمل رہے ہیں۔ | ||
== حالات زندگی == | == حالات زندگی == | ||
آپ نے اپنی طفولیت اپنے آبائی گاؤں میں گذارا جہاں انہوں نے [[قرآن|قرآن کریم]] اور ابتدائی دینی تعلیمات اپنے والد کے حضور مکمل کرلیں۔ ان کے والد بھی علماء میں سے تھے۔ بعدازاں انہوں نے اسکول میں داخلہ لیا اور پرائمری اور متوسطہ کے بعد پاراچنار کے ہائی اسکول میں داخل ہوئے۔ سنہ 1964 میں ہائی اسکول سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد علوم [[اہل بیت|آل محمد]] سے روشناس ہونے کیلئے مدرسہ جعفریہ پاراچنار میں داخلہ لیا جہاں انہوں نے "لقمانخیل" کے گاؤں "یوسف خیل" کے رہنے والے حاجی غلام جعفر سے کسب فیض کا آغاز کیا اور مختصر سے عرصے میں مقدمات (ادبیات عرب) مکمل کر لئے۔ آپ کو اپنی مادری زبان پشتو کے علاوہ فارسی، عربی اور اردو پر بھی عبور حاصل تھا۔ | |||
== نجف میں == | == نجف میں == | ||
آپ سنہ 1967 میں نجف اشرف مشرف ہوئے اور نجف اور بعدازاں قم میں عربی ادب کے نامور استاد مدرس افغانی کے ہاں ادبیات عرب کے تکمیلی مراحل طے کئے اور ساتھ ساتھ مختلف اساتذہ کے ہاں فقہ اور اصول فقہ کے اعلیٰ مدارج طے کئے۔ | |||
== امام خمینی(رح) سے واقفیت == | == امام خمینی(رح) سے واقفیت == | ||
نجف اشرف میں شہید محراب آیت اللہ مدنی جیسے استاد کے ذریعے آپ حضرت امام خمینی (رح) سے متعارف ہوئے ۔ آپ باقاعدگی سے امام خمینی (رح) کے دروس، نماز اور دیگر پروگراموں میں شرکت کرتے تھے۔ 1974 ء میں | نجف اشرف میں شہید محراب آیت اللہ مدنی جیسے استاد کے ذریعے آپ حضرت امام خمینی (رح) سے متعارف ہوئے ۔ آپ باقاعدگی سے امام خمینی (رح) کے دروس، نماز اور دیگر پروگراموں میں شرکت کرتے تھے۔ 1974 ء میں آپ پاکستان واپس آئے، لیکن ان کو واپس عراق جانے نہیں دیا گیا تو قم کی دینی درسگاہ میں حصول علم میں مصروف ہوگئے ۔ قم میں آپ نے شہید آیت اللہ مطہری، آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی، آیت اللہ وحید خراسانی جیسے علمائے اعلام سے کسب فیض کیا۔ آپ علم و تقوی کے زیور سے آراستہ ہونے کے ساتھ ساتھ قم میں امام خمینی (رح) کی اسلامی تحریک سے وابستہ شخصیات سے بھی رابطے میں رہے چنانچہ قائد انقلاب اسلامی [[سید علی خامنہ ای|حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای]] اور شہید آیت اللہ ہاشمی نژاد کے خطبات و دروس میں بھی شامل ہوتے رہے۔ آپ کی انقلابی سرگرمیوں کی وجہ سے آپ کو ایک دفعہ شاہی خفیہ پولیس ساواک نے گرفتار کیا۔ آپ 1977ء میں پاکستان واپس گئے اور مدرسۂ جعفریہ پاڑہ چنار میں بحیثیت استاد اپنی خدمات انجام دیں، اس کے علاوہ آپ نے کرم ایجنسی کے حالات بدلنے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ جب 1979 ء میں انقلاب اسلامی ایران کامیاب ہوا تو آپ نے پاکستان میں اسلامی انقلاب کے ثمرات سے عوام کو آگاہ کرنے اور امام خمینی (رح) کے انقلابی مشن کو عام کرنے کا بیڑا اٹھایا۔ | ||
== وطن واپسی اور شادی == | == وطن واپسی اور شادی == | ||
وطن واپسی کے بعد تقریبا 10 مہینوں تک پاراچنار میں تبلیغ دین میں مصروف رہے۔ انھوں نے اسی عرصے میں ازدواجی زندگی کا آغاز کیا <ref>رضا خان، سفیر نور، ص44۔</ref>۔ | وطن واپسی کے بعد تقریبا 10 مہینوں تک پاراچنار میں تبلیغ دین میں مصروف رہے۔ انھوں نے اسی عرصے میں ازدواجی زندگی کا آغاز کیا <ref>رضا خان، سفیر نور، ص44۔</ref>۔ | ||
سطر 38: | سطر 38: | ||
== اخلاق == | == اخلاق == | ||
آپ کی ہمہ گیر شخصیت آپ کے مکتب میں فیض حاصل کرنے والے تمام لوگوں کے لئے ایک کامل نمونے کی حیثیت رکھتے تھی، آپ صبر و حلم، زہد و تقوی، ایثار و فداکاری، شجاعت و بہادری اور حسن خلق جیسے اعلی انسانی صفات سے متصف عظیم انسان تھے۔ آپ کی شہادت کی خبر پاکستان بھر میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی اسلامیان پاکستان میں صف ماتم بچھ گئی اور عالم اسلام کے گوشے گوشے میں اس بھیانک قتل پر غم و اندوہ کا اظہار کیا گیا۔ شہید عارف سے بچھڑنے کا غم بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی (رح) پر بھی گراں گذرا چنانچہ آپ نے اپنے تعزیتی پیغام میں لکھا کہ میں اپنے عزیز فرزند سے محروم ہوگیاہوں " واقعا" شہید عارف امام خمینی (رح) کے روحانی فرزند تھے، آپ کو امام امّت سے عشق کی حد تک لگاؤ تھا، شہید عارف نے انقلاب اسلامی کی کامیابی سے پہلے ہی نجف اشرف سے ہی اپنے مجتہد و ولی فقیہ امام انقلاب خمینی بت شکن سے فیض حاصل کی تھی، شہید عارف انہی ایام میں نجف پہنچے تھے، جب امام خمینی (رح) جلاوطن ہوکر عراق پہنچے تھے۔ | |||
== عالمی سامراج سے مقابلہ == | == عالمی سامراج سے مقابلہ == | ||
سطر 44: | سطر 44: | ||
== اتحاد امت اور داعی آزادی فلسطین == | == اتحاد امت اور داعی آزادی فلسطین == | ||
مملکت خداداد پاکستان میں اتحاد بین المسلین کے علمبردار اور مظلومین کی حمایت بالخصوص [[فلسطین]] و انتفاضہ کی حمایت کے لئے موثر ترین آواز اور ضیا کے بدترین آمریت میں فلسطین و [[بیت المقدس|القدس]] کے لئے [[رمضان]] کے آخری جمعے کو القدس ریلیاں نکالنے والے نڈر عالم دین علامہ عارف حسین الحسینی کی شہادت کو دو دہائیوں سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے لیکن مظلوموں اور فلسطینیوں کی حمایت کی وجہ سے | مملکت خداداد پاکستان میں اتحاد بین المسلین کے علمبردار اور مظلومین کی حمایت بالخصوص [[فلسطین]] و انتفاضہ کی حمایت کے لئے موثر ترین آواز اور ضیا کے بدترین آمریت میں فلسطین و [[بیت المقدس|القدس]] کے لئے [[رمضان]] کے آخری جمعے کو القدس ریلیاں نکالنے والے نڈر عالم دین علامہ عارف حسین الحسینی کی شہادت کو دو دہائیوں سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے لیکن مظلوموں اور فلسطینیوں کی حمایت کی وجہ سے شہید آج بھی پاکستانی مسلمانوں کے دلوں میں زندہ ہے۔ یاد رہے ضیا کی بدترین آمریت میں مظلوموں کے لئے آواز اٹھانا اور ریلی و جلوس نکالنا ناممکنات میں سے تھا اور اس وقت پاکستان کی اہم سیاسی جماعتوں کے اہلکار و قیادت یا تو ضیا آمریت کے ڈر سے روپوش تھے یا بھاگ چکے تھے۔ ایسے میں شہید عارف حسین الحسینی کی طرف سے فلسطینیوں کی حمایت اور اتحاد امت کا ایجنڈا ضیا کو ایک آنکھ نہیں بھاتا تھا ( یاد رہے ضیا نے بحثیت برگیڈئیر اردن میں تعیناتی کے دوران امریکی سی آئی اے و اسرائیلی موساد کی ایما پر اردن میں مقیم فلسطینی مہاجرین کا بے دریغ قتل عام کیا تھا۔ جس کی رپورٹیں اب تک میڈیا پر آر ہی ہیں)۔ اس لئے ضیا نے پاکستان میں بھی سی آئی اے و [[اسرائیل|اسرائیلی]] موساد کی ایما پر پانچ اگست سن انیس سو اٹھاسی کو آپ کو شہید کروا دیا۔ لیکن اللہ کی لاٹھی بے آواز اور مظلوم علامہ عارف حسین الحیسنی کے خون کا معجزہ دیکھئے کہ آپ کی شہادت کے صرف بارہ دن بعد بدترین ڈکٹیٹر ضیا اپنے امریکی ساتھیوں سمیت سترہ اگست سن انیس سو اٹھاسی کو بہاولپور کے مقام پر فضائی حادثے میں ہلاک ہوگئیے۔ اور پاکستانی عوام نے سکھ کا سانس لیا۔ امریکی سی آئی اے اور اسرائیلی موساد نے جس طرح ضیا کو بحثیت برگیڈئیر اردن تعینااتی کے دوران فلسطینی مہاجرین کا بیہمانہ قتل عام کروایا اور پھر جب ضیا جرنیل بن گئیے تو اسلام اور خلافت و نام نہاد امیر المیومنین کے عنوان سے پاکستانی قوم پر مسلط کرکے امریکی سی آئی اے کے شروع کردہ روس کے خلاف جہاد میں استعمال کرکے تکفیری سوچ و دہشت گردی کو پروان چڑھایا۔ اسی طرح آج بھی اردن میں امریکی سی آئی اے و اسرائیلی موساد خلافت کے نام پر داعش جیسے دہشت گرد گروہ اور اس کے نام نہاد خلیفہ ابوبکر البغدادی کو اسرائیل کے مفادات میں استعمال کرہا ہے۔ | ||
== ترویج افکار خمینی == | == ترویج افکار خمینی == | ||
آپ نے مستقل شیعہ ڈاکٹرائن کا ذکر فرمایا کہ ہم ہر مظلوم کیساتھ ہیں چاہیے وہ غیر شیعہ ہی کیوں نہ ہوں اور ہر ظالم کیخلاف ہیں چاہے وہ شیعہ ہی کیوں نہ ہو۔ آپ نے ہمیشہ اپنے بیان کردہ اصولوں، قواعد، حکمت عملی اور پالیسی کو بیان فرماتے ہوئے، [[سید روح اللہ موسوی خمینی|امام خمینی]] کا حوالہ دیتے ہوئے انکی ذات، افکار اور انقلاب کو پوری امت مسلمہ کیلئے آئیڈیل قرار دیتے۔ جیسا کہ شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی نے فرمایا کہ آپ شہید باقر الصدر کے اس قول کا مصداق تھے کہ امام خمینی کی ذات میں اس طرح ضم ہو جاو جیسے وہ اسلام میں ضم ہو چکے ہیں، شہید اسی طرح امام خمینی میں ضم ہوچکے تھے، جیسے امام خمینی اسلام میں ضم ہو چکے تھے۔ یہ آپ کی تعلیمات کا نچوڑ ہے کہ یہ عصر، عصر امام خمینی ہے، اگر اسلام سمجھنا چاہتے ہیں تو امام خمینی کی ذات، افکار اور انقلاب کو سمجھے بغیر یہ ممکن نہیں۔ | |||
شہید عارف حسین حسینی کی شہادت پہ امام خمینی نے فرمایا کہ میں اپنے عزیز فرزند سے محروم ہو گیا ہوں۔ امام خمینی نے یہ بھی فرمایا کہ شہید حسینی فرزند [[حسین بن علی|صادق امام حسین علیہ السلام]] تھے۔ امام خمینی کا یہ نوحہ بالکل ایسا ہی تھا کہ جیسے میدان کربلا میں حضرت عباسؑ کی شہادت پہ امام حسین علیہ السلام نے اپنے عزیز بھائی کے بچھڑنے پہ درد بھرے جملے ارشاد فرمائے۔ ڈاکٹر شہید محمد علی نقوی نے شہید عارف حسینی کی پرنور شخصیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ امام خمینی کے عشاق کی ایک کہکشاں تھی، جس میں شہید مطہری، شہید بہشتی، شہید چمران، شہید باقر الصدر اور شہید عارف حسینی جیسے لوگ تھے، استعمار نے ان ستاروں کو ایک ایک کر کے نشانہ بنایا۔ شہید عارف حسینی ایک منفرد عالم دین تھے، [[اہل بیت|اہلبیت علہیم السلام]] کے عشق سے مغمور اور شہادت کے عاشق تھے۔ انتھک اور دردمند مجاہد اور مبارز تھے۔ ذوق عبادت اور محبت و عشقِ خدا آپ کی ذات کا خاصہ تھا۔ بارگاہ خدا میں خاضع اور سب کیساتھ تواضع آپ کی پہچان تھا۔ اسی لئے جو بھی آپ سے ملتا آپ کا گرویدہ ہو جاتا۔ جس طرح ذاتی طور پر مومن کی تمام صفات کا مظہر تھے اسی طرح اجتماعی زندگی میں کامیاب لیڈر تھے۔ | شہید عارف حسین حسینی کی شہادت پہ امام خمینی نے فرمایا کہ میں اپنے عزیز فرزند سے محروم ہو گیا ہوں۔ امام خمینی نے یہ بھی فرمایا کہ شہید حسینی فرزند [[حسین بن علی|صادق امام حسین علیہ السلام]] تھے۔ امام خمینی کا یہ نوحہ بالکل ایسا ہی تھا کہ جیسے میدان کربلا میں حضرت عباسؑ کی شہادت پہ امام حسین علیہ السلام نے اپنے عزیز بھائی کے بچھڑنے پہ درد بھرے جملے ارشاد فرمائے۔ ڈاکٹر شہید محمد علی نقوی نے شہید عارف حسینی کی پرنور شخصیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ امام خمینی کے عشاق کی ایک کہکشاں تھی، جس میں شہید مطہری، شہید بہشتی، شہید چمران، شہید باقر الصدر اور شہید عارف حسینی جیسے لوگ تھے، استعمار نے ان ستاروں کو ایک ایک کر کے نشانہ بنایا۔ شہید عارف حسینی ایک منفرد عالم دین تھے، [[اہل بیت|اہلبیت علہیم السلام]] کے عشق سے مغمور اور شہادت کے عاشق تھے۔ انتھک اور دردمند مجاہد اور مبارز تھے۔ ذوق عبادت اور محبت و عشقِ خدا آپ کی ذات کا خاصہ تھا۔ بارگاہ خدا میں خاضع اور سب کیساتھ تواضع آپ کی پہچان تھا۔ اسی لئے جو بھی آپ سے ملتا آپ کا گرویدہ ہو جاتا۔ جس طرح ذاتی طور پر مومن کی تمام صفات کا مظہر تھے اسی طرح اجتماعی زندگی میں کامیاب لیڈر تھے۔ | ||
بصیرت، شجاعت اور اصول پسندی کا مرقع تھے۔ انقلابیت و حرکتیت آپ کا خاصہ تھا۔ سچا پاکستانی ہونے کے ناطے آپ نے اسلام ناب محمدی اور خط ولایت پہ کاربند رہتے ہوئے ملت مظلوم پاکستان کو انسانیت دشمن اور اسلام دشمن سپرپاور امریکہ سے نجات کیلئے زندگی بھر جد و جہد کی۔ فرزند سید الشہداؑء اور نائب امام خمینی، شہید عارف حسینی نے ہمیشہ سرزمین پاکستان کے داخلی و خارجی مسائل کا بہترین حل پیش کیا، ملکی سلامتی اور قومی وقار کو بحال رکھنے کی راہ دکھائی۔ پاکستان میں حقیقی اسلامی نظام کا قیام آپ کا آرمان تھا۔ انقلاب اسلامی کے نتیجے میں اسلامی بیداری کے اثرات جس طرح دنیا میں پہنچے، پاکستان میں شہید حسینی کی ذات اور جد و جہد کی برکت سے جو اثرات ملت مظلوم پاکستان نے قبول کیے، سوائے لبنان کی اسرائیل دشمن مقاومت کے دنیا میں اس کی کوئی مثال نہیں۔ اسی طرح اس بات کا ہمیشہ اعتراف کیا جائیگا کہ | بصیرت، شجاعت اور اصول پسندی کا مرقع تھے۔ انقلابیت و حرکتیت آپ کا خاصہ تھا۔ سچا پاکستانی ہونے کے ناطے آپ نے اسلام ناب محمدی اور خط ولایت پہ کاربند رہتے ہوئے ملت مظلوم پاکستان کو انسانیت دشمن اور اسلام دشمن سپرپاور امریکہ سے نجات کیلئے زندگی بھر جد و جہد کی۔ فرزند سید الشہداؑء اور نائب امام خمینی، شہید عارف حسینی نے ہمیشہ سرزمین پاکستان کے داخلی و خارجی مسائل کا بہترین حل پیش کیا، ملکی سلامتی اور قومی وقار کو بحال رکھنے کی راہ دکھائی۔ پاکستان میں حقیقی اسلامی نظام کا قیام آپ کا آرمان تھا۔ انقلاب اسلامی کے نتیجے میں اسلامی بیداری کے اثرات جس طرح دنیا میں پہنچے، پاکستان میں شہید حسینی کی ذات اور جد و جہد کی برکت سے جو اثرات ملت مظلوم پاکستان نے قبول کیے، سوائے لبنان کی اسرائیل دشمن مقاومت کے دنیا میں اس کی کوئی مثال نہیں۔ اسی طرح اس بات کا ہمیشہ اعتراف کیا جائیگا کہ آپ کی جد و جہد میں امامیہ طلبہ نے ہراول دستے کا کردار ادا کیا۔ آپ نے آئی ایس او کے نوجوانوں کو اپنے بازو اور بال و پر قرار دیا۔ شہید کا وجود ملت مظلوم پاکستان کے جسد میں روح کی مانند تھا اور امامیہ نوجوان اس کے اعضاء و جوارح کی طرح۔ | ||
اہلبیتؑ سے والہانہ عشق و محبت اور ایک اسلامی رہنماء کے طور پر اللہ تعالیٰ کے حضور جوبداہی کے احساس کی بدولت آپ تا دمِ شہادت، پاکستان میں پیروکاران امام حسین علیہ السلام کی خدمت میں مصروف عمل رہے۔ یہ آپ کی ذات کا اعجاز تھا کہ ملت پاکستان امت کے جہانی وجود سے متصل ہوئی۔ آپ نے سرزمین پاکستان پر شیطان بزرگ امریکہ کو بے نقاب کرتے ہوئے استعمار کا مکروہ چہرہ عیاں کیا، امریکی جیرہ خوار حکمرانوں کو للکارا، مظلوموں کو ڈھارس دی، باطل کے سامنے ڈٹ جانے کا حوصلہ دیا۔ عزاداری امام حسین علیہ السلام سے ملنے والی طاقت کے ذریعے یزیدان وقت کیخلاف سینہ سپر ہونیکی راہ سجھائی۔ شہید حسینی ولایت اہلبیتؑ کی بنیاد پہ مومنین سے شدید محبت کرتے تھے، خرافات کو سخت ناپسند فرماتے اور نرمی کیساتھ عوام کی اصلاح کی کوشش کرتے رہے۔ مومنین کی محافل میں تشریف لے جاتے، سادگی سے شریک ہوتے اور قدردانی کرتے۔ انحرافات اور خرافات سامنے آتے تو لوگوں کے دلوں میں موجود محبت اہلبیتؑ علیہم السلام کی تصدیق کرتے ہوئے، اس نعمت کی عظمت بیان فرماتے اور ساتھ ہی تعلیمات محمد و آل محمد علیہم السلام کے مطابق زندگی گذارنے کی تلقین فرماتے۔ | اہلبیتؑ سے والہانہ عشق و محبت اور ایک اسلامی رہنماء کے طور پر اللہ تعالیٰ کے حضور جوبداہی کے احساس کی بدولت آپ تا دمِ شہادت، پاکستان میں پیروکاران امام حسین علیہ السلام کی خدمت میں مصروف عمل رہے۔ یہ آپ کی ذات کا اعجاز تھا کہ ملت پاکستان امت کے جہانی وجود سے متصل ہوئی۔ آپ نے سرزمین پاکستان پر شیطان بزرگ امریکہ کو بے نقاب کرتے ہوئے استعمار کا مکروہ چہرہ عیاں کیا، امریکی جیرہ خوار حکمرانوں کو للکارا، مظلوموں کو ڈھارس دی، باطل کے سامنے ڈٹ جانے کا حوصلہ دیا۔ عزاداری امام حسین علیہ السلام سے ملنے والی طاقت کے ذریعے یزیدان وقت کیخلاف سینہ سپر ہونیکی راہ سجھائی۔ شہید حسینی ولایت اہلبیتؑ کی بنیاد پہ مومنین سے شدید محبت کرتے تھے، خرافات کو سخت ناپسند فرماتے اور نرمی کیساتھ عوام کی اصلاح کی کوشش کرتے رہے۔ مومنین کی محافل میں تشریف لے جاتے، سادگی سے شریک ہوتے اور قدردانی کرتے۔ انحرافات اور خرافات سامنے آتے تو لوگوں کے دلوں میں موجود محبت اہلبیتؑ علیہم السلام کی تصدیق کرتے ہوئے، اس نعمت کی عظمت بیان فرماتے اور ساتھ ہی تعلیمات محمد و آل محمد علیہم السلام کے مطابق زندگی گذارنے کی تلقین فرماتے۔ | ||
سطر 57: | سطر 57: | ||
اسی طرح بطور پاکستانی آپ کی آرزو تھی کہ ہمارے فیصلے واشنگٹن کی بجائے اسلام آباد میں ہوں۔ بطور شیعہ شہید فرماتے کہ پاکستان میں اسلامی نظام کا نفاذ ہمارے مقصد میں شامل ہے، لیکن شیعیانِ حیدرؑ کرار کو شامل کیے بغیر کوئی نظام قبول نہیں کریں گے، نہ ہی شیعہ ہونے کے ناطے بنیادی آہینی قوانین کے مطابق اپنے حقوق سے کبھی دستبردار ہو سکتے ہیں۔ | اسی طرح بطور پاکستانی آپ کی آرزو تھی کہ ہمارے فیصلے واشنگٹن کی بجائے اسلام آباد میں ہوں۔ بطور شیعہ شہید فرماتے کہ پاکستان میں اسلامی نظام کا نفاذ ہمارے مقصد میں شامل ہے، لیکن شیعیانِ حیدرؑ کرار کو شامل کیے بغیر کوئی نظام قبول نہیں کریں گے، نہ ہی شیعہ ہونے کے ناطے بنیادی آہینی قوانین کے مطابق اپنے حقوق سے کبھی دستبردار ہو سکتے ہیں۔ | ||
اسی طرح | اسی طرح آپ نے مستقل شیعہ ڈاکٹرائن کا ذکر فرمایا کہ ہم ہر مظلوم کیساتھ ہیں چاہیے وہ غیر شیعہ ہی کیوں نہ ہوں اور ہر ظالم کیخلاف ہیں چاہے وہ شیعہ ہی کیوں نہ ہو۔ شہید قائد نے ہمیشہ اپنے بیان کردہ اصولوں، قواعد، حکمت عملی اور پالیسی کو بیان فرماتے ہوئے، امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کا حوالہ دیتے ہوئے انکی ذات، افکار اور انقلاب کو پوری امت مسلمہ کیلئے آئیڈیل قرار دیتے۔ جیسا کہ شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی نے فرمایا کہ شہید عارف حسین حسینی شہید باقر الصدر کے اس قول کا مصداق تھے کہ امام خمینی کی ذات میں اس طرح ضم ہو جاو جیسے وہ اسلام میں ضم ہو چکے ہیں، شہید حسینی اسی طرح امام خمینی میں ضم ہوچکے تھے، جیسے امام خمینی اسلام میں ضم ہو چکے تھے۔ یہ شہید حسینی کی تعلیمات کا نچوڑ ہے کہ یہ عصر، عصر امام خمینی ہے، اگر اسلام سمجھنا چاہتے ہیں تو امام خمینی کی ذات، افکار اور انقلاب کو سمجھے بغیر یہ ممکن نہیں۔ جس طرح امام خمینی کو حقیقی معنوں میں قائد شہید نے سمجھا اسی طرح شہید عارف حسین حسینی کو بھی سمجھنے والے امام خمینی ہی تھے۔ شہید قائد کی سیرت ملت پاکستان کیلئے نقش راہ اور دنیا و آخرت میں کامیابی کی ضامن ہے <ref>تنویر حیدر بلوچ، شہید علامہ عارف حسین الحسینی، [https://www.islamtimes.org/ur/article/658781 islamtimes.org]</ref>۔ | ||
== | == آپ کے چند فرمودات == | ||
1. کیا ہم نے اپنا مقصد متعین کیا کہ ہم کس لیے پیدا کیے گئے ہیں؟ ہم خدا کیلئے پیدا کئے گئے ہیں،سب چیزیں انسان کے لیے پیدا کی گئی ہیں اور انسان خدا کے لئے۔ | 1. کیا ہم نے اپنا مقصد متعین کیا کہ ہم کس لیے پیدا کیے گئے ہیں؟ ہم خدا کیلئے پیدا کئے گئے ہیں،سب چیزیں انسان کے لیے پیدا کی گئی ہیں اور انسان خدا کے لئے۔ | ||
سطر 85: | سطر 85: | ||
== شہید قائد کا سیاسی سفر == | == شہید قائد کا سیاسی سفر == | ||
[[فائل:سید عارف حسینی.jpg|بدون_چوکھٹا|بائیں]] | [[فائل:سید عارف حسینی.jpg|بدون_چوکھٹا|بائیں]] | ||
آپ کو جو عزت، شرف، فضیلت، حیثیت، اعتماد، عروج۔ مقبولیت اور قبولیت حاصل ہے وہ ابھی تک کسی اور پاکستانی شخصیت کو تا حال میسر نہیں ہے. | |||
1- | 1- آپ کو امام خمینی سے براے راست کسب فیض حاصل کرنے کا موقع ملا. آپ اپنی اکثر نمازیں امام خمینی کی اقتدا میں ادا کرتے تھے. | ||
2-شہید کو امام خمینی نے 1973 میں وکالت نامہ مرحمت فرمایا. | 2-شہید کو امام خمینی نے 1973 میں وکالت نامہ مرحمت فرمایا. |