Jump to content

"ایران" کے نسخوں کے درمیان فرق

سطر 44: سطر 44:
پرامن استعمال کے لیے مقامی جوہری ٹیکنالوجی، سائنسی اور صنعتی اعتبار سے قابل ذکر اہمیت کی حامل ہے اور یہ اس بنا پر ہے کہ جوہری ٹیکنالوجی کا استعمال صرف توانائی کی فراہمی تک محدود نہیں ہے بلکہ اسے ایرانی ماہرین کی جانب سے طبی اور تحقیقاتی امور میں بھی استعمال کیا گیا ہے۔
پرامن استعمال کے لیے مقامی جوہری ٹیکنالوجی، سائنسی اور صنعتی اعتبار سے قابل ذکر اہمیت کی حامل ہے اور یہ اس بنا پر ہے کہ جوہری ٹیکنالوجی کا استعمال صرف توانائی کی فراہمی تک محدود نہیں ہے بلکہ اسے ایرانی ماہرین کی جانب سے طبی اور تحقیقاتی امور میں بھی استعمال کیا گیا ہے۔
ایران سنہ 1958ء میں آئی اے ای اے کا رکن بنا اور سنہ 1968ء میں اس نے جوہری ہتھیاروں کی پیداوار اور پھیلاؤ پر پابندی کے معاہدے این پی ٹی پر دستخط کیے۔ حالیہ برسوں میں جوہری شعبے میں ایران کی ترقی و پیش رفت اہم کامیابیوں کے ہمراہ رہی ہے۔ اس وقت ایران تیس سے زائد ریڈیو دواؤں کی پیداوار کے ساتھہ جوہری اور طبی تحقیقاتی مراکز میں خاص بیماروں کے استعمال کے لیے 90 سے 95 فی صد تک دوائیں بنا رہا ہے۔ اس سلسلے میں ایران کی ایک اور کامیابی تہران کے طبی تحقیقاتی ری ایکٹر کے ایندھن کی فراہمی کے لیے یورینیم کو 20 فیصد تک افزودہ بنانا ہے۔
ایران سنہ 1958ء میں آئی اے ای اے کا رکن بنا اور سنہ 1968ء میں اس نے جوہری ہتھیاروں کی پیداوار اور پھیلاؤ پر پابندی کے معاہدے این پی ٹی پر دستخط کیے۔ حالیہ برسوں میں جوہری شعبے میں ایران کی ترقی و پیش رفت اہم کامیابیوں کے ہمراہ رہی ہے۔ اس وقت ایران تیس سے زائد ریڈیو دواؤں کی پیداوار کے ساتھہ جوہری اور طبی تحقیقاتی مراکز میں خاص بیماروں کے استعمال کے لیے 90 سے 95 فی صد تک دوائیں بنا رہا ہے۔ اس سلسلے میں ایران کی ایک اور کامیابی تہران کے طبی تحقیقاتی ری ایکٹر کے ایندھن کی فراہمی کے لیے یورینیم کو 20 فیصد تک افزودہ بنانا ہے۔
== سیاست ==


محمد رضا شاہ پہلوی، ایران میں اسلامی انقلاب سے پہلے ایران کے بادشاہ تھے۔
موجودہ آئین 1979ء کے انقلاب کے بعد منظور کیا گیا جس کے مطابق ایران کو ایک اسلامی جمہوریہ اور اسلامی تعلیمات کو تمام سیاسی، سماجی اور معاشی تعلقات کی بنیاد قرار دیا گیا۔ مجموعی اختیارات رہبر معظم (سپریم لیڈر) کے پاس ہوتے ہیں۔ آج کل آیت اللہ علی خامنہ ای رہبر معظم ہیں۔ رہبر معظم کا انتخاب ماہرین کی ایک مجلس (مجلس خبرگان رہبری) کرتی ہے جس میں پورے ایران سے 86 علما منتخب کیے جاتے ہیں۔ رہبر معظم مسلح افواج کا کمانڈر انچیف ہوتا ہے۔
حکومت کا سربراہ صدر ہوتا ہے جسے پورے ملک سے بالغ رائے دہی کی بنیاد پر منتخب کیا جاتا ہے۔ آئین کے تحت کوئی فرد دو سے زیادہ مرتبہ صدر نہیں بن سکتا۔ قانون سازی کے اختیارات مجلس کے پاس ہیں جو 290 منتخب اراکین پر مشتمل اور 4 سال کے لیے علاقوں اور مذہبی برادریوں کی نمائندگی کرتی ہے۔ مسیحیوں، زرتشتوں اور یہودیوں کے اپنے نمائندے مجلس میں شامل ہیں۔ مجلس کے منظور شدہ قوانین منظوری کے لیے شوریٰ نگہبان کے پاس بھیجے جاتے ہیں۔
شوری نگہبان اس لحاظ سے مجلس کے منظور کردہ قوانین کا جائزہ لیتی ہے کہ وہ آئین اور اسلامی قوانین کے مطابق ہیں۔ اس میں رہبر معظم کی جانب سے نامزد کردہ 6 مذہبی رہنما اور عدلیہ کے نامزد کردہ 6 قانونی ماہرین شامل ہوتے ہیں جن کی منظوری مجلس دیتی ہے۔ شوری نگہبان کو مجلس، مقامی کونسلوں، صدارت اور مجلس خبرگان کے امیدواروں کو ویٹو کردینے کا اختیار بھی ہوتا ہے۔
قانون سازی کے حوالے سے مجلس اور شوری نگہبان کے درمیان میں پیدا ہونے والے تنازعات کے حل کے لیے 1988ء میں "مجمع تشخیص مصلحت نظام" (ایکسپیڈیئنسی کونسل) قائم کی گئی۔ اگست 1989ء سے یہ قومی پالیسی اور آئینی امور پر رہبر معظم کا مشیر ادارہ بن گئی۔ اس کے سربراہ سابق صدر علی اکبر ہاشمی رفسنجانی ہیں اور اس میں حکومت کے تینوں شعبوں کے سربراہ اور شوری نگہبان کے مذہبی ارکان شامل ہیں۔ رہبر معظم تین سال کے لیے ارکان نامزد کرتا ہے۔
مجلس کے بڑے گروہوں کو عموما "اصلاح پسند" اور "قدامت پرست" کے طور پر بیان کیا جاتا ہے۔ اس وقت مجلس میں "آبادگاران" کا اتحاد غالب ہے۔ یہ قدامت پرست ہیں۔
تہران کا یہ ایٹمی ری ایکٹر کینسر کی بیماری میں مبتلا بیماروں کے لیے دوائیں تیار کرنے میں سرگرم عمل ہے جسے 20 فیصد افزودہ یورینییم کے ایندھن کی ضرورت ہے جو دو سال قبل تک بیرون ملک سے درآمد کیا جاتا تھا مگر مغرب نے ایران کے خلاف پابندیوں اور ایران میں یورینیم کی افزودگی کی مخالفت کے بہانے 20 فیصد افزودہ یورینییم کا ایندھن دینے سے انکار کر دیا جس کے بعد ایران کے ایٹمی توانائی کے ادارے نے ایندھن کی اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے قم کے فردو ایٹمی ری ایکٹر میں جوہری ایندھن کی ری سائیکلنگ کے منصوبے پر عمل کرتے ہوئے جس کی ساری سرگرمیاں اٹمی توانائی کی بین الاقوامی ایجنسی کی نگرانی میں جاری ہیں، یورینیم کی 20 فیصد افزودگی کے عمل میں کامیابی حاصل کی۔
تہران کا یہ ایٹمی ری ایکٹر کینسر کی بیماری میں مبتلا بیماروں کے لیے دوائیں تیار کرنے میں سرگرم عمل ہے جسے 20 فیصد افزودہ یورینییم کے ایندھن کی ضرورت ہے جو دو سال قبل تک بیرون ملک سے درآمد کیا جاتا تھا مگر مغرب نے ایران کے خلاف پابندیوں اور ایران میں یورینیم کی افزودگی کی مخالفت کے بہانے 20 فیصد افزودہ یورینییم کا ایندھن دینے سے انکار کر دیا جس کے بعد ایران کے ایٹمی توانائی کے ادارے نے ایندھن کی اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے قم کے فردو ایٹمی ری ایکٹر میں جوہری ایندھن کی ری سائیکلنگ کے منصوبے پر عمل کرتے ہوئے جس کی ساری سرگرمیاں اٹمی توانائی کی بین الاقوامی ایجنسی کی نگرانی میں جاری ہیں، یورینیم کی 20 فیصد افزودگی کے عمل میں کامیابی حاصل کی۔


سطر 52: سطر 64:


تہران کی ترقی کی راہ میں مختلف طرح کی رکاوٹیں کھڑی کر رہے ہیں۔ ایران کے خلاف پابندیاں۔ ایران کا بائیکاٹ۔ نفسیاتی جنگ۔ سیاسی دباؤ۔ فوجی حملے کی دھمکی۔ یہانتکہ جوہری دانشوروں کا قتل نیز کمپیوٹروائرس کے ذریعے رخنہ اندازی کی کوشش ایسے ہتھکنڈے ہیں جو ایرانی قوم کے دشمنوں نے استعمال کیے ہیں تاکہ ایران میں پرامن جوہری پروگرام اور اس سلسلے میں حاصل ہونے والی ترقی و پیشرفت میں رکاوٹ پیدا کی جاسکے۔ تاہم مغرب کی ان تمام تر خلاف ورزیوں کے باوجود جوہری ٹیکنالوجی اس وقت ایرانی قوم کی ایک اہم ترین قابل افتخار سائنسی ترقی میں تبدیل ہوچکی ہے۔
تہران کی ترقی کی راہ میں مختلف طرح کی رکاوٹیں کھڑی کر رہے ہیں۔ ایران کے خلاف پابندیاں۔ ایران کا بائیکاٹ۔ نفسیاتی جنگ۔ سیاسی دباؤ۔ فوجی حملے کی دھمکی۔ یہانتکہ جوہری دانشوروں کا قتل نیز کمپیوٹروائرس کے ذریعے رخنہ اندازی کی کوشش ایسے ہتھکنڈے ہیں جو ایرانی قوم کے دشمنوں نے استعمال کیے ہیں تاکہ ایران میں پرامن جوہری پروگرام اور اس سلسلے میں حاصل ہونے والی ترقی و پیشرفت میں رکاوٹ پیدا کی جاسکے۔ تاہم مغرب کی ان تمام تر خلاف ورزیوں کے باوجود جوہری ٹیکنالوجی اس وقت ایرانی قوم کی ایک اہم ترین قابل افتخار سائنسی ترقی میں تبدیل ہوچکی ہے۔
== بین الاقوامی تعلقات ==
عسکریہ ایران
1997ء میں صدر خاتمی کے منتخب ہونے کے بعد ایران کے زیادہ تر ممالک سے تعلقات بہتر ہوئے۔ 1998ء میں برطانیہ اور ایران کے تعلقات اس یقین دہانی پر بحال ہوئے کہ ایرانی حکومت کا سلمان رشدی کی زندگی کو خطرے میں ڈالنے کا کوئی ارادہ نہیں۔ 1999ء میں برطانیہ اور ایران نے سفارتکاروں کا تبادلہ کیا۔
ایران اور امریکا کے تعلقات 1980ء میں ٹوٹے اور آج تک بحال نہیں ہوئے۔ جولائی 2001ء میں امریکا نے ایران اور لیبیا پر پابندیوں کے قانون میں مزید 5 سال کے لیے توسیع کردی۔ جنوری 2002ء میں صدر بش نے ایران کو "بدی کے محور" (Axis of Evil) کا حصہ قرار دیا۔ اس وقت ایران مغربی طاقتوں کی جانب سے جوہری پروگرام، مبینہ دہشت گردی، مشرق وسطی کے امن کو خراب کرنے کے خواہش مند گروہوں کی مبینہ سرپرستی اور دیگر الزامات کا نشانہ بنا ہوا ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران نے مغرب کی ریشہ دوانیوں امریکی سازشوں اور عالمی سامراجی طاقتوں کی طرف سے ملت ایران کے خلاف مسلسل دھمکیوں کے بعد ہر سطح پر خود کفیل ہونے کا فیصلہ کیا اور ایٹمی ٹیکنالوجی، نانو ٹیکنا لوجی، کلوننگ اور میڈیکل کے ساتھ ساتھ ائرو اسپیس نیز دفاعی شعبوں میں بے پناہ ترقی کی ہے جس کے بارے میں اختصار کے ساتھ کچھ مطالب قارئین کی معلومات افزائی کے لیے ذیل میں درج کیے جا رہے ہیں۔ ائرواسپیس ایٹمی ٹیکنالوجی نانو ٹیکنا لوجی کلوننگ میڈیکل دفاعی
عراق سے تعلقات
1980ء کی دہائی میں ایران عراق جنگ کے بعد سے دونوں ممالک کے تعلقات کبھی معمول پر نہیں آسکے تاہم عراق کے تنازعے پر ایران نے غیر جانبدار ہونے کا اعلان کر دیا اگرچہ اس نے فوجی کارروائی پر تنقید کی لیکن اس نے اعلان کیا کہ وہ تنازعے سے باہر رہے گا۔ اس کا کہنا ہے کہ وہ ایک مستحکم اور متحد عراق کے لیے کام کرنا چاہتا ہے۔ ایران کا عراق کی عبوری حکومت کے ساتھ براہ راست دو طرف معاہدہ ہے۔ ایران بجلی کی فراہمی کے سلسلے میں عراق کی مدد کر رہا ہے۔ 30 نومبر 2004ء کو عراق میں سلامتی، عام انتخابات کے بروقت انعقاد اور بیرونی عناصر کی مداخلت روکنے پر غور کے لیے ایران میں ایک کانفرنس منعقد ہوئی جس کی میزبانی ایرانی وزارت داخلہ نے کی۔ اس کانفرنس میں عراق، سعودی عرب، کویت، ترکی، اردن اور مصر کے وزرائے داخلہ اور سیکورٹی حکام نے شرکت کی۔
افغانستان
ایران افغان خانہ جنگی سے بھی متاثر ہو رہا ہے اور وہاں استحکام کے فروغ کا خواہاں نظر آ رہا ہے۔ ایران نے افغانستان کی تعمیر نو کے لیے 5 سالوں میں 560 ملین ڈالرز دینے کا وعدہ کیا ہے۔ دونوں ملکوں نے منشیات کے خلاف ایک دوسرے سے بھرپور تعاون کیا ہے۔ ایران میں لاکھوں افغان مہاجرین رہائش پزیر ہیں جن کی وطن واپسی کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔
اسرائیل
1979ء میں انقلابِ اسلامی کے بعد سے ایران کا موقف یہ رہا ہے کہ اسرائیل کا وجود غیر قانونی ہے۔ ایران اب بھی اسرائیل کی پرجوش مخالفت پر قائم ہے۔ وہ مشرق وسطی میں امن قائم کرنے کے اقدامات پر بھی اعتراضات کرتا رہتا ہے اور مبینہ طور پر فلسطین اور لبنان کے ان اسرائیل مخالف گروہوں کی مدد کرتا رہتا ہے۔ 2002ء میں ایرانی وزارت خارجہ نے اعلان کیا کہ اگر اسرائیل اور فلسطین کو کوئی معاہدہ قابل قبول ہو تو ایران ایسے دو طرفہ معاہدے کو رد نہیں کرے گا۔
== آبادیات ==
ایران کے صوبے بلحاظ آبادی
ایران کے صوبے بلحاظ کثافتِ آبادی
ایران ایک متنوع ملک ہے جہاں بہت سے نسلی گروہ پائے جاتے ہیں، ان میں فارسی بولنے والے سب سے زیادہ ہیں۔ بیسویں صدی کے اواخر میں ایران کی آبادی تیزی سے بڑھی، 1956ء میں ایران کی آبادی صرف 19 ملین تھی جو 2009ء تک 79 ملین تک جاپہنچی۔ تاہم حالیہ چند سالوں میں ایران کی شرح پیدائش میں نمایا کمی آئی ہے 2012ء میں لیے گئے اندازے کے مطابق ایران کی شرح پیدائش 1.29 فیصد رہی۔
ایران دنیا کے چند ممالک میں سے ایک ہیں جہاں پناہ گزینوں کی ایک بہت بڑی تعداد موجود ہے جو زیادہ تر افغانستان اور عراق میں جاری جنگوں کے باعث ایران آئے ہیں۔ ایرانی آئین کے مطابق حکومتِ وقت پر ذمہ داری ہے کہ وہ شہریوں کو بنیادی سہولیات فراہم کریں جن میں جان و مال کا تحفظ، طبی سہولیات، معزور افراد کی دیگ بال، وغیرہ شامل ہیں اور ان چیزوں پر خرچہ بجٹ کے ذریعے حاصل کردہ ریونیو (سالانہ آمدنی) سے کیا جاتا ہے۔
زبانیں
ملک کی اکثریت باشندے فارسی زبان بولتے ہیں جو اکثریتی زبان ہونے کے ساتھ ساتھ ایران کی سرکاری زبان بھی ہے۔ ایران میں بولے جانے والے زبانیں اکثر ہند-ایرانی زبانیں ہیں۔ اقلیتی زبانوں کی بات کی جائے تو ایران کے شمال مغرب میں آذربائجانی، شمال میں ترکمن اور مشرق میں پاکستانی سرحدوں کے قریب علاقے میں بلوچی زبان بولی جاتی ہے۔
ایران میں 53 فیصد افراد کی فارسی، 16 فیصد کی آذربائجانی، 10 فیصد کی کردی، 7 کی فیصد گیلکی اور مزدارین، 7 فیصد کی لوری، 2 فیصد کی عربی اور 2 فیصد کی بلوچی مادری زبان ہے۔ تاہم ان تمام مادری زبانوں کا استعمال صرف بطور علاقائی زبان کیا جاتا ہے باقی ملک بحر میں فارسی ہی استعمال ہوتی ہے۔
== مذہب ==
تفصیلی مضمون کے لیے ایران میں مذہب ملاحظہ کریں۔
مزار امام رضا کے شہر مشہد۔
آتش کدہ یزد
قرہ کلیسا
تاریخی طور پر زرتشتیت ایران کا قدیم مذہب تھا خاص کر ہخامنشی سلطنت، سلطنت اشکانیان اور ساسانی سلطنت کے ادوار میں زرتشتیت ہی ایران کا سب سے بڑا مذہب تھا۔ 651ء کے لگ بگ مسلمانوں نے ایران کو فتح کیا اور یہاں سے آتش پرست ساسانی سلطنت کا سقوط ہو گیا، مسلم فتح کے بعد دھیرے دھیرے اسلام پھیلتا گیا۔ ایران میں لوگ 15ویں صدی تک سنی اسلام کے پیروکار تھے، تاہم 1501ء میں صفوی سلطنت قائم ہو گیا جس نے 16ویں صدی میں مقامی سنی مسلم آبادی کو دباؤ کے ذریعے اثنا عشریہ اہل تشیع مسلم میں تبدیل کیا۔[9]
آج اثنا عشرہ شیعہ اسلام ایران کا سرکاری مذہب ہے۔ ایران کی 90 فیصد آبادی شیعہ اسلام کے پیروکار ہے، 8 فیصد سنی اسلام اور باقی کے 2 فیصد غیر مسلم ہیں۔
مذہب % از
کل آبادی تعدادِ افراد
اسلام 99.4% 74,682,938
نہیں بتایا گیا 0.4% 205,317
مسیحیت 0.16% 117,704
زرتشتیت 0.03% 25,271
یہودی 0.01% 8,756
دیگر 0.07% 49,101
== قدرتی آفات ==
تہران عجائب گھر برائے عصری فنون، اس عجائب گھر کو مغربی نودرات کے حوالے سے یورپ اور شمالی امریکا کے بعد سب سے اہم سمجھا جاتا ہے۔[10]
ایران انتہائی متحرک زلزلے کی پٹی پر واقع ہے جس کی وجہ سے یہاں آئے دن زلزلے آتے رہتے ہیں۔ 1991ء سے اب تک ملک میں ایک ہزار زلزلے کے جھٹکے ریکارڈ کیے جاچکے ہیں جن سے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 17 ہزار 600 جانیں ضائع ہوئیں۔ 2003ء میں جنوب مشرقی ایران میں شدید زلزلے نے تباہی مچادی۔ اس کی شدت ریکٹر اسکیل پر 6.3 تھی اور اس نے قدیم قصبہ بام کو صفحہ ہستی سے مٹادیا۔ اس زلزلے میں 30 ہزار افراد جاں بحق ہوئے۔


پیرانشہر شہر 8000 سال کی تاریخ کے ساتھ ایران کا سب سے قدیم تہذیب ہے۔
== آئین ==
== آئین ==
اسلامی جمہوریہ ایران کے آئین کا مجوزہ متن ماہرین اور دلچسپی رکھنے والی جماعتوں کو عبوری حکومت (جون 1358) کی طرف سے دستیاب کرایا گیا اور 1358 میں عام انتخابات کے ذریعے اس کے حتمی جائزے کے لیے آئینی ماہرین کی اسمبلی تشکیل دی گئی۔ آئین کا آخری ورژن اسی سال دسمبر میں تھا، ایک ریفرنڈم ایران کے معزز لوگوں نے منظور کیا تھا  <ref>امام خمینی‌، ج‌۳، ص‌۴۸۶؛ روزها و رویدادها، ج‌۱، ص‌۸۱</ref>۔
اسلامی جمہوریہ ایران کے آئین کا مجوزہ متن ماہرین اور دلچسپی رکھنے والی جماعتوں کو عبوری حکومت (جون 1358) کی طرف سے دستیاب کرایا گیا اور 1358 میں عام انتخابات کے ذریعے اس کے حتمی جائزے کے لیے آئینی ماہرین کی اسمبلی تشکیل دی گئی۔ آئین کا آخری ورژن اسی سال دسمبر میں تھا، ایک ریفرنڈم ایران کے معزز لوگوں نے منظور کیا تھا  <ref>امام خمینی‌، ج‌۳، ص‌۴۸۶؛ روزها و رویدادها، ج‌۱، ص‌۸۱</ref>۔