مندرجات کا رخ کریں

حضرت آیت اللہ العظمی امام سید علی حسینی خامنہ ای کا ایرانی حکومتی اراکین سے اہم خطاب

ویکی‌وحدت سے

حضرت آیت اللہ العظمی امام سید علی حسینی خامنہ ای کا ایرانی حکومتی اراکین سے اہم خطاب اسلامی ممالک غاصب صہیونی حکومت سے تعلقات منقطع کریں۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی نے کہا ہے کہ ملک کے موجودہ حالات کو فرصت قرار دیتے ہوئے حکومت کو چاہئے کہ اقتصاد، صنعت، روزگار، رہائش اور نظم و ضبط ایجاد کریں۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے صدر مملکت اور کابینہ کے اراکین سے ملاقات میں اس بات پر زور دیا کہ ملک میں محنت، کارکردگی اور امید کی فضا کو دشمن کی طرف سے مسلط کردہ جنگ اور صلح کے درمیان کشمکش کی حالت پر غلبہ دلانا ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ عوام کی معیشت آج کے سب سے اہم مسائل میں سے ایک ہے اور حکومت کو اس میدان میں فوری اور سنجیدہ اقدامات کرنے چاہئیں۔ عوام کی معیشت اور روزمرہ زندگی سے وابستہ مسائل حکومت کی اولین ترجیح ہونی چاہیے[1]۔

خطاب کا اصلی متن

بسم اللہ الرحمن الرحیم

سب سے پہلے، میں 14 ویں حکومت کے تمام معززین اور دوستوں کو خواہ وہ فعال منتظمین ہوں یا فعال کارکنان بالخصوص ان اداروں کو جو اس 12 روزہ آزمائش میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ جیسا کہ جناب ڈاکٹر پزشکیان نے اشارہ کیا۔صحت کی وزارت اور کچھ دیگر شعبے شامل ہیں۔ ہمیں بھی علم ہے کہ انہوں نے ان بارہ دنوں میں حقیقی معنوں میں جانفشانی کے ساتھ اپنا کردار ادا کیا ہے۔ ہم ان سب کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔

میں محترم صدرِ مملکت کا خاص طور پر شکریہ ادا کرتا ہوں کہ وہ مسلسل اور مفید کام کر رہے ہیں۔ اس طرح کام کرنا ان جذبات اور اس حوصلے کے ساتھ کام کرنا وہی چیز ہے جس کی ملک کو ضرورت ہے۔ ان کا حالیہ دورہ چین ایک بہت اچھا دورہ تھا اور یہ ممکنہ طور پر میں ابھی اسے عملی نہیں کہوں گا ہمارے ملک کے لیے درکار بڑے واقعات کی بنیاد ہے، چاہے وہ اقتصادی لحاظ سے ہوں یا سیاسی لحاظ سے خوش قسمتی سے انہوں نے اس دورے کے ذریعے ایسی بنیاد فراہم کی ہے جس کے کچھ فوائد سامنے آئے ہیں اور ان شاء اللہ اس کی پیروی ہونی چاہیے۔

اس سے پہلے کہ میں اپنی بات شروع کروں میں نے اپنے نوٹس کے آخر میں ایک بات لکھی ہے جسے میں شروع میں ہی کہنا مناسب سمجھتا ہوں۔ اور وہ یہ ہے کہ ملک کے وہ ذمہ داران جو عوام سے بات کرتے ہیں۔ وہ ملک کی طاقت ، قوت اور صلاحیتوں کے قصہ گو بنیں۔ جیسا کہ آج انہوں نے بات کی کمزوریوں کے راوی نہ بنیں۔ ہاں! ہماری کمزوریاں ہیں

خامیاں ہیں ۔کمی ہے۔ایسا کس ملک میں نہیں ہے؟؟

لیکن ہمارے پاس طاقتیں ہیں صلاحیتیں ہیں۔ کام ہوئے ہیں۔ کوششیں ہوئی ہیں۔ ہمیں انہیں بیان کرنا چاہیے اور لوگوں کو بتانا چاہیے۔ اس سلسلے میں پریس بھی ذمہ دار ہے۔ ریڈیو اور ٹیلی ویژن بھی ذمہ دار ہے۔ اور سب سے بڑھ کر خود حکومتی عہدیدار ذمہ دار ہیں کہ جب وہ لوگوں کے سامنے اس مائیکروفون کے پیچھے کھڑے ہوں تو کمزوری، ناتوانی اور مایوسی جیسی چیزوں کا ذکر نہ کریں۔ جناب صدر ابھی تقریباً آدھے گھنٹے تک بات کرتے رہے۔ ان کی گفتگو میں تمام نکات قوت کے تھے۔ میں البتہ انتظامی امور سے واقف ہوں۔ میں نے کئی سال تک انتظامیہ میں کام کیا ہے۔

میں جانتا ہوں کہ خواہش اور فیصلہ کرنے کے درمیان کا فاصلہ اور اس کے عملی ہونے کے درمیان کا فاصلہ کم نہیں ہے۔ یہ ہم سب جانتے ہیں لیکن جب انسان خواہش رکھتا ہو۔ جب اس میں جذبہ ہو، جب وہ ہمت رکھتا ہو۔جب وہ یہ امید رکھتا ہو کہ وہ کامیاب ہوگا تو یہ خواہشات کی تکمیل کا ایک اہم حصہ ہے۔ یہ وہی ضروری بات تھی جس کے لیے میں واقعی ان باتوں کے لیے ڈاکٹر پزشکیان کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔

میرے عزیز دوستوں! میں آپ سے کہتا ہوں کہ لوگوں کی خدمت کے اس موقع کی قدر کریں۔ یہ موقع اولاً ہر کسی کو نہیں ملتا۔ ثانیاً ہمیشہ نہیں ملتا۔ ہم اور آپ چند سالوں کے لیے ایک ذمہ داری رکھتے ہیں، ایک کام رکھتے ہیں۔ایک میدان رکھتے ہیں جس میں ہم حرکت کر سکتے ہیں۔کام کر سکتے ہیں۔ لوگوں کی خدمت کر سکتے ہیں اور اس مدت میں خدا کو ہم سے راضی کر سکتے ہیں۔

ہمیں اسے ضائع نہیں کرنا چاہیے۔ ہمیں اپنی خدمت کی اس زندگی کے ہر لمحے کا استعمال کرنا چاہیے۔ اگر ہم اس نصیحت پر عمل کریں اور اسے حقیقت بنائیں اور متوازی کام، بے کاری، سست روی اور دوسرے مسائل میں مشغول نہ ہوں، تو میرے خیال میں جیسا کہ انہوں نے کہا مسائل حل ہو جائیں گے اور وہ بھی قلیل یا درمیانی مدت میں حل ہو جائیں گے۔

نہ جنگ، نہ امن

ایسا نہیں ہے کہ ہمیں برسوں انتظار کرنا پڑے گا۔ خاص طور پر اقتصادی مسائل اور ان مسائل کے بارے میں جو لوگوں کے روزگار سے منسلک ہیں۔ ہمیں بہت زیادہ سنجیدگی سے کام کرنا چاہیے۔ ہمیں بیرونی تبدیلیوں کا بھی انتظار نہیں کرنا چاہیے۔ دنیا میں، سیاست کی دنیا میں سفارت کاری کی دنیا میں کچھ واقعات رونما ہوتے ہیں؛ ہمیں ان کا انتظار نہیں کرنا چاہیے۔ ہمیں اپنا کام کرنا چاہیے۔ جن لوگوں کی ان کاموں کی ذمہ داری ہے۔ وہ انہیں انجام دیتے ہیں۔ ہمیں اپنا فرض کا کام انجام دینا چاہیے۔ ہمیں کام اور کوشش کے حوصلے کو "نہ جنگ، نہ امن" کی حالت پر غالب کرنا چاہیے جسے دشمن ہم پر مسلط کرنا چاہتا ہے۔

یعنی ملک کے نقصانات اور خطرات میں سے ایک یہی "نہ جنگ، نہ امن" کی حالت ہے جو اچھی نہیں ہے۔ ایک اچھی فضا نہیں ہے۔ ہمیں کام کے جذبے، کوشش کے جذبے، ہمت اور ارادے کو باتوں سے عمل سے اور نتائج دکھا کر اس حالت پر غالب آنا چاہیے۔ حکومتوں کا اہم فرض قومی طاقت اور قومی عزت کے اجزا کو مضبوط کرنا ہے۔

پوری دنیا میں ایسا ہی ہے کہ تمام حکومتوں کا فرض ہے کہ وہ قومی طاقت کے اجزا کو مضبوط کریں اور ان میں سب سے اہم قوم کا حوصلہ، جذبہ اور یکجہتی ہے۔ یعنی اگر ہم طاقت کے اجزا کو شمار کرنا چاہیں تو سب سے اہم یہی ہے کہ قوم متحد ہو، باہمت ہو، پرامید ہو، اور پرعزم ہو۔ ہمیں اپنے کام، اپنی باتوں اور اپنی ذمہ داریوں کی پابندی کے ذریعے قوم میں یہ حوصلہ پیدا کرنا چاہیے اور اگر یہ موجود ہے تو اسے مضبوط کرنا چاہیے اور اس حوصلے کو ختم ہونے سے روکنا چاہیے۔

کاموں میں ترجیحات پر توجہ دینی چاہیے۔ کام بہت زیادہ ہیں۔ صلاحیت خواہ مالی ہو یا انسانی عام طور پر اس کام کی ضرورت سے کم ہوتی ہے جو کیا جانا چاہیے۔ ترجیحات کو تلاش کرنا چاہیے اور ترجیح کا معیار ایک تو فوری ہونا ہے اور دوسرا بنیادی ڈھانچے کا ہونا ہے۔ یہ ترجیحات ہیں۔ کچھ کام فوری نوعیت کے ہوتے ہیں۔کچھ کام بنیادی ڈھانچے کے پہلو رکھتے ہیں؛ یہ ترجیحات ہیں۔ ہمیں ان ترجیحات پر توجہ دینی چاہیے۔ انتظام کے اہم اصولوں میں سے ایک یہ ہے کہ انسان ترجیحات کو پہچان سکے اور انہیں تلاش کرے۔

میں اس کے ساتھ ساتھ نائب صدر ڈاکٹر عارف کا بھی شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں جن کے بارے میں مجھے معلوم ہے کہ وہ ان کاموں کے لیے مسلسل میٹنگیں کر رہے ہیں جن کے بارے میں فیصلے ہوتے ہیں ۔خاص طور پر یہ فراموش نہیں ہونا چاہیے۔ وہ واقعی کوشش کرتے ہیں، کام کرتے ہیں اور ہمیں ان کی وسیع سرگرمی کے بارے میں علم ہے۔ حکومتیں لوگوں کی مشترکہ اور عمومی ضروریات کی تکمیل کی ذمہ دار ہوتی ہیں۔ یہ مشترکہ ضروریات جو حکومتوں کا فرض ہے کہ وہ پورا کریں، جیسے روزگار، سیکورٹی، صحت، ثقافت اور طرز زندگی ماحولیات وغیرہ ہیں۔

ہمیں ان میں سے ترجیحات کو تلاش کرنا چاہیے ان بنیادی سر فہرست چیزوں میں ہمیں دیکھنا چاہیے کہ کون سی چیز کو ترجیح حاصل ہے اور ان میں کون سی شاخ کو ترجیح حاصل ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ اسلامی نظام بنیادی طور پر اسلامی تعلیمات اور قوانین کی تکمیل کے لیے تشکیل دیا گیا تھا جو بھی کوئی اور بات کہے وہ حقیقت کے خلاف کہتا ہے۔

ہمیں خدا کے لیے الٰہی مقاصد اور الٰہی تعلیمات و قوانین کی تکمیل کے لیے کام کرنا چاہیے

شروع سے ہی امام خمینی رح کا نعرہ یہ تھا کہ ہمیں خدا کے لیے الٰہی مقاصد اور الٰہی تعلیمات و قوانین کی تکمیل کے لیے کام کرنا چاہیے پھر انہوں نے لوگوں سے کہا اور لوگ بھی زیادہ تر دینی جذبات کے ساتھ کھڑے ہوئے اور حرکت کی۔ لہٰذا اسلامی نظام میں کام خدا کے لیے ہے ان چیزوں کی تکمیل کے لیے ہے۔

ایک اہم ترین سرفہرست جس پر میں زور دینا چاہتا ہوں وہ ہے پیروی کا مسئلہ پیروی۔ اب یہ پیروی کبھی صدر کی سطح پر ہوتی ہے اور یہ الحمدللہ موجود ہے وہ واقعی ان صوبائی دوروں میں لوگوں سے رابطے اور وزارت خانوں میں جا کر اعلیٰ عہدیداروں اور کارکنوں سے قریبی رابطے کے ذریعے پیروی کرتے ہیں۔یہ پیرویاں بہت قیمتی ہیں۔اور یہ بہت مفید بھی ہیں۔ لیکن صرف یہی نہیں۔ پیروی کو ادارے کے اندر، درمیانی انتظامیہ میں بھی پیدا ہونا چاہیے۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ آپ جو وزیر ہیں۔ کوئی فیصلہ کرتے ہیں۔آپ اسے قبول بھی کرتے ہیں۔آپ کی خواہش بھی ہوتی ہے کہ یہ کام انجام پائے۔

آپ حکم بھی دیتے ہیں۔ آپ کا نائب بھی اسے منتظم کو حکم دیتا ہے۔لیکن دو تین واسطوں کے گزرنے کے بعد معاملہ آہستہ آہستہ کمزور ہوتا جاتا ہے یہاں تک کہ مکمل طور پر ختم ہو جاتا ہے اور جب یہ انگلیوں کی نوک تک پہنچتا ہے تو کچھ بھی نہیں بچتا۔ جبکہ کام کو انگلیوں کی نوکوں کو کرنا چاہیے کام کو ہاتھوں کو کرنا چاہیے دماغ صرف حکم دیتا ہے۔ یہ پیروی اہم ہے انگلیوں کی نوکوں تک پیروی نتائج حاصل ہونے تک پیروی آخر تک کیونکہ مختلف سوچیں موجود ہیں۔

خوش قسمتی سے آج ملک میں مجموعی طور پر یکجہتی کی گنجائش موجود ہے آج صورتحال ایسی ہے۔ تینوں قوتوں کے سربراہان ہم آہنگ ہمفکر اور تیار ہیں فیصلہ کرنے اور فیصلہ سازی کے بہت سے شعبے ایک دوسرے کے ساتھ ہیں۔ لہٰذا آج حکومتی شعبوں میں یکجہتی میرے خیال میں ماضی کے مقابلے میں آسان ہے۔ اس موقع کا فائدہ اٹھانا چاہیے ان کاموں کو آگے بڑھانا چاہیے جن پر اتفاق ہے اور حرکت کرنی چاہیے۔ کام بھی واقعی اہم کام ہیں۔

یہ چند نکات جو انہوں نے کہے ان میں سے ایک حکومت کے ڈھانچے کو ہلکا کرنے کا مسئلہ تھا یعنی کچھ ایسے اداروں کو کم کرنا جن کا وجود اور عدم وجود یکساں ہے یا کسی ادارے کسی وزارت خانہ کسی فاؤنڈیشن کے ملازمین کی تعداد کو کم کرنا۔ یہ اہم کام ہیں یہ مشکل کام بھی ہیں یہ آسان کام نہیں ہیں۔ لیکن آج ہم آہنگی موجود ہے اور یہ کام کیے جا سکتے ہیں یہ کام کرنے چاہیے یہ کام ضرور کرنے چاہیے۔

یہ ایک بڑا موقع ہے۔ مختلف سوچیں موجود ہیں رکاوٹیں ہیں انہیں دور کرنا چاہیے۔ میں اقتصاد کے بارے میں جو ملک کا ایک اہم مسئلہ ہے۔

کچھ مشورے

کچھ مشورے دینا چاہتا ہوں۔ البتہ کہنے کے لیے بہت کچھ ہے جیسا کہ انہوں نے اشارہ کیا کہنے کے لیے بہت سی باتیں ہیں، لیکن کم از کم پر اکتفا کرنا چاہیے:

پہلا مشورہ

پہلا مسئلہ پیداواری یونٹس کی بحالی ہے۔ وہ لوگ جو کام کے ماہر ہیں اور حقیقی معیشت عملی معیشت کے مسائل کو سمجھتے ہیں۔ وہ سب اس بات پر متفق ہیں کہ پیداوار ملک کی معاشی ترقی کی کلید ہے۔ پیداوار پر توجہ دیں۔ پیداواری یونٹس کو بحال کریں۔ اب البتہ یہ اشارہ کیا گیا کہ کچھ فیکٹریوں کی بجلی کاٹی جاتی ہے۔ کچھ جگہیں ہیں جہاں ایک مجبوری ہوتی ہے۔لیکن جہاں مجبوری نہیں ہے وہاں پیداوار کے مسئلے کو سنجیدگی سے لینا چاہیے۔ یہ میرا پہلا مشورہ ہے۔

دوسرا مشہورہ

میرا دوسرا مشورہ ضروری اشیاء کی بروقت فراہمی ہے۔ یہ ملک کے مسائل میں سے ایک ہے۔ کچھ معاملات میں ایسا ہوا ہے کہ متعلقہ عہدیدار نے ہمیں رپورٹ دی۔ اب اس نے ہمیں کیوں رپورٹ دی مجھے نہیں معلوم۔ کہ فلاں چیز جو اہم ضروری اشیاء میں سے ہے مثلاً اس مدت کے لیے ہونی چاہیے لیکن وہ اس مدت کے ایک تہائی کے برابر ہے۔ میں مدتوں کا نام نہیں لینا چاہتا۔ لیکن یہ ایک خطرہ ہے۔

ہمیں ضروری اشیاء کو بروقت فراہم کرنا چاہیے اور اشیاء کے ذخائر کی مقدار کو ہمیشہ ضروری معیار کے مطابق دیکھنا چاہیے۔ ممکنہ خطرات موجود ہیں۔ ہم ہمیشہ تمام خطرات کی پیش گوئی نہیں کر سکتے۔کبھی کوئی مسئلہ پیش آ سکتا ہے۔جو چیز ابھی درآمد کی جا سکتی ہے وہ کسی اور وقت میں درآمد نہیں کی جا سکے گی۔ ہمیں ان چیزوں کے بارے میں سوچنا چاہیے۔ان خطرات کو مدنظر رکھنا چاہیے۔

لہٰذا ملک میں ضروری اشیاء کی موجودگی مکمل طور پر اطمینان بخش ہونی چاہیے۔ اگر ملک میں ضروری اشیاء بروقت موجود ہوں تو اس کا لوگوں کے دسترخوان پر براہ راست اثر پڑے گا۔ یعنی بازار میں عارضی اور من مانی مہنگائی نہیں ہوگی اور غذائی تحفظ کو خطرہ نہیں ہوگا۔ یہ ایک مسئلہ ہے۔

ضروری اشیاء کے بارے میں ایک بات جو کئی سالوں سے زیر بحث ہے وہ ہے ضروری اشیاء کی درآمد کو مسابقتی بنانا۔ کچھ ضروری اشیاء کی درآمد اجارہ داری ہے اجارہ داری بری ہے اجارہ داری اداروں کے ہاتھ بندھنے کا سبب بنتی ہے۔ کوشش کرنی چاہیے کہ درآمد کے دونوں ذرائع یعنی وہ ممالک جہاں سے درآمد کی جاتی ہے اور وہ لوگ جو درآمد میں براہ راست شامل ہیں ان میں مسابقتی صورتحال پیدا کی جائے یہ ملک میں اشیاء کی درآمد کے مسئلے میں مدد کرے گا۔ کہا جاتا ہے کہ اگر ہم اسے مسابقتی بنائیں تو غیر ملکی خریداری کی کرنسی کی قیمتیں بھی کم ہوں گی اور اندرونی ریال کی قیمتیں بھی کم ہوں گی جو ایک بڑی خوشخبری ہے یہ ایک بہت اہم مسئلہ ہے۔

آخر میں لوگوں کے روزگار کا مسئلہ ملک کے اہم ترین مسائل میں سے ایک ہے جیسا کہ صدرِ مملکت نے بھی اشارہ کیا ایک ایسا انتظام کرنا چاہیے کہ لوگ کچھ مثلاً تقریباً دس یا اس سے کچھ کم ضروری اشیاء کو قیمت میں اضافے کی فکر کے بغیر حاصل کر سکیں۔ یعنی ایسا نہ ہو کہ آج ایک قیمت ہو اور کل افراط زر کی وجہ سے قیمت دوگنی یا تقریباً دوگنی ہو جائے۔

اب دوست کوپن کا نام لیتے ہیں اور جو ماہر ہیں۔ جو اس سے واقف ہیں، وہ اس کی تائید کرتے ہیں میں بھی چونکہ خود اس مسئلے میں شامل نہیں ہوں۔ میرے خیال میں اس کام کو آگے بڑھانا چاہیے۔ اور کہا جاتا ہے کہ الیکٹرانک کوپن استعمال کرنے کی گنجائش بھی موجود ہے۔یعنی اس کا بنیادی ڈھانچہ ابھی موجود ہے اور اس کا استعمال کیا جا سکتا ہے کہ مثلاً کوئی ایسا انتظام کیا جائے کہ لوگ تقریباً دس اشیاء کو بغیر کسی فکر کے ایک مقررہ قیمت پر حاصل کر سکیں۔ یہ بھی ایک مشورہ ہے۔

دوسری اشیاء کے بارے میں بھی بازار میں نظم و ضبط کے لیے کوئی سوچنا چاہیے۔ یعنی لوگوں کو یہ محسوس نہیں ہونا چاہیے کہ بازار بے قابو ہے۔ آج ایک قیمت ہے۔ کل ایک عجیب فرق کے ساتھ قیمت بڑھ گئی ہے۔ یہاں ایک قیمت ہے دوسری طرف ایک اور قیمت ہے ۔اس طرح کی حالت جو بازار کی بے قابو حالت ہے۔لوگوں کے حوصلے کو نقصان پہنچاتی ہے اس حالت کا احساس نہیں ہونا چاہیے۔ اشیاء کے ذخیرے کے بارے میں جو ہم نے کہا یہ کہنا بھی بے موقع نہیں ہوگا کہ سردیوں کے لیے گیس کا ذخیرہ اہم مسائل میں سے ایک ہے۔

ابھی سے گیس کی درآمد اور اس طرح کے کاموں کے ذریعے ایسا عمل کیا جائے کہ سردیوں میں ملک میں گیس کا مسئلہ نہ ہو۔ اب ترکمانستان بھی ہے اور دوسری جگہیں بھی ہیں جہاں یہ کام کیے جا سکتے ہیں۔ رہائش کا مسئلہ بھی ایک اہم مسئلہ ہے۔رہائش کا مسئلہ واقعی ایک بنیادی مسئلہ ہے۔

ہمیں کچھ تجاویز دی جاتی ہیں۔ جو کہ اب ہم چونکہ خود کام کرنے والے نہیں ہیں اور کام ہمارے ہاتھ میں نہیں ہے ۔لہٰذا ہم انہیں متعلقہ حکام کے سپرد کرتے ہیں۔ رہائش کے مسئلے کو حل کرنے یا جزوی طور پر حل کرنے کے بارے میں خواہ وہ مکمل حل نہ ہو ہمیں کچھ تجاویز دی جاتی ہیں تو یہ تجاویز محترم حکام کو سننی چاہیے۔ ان کی پیروی کرنی چاہیے اور ان شاء اللہ انہیں نتیجہ خیز بنانا چاہیے۔

ایک مسئلہ تیل کا مسئلہ ہے

اب اشارہ کیا گیا کہ تیل کی پیداوار اور برآمد دونوں میں اضافہ ہوا ہے لیکن اس کے باوجود تیل کی پیداوار جو ملک کی معیشت میں اہمیت رکھتی ہے جو کہ واضح ہے ۔ وہ کم ہے۔ ہماری تیل کی پیداوار کے طریقے پرانے ہیں آلات پرانے ہیں۔ طریقے پرانے ہیں اور ہم دنیا کے بہت سے تیل پیدا کرنے والے علاقوں سے پیچھے ہیں۔ جبکہ آج یقینی طور پر ہمارے نوجوان اور تعلیم یافتہ طلباء جو تیل کے شعبے میں کام کر چکے ہیں ان کی مدد سے بلاشبہ اہم کام کیے جا سکتے ہیں۔ ان سے مدد مانگنی چاہیے۔

اس سلسلے میں ہم نے پچھلی حکومتوں میں ایک مشکل مسئلہ کا تجربہ کیا یہ ایک مشکل مسئلہ تھا دو یا تین طالب علم ہمارے پاس آئے اور کہا کہ ہم اسے حل کر لیں گے، میں نے انہیں وزیر تیل کے پاس بھیجا پھر وزیر تیل نے کہا کہ یہ کام حل ہو گیا۔یعنی چند نوجوان طالب علم چند نوجوان تعلیم یافتہ شاید تیل کی پیداوار، تیل کے نکالنے اور اس طرح کے طریقوں میں ایک انقلاب برپا کر سکیں۔ تیل کی برآمد کے بارے میں بھی البتہ ہمیں مزید حرکت میں آنے کی ضرورت ہے۔

یعنی تیل کے حوالے سے گاہکوں کی کثرت اور تنوع کا مسئلہ ایک اہم مسئلہ ہے جس کی ان شاء اللہ پیروی کرنی چاہیے۔ میں ایک مشورہ اسراف کے بارے میں بھی کرنا چاہتا ہوں۔ ہم واقعی اسراف کرتے ہیں۔ میں نے کئی سال پہلے سال کا نعرہ اسراف نہ کرنے کے مضمون پر رکھا تھا اب مجھے اس کا عین نعرہ یاد نہیں ہے کہ لوگ اسراف نہ کریں۔

وہ ہمارے پاس آئے اور کہا کہ سب سے زیادہ اسراف آپ خود کرتے ہیں حکومت سب سے زیادہ اسراف کرتی ہے ہم نے دیکھا کہ وہ سچ کہہ رہے تھے۔ بجلی کے میدان میں گیس کے میدان میں پانی کے میدان میں اور عمارت سازی کے میدان میں سفر اور دیگر چیزوں میں اسراف ہوتا ہے۔ غیر ضروری سفروں کی کیا ضرورت ہے؟ بہت سے سفر بالکل بھی ضروری نہیں ہوتے۔ پھر سفر میں دوگنے یا تگنے ساتھیوں کے ساتھ جو ضروری ہیں۔اس کی کیا ضرورت ہے؟

اگر کسی کو کہیں سفر کرنا ہو۔ تو وہ کچھ مخصوص لوگوں کے ساتھ کرے جن کا وہاں موجود ہونا ضروری اور واجب ہے۔ یا مثلاً جس جگہ کا سفر کیا گیا ہے وہاں مہنگے ہوٹلوں میں قیام۔ یہ اسراف ہے۔ یہ اسراف نہیں کرنا چاہیے۔ آخرکار جب آمدنی کم ہو تو خرچ بھی کم ہونا چاہیے (جب آمدنی نہ ہو تو خرچ آہستہ کرو) جیسا کہ ملاح کہتے ہیں: اگر پہاڑوں پر بارش نہ ہو تو ایک سال میں دجلہ خشک ہو جائے گا۔ پہلے وسائل حاصل کرنے چاہیے۔ پھر خرچ کرنے کا سوچنا چاہیے۔

اسرائیل کا غزہ پر جارحیت

میری آخری بات غزہ اور ان بے مثال جرائم کے بارے میں ہے جو اس ملعون صہیونی کی طرف سے کیے جا رہے ہیں_ انسان واقعی ان تمام جرائم۔ان تمام تباہ کاریوں پر حیرت زدہ ہے۔ اور وہ شرم بھی نہیں کرتے ۔وہ کھلے عام کہتے ہیں۔ ہم کر رہے ہیں۔ ہم کرنا چاہتے ہیں اور ہم کرتے ہیں۔ اس کا علاج ہونا چاہیے۔

ہاں! یہ سچ ہے کہ امریکہ اس کی حمایت کرتا ہے امریکہ بھی ایک بڑی طاقت ہے اس میں کوئی شک نہیں۔ لیکن اس صورتحال کا مقابلہ کرنے کا راستہ بند نہیں ہے۔ احتجاج کرنے والے ممالک جن میں آج اسلامی اور غیر اسلامی ممالک شامل ہیں خاص طور پر اسلامی ممالک کو چاہیے کہ وہ صیہونی حکومت کے ساتھ اپنے تجارتی تعلقات کو مکمل طور پر منقطع کر دیں اور یہاں تک کہ سیاسی* تعلقات کو بھی منقطع کر دیں۔ اسے الگ تھلگ کر دیں۔

آج البتہ خبیث صیہونی نظام دنیا کی سب سے الگ تھلگ حکومت ہے۔دنیا کی سب سے زیادہ نفرت انگیز حکومت ہے۔اس میں کوئی شک نہیں، لیکن اس سے بھی زیادہ ممکن ہے۔ راستے بند ہونے چاہیے۔ یہ وہ فرض ہے جو تمام حکومتوں پر عائد ہوتا ہے۔ میرے خیال میں ہماری سفارت کاری کی ایک اہم لائن یہ ہونی چاہیے۔ حکومتوں کو سفارش کریں اور زور دیں کہ وہ اپنے تعلقات منقطع کر دیں۔ اول اور اولین تجارتی تعلقات، اس کے بعد سیاسی تعلقات بھی منقطع کر دیں۔

میں نے یہاں اصحاب بیان و قلم سے بھی ایک بات کہی ہے اور وہ یہ ہے کہ وہ لوگ جو اخبار لکھتے ہیں۔ مضامین لکھتے ہیں۔ ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر بیانات دیتے ہیں۔سوشل میڈیا پر بیانات دیتے ہیں۔وہ اپنے ملک کے خلاف بات کرنے کی کوشش نہ کریں۔اپنے ملک کی کمزوریوں کے راوی نہ بنیں۔ لوگوں کے لیے قوت کے نکات بیان کریں۔ وہ قوت کے نکات جو واقعی موجود ہیں وہ صلاحیتیں جو واقعی موجود ہیں۔انہیں لوگوں کو بتائیں۔* ان شاء اللہ، اللہ تعالیٰ آپ سب کو توفیق عطا فرمائے۔

آپ کی مدد کرے اور آپ اس بھاری اور اہم فریضے کو بہترین طریقے سے انجام دے سکیں۔ ہم آپ کے لیے دعا کرتے ہیں۔ والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

حوالہ جات

  1. اسلامی ممالک غاصب صہیونی حکومت سے تعلقات منقطع کریں، رہبر معظم-شائع شدہ از: 7 ستمبر 2025ء- اخذ شدہ بہ تاریخ: 9 ستمبر 2025ء