"علی جمعہ" کے نسخوں کے درمیان فرق

ویکی‌وحدت سے
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
 
(2 صارفین 33 کے درمیانی نسخے نہیں دکھائے گئے)
سطر 1: سطر 1:
 
{{Infobox person
'''علی جمعہ،''' ایک اسلامی اسکالر، فقیہ، عالم اور [[مصر]] کے سابق مفتی ہیں۔۔ انہوں نے 2003ء سے 2013ء مصر کے اٹھارویں مفتیِ اعظم کے طور پر خدمات انجام دیں۔ انہیں 2008ء میں "یو ایس نیوز اینڈ ورلڈ رپورٹ" اور "دی نیشنل" کے مطابق بین الاقوامی سطح پر سب سے زیادہ قابل احترام اسلامی فقہا میں سے ایک قرار دیا گیا اور دی نیویارکر کے مطابق ایک انتہائی جدید اعتدال پسند مسلمان راہنما، صنفی مساوات اور "شدت پسندوں کے لیے نفرت کی علامت: اور اتحاد کے علمبردار قرار دیا گیا۔
| title = علی جمعہ
| image =  علی جمعہ.jpg
| name =
| other names =
| brith year = 1953 ء
| brith date =
| birth place = [[مصر]]
| death year = 2017 ء
| death date = 3مارچ
| death place =
| teachers = {{hlist|عبدالله بن صدق غمارى|عبدالفتاح ابوغده| احمد مرسى| عبدالعزیز غمارى}}
| students =
| religion = [[اسلام]]
| faith = [[اہل السنۃ والجماعت|سنی]]
| works = {{hlist| النبي صلى الله عليه وسلم|النبراس في تفسير القرآن الكريم|الحج والعمرة أسرار وأحكام|}}
| known for = {{hlist|مصر کے مفتی|الازہر یونیورسٹی میں اصول فقہ کے پروفیسر|ہندوستان میں اسلامی فقہ کانفرنس کے رکن}}
| website =  https://www.draligomaa.com
}}
'''علی جمعہ،''' اسلامی اسکالر، فقیہ، عالم اور [[مصر]] کے سابق مفتی ہیں۔۔ انہوں نے 2003ء سے 2013ء مصر کے اٹھارویں مفتیِ اعظم کے طور پر خدمات انجام دیں۔ انہیں 2008ء میں "یو ایس نیوز اینڈ ورلڈ رپورٹ" اور "دی نیشنل" کے مطابق بین الاقوامی سطح پر سب سے زیادہ قابل احترام اسلامی فقہا میں سے ایک قرار دیا گیا اور دی نیویارک کے مطابق ایک انتہائی جدید اعتدال پسند مسلمان راہنما، منصف، شدت پسندوں کے لیے نفرت کی علامت اور اتحاد کے علمبردار قرار دیا گیا۔
== سوانح عمری اور تعلیم ==
== سوانح عمری اور تعلیم ==
علی جمعہ 3 مارچ 1952 کو صوبہ بنی سیف میں پیدا ہوئے، انہوں نے 1969ء میں ہائی اسکول سے گریجویشن کیا، اور اس کے بعد قاہرہ کی عین شمس یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور 1973 میں بیچلر آف کامرس کی ڈگری حاصل کی۔ اپنی تعلیم کے دوران انہوں نے [[قرآن]] حفظ کیا اور فقہ شافعی کی تعلیم حاصل کی۔
علی جمعہ 3 مارچ 1952 کو صوبہ بنی سیف میں پیدا ہوئے، انہوں نے 1969ء میں ہائی اسکول سے گریجویشن کیا، اور اس کے بعد قاہرہ کی عین شمس یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور 1973 میں بیچلر آف کامرس کی ڈگری حاصل کی۔ اپنی تعلیم کے دوران انہوں نے [[قرآن]] حفظ کیا اور فقہ شافعی کی تعلیم حاصل کی۔
آپ اسلامی تعلیمات میں گہری دلچسپی رکھتے تھے جبکہ یونیورسٹی میں اپنے فارغ وقت میں [[حدیث]] اور [[فقہ]] شافعی کا مطالعہ کرتے تھے۔ 1973ء میں جامعہ عین شمس سے بی کام پاس کرنے کے بعد انہوں  نے دنیا میں اعلیٰ اسلامی تعلیم کے قدیم ترین فعال اسلامی ادارے جامعہ الازہر، قاہرہ میں داخلہ لے لیا اور وہاں سے انہوں نے اسلامی علوم میں بی اے کی دوسری ڈگری حاصل کی، پھر ایم اے اور آخر کار 1988ء اصول الفقہ میں پی ایچ ڈی کی۔[10] تب تک علی جمعہ نے جامعہ الازہر کے ہائی اسکول کا نصاب نہیں پڑھا تھا پھر ان بنیادی متون کو حفظ کرنے کے لیے انہوں نے خود سے وہ نصاب پڑھایا جس کو دیگر طلبہ وہاں پہلے سالوں میں پڑھتے تھے<ref>[ https://ifta-learning.net/node/60 فضيلة الأستاذ الدكتور علي جمعة](جناب ڈاکٹر علی جمعہ)-ifta-learning.net(عربی زبان)-اخذ شدہ بہ تاریخ:22اپریل 2024ء۔</ref>۔
آپ اسلامی تعلیمات میں گہری دلچسپی رکھتے تھے جبکہ یونیورسٹی میں اپنے فارغ وقت میں [[حدیث]] اور [[فقہ]] شافعی کا مطالعہ کرتے تھے۔
1973ء میں جامعہ عین شمس سے بی کام پاس کرنے کے بعد انہوں  نے دنیا میں اعلیٰ اسلامی تعلیم کے قدیم ترین فعال اسلامی ادارے جامعہ الازہر، قاہرہ میں داخلہ لے لیا اور وہاں سے انہوں نے اسلامی علوم میں بی اے کی دوسری ڈگری حاصل کی، پھر ایم اے اور آخر کار 1988ء اصول الفقہ میں پی ایچ ڈی کی۔ تب تک علی جمعہ نے جامعہ الازہر کے ہائی اسکول کا نصاب نہیں پڑھا تھا پھر ان بنیادی متون کو حفظ کرنے کے لیے انہوں نے خود سے وہ نصاب پڑھایا جس کو دیگر طلبہ وہاں پہلے سالوں میں پڑھتے تھے
<ref>[https://ifta-learning.net/node/60 فضيلة الأستاذ الدكتور علي جمعة](جناب ڈاکٹر علی جمعہ)-ifta-learning.net(عربی زبان)-اخذ شدہ بہ تاریخ:22اپریل 2024ء۔</ref>۔


== تدریس ==
== تدریس ==
انہوں نے ایم پاس کرنے کے بعد جامعہ الازہر میں اسلامی اور عربی علوم کی فیکلٹی میں پہلے ایک اسسٹنٹ پروفیسر، پھر ایک مکمل پروفیسر کے طور پر تدریس کی۔ جب آپ مفتی اعظم مقرر ہو گئے تو علی جمعہ عقیدہ، تفسیر، حدیث، فقہ اور [[اسلامی تاریخ]] کے استاد ہونے کے ساتھ ایک صوفی کے طور پر ان کی عزت و تکریم کی جاتی ہے۔
انہوں نے ایم پاس کرنے کے بعد جامعہ الازہر میں اسلامی اور عربی علوم کی فیکلٹی میں پہلے ایک اسسٹنٹ پروفیسر، پھر ایک مکمل پروفیسر کے طور پر تدریس کی۔ جب آپ مفتی اعظم مقرر ہو گئے تو علی جمعہ عقائد، تفسیر، حدیث، فقہ اور [[اسلامی تاریخ]] کے استاد ہونے کے ساتھ ایک صوفی کے طور پر ان کی عزت و تکریم کی جاتی ہے۔
 
== اتحاد المسلمین کے بارے میں ان کا نظریہ ==
== اتحاد المسلمین کے بارے میں ان کا نظریہ ==
انہوں نے اسلامی صفوں کے اتحاد کی دعوت دینے اور اسلامی مکاتب فکر کو ایک دوسرے کے قریب لانے میں بڑا کردار ادا کیا ہے۔ آپ  تاریخ، سیرت اور فقہ کے مطالعہ کو اتحاد بین المسلمین اور تقریب کے مضبوط بنیادیں ہونے کا قا‏ئل ہیں۔ ان کے بہت سارے نظریات ہیں جن میں سے بعض سے ہم اختلاف اور بعض سے اتفاق بھی کر سکتے ہیں، لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ ان علماء میں سے ہیں جنہوں نے امت مسلمہ کے اتحاد اور اتفاق کے مسئلے کو سب سے زیادہ گہرائی کے ساتھ اور اس مسئلہ کو بہت زیادہ اہمیت دی۔
اتحاد اور تقریب مذاہب اسلامی کے بہت سے مسائل پر ان کی آراء ہمارے نظریات سے ہم آہنگ اور متفق ہیں کہ جیسے [[غزہ]] پر حملے کے بارے میں ان کا مؤقف، نیز تہذیبوں کے آپس ڈائیلاگ اور  گقتگو۔ جب ان سے [[اہل السنۃ والجماعت|اہل سنت]] اور [[شیعہ|شیعوں]] کے درمیان تعلقات کے بارے میں سوال کیا گیا کہ شیعہ اور سنیوں کے درمیاں اتحاد کو کیسے دیکھتے ہیں تو ڈاکٹر علی جمعہ نے کہا: بہت سارے عوامل ایسے ہیں جن کے ذریعے سنیوں اور شیعوں کو ایک دوسرے سے قریب لاتے سکتے ہیں اور ان کے درمیان اتحاد قائم کرسکتے ہیں۔ اور ان کے درمیان متنازعہ مسائل بہت کم ہیں، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں جماعتوں کے درمیان علماء کی سطح پر بات چیت کبھی نہیں رکی، اور یہ زیادہ تر معاملات میں کھلے دل اور نیک نیتی کے ساتھ انتظام کیا جاتا ہے۔ جمعہ نے اسلامی میدان کو کمزور کرنے کے لیے متعدد عالمی کوششوں کے وجود کی تصدیق کی، ایک عملی میکانزم کو اپنانے کی ضرورت پر زور دیا جسے علماء اور بزرگان دین استعمال کرے اور کام کرے تاکہ اتحاد کی کوششوں اور باہمی رابط کے مسائل کو عملی میدان میں تبدیل کیا جا سکے
<ref>[https://www.sid.ir/paper/449813/fa ما یجمعنا الکثیر، والحوار والتواصل لم یتوقفا قط (الحوار)] (اتحاد کے راہیں بہت ہیں اور گفتگو اور مذاکرے کبھی نہیں رکے)-sid.ir(عربی زبان)-اخذ شدہ بہ تاریخ:23اپریل 2024ء۔</ref>۔
ابن تیمیہ الازہر کے ہاں کوئی معتبر سند نہیں اگر وہ داعش کو دیکھتا تو اپنے جوتے سے مارتا
ابن تیمیہ الازہر کے ہاں کوئی معتبر سند نہیں اگر وہ داعش کو دیکھتا تو اپنے جوتے سے مارتا
دبئی، متحدہ عرب امارات، جمہوریہ مصر کے سابق مفتی اعظم ڈاکٹر علی گوما نے کہا ہے کہ ابن تیمیہ ایک بہت ہی باشعور عالم تھے، لیکن ان کے پاس کوئی معتبر شحص نہیں تھا، اور ان میں کئی چیزیں موجود تھیں، جن میں وہ ایک تیز ذہانت اور مزاج کا حامل تھا لیکن اس نے عقیدہ کے میدان کافی غلطیاں کی ہے۔
دبئی، متحدہ عرب امارات، جمہوریہ مصر کے سابق مفتی اعظم ڈاکٹر علی جمعہ نے کہا ہے کہ ابن تیمیہ ایک بہت ہی باشعور عالم تھے، لیکن ہمارے نزدیک وہ کوئی معتبر شحص نہیں تھا، اور ان میں کئی چیزیں موجود تھیں، جن میں وہ ایک تیز ذہانت اور مزاج کا حامل تھا لیکن اس نے عقیدہ کے میدان کافی غلطیاں کی ہے۔
 
جمعہ نے سی بی سی سیٹلائٹ پر نشر ہونے والے پروگرام '''واللہ اعلم''' میں انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ابن تیمیہ عجیب و غریب باتیں لے کر آئے ہے جو لوگوں کے فہم کے خلاف ہیں، انہوں نے اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ الازہر ان کی کتابوں کا مطالعہ نہیں کرتا اور انہیں ماخذ نہیں مانتا۔
علی جمعہ نے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ ابن تیمیہ کے فتوے میں بہت سی غلطیاں شامل ہیں کہا: داعش نے ان حصوں میں سے کچھ حصہ لیا جن سے ہم متفق نہیں ہیں اور ان کی کچھ باتوں کا سہارا لیا ہے تاکہ مسلمانوں پر کفر فتوی کا جاری کیا جائے اور پھر دنیا کے ساتھ ٹکراؤ اور مسلمانوں کو قتل کرنا شروع کیا جائے کیونکہ وہ تقریب اور اتحاد کے دشمن ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر ابن تیمیہ دیکھ لیتے کہ داعش کیا کر رہی ہے تو وہ انہیں جوتے مارتا کیونکہ ان کا مذہب، دنیا یا کسی قانون سے کوئی تعلق نہیں ہے
<ref>[https://arabic.cnn.com/entertainment/2017/11/28/ali-gomaa-ibn-taymiyyah-isnt-source-alazhar شاهد.. علي جمعة: ابن تيمية ليس مصدراً للأزهر.. ولو رأى الدواعش كان "حيضربهم بالجزمة"](علی جمعہ کو مشاہدہ کرو۔۔۔ابن تمیمیہ الازہر کا معتبر ماخذ نہیں ہے اگر وہ داعش کو دیکھتا تو انہیں جوتوں سے مارتا)-arabic.cnn.com(عربی زبان)-شائع شدہ از: 28نومبر 2017ء-اخذ شدہ بہ تاریخ:22اپریل 2024ء۔</ref>۔


جمعہ نے سی بی سی سیٹلائٹ پر نشر ہونے والے پروگرام '''واللہ اعلم''' میں انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ابن تیمیہ عجیب و غریب باتیں لے کر آئے ہیں جو لوگوں کے فہم کے خلاف ہیں، انہوں نے اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ الازہر ان کی کتابوں کا مطالعہ نہیں کرتا اور انہیں ماخذ نہیں مانتا۔
علی جمعہ نے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ ابن تیمیہ کے فتوے میں بہت سی غلطیاں شامل ہیں کہا: داعش نے ان حصوں میں سے کچھ حصہ لیا جن سے ہم متفق نہیں ہیں اور ان کی کچھ باتوں کا سہارا لیا ہے تاکہ مسلمانوں پر کفر فتوی کا جاری کیا جائے اور پھر دنیا کے ساتھ ٹکراؤ اور مسلمانوں کو قتل کرنا شروع کیا جائے کیونکہ وہ تقریب اور اتحاد کے دشمن ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر ابن تیمیہ دیکھ لیتے کہ داعش کیا کر رہی ہے تو وہ انہیں جوتے مارتا کیونکہ ان کا مذہب، دنیا یا کسی قانون سے کوئی تعلق نہیں ہے<ref>[ https://arabic.cnn.com/entertainment/2017/11/28/ali-gomaa-ibn-taymiyyah-isnt-source-alazhar شاهد.. علي جمعة: ابن تيمية ليس مصدراً للأزهر.. ولو رأى الدواعش كان "حيضربهم بالجزمة"](علی جمعہ کو مشاہدہ کرو۔۔۔ابن تمیمیہ الازہر کا معتبر ماخذ نہیں ہے اگر وہ داعش کو دیکھتا تو انہیں جوتوں سے مارتا)-arabic.cnn.com(عربی زبان)-شائع شدہ از: 28نومبر 2017ء-اخذ شدہ بہ تاریخ:22اپریل 2024ء۔</ref>۔
== عہدے ==
== عہدے ==
* 28 ستمبر 2003 سے 2013 تک عرب جمہوریہ مصر کے مفتی؛  
* 28 ستمبر 2003 سے 2013 تک مصر کے مفتی؛  
* 2004 سے الازہر اسلامک ریسرچ گروپ کا رکن؛  
* 2004 سے الازہر اسلامک ریسرچ گروپ کا رکن؛  
* فیکلٹی آف اسلامک اینڈ عربی اسٹڈیز،
* فیکلٹی آف اسلامک اینڈ عربی اسٹڈیز کا سربراہ،
* الازہر یونیورسٹی میں اصول فقہ کے پروفیسر؛  
* الازہر یونیورسٹی میں اصول فقہ کے پروفیسر؛  
* ہندوستان میں اسلامی فقہ کانفرنس کے رکن؛
* ہندوستان میں اسلامی فقہ کانفرنس کے رکن؛
سطر 27: سطر 56:
* مذکورہ کالج کے کھلنے تک سلطنت عمان میں کالج آف شریعہ کے نصاب کو تیار کرنے میں حصہ لیا اور بانی رکن کی حیثیت سے افتتاح میں حصہ لیا۔
* مذکورہ کالج کے کھلنے تک سلطنت عمان میں کالج آف شریعہ کے نصاب کو تیار کرنے میں حصہ لیا اور بانی رکن کی حیثیت سے افتتاح میں حصہ لیا۔
* واشنگٹن میں یونیورسٹی آف اسلامک اینڈ سوشل سائنسز (SISS) کے نصاب کو تیار کرنے میں حصہ لیا۔
* واشنگٹن میں یونیورسٹی آف اسلامک اینڈ سوشل سائنسز (SISS) کے نصاب کو تیار کرنے میں حصہ لیا۔
* 1994 میں مراکش کے بادشاہ حسن دوم کی موجودگی میں سبق دیا اور ہر سال اس درس میں مدعو کیا جاتا ہے۔
* 1994 میں مراکش کے بادشاہ حسن دوم کی موجودگی میں درس دیا اور ہر سال اس درس میں مدعو کیا جاتا ہے۔
* مصر کی ہارورڈ یونیورسٹی کے شعبہ اورینٹل اسٹڈیز میں ایسوسی ایٹ سپروائزر مقرر ہوئے۔
* مصر کی ہارورڈ یونیورسٹی کے شعبہ اورینٹل اسٹڈیز میں ایسوسی ایٹ سپروائزر مقرر ہوئے۔
* آکسفورڈ یونیورسٹی میں اسلامی اور عربی علوم میں مشرق وسطیٰ کے لیے ایسوسی ایٹ سپروائزر مقرر کیا گیا۔
* آکسفورڈ یونیورسٹی میں اسلامی اور عربی علوم میں مشرق وسطیٰ کے لیے ایسوسی ایٹ سپروائزر مقرر کیا گیا۔
* ملائیشیا میں بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کی نمائندگی کی اور اس کے ثقافتی لیکچرز اور ان کی پروموشن کمیٹیوں میں اسسٹنٹ پروفیسرز اور اساتذہ کی تشخیص میں حصہ لیا۔
* ملائیشیا میں بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کی نمائندگی کی اور اس کے ثقافتی لیکچرز اور ان کی پروموشن کمیٹیوں میں اسسٹنٹ پروفیسرز اور اساتذہ کی تشخیص میں حصہ لیا۔
* انہیں جمعہ کا خطبہ دیا گیا اور 1998 سے اب تک سلطان حسن مسجد میں شافعی فقہ کا مطالعہ کیا۔
* انہیں جمعہ کا خطبہ دیا گیا اور 1998 سے اب تک سلطان حسن مسجد میں شافعی فقہ کا مطالعہ کیا۔
* روزانہ فجر کی نماز کے بعد جامعہ الازہر میں اسلامی اور عربی علوم میں ورثے کی کتابیں پڑھ کر تقریباً دوپہر تک پڑھاتے رہے، اس طرح آزادانہ علوم کی بنیادیں ڈالیں۔
* روزانہ فجر کی [[نماز]] کے بعد جامعہ الازہر میں اسلامی اور عربی علوم میں ورثے کی کتابیں پڑھ کر تقریباً دوپہر تک پڑھاتے رہے، اس طرح آزادانہ علوم کی بنیادیں ڈالیں۔
* دنیا بھر کی کئی یونیورسٹیوں کے لیے پروفیسر اور ایسوسی ایٹ پروفیسر کے عہدے پر ترقی کے لیے علمی پیداوار کی جانچ میں حصہ لیا۔
* دنیا بھر کی کئی یونیورسٹیوں کے لیے پروفیسر اور ایسوسی ایٹ پروفیسر کے عہدے پر ترقی کے لیے علمی پیداوار کی جانچ میں حصہ لیا۔
== علمی آثار ==
== علمی آثار ==
=== کتاب ===
=== کتاب ===
{{کالم کی فہرست|4}}
{{کالم کی فہرست|4}}
* قضية المصطلح، 1991م.
* قضيۂ المصطلح، 1991م.
* شرح تعريف القياس، 1991م.
* شرح تعريف القياس، 1991م.
* المصطلح الأصولي والتطبيق على تعريف القياس، 1993م.       
* المصطلح الأصولی والتطبيق على تعريف القياس، 1993م.       
* أثر ذهاب المحل في الحكم،1993م
* أثر ذهاب المحل في الحكم،1993م
* قضية تجديد أصول الفقه، 1993م.
* قضية تجديد أصول الفقه، 1993م.
* الحكم الشرعي عند الأصوليين، 1993م ، 2002م.
* الحكم الشرعی عند الأصوليين، 1993م ، 2002م.
* الإجماع عند الأصوليين. 1995م ، 2002م
* الإجماع عند الأصوليين. 1995م ، 2002م
* علاقة أصول الفقه بالفلسفة.1996م ، 2002م
* علاقة أصول الفقه بالفلسفة.1996م ، 2002م
* المصطلح الأصولي ومشكلة المفاهيم. 1996م ، 2004م.
* المصطلح الأصولی ومشكلة المفاهيم. 1996م ، 2004م.
* المدخل لدراسة المذاهب الفقهية الإسلامية. 1996م ، 2004م، 2010م.
* المدخل لدراسة المذاهب الفقهية الإسلامية. 1996م ، 2004م، 2010م.
* الأوامر والنواهي عند الأصوليين. 1997م.
* الأوامر والنواھی عند الأصوليين. 1997م.
* آليات الاجتهاد. 1997م ، 2004م
* آليات الاجتهاد. 1997م ، 2004م
* مدى حجية الرؤيا.1997م، 2002م ، 2004م
* مدى حجية الرؤيا.1997م، 2002م ، 2004م
سطر 53: سطر 83:
* المكاييل والموازين الشرعية. 1998م ، 2001م ، 2002م.
* المكاييل والموازين الشرعية. 1998م ، 2001م ، 2002م.
* النسخ عند الأصوليين. 1998م ، 2005م
* النسخ عند الأصوليين. 1998م ، 2005م
* بناء المفاهيم دراسة معرفية ونماذج تطبيقية (بالاشتراك).1998، 2008م.
* بناء المفاهيم دراسة معرفية ونماذج تطبيقية،1998، 2008م.
* لإمام الشافعي ومدرسته الفقهية. 2000م ، 2004م.
* لإمام الشافعی ومدرسته الفقهية. 2000م ، 2004م.
* قول الصحابي عند الأصوليين. 2001، 2004م.
* قول الصحابی عند الأصوليين. 2001، 2004م.
* شبهات وإجابات حول الجهاد في الإسلام. 2002م ، 2005م.
* شبهات وإجابات حول الجهاد فی الإسلام، 2002م ، 2005م.
* حقائق الإسلام في مواجهة شبهات المشككين (بالاشتراك). 2002م.
* حقائق الإسلام في مواجهة شبهات المشككين، 2002م.
* الإمام البخاري وصحيحه. 2002م ، 2007م
* الإمام البخاری وصحيحه. 2002م ، 2007م
* ضوابط التجديد الفقهي (محاضرة) 2003م.
* ضوابط التجديد الفقهی، 2003م.
* تعارض الأقيسة عند الأصوليين والترجيح بينها 2004.
* تعارض الأقيسة عند الأصوليين والترجيح بينها 2004.
* الدين والحياة .. فتاوى معاصرة. 2004م ، 2004م ط2، 2005 ط3، 2006م ط4.
* الدين والحياة .. فتاوى معاصرة. 2004م ، 2004م ط2، 2005 ط3، 2006م ط4.
* الطريق إلى التراث. 2004م، 2007م ط3.
* الطريق إلى التراث، 2004م، 2007م ط3.
* خصائص الثقافة العربية والإسلامية۔ 2005م.
* خصائص الثقافة العربية والإسلامية۔ 2005م.
* موسوعة الحضارة الإسلامية، 2005م
* موسوعة الحضارة الإسلامية، 2005م
* الكلم الطيب .. فتاوى عصرية. الجزء الأول. 2005م، 2006م ط2.
* الكلم الطيب .. فتاوى عصرية. الجزء الأول. 2005م، 2006م ط2.
* البيان لما يشغل الأذهان. الجزء الأول. 2005م، 2006م، 2010م۔
* البيان لما يشغل الأذهان. الجزء الأول. 2005م، 2006م، 2010م۔
* محاضرات في فقه التصوف  
* محاضرات فی  فقه [[تصوف|التصوف]]
* تيسير النهج في شرح مناسك الحج. 2006م.
* تيسير النهج في شرح مناسك الحج. 2006م.
* المرأة في الحضارة الإسلامية. 2006م.
* المرأة في الحضارة الإسلامية. 2006م.
سطر 74: سطر 104:
* الكامن في الحضارة الإسلامية. 2006م.
* الكامن في الحضارة الإسلامية. 2006م.
* المرأة بين إنصاف الإسلام وشبهات الآخر. 2006م.
* المرأة بين إنصاف الإسلام وشبهات الآخر. 2006م.
* حقيقة الإسلام وما حوله من شبهات ( كتاب مترجم إلى اللغة الإنجليزية ترجمة الأستاذ خليفة عزت أبو زيد ) (بالاشتراك) 2006م.
* حقيقة الإسلام وما حوله من شبهات،2006م.
* سبيل المبتدئين في شرح البدايات من منازل السائرين. 2007م.
* سبيل المبتدئين في شرح البدايات من منازل السائرين، 2007م.
* الكلم الطيب .. فتاوى عصرية. الجزء الثاني 2007م
* الكلم الطيب .. فتاوى عصرية. الجزء الثاني 2007م
* الفتاوى العصرية لمفتي الديار المصرية. 2007م.
* الفتاوى العصرية لمفتی الديار المصرية. 2007م.
* الإفتاء بين الفقه والواقع. 2007م.
* الإفتاء بين الفقه والواقع. 2007م.
* الوحي والقرآن الكريم. 2007م.
* الوحي والقرآن الكريم. 2007م.
سطر 86: سطر 116:
* النبراس في تفسير القرآن الكريم 2008م.
* النبراس في تفسير القرآن الكريم 2008م.
* الحج والعمرة أسرار وأحكام. 2008م.
* الحج والعمرة أسرار وأحكام. 2008م.
* خطوات الخروج من المعاصي. 2008م.
* خطوات الخروج من المعاصی. 2008م.
* الفتاوى الرمضانية. 2008م.
* الفتاوى الرمضانية. 2008م.
* مجالس الصالحين الرمضانية. 2008م.
* مجالس الصالحين الرمضانية. 2008م.
سطر 92: سطر 122:
* التجربة المصرية. 2008م.
* التجربة المصرية. 2008م.
* صناعة الإفتاء. 2008م.
* صناعة الإفتاء. 2008م.
* قضايا المرأة في الفقه الإسلامي. 2008م.
* قضايا المرأة في الفقه الإسلامی، 2008م.
* النقاب عادة وليس عبادة، الرأي الشرعي في النقاب بأقلام كبار العلماء، كتيب صادر عن وزارة الأوقاف (بالاشتراك) (2008).
* النقاب عادة وليس عبادة، الرأي الشرعی في النقاب بأقلام كبار العلماء، (2008).
* البيان لما يشغل الأذهان. الجزء الثاني. 2009م.
* البيان لما يشغل الأذهان، 2009م.
* فتاوى البيت المسلم. 2009م.
* فتاوى البيت المسلم. 2009م.
* البيئة والحفاظ عليها من منظور إسلامي (ترجم إلى الإنجليزية والفرنسية). 2009م.
* البيئة والحفاظ عليها من منظور إسلامی، 2009م.
* فتاوى النساء. 2010م.
* فتاوى النساء. 2010م.
* من نبيك! هو سيدنا محمد المصطفى صلى الله عليه وسلم. 2010م.
* من نبيك! هو سيدنا محمد المصطفى صلى الله عليه وسلم. 2010م.
* حاكموا الحب! 2010م.
* حاكموا الحب! 2010م.
* المنهجية الإسلامية (بالاشتراك) 2010
* المنهجية الإسلامية (بالاشتراك) 2010
* إعداد برنامج التربية الأخلاقية في السنة النبوية 2010م (وترجم إلى الإنجليزية)
* إعداد برنامج التربية الأخلاقية في السنة النبوية 2010م۔
* فتاوى المرأة المسلمة 2010
* فتاوى المرأة المسلمة 2010
* أعرف نبيك المصطفى صلى الله عليه وسلم 2011
* أعرف نبيك المصطفى صلى الله عليه وسلم، 2011۔
* المتشددون 2011.
* المتشددون 2011.
* ترتيب مقاصد الشريعة الإسلامية 2011.
* ترتيب مقاصد الشريعة الإسلامية 2011.
* عقيدة [[اہل السنۃ والجماعت|أهل السنة والجماعة]] 2011.
* عقيدة [[اہل السنۃ والجماعت|أهل السنة والجماعة]] 2011.
* النماذج الأربعة من هدي النبي في التعايش مع الآخر(2013)
* النماذج الأربعة من هدي النبي في التعايش مع الآخر(2013) <ref>[https://www.draligomaa.com/index.php/%D8%AD%D9%88%D9%84/%D9%82%D8%A7%D8%A6%D9%85%D8%A9-%D9%85%D8%A4%D9%84%D9%81%D8%A7%D8%AA-%D8%A3%D8%AF-%D8%B9%D9%84%D9%8A-%D8%AC%D9%85%D8%B9%D8%A9 قائمة مؤلفات أ.د علي جمعة](ڈاکٹر علی جمعہ کی کتابوں کی فہرست)-draligomaa.com(عربی زبان)-شائ‏ع شدہ از:19دسمبر 2014ء-اخذ شدہ بہ تاریخ:23اپریل 2024ء۔</ref>۔
{{اختتام}}
{{اختتام}}


سطر 115: سطر 145:
* الرقابة الشرعية مشكلاتها وطرق تطويرها۔
* الرقابة الشرعية مشكلاتها وطرق تطويرها۔
* الزكاة  
* الزكاة  
* حقوق الإنسان من خلال حقوق الأكوان في الإسلام۔
* حقوق الإنسان من خلال حقوق الأكوان فی الإسلام۔
* النموذج المعرفي الإسلامي۔
* النموذج المعرفی الإسلامی۔
* الإمام محمد عبده مفتيا.
* الإمام محمد عبده مفتيا.
* التسامح الإسلامي.
* التسامح الإسلامی.
* الإسلام بين أعدائه وأدعيائه.
* الإسلام بين أعدائه وأدعيائه.
* الإسلام يتفق ولا يصطدم ومبادئ السلام والعدل الدوليين.
* الإسلام يتفق ولا يصطدم ومبادئ السلام والعدل الدوليين.
* النفس ومراتبها.
* النفس ومراتبها.
* اقتراح عقد تمويل من خلال تكييف العملة الورقية كالفلوس في الفقه الإسلامي.
* اقتراح عقد تمويل من خلال تكييف العملة الورقية كالفلوس في الفقه الإسلامی.
* ضوابط التجديد الفقهي.
* ضوابط التجديد الفقهی.
* الإفتاء حقيقته - وآدابه – ومراحله
* الإفتاء حقيقته - وآدابه – ومراحله
* النقاب عادة وليس عبادة
* النقاب عادة وليس عبادة
* ختان الإناث
* ختان الإناث
{{اختتام}}
{{اختتام}}
=== کتابوں کی تحقیق اور جائزہ ===
* ریاض الصالحین، امام النووی، دار الکتاب اللبانی(تحقیق و تفسیر) 1991ء۔
* مجمل، المبین، النسخ، سنت اور الاجماع، ڈاکٹر عبداللہ ربیع کی طرف سے شائع کردہ دارا النہار (پیشکش اور جائزہ)۔
* قانون سازی کا موازنہ: دیوانی اور فوجداری قانون کا اطلاق امام مالک کے نظریے پر، مخلوف بن محمد البداوی المناوی (دو جلدیں دارالسلام نے جاری کیا) (مطالعہ اور تحقیقات مشترکہ طور پر)
* حج و عمرہ، احکام و دعائیں از عصام انس، جاری کردہ دارالسلام (جائزہ شدہ)۔
* ابن نجیم کے معاشی مقالے، جسے حنفی مکتبہ فکر (مطالعہ اور تحقیقات مشترکہ) میں 1999ء۔
* الفارق از القرافی، شائع شدہ دارالسلام (4 جلدیں) (مطالعہ اور تحقیقات مشترکہ) 2001ء۔
* الاموال از ابو جعفر احمد بن نصر الداؤدی (دارالسلام) (مطالعہ اور تحقیقات مشترکہ) 2001ء۔
* شرح الدرر السنية في نظم السيرة النبوية، از الاجوری از علی بن محمد الاجوری المالکی، سپریم کونسل برائے اسلامی امور کی طرف سے جاری کردہ (2 حصے) (جائزہ) 2001-2009ء۔
* ينابيع الأحكام في معرفة الحلال والحرام، از ابو عبداللہ محمد بن زنکی الاصفرینی (سپریم کونسل برائے اسلامی امور کی طرف سے جاری کردہ) (تین حصے) 2001-2010 عیسوی۔
* اصولیین کے مطابق استدلال، از ڈاکٹر اسد الکفراوی (پیش کردہ اور زیر نگرانی) 2002 AD۔
* جامع المناسک، حج و عمرہ کے احکام، از عصام انس، شائع شدہ از زاد اکنامک گروپ (نگرانی اور جائزہ)، 2003ء۔
* جامع المناسك شرح حجة النبي صلى الله عليه وسلم،عصام انس، شائع شدہ از زاد اکنامک گروپ (نگرانی اور جائزہ)، 2003ء۔
* لسر الحقي الامتناني الواصل إلى ذاكر الراتب الكتاني، از عبد الحی بن عبد الکبیر الکطانی، 2003ء۔
* تیرہویں اور چودھویں صدی ہجری میں الازہر الشریف میں شرعی نصاب کی تاریخ بذریعہ پروفیسر عصام انس (نگرانی)
* بیان المختصر، جو ابن الحجیب کے اصول فقہ (مطالعہ اور تحقیقات) کے خلاصہ کی وضاحت ہے، 2004ء۔
* امام محمد عبدہ کے فتاویٰ، (تیار شدہ اور تصدیق شدہ) 2005ء۔
* اسلامی تجربے میں علماء کا سیاسی کام، پروفیسر حنا عبدالرحمٰن البیدانی، مصری نہدہ لائبریری (نگرانی) نے 2005ء میں شائع کیا۔
* محمد قادری پاشا (4 جلدیں، دارالسلام) (مطالعہ اور تحقیقات مشترکہ) 2005ء۔
* قرآن پاک میں قوموں اور افراد کے بارے میں الہی قوانین، اصول اور کنٹرول، ڈاکٹر مجدی اشور کی طرف سے، دارالسلام، 2006ء۔
* يوسف عليه السلام بين القرآن الكريم وكتب السابقين، لائبریری آف فیتھ (ان کے سامنے پیش کردہ) 2006ء میں شائع ہوئی۔
* لكتاب الذهبي الفتوى الكبرى للفقهاء العالمين الأزهر- قاہرہ (ان کی طرف سے پیش کردہ) 2006ء۔
=== تحقیقاتی امور کی نگرانی ===
* کمپیوٹر میں سنت کی کتابیں داخل کرنا، بازیافت کے پروگرام بنانا، اور اسلامک تھیسورس سوسائٹی کی سات کتابوں کو چھاپنا (19 جلدوں میں)۔
* اسلامک اکنامکس پروجیکٹ (38 حصے)، قاہرہ میں انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک تھاٹ نے چھاپا۔
* بین الاقوامی تعلقات پروجیکٹ (12 حصے) ایک ہی پبلشر۔
* اسلامی بینکوں کی کارکردگی کو جانچنے کے لیے معیارات کی تیاری۔ وہی پبلشر۔
* اسلامک اکنامک ہیریٹیج پروجیکٹ (125 جلدیں)، مرکز برائے فقہی مطالعات۔
* اسلامک اکنامکس تھیسورس کی تیاری۔
*  ویتی وزارت اوقاف 2004 کے جنرل سیکرٹریٹ کے جاری کردہ تھیسورس آف اینڈومنٹ سائنسز کے ذریعہ تیار کیا گیا ہے۔
* صالح عبداللہ کامل سینٹر میں اسلامی معاشیات کے تعارف کی تیاری۔
* الراجحی بینکنگ کمپنی کے فتووں کے مطالعہ (3 جلدوں) کی تیاری میں شرکت۔
* فقہی اصطلاحات کی لغت کی تیاری کی نگرانی، 2003۔
=== علمی جرائد اور مقالوں کی تدوین میں شرکت ===
{{کالم کی فہرست|3}}
* جرنل آف اسلامک اکنامکس، صالح کامل سنٹر
* جامعہ الازہر کی طرف سے جاری کردہ ایسوسی ایشن آف عرب یونیورسٹیز (شریعہ) کا جریدہ۔
* معاصر مسلم میگزین۔
* تجدید رسالہ۔
* اسلامی علمی رسالہ۔
* کالج آف اسلامک اینڈ عرب اسٹڈیز کا جریدہ۔
* دار الافتاء خصوصی سہ ماہی رسالہ۔
* انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک تھاٹ کے جاری کردہ یونیورسٹی کے مقالوں کی سیریز۔
* اسلامی معاشیات میں مطالعہ کا سلسلہ
* بین الاقوامی تعلقات پروجیکٹ سیریز
* اسلامی طریقہ کار کا سلسلہ
* علمی- تحقیقی سلسلہ
* ورثہ کی سہولت کا سلسلہ
* اسلامی فکر کے مسائل پر سلسلہ
* تصورات اور اصطلاحات کا سلسلہ
* اسلامی فکر کے مسائل پر سلسلہ
{{اختتام}}
== حوالہ جات ==
{{حوالہ جات}}
[[زمرہ:شخصیات]]
[[زمرہ:مصر]]
[[زمرہ:مناديان وحدت]]

حالیہ نسخہ بمطابق 21:26، 24 اپريل 2024ء

علی جمعہ
علی جمعہ.jpg
ذاتی معلومات
پیدائش1953 ء، 1331 ش، 1372 ق
پیدائش کی جگہمصر
وفات2017 ء، 1395 ش، 1437 ق
یوم وفات3مارچ
اساتذہ
  • عبدالله بن صدق غمارى
  • عبدالفتاح ابوغده
  • احمد مرسى
  • عبدالعزیز غمارى
مذہباسلام، سنی
اثرات
  • النبي صلى الله عليه وسلم
  • النبراس في تفسير القرآن الكريم
  • الحج والعمرة أسرار وأحكام
مناصب
  • مصر کے مفتی
  • الازہر یونیورسٹی میں اصول فقہ کے پروفیسر
  • ہندوستان میں اسلامی فقہ کانفرنس کے رکن
ویب سائٹhttps://www.draligomaa.com

علی جمعہ، اسلامی اسکالر، فقیہ، عالم اور مصر کے سابق مفتی ہیں۔۔ انہوں نے 2003ء سے 2013ء مصر کے اٹھارویں مفتیِ اعظم کے طور پر خدمات انجام دیں۔ انہیں 2008ء میں "یو ایس نیوز اینڈ ورلڈ رپورٹ" اور "دی نیشنل" کے مطابق بین الاقوامی سطح پر سب سے زیادہ قابل احترام اسلامی فقہا میں سے ایک قرار دیا گیا اور دی نیویارک کے مطابق ایک انتہائی جدید اعتدال پسند مسلمان راہنما، منصف، شدت پسندوں کے لیے نفرت کی علامت اور اتحاد کے علمبردار قرار دیا گیا۔

سوانح عمری اور تعلیم

علی جمعہ 3 مارچ 1952 کو صوبہ بنی سیف میں پیدا ہوئے، انہوں نے 1969ء میں ہائی اسکول سے گریجویشن کیا، اور اس کے بعد قاہرہ کی عین شمس یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور 1973 میں بیچلر آف کامرس کی ڈگری حاصل کی۔ اپنی تعلیم کے دوران انہوں نے قرآن حفظ کیا اور فقہ شافعی کی تعلیم حاصل کی۔ آپ اسلامی تعلیمات میں گہری دلچسپی رکھتے تھے جبکہ یونیورسٹی میں اپنے فارغ وقت میں حدیث اور فقہ شافعی کا مطالعہ کرتے تھے۔

1973ء میں جامعہ عین شمس سے بی کام پاس کرنے کے بعد انہوں نے دنیا میں اعلیٰ اسلامی تعلیم کے قدیم ترین فعال اسلامی ادارے جامعہ الازہر، قاہرہ میں داخلہ لے لیا اور وہاں سے انہوں نے اسلامی علوم میں بی اے کی دوسری ڈگری حاصل کی، پھر ایم اے اور آخر کار 1988ء اصول الفقہ میں پی ایچ ڈی کی۔ تب تک علی جمعہ نے جامعہ الازہر کے ہائی اسکول کا نصاب نہیں پڑھا تھا پھر ان بنیادی متون کو حفظ کرنے کے لیے انہوں نے خود سے وہ نصاب پڑھایا جس کو دیگر طلبہ وہاں پہلے سالوں میں پڑھتے تھے [1]۔

تدریس

انہوں نے ایم پاس کرنے کے بعد جامعہ الازہر میں اسلامی اور عربی علوم کی فیکلٹی میں پہلے ایک اسسٹنٹ پروفیسر، پھر ایک مکمل پروفیسر کے طور پر تدریس کی۔ جب آپ مفتی اعظم مقرر ہو گئے تو علی جمعہ عقائد، تفسیر، حدیث، فقہ اور اسلامی تاریخ کے استاد ہونے کے ساتھ ایک صوفی کے طور پر ان کی عزت و تکریم کی جاتی ہے۔

اتحاد المسلمین کے بارے میں ان کا نظریہ

انہوں نے اسلامی صفوں کے اتحاد کی دعوت دینے اور اسلامی مکاتب فکر کو ایک دوسرے کے قریب لانے میں بڑا کردار ادا کیا ہے۔ آپ تاریخ، سیرت اور فقہ کے مطالعہ کو اتحاد بین المسلمین اور تقریب کے مضبوط بنیادیں ہونے کا قا‏ئل ہیں۔ ان کے بہت سارے نظریات ہیں جن میں سے بعض سے ہم اختلاف اور بعض سے اتفاق بھی کر سکتے ہیں، لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ ان علماء میں سے ہیں جنہوں نے امت مسلمہ کے اتحاد اور اتفاق کے مسئلے کو سب سے زیادہ گہرائی کے ساتھ اور اس مسئلہ کو بہت زیادہ اہمیت دی۔

اتحاد اور تقریب مذاہب اسلامی کے بہت سے مسائل پر ان کی آراء ہمارے نظریات سے ہم آہنگ اور متفق ہیں کہ جیسے غزہ پر حملے کے بارے میں ان کا مؤقف، نیز تہذیبوں کے آپس ڈائیلاگ اور گقتگو۔ جب ان سے اہل سنت اور شیعوں کے درمیان تعلقات کے بارے میں سوال کیا گیا کہ شیعہ اور سنیوں کے درمیاں اتحاد کو کیسے دیکھتے ہیں تو ڈاکٹر علی جمعہ نے کہا: بہت سارے عوامل ایسے ہیں جن کے ذریعے سنیوں اور شیعوں کو ایک دوسرے سے قریب لاتے سکتے ہیں اور ان کے درمیان اتحاد قائم کرسکتے ہیں۔ اور ان کے درمیان متنازعہ مسائل بہت کم ہیں، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں جماعتوں کے درمیان علماء کی سطح پر بات چیت کبھی نہیں رکی، اور یہ زیادہ تر معاملات میں کھلے دل اور نیک نیتی کے ساتھ انتظام کیا جاتا ہے۔ جمعہ نے اسلامی میدان کو کمزور کرنے کے لیے متعدد عالمی کوششوں کے وجود کی تصدیق کی، ایک عملی میکانزم کو اپنانے کی ضرورت پر زور دیا جسے علماء اور بزرگان دین استعمال کرے اور کام کرے تاکہ اتحاد کی کوششوں اور باہمی رابط کے مسائل کو عملی میدان میں تبدیل کیا جا سکے [2]۔

ابن تیمیہ الازہر کے ہاں کوئی معتبر سند نہیں اگر وہ داعش کو دیکھتا تو اپنے جوتے سے مارتا دبئی، متحدہ عرب امارات، جمہوریہ مصر کے سابق مفتی اعظم ڈاکٹر علی جمعہ نے کہا ہے کہ ابن تیمیہ ایک بہت ہی باشعور عالم تھے، لیکن ہمارے نزدیک وہ کوئی معتبر شحص نہیں تھا، اور ان میں کئی چیزیں موجود تھیں، جن میں وہ ایک تیز ذہانت اور مزاج کا حامل تھا لیکن اس نے عقیدہ کے میدان کافی غلطیاں کی ہے۔

جمعہ نے سی بی سی سیٹلائٹ پر نشر ہونے والے پروگرام واللہ اعلم میں انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ابن تیمیہ عجیب و غریب باتیں لے کر آئے ہے جو لوگوں کے فہم کے خلاف ہیں، انہوں نے اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ الازہر ان کی کتابوں کا مطالعہ نہیں کرتا اور انہیں ماخذ نہیں مانتا۔ علی جمعہ نے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ ابن تیمیہ کے فتوے میں بہت سی غلطیاں شامل ہیں کہا: داعش نے ان حصوں میں سے کچھ حصہ لیا جن سے ہم متفق نہیں ہیں اور ان کی کچھ باتوں کا سہارا لیا ہے تاکہ مسلمانوں پر کفر فتوی کا جاری کیا جائے اور پھر دنیا کے ساتھ ٹکراؤ اور مسلمانوں کو قتل کرنا شروع کیا جائے کیونکہ وہ تقریب اور اتحاد کے دشمن ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر ابن تیمیہ دیکھ لیتے کہ داعش کیا کر رہی ہے تو وہ انہیں جوتے مارتا کیونکہ ان کا مذہب، دنیا یا کسی قانون سے کوئی تعلق نہیں ہے [3]۔

عہدے

  • 28 ستمبر 2003 سے 2013 تک مصر کے مفتی؛
  • 2004 سے الازہر اسلامک ریسرچ گروپ کا رکن؛
  • فیکلٹی آف اسلامک اینڈ عربی اسٹڈیز کا سربراہ،
  • الازہر یونیورسٹی میں اصول فقہ کے پروفیسر؛
  • ہندوستان میں اسلامی فقہ کانفرنس کے رکن؛
  • الازہر سینئر علماء کونسل کے رکن؛
  • جدہ میں اسلامی عالمی کانفرنس آرگنائزیشن کی فقہ اکیڈمی کے رکن؛
  • 1995 سے 1997 تک الازہر فتویٰ کمیٹی کے رکن رہے [4]۔

تعلیمی سرگرمیاں

  • اکیڈمی کی طرف سے جاری کردہ بنیادی اصطلاحات کے انسائیکلوپیڈیا کی تیاری میں عربی زبان اکیڈمی میں ماہر کی حیثیت سے حصہ لیا۔
  • مذکورہ کالج کے کھلنے تک سلطنت عمان میں کالج آف شریعہ کے نصاب کو تیار کرنے میں حصہ لیا اور بانی رکن کی حیثیت سے افتتاح میں حصہ لیا۔
  • واشنگٹن میں یونیورسٹی آف اسلامک اینڈ سوشل سائنسز (SISS) کے نصاب کو تیار کرنے میں حصہ لیا۔
  • 1994 میں مراکش کے بادشاہ حسن دوم کی موجودگی میں درس دیا اور ہر سال اس درس میں مدعو کیا جاتا ہے۔
  • مصر کی ہارورڈ یونیورسٹی کے شعبہ اورینٹل اسٹڈیز میں ایسوسی ایٹ سپروائزر مقرر ہوئے۔
  • آکسفورڈ یونیورسٹی میں اسلامی اور عربی علوم میں مشرق وسطیٰ کے لیے ایسوسی ایٹ سپروائزر مقرر کیا گیا۔
  • ملائیشیا میں بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کی نمائندگی کی اور اس کے ثقافتی لیکچرز اور ان کی پروموشن کمیٹیوں میں اسسٹنٹ پروفیسرز اور اساتذہ کی تشخیص میں حصہ لیا۔
  • انہیں جمعہ کا خطبہ دیا گیا اور 1998 سے اب تک سلطان حسن مسجد میں شافعی فقہ کا مطالعہ کیا۔
  • روزانہ فجر کی نماز کے بعد جامعہ الازہر میں اسلامی اور عربی علوم میں ورثے کی کتابیں پڑھ کر تقریباً دوپہر تک پڑھاتے رہے، اس طرح آزادانہ علوم کی بنیادیں ڈالیں۔
  • دنیا بھر کی کئی یونیورسٹیوں کے لیے پروفیسر اور ایسوسی ایٹ پروفیسر کے عہدے پر ترقی کے لیے علمی پیداوار کی جانچ میں حصہ لیا۔

علمی آثار

کتاب

  • قضيۂ المصطلح، 1991م.
  • شرح تعريف القياس، 1991م.
  • المصطلح الأصولی والتطبيق على تعريف القياس، 1993م.
  • أثر ذهاب المحل في الحكم،1993م
  • قضية تجديد أصول الفقه، 1993م.
  • الحكم الشرعی عند الأصوليين، 1993م ، 2002م.
  • الإجماع عند الأصوليين. 1995م ، 2002م
  • علاقة أصول الفقه بالفلسفة.1996م ، 2002م
  • المصطلح الأصولی ومشكلة المفاهيم. 1996م ، 2004م.
  • المدخل لدراسة المذاهب الفقهية الإسلامية. 1996م ، 2004م، 2010م.
  • الأوامر والنواھی عند الأصوليين. 1997م.
  • آليات الاجتهاد. 1997م ، 2004م
  • مدى حجية الرؤيا.1997م، 2002م ، 2004م
  • القياس عند الأصوليين. 1997م ، 2006م.
  • المكاييل والموازين الشرعية. 1998م ، 2001م ، 2002م.
  • النسخ عند الأصوليين. 1998م ، 2005م
  • بناء المفاهيم دراسة معرفية ونماذج تطبيقية،1998، 2008م.
  • لإمام الشافعی ومدرسته الفقهية. 2000م ، 2004م.
  • قول الصحابی عند الأصوليين. 2001، 2004م.
  • شبهات وإجابات حول الجهاد فی الإسلام، 2002م ، 2005م.
  • حقائق الإسلام في مواجهة شبهات المشككين، 2002م.
  • الإمام البخاری وصحيحه. 2002م ، 2007م
  • ضوابط التجديد الفقهی، 2003م.
  • تعارض الأقيسة عند الأصوليين والترجيح بينها 2004.
  • الدين والحياة .. فتاوى معاصرة. 2004م ، 2004م ط2، 2005 ط3، 2006م ط4.
  • الطريق إلى التراث، 2004م، 2007م ط3.
  • خصائص الثقافة العربية والإسلامية۔ 2005م.
  • موسوعة الحضارة الإسلامية، 2005م
  • الكلم الطيب .. فتاوى عصرية. الجزء الأول. 2005م، 2006م ط2.
  • البيان لما يشغل الأذهان. الجزء الأول. 2005م، 2006م، 2010م۔
  • محاضرات فی فقه التصوف
  • تيسير النهج في شرح مناسك الحج. 2006م.
  • المرأة في الحضارة الإسلامية. 2006م.
  • سمات العصر .. رؤية مهتم. 2006م.
  • سيدنا محمد رسول الله للعالمين. 2006م.
  • الكامن في الحضارة الإسلامية. 2006م.
  • المرأة بين إنصاف الإسلام وشبهات الآخر. 2006م.
  • حقيقة الإسلام وما حوله من شبهات،2006م.
  • سبيل المبتدئين في شرح البدايات من منازل السائرين، 2007م.
  • الكلم الطيب .. فتاوى عصرية. الجزء الثاني 2007م
  • الفتاوى العصرية لمفتی الديار المصرية. 2007م.
  • الإفتاء بين الفقه والواقع. 2007م.
  • الوحي والقرآن الكريم. 2007م.
  • التربية والسلوك. 2007م.
  • الطريق إلى الله. 2007م.
  • ختان الإناث ليس من شعائر الإسلام،(2007).
  • النبي صلى الله عليه وسلم. 2007م.
  • النبراس في تفسير القرآن الكريم 2008م.
  • الحج والعمرة أسرار وأحكام. 2008م.
  • خطوات الخروج من المعاصی. 2008م.
  • الفتاوى الرمضانية. 2008م.
  • مجالس الصالحين الرمضانية. 2008م.
  • الدعاء والذكر. 2008م.
  • التجربة المصرية. 2008م.
  • صناعة الإفتاء. 2008م.
  • قضايا المرأة في الفقه الإسلامی، 2008م.
  • النقاب عادة وليس عبادة، الرأي الشرعی في النقاب بأقلام كبار العلماء، (2008).
  • البيان لما يشغل الأذهان، 2009م.
  • فتاوى البيت المسلم. 2009م.
  • البيئة والحفاظ عليها من منظور إسلامی، 2009م.
  • فتاوى النساء. 2010م.
  • من نبيك! هو سيدنا محمد المصطفى صلى الله عليه وسلم. 2010م.
  • حاكموا الحب! 2010م.
  • المنهجية الإسلامية (بالاشتراك) 2010
  • إعداد برنامج التربية الأخلاقية في السنة النبوية 2010م۔
  • فتاوى المرأة المسلمة 2010
  • أعرف نبيك المصطفى صلى الله عليه وسلم، 2011۔
  • المتشددون 2011.
  • ترتيب مقاصد الشريعة الإسلامية 2011.
  • عقيدة أهل السنة والجماعة 2011.
  • النماذج الأربعة من هدي النبي في التعايش مع الآخر(2013) [5]۔

مقالات

  • الوقف فقها وواقعا.
  • الرقابة الشرعية مشكلاتها وطرق تطويرها۔
  • الزكاة
  • حقوق الإنسان من خلال حقوق الأكوان فی الإسلام۔
  • النموذج المعرفی الإسلامی۔
  • الإمام محمد عبده مفتيا.
  • التسامح الإسلامی.
  • الإسلام بين أعدائه وأدعيائه.
  • الإسلام يتفق ولا يصطدم ومبادئ السلام والعدل الدوليين.
  • النفس ومراتبها.
  • اقتراح عقد تمويل من خلال تكييف العملة الورقية كالفلوس في الفقه الإسلامی.
  • ضوابط التجديد الفقهی.
  • الإفتاء حقيقته - وآدابه – ومراحله
  • النقاب عادة وليس عبادة
  • ختان الإناث

کتابوں کی تحقیق اور جائزہ

  • ریاض الصالحین، امام النووی، دار الکتاب اللبانی(تحقیق و تفسیر) 1991ء۔
  • مجمل، المبین، النسخ، سنت اور الاجماع، ڈاکٹر عبداللہ ربیع کی طرف سے شائع کردہ دارا النہار (پیشکش اور جائزہ)۔
  • قانون سازی کا موازنہ: دیوانی اور فوجداری قانون کا اطلاق امام مالک کے نظریے پر، مخلوف بن محمد البداوی المناوی (دو جلدیں دارالسلام نے جاری کیا) (مطالعہ اور تحقیقات مشترکہ طور پر)
  • حج و عمرہ، احکام و دعائیں از عصام انس، جاری کردہ دارالسلام (جائزہ شدہ)۔
  • ابن نجیم کے معاشی مقالے، جسے حنفی مکتبہ فکر (مطالعہ اور تحقیقات مشترکہ) میں 1999ء۔
  • الفارق از القرافی، شائع شدہ دارالسلام (4 جلدیں) (مطالعہ اور تحقیقات مشترکہ) 2001ء۔
  • الاموال از ابو جعفر احمد بن نصر الداؤدی (دارالسلام) (مطالعہ اور تحقیقات مشترکہ) 2001ء۔
  • شرح الدرر السنية في نظم السيرة النبوية، از الاجوری از علی بن محمد الاجوری المالکی، سپریم کونسل برائے اسلامی امور کی طرف سے جاری کردہ (2 حصے) (جائزہ) 2001-2009ء۔
  • ينابيع الأحكام في معرفة الحلال والحرام، از ابو عبداللہ محمد بن زنکی الاصفرینی (سپریم کونسل برائے اسلامی امور کی طرف سے جاری کردہ) (تین حصے) 2001-2010 عیسوی۔
  • اصولیین کے مطابق استدلال، از ڈاکٹر اسد الکفراوی (پیش کردہ اور زیر نگرانی) 2002 AD۔
  • جامع المناسک، حج و عمرہ کے احکام، از عصام انس، شائع شدہ از زاد اکنامک گروپ (نگرانی اور جائزہ)، 2003ء۔
  • جامع المناسك شرح حجة النبي صلى الله عليه وسلم،عصام انس، شائع شدہ از زاد اکنامک گروپ (نگرانی اور جائزہ)، 2003ء۔
  • لسر الحقي الامتناني الواصل إلى ذاكر الراتب الكتاني، از عبد الحی بن عبد الکبیر الکطانی، 2003ء۔
  • تیرہویں اور چودھویں صدی ہجری میں الازہر الشریف میں شرعی نصاب کی تاریخ بذریعہ پروفیسر عصام انس (نگرانی)
  • بیان المختصر، جو ابن الحجیب کے اصول فقہ (مطالعہ اور تحقیقات) کے خلاصہ کی وضاحت ہے، 2004ء۔
  • امام محمد عبدہ کے فتاویٰ، (تیار شدہ اور تصدیق شدہ) 2005ء۔
  • اسلامی تجربے میں علماء کا سیاسی کام، پروفیسر حنا عبدالرحمٰن البیدانی، مصری نہدہ لائبریری (نگرانی) نے 2005ء میں شائع کیا۔
  • محمد قادری پاشا (4 جلدیں، دارالسلام) (مطالعہ اور تحقیقات مشترکہ) 2005ء۔
  • قرآن پاک میں قوموں اور افراد کے بارے میں الہی قوانین، اصول اور کنٹرول، ڈاکٹر مجدی اشور کی طرف سے، دارالسلام، 2006ء۔
  • يوسف عليه السلام بين القرآن الكريم وكتب السابقين، لائبریری آف فیتھ (ان کے سامنے پیش کردہ) 2006ء میں شائع ہوئی۔
  • لكتاب الذهبي الفتوى الكبرى للفقهاء العالمين الأزهر- قاہرہ (ان کی طرف سے پیش کردہ) 2006ء۔

تحقیقاتی امور کی نگرانی

  • کمپیوٹر میں سنت کی کتابیں داخل کرنا، بازیافت کے پروگرام بنانا، اور اسلامک تھیسورس سوسائٹی کی سات کتابوں کو چھاپنا (19 جلدوں میں)۔
  • اسلامک اکنامکس پروجیکٹ (38 حصے)، قاہرہ میں انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک تھاٹ نے چھاپا۔
  • بین الاقوامی تعلقات پروجیکٹ (12 حصے) ایک ہی پبلشر۔
  • اسلامی بینکوں کی کارکردگی کو جانچنے کے لیے معیارات کی تیاری۔ وہی پبلشر۔
  • اسلامک اکنامک ہیریٹیج پروجیکٹ (125 جلدیں)، مرکز برائے فقہی مطالعات۔
  • اسلامک اکنامکس تھیسورس کی تیاری۔
  • ویتی وزارت اوقاف 2004 کے جنرل سیکرٹریٹ کے جاری کردہ تھیسورس آف اینڈومنٹ سائنسز کے ذریعہ تیار کیا گیا ہے۔
  • صالح عبداللہ کامل سینٹر میں اسلامی معاشیات کے تعارف کی تیاری۔
  • الراجحی بینکنگ کمپنی کے فتووں کے مطالعہ (3 جلدوں) کی تیاری میں شرکت۔
  • فقہی اصطلاحات کی لغت کی تیاری کی نگرانی، 2003۔

علمی جرائد اور مقالوں کی تدوین میں شرکت

  • جرنل آف اسلامک اکنامکس، صالح کامل سنٹر
  • جامعہ الازہر کی طرف سے جاری کردہ ایسوسی ایشن آف عرب یونیورسٹیز (شریعہ) کا جریدہ۔
  • معاصر مسلم میگزین۔
  • تجدید رسالہ۔
  • اسلامی علمی رسالہ۔
  • کالج آف اسلامک اینڈ عرب اسٹڈیز کا جریدہ۔
  • دار الافتاء خصوصی سہ ماہی رسالہ۔
  • انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک تھاٹ کے جاری کردہ یونیورسٹی کے مقالوں کی سیریز۔
  • اسلامی معاشیات میں مطالعہ کا سلسلہ
  • بین الاقوامی تعلقات پروجیکٹ سیریز
  • اسلامی طریقہ کار کا سلسلہ
  • علمی- تحقیقی سلسلہ
  • ورثہ کی سہولت کا سلسلہ
  • اسلامی فکر کے مسائل پر سلسلہ
  • تصورات اور اصطلاحات کا سلسلہ
  • اسلامی فکر کے مسائل پر سلسلہ

حوالہ جات

  1. فضيلة الأستاذ الدكتور علي جمعة(جناب ڈاکٹر علی جمعہ)-ifta-learning.net(عربی زبان)-اخذ شدہ بہ تاریخ:22اپریل 2024ء۔
  2. ما یجمعنا الکثیر، والحوار والتواصل لم یتوقفا قط (الحوار) (اتحاد کے راہیں بہت ہیں اور گفتگو اور مذاکرے کبھی نہیں رکے)-sid.ir(عربی زبان)-اخذ شدہ بہ تاریخ:23اپریل 2024ء۔
  3. شاهد.. علي جمعة: ابن تيمية ليس مصدراً للأزهر.. ولو رأى الدواعش كان "حيضربهم بالجزمة"(علی جمعہ کو مشاہدہ کرو۔۔۔ابن تمیمیہ الازہر کا معتبر ماخذ نہیں ہے اگر وہ داعش کو دیکھتا تو انہیں جوتوں سے مارتا)-arabic.cnn.com(عربی زبان)-شائع شدہ از: 28نومبر 2017ء-اخذ شدہ بہ تاریخ:22اپریل 2024ء۔
  4. السيرة الذاتية(یعنی سوانح عمری)-draligomaa.com(عربی زبان)-شا‏ئع شدہ از:4جنوری2014ء-اخذ شدہ بہ تاریخ 22اپریل 2024ء۔
  5. قائمة مؤلفات أ.د علي جمعة(ڈاکٹر علی جمعہ کی کتابوں کی فہرست)-draligomaa.com(عربی زبان)-شائ‏ع شدہ از:19دسمبر 2014ء-اخذ شدہ بہ تاریخ:23اپریل 2024ء۔